حضرت شاہ ایوب ابدالی نیرؔ ایک نابغۂ روزگارشخصیت
دنیا میں بہت سی شخصیتیں ایسی بھی ہیں جن کی خدمات کا اندازہ ان کی زندگی میں نہیں ہو پاتا۔ دنیا سے رخصت ہونے کے بعد مزید اسرار کھلتے ہیں اور دنیا ان سے مستفید ہوتی ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ اس عہد میں شناور نہیں ملتے یا کم ملتے ہیں، یا ایسی شخصیتیں اپنے کارناموں کے اظہار سے بے نیاز ہوتی ہیں۔ وہ اپنے نصب العین میں اتنی منہمک و مستغرق ہوتی ہیں کہ انہیں اپنی قدردانی کی پرواہ نہیں ہوتی۔ انہیں صرف اپنے مقصد کی تکمیل کی فکر ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک شخصیت کا نام ہے حضرت مخدوم سید شاہ ابوالخیر موسیٰ المدعو محمد ایوب ابدالی نِیرو فردوسی اسلامپوری، جو عرفِ عام میں شاہ ایوب ابدالی کے نام سے مشہور ہوئے۔
آپ کی ولادت 20 محرم الحرام 1324ھ کو خانقاہ بلخیہ فردوسیہ میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد شاہ سید علی کاملؔ اسلامپوری سے حاصل کی۔ آپ کے والد صوفی اجل، فرزند علی صوفیؔ منیری کے چھوٹے بیٹے تھے۔ اس لحاظ سے حضرت صوفی منیری آپ کے دادا ہوئے۔ آپ نے اپنے والد ماجد سے ہی طریقہ فردوسیہ میں بیعت کی۔ والد ماجد سید علی کی قناعت مندی کا یہ عالم تھا کہ طلوع آفتاب کے بعد اور غروب آفتاب کے وقت پتلّی چپاتیاں اور اس کے ساتھ جو کچھ مل جاتا، کھا لیتے۔ اکثر ایسا بھی ہوا کہ ترکاری میں نمک زیادہ پڑ گیا یا نمک بالکل نہ تھا، پھر بھی آپ خاموشی سے خدا پر توکل کر کے کھا لیتے اور کچھ ذکر نہ کرتے۔ کھانے کے بعد لوگ جب غلطی کی طرف اشارہ کرتے کہ نمک کم تھا، تو لاعلمی کا اظہار کرتے۔ آپ کی مقدس زندگی زہد و قناعت مندی کا مکمل نمونہ تھی۔ حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری سے آپ کو ایسی والہانہ عقیدت تھی کہ گرمی کے دنوں میں جب لوگ سو رہے ہوتے تو آپ درگاہ مخدوم جہاں کی طرف روانہ ہو جاتے اور کسی کو خبر تک نہ ہوتی۔
شاہ ایوب ابدالی کو حضرت مخدوم جہاں سے عقیدت وراثت میں اپنے والد سید علی سے ملی تھی۔ آپ کا پدری سلسلہ سید علیم الدین گیسودراز نیشاپوری سے جا ملتا ہے، جن کا شمار حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کے خلفا میں ہوتا ہے۔ مشہور روایت ہے کہ جب آپ کے جد اعلیٰ سید علیم الدین گیسودراز نیشاپوری حضرت مخدوم جہاں کے حجرے میں تشریف لے جاتے تو حضرت مخدوم جہاں کھڑے ہو جاتے۔ جب کسی سائل نے حضرت مخدوم جہاں سے اس کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ ’’یہ سادات ہیں، اس لیے ملحوظِ تعلیم کی خاطر کھڑا ہو جاتا ہوں۔‘‘
حضرت سید علیم الدین گیسودراز نیشاپوری تک آپ کا نسب نامہ اس طرح ہے۔
سید شاہ ایوب ابدالی بن سید علی کاملؔ اسلامپوری بن سید شاہ فرزند علی صوفیؔ منیری بن سید محمد علی بن سید احمد علی بن سید غلام مرتضیٰ بن سید جہانگیر بن سید صدام بن سید دیوان فخرالدین بن سید شہاب الدین بن سید احمد بن سید جہانگیر بن سید محمد بن سید علیم الدین گیسودراز دانشمند نیشاپوری (خلیفہ حضرت مخدوم جہاں)۔
(حوالہ: نسب نامہ قدیم مخطوطہ 1133ھ، مکتوب حضرت غلام مرتضیٰ ابدالی، ذریعہ دولت)
اس نسب نامہ کو آپ کے فرزندِ اکبر سید شاہ طیب ابدالی نے کتاب ’’حضرت صوفیؔ منیری کے نثری کارنامے‘‘ میں بھی نقل کیا ہے، جس میں انہوں نے اپنے خاندان کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔
شاہ ایوب ابدالی کے نام میں ’’ابدالی‘‘ ہونے کی وجہ تسمیہ کو بھی آپ کے فرزندِ اکبر و جانشین سید شاہ طیب ابدالی نے اسی کتاب میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’جب یہ خاندان نیشاپور منتقل ہوا تو حضرت جعفر نیشاپوری کی اولاد میں سے حضرت سید السادات علیم الدین گیسودراز دانشمند نیشاپوری حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کے عہد میں بہار تشریف لائے اور حضرت مخدوم جہاں سے مرید ہوئے۔ مجاز و خلیفہ ہو کر مراجعت کی۔ سید علیم الدین گیسودراز دانشمند نیشاپوری کے بڑے صاحبزادے حضرت سید محمد فردوسی کی شادی مخدوم شاہ بدرالدین بدعالم زاہدی کی بیٹی ولیۂ باکمال حضرت بی بی ابدال سے ہوئی۔ اسی نسبت سے آپ کی اولاد ’’ابدالی‘‘ کہی جاتی ہے۔‘‘ (حوالہ: صوفیؔ منیری کے نثری کارنامے، صفحہ 32)
آپ کی والدہ بی بی وجیہن بنت سید شاہ غلام مظفر بلخی ایک بزرگ اور پارسا عورت تھیں، جن کی پارسائی کے قصے پورے اسلامپور و فتوحہ میں مشہور تھے۔ عم محترم شاہ رازی ابدالی نے اپنی پردادی بی بی وجیہن کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ
’’آپ نے پوری زندگی میں کبھی تہجد کی نماز نہیں چھوڑی۔ جب آپ کا انتقال 85 سال کی عمر میں ہوا تو آپ کی آواز میں بہت نرمی تھی۔ کبھی اونچی آواز میں کسی سے کلام نہ کیا۔ ان کی پارسائی کا شہرہ پورے اسلامپور میں تھا۔ میرے والد محترم اپنے والد شاہ ایوب ابدالی کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ جب وہ سفر کے لیے کہیں جاتے تو پہلے اپنی والدہ بی بی قدیرن کے پیر چومتے تھے اور پھر روانہ ہوتے۔ جب سفر سے گھر واپس آتے تو بھی پیر چومتے۔ جب بی بی وجیہن (میری پردادی) کا انتقال ہوا (وہ وقت رات کا تھا) تو پوری مچھڑ دانی میں قرآن کی آیت خود بخود لکھی گئی۔‘‘ (بیانِ زبانی: عم محترم سید شاہ رازی ابدالی، خلف سید شاہ طیب ابدالی)
اسی ولیہ کی تربیت میں رہ کر شاہ ایوب ابدالی پلے بڑھے اور جوان ہوئے۔ حدیث پاک ﷺ میں ماں کی اتنی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ ماں کو دیکھنا بھی عبادت ہے، تو پھر ماں کے قدموں کو بوسہ دینے کا کیا عالم ہوگا! آپ نے اپنے ناناجان سید شاہ غلام مظفر بلخی فردوسی (سجادہ نشین خانقاہ بلخیہ فردوسیہ، فتوحہ) سے تعلیم و تربیت حاصل نہ کر سکے کیونکہ آپ کی ولادت کے صرف نو دن بعد ہی آپ کے ناناجان شاہ غلام مظفر بلخی کا انتقال ہوگیا۔
بی بی وجیہن بنت سید غلام مظفر بلخی نسباً بلخی اور مشرباً فردوسی تھیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے ایوب کو وہی سکھایا اور پڑھایا۔ کہا جاتا ہے کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہے، اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شاہ ایوب ابدالی کی شخصیت کو نکھارنے میں ان کی والدہ بی بی وجیہن کا سب سے بڑا ہاتھ تھا۔ حضرت شاہ ایوب ابدالی کا مادری نسب بلخی ہے، یعنی آپ اپنے نانیہال کی طرف سے بلخی ہیں۔
آپ کے ناناجان سید شاہ غلام مظفر بلخی فردوسی اپنے زمانے کے صوفیٔ وقت تھے۔ آپ کی خداترسی اور عبادت گزاری کی مثالیں فتوحہ میں عام تھیں۔ وصال سے چند ماہ قبل آپ نے اپنی پوری برادری، متوسلین و مریدین سے ملاقاتیں کیں اور آستانۂ پاک پر حاضری دی۔ ملاقات کے وقت فرمایا: ’’یہ میری آخری ملاقات ہے۔‘‘ جن لوگوں تک آپ خود نہیں پہنچ سکے انہیں اپنے مکان پر بلا کر ملاقات کی۔
انتقال کے وقت فتوحہ درگاہ میں سوگواروں کا بڑا ہجوم تھا۔ فتوحہ جیسے چھوٹے قصبے میں اتنے بڑے مجمع کو دیکھ کر لوگ حیران تھے۔ ایک عجیب کرامت بھی ظاہر ہوئی: تدفین کے بعد قبر مبارک پر آسمان سے پھولوں کی بارش ہوئی۔ جب بعض لوگوں نے انہیں چننے کی کوشش کی تو کامیاب نہ ہو سکے، اور وہ پھول چند لمحوں میں غائب ہوگئے۔ یہ منظر دیکھ کر شاہ مبارک صاحب رئیس موہانواں نے وجد کی کیفیت میں کہا: ’’واہ بھائی مظفر! مرنے کے بعد اپنے کو ظاہر کرتے ہو۔‘‘ (حوالہ: خود نوشت قلمی حکیم شاہ تقی حسن بلخی)
آپ کا انتقال 29 محرم الحرام 1324ھ مطابق 1905ء کو صبح 9 بجے ہوا۔ تدفین فتوحہ خانقاہ کے خاندانی قبرستان میں عمل میں آئی۔
شاہ ایوب ابدالی کی والدہ بی بی وجیہن کی پارسائی اپنے والد سید شاہ غلام مظفر بلخی اور دادا سید شاہ علیم الدین بلخی سے ورثہ میں آئی تھی۔ آپ نے پوری زندگی میں کبھی تہجد قضا نہ کی۔ انتقال 85 برس کی عمر میں ہوا۔ آپ نرم گفتار تھیں اور کبھی بلند آواز سے کلام نہ کیا۔
آپ کا سلسلہ نسب حضرت سید شاہ مخدوم حسین نوشۂ توحید بلخی فردوسی (خلیفہ و جانشین حضرت مخدوم جہاں) تک پہنچتا ہے، جنہیں ’’فنا فی المخدوم‘‘ کی عظیم مثال سمجھا جاتا ہے۔ ان کی مشہور تصنیف ’’حضرات خمس‘‘ عربی زبان میں برصغیر میں تصوف پر لکھی گئی اولین کتاب مانی جاتی ہے۔
شاہ ایوب ابدالی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سید علی کامل اسلام پوری سے حاصل کی۔ ان کے بڑے بیٹے و جانشین شاہ طیب ابدالی لکھتے ہیں کہ
’’ابتدائی کتابیں والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ سے ابتدا تا انتہا پڑھیں۔ علم تجوید سید عبد الطیف علیہ الرحمہ سے حاصل کیا۔ 1333ھ میں دارالعلوم رنگیاں کانپور میں مولانا مشتاق احمد بن مولانا حسن کانپوری سے ابتدائی عربی کتب پڑھیں۔ دو سال بعد واپس آکر مولانا شیر علی رحمۃ اللہ علیہ سے قدوری اور تفسیر قرآن پڑھی۔‘‘
بعد ازاں آپ نے مولانا سید عبدالاحد سے تین سال تک تعلیم حاصل کی اور فقہ، تفسیر، حدیث، منطق، فلسفہ اور تصوف کی متعدد کتابیں پڑھیں۔ مثنوی مولانا روم، کلیات غالبؔ اور کلیات بیدلؔ بھی شروح کے ساتھ پڑھی۔ حدیث کی سند مولانا سخاوت حسین صاحب (کاکو، ضلع گیا) سے حاصل کی۔
(حوالہ: خود نوشتہ شاہ ایوب ابدالی، تذکرہ گرامی از ذکی ہاشمی ایوبی)
آپ کے دادا فرزند علی صوفیؔ (تلمیذ خاص غالبؔ) بلند پایہ شاعر تھے۔ اسی شوق نے شاہ ایوب ابدالی کے دل میں بھی بچپن سے شاعری کا ذوق پیدا کیا۔ آپ کے کلام میں عشقِ رسول ﷺ اور محبت اہل بیت جھلکتی ہے۔ آپ کے اشعار فکر انگیز اور پراثر ہوا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر:
فرطِ حیرت سے گرا چاند زمیں پر دیکھو
قرب کی آنکھ کا تارا وہ سربام آیا
کیا حسین نام ہے تیرا کہ جب آیا لب پر
آ گیا صل علی بھی وہیں جب نام آیا
(حوالہ: تذکرہ گرامی از ذکی احمد ہاشمی ایوبی)
جب عشقِ مصطفیٰ ﷺ بامِ عروج پر پہنچا تو آپ نے حج کا قصد کیا، لیکن والد ماجد کی علالت کی وجہ سے نہ جا سکے۔ اس موقع پر آپ نے ایک نعت لکھی اور احباب سے کہا کہ اسے روضۂ اقدس میں ڈال دیا جائے۔ یہ نعت 20 محرم الحرام 1356ھ کو مدینہ منورہ میں روضۂ انور میں پیش کی گئی۔
آپ کے خلفاء میں حضرت ملک العلماء مولانا ظفرالدین بہاری (مجاز اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی) بھی شامل تھے۔ مفتی اعظم ہند مصطفیٰ رضا خان سے بھی آپ کا والہانہ تعلق تھا۔
شاہ ایوب ابدالی نے متعدد علمی و صوفیانہ کتب تصنیف کیں جن میں شامل ہیں۔
احسان و تصوف، ترجمہ عقائد شرفی، ذکر و فکر، سلاسل و الاسانید، احوال سید علی کامل اسلام پوری، انساب پر ایک مکمل کتاب
ان کی کئی کتابیں عم محترم شاہ رازی ابدالی کی کوشش سے شائع ہوچکی ہیں۔
شاہ ایوب ابدالی کا انتقال 3 رجب 1387ھ کو اسلام پور میں ہوا۔ تدفین اپنے والد سید علی کامل اسلام پوری کے پہلو میں کی گئی۔
قطعۂ تاریخ (از ڈاکٹر طلحہ رضوی برقؔ)
داد رضواں نوا چہ در باغ بہشت
بلبلِ خلدِ بریں ’’شاہ محمد ایوب‘‘
1387ھ
آپ کے بعد فرزند اکبر شاہ طیب ابدالی مسند سجادگی پر فائز ہوئے۔ آپ کی سادگی اور خداترسی بے مثال تھی۔ 2007ء میں آپ کے وصال کے بعد آپ کے چھوٹے صاحبزادے سید شاہ شہاب الدین ابدالی نے سجادگی سنبھالی اور آج بھی خاندانی روایت کو حسن و خوبی سے نبھا رہے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.