Font by Mehr Nastaliq Web

پیکر صبر و رضا ’’سید شاہ محمد یوسف بلخی فردوسی‘‘

ابصار بلخی

پیکر صبر و رضا ’’سید شاہ محمد یوسف بلخی فردوسی‘‘

ابصار بلخی

MORE BYابصار بلخی

    ’’بلخ‘‘ افغانستان کا چھوٹاسا قصبہ ہے، مؤرخین کے مطابق یہ سکندر اعظم سے پہلے سے آباد تھا اس کا قدیم نام ’’باختر‘‘ ہے، سکندر اعظم کی ملکہ بھی اسی شہر بلخ کی رہنے والی تھی، کہا جاتا ہے کہ 56ھ سے قبل ہی یہاں مسلمانوں کی آمد ہو چکی تھی، بلخ کا ایک شاہی خاندان جس کا تعلق مشہور صوفی بزرگ حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم سے ہے جو ہجرت کر کے بلخ سے ہندوستان تشریف لائے، اسی خانوادے کے ایک بزرگ حضرت سلطان شمس الدین بلخی ہوئے جن سے بلخیوں کا ورود بہار میں ہوا، آپ درویشی اور فلاح اخروی حاصل کرنے کے لیے ہندوستان آئے اور اس کے بعد حضرت مخدوم احمد چرم پوش (خالہ زاد بھائی حضرت مخدوم جہاں) سے بیعت ہوئے، آپ کے ہندوستان آنے کے بعد آپ کے تینوں بیٹے حضرت مولانا مظفر شمس بلخی، حضرت مخدوم معز بلخی اور چھوٹے حضرت قمرالدین بلخی بھی اپنی والدہ ماجدہ کے ہمراہ ہندوستان ہجرت کر گیے، منجھلے فرزند مخدوم معز بلخی نے والد ماجد کے ہم خیال ہو کر ان کے پیر و مرشد مخدوم احمد چرم پوش کے دست اقدس پر بیعت ہوئے، حضرت معز بلخی کا انتقال مکہ مکرمہ میں ہوا اور مزار خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا اورحضرت فضیل بن عیاض کے مزار مقدس کے قریب ہی ہے۔(مناقب الاصفیا)

    سلطان شمس الدین بلخی کے فرزند اکبرحضرت مولانا مظفر بلخی کی طبیعت میں ٹھہراؤ نہ تھا اور اس زمانے میں حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کے علم و فضل کا شہرہ پورے ہندوستان میں عام تھا، بڑے بڑے صوفیا و علما و فضلا حضرت مخدوم جہاں کی خدمت میں نیاز مندی کے لیے بہار شریف حاضر ہوتے، مولانا مظفر بلخی بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے تبحر علمی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ آپ کے ماسوا سب کچھ بھول گیے اور آپ سے بیعت ہو کر مقام فنائیت پر فائز ہوئے، حضرت مخدوم جہاں بھی آپ سے بے انتہا محبت فرماتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ

    ’’تن مظفر جاں شرف الدین، جاں مظفر تن شرف الدین‘‘

    حضرت مخدوم جہاں کے وصال کے بعد وصیت کے مطابق تمام مشائخ کی موجودگی میں مولانا مظفر بلخی حضرت مخدوم جہاں کی سجادگی پر فائز ہو کر آپ کے نائب ہوئے، مولانا مظفر بلخی کو کوئی اولاد نہ تھی اس لیے وہ منجھلے بھائی مخدوم معز بلخی کے بیٹے حسین بن معز کو ہی اپنا فرزند مانتے تھے اور اس لیے مخدوم حسین نوشہ توحید بلخی اپنے چچا جان مولانا مظفر کی ہی تربیت میں رہ کر پروان چڑھے اور عم محترم کے انتقال کے بعد حضرت مخدوم جہاں کی سجادگی پر فائز ہوئے، حضرت مخدوم حسین بلخی نوشۂ توحید (المتوفیٰ 844ھ) نے تصوف پر عربی زبان میں سب سے پہلی کتاب تصنیف فرمائی جو ’’حضرات خمس‘‘ کے نام سے موسوم ہے جس کو برصغیر میں تصوف پر عربی زبان میں سب سے پہلی کتاب ہونے کا شرف حاصل ہے، اس کتاب کی فارسی شرح ان کے بڑے فرزند اور جانشین حضرت مخدوم جشن دائم (المتوفیٰ855ھ) از محل اولی نے ’’کاشف الاسرار‘‘ کے نام سے تحریر فرمائی، حضرت مخدوم حسین بلخی نوشۂ توحید نے ’’اخلاق النبوی و محاسن مصطفوی‘‘ کے نام سے سیرت النبی پر کتاب لکھی جس کو برصغیر میں سیرت پاک پر سب سے پہلی کتاب ہونے کا درجہ حاصل ہے، اس کتاب کا اردو ترجمہ والد ماجد حضرت ڈاکٹر سید شاہ مظفر الدین بلخی فردوسی (سجادہ نشیں : خانقاہ بلخیہ فردوسیہ، رائے پورہ، فتوحہ) نے کیا ہے جس کو پہلی بار خوش خط تحریر میں قلمی مخطوطہ کی عکسی نقل اور تخریج کے ساتھ خانقاہ منعمیہ قمریہ، میتن گھاٹ، پٹنہ سیٹی نے 2019ء میں شائع کیا، حضرت پروفیسر سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی (سجادہ نشیں : خانقاہ منعمیہ قمریہ) کے مطابق

    ’’حضرت مخدوم حسین کی 25 سے زائدکتب جو کہ اب تک دریافت ہوئیں ہیں اور ان کے کتب خانہ میں محفوظ ہیں‘‘

    دیگر نادر مخطوطات بھی کتب خانہ بلخیہ فردوسیہ (فتوحہ) میں موجود ہیں، جن میں اکثر کتابیں مخدوم حسین بلخی اور خانوادۂ بلخیہ کے بزرگوں کی تصنیفات پر مشتمل ہیں، مخدوم حسین کی اولاد پورے ہندوستان میں تبلیغ دین اور اشاعت اسلام کے کام میں مشغول ہیں، حضرت سید شاہ محمد یوسف بلخی فردوسی بھی اسی سلسلے کی ایک قوی کڑی ہیں جن کا نسب نامہ براہِ راست مخدوم حسین سے جا ملتا ہے۔

    سید شاہ محمد یوسف بلخی، شاہ غلام معز بلخی کی براہ راست اولاد ہیں جن کا نسب نامہ حضرت حافظ بلخی سے ہوتا ہوا مخدوم حسین بلخی نوشۂ توحید تک پہنچ جاتا ہے، آپ کا نسب نامہ ملاحظہ ہو۔

    محمد یوسف بلخی بن محمد یعقوب بلخی بن غلام مظفر بلخی بن علیم الدین بلخی(دوم) بن محمد تقی بلخی بن غلام معزالدین بلخی بن برہان الدین بلخی بن علیم الدین بلخی (اول) بن نور محمد بلخی بن دیوان دولت بلخی بن مخدوم فرید بلخی بن مخدوم جیون بلخی بن مخدوم حافظ بلخی بن مخدوم ابراہیم سلطان بلخی بن مخدوم احمد لنگر دریا بلخی بن مخدوم حسن جشن دائم بلخی بن مخدوم حسین نوشہ توحید بلخی۔(از مرتب غلام مظفر بلخی)

    یوسف بلخی کی ولادت 4 ؍ ربیع الاول 1311ھ مطابق 16؍ ستمبر 1893ء کو 11؍ بجے دن بروز شنبہ بمقام فتوحہ اپنے جد محترم حضرت شاہ غلام مظفر بلخی فردوسی (المتوفیٰ 1324ھ) سجادہ نشیں خانقاہ بلخیہ فردوسیہ کی حیات میں ہی ہوئی، سید عبدالحسن (کسمر ضلع سارن) نے ولادت کی عربی میں قطعہ تاریخ نکالی ہے، ملاحظہ ہو

    شاہ یعقوب الذی اعطاہ رب العالمین

    احسن المولود ولد مثل نور فوق نور

    قال یا طیب الفواد حامد عبدالحسن

    ان تاریخ التولد’’ جاء نعم الظہور‘‘

    1311ھ

    (از بیاض غلام مظفر بلخی)

    ترجمہ : شاہ یعقوب کو یوسف بلخی کی شکل میں پروردگار کی ایک نعمت عطا ہوئی جن کی خلقت حسن کے اعلیٰ میعار پر ہے جیسے نور پر نور کی چادر ہواس ساعت مسعود پر عبدالحسن صمیم قلب سے شکر گزار ہے خدا کا اور اس کی زبان تاریخ بیان یہی کہہ رہی ہے کہ یوسف بلخی کا ورود مسعود ایک نعمت کا ظہور ہے۔

    ابتدائی تعلیم گھر میں اپنے والد ماجد سید شاہ محمد یعقوب بلخی فردوسی (المتوفیٰ 1373ھ) کے زیر سایہ پائی، آپ کے دادا محترم حضرت شاہ غلام مظفر بلخی فردوسی (متوفیٰ 1324ھ) کی شخصیت مجمع البحرین تھی جن کے اندر اپنے اجداد کا رنگ صاف نظر آتا تھا طبیعت میں اتنی نفاست تھی کہ جس کی مثال مشکل ہے، عاجزی اور انکسار اتنی کہ ہمیشہ لوگوں سے ملنے جلنے میں خود پہل کرتے، اول سے اخر تک ساری زندگی اس طرح گوشہ تنہائی و خود فراموشی میں گزار دی۔

    (خودنوشت حالات خاندانی از شاہ تقی حسن بلخی)

    ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد یوسف بلخی سن شعور کو پہنچے تو اپنے آبائی سلسلۂ فردوسیہ میں عم محترم حضرت سید شاہ غلام شرف الدین بلخی فردوسی عرف شاہ درگاہی (المتوفیٰ 1356ھ) سجادہ نشیں خانقاہ بلخیہ فردوسیہ سے بیعت ہوئے، شاہ غلام شرف الدین بلخی کی ذات والا تعارف کی محتاج نہیں 1915ء میں آپ کی علمی لیاقت اور مختلف خدمات کو دیکھتے ہوئے انگریزی حکومت نے آپ کو ’’شمس العلما‘‘ کے خطاب سے نوازہ لیکن آپ نے اس خطاب کو دینی وجوہ سے واپس کر دیا آپ کے تعلقات کا دائرہ بہت وسیع تھا سربرآوردہ لوگ آپ سے ملنے کے لیے آتے تھے، چنانچہ سر علی امام (وائے سرائے ہند) بھی آپ کے محبین میں سے تھے، شاہ غلام شرف الدین بلخی جو یوسف بلخی کے بڑے چچا اور پیر و مرشد تھے وہ آپ سے بے انتہا محبت کرتے تھے اور آپ بھی اپنے پیر و مرشد کے ہر حکم پر لبیک کہتے بچپن سے ہی انگریزی زبان سیکھنے کا شوق اس قدر تھا کہ گھر والوں کی ناراضگی کے باوجود اس زبان کو سیکھنا نہ چھوڑا تھا، اس زمانے میں ہندوستان کی آزادی کی تحریک زوروں پر تھی اس لیے مسلمان انگریزوں کی زبان انگریزی سیکھنا کفر سمجھتے تھے، سرسید احمد خان (المتوفیٰ1898ء) کی ہی واحد شخصیت تھی جنہوں نے مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ انگریزی کی تعلیم مسلمانوں کے لیے مضر نہیں بلکہ سودمند ہے کیوں کہ اس میں مختلف علوم پوشیدہ ہیں اس لیے اس زبان کو سیکھنے سے مسلمانوں کے حالات بالکل بدل جائیں گیے، سر سید احمد خاں کی اس بات کو ان کی کافی کوششوں کے بعد قبول کیا گیا اور یہی وجہ ہے ان کا عقیدہ کچھ بھی ہو مگر ایک بات تو سچ ہے کہ ان کے خواب کا عملی جامہ جس کی پہلی سیڑھی انگریزی زبان رہی آج مسلم یونیورسٹی (علی گڑھ) کے نام سے قائم ہے جہاں سے ہر سال ہزاروں مسلم نوجوان فارغ ہو کر نکلتے ہیں، یوسف بلخی بھی اسی تحریک علی گڑھ سے متاثر ہو کر انگریزی زبان کی طرف راغب ہوئے انہوں نے سر سید احمد خان کے اس عظیم پیغام کو بچپن میں ہی سمجھ لیا تھا، فتوحہ اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ اٹاوہ ہائی اسکول میں اپنے نانا جان سیدشاہ عبد الوحید محی الدین پوری کی درخواست پر داخل ہوئے اور وہیں سے میٹرک کا امتحان اچھے نمبرات کے ساتھ پاس کیا، آپ کے نانا مولانا شاہ عبدالوحید ایک صوفی صفت انسان اور بڑے عالم تھے، فقہ، تفسیر اور حدیث میں کمال رکھتے تھے، ان کے پیر و مرشدحضرت سید شاہ فضل اللہ قادری باکمال صوفی گزرے ہیں جن کا شمار صوفیائے کبار میں ہوتا ہے، شاہ فضل اللہ قادری کے خاص مرید و خلیفہ ہیں۔ (تذکرہ اؤلیائے ہند، حیدرآباد، جلد صفحہ 20)

    سید شاہ فضل اللہ قادری کی محبت شاہ عبدالوحید پر اس قدر غالب تھی کہ اپنے آبائی وطن محی الدین پور (قریب از فتوحہ) کو بھی چھوڑ دیا لیکن خاندان کی ضرورت کے تحت آنا جانا کرتے رہے، شاہ عبدالوحیدکی شادی بی بی امتو بنت شاہ امیرالحسن منعمی سے ہوئی جو کہ حضرت شاہ محمد تقی بلخی فردوسی (المتوفیٰ 1255ھ) کی اپنی نواسی تھیں، آپ کافی اچھا علمی دوق رکھتے تھے، فی الحال آپ کی پانچ تصنیفات کا پتہ چلتا ہے جس کا ذکر یکتا میں بھی موجود ہے۔

    میلاد علی شیر خدا (مطبوعہ)، حال شہادت حضرت مولائے کائنات (مطبوعہ)، سوانح عمری حضرت سید شاہ فضل اللہ قادری( مطبوعہ)، حیات محی الدین پور (سن کتابت 1283ھ)، رسالہ مظہر قادریہ (حالات شیخ عبد القادر جیلانی) (سن کتابت 1281ھ)۔

    آپ کی دختربی بی رؤفن زوجہ شاہ محمد یعقوب بلخی ہوئیں، شاہ عبدالوحید محی الدین پوری کا انتقال حیدرآباد میں ہی ہوا اور مزار موسیٰ ندی کے قریب اپنے پیر و مرشد کے بغل میں ہے جہاں زائرین اور عقیدت مند بہ حصول فیض ایک کثیر تعداد میں جایا کرتے ہیں، یوسف بلخی فردوسی بھی ہر سال اپنے نانا جان شاہ عبدالوحید کے مزار پر قل اور فاتحہ پڑھنے جایا کرتے تھے، یوسف بلخی کی والدہ بی بی روفن بھی ایک پارسا عورت اور صوم و صلوٰۃ، ورد و و ظائف کی بہت پابند تھیں یہی وجہ ہے کہ آپ بچپن میں ماں کی آغوش ترتیب میں پل کر جوان ہوئے اولاد کی کامیابی کے پیچھے ماں کا بڑا کردار ہوتا ہے، اس لیے حدیث پاک میں حضرت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کے درجہ کو باپ سے تین گنا بلند فرمایا ہے، یہ ماں ہی کی تربیت کا نتجہ تھا کہ آپ نے مشکل سے مشکل حالات میں بھی صبر کا دامن نہ چھوڑا کبھی کسی چیز پر آپ کو غصہ آنے لگتا تو فورا ہنس کر ٹال دیتے اور ناراض نہ ہوتے آپ کی دوبہنوں کی شادی ایک بی بی رابعہ زوجہ سید مصلح الدین بلخی اور دوسری ہاجرہ زوجہ حضرت حکیم شاہ تقی حسن بلخی فردوسی (سجادہ نشیں: خانقاہ بلخیہ فردوسیہ، فتوحہ) سے ہوئی، یوسف بلخی اپنی دنوں بہنوں سے بے انتہا پیار کرتے تھے اور خصوصا اپنی چھوٹی بہن بی بی ہاجرہ بنت شاہ محمد یعقوب بلخی فردوسی کو پیار سے ’’ہجو‘‘ کہتے آپ اور دونوں بہنوں کی پچپن کی ایک یادگار تصویر خانقاہ بلخیہ فردوسیہ کے کتب خانہ میں محفوظ ہے، بچپن میں آپ اپنی دونوں بہن رابعہ اور ہاجرہ کے ساتھ اپنے نانہال محی الدین پور جایا کرتے تھے، آپ کے والد ماجد سید شاہ محمد یعقوب بلخی فردوسی (المتوفیٰ 1373ھ) کا شمار اپنے وقت کے صاحب قلم میں ہوا کرتا تھا، آپ کے جد امجد حضرت مولانا سید شاہ علیم الدین بلخی فردوسی منعمی کے وصال فرمانے کے سال بعد 1288 ھ کو فتوحہ میں ہوئی آپ کے والد ماجد حضرت سید شاہ غلام مظفر بلخی فردوسی خود یکتائے زمانہ تھے جن کی شادی بی بی کلثوم بنت حکیم سید شاہ ابراھیم بلخی (سملی) سے ہوئی جن سے چاڑ بیٹے اور چار بیٹیاں ہوئیں جن میں بڑے سید شاہ غلام شرف الدین بلخی فردوسی اور دوسرے سید شاہ محمد یعقوب بلخی فردوسی، تیسرے شاہ آل احمد بلخی فردوسی (المتوفیٰ 1375ھ) اور آخری سید آل حسن بلخی کا انتقال جوانی میں ہی ہوچکا تھا، شاہ محمد یعقوب بلخی فردوسی کے تعلقات اس قدر وسیع تھے کہ سرکردہ لوگ آپ سے ملنے کے لیے آتے تھے جس میں شوقؔ نیموی، پروفیسر عبدالغفور شہبازؔ شامل ہیں، عبدالغفور شبہازؔ سے ہمیشہ ہی آپ کی خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا مؤرخہ 27؍ اگست 1897ء کا خط بھی اسی کی ایک مضبوط کڑی تھی جس کو شہبازؔ نے بنام شاہ محمد یعقوب بلخی لکھا تھا یہ خط ادارہ ٔتحقیقات اردو کی نمایش 1959ء میں بھی لگایا گیا تھا، داغؔ دہلوی اور شادؔ عظیم آباد ی سے بھی آپ کے اچھے مراسم تھے، کتابوں کا اعلیٰ شو ق رکھتے تھے، ملفوظات التصفیہ اور رسالہ السماع آپ کے دست خاص کا لکھا ہوا خانقاہ بلخیہ فردوسیہ کے کتب خانہ میں موجود ہے، بسفر حیدرآباد آپ کی کئی ملاقاتیں داغؔ کے ساتھ ہوئیں اور داغؔ نے آپ کے شعری ذوق کی تعریف کی، سر علی امام آپ سے ملاقات کو برابر فتوحہ آیا کرتے تھے، خطاطی کے علاوہ فارسی زبان میں اس قدر عبور حاصل تھا کہ فارسی کے مشکل سے مشکل اشعار کی تشریح باآسانی کر دیتے، مؤمنؔ اور غالبؔ کی شاعری کو بہت پسند فرماتے، انہیں سعدیؔ کے اشعار سے بھی کافی لگاؤ تھا، حضرت مولی علی کرم اللہ وجہہ سے والہانہ لگاؤ تھا جس کا اندازہ شیخ سعدیؔ کے اشعار کے اس شعر سے ہوتا ہے جو ان کی زبان پر ہمیشہ رہتا تھا۔

    بفردا چو پر سد خدائے کریما

    بہ حب کہ بروے بسر زندگی را

    کہ مولی تو بودو کرا بندہ بودی

    بگویم علی باز گویم علی را

    آپ کی پہلی شادی 19؍ رجب 1306ھ، پیر بگہہ کے ایک معزز خاندان شاہ محمد باقر کی بیٹی کے ساتھ ہوئی مگر افسوس کہ 3 سال ہی نہ گذرے تھے کہ آپ کی پہلی اہلیہ بنت شاہ محمد باقر کا انتقال ہوگیا اور وہ اس دار فانی سے رخصت ہوگئیں، غموں کا پہاڑ آپ پر ٹوٹ پڑا اس پر بھی آپ نے صبر تحمل کا دامن نہ چھوڑا لیکن خاندان کے اصرار پر آپ نے دوسری شادی 21؍ رمضان 1309ھ کو شاہ عبدالوحید محی الدین پوری کی بیٹی بی بی روفن سے ہوئی جن سے سید شاہ محمد یوسف بلخی زوجہ بی بی مبارک بنت سید شاہ حسنین بلخی اور دو بیٹیاں بی بی رابعہ (منسوب مصلح الدین بلخی عرف احمد بلخی بن مولوی قمر الدین بلخی مختار) اور بی بی ہاجرہ (منسوب شاہ تقی حسن بلخی) ہوئیں، آپ کا انتقال عالم گنج میں اپنے برادرزادہ عبدالحفیظ بلخی بن شاہ غلام شرف الدین بلخی کے گھر میں 27؍ ذالحجہ 1373ھ مطابق دسمبر 1953ء کو ہوا اور تدفین بعد نماز مغرب اپنے آبائی قبرستان فتوحہ میں اپنی بیٹی بی بی ہاجرہ کے بغل کے میں ہوئی، بچپن ہی سے یوسف بلخی بہت ہونہار تھے ان کی بڑی بیٹی قمرالنسا بلخی فردوسی اپنے والد ماجد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ

    ’’میرے والد ماجد رحمتہ اللہ علیہ دبلے پتلے اور لمبے تھے، لباس میں پائے جامہ اور ٹوپی پہنا کرتے، مہمان نوازی کا بڑا شوق تھا اس لیے اگر کوئی دوست مذاق سے بھی یہ کہہ دیتا کہ بھائی یوسف رحمانیہ ہوٹل (سبزی باغ) گیے ہوئے کئی دن ہو گیے تو ابا جان محترم اسے فورا کہتے جلدی چلو جلدی چلو میں تمہیں رحمانیہ ہوٹل لے جاتا ہوں، تہجد اور چاشت کی اتنی پابندی تھی کہ کچھ بھی ہو جائے مگر تہجد نہیں چھوڑتے تھے، انگریزی اور فارسی میں کافی مہارت حاصل تھی، فارسی اور انگریزی میں گھنٹوں باتیں کیا کرتے تھے جس میں ان کے انگریزی دوست ہوتے جن سے وہ بلا جھجھک انگریزی میں باتیں کیا کرتے تھے، شعر و شاعری سے بھی کافی شغف تھا، ہماری خانقاہ کی مجالس میں ابا جان کو اتنا حال قال آتا کہ بے حال ہو جاتے اور کبھی کبھی تو زمین پر گر پڑتے اور بے ہوش ہوجاتے اور بعد میں لوگ کندھا دے کر اٹھاتے، آپ کی والدہ یعنی میری دادای بی بی روفن بنت شاہ عبدالوحید والد ماجدکو بہت مانتی تھیں، اکثر بچپن میں آپ اپنی دونوں بیٹیوں رابعہ اور ہاجرہ کے ہمراہ اپنے گھر محی الدین پور چلی جاتی، میرے والد کی طبیعت میں بہت نفاست تھی پاکی اور صفائی کا بہت خیال تھا کہ آخری دم تک باقی رہا، مشکل سے مشکل حالات میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے، میرے بڑے دادا سید شاہ غلام شرف الدین بلخی فردوسی سے سلسلۂ فردوسیہ میں مرید تھے ان کا اس قدر احترام کرتے جس کی مثال نہیں، خاندانی بزرگان سے خاصہ لگاؤ تھا ہمیشہ فاتحہ پڑھنے کھجوریہ درگاہ، چھوٹی لائن جاتے تھے اس کے علاوہ آپ کوحضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کی ذات سے بے پناہ محبت تھی۔

    شاہ یوسف بلخی بچوں پر بہت شفیق تھے اور ان سے کافی محبت بھی کیا کرتے تھے، باتوں ہی باتوں میں ہی بچوں کی اصلاح فرما دیتے تھے اور ہمیشہ اس کوشش میں رہتے تھے کہ مسلم معاشرے کے لئے ان کو سود مند کیسے بنایا جائے، فارسی زبان پر آپ کو اس قدر مہارت تھی کہ بغیر روک ٹوک گھنٹوں فارسی میں باتیں کرتے اس وجہ کر آپ کے چچا ڈاکٹر وحید بلخی کے تمام بیٹے بیٹیاں آپ سے فارسی پڑھنے کے لیے آتیں، پڑھانے میں آپ کا طریقہ بہت سہل ہوتا تھا جس سے بچوں کو آسانی سے بات سمجھ میں آجاتی اس کے ساتھ ہی ان کو اشعار بھی یاد کرواتے اور سبق کو بار بار پڑھواتے تاکہ یاد ہو جائے، فارسی خطوط نویسی کا بھی بہت شوق تھا، صدقہ و خیرات کا یہ عالم تھا کہ بس ضرورت کی ہی چیز گھر میں رہا کرتی تھی باقی محتاجوں اور مسکینوں کو دے دیتے تھے، آپ کی دو بہنیں تھیں بی بی رابعہ اور بی بی ہاجرہ تھیں، بی بی ہاجرہ کی شادی آپ کے اپنے چچا زاد بھائی حکیم شاہ تقی حسن بلخی سے ہوئی تھی جن سے داداجان حکیم سید شاہ علیم الدین بلخی اور کئی بیٹیاں ہوئیں جن میں سے صرف دو بی بی انیسہ اور بی بی وحیدہ زندہ رہیں، شاہ یوسف بلخی اپنے بھانجے حکیم سید شاہ علیم الدین بلخی سے بے پناہ محبت کرتے تھے ان کی بچپن میں تربیت ماموں جان کے ہاتھوں اس طرح ہوئی کہ جب وہ اسکول پڑھانے کے لیے جاتے تو ساتھ اپنے بھانجے علیم الدین بلخی کو بھی لیے جاتے اور بچیوں کے ساتھ وہ بھی پڑھتے ایک دفعہ دادا جان حکیم شاہ علیم الدین بلخی کو ان کی والدہ بی بی ہاجرہ نے کسی وجہ کر بہت ڈانٹا تو آپ فرمانے لگے کہ ہجو (ہاجرہ)، عالو (علیم الدین) کو ڈانٹانہ کرو تکلیف ہوتی ہے، اس وقت دادا جان کی عمر کم سنی کی تھی، آپ باضابطہ شاعر نہیں تھے لیکن اردو و فارسی کے شعرا کے اشعار سے بھی آپ کو کافی شغف تھا اسی وجہ کر کبھی کبھی شاعری بھی کر لیا کرتے تھے، افسوس ان کی وہ شاعری اب محفوظ نہیں، آپ شاعری میں یوسفؔ تخلص کیا کرتے تھے، شعر ملاحظہ ہو

    نہ دو طول اشعار کو اپنے یوسفؔ

    کہ زیادہ مناسب نہیں ژاد خواہی

    آواز میں اس قدر خاندانی ترنم تھا کہ جو آپ کی آواز سن لیتا آپ کی جانب متوجہ ہوجاتا جس اسکول (فتوحہ) میں آپ پڑھاتے تھے وہاں بچوں سے غزل مترنم آواز میں پڑھوا کر مشق کرواتے تھے جس میں میرے دادا جان بھی شامل تھے، تصوف سے اس قدر گہرا لگاؤ تھا کہ اس کے لیے اکثر بزرگوں کے مزارات پر جایا کرتے جو کہ چھوٹی لائن فتوحہ اسٹیشن کے پاس واقع ہے، آپ کے جد اعلیٰ حضرت شاہ غلام معز بلخی بھی وہیں مدفون ہیں، آپ کی پردادی حضرت مولانا حسن رضا رائے پوری (جانشین حضرت مخدوم منعم پاک) کی اپنی پوتی تھیں جن کا خاندان کھجوریہ درگاہ میں مدفون ہے، کبھی کبھی تو آپ ٹہلتے ہوئے ہی کھجوریہ چلے جاتے اور کبھی کبھی اپنے چچا زاد بھائیوں کو ساتھ لے جاتے‘‘

    سید شاہ یوسف بلخی فردوسی کی پہلی شادی 12 ؍اپریل 1919ء کو سید شاہ غلام حسنین بلخی عرف گلو بن ابوالحسن بلخی کی بڑی بیٹی صالحہ خاتون سے ہوئی اس واقعہ کی روداد آپ کے بڑے چچا جان محترم شاہ غلام شرف الدین بلخی نے اپنی ڈائری میں تفصیل سے لکھا ہے، ابھی شادی کو ایک سال بھی نہ ہوا تھا کہ زوجہ بی بی صالحہ خاتون کا انتقال ہوگیا تدفین فتوحہ قبرستان میں ہوئی ان کی ایک بیٹی بھی ہوئی تھی جو بعد میں فوت ہوگئی۔

    دوسری شادی شاہ غلام حسنین بلخی کی دوسری بیٹی مبارک خاتون سے ہوئی، مبارک خاتون ایک خوش خلق اور پارسا عورت تھیں آپ بہت کم سخن عورت تھیں اور خدمت خلق کے جذبہ کو ہمیشہ ساتھ رکھتی تھیں اپنے شوہر کی خدمت آخری وقت تک کرتی رہیں۔

    شاہ غلام حسنین بلخی فردوسی کی سب سے چھوٹی صاحبزادی بی بی میمونہ کی شادی حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے پوتے حضرت مولانا سید شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی داناپوری (سجادہ نشیں: خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، شاہ ٹولی، داناپور) سے ہوئی اس اعتبار سے شاہ ظفر سجاد اور شاہ محمد یوسف بلخی ہم زلف ہوئے۔

    حضرت شاہ ظفر سجاد داناپوری، حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے پوتے اور حضرت اکبر کی خانقاہ (خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، شاہ ٹولی، داناپور)کے سجادہ نشیں بھی تھے، اپنے زمانے میں یکتائے روزگار شخصیت کے مالک تھے، آپ کے اخلاق و کردار کا یہ عالم تھا کہ کوئی ایک بار آپ سے ملتا تو آپ کی طرف راغب ہوجاتا، بڑے عالم فاضل اور ایک بے ضرر صوفی تھے، ہر کس و ناکس کے مونس اور قوم و ملت کے لیے ہر وقت تیار کھڑے رہتے تھے، آپ کی جد و جہد سے ایک بڑا طبقہ روحانیت کی جانب مائل ہوا، خاندان کے ہر چھوٹے بڑے افراد سے بڑی خوشنودی سے ملاقات کرنا انہیں یاد رکھنا یہ آپ کی خصوصیات کا ایک حصہ تھا، آپ کا معمول تھا کہ ہر سال خانقاہ بلخیہ فردوسیہ فتوحہ کے عرس میں پابندی کے ساتھ شریک ہوتے اور محفل سماع میں اس قدر حال کرتے کہ بیان سے باہر ہے، شاہ ظفر سجاد شاہ یوسف بلخی سے بے پناہ محبت کرتے تھے دونوں میں خط و کتابت بھی برابر ہوا کرتی، یوسف بلخی شاہ ظفر سجاد کے والد ماجد حضرت شاہ محسنؔ داناپوری سے بے حد متاثر تھے اور ہمیشہ ان کی صحبت میں بیٹھا کرتے تھے بعض خطوط شاہ محسنؔ داناپوری سے بھی ملتے ہیں، یوسف بلخی کی خواہش پر شاہ محسنؔ داناپوری نے ’’برہان العاشقین‘‘ نامی ایک کتاب بھی تصنیف کی تھی جو 1350ھ میں پٹنہ سے شائع ہوئی تھی۔

    حضرت شاہ محسنؔ داناپوری کا یوسف بلخی کے نام ایک خط ملاحظہ ہو۔

    ’’عزیز ولی سعید ازلی مولوی سید شاہ محمد یوسف صاحب بلخی فردوسی سلمہٗ اللّٰہ القوی

    ہدیہ سلام مسنون و دعا اجابت مشحون باد، محبت نامہ از دیاد محبت کاباعث ہوا، اس عجیب و غریب مکتوب کے موصول ہونے کے بعد تین شبانہ یوم میں اس خیال میں غلطاں و پیچاں رہا کہ آپ کے حکم کی تعمیل کرکے جواب باصواب لکھوں یا اپنی علالت کا صحیح عذر کرکے اور ’’من سکت سلم‘‘ کے حکیمانہ ارشاد پر عمل کرکے خاموشی اختیار کر لوں، اس درمیان میں چند مرتبہ آپ کے محبت نامے کے مطالعہ کا موقع ملا اور ہر دفعہ کے مطالعہ سے ایک نئی بات اور نیا خیال میں نے دل و دماغ میں محسوس کیا۔

    آخر اس سوچ بچار کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ جیتے میں ہارا، اب میں نے خدا پر بھروسہ کرکے تعمیل حکم کا فیصلہ کر لیا ہے، ممکن ہے کہ اس طرح ہماری متفقہ کوششیں اس طوفان بے تمیزی کا خاتمہ اور اس کذب و افترا کا ہمیشہ کے لیے سد باب کرسکیں، یہی وہ خیال ہے جس نے مجھے آپ کی رائے کے ساتھ اتفاق اور آپ کے حکم کی تعمیل کے لیے مجبور کیا، مصرع -شاید کہ ہمیں بیضہ بر آرد پر و بال

    اب مجھے صرف اس قدر ظاہر کر دینا ہے کہ مجھ سے جن امور کے متعلق استفسار کیا گیا ہے ان نمبروں میں بیشتر سوالات ایسے ہیں جن کے جواب لے لیے اہم اور تاریخی واقعات کی شہادت سے کام لینا پڑے گا اور یہ بات ظاہر ہے کہ ایسے موقعوں پر انسان طوالت سے مجبور ہوجاتا ہے، اس لیے میں اپنی تحریری طوالت کے لیے صاف دلی کے ساتھ معافی کا خواستگار ہوں۔

    فقط محمد محسن ابوالعلائی

    مرقومہ 12 شعبان المعظم 1350ھ‘‘

    شاہ یوسف بلخی اور شاہ ظفر سجاد یہ دونوں شاہ صاحبان کی ایک یادگار و نادر تصویر جو داناپور کی ایک تقریب شادی کی ہے جس میں بہت سے معززین شخصیات بھی شامل ہیں شاہ محمد یوسف بلخی کے خانوادے کے پاس اور خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے کتب خانہ میں ایک ایک عکسی کاپی محفوظ ہے اور قابل دید ہے جن میں شاہ یوسف بلخی اور شاہ ظفر سجاد کے علاوہ دیگر معززین شامل ہیں۔

    حضرت شاہ ظفر سجاد داناپوری کی مکمل زندگی صبر و آزمائش کے ہچکولے کھاتی رہی، وہ ایک خدا مست بزرگ تھے جو اپنے اسلاف کے نقش پاپر قائم رہے ان کے مریدین و معتقدین کا حلقہ پورنیہ، آگرہ، گوالیار، حیدرآباد، الہ آباد، کراچی، لاہور اور بنگال میں کثرت سے پایا جاتا تھا میرے جد امجد حکیم شاہ علیم الدین بلخی کہا کرتے تھے کہ میں نے اپنے والد حکیم شاہ تقی حسن بلخی کو یہ کہتے سنا ہے کہ

    ’’جب شاہ ظفر سجاد صاحب پہلی بار پورنیہ تشریف لے گیے تھے تو ان کے اخلاق و کردار سے متاثر ہوکر 14 لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا‘‘

    آپ کا انتقال 1 رجب 1394ھ موافق 22 جولائی 1974ء کو داناپور میں ہوا نماز جنازہ مولانا شاہ اسماعیل کاکوی نے پڑھایا اور ظہر کے وقت خانقاہ سے متصل خاندانی قبرستان میں آستانہ حضرت مخدوم سجاد پاک، شاہ ٹولی کے اندر تدفین ہوئی، حضرت شاہ ظفر سجاد کے بعد ان کے جانشیں بڑے صاحبزادے حضرت مولانا سید شاہ محفوظ اللہ ابوالعلائی ہوئے یہ بزرگ بھی بڑے خاموش طبع اور منکسر المزاج تھے ہر وقت عبادت و ریاضت میں مشغول رہا کرتے تھے، آپ کے انتقال کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت سید شاہ ابو محمد ابوالعلائی عرف للن بابو خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ داناپور کے سجادہ نشیں ہوئے، یہ بھی اپنے والد کی طرح ’’الوالدسرلابیہ‘‘ کے مصداق تھے عمر نے وفا نہ کی اور محض چار ہی برس سجادگی پر رونق افروز رہے اور 2001ء میں واصل باللہ ہوئے، آپ کے بعد چھوٹے بھائی یعنی حضرت شاہ محفوظ اللہ ابوالعلائی کے چھوٹے صاحبزادے حضرت سید شاہ سیف اللہ ابوالعلائی صاحب خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، شاہ ٹولی، داناپور کے سجادہ نشیں ہیں اور مزید اپنے بزرگوں کے کام کو پروان چڑھانے میں مصروف عمل ہیں الحمداللہ آج خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کی خدمات کا سہرا آپ کے سر جاتا ہے، آج بھی شاہ ظفر سجاد کے فرزند اوسط حضرت سید شاہ خالد امام ابوالعلائی صاحب خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کی مبارک اور قابل قدر ہستی ہیں اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے۔

    شاہ یوسف بلخی کے خانقاہ مجیبیہ، پھلواری شریف سے بھی کافی دیرینہ تعلقات تھے اکثر خانقاہ کے عرس کی محافل میں شریک ہوتے تھے، حضرت مولانا شاہ سلیمان چشتی پھلواروی نے ’’حزب البحر‘‘ کی بھی اجازت دی تھی جس کا تذکرہ ’’نقوش سلیمانی‘‘ کے صفحہ 131 پر بھی ہے۔

    خانقاہی انداز و اطوار کا خاص خیال رکھتے، انگرکھا، دوپلیہ ٹوپی پسندیدہ لباس رہا ہے، محفل سماع کے دلدادہ تھے، سماع کے دوران آپ کی کیفیت پر جوش ہوتی، آپ کا پسندیدہ عمل مہمان نوازی تھا، اپنے عہد کے ممتاز اور سرفراز لوگوں میں آپ کا شمار ہوتا، رحمانیہ ہوٹل (سبزی باغ) میں آپ کی سخاوت و فیاضی زبان زدعام تھی، لکھنے پڑھنے کا شوق شروع سے رہا، خط و کتابت اور روزنامچہ بھی پابندی سے لکھا کرتے جس کی شناخت بعض رسائل سے ہوتی ہے، آپ اچھے اخلاق اور بلند طبیعت کے مالک تھے، گفتگو میں بڑا اثر تھا، ایسے ایسے رموز و حقائق بیان کرتے کہ سامع حیرت و استعجاب میں پڑ جاتا انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ فارسی اور اردو زبان بھی بہت اچھی جانتے تھے۔

    ایک انسان کی کامیابی کے پیچھے ایک دوست کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے، حدیث میں بھی ایسے دوستوں کی بڑی فضیلت آئی ہے جو کہ اللہ کی رضا کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اچھا دوست وہی ہوتا ہے جو ہر غم میں دوست کے ساتھ کھڑا ہو اور ہر مشکل سے مشکل وقت میں دوست کے کام آئے، یوسف بلخی کے خاص احباب میں محبوب صاحب کا بھی ذکر آتا ہے جو باڑھ کے رہنے والے تھے اور ہر مشکل سے مشکل وقت میں آپ کے ساتھ رہے۔

    آپ کا انتقال معیادی بخار کی وجہ کر ہوا، یو سف بلخی کی بیٹی بی بی قمر النسا بلخی اپنے والد کے انتقال کے سلسلے میں تفصیل کے ساتھ بیان یوں بیان کرتی ہیں۔

    ’’والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ کو آخری وقت میں معیادی بخار ہوا، غلط علاج ہونے کی وجہ کر مرض دن بدن بڑ ھتا گیا، دس مہینے گذرنے کے بعد جب مرض آخری درجے تک پہنچ گیا تو ابا جان کو فتوحہ سے دولی بازار (پٹنہ) لایا گیا جہاں قریب ہی ایک پرائمری ڈاکٹر جن کا نام سید علی احمد تھا ان کی ساری اولاد آج کراچی میں آباد ہے، ابا جان محترم کو دیکھتے ہی ڈاکٹر سید علی احمد مایوس ہوگیے اور کہنے لگے دس مہینے گذرنے کے بعد آپ لوگ شاہ صاحب کو لائے ہیں، اب مرض بہت بڑھ گیا ہے، بچنے کی امید بہت کم ہے، بس دعا کریں کہ خدا ان کو سکون عطا کرے چنانچہ ڈاکٹر صاحب کے جواب سے مایوس ہوکر میرے پھوپھا سید مصلح الدین بلخی جن کی شادی اباجان کی اپنی بہن بی بی رابعہ سے ہوئی تھی، ابا جان کو واپس لے آئے، اسی طبیعت کے عالم میں ایک دن میرے والد ماجد نے میری والدہ ماجدہ بی بی مبارک کو بلایا اور سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا مبارک! تم نے میری بڑی خدمت کی ہے خدا تم کو ہمیشہ خوش رکھے، اب میرا وقت پورا ہوا اور اب کوئی خوف نہیں بس پیر و مرشد کے عرس کا انتظار ہے کہ وہ دیکھ لیں پھر ہم بھی اپنے آبا و اجداد کے پاس چلے جائیں گے تم بالکل فکر نہ کرنا خاطر جمع رکھو اور میرے بعد مشکل حالات میں صبر سے کام لینا، یہ تمام باتیں سن کر میں رونے لگی اس پر ابا جان نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگ بیٹی کامو گھبراؤ مت تم میری پیاری بیٹی ہو، خدا تم کو دونوں جہان میں کامیاب کرے، میرے بعد بیٹی تم صبر کرنا اور پریشان کبھی نہ ہونا، خدا تمہارے ساتھ ہے پھر کہا بیٹی عرس کی تیاریاں کرو اب بس اس کا ہی انتظار ہے ہمیں، یہ ایک ایسی پیشن گوئی تھی کہ جو انتقال سے پہلے ہی ابا جان نے کردی تھی جو کہ بڑے داداحضرت شاہ غلام شرف الدین بلخی کے عرس کے پندرہ دنوں کے بعد پوری ہوئی چنانچہ 9 ذیقعدہ 1361ھ موافق 18؍ نومبر 1942ء کو صبح فجر کی نماز کے بعد ابا جان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی، انا للہ وانا الیہ راجعون، انتقال کے وقت انہوں نے مجھ سے کہاکہ بیٹا تقی بابو کو بلاؤ جو میرے والد ماجد کے اپنے چچا زاد بھائی کے علاوہ بہنوئی بھی تھے، میں دوڑ کر گئی اور حضرت بڑے ابا جان کو کمرے میں بلایا، بڑے ابا دوڑ کر کمرے میں داخل ہوئے، بھائی نے بھائی کو محبت بھری نظروں سے دیکھا اور ابا جان نے کہاکہ تقی بابو میں ’’سورہ یٰسین‘‘ زبانی پڑھ رہاہوں تم سنو تم بڑی نسبت والے ہو اور خاندان کے جانشین ہو پھر ’سورہ یٰسین‘ شریف کا ورد کرنے لگے اور پوری ’’سورہ یٰسین‘‘ زبانی پڑھ لیا پھر بڑے ابا جان سے مخاطب ہوکر کہا تقی بابو بتائیں کیا ہم نے کچھ غلط پڑھا، اس پر بڑے ابا جان حضرت سید شاہ تقی حسن بلخی نے کہا نہیں نہیں بھائی جان آپ نے بالکل درست پڑھا پھر ابا جان نے ساتوں کلمہ پڑھا اور آنکھیں بند کرلیں، بڑے ابا جان نے جلدی سے میری والدہ بی بی مبارک کو وہاں سے ہٹایا اور کہا کہ بھابھی جان ہٹ جائیں بھیا کا انتقال ہوگیا ہے، یہ سن کر میری والدہ رونے لگیں اس پر بڑے ابا جان نے کہا کہ بھابھی جان پریشان نہ ہوں بھائی جان کا انتقال بہت اچھی حالت میں ہوا ہے، میرے دونوں پھوپھیاں بی بی حاجرہ اور بی بی رابعہ یہ سن پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں پھر ابا جان کو غسل دیا گیا اور بڑے ابا جان سید شاہ تقی حسن بلخی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی، تدفین خانقاہ بلخیہ فردوسیہ، فتوحہ کے آبائی قبرستان میں عمل میں آئی۔

    یوسف بلخی کی دوسری اہلیہ مبارک خاتون سے دو صاحبزادی اور دو صاحبزادے ہوئے جس میں ایک چھوٹی بیٹی فاطمہ کا انتقال تولد کے چند برسوں بعد ہی ہوگیا، آپ کی بڑی بیٹی بی بی قمرالنسا بلخی ابھی بقید حیات ہیں اور آزادی کے بعد کراچی میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ آباد ہیں، ابھی آپ کی عمر تقریباً 95 برس کی ہوچکی ہے اور حافظہ بھی قوی ہے، پرانی پرانی خاندانی باتیں آپ نے اکثر اس فقیر سے بیان کی ہیں، بہت ہی نیک اور پارسا عورت ہیں، آپ کے اندر آج بھی بلخی خاندان کا رنگ نظر آتا ہے، آپ کی شادی سید عظیم الدین حیدر (دیگھا، متصل داناپور) سے ہوئی جن سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں، بڑے بیٹے سید فاروق حیدر ہیں جن کی پیدائش فتوحہ میں ہی اپنے پر نانا جان یعقوب بلخی کی حیات میں ہی ہوئی، آپ بہت خوش خلق انسان ہیں اور خاندانی وقار کو آپ نے بچا کر رکھا ہے ابھی آپ کنیڈا میں اپنے بچوں کے ساتھ آباد ہیں، چھوٹے بیٹے سید انوار حیدر ہیں جنہوں نے کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور’بزنس ایڈمنسٹریشن‘ ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد فلیپائن چلے گیے، 1990ء میں انہوں نے منیجمنٹ میں دوسری ماسٹر ڈگری حاصل کی اور بین الاقوامی مارکیٹنگ میں مینجر کے طور پر دو تنظیموں میں کام کیا، موصو ف سیر و سیاحت کے بھی بڑے شوقین ہیں، مختلف ملکوں جن میں بھارت، نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ، ایران، متحدہ عرب امارت، بحرین، مصر، ترکی، قبرس، شام، ملیشیا، سنگاپور، بینکاک، تھائی لینڈ، فلیپائن، برطانیہ، امریکہ، جرمنی، فرانس، کنیڈا شامل ہیں، تمام ممالک کو دیکھنے کے بعد ابھی وہ فالحال کنیڈا میں مقیم ہیں، آپ نے 2000ء میں کنیڈ اکو ہی اپنا مستقل وطن بنا لیا اور بیوی سحر خاتون اور دو بچے ایشا حیدر اور بیٹے عیسیٰ حیدر کے ساتھ انٹاریو (کنیڈا) میں مقیم ہیں، خاندانی روایت کے پاس دار ہیں، راقم سے ہمیشہ خانوادہ بلخیہ پر باتیں ہوتی ہیں، 1990ء کے بعد ایک دفعہ ہندوستان تشریف لائے اور فتوحہ اپنے ناناجان یوسف بلخی فردوسی کے گھر اور مزار پر بغرض فاتحہ حاضر ہوئے، آپ اپنے ناناجان کو اپنی زندگی کی کامیابیوں کے لیے مشعل راہ اور ناناجان کی دعاؤں کا ثمرہ مانتے ہیں جو انتقال کے وقت ان کے ناناجان نے ان کی والدہ سے کیاتھا آپ تمام بہنوں اور بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔

    آپ کی دوبیٹیوں میں بڑی بیٹی بی بی رضیہ خاتون ہیں جن کے شوہر سید شمیم کا انتقال پچھلے سال 2019ء میں ہوا، سب سے چھوٹی بیٹی اصغری خاتون عرف تابندہ ہیں جو کراچی میں ہی مقیم ہیں، شعر و شاعری سے خاص شغف رکھتی ہیں اور باغ و بہار مزاج کی مالک ہیں اس کے علاوہ مختلف علوم و فنون سے بھی واقفیت رکھتی ہیں، آپ کا حافظہ بھی اپنی والدہ کی طرح بہت قوی ہے آپ کی دو بیٹیاں ہیں جن کی شادی ہوچکی۔

    یوسف بلخی آج بھی خاندان بلخیہ میں اپنی گوناگوں خصوصیات کی وجہ کر دلوں میں زندہ ہیں ان کی خدمات جلیلہ اور عظمت رفتہ پر عظیم آباد کے قدیم افراد کی مہر ہے، اللہ پاک یوسف بلخی اور ان جیسے تمام بلخیوں پر رحمت کی چادر ڈالے اور ان کے احوال و کمالات کو زمانے کے سامنے تابندہ کرے۔

    آج بھی خانقاہ بلخیہ فردوسیہ، فتوحہ، پٹنہ اپنی مرکزی حیثیت کے لیے قائم و دائم ہے، جس کے موجودہ سجادہ نشیں والد گرامی حضرت ڈاکٹر سید شاہ مظفرالدین بلخی فردوسی اپنی سرکاری مصروفیات کے ساتھ خانقاہی ذمہ داریوں کو انجام دے رہے ہیں، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس خانقاہ کو مرکز رشد و ہدایت بنائے رکھے اور اس کے روحانی، دینی، علمی و ادبی اور فلاحی خدمات اور فیضان کو اپنی سات صدیوں پر محیط تاریخی روایتوں کے ساتھ جاری و ساری رکھے، سید شاہ محمد یوسف بلخی فردوسی کی ذات بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے