بجھا دے آتشِ فرقت نکالے خار غم دل سے
بجھا دے آتشِ فرقت نکالے خار غم دل سے
نہ آبِ تیغ ایسا ہے نہ نوکِ تیر ایسی ہے
حصارِ توبہ پر نازاں نہ ہو اے زاہد کم بیں
کہ دو بوندوں میں گرجائے گی یہ تعمیر ایسی ہے
ترے جلوے سے ہر اک ذرۂ عالم منور ہے
تصور کی نہیں محتاج یہ تصویر ایسی ہے
تمہیں چاہا خطا کی، خیر جو چاہو سزا دے لو
سزاؤں سے بڑھے گی اور یہ تقصیر ایسی ہے
پڑی جس پر نگاہِ لطف تیری ہوگیا بسمل
کبھی اوچھی نہیں پڑتی ہے یہ شمشیر ایسی ہے
اڑا لیتا ہے دل پہلو سے جس کا ایک نظارہ
وہ کیا ہوگا بھلا جس شخص کی تصویر ایسی ہے
کشش بیمار الفت کی سر بالیں تمہیں لائی
اس آہ ناتواں میں بھی ابھی تاثیر ایسی ہے
مٹا دیتے ہیں برسوں کے گلے اک آنِ واحد میں
ترے انداز ایسے ہیں تری تقریر ایسی ہے
تم اپنی خود نمائی کے لیے عالم سے چھپتے ہو
چھپائے سے چھپے گی، خواہشِ تشہیر ایسی ہے
دعائے نیم شب گوہرؔ کلید کامیابی ہے
کبھی خالی نہیں جاتی ہے یہ تدبیر ایسی ہے
- کتاب : فصیح الملک، جلد ۴، نمبر ۵ (Pg. 34)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.