Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

مطالعہ ملفوظاتِ خواجگانِ چشت کے مبادیات (خواجگانِ چشت کے ملفوظات کی روشنی میں)

اخلاق حسین دہلوی

مطالعہ ملفوظاتِ خواجگانِ چشت کے مبادیات (خواجگانِ چشت کے ملفوظات کی روشنی میں)

اخلاق حسین دہلوی

MORE BYاخلاق حسین دہلوی

    دلچسپ معلومات

    ماہنامہ معارف (اعظم گڑھ)

    اساطیر الاولین :- قرآن پاک میں جو قصّے انبیائے سے سابقین کے منقول ہیں، انہیں اُس عہد کے یہود و نصاریٰ اساطیر الاولین سے تعبیر کیا کرتے تھے، قرآن پاک میں ہے۔

    و اذا تتلیٰ علیھم اٰیاتُنا قالوا قد سمعنا لو نشآءُ لقنا مثل ھٰذا اِن ھٰذا الاّ اساطیرالاوّلین (سورہ انفا4)

    جب اُن کے سات ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سُن لیا، ہم چاہیں تو ہم بھی ایسے قصے بیان کر دیں، یہ تو پہلوں کی کہانیاں ہیں، جن واقعات کو قرآن پاک میں دہرا دیا گیا ہے وہ مقصدقہ ہیں، ان کے بیان کرنےمیں تو کلام ہی نہیں مگر ان کے علاوہ جو بھی ہیں وہ اساطیر الاولین ہی ہیں جو یہود و نصاریٰ کا علمی سرمایہ ہیں اگر ان میں شرک و کفر کی آمیزش نہیں ہے تو ان کے بیان میں بھی کچھ مضائقہ نہیں ہے اور ان کے ذکر و اذکار کی ممانعت بھی نہیں ہے، ایسے ہی قصص و حکایات سے بہت سی ضرب الامثال اور کہاوتیں وجود میں آئی ہیں مثلاً ہر فرعونے را موسیٰ طوفانِ نوح لحنِ داودی، صبر ایوب، گریۂ یعقوب، خرِ عیسیٰ ان سے تلمیح، اور استعارہ و کنایہ کا کام لیا جاتا ہے اور مختصر سے بیان میں بہت کچھ کہہ دیا جاتا ہے، مسلمانوں نے علمی مسائل میں کبھی تعصب و تنگ نظری سے کام نہیں لیا وہ علم و حکمت کو اپنا ہی گم گشتہ سرمایہ تصور کرتے تھے، اس باب میں ان کی سر چشمی ہر کہیں جلوہ گر ہے، لہٰذا حسبِ ضرورت اساطیر الاولین سے بھی خاطر خواہ کام لیا جاسکتا ہے، اس میں کچھ مضائقہ نہیں، بشرطیکہ اسلامی تعلیمات کے خلاف نہ ہو۔

    اسرائیلیات:- ابنیاء بنی اسرائیل کے بعض حالات و واقعات اور قصص قرآن پاک میں مذکور ہیں، ان کے علاوہ کچھ حالات و واقعات اور قصص علمائے بنی اسرائیل کے علم میں تھے، ان میں بعض تو ایسے عالم تھے جو باتوں کو چھپاتے تھے بلکہ مقدس کتاب توریت میں تحریف کردیا کرتے تھے، ان کی باتوں پر اگرچہ بھروسہ نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن انکار کے لئے بھی قوی دلیل نہ تھی، اُن کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اشار یہ ہے۔

    لاتصدّقوھم ولا تکذبوھم۔

    ترجمہ :- نہ تو ان کی تصدیق کرو اور نہ تکذیب کرو۔

    بعض توریت مقدس کی پیشین گوئیوں پر غور کرتے اور حق کی تائید کرتےتھے، ورقہ بن نوفل اور عبداللہ بن سلام ایسے ہی حق پرستوں میں سے تھے، ایسے علمائے بنی اسرائیل کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے۔

    حدّثوا عن بنی اسرئیل ولا حرج۔

    ترجمہ :- بنی اسرایل سے بیانات نقل کرو اس میں حرج نہیں ہے۔

    لہٰذا بعض واقعات و حالات اور قصص جو مفسرین نے علمائے بنی اسرائیل سے نقل کئے ہیں اور جنہیں اسرائیلیات کہتے ہیں، ان سے استفادہ میں کچھ مضائقہ نہیں، بشرطیکہ ان کے اندر کوئی ایسی بات نہ ہو جو انبیاء علیھم السلام کی شان اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہو، انہی کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لا حرج فرمایا ہے لیکن جو روایات بنی اسرائیل سے متعلق نہیں، انہیں اسرائیلیات سے تعبیر کرنا صحیح نہیں، خرقہ و گلیم، کلاہ و طاقیہ کو اسرائیلیات میں شمار کرنا یا خرافات بتانا درست نہیں ہے وہ در اصل علامات ہیں اصولِ سلوک کی پابند ہی کی، جیسا کہ عہدِ حاضر میں بیچ کی نوعیت ہے جو درویش خلافت ورزی کرتا تو اس سے یہ علامات ضبط کرلی جاتی تھیں۔

    یوسف زلیخا:- حضرت یوسف علیہ السلام کے قصّے کی تصدیق قرآن پاک سے ہوتی ہے، قرآن پاک میں اس قصّے کو احسن القصص کے لقب سے ذکر کیا گیا ہے جتنا کچھ قرآن پاک میں ہے وہ جامع و مستند ہے مگر اس قصّے کی بعض روایات سے اہلِ کتاب کے علماء واقف تھے اگر چہ ان کا وہ مقام نہیں جو قرآن پاک کے بیان کا ہے تاہم اس میں شرک و کفر کی آمیزش بھی نہیں ہے، اس لئے حدثوا عن بنی اسرائیل ولا حرج کے حکم میں داخل نہیں، بعض علمائے اسلام خصوصاً مفسرین نے ان روایات کو جس طرح سنا نقل کردیا ہے، صوفیائے کرام نے بھی ان روایات سے استفادہ کیا ہے۔

    حضرت داتا گنج بخش لاہوری سید علی ہجویری (المتوفیٰ 465 ہجری مطابق 1072 عیسوی) لکھتے :-

    چوں یوسف بایعقوب رسید، خداند دیر اوصال یوسف کرامت کرد، زلیخا را جوان کرد، باسلام راہ نمود و بزنی یوسف داد، یوسف قصدے کرد، زلیخا از وے گریخت۔

    (کشف المحجوب، صفحہ 262)

    ترجمہ :- جب حضرت یوسف حضرت یعقوب کے پاس پہنچے اور اللہ پاک نے انہیں یوسف سے ملایا، زلیخا کو جوان کیا اور اسلام قبول کرنے کی توفیق دی اور حضرت یوسف کی زوجہ بنایا یوسف نے ان کا ارادہ کیا تو زلیخا نے آپ سے گریز کی۔

    مولانا جامی نے مثنوی یوسف زلیخا کو اسی آب و رنگ سے رشکِ بہار بنایا ہے، فرماتے ہیں۔

    چوں فرماں یافت یوسف از خداوند

    کہ بند ویا زلیخا عقد پیوند

    بقا نونِ خلیل و دینِ یعقوب

    برآئینِ جمیل و صورتِ خوب

    زلیخا را بعقدِ خود در آورد

    بعقد خویش یکتا گوہر آورد

    چو صدقش بود بیروں از نہایت

    بآخر کرد در یوسف سرایت

    شبے از چنگ یوسف شد گریزاں

    خلاصی چیست از افتان وخیزاں

    چو ز دوست از قفا در دامنِ او

    زدستش چاک شد پیراہنِ او

    زلیخا گفت اگر من برتنِ تو

    دریدم پیشِ ازیں پیراہن تو

    تو ہم پیراہنم اکنوں دردیدی

    بپاداشِ گناہِ من رسیدی

    حضرت یوسف اور حضرتِ زلیخا کے نکاح کا ذکرِ خیر ہمارے ادب تصوف اور اسلامی روایات کی زینت ہے، حضرت بابا صاحب کی زبانِ مبارک پر بھی آیا ہے، آپ نے غلباتِ شوق میں ارشاد فرمایا۔

    چوں مہتر یوسف علیہ السلام پیغامبر صلٰوۃ اللہ علیہ زلیخا را بخواست و زلیخادر دین مہتر یعقوب پیغام بر در آمد بعد ازاں زلیخا بخدائے تعالیٰ مشغول شد چنانچہ می آرنداں روز کہ مہتر یوسف پیغامبر علیہ السلام و بنالۂ زلیخا کردے، داد از پیش بگریختے ودست در زدے، آں گاہ مہتر یوسف از زلیخا پرسید، گفت روزے آں بود کہ دنبالِ ما می کردی، ومن از پیش تو می گریختم، ویک روز اینست کہ دنبالِ تو می کنم و تو از من می گریزی، دریں امر حکمت چیست؟ بگو زلیخا گفت اے یوسف آں روز باخدائے تعالیٰ آشنائی نداشتم، و از پرستشِ او ودر بودم، جز تو آشنائے دیگر نمی دانستم ضرورتاً بتو آویزش داشتم، اما ازیں زماں کہ حقِ تعالیٰ را بشناختم و در پرستشِ او مشگول شدم و از مجاہدہ بشاہدۂ او تا فتم و دوستی او در دل من جائے گرفت پس اے یوسف تو و صد ہزار بہتر از تو در نظرِ من نباشد چوں مرا باحق تعالیٰ الفت شد اگر بعد ازیں باغیر او لفت گیرم مدغی دروغ زن بودم، نہ صادق در محبت (اسرارالاولیا، ص 7)

    اس مختصر سے بیان میں کئی جملے ایسے ہیں جو بے ساختہ زبان سے نکل گئے ہیں جو بیان کی جان اور روحِ رواں ہیں اور ایسے ہی بزرگ کی زبان سے نکل سکتے ہیں جو توحید و حق شناسی کی نعمت سے مالا مال ہو اور وہ یہ ہیں:-

    ازیں زماں کہ حق تعالیٰ را بشناختم در پرستش او مشغول شدم، از مجاہدہ بمشاہدۂ او تافتم چوں مرا باحق تعالیٰ، الفت شد اگر بعد ازیں باغیر او الفت گیرم، مدعی دروغ زن بودم

    ہر کس و ناکس کی زبان سے یہ جملے نہیں نکل سکتے، ایں ایسا کیف ہے کہ یہ صاحبِ ذوق سلیم کو آج بھی متوالا بنا دیتے ہیں، ان کی کیفیت ان کی صداقت کی روشن دلیل ہے اور لائقِ تسلیم ہے مگر اس روایت کے متعلق اور اس جیسی دوسری روایات کے متعلق عہدِ حاضر کے ایک تنقید نگار کا بیان یہ ہے:-

    بد احتیاطی اور کم علمی کی وجہ سے جابجا ایسی باتیں بکثرت آگئی ہیں جو اصولِ تصوف کے خلاف ہیں بلکہ اکثر تعلیمات اسلامی کے منافی ہیں اور جن کا انتخاب کسی بھی درویش سے درست نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ انہیں حضرت بابا فرید گنج شکر علیہ الرحمۃ کی ذاتِ گرامی سے منسوب کیا جائے

    (منادی دہلی بابا فرید نمبر 166۔ جلد 49 شمارہ 4،5،6)

    بعد ازاں اسرارالاؤلیا سے حضرت بابا صاحب کا مذکورۂ بالا بیان نقل کر کے یہ لکھا ہے۔

    حضرت یوسف کے زلیخا سے نکاح کرنے کی روایت نہ یہودی ماخذ میں ہے نہ علمائے اسلام اس کےقائل ہیں، جامع ملفوظات نے خدا جانے یہ خرافات کہاں سے نقل کی ہیں

    (منادی دہلی، بابا فرید نمبر صفحہ 168 جلد 49 شمارہ 6،5،4)

    یہودیوں کے علمی ذخائر میں اگر اب حضرت یوسف کے حضرت زلیخا نے نکاح کرنے کی روایت نہیں ہے تو قطع نظر اس سے کہ یہ کہنا جو کہا گیا ہے بلا دلیل ہے، کیونکہ یہ تو ان کی دیرینہ عادت ہے، قرآن و حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے، اسی عارف کی بدولت وہ توریت مقدس کو بھی محفوظ نہ رکھ سکے ہیں لیکن جب قدیم و مستند علمائے حق نے دونوں کے نکاح کے متعلق معتبر و مسلمان یہودی علما سے اس روایت کو نقل کیا ہے تو یہ کہہ کر اسے مسترد کیسے کیا جاسکتا ہے کہ روایت یہودی ماخذ میں نہیں ہے اور اسے خرافات سے تعبیر کیسے کیا جاسکتا ہے؟

    مولانا جامی وہ بزرگ عالم ہیں جن کی شرح جامی آج تک دینی مدارس کے نصابِ تعلیم میں داخل ہے، حضرت داتا گنج بخش اور مولانا جامی کی روایت کو خرافات سے تعبیر کرنا اور یہ لکھنا۔

    بد احتیاطی اور کم عقلی۔۔۔ اصولِ تصوف کے خلاف۔۔۔ اکثر تعلیماتِ اسلامی کے منافی ہیں۔

    بذاتِ خود کھلی خرافات جو بقولِ جناب سید صباح الدین عبدالرحمٰن صاحب اسے فساد فی العلم، فساد فی التاریخ، فساد فی الرّوایات، فساد فی الرسوخ، فساد فی العقیدہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اور چونکہ اس زہر افشانی سے عوام اور کم علم گمراہ ہوتے ہیں اور عقیدت مندوں میں اشتعال پیدا ہوتی ہے جو فتنہ و فساد کا سبب بھی ہوسکتی ہے، اس لئے فساد فی الارض سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

    علم مجلسی سے آگاہی :- ہر شائستہ قوم کے مہذب افراد علمِ مجلسی سے آگاہی رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ جو واقعہ جن الفاظ میں کسی ایک مجلس میں بیان کیا جاتا ہے، بعینہ ان الفاظ میں کسی دوسری مجلس میں بیان نہیں کیا جاسکتا، اقتضائے حال کے مطابق واقعہ کی تفصیل میں بھی کمی بیشی ہوسکتی ہے اور ہوتی ہے، مقرر متکلم کو یہ حق ہے کہ وہ واقعہ کے جس پہلو کو چاہے بیان کرے اور جس کو نہ چاہے بیان نہ کرے، پورا واقعہ بھی بیان کرسکتا ہے اور متعلقات پر بھی روشنی ڈال سکتا ہے اور اختصار سے بھی کام لے سکتا ہے۔

    تحریر میں کسی واقعہ کو عموماً جامعیت کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے اور اختصار سے بھی، بہر حال! ایجاز و اطناب سے کام لینے کا اسے پورا پورا حق ہوتا ہے، مکرر بیان کرنے اور لکھنے کی صورت میں لفاظ میں ردوبدل ہوتا ہے اور ہوسکتا ہے، یہ بھی ہوتا ہے کہ جو واقعہ کسی نے قلم بند کرلیا ہے اور مدتوں بعد اسے بیان کیا ہے تو بیان میں تحریر سے زیادہ توانائی آسکتی ہے جس کے مختلف اسباب ہوتے ہیں، یہاں تین ایسے واقعات نقل کئے جاتے ہیں جن کو بیان کرنے والے بھی ایک ہی بزرگ ہیں اور لکھنے والے بھی ایک ہی اہل قلم ہیں، دونوں بیانوں کے درمیان فصل بھی کچھ زیادہ نہیں ہے۔

    یک روز ہمدرن زحمت مرا و چند باراں را گفت کہ بروید در فلاں خطیرہ بہ شب بیدار باشید و برائے صحتِ من دعا کنید ہم چناں کردیم امن و چند یار دیگر دراں خطیرہ رفتیم، آں خطیرہ بام می داشت براں بام رفتیم و طعام برابر خود بردیم شب آنجا بودیم دعا کردیم چوں و زشد، بخدمت شیخ آمدیم و باستادیم او عرض داشت کردیم کہ شب را بحکم فرماں بیدار بودیم ودعا کردیم، شیخ ساعتے تامل فرمود ہا بعد ازاں گفت از دعائے شما ہیچ اثرِ صحت پیدا نہ شد خواجہ ذکر اللہ بالخیر فرمودند کہ من در جواب متامل شدم یارے بود کہ او را علی بہادری گفتندے او از من پسترایستادہ بود، او ازاں جا گفت کہ مانا قصانیم و ذاتِ مبارک شیخ کامل دعائے ناقصاں در حقِ کاملاں کجا مستجاب شود، ہما نا کہ ایں سخن بسمع شیخ نہ رسید من ایں سخن بسمعِ شیخ نہ رسانیدم بعد ازاں روے سوئے من کردد گفت من از خداخواستہ ام کہ ہر چہ تو از خداخواہی بیابی بعد ازاں عصائے خود بمن داد۔

    (فوائد الفواد صفحہ 52 مجلس 8 بست ہفتم (27) ماہ ربیع الاول سن 710)

    در آنچہ شیخ الاسلام فرید الدین قدس اللہ سرّہٗ العزیز رحمت داشت مرا با چند بار بزریارت شہیداں کہ آنجا اند فرستادہ بود چوں ما بعد از زیارت بخدمت پیوستم فرمود کہ دعائے شما ہیچ اثر نہ کرد، مرا ہیچ جوابے فراہم نیاید یارے بود کہ او را علی بہاری گفتندے او دورتر استادہ بود، گفت کہ مانا قصانیم و ذات مبارک شیخ کامل دعائے ناقصاں در حق کاملاں چہ گونہ اثر کند خواجہ ذکر اللہ بالخیر فرمود کہ ایں سخن بسمع شیخ نہ رسید من عین آں بسمع مبارک رسانیدم، مرا فرمود من از خدا خواستہ ام کہ ہر چہ تو از خدائے تعالیٰ بخواہی

    بیابی بعد ازاں آں روز عصا بمن داد و مرا گفت کہ تو بدرالدین اسحاق علیہ الرحمۃ بروید، و ہمداں خطیرہ مشغول شوید، من داد ہر دو رفتیم و بشب مشغول بودیم بچوں چوں بخدمت پیوستم فرمود کہ نیکو بود۔

    (فوائد الفواد صفحہ 59 مجلس 5 پنجم (رجب سن 710 ہجری)

    دونوں بیانات کے درمیان صرف تین ماہ سات یوم کا فصل ہے، درمیان میں چھ مجالس ہیں جن کے بیانات تقریباً دس صفحات پر مشتمل ہیں مگر بیان میں جو فرق ہے وہ مقابلہ سے واضح ہے، پہلے بیان میں خطیرہ بامِ خطیرہ ہے، کھانا ساتھ لے جانے کا ذکر ہے، دوسرے میں صرف زیارتِ شہدا ہے پھر پہلے بیان میں بعد ازاں عصائے خود بمن داد سے ایسا لگتا ہے کہ عصائے خود اسی وقت عطا فرمایا تھا، دوسرے بیان سے کہ آں روز عصا بمن داد یہ معلوم ہوتا ہے کہ دن میں کسی وقت عطا فرمایا تھا، عصائے خود میں جو تخصیص ہے وہ بھی اس میں نہیں ہے اگر اسی اختلاف سے یہ بیان افضل الفوائد میں ہوتا ہے تو اس پر سرقہ کا بھی الزام عائد ہوتا اور اسلوب بیان کی خامی کا بھی۔

    حکایت خواجہ شاہی موئے تاب کہ برادر مہتر او (شیخ محمود موئے تاب) بود فرمود، چوں خلق بود روئے آورد و ہر جا کہ می رفت آنجا جمیعتے می شد و ایں خواجہ شاہی موئے تاب مردے سیہ فام بود، ہمدراں عہد درویشے بود در بدایوں او را مسعود نجاشی گفتندے چوں خواجہ شاہی را بہ آں غوغا می دید، می گفت اے سیہ گرما بہ گرم کردۂ سوختہ خواہی شد

    خواجہ ذکر اللہ بالخیر فرمود کہ ہم چناں شد کہ او گفتہ بود ہم در۔

    (فوائد الفواد صفحہ 172 مجلس 37 دہم ماہ ذی قعدہ سن 716 ہجری)

    حکایت خواجہ شاہی در افتاد کہ او را در بدایوں رونقے پیدا شد و ہمہ خلق رو برو آورد و ہرجا کہ می رفت آنجا جمیعتے می شد و آں خواجہ شاہی مردے سیاہ فام

    بود ہمدراں عہد در ویش بود او را محمود نجاشی گفتندے، وقتے خواجہ شاہی را گفت اے سیہ گرما بہ نیک گرم کردۂ سوختہ خواہی شد، ہم چناں شد کہ او گفت خواجہ ہم دراں جوانی برفت۔

    (فوائد الفواد صفحہ 176 ہجری مجلس 38 یازدہم ماہ ذی الحجہ سن 706 ہجری)

    دونوں بیانات کے درمیان صرف ایک ماہ کا فصل ہے، درمیان میں کوئی مجلس بھی نہیں ہے اور درمیان میں صرف ایک صفحے کا بیان ہے، موتے تاب صرف پہلے بیان میں ہے، دوسرے میں نہیں ہے، درویشے اور درویش میں امتیاز واضح ہے، پہلے بیان میں مسعود نجاشی ہے اور دوسرے میں محمود نجاشی ہے، گرم کردہ اور نیک گرم کردہ میں بھی امتیاز ہے، پہلے بیان میں بہ آں غوغا می دید می گفت ہے اور دوسرے میں صرف گفت ہے، تواتر مفقود ہے، تنقید نگار بتائیں کہ وہ ان اختلافات کی کیا تاویل فرماتے ہیں، کس کو جعلی اور کس کو اصلی بتاتے ہیں۔

    حکایت فرومود کنیز کے داشت نو بروہ وزال و مواسی است، نزدیک بدایوں کہ آنرا کاں بھر گویند، مگر ازاں مواسی بودہ است روزے ایں کنیزک می گریست، مولانا علاؤالدین

    پرسید کہ چرا می گرئی، گفت پسرے دارم، از او جدا شدم، مولانا گفت اگر ترا برسر حوض برم کہ یک کرد ہے از شہر است و بر سرآں حوض را کاں بھر ست ازاں جا توراہ خانہ خود بدانی، گفت بدانم مولانا وقت سحرے او را از خانہ بروں آورد، وبر سر آں خوض برد، و بگذاشت، خواجہ ذکرہ اللہ بالخیر چوں بریں حرف رسید چشم پر آب کرد، فرمود کہ علمائے ظاہر اسیں معنی را منکر باشند اما تواں دانست کہ او چہ کرد۔

    (فوائد الفواد صفحہ 165 مجلس 34 پانژدہم ماہ رمضان سن 716 ہجری)

    خواجہ ذکرہ اللہ بالخیرفرمود، آرے ہم چنین بود کہ او کنیزک زاے داشت نو بردہ در بدایوں سحر گاہے مولانا بیدار شد آں کنیز آرد، آس می کردد می گریست

    مولانا پرسید چرا می گرئی کنیزک گفت پسرے در مواس کاں بھر گزشتہ ام از جدائی او می گریم، مولانا گفت اگر من ترا نزدیک نماز گاہ برم ازآں جا راہ خانہ خود بدانی و گفت آرے

    ازاں جا راہ خانہ خود بدانم مولانا علاؤالدین نانے چند بدو داد گزاشت۔

    (فوائد الفواد صفحہ 202 مجلس 53 یازدھم ماہ رمضان 718 ہجری)

    ان دونوں روایتوں کے درمیان فصل زیادہ ہے، درمیان میں بارہ فصلیں ہیں جو 35 صفحات پر مشتمل ہیں، بیان میں بھی ممیز فرق ہے اگر یہی فرق کسی دوسرے مجموعۂ ملفوظات میں ہوتا تو تنقید نگاروں کو سخت اعتراض ہوتا، پہلی روایت میں رونے کا تو ذکر ہے مگر چکی پیستے ہوئے رونے کا ذکر نہیں، پہلی روایت میں حوض کا ذکر ہے جس کا فاصلہ شہر سے ایک کوس بتایا ہے، دوسری روایت میں ناز گاہ (عیدگاہ) کا ذکر ہے مگر فاصلے کا ذکر نہیں ہے، دوسری روایت میں نانے چند بدو داد ہے پہلی میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے، پہلی روایت میں نتیجتاً جو کچھ فرمایا ہے دوسری میں وہ نہیں ہے، ان اختلافات سے روایات میں بہم سخت اختلاف پیدا ہوگیا ہے، اگر ایسے ہی اختلافات کسی کتاب کے جعلی ہونے کے دلائل ہیں تو تنقید نگار بتائیں کہ فوائدالفواد سب سے زیادہ جعلی کتاب کیوں نہیں ہے جس میں ایک ہی واقعہ کو مختلف اسلوب میں بیان کیا گیا ہے تنقید نگار کا بیان ہے۔

    حضرت امیر حسن دہلوی کے مرتب کردہ حضرت نظام الدین اولیا کے ملفوظات فوائدالفود امیر خورد کرنامی کی تالیف سیرالاولیا اور حمید قلندر کے جمع کئے ہوئے حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی کے ملفوظات خیر المجالس نہایت درجہ مستند ہیں

    (منادی دہلی سن 1977ء بابا فرید نمبر جلد 49 شمارہ 6،5،4 صفحہ 12)

    اگر اس قدر اختلاف کے باوجود فوائد الفواد نہایت درجہ مستند ہے تو ایسے ہی اختلافات کی بنا پر دیگر ملفوظات جعلی کیسے ہوسکتے ہیں وہ بھی نہایت درجہ مستند ہونے چاہئیں حالانکہ اُن کے متن میں اختلاف نہیں ہے اسِ کے متن میں اختلاف ہے۔۔۔ کسی دوسری کتاب کے بیان سے اختلاف ہونا زیادہ قرین قیاس ہے، اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ

    یہ کس طرح ممکن ہے کہ خود حضرت نظام الدین اپنی مجلس میں ایک واقعہ بیان کریں اور اسی واقعہ کو اپنے قلم سے کتاب میں لکھیں اور دونوں میں اتنا اختلاف ہو

    (منادی دہلی، بابا فریند نمبر ص 149 جلد 49، شمارہ ، 6،5،4 سن 1974 عیسوی)

    یہ اختلاف اسی طرح ممکن ہے جس طرح فوائدالفواد میں ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ امکان رکھتا ہے جس طرح مختلف مجالس میں ایک ہی واقعہ کے بیان میں اختلاف ہے، اہلِ علم اس نکتے سے واقف ہیں کہ ایسے اختلافات ہوتے ہی ہیں اگر نہ ہوں تو حیرت کی بات ہے جو فنِ انشا پردازی اور فنِ تقریر سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ تحریر و تقریر میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے کوئی مقرر لفظ بہ لفظ وہ بیان ہی نہیں کرسکتا جو تحریر میں ہوتا ہے اس کو پیشِ نظر رکھا جائے تو واضح ہوجائے گا کہ ملفوظات میں جو اختلاف ہے وہ ملفوظ نگار کی بداحتیاطی کم عقلی، اصولِ تصّوف اور اسلامی شریعت سے عدم واقفیت کا نتیجہ نہیں ہے، لطیفہ یہ ہے کہ تنقیدنگار نے جن دو بیانوں کے درمیان فرق کرنا ممکن تصور کیا ہے، ان کے درمیان چالیس سال سے زیادہ کا فصل ہے، لکھنے والے بھی مختلف ہیں اور بیان کرنے والے بھی مختلف ہیں مگر فوائدالفواد میں یہ صورت نہیں ہے، نہ بیانات کی مدت میں اتنا فصل ہے نہ بیان کرنے والے مختلف ہیں اور نہ لکھنے والے مختلف ہیں پھر کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ ایک کتاب اسی دلیل سے جعلی قرار پائے اور دوسری مستند مانی جائے۔

    اعزازی کلمات:- کلمات و الفاظ کے بعض جگ ایسےہیں جو اعزازی طور پر بزرگوں اور قابلِ احترام اشخاص کے ناموں کے ساتھ بولے اور لکھے جاتے ہیں مثلاً رحمۃ اللہ، علیہ الرحمۃ، رضی اللہ عنہ، انار اللہ برہانہ، ذکرہ اللہ بالخیر، قدس اللہ سرّہ العزیز وغیرہ یہ عربی مرکبات ہیں، یہ ان بزرگوں کے ناموں کے ساتھ بھی استعمال کئے جاتے ہیں جو بقیدِ حیات ہیں اور ان کے لئے بھی جو وفات پا چکے ہیں، انہیں اصطلاح اموت جیسے غیر معروف مرکب سے نامزد کرنا اور یہ سمجھنا اور لکھنا کہ یہ صرف ان ہی اشخصاص کے لئے مخصوص ہیں جو فوت ہوچکے ہیں اور عالمِ فانی سے رحلت فرما چکے ہیں، صحیح نہیں ہے اور نہ اصطلاحات کی کسی کتاب سے یہ ثبوت فراہم کیا جاسکتا ہے کہ ان کلمات و مرکبات پر اصطلاحِ اموات کا اطلاق ہوتا ہے۔

    اصطلاح سے مراد یہ ہے کہ علمائے فن کے کسی گروہ نے کسی لفظ کو اس کے اصلی و لغوی معنی کے علاوہ کسی اور معنی کے لئے مخصوص کرلیا ہے جیسے منطق و فلسفہ، صرف و نحو، حدیث و فقہ کی اصطلاحات ہیں، اسی طرح پیشہ وروں کی اصطلاحیں بھی ہیں جو ان فنون کی کتابوں یں مدّن ہیں، اصطلاحات پر مخصوص کتابیں بھی لکھیں گئیں ہیں جو ان جگوں کو اصطلاحِ اموات سے تعبیر کرتے ہیں، ان کا ثبوت فراہم کرنا ان کی ذمہ داری ہے جو بزرگ رحلت پا چکے ہیں ان کے ناموں کے ساتھ ان جگوں کا استعمال عام ہے، اس کے برعکس ان اشخصاص کے لئے بھی ان جگوں کا استعمال ملتا ہے جو بقیدِ حیات ہوتے ہیں، آج نہ سہی مگر کل تک یہی تھا۔

    1. حضرت داتا گنج بخش لاہوری سید علی ہجویری (المتوفیٰ سن 465 ہجری) نے جابجا اپنے لئے ان جگوں کو لکھا ہے:-

    من کہ علی بن عثمان جلابی ام رضی اللہ عنہ (کشف المحجوب323-262)

    2. اجودھن (پاکپٹن) کے قاضی ابوالفضل عبداللہ حضرت بابا صاحب کے بڑے مخالف تھے وہ سماع کے خلاف فتویٰ حاصل کرنے کے لئے ملتان گئے جہاں مشہور مشہور علما تھے، انہوں نے علمائے ملتان سے کہا کہ یہ کہاں جائز ہے کہ کوئی شخص مسجد میں سماع سنے اور رقص کرے، انہوں نے دریافت کیا، ایسا کون شخص ہے تو انہوں نے کہا :-

    شیخ فرید الدین قدس سرّہ العزیز (است) (فوائد الفواد صفحہ 96)

    یہ واقعہ حضرت بابا صاحب کی حیات کا ہےکہ آپ کے مبارک نام کے ساتھ قدس سرہٗ العزیز بولا گیا ہے۔

    حضرت محبوبِ الٰہی کا ارشاد ہے کہ ایک بار حضرت بابا صاحب نے مجھے اور کئی دوستوں کو شہداء کے مزارات پر دعا کے لئے بھیجا تھا جب ہم واپس آئے اور حاضرِ خدمت ہوئے تو آپ نے فرمایا دعائے شما ہیچ اثر نہ کرد القصہ پھر مجھے اور مولانا بدرالدین اسحاق کو بھیجا، حضرت محبوبِ الٰہی کے مبارک لفظ ہیں :-

    مرگفت کہ تو و بدرالدین اسحاق علیہ الرحمۃ بردید و ہمدرداں خطیرہ مشغول شوید (فوائد الفواد صفحہ 59)

    یہ بیان ہر اعتبار سے معتبر ہے کہ یہ حضرت بابا صاحب کا بیان ہے پھر اس کا اعادہ فرمایا ہے، حضرت محبوبِ الٰہی کے نتقید نگاروں کے لئے سب سے زیادہ اہم اس لئے ہے کہ فوائدالفواد میں ہے جو ان کے کہنے کے مطابق نہایت درجہ مستند ہے جس کے بعد مزید کسی شہادت کی ضرورت نہیں رہتی۔

    یہ بحث ذرا طویل ہورہی ہے لیکن یہ موضوع کچھ ایسا اہم ہے کہ بعض تنقیدنگاروں کی بیجا تنقیدوں سے جو غلط فہمیاں پیدا ہورہی ہیں اس کا تقاضہ یہ ہے کہ ہر پہلو سے اس کا جائزہ لیا جائے، ناظرین سے اس بحث کی طوالت کے لئے معذرت خواہ ہیں۔

    خوارق عادات:- انسان اگر غور و فکر سے کام لے تو یہ حقیقت پوشیدہ نہیں رہتی کی دنیا کی ہر شے عجائبات کا مرقع ہے بلکہ وہ خود عجائبات کا مجموعہ ہے، بہرحال ایسے واقعات جو عام حالات سے مختلف، حیرت انگیز اور عقل و فہم سے بالا تر ہوتے اور گاہِ بگاہ ظہور میں آتے ہیں، انہیں خوارق عادات سے تعبیر کیا جاتا ہے، انِجن کی ایجاد پر جارج اسٹفنس کی خلافت مذہبی پیشواؤں نے جو فتوے دیتے تھے، تاریخ آج بھی انہیں دہرارہی ہے، بجلی، ٹیلیفون، وائرلیس، ریڈیو، ٹیلی ویزن سب ہی حیرت انگیز ہیں لیکن رواج عام نے ان کی حیرت و استعجاب کو زائل کردیا ہے اور وہ تمدن کا لازمہ بن گئے ہیں اور روز مرّہ کی چیزوں میں شمار ہونے لگے ہیں ورنہ غیر شائستہ اذہان نے کیا کچھ نہیں کیا ہے۔

    اسلامی اذہان نے خوارقِ عادات کی تین نوعتیں قرار دی ہیں۔

    (1) جو محیر العقول واقعات انبیاء علیم السلام سے صادر ہوتے ہیں، انہیں معجزہ کہتے۔

    (2) جو مافوق الفطرت امور ارادۃ یا بلا ارادہ اؤلیااللہ سے ظہور میں آتے ہیں، انہیں کرامت سے تعبیر کرتے ہیں۔

    (3) جوان اشخصاص سے ظہور میں آتے ہیں جو کسی مذہب س رابطہ رکھتے ہی نہیں یا برائے نام رکھتے ہیں یا جن پر دین ہونے کا اطلاق ہوسکتا ہے، اسے استدارج کہتے ہیں۔

    حضرت محبوبِ الٰہی کا ارشاد ہے۔

    آنچہ در و عقل را گنجائش نباشد آں کرامت است

    ترجمہ:- جس میں عقل کو دخل نہیں وہ کرامت ہے۔

    (فوائدالفواد صفحہ 7)

    یہ اسی روایت سے متعلق ہے جو لفظی اختلاف کے ساتھ فوائدالسّالکین (صفحہ 12)میں ہے لفظی اختلاف کی امثلہ علم مجلسی سی آگاہی کے زیر عنوان گذر چکی ہیں، اس روایت سے متعلق اردو میں عہدِ حاضر کے ایک تنقید نگار نے لکھا ہے:-

    ایسے واقعات کی بھرمار ہے جو چشتی صوفیہ کے عقائد اور تعلیمات کے سراسر خلاف ہیں، فوق العادۃ عنصر کی بھی کمی نہیں اور خوارق کے بیان میں مبالغہ ہے

    (منادی دہلی صفحہ 186 بابا فرید نمبر جلد 49 شمارہ 6،5،4، سن 1974)

    کیا تنقیدنگار کو چشتی صوفیہ کے عقائد اور تعلیمات سے آگاہی کے باب میں حضرت محبوبِ الٰہی پر فوقیت ہے جو کمالِ علم و عمل کے باوجود اس سے آگاہ نہ تھے کہ روایت چشتی صوفیہ کے عقائد اور تعلیمات کے سراسر خلاف ہے، حضرت محبوبِ الٰہی نے یہ بھی فرمایا ہے:-

    سلوک را صد مرتبہ نہاد ندہفتہ ہم مرتبہ کشف و کرامت اس اگر سالک ہمدریں مرتبہ بماند ہشتاد و سہ دیگر کے برسد

    ترجمہ :- سلوک کے لئے سو درجات رکھتے ہیں ستر ہواں درجہ کرامت کا ہے اگر سالک اسی درجہ میں رہے گا تو وہ دیگر تراسی درجات کو کیسے پہنچے گا۔

    (فوائدالفواد صفحہ 117)

    بیان کا اسلوب منہ سے پڑا بول رہا ہے کہ جب تک مدارج سلوک کی تکمیل نہ ہوجائے، اظہار کشف و کرامت میں محتاط رہنا چاہئے، البتہ تکمیل کے بعد ضرورۃ و ارادۃ کشف و کرامت سے کام لیا جاسکتا ہے، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار اوشی کا ارشاد ہے:-

    چوں صد مرتبہ ہم طے کند آں گاہ ہر چہ خواہد کشف کند مرد کامل آنست کہ خود را تا آں زماں کشف نہ کند تا تمام حاصل نہ کند

    ترجمہ:- جب سواں مرتبہ بھی طے کر لے پھر جو چاہے ظاہر کے مرد کامل وہی ہے جو اس وقت تک اپنے کو ظاہر نہ کرے جب تک تکمیل نہ کرے۔

    (فوائدالسّالکین، صفحہ 20)

    فوائدالفواد ہو یا دیگر مجموعۂ ملفوظات ان سب میں ان ہی بزرگوں کی کرامات کا ذکر ہے جو درجۂ کمال کو پہنچ چکے تھے اور اگر چہ فوائدالفواد میں بھی خوارقِ عادات اور کرامات کا ذکر ہے اور بکثرت ہے لیکن اسرارالاولیا اور راحت القلوب کے جامعین کو منصبِ سجادگی تفویض ہونا تھا اس لئے اُن کی ترتیب میں منصب کی رعایت کو بھی دخل ہے، اس اعتبار سے ان تینوں کتابوں میں وہ امتیاز ہے جو ہو سکتا ہے۔

    تاریخ شاہد ہے کہ عہدِ وسطیٰ میں ہندوستانی اذہان جوگیوں اور سنّیاسیوں کے دامِ فریب میں پھنسے ہوئے تھے اور حضرت محبوبِ الٰہی کے عہد شیخوخت میں وہ کیفیت نہیں رہی تھی اس لئے جو کچھ ان دونوں حضرات کی تربیت کے لئے درکار تھا وہ ہرگز کسی اعتبار سے بھی خواجہ امیر حسن علا سنجری کی تربیت کے لئے نہ تو درکار تھا اور نہ ہوسکتا تھا، فوائدالفواد میں وہ کچھ تلاش کرنا جو اسرارالاؤلیا اور راحت القلوب میں ہے، تلاشِ بے محل اور سعیٔ لا حاصل ہے۔

    بہر حال! جس نفوسِ زکیہ کو اصلاحِ قوم کی خدمت تفویض کرنی ہوتی ہے، ان کی تربیت عام تربیت سے ممیز ہوتی اور ہو سکتی ہے، حضرت امیر خسرو اور قاضی محی الدین کاشانی کی تربیت کا امیتاز اس کی روشن دلیل ہے، لہٰذا ان نفوسِ زکیہ کو ماحولی کیفیت سے اور منزل کے نشیب و فراز سے آگاہی بخشنا تربیت کا لازمہ ہے اور اگرچہ ان ملفوظات میں آپ بیتی کے ابھرتے ہوئے نقوش شاذ و نادر ہی ملتے ہیں تاہم آپ بیتی کے مؤثر انداز میں واقعات کو دل نشیں کرنا مناسب ہوتا ہے جس سے استعدادِ عمل کو مہمیز ہوتی ہے اور دل و دماغ آمادۂ عمل ہوجاتے ہیں، ماحول کی کیفیات کو نظر انداز کر کے جو بھی جائزہ لیا جائے گا غلط ہوگا، خواجہ حالی نے لکھا ہے۔

    سو نیچرل یعنی مافوق العادۃ باتیں اور عجیب و غریب قصّے۔۔۔ جن سے قدیم اور متوسط زمانے کا مغربی اور مشرقی لٹریچر بھرا ہوا ہے

    (حیاتِ سعدی، صفحہ 125)

    پھر ملفوظات جو عہدِ وسطیٰ ہی کا تہذیبی و روحانی سرمایہ ہے، اس میں مافوق العادۃ عنصر کا نہ ہونا ان کی خامی تو ہوسکتی ہے خوبی نہں ہوسکتی، خصوصاً اس لئے کہ ان بزرگوں کوان سے دو چار رہنا بھی پڑتا تھا اور اگرچہ کتب ملفوظات ہم تک کامل صحت کے ساتھ نہیں پہنچ سکی ہیں اور اکثر چند منتشر اوراق کا مجموعہ رہ گئی ہیں، تاہم ان میں جو کچھ ہے وہ بہت کچھ اپنے موضوع سے متعلق ہے، علمی مسائل کا بیان اور احکام کا درس متعلق ہوتا ہے روحانی نظام سے تربیت گاہوں کا نظام اپنا مقام رکھتا ہے۔

    مصرع : ہر سخن محلے و ہر نکتہ مقامے وارد

    صوفیائے کرام طبیب روحانی ہوتے ہیں، قلوب کی نبض پر ان کی انگلیاں اور دل کی تہہ میں ان کی نظریں ہوتی ہیں وہ جو کچھ مناسب سمجھتے ہیں تجویز کرتے ہیں، کلا سنا اشارۃ سمجھنے لئے اہلیت درکار ہے جو آج عنقا ہے پھر یہ کہنا کیا ہے:-

    اکثر بزرگوں کے فوق الفطرۃ تصرفات اور خوارق عادات کا مبالغہ آمیز بیان ہے، سب سے زیادہ شبیہ پیدا کرنے والا حصہ وہ ہے جس میں صاحبِ ملفوظ خود اپنی کرامت بیان کرتا ہے

    (منادی دہلی صفحہ 163 جلد 49، شمارہ 6،5،4، سن 1974 عیسوی)

    اؤلیااللہ جن کی زندگیاں اوصافِ حمیدہ سے متجلی اور رذائل سے متبرّا ہوتی ہیں اگر ضرورۃ شاذ و نادر آپ بیتی اُن کی زبان پر آگئی ہے تو وہ خود ستائی اور خود نمائی نہیں، حالات کا اقتضا ہے، خواجہ حالی نے سو پر نیچرل کی منگ بڑھائی تھی، انہوں نے اپنےعہد کے خیالات کی وادیوں میں بھٹکنے والے شاعروں کو متنبہ کیا تھا اور عملی زندگی کی ترجمانی کی ترغیب دی تھی جس کی ضرورت تھی، ان کی تحریک سے اردو شاعری نے کروٹ بدلی اور قومی و ملّی باکمال شاعر منصۂ شہود پر آئے مگر سات آٹھ برس قدیم صوفیا نہ ادب کو ہدفِ ملامت بنانے کا کیا محل ہے اور اس سے کون سی منفعت مقصود ہے، بلا شبہ ہندوستان کے اکابر چشتیہ کے ملفوظات میں محیرالعقول اور مافوق العادۃ عناصر کی آمیزش ہے جو اس عہد کا تمغائے امتیاز ہے، صوفیانہ ادب اس سے خالی نہ ہونا چاہئے جو کچھ اس میں ہے وہ ہدایت و رشد کے روشن مینارے ہیں جن کی تابانی آج بھی جلوہ ریز ہے انہیں ہدفِ تنقید بنانا درست نہیں ہے۔

    عجائب الاسفار:- عہدِ ماضی میں جن سیاحوں نے بری وبحری سفر کئے ہیں ان کے سفرنامے شاہد ہیں کہ انہیں عجائباتِ روزگار سے دوچار ہونا پڑا ہے، مشہور مغربی سیاح ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے کا نام ہی عجائب الاسفار رکھا ہے، اس کی ملاقات متعدد ایسے اشخصاص ہوئی تھی جو حیرت انگیز شخصیتوں کے مالک تھے اور حوارق العادۃ اُن سے ظہور میں آتے تھے، ابنِ بطوطہ اس عہد میں ہندوستان آیا تھا جب خوارق کا زور ٹوٹ چکا تھا اور برائے نام ان کا وجود رہ گیا تھا تاہم ابنِ بطوطہ کے سفرنامہ کے اس حصہ میں جو سفر ہندوستان سے متعلق ہے، متعدد و محیرالعقول واقعات ملتے ہیں مگر اس بنا پر آج تک نہ کسی نے اس کو غیر اہم قرار دیا اور نہ جعلی بتایا۔

    صوفیائے کرام جو بذاتِ خود محیرالعقول اوصاف کے مالک ہوتے ہیں اور اصلاحِ حال کے پیش نظر ہر رکاوٹ کو ٹھکرا دینے کا منصب رکھتے ہیں اور انسان کو انسانیت کے وصف سے متصف کرنے میں لتے رہتے ہیں اگر ماحول کی ضرورت سے خرق عادت سے کام لیتے ہیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے، یہ اس عہد کا لازمہ ہے جس کو عہد ماضی کے تمند کا مؤرخ نظر انداز نہیں کرسکتا، عہد حاضر میں تنقیدی جائزے جو ملفوظات سے متعلق شائع ہوئے ہیں اور میرے مطالعہ میں آئے ہیں وہ صحیح نہیں ہیں، اس اجمال کی تفصیل ان مضامین میں ملے گی جو کتب ملفوظات میں لکھے گئے ہیں اور لکھے جائیں گے۔

    کتابیات:- کتب ملفوظات میں اس عہد کی متعدد کتابوں کے نام آئے ہیں جن میں سے بہت سی اب ناپید ہیں، شمائل الاتقیا و دلائل الاتقیاء میں مآخذ کی طویل فہرست درج ہے، اس میں ایسی کتابوں اور رسالوں کے نام بھی ہیں جو اس عہد کے اہلِ قلم نے شاید ہی دیکھے اور سنے ہوں، یہ فہرست ڈیڑھ پونے دو سو کتب و رسائل کے اسماء پر مشتمل ہے، کتب ملفوظات جو ہدفِ تنقید ہیں، ان میں سے جس کتاب میں سب سے زیادہ تعداد ہے وہ چونتیس ہے، تعجب ہے کہ تنقیدنگار اس مختصر تعداد کے بارے میں بھی یہ رائے رکھتے ہیں کہ:-

    انتی کتابوں سے جامع نے شاید ہی استفادہ کیا ہوا ان میں سے اکثر فرضی ہیں

    (منادی دہلی صفحہ 166 بابا فرید نمبر جلد 49 شمارہ 6،5،4 سن 1974 )

    یہ دو ہی جملے ہیں جو باہم متضاد ہیں حالانکہ جامع ملفوظات کا کام صرف ملفوظات کا جمع کرنا ہے اس کے لئے ان کتابوں سے استفادہ ضروری نہیں جن کا ذکر ملفوظات میں آیا ہے خواہ اس کا مطالعہ کیسا ہے وسیع کیوں نہ ہو جن کتابوں کے نام کتب ملفوظات کی زینت ہیں وہ فرضی نہیں واقعی ہیں جن کا مطالعہ وسیع ہے وہ جانتے ہیں کہ ان میں سے اکثر کےنام کتبِ قدیمہ ملتے ہیں، ان کو فرضی تصور کرنا اپنی لا علمی کا ثبوت ہے۔

    تاریخی قدریں :- کسی واقعہ کا تاریخ سے وابستہ ہونا اور تاریخی اندراج کا صحیح ہونا با شبہ واقعہ کو تقویت بخشتا ہے، اہلِ علم انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، قطع نظر اس سے کہ تاریخ میں متعدد واقعات مختلف فیہ ہوتے ہیں اور تاریخی اندراجات بھی مختلف ہوتے ہیں لیکن تاریخی اختلاف کی بنا پر کسی واقعہ سے اور نفسِ واقعہ سے انکار نہیں کیا جاتا بلکہ صحت کی طرف رجوع کرنا ہوتا ہے۔

    کتب ملفوظات میں سے اگر کسی نسخے میں واقعہ کے ساتھ سنہ اور تاریخ وغیرہ صحیح نہیں ہے تو تصحیح کی طرف متوجہ ہونا چاہئے، واقعہ کا انکار کیسے کیا جاسکتا ہے یہ علمی و تحقیقی نقطۂ نظر ہے جو علمی دنیا میں مروج ہے، غلط تاریخی اندراج کی بنا پر کسی کتاب کو جعلی قرار نہیں دیا جاسکتا، اگر صحت کا نقطۂ نظر یہی قرار پائے تو ملفوظات ہی کیا بہت بڑا علمی ذخیرہ جعلی قرار پائے گا، اس لئے اہلِ علم اہلِ نظر اس روش پر کارفرما نہیں ہیں۔

    ملفوظات سے دلچسپی رکھنے والے خاص ہوں یا عام معدودے چند کے سوا تاریخی قدروں سے دلچسپی نہیں رکھتے، ان کے دل و دماغ نفس واقعہ سے متاثر اور کیف اندوز ہوتے ہیں اور ہدایت کی نعمت سے سرفراز ہوتے ہیں، انہیں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ کوئی واقعہ کب ہوا کس دن ہوا، کس تاریخ کو ہوا، کس مہینہ میں ہوا اور کس سنہ میں پیش آیا، یہ سوال اٹھتا ہی نہیں ہے، ان کے دل و دماغ روحِ واقعہ سے متعلق رہتے ہیں۔

    بلا شبہ تاریخی صحت نہایت کارآمد اور مفید ہے، خصوصاً ان کے لئے جو تاریخ سے دلچسپی رکھتے ہیں، اصلاح کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں اور صحت مند معلومات فراہم کی جاسکتی ہیں لیکن جن کتابوں کا وجود صدہا دل سے پایا جاتا ہے ان میں اگر کسی تاریخی واقعہ میں سقم پایا جائے تو اُن کو جعلی قرار دینا صحیح نہیں یہ بھی کوئی اصول نہیں کہ اگر کسی کتاب کا کوئی قدیم ترین نسخہ دسیتاب نہ ہوسکے یا متداول کتابوں میں اس کا ذکر نہ ملے تو اس کے وجود ہی سے انکار کر دیا جائے اگر یہی اصول ہے تو دُررِ نظامی کے وجود سے سب سے پہلے انکار کیا جائے گا جس کا قدیم ترین نسخہ جو دستیاب ہوا ہے وہ قیاساً بارہویں صدی ہجری کا مکتوبہ ہے اور کہیں کہیں معلومات بھی مشتہ ہیں جس سے یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ دُررِ نظامی بھی الحاق و تحریف سے محفوظ نہیں ہے حالانکہ تنقیدنگار کے نزدیک دُررِ نظامی کا شمار نہایت درجہ مستند کتابوں میں ہے۔

    بہر حال! کتب ملفوظات جو ہم تک پہنچی ہیں وہ داخلی دلچسپی کی بدولت پہنچی ہیں جس میں بلا امتیاز عقیدت مندوں کی دلچسپی کو دخل ہے، علماء کی دلچسپی کے نقوش خال خال ملتے ہیں، غالباً اس لئے کہ ان میں درسِ عمل ہے اور عالمانہ قیل و قال نام کو نہیں ہے، بہر حال! ہم ان عقیدت مندوں کی دلچسپی کے مرہونِ منت ہیں جن کی بدولت ہم اپنے قدیم روحانی اور تہذیبی سرمایہ سے فیض یاب ہیں۔

    ان حالات میں تاریخی قدروں کا برقرار رہنا کچھ یقینی نہیں لہٰذا ان کے در پے ہونا معقولیت سے بعید ہے، البتہ صحت کی جانب توجہ کی سکتی ہے اور یہ ایک اچھی کوشش ہوگی۔

    ملفوظات کی مقبولیت:- ملفوظات میں کچھ ایسی جاذبیت اور کشش ہے کہ گونا گوں خامیوں کے باوجود پڑھنے اور سننے والے ان سے محظوظ اور لطف اندوز ہوتے ہیں، بسا اوقات وہ عالمِ کیف و سرور میں کھوسے جاتے ہیں، ان کا دل وہ جگہ چاہتا ہے، جہاں نور و سرور ہی ہو اور کچھ نہ ہو، ان سے ان کی روح کو ایسی طمانیت نصیب ہوتی ہے جو کسی نعمت سے کم نہیں وہ اللہ کے سوا سب کچھ بھول جاتے ہیں، انہیں اپنے حال پر ندامت ہوتی ہے، اصلاحِ حال کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، انہیں ہدایت نصیب ہوتی ہے اور نور و سرور بھی، مجھے در اصل ملفوظات ہی نے مسلمان بنایا اور بنائے رکھا ہے اس مادی دور میں ملفوظات کی یہ تاثیر حیرت انگیز ہے مگر

    ایں سعادت بزور بازو نیست

    تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

    حضرت محبوبِ الٰہی کی مجلس میں سبیل تذکرہ ایک صاحب نے بیان کیا کہ ایک صاحب تھے جو صلاحیت بھی رکھتے تھے اور درویشوں کی خدمت میں خوب کیا کرتے تھے ایک دن میں نے اُن سے کہا کہ آپ ہمارے حضرت سے بیعت کیوں نہیں ہوجاتے انہوں نے کہا کہ ایک دن بیعت ہونے کے اردے سے گیا تھا مگر کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں خوان پوش ہی خوان پوش جمع ہیں اور مشعلیں روشن ہیں یہ منظر دیکھ کر مجھے عقیدت نہیں رہی، میں چلا آیا، حضرت محبوبِ الٰہی نے حاضرینِ مجلس کی طرف رُخ کیا اور فرمایا کہ یہاں خوان اور مشعلیں کب تھیں پھر مسکرائے اور فرمایا یہ نعمت مقدر میں نہ تھی تو بیہ کچھ دکھا دیا۔ (فوائد صفحہ 25)

    ایک زمانہ تھا کہ عام و خاص کو ملفوظات کے پڑھنے اور سننے میں بڑا ہی شغف تھا، خواندہ اشخاص کو اپنی مشغولیت سے جب وقت ملتا تو مطالعہ کرتے ہی تھے، خواص کے ہاں رات کو جو نششت ہوتی تھی اس میں بھی اؤلیا اللہ کا ذکر رہتا تھا، ان میں شریک ہونے والوں کے دلوں میں اللہ کی یاد تھی، میرے بچپن میں ولی کے کارخانہ داروں کا دستور تھا کہ وہ جاڑوں کی راتوں میں مل بیٹھتے، خانے ہی میں جمع ہو جاتے، نوجوان ہوتے تو قصے کہانیاں ہوتیں، قصہ چہار درویش پڑھا اور سنا جاتا، بوڑھے بزرگ اور سن رسیدہ ہوتے تو کسی سے ملفوظات پڑھواتے، سنتے اور سنواتے گاہِ بگاہ میں بھی پکڑ میں آجاتا تھا اگر پڑھنے والا نہ ملتا تو کوئی بزرگ خود بیان کرتے، سنتے سنتے انہیں بھی واقعات ازبر ہوتے تھے، مزے لے لے کے خوب سناتے تھے، کوئی شوخ کہہ بھی بیٹھتا استاد تو اچھے خاصے مولوی ہیں، وعظ بھی کہیں تو جچ جائے بہرحال! افکار دنیا سے دم بھر کے لئے چھٹکارا مل جاتا اور نہیں ایسا لگتا کہ وہ نور کی دنیا میں آبسے ہیں، بے ساختہ کہہ اٹھتے۔

    نور کی دنیا میں اب رہتے ہیں ہم

    دل کے ہاتوں منزلت پائی بہت

    یہ ذوق اتنا بڑھا ہوا تھا کہ ان پڑھ چھے چھے خوشنویسوں سے ملفوظات نقل کراتے سنہری درپی جدولیں نبواتے خوشنما چربی جلدیں بنواتے، ان پر بھی رنگ برنگی گلکاری کراتے، جزدانوں میں رکھتے اور بڑے احترام سے رکھتے اور نکالتے تھے، لوبان کی دھونی دیتے، کوئی نامی گرامی عالم یا ایسا ہی کوئی پڑھا لکھا آ نکلتا تو اسے اپنے گھر یا اپنے کارخانے میں لے جاتے عزت سے بٹھاتے، آؤ بھگت کرتے اور بڑے فخر سے وہ مجموعۂ ملفوظات اسے دکھاتے جب وہ حروف کی نوک پلک، کشش و دوائر کی تعریف کرتے تو مجھے حیرت ہوتی یہ تو اَن پڑھ ہیں، میں ہی نہیں جانتا، انہیں آگاہی کیسے ہوئی میں دیکھتا اور غور سے دیکھتا اور سنتا کہ کس کس کی کیا تعریف کر رہے ہیں، حیران رہ جاتا، بول کیا سکتا تھا ان آنکھوں نے ایسے ایسے خوش عقیدہ دیکھے ہیں جن کی یاد سے آج بھی روح میں اسرار پیدا ہوتا اور جی بھر آتا ہے، اللہ پاک اُن کی مغرفت فرمائیں اور اُن کے صدقے میں ہماری بھی۔

    والدِ مرحوم کا معمول:- والد مرحوم (سید محمد ابراہیم حسنی حسینی) نہ تو سجادہ نشین تھے نہ کسی درگاہ کے خادم و مجاور، اُن کا تعلق محنت کش طبقہ سے تھا، البتہ صاحبِ ذوق اور صاحبِ نسبت تھے، مجاز بھی تھے مگر پیری و مریدی پیشہ نہ تھا، علماء صوفیہ اور شرفا غرض کہ عوام و خوص سب ہی سے میل جول تھا۔

    مصرع : دل بیار و دست بکار

    پر عمل تھا، ان کو معلوم یہ تھا کہ وہ رمضان المبارک میں روزہ مردانہ میں افطار کیا کرتے تھے، عصر کے بعد سے معمولاً ملفوظات کا مطالعہ فرماتے، رفتہ رفتہ احباب آ جمع ہوتے تو آواز سے پڑھنے لگتے اور نہ خاموش مطالعہ فرماتے رہتے تھے، عجب سماں ہوتا تھا، رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ، عصر و مغرب کا درمیانی وقت، روزے کا کیف روح میں تازگی اور بالیدگی، ایسا لگتا تھا کہ یہ فرشتے ہیں یا نور کے پتلے، چہروں پر معصومیت اور نورانیت، ایسے بیٹھے سنتے، جیسے ہی نہیں مجلس سنسان ہُوکا میدان ہے، گاہِ بگاہ گریہ طاری ہو جاتا، یا آنسو ڈبڈبا آتے، دل کا کیا عالم ہوگا اللہ ہی بہتر جانتا ہے یا کچھ وہی جانتے ہوں گے، اللہ سے لو لگی ہوتی اور زبان پر اللہ اللہ ہوتا کبھی کبھی درد بھری آہ بھی سننے میں آجاتی، میں بیٹھا منہ تکتا رہتا اور زبانِ حال سے کچھ کہتا سنائی دیتا ہے۔

    بِکَن پنبۂ غفلت از گوشِ ہوش

    کہ از مردگاں پندت آید بگوش

    میری آنکھوں نے سالہا یہ سماں دیکھا ہے، ملفوظات سے مجھے جو اُنسیت ہے وہ مجھے ورثہ میں ملی ہے، مان لیجئے گھٹی میں پڑی ہے۔

    عہدِ حاضر میں ہندو پاک کے تنقیدنگار ملفوظات پر جو کچھ لکھ رہے ہیں وہ تنقیدیں نہیں تنقیصیں معلوم ہوتی ہیں، بارگاہِ الٰہی میں میری التجا ہے کہ تخریب سے یہ لوگ در گذریں اور تعمیر میں لگ جائیں۔

    ملفوظات ہماری تہذیب رفتہ کا گراں قدر سرمایہ ہے جو اب بھی ہمارے سرمۂ چشم ہو، اس سرمایہ کا ضائع ہونا قوم و ملت کا ناقابلِ تلافی نقصان ہے، ان کی قدامت اور عام و خاص میں اُن کی مقبولیت رازِ سربستہ ہے جو ہمیں دعوتِ عمل دیتا ہے، یہ صحیح ہے کہ ملفوظات کے جو نسخے دستیاب ہوتے ہیں وہ خامیوں سے مبرّا نہیں مگر وہ خامیاں ایسی بھی نہیں جو رفع نہ ہوسکیں، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ قدیم سے قدیم نسخوں کا کھوج لگائیں اور نقد و مقابلہ کی صیقل سے اصل کا آئینہ بنا دکھائیں، چودہویں صدی کی یہ جیتی جاگتی کرامت ہے کہ جن کتبِ ملفوظات کے وجود سے انکار کیا جارہا ہے اور جنہیں جعلی قرار دیا جارہا ہے اور جنہیں مابعد کے کسی شخص کے ذہن کی خلاّقی کا نتیجہ بتایا جارہا ہے(صفحہ 140) ان کے قدیم ترین (سن 732 ہجری تک کے) نسخوں کا سراغ ملنے لگا ہے اور جنہیں معتبر و مستند بتایا جا رہا ہے، بارہویں صدی تک پہنچ کر اُن کے نشانِ قدم کا کھوج نہیں ملتا، بارہویں صدی تک بھی جو کھوج ملتا ہے وہ ظنّی اور قیاسی ہے حقیقی نہیں ہے، یہ امداد غیبی بھی ہے اور پیرانِ با صفا کی کرامت بھی ہے اور عقیدت مندوں کے لئے دعوتِ ایثار و عمل بھی ہے، دیکھئے پردۂ غیب سے کیا نمودار ہوتا ہے اور کون یہ سعات حاصل کرتا ہے۔ (یخلق ما یشاء و یختار)

    تصنیف وتالیف:- کسی موضوع یا کسی عنوان سے متعلق معلومات فراہم کر کے اپنے خیالات اور اپنی معلومات کو سلیقے سے سپردِ قلم کرنا تصنیف ہے، تصنیف کسی اہلِ قلم کی ذاتی جد و جہد اور اس کے اپنے خیالات و رجحانات کا مرقع ہوتی ہے، مصنف ہی اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

    تالیف عرف عام میں مختلف مضامین (نثر و نظم) کو ایک جا جمع کرنے کو لائف کہتے ہیں اور تالیف کرنے والے کو مؤلف کہتے ہیں، مؤلف کسی ایک شخص کے مضامین کو بھی جمع کرسکتا ہے اور مختلف اشخاص کے مضامین کو بھی، کتب ملفوظات کو بھی تالیف سے تعیبر کرتے ہیں، اگرچہ بہم ہلکا سا امتیاز بھی ہے اور وہ یہ کہ مؤلف مرتب شدہ مضامین کو جمع کرتا ہے جو کسی ایک سے مخصوص ہوتے ہیں یا زیادہ سے مگر کتبِ ملفوظات میں سے ہر ایک کسی ایک ہی کی آواز بازگشت ہوتی ہے جس کو سُن کر مرتب کیا جاتا ہے، اس لئے بغرض امتیاز ملفوظات کے مرتب کرنے والے کو جامع بھی کہتے ہیں۔

    جامع ملفوظات:- جامع ملفوظات کو استحاق ہوتا ہے کہ اگر دورانِ گفتگو میں کوئی واقعہ پیش آ جائے تو اس کو روداد بھی ضبطِ تحریر میں لے آئے مثلاً فلاں آیا، مقرر اس کی طرف متوجہ ہوا اور اس سے یہ گفتگو ہوئی یا فلاں نے یہ سوال کیا اور اس کا یہ جواب دیا، اس اعتبار سے مفلوظات کی نہ تو وہ نوعیت رہتی ہے جو ان مضامین کی ہوتی ہے جنہیں مؤلف تالیف کرتا ہے اور نہ تقریر مسلسل ہی کی نوعیت برقرار رہتی ہے، اس لئے ملفوظات بہ بعینہِ تقریر ہوتے ہیں اور نہ بعینہِ تالیف، جامع ملفوظات بھی اس اعتبار سے قدرے مؤلف سے ممیز ہوتا ہے لیکن عرف عام میں ملفوظات کو تالیف سے اور جامع کو مؤلف سے بھی تعبیر کرتے ہیں تاہم یہ امتیازات ذہن میں محفوظ رہنے چاہئیں۔

    ملفوظات کو اُن یاد داشتوں کے مثل جاننا بھی صحیح نہیں جو اساتذہ درس کے دوران کسی عنوان سے متعلق طلبہ کو لکھواتے ہیں، اس لئے کہ وہ تقریر نہیں بلکہ مضمون مسلسل ہوتے ہیں جو اکثر مرتب کئے ہوئے ہوتے ہیں، خواہ وہ زبانی بیان کئے جائیں ان کی نوعیت ہرگز تقریر کی سی نہیں ہوتی پھر وہ عموماً وقتی اور ہنگامی ہوتے ہیں مگر ملفوظات جب تک وہ محفوظ رہ سکتے ہیں، شمعِ ہدایت ہوتے ہیں اس مختصر معلومات سے مجموعۂ ملفوظات کی نوعیت واضح ہوجاتی ہے کہ وہ تصنیف نہیں ہوتے اور ان پر تالیف کا بھی پورا اطلاق نہیں ہوتا اور یہ غلط فہمی رفع ہوتی ہے۔

    بخوبی ممکن ہے اس کا سبب یہی رہا ہو کہ ہمارے شیوخ نے کتابیں لکھی ہیں تو ہم کیوں تصنیف و تالیف کی طرف التفات کریں، متابعت کاملہ شیخ اور اتحاد مطلب کا ان بزرگوں کے ہاں اتنا ہی اہتمام ہوتا تھا۔۔۔ یہ ذاتی یادداشت تھی، اسے کتابی صورت میں مرتب کر کے شائع کرنے کا کبھی ارادہ نہیں تھا۔

    (منادی دہلی، صفحہ 136 بابا فرید نمبر جلد 49 شمارہ 6،5،4 سن 1974 عیسوی)

    مجموعۂ ملفوظات کو تصنیف و تالیف سے تعبیر کرنا صحیح نہیں، متابعت شیخ اور اتحاد مطلب کا بھی وہ مدعا نہیں جو تنقیدنگار سمجھتے ہیں اگر یہی مطلب ہوتا تو حضرت محبوبِ الٰہی یہ کیوں فرماتے:-

    سہ چیش کہ شیخ بیر۔۔۔ را میسّر من نمی تونم کرد اوّل آن کہ ہر روز غسل کردے الخ (سیرالاؤلیا، صفحہ 386)

    حضرت محبوبِ الٰہی کا ارشاد ہے نسخہ کردم اس کا مدعا یہی ہے کہ آپ نے حضرت بابا صاحب کے ملفوظات کو کتابی شکل میں مرتب فرمایا تھا، کون کہہ سکتا ہے کہ شائع کرنے کا ارادہ نہ تھا، حضرت محبوبِ الٰہی کے دل کی بات آج کون جان سکتا ہے۔

    نوشتہ کا اطلاق:- نوشتہ کا اطلاق ہر تحریر پر ہوتا ہے، تصنیف و تالیف، نقل کتاب، یادداشت، قطعہ، طغرار، مراسلہ، رقعہ، دستاویز، کتبہ۔۔۔ نظم و نثر سب ہی تحریریں نوشتہ میں شمار ہوتی ہیں، البتہ قرینے سے اطلاق کا امتیاز ہوتا ہے، 15 محرم سن 710 ہجری کی مجلس میں خواجہ امیر حسن علا سنجری نے ذکر کیا ہے۔

    عزیزے حاضر بود، عرض داشت کرد کہ مرا در اودھ مردے کتابے نمود گفت کہ ایں بنشتۂ خدمتِ مخدودم است خواجہ ذکرہ اللہ با لخیر گفت کہ تفاوت گفتہ است من ہیچ کتابے نہ نوشتہ ام

    ترجمہ:- ایک دوست تھے، انہوں نے عرض کیا کہ ایک شخص نے اودھ میں مجھے کتاب دکھائی (اور) کہا کہ یہ حضرت والا کی لکھی ہوئی ہے، آپ نے فرمایا اُس نے تفاوت (فرق) سے کہا ہے، (دو چیزوں کے درمیان دوری ہے فرق ہے) میں نے کوئی کتاب نہیں لکھی ہے۔

    یہ بیان واضح نہیں مبہم ہے، نوشتہ کا مفہوم وضاحت طلب ہے، تفاوت گفتہ سے بھی اس خیال کی تائید ہوتی ہے کہ نوشتہ کا مفہوم مبہم ہے، مطلب یہ ہے کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ لکھا ہے مگر وہ کتاب نہیں لکھی جو اس کے تصرف میں ہوسکتی ہے کیونکہ مجموعی طور پر شتہ سے انکار کیا ہی نہیں جاسکتا تھا، ایسا لگتا ہے کہ اسمی مماثلت سے کسی کو شبہ ہوا تھا، تاہم جس خیال سے یہ بات کہی گئی تھی، حضرت محبوبِ الٰہی نے کمالِ بلاغت سے اسی کے لفظ کو منفی صورت میں دہرایا تاکہ نوشتہ کا جو مفہوم اس کے ذہن میں تھا، کلیۃ اس کی تردید ہو جائے، کتابے سھی بھی اس کے معہود ذہنی کی نوعیت واضح نہیں ہوتی کہ وہ کس موضوع سے متعلق تھی تصنیف تھی یا تالیف تھی۔

    من ہیچ کتابے نہ نوشتم

    سے اسی خیال کی تائید ہوتی ہے ورنہ لکھنے کو تو آپ نے کیا کچھ نہ لکھا ہوگا، حضرت بابا صاحب کے ملفوظات بھی لکھے تھے جنہیں بصورت کتاب ہی مدون فرمایا تھا، آپ کا ارشاد ہے:-

    ہر چہ از شیخ شنودہ شد، نوشتم، چوں بمقام خود باز آمدم برجائے نسخہ کردم ۔۔۔ تا ایں غایت آن برمن است

    (فوائدالفواد، صفحہ 30)

    یہ کہ نسخہ کردم کیا ہے؟ کتاب نہیں لکھی تھی تو اور کیا لکھا تھا مگر ہیچ کتابے نہ نوشتم کا مدعا یہ ہے کہ معہود ذہنی جیسی میں نے کوئی کتاب نہیں لکھی ہے گویا کہ یہ جملہ معہودِ ذہنی سے متعلق ہے وہ سب تحریریں مستثنیٰ ہیں جو آپ کے قلم سے نکلی تھیں، یہ جملہ تمام تحریروں سے متعلق نہیں ہے نہ ہوسکتا ہے، امیر خورد کرمانی نے لکھا ہے کہ جو سوال صوفی حمید الدین ناگوری سے کئے گئے تھے اور جو انہوں نے جواب دیئے تھے وہ آپ نے ایک کتاب کے حاشیہ پر لکھے تھے، (سیرالاولیا، صفحہ 160) جو حال ہی میں پاکستان میں رسالۂ سوال و جواب کے نام سے شائع ہوچکے ہیں، شمال الاتقیاء جو آپ کے بزرگ خلیفہ شیخ برہان الدین غریب کے ایما سے مرتب ہوئی تھی، اس میں رسالہ قوام العقائد آپ کی تصنیف سے فہرستِ ماخذات میں موجود ہے، اس نکتے کو سمجھ لینے کے بعد کوئی الجھن باقی نہیں رہتی۔

    خیرالمجالس کے بیانات:- خیر المجالس کے جامع مولانا حمید الدین قلندر ہیں جو شیخ برہان الدین غریب کے ملفوظات کے بھی جامع ہیں، خیر المجالس کی زبان شُستہ و رفتہ ہے، البتہ اقل قلیل کہیں کہیں بیان میں گنجلک اور بے ربطی ہے، ایسا لگتا ہے کہ کمخواب میں ٹاٹ کا پیوند ہے اگر وہ بیان ان ہی کا ہے تو محلِ استعجاب ہے ورنہ مجموعی طور پر کتاب دلچسپ ہے۔

    1. گیارہویں مجلس میں ہے کہ کسی شخص نے مخدوم نصیر الدین چراغ دہلی سے حضرت خواجہ عثمان ہارونی کے ایک ملفوظات کے متعلق دریافت کیا۔ (جس کا ذکر آئندہ آئے گا) تو آپ نے فرمایا:-

    ایں ملفوظات ذیشاں نیست ایں نخسہا برمن ہم رسیدہ است و دراں بسیار الفاظ است کہ مناسب اقوال ایشاں نیست (خیرالمجالس، صفحہ 52)

    ترجمہ :- یہ ملفوظات ان کا نہیں ہے، یہ نسخے مجھے بھی پہنچے اور ان میں بہت سے لفظ ہیں کہ جو ان کے اقوال کے مطابق نہیں ہیں۔

    اس بیان میں مجموعۂ ملفوظات کے وجود سے انکار نہیں ہے، البتہ تحریف و الحاق کی نشاندہی ہے جو امکانی ہے، اس بیان میں حرف عطف بھی بلا ضروت ہے، غالباً اس بیان کی روشنی میں مولانا حامد جمالی (المتوفیٰ 942 ہجری) نے لکھا ہے:-

    نقل است از حمید قلندر کاتب ملفوظ خیرالمجالس۔۔۔ فرمودند کہ ایں نسخہ ہا برمن رسیدہ اند، حاشا کہ از ایشاں ہاشد، در آں جا بسیار کلمات مجاوراں و معتقداں ہا وقوف نوشتہ اند کہ ہرگز موافق احوال و عمالِ ایشاں نیست (سیرالعارفین، صفحہ 95)

    کتاب خیر المجالس کے کاتب حمید قلندر سے نقل ہے، انہوں نے فرمایا کہ یہ نسخے مجھے پہنچے ہیں جو ہرگز ان کے نہیں ہیں(کیونکہ) ان میں بہت سے کلمات مجاوروں اور معتقدوں نے جان بوجھ کر لکھ دئے ہیں جو ہرگز ان کے اقوال و اعمال کے مطابق نہیں ہیں۔

    مولانا حامد جمالی نے اگرچہ بات کو بڑھا دیا ہے اور معتقدوں اور مجاوروں کو الحاق و تحریف سے متہم گردانا ہے جو مخدوم نصیر الدین چراغ دہلی کے بیان میں نہیں ہے مگر قرین قیاس ہے تاکہ ان کے بیان میں بھی مجموعۂ ملفوظات کے وجود سے انکار نہیں ہے، مولانا حامد جمالی کے بیان کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ وہ بے جان اشیاء کی جمع کے لئے فعل جمع لاتے ہیں جو خلاف فصاحت اور مولانا حمید قلندر کی روش سے ممیز ہے۔

    سوال کا جواب تو ختم ہوچکا ہے، تشنہ تکمیل نہیں ہے لیکن بعد ازاں کے بعد یہ لکھا ملتا ہے۔

    فرمودند کہ خدمت شیخ نظام الدین

    انہوں نے فرمایا کہ

    حضرت محبوبِ الٰہی فرمود کہ من ہیچ کتابے نہ نوشتہ ام زیرا کہ خدمتِ شیخ الاسلام فریدالدین و شیخ الاسلام قطب الدین و خواجگانِ چشت قدس اللہ ارواحھم واز مشائخِ شجرۂ ماہیچ شیخے تصنیف نہ کردہ اند (خیر المجالس صفحہ 52)

    انہوں نے فرمایا کہ حضرت محبوبِ الٰہی نے فرمایا کہ میں نے کوئی کتاب نہیں لکھا ہے اس لئے کہ شیخ اسلام قطب الدین نے اور خواجگانِ چشت قدس اللہ ارواحہم نے اور ہمارے شجرے کے مشائخ میں سے کسی شیخ نے تصنیف نہیں کی ہے۔

    اس بیان کا آخری جملہ از مشائخ شجرۂ الخ۔ میرے ذوق پر گراں گزرتا تھا جو حشوِ قبیح ہے، حاشیۂ کتاب مذکور دیکھنے سے پتہ چلا کہ معلومہ ایک قدیم نسخے میں یہ جملہ نہیں ہے، اس سے خیال کو تقویت اور ذوق کو طمانیت ہوئی اور یہ بات کھل گئی کہ یہ جملہ بیان کی تقویت کے لئے بعد میں اضافہ کیا گیا ہے جس نے بیان کو گنجلک اور مشتبہ کردیا ہے اور جو حشوِ قبیح ہے وہ جملہ جو حضرت محبوبِ الٰہی سے منقول آور بیان کے آغاز میں ہے۔ (فوائدالفواد، صفحہ 45) میں بھی ہے جس کے فعل نہ نوشتہ ام کی وضاحت کی جاچکی ہے کہ اس سے مراد مخصوص کتاب سے انکار ہے، جملہ تحریرات سے انکار نہیں ہے، اسے کسی اور تحریر کے لئے بنیاد بنانا اور نوشتہ کے مفہوم کو تصنیف کے لئے مخصوص گرداننا کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟ کسی بیان سے وہ معنی مراد لینے جو قائل کا مدعا نہیں، تفنن طبع کے بطور تو بیشک روا ہے ورنہ اس کی گنجایش کہاں ہے پھر اسے عبارتِ مابعد کے لئے دلیل بنانا اور عبارتِ مابعد کو جملۂ مذکورہ سے مربوط ظاہر کرنا جو فوائدالفواد میں بھی نہیں ہے، ہرگز صحیح نہیں ہے یہ عبارت جو گونا گوں معائب سے ہم آغوش ہے، کون کہہ سکتا ہے کہ مولانا حمید قلندر جیسے شائستہ نگار اہلِ قلم کے قلم سے نکلی ہے یا نکل سکتی ہے یا مخدوم نصیر الدین چراغ دہلی کی فرمودہ ہوسکتی ہے جو متضاد ہے اور ادبی اسقام کی حامل ہے۔

    یہ دونوں بیان بہم متضاد ہیں، پہلے بیان میں ہے

    در آں بسیار الفاظ است کہ مناسب اقوال ایشاں نیست دراں بسیار الخ

    سے کوئی نسخہ جعلی نہیں قرار پاسکتا، نہ کسی کے وجود سے انکار مانا جاسکتا ہے مگر دوسرے میں صریحاً انکار ہے، لطیفہ یہ ہے کہ مضمون ملفوظات سے متعلق ہے مگر انکار ہے تصنیف سے، یہ نثر نگار کیا اتنا بھی نہیں جانتا کہ مجموعۂ ملفوظات میں اور تصنیف میں زمین آسمان کا فرق ہے اگر یہ مان لیا جائے کہ اس بیان کا تعلق محض تصنیف سے ہے تو بھی تسلیم کرنے کی یہ تکلف ہی گنجائش نکلے گی کیونکہ معتبر ماخذات میں جو خواجہ حسن بصری کی تفسیر اور رسالہ ابراہیم کا اور رسالہ شیخ علو دینوری کا ذکر ملتا ہے مگر یہ روشن ناپسندیدہ ہوتی تو شیخ جمال الدین ہانسوی کی تصنیفات کا ذکر کیوں ملتا اگر کتب ملفوظات کے وجود سے انکار ہی مقصود تھا تو ایک کے بعد دوسرے بیان کی اور دران بسیار الفاظ الخ۔ کے کھڑا ک میں پھنسنے کی ضرورت ہی کیا تھی، ایک ہی جملے میں کام تمام تھا کہہ دیا ہوتا کہ :-

    کتب ملفوظات کہ از مشائخ مامنسوب کردہ اند، از ایشاں نیست

    نہ تو حضرت محبوبِ الٰہی کے بیان کو دلیل بنانے کی ضرورت تھی اور نہ مشائخ شجرۂ ما کا بدنما پیوند لگانے کی ضرورت تھی نہ بے امتیازی سے مجموعۂ ملفوظات کو تصنیف کہنے کی ضرورت تھی جو عجز معلومات کا بدنما داغ ہے یہ کھڑاک غماز ہے کسی اور ہی کارستانی کا۔

    مصرع : شب کی خبر دیتی ہے آنکھ شرمائی ہوئی

    اس بیان کو میرے نزدیک مخدوم نصیر الدین چراغ دہلی سے منسوب سمجھنا یا منسوب بتانا نافہمی کی علامت ہے، مولانا حمید قلندر کو بھی متہم نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان کی کتاب میں عموماً یہ گنجلک اور ناہمواری نہیں ہے، حضرت مخدوم کو صاف ولی سے جو بات کہنی تھی کہہ دی تھی کہ در آں بسیار الفاظ است ان کے بیان سے ہر گز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ کتبِ ملفوظات کے وجود کے قائل نہ تھے۔

    مشائخ چشت رحمہم اللہ کی کتب ملفوظات سے انکار متقدمین سے ہرگز بھی ثابت نہیں بلکہ اس کے برعکس اقرار ثابت ہے۔

    مشائخِ چشت کی کتب ملفوظات سے انکار ہرگز قرین قیاس نہیں اور جعلی بتانا کھلی نادانی ہے اگر یہ کوئی حقیقت ہوتی تو شمائل الاتقیاء جو شیخ برہان الدین غریب کے ایماء سے تصنیف ہوئی، اس کی فہرست ماخذات میں ان میں سے اکثر کا ذکر کیوں ہوتا، شیخ برہان الدین غریب حضرت محبوبِ الٰہی کے بزرگ خلفاء میں سے تھے جن کی عمر کا طویل زمانہ حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمت و صحبت میں گذرا تھا، مخدوم نصیر الدین چراغ دہلی بھی انہیں عزیز و محترم جانتے تھے، ان کی وفات کے بعد تادم آخر ان کا عرس کرتے رہے وہ اپنے شیخ کے نظریات سے سرموت جاوز نہیں کرسکتے تھے اگر کتب ملفوظات جعلی ہوئیں تو ہر گز ان سے منسوب کرنا گوارا نہ کرتے۔

    امیر خورد کرمانی نے اسی خوشگوار روحانی ماحول میں پرورش پائی تھی اگر اس عہد میں کتب ملفوظات کو جعلی یا مشتبہ خیال کیا جاتا تو بعض ملفوظات کا ذکر ان کے زبان قلم پر کیوں آتا، اسی عہد میں مخدوم نصیر الدین چراغ دہلی کے مقتدر مرید مولانا محمد مجیر وجیہ ادیب نے مفاتح الجنان تصنیف فرمائی جس میں ملفوظات مشائخ چشت سے بھی استفادہ کیا ہے ان کے ماخذات میں خیر المجالس بھی ہے، مفاتح الجنان کو بنظر اصلاح شیخ کمال الدین علامہ نے بھی دیکھا تھا اگر خیرالمجالس میں یہ ازکار رفتہ بیان ہوتا تو اس سے وہ ضرور متاثر ہوتے اور اپنے شیخ کے نظریہ کو ہرگز نظر انداز نہ کرتے، تواتر سے ثابت ہے کہ عہد بہ عہد ثقہ اہل قلم کتب ملفوظات سے استفادہ کرتے رہے ہیں، جناب سید صباح الدین عبدالرحمٰن صاحب لکھتے ہیں:-

    حضرت شیخ شرف الدین منیری کا ابتدائی زمانہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا ہی کا تھا، ان کی وفات سن 783 ہجری میں یعنی حضرت نظام الدین اولیاء کے وصال 57 سال بعد ہوئی، ان کے مجموعۂ ملفوظات خوانِ پُرنعمت میں صاف طور پر ذکر ہے کہ شیخ عثمان ہارونی کے ملفوظات کو حضرت خواجہ معین الدین نے جمع کیا ہے، (صفحہ 88) اسی طرح ان کے مجموعۂ ملفوظات مخ المعانی میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے ملفوظات کے حوالے ہیں، (صفحہ 29-51) ان سے حضرت شرف الدین یحییٰ منیری نے استفادہ بھی کیا پھر شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے مطالعہ میں بھی یہ ملفوظات رہے، انہوں نے واضح طور پر اخبارالاخیار میں لکھا ہے کہ خواجہ بختیار اوشی نے حضرت خواجہ معین الدین قدس سرہ کے ملفوظات جمع کئے، (صفحہ 22-25) اور حضرت گنج شکر کے ملفوظات شیخ نظام الدین اولیاء نے مکتوب کئے

    (صفحہ 52)معارف اعظم گڑھ مارچ 1979 عیسوی)

    شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے مطالعہ میں بھی خیرالمجالس تھی، انہوں نےتین صفحے سے زیادہ اس سے استفادہ کیا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ کوئی بھی خیرالمجالس کے مذکورہ بیان سے متاثر نہیں نیز مشائخ چشت کی کتبِ ملفوظات سے متواتر آج تک استفادہ کیا جارہا ہے اور کوئی بھی جعلی مان کر انہیں نظر انداز نہیں کرتا، در آں حالیکہ مذکورہ بیان کو حضرت محبوبِ الٰہی سے منسوب اور مخدوم نصیر الدین چراغ دہلی سے منقول بتایا گیا ہے پھر بے اعتنائی کا سبب کیا ہوسکتا ہے؟ دو باتوں میں سے ایک بات ماننی ہوگی یا تو یہ بیان خیرالمجالس کے قدیم نسخوں میں نہیں ہے جو زیادہ قرین قیاس ہے یا اگر ہے تو جیسا بتایا جا چکا ہے کہ یہ وہ اونٹ ہے جس کی کوئی کل سیدھی نہیں، ثقہ اہلِ قلم نے اسے درخور اعتنائی نہیں سمجھا اور نظر انداز فرماتے رہے اگر ایسا کیا ہے تو یہ ان کی نکتہ دانی اور بصیرت باطنی کی دلیل ہے، البتہ چودہویں صدی کے تنقیدنگاروں کو یہ شگوفہ ہاتھ لگا ہے۔

    بہرحال! خیرالمجالس کی زیر بحث عبارت ہرگز لائقِ اعتناء نہیں اور اس کے پیشِ نظر مشائخِ چشت رحمہم اللہ تعالیٰ کی کتب ملفوظات کو جعلی قرار دینا درست نہیں۔

    جعلی کے واہمہ کو ذہن نشین کرانا:- اس واہمہ کو کہ کتب ملفوظات جعلی ہیں، ذہن نشین کرانے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کی گئی ہے، فوائدالفواد ہی کے بیان کو جس کا ایک جملہ اس سے پہلے بیان میں نقل ہوچکا ہے مسخ شدہ صورت میں دہرایا اور لکھا ہے:-

    بندہ عرض داشت کرد کہ در فوائدالفواد آمدہ است کہ شخصے بخدمت شیخ الاسلام شیخ نظام الدین قدس اللہ سرہ العزیز عرض داشت کرد کہ من برشخصے کتابے دیدہ ام از تصنیف شیخ خدمت شیخ فرمودند او تفاوت گفتہ است، من ہیچ کتابے تصنیف نہ کرد ام، خواجگانِ مانیز نہ کردہ اند، خواجہ سلمہ فرمودند، آرے خدمت شیخ، ہیچ کتابے تصنیف نہ کردہ است، باز بندہ عرض داشت کرد کہ ایں نسخہ ہا دریں وقت پیدا شدہ است، ملفوظات شیخ قطب الدین و شیخ عثمان ہارونی در حیات خدمت شیخ نہ بود؟ خواجہ فرمودند، نہ بود اگر بودے خدمت شیخ فرمودے و پیدا شدے (خیرالمجالس، صفحہ 53)

    قطع نظر اس سے کہ فوائدالفواد کے حوالے سے جو عبارت منقول ہے، بعینہ وہ فوائدالفواد میں نہیں ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پہلے ہی بیان میں یہ موجود ہے کہ خواجگانِ چشت و از مشائخ شجرۂ ما ہیچ شخصے تصنیف نہ کردہ است (صفحہ 52) تو اس سے تسلّی کیوں نہیں ہوئی، کیا کمی رہ گئی تھی جس کو رفع کرنے کے لئے مکرر دریافت کرنے کی ضرورت لاحق ہوئی؟ ہے کوئی جو یہ کہہ سکے کہ یہ سات سطری بیان تحصیل حاصل نہیں ہے جس سے کتاب کا اعتبار مجروح ہوتا ہے یہی دلیل ہے اور روشن دلیل ہے کہ جعلی کے واہمہ کو تقویت دینے اور ذہن نشین کرانے کی بے جا کوشش کی گئی ہے جس نے حقیقت کے چہرے سے نقاب الٹ دیا ہے، یہ بتایا جاچکا ہے کہ جو عبارت اس بیان میں فوائدالفواد کے حوالہ سے نقل ہے وہ بعینہِ فوائدالفواد کی عبارت نہیں ہے بلکہ مسخ شدہ ہے۔ اَنملِ بے جوڑ اور اغلاط کی دلدل ہے جس کا تجزیہ مناسب ہوگا۔

    متکلم کا بیان ہے من برشخصے کتابے دیدہ ام از تصنیف شیخ

    متکلم نے کہیں کسی کے پاس کتاب دیکھی، غالباً اسمی مماثلت سے اس کو شبیہہ ہوا اور وہ سمجھا کہ یہ شیخ کی تصنیف ہے، یہ رائے دیکھنے والے نے خود قائم کی ہے، یہ بات اسے کسی نے سکھائی یا بتائی نہیں ہے کہ یہ شیخ کی تصنیف ہے، اس جز کے متعلق اتنا ہی ذہن نشین رکھنا کافی ہے۔

    جملہ کا آخری حصہ ہے۔ از تصنیف شیخ یہ مبہم ہے، لفظ شیخ وضاحت چاہتا ہے کہ شیخ سے مراد کون بزرگ ہیں، یہ جملہ حضرت محبوبِ الٰہی کے روبرو بولا گیا ہے، قرینہ یہ بتاتا ہے کہ شیخ سے مراد متکلم کی حضرت محبوبِ الٰہی ہیں، محل گفتگو اور آدابِ مجلس کا اقتضا یہ ہے کہ شیخ کے ساتھ تعظیمی الفاظ کا اضافہ بھی ہوتا تاکہ دلالت تشنۂ تکمیل نہ رہتی خصوصاً اس لئے کہ حضرت محبوبِ الٰہی کی مجلس وہ مجلس تھی جہاں اچھے اچھے باکمال عجز و نیاز سے سربہ خم رہتے تھے، صرف شیخ کہنا اور حضرت محبوبِ الٰہی کے روبرو کہنا ہرگز مقتضائے حال کے مطابق نہیں ہے۔

    اس کے بعد اس بیان کا جواب ہے جو حضرت محبوبِ الٰہی کی زبانی نقل کیا ہے، یہ بھی فوائدالفواد کی مسخ شدہ عبارت ہے جس میں ایک جملہ کا اضافہ بھی ہے، یہ عبارت اغلاط سے پُر، بے محل اور کسی ایسے شخص کی مسخ کردہ ہے جو بالکل ہی مبتدی ہے بلکہ مبتدی سے بھی گیا گذرا ہے جو ہرگز مذکورہ بیان کا جواب نہیں، اسے بطور جواب کے حضرت محبوبِ الٰہی سے منسوب کرنا درست نہیں ہے وہ مبتدی جسے فارسی میں ذرا بھی شُد بُد ہے وہ بھی مذکورہ بیان کا یہ جواب نہیں دے سکتا جو حضرت محبوبِ الٰہی سے منسوب کر دکھایا ہے جو عالم و عارف زبان دان و اہلِ زبان اور برگزیدہ و عمر رسیدہ بزرگ تھے، جو اب یہ ہے:-

    او تفاوت گفتہ است، من ہیچ کتابے تصنیف نہ کردہ ام، خواجگانِ مانیز نہ کردہ اند

    متکلم مخاطب وموجود ہے پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ او تفاوت گفتہ است فعل بھی بصیغہ غائب وار ضمیر بھی بصیغۂ غائب، متکلم نے جو کچھ کہا ہے، اپنے صواب دید سے کہا ہے اس سے کسی نے کچھ کہا سنا نہیں ہے، ضمیر و فعل دونوں، بصیغۂ حاضر ہونے چاہئیں، افعال و ضمائر کی ایسی غلطیاں تو مبتدیوں سے بھی کم ہی ہوتی ہیں چہ جائیکہ کسی پڑھے لکھے سے صادر ہوں، حضرت محبوبِ الٰہی فرماتے تو کچھ اس طرح فرماتے :-

    تفاوت دیدہ، تفاوت می گوئی

    بلا شبہہ بہ تفاوت کثیرہ بعض جملے فوائدالفواد سے منقول ہیں، ناقل پہلے جملے کے محلِ استعمال سے ناواقف ہے، دوسرے جملے میں نہ نوشتہ ام کو تصنیف نہ کردہ ام کردیا ہے، تیسرے جملے کا اضافہ کیا ہے جو حشو قبیح ہے بلکہ افترار ہے، یہ ہے وہ ساری کائنات جو کتب ملفوظات کو جعلی بتانے کی بنیاد ہے، مولانا حمید قلندر سے تو یہ ہرگز توقع نہیں کہ وہ یہ بے سرد پا عبارت لکھتے، کہنے والا یہ کہتا ہے کہ میں نے یکھی ہے جو اب دینے والا کہتا ہے کہ وہ غلط کہتا ہے کیا منطق ہے، کہنا تھا:-

    تم نے غلط کہا ہے، ان دانشوروں پر جو اس بے ربط عبارت کو بنیاد بنا کر کتبِ ملفوظات کو جعلی بتا رہے ہیں، جناب سید صباح الدین عبدالرحمٰن صاحب کا یہ فرمانا بجا ہے:-

    یہ وہ لوگ ہیں جو ہماری مذہبی، روحانی اور ثقافتی وراثت کا تمسخر کر کے ہم کو اپنے ماضی کی عظمت سے بے گانہ کرنا چاہتے ہیں

    (معارف اعظم گڈھ، صفحہ 363-364 مئی سن 1979 عیسوی)

    تاکہ خالی الذہن ہو کے مادی قدروں کو آسانی سے قبول کرلیا جائے جو قومیں تنزل کے گڑھے میں گرنے لگتی ہیں یا گر چکی ہوتی ہیں، ان کے اسلاف کو اسی طرح ہدفِ ملامت بنایا جاتا ہے۔

    تراجم کی کیفیت:- مشائخ چشت کے ملفوظات کے جو تراجم دستیاب ہوتے ہیں وہ فارسی متن سے بھی زیادہ مخدوش اور غلط ہیں، وہ روایت جو حضرت خواجہ عثمان ہارونی کے مجموعۂ ملفوظات میں ہے وہ متن میں کس طرح ہے اور ترجمے میں اس کا کیا رنگ روپ ہے، دیکھنے کے لائق ہے فارسی متن میں ہے:-

    عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرد از رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہر کہ چہل مادہ گاؤ بسمل کند خون یک گانہ در نامۂ اعمال او بنویسندہ و ہر کہ دہ گو سفند بسمل کندیک خون بنامِ او بنویسندہ و ہر کہ دہ گو سفند بسمل کند یک خون بنامِ او بنویسند ہر کہ جانورے را بہوائے نفس بسمل کند ہمچناں باشد کہ ویراں کردن خانۂ کعبہ یاری کردہ باشد مگر بہ مجلسے کہ دراں روا باشد

    (انیس الارواح، صفحہ 27)

    ترجمہ :- عبداللہ بن مسعود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ جو چالیس گائیں زخمی یا ذبح کرتا ہے اس کے نامۂ اعمال میں ایک خون کا گناہ لکھتے ہیں اور جو دس بھیڑیں زخمی یا ذبح کرتا ہے اس کے نام ایک خون لکھتے ہیں جو کوئی کسی ایک جانور کو نفسانی خواہش سے زخمی یا ذبح کرتا ہے وہ ایسا ہے کہ اس نے خانۂ کعبہ کو ویران کرنے میں مدد کی ہے مگر جس کسی مجلس میں روا ہے۔

    اس روایت میں خونِ یک گناہ کی ترکیب محل نظر ہے، گناہِ یک خون مناسب ہوتی ہے۔

    یہ روایت بطور حدیث مروی ہے، صوفیا کرام کا حدیث کے باب میں مسلک یہ ہے کہ حالات اطلاق میں رہنے دیا جائے، حضرت محبوبِ الٰہی کا ارشاد ہے:-

    حدیثے کہ مردم بشنوند نتواں گفت کہ ایں حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نیست، اما ایں تواں گفت کہ در کتبے کہ ایں احادیث جمع کردہ اند و اعتبار یافتہ اند، نیامدہ است

    جو حدیث سنیں تو یہ نہ کہنا چاہئے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں ہے مگر یہ کہہ سکتا ہے کہ جن کتابوں میں انہوں (محدثیں) نے احادیث جمع کی ہیں اور وہ معتبر مانی گئی ہیں (ان میں یہ حدیث) نہیں آئی ہے۔

    لہذا اس حدیث کو حالت اطلاق میں رہنے دیا جائےگا، البتہ یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ ممکن ہے کہ اس مجموعۂ ملفوظات میں صحت کے ساتھ نقل نہ ہوسکی ہو، اس روایت کا ترجمہ مولوی غلام احمد بریاںؔ مرحوم نے یہ کیا ہے:-

    ترجمہ :- عبداللہ ابن مسعود نے حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ جو شخص چالیس گایوں کو ذبح کرے ایک خون اس کے نام لکھا جاتا ہے اور جو شخص سو بکریاں ذبح کرے اس کے نام بھی ایک خون تحریر کرتے ہیں اور جو شخص جانور کو ہوائے نفس سے ذبح کرتا ہے، اس کا حال ایسا ہے جیسا کہ اس نے خانۂ کعبہ کے ڈھانے میں مدد کی مگر ان کا ذبح کرنا اس محل میں روا ہے جہاں ان کا ذبح کرنا درست ہے۔

    (مجموعۂ ملفوظات خواجگان چشت ترجمہ انیس الارواح، صفحہ 30)

    خون یک گناہ کا ترجمہ کیا ہے، نامۂ اعمال کا ذکر ہی نہیں، دہ (دس) بھیڑوں کا ترجمہ سو (صد) بکریاں کیا ہے، بھیڑ بکری میں باعتبار لغت مضائقہ نہیں 'بھی' کا اضافہ ہے، جانورے کی یاد وحدانی یا تنکیری کا ترجمہ محذوف ہے، ویران کا ترجمہ ڈھانے کیا ہے، ویران لغت میں اجاڑ اور غیر آباد کو کہتے ہیں، ڈھانے کو نہیں کہتے، متن میں مجلس ہے جو غالباً کاتب کا سہو ہے، اس کا ترجمہ 'محل' قرین قیاس ہے، اصل اور ترجمہ میں جو فرق ہے وہ ظاہر ہے اسی روایت کا ذکر بقول مولانا حمید قلندر، مخدوم نصیر الدین چراغ دہلی کی مجلس میں آیا تھا اور اس طرح آیا تھا:-

    ایشاں (خواجہ عثمان ہارونی) فرمودہ اند ہر کہ دو مادۂ گاؤ ذبح کند یک خون کردہ باشد و ہر کہ چہار مادۂ گاؤ ذبح کندد و خون کردہ باشد و ہرکہ دہ گو سفند ذبح کندیک خون کردہ باشد و ہر کہ بست گو سقند ذبح کند دو خون کردہ باشد

    (خیر المجالس صفحہ 52)

    ترجمہ:- انہوں (خواجہ عثمان ہرونی) نے فرمایا ہے جو کوئی دو گائیں ذبح کرے اس نے ایک خون کیا اور جو چار گائیں ذبح کرے اس نے دو خون کئے جو دس بھیڑیں ذبح کرے اس نے ایک خون کیا جو بیس بھیڑ ذبح کرے اس نے دو خون کئے۔

    انیس الارواح میں چہل مادہ گاؤ ہے، خیرالمجالس میں دو مادہ گاؤ ہے، زمین و آسمان کا فرق ہے، لطف یہ ہے کہ جو صلہ چالیس کا ہے وہی دو کا ہے پھر دوگنی تعداد بیان کی ہے، اسی کے مطابق صلہ بتایا ہے، اس کی ضروت کیا تھی البتہ گوسفند بدستور ہے، بریاںؔ کی طرح سو (صد) نہیں بتا یا ہے مگر دوگنی تعداد اس کی بھی بیان کی ہے جو بالکل بے مصرف ہے، میں حیران ہوں کہ مخدوم نصیر الدین چراغ دہلی کی جناب میں ایسی گفتگو بھی ہوتی تھی پھر مولانا حمید قلندر جو اچھے انشاء پرداز تھے، انہوں نے کیسے گوارا کر لیا اور جوں کا توں نقل کر دیا جو بیان کا بھی نقص ہے اور انشاء کا بھی، البتہ یہ ممکن ہے کہ مخدوم نصیر الدین چراغ دہلی کی جناب میں نہ یہ ذکر آیا ہو اور نہ مولانا حمید قلندر نے اسے قلمبند کیا ہو اور یہ کسی ہی کی کارستانی ہو۔

    خیر المجالس کی روایت از اوّل تا آخر نا تمام ہے، یہ ذکر ہی نہیں کہ بطور حدیث اسے ذکر کیا ہے ورنہ ممکن تھا حضرت مخدوم کا جواب کچھ اور ہوتا اور بصیرت افروز ہوتا، اس سے تو یہ بیان مشتبہ ہوجاتا ہے کہ ایں نسخہ ہا برمن رسیدہ است اگر یہ صحیح ہے تو جواب ایسا ہوتا جس سے پوری روایت متاثر ہوتی، البتہ جس طرح بیان کیا گیا ہے اس کے متعلق یہ کہنا صحیح ہے کہ ایں ملفوظ ایشاں نیست کچھ بھی سہی یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ خیرالمجالس کی یہ روایت مخدوش ہے، واقہ کی صحیح عکاسی نہیں ہے اور خواجہ عثمان ہارونی سے مطلقاً منسوب بتانا دروغ بیانی ہے، خیرالمجالس کے مترجم مولوی احمد علی ٹونکی مرحوم نے یہ ترجمہ کیا ہے:-

    ایک عزیز نے اہل محل سے عرض کی کہ ملفوظ حضرت خواجہ عثمانی ہارونی قدس اللہ سرہ العزیز میں لکھا ہوا ہے کہ درویشوں کا مقولہ ہے کہ جو دوگائے ذبح کرے اس نے گویا دو خون کئے جو چار ذبح کرے گویا چار خون کئے اور جو چار گوسفند ذبح کرے اس نے گویا ایک خون کیا۔

    (سراج المجالس، صفحہ 35)

    کون کہہ سکتا ہے کہ یہ اسی عبارت کا ترجمہ ہے جو خیرالمجالس میں ہے، خیر المجالس میں دو گائیں ذبح کرنے کا صلہ ایک خون ہے جو اس ترجمہ میں دو خون ہو گیا ہے اور چار کے عوض دو خون کی بجائے چار خون ترجمہ فرمایا ہے، خیرالمجالس میں دس بھیڑوں کے ذبح کرنے کا صلہ ایک خون ہے، ترجمہ میں چار کے ذبح کرنے کا صلہ ایک خون ہے، فوائدالسالکین میں مثل حدیث مروی، خیرالمجالس میں خواجہ عثمان ہارونی کا مقولہ نہیں، مترجم نے درویشوں کا مقولہ بتایا ہے، غرض کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔

    اس ایک ہی روایت سے ترجمے کی کیفیت آئینہ ہوجاتی ہے، وہ کیسے دانشور ہیں جو ایسے ترجموں کو تنقیدلی بنیاد قرار دیتے اور لکھتے ہیں:-

    اس وقت میرے سامنے کوئی فارسی متن نہیں ہے، اس مضمون میں جتنے حوالے دیئے گئے ہیں وہ اس اردو ترجمہ کے ہیں جو ہشت بہشت کے نام سے سن 1957 عیسوی میں لاہور سے چھپا تھا اگر مترجم نے کہیں فارسی متن سے انحراف کیا ہو تو میں فی الوقت اس کی تصحیح سے قاصر ہوں۔

    (منادی دہلی صفحہ 160، حاشیہ بابا فرید نمبر جلد 49 شمارہ 6،5،4سن 1974 عیسوی)

    اصل فارسی کتاب میں نے دیکھی ہے مگر یہ مضمون لکھتے وقت میری دسترس میں نہیں ہے اگر مترجم نے کہیں ترجمہ میں غلطی کی ہو تو میں اس کی نشاندہی سے قاصر ہوں۔ (منادی دہلی، صفحہ 177 (حاشیہ)بابا فرید نمبر جلد 49 سن 1974 عیسوی)

    کتب ملفوظات کے فارسی متن کمیاب تو ہیں مگر نایاب نہیں، لائبریریوں سے بآسانی دستیاب ہوجاتے ہیں یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ کام کرنے میں کتنا وقت لگا اور کن حالات میں کیا گیا ہے بلکہ دیکھتے یہ ہیں کہ کیا کیا ہے اور کیسا کیا ہے؟ تنقید نگار لکھتے ہیں:-

    جعلی ملفوظات کے تمام ذخیرے کے انداز اور ترتیب میں حیرت انگیز یکسانی پائی جاتی ہے، چنانچہ انیس الارواح و دلیل العارفین فوائد السالکین، راحت القلوب، اسرارالاولیا، افضل الفوائد سب کا ایک سا ہی انداز ہے۔

    (منادی دہلی صفحہ 163 بابا فرید نمبر سن 1974 عیسوی)

    شاید اردو تراجم کو پڑھ کر انہوں نے یہ رائے قائم کی ہوگی، کہنے کا مدعا یہ ہے کہ تراجم کی حالت فارسی متن سے بھی گئی گذری ہے، تراجم کے مطالعہ سے رائے قائم کرنا ہرگز درست نہیں اور تراجم کی روشنی میں صحیح اور جائز بھی نہیں کہا جاسکتا۔

    وقت کا تقاضا:- وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ بزرگانِ دین کے سب ہی عقیدت مند اس ضرورت کو محسوس کریں اور مل کے بیٹھیں اور غور کریں کہ ملفوظات کے خلاف جو محاذ قائم کیا جارہا ہے، یہ کیوں؟ غور و فکر سے بات کی تہہ کو پہنچ جائیں گے اور تدارک کے لئے لائحہ عمل تجویز کرلیا جائے گا جو بالاتفاق طے ہوا، اس پر عمل کیا جائے تو خاطر خواہ یہ فتنہ فرد ہوسکتا ہے۔

    ہلکی سی تدبیر یہ ہے کہ قدیم ملفوظات کی فوٹو اسٹیٹ کاپیاں فراہم کی جائیں جو آسانی سے دستیاب ہوسکتی ہیں، ان کے باہمی مقابلے سے ان کی تصحیح کی جائے اور نہیں شائع کرایا جائے اور مختلف زبانوں میں ان کے تراجم بھی شائع کئے جائیں اردو، ہندی، پنجابی، پوربی، بنگالی، گجراتی، راجستھانی، تامل تلنگی، مہاراشٹری غرض کہ ہندوستان کی ہر زبان میں اور انگریزی میں بھی نہایت استقلال اور خرم و احتیاط سے اور کامل اخلاص سے اس کام کو کیا جائے اور نشر و اشاعت کی بھی کوشش کی جائے۔

    ہر کتاب پر سیر حاصل مقدمہ لکھا جائے اور پوری صحت سے اعتراضات کے جواب دیئے جائیں اور غلط بیانی کو سلیقہ سے رفع کیاجائے اگر کامل استقلال سے کام کیا جائے گا تو یہ فتنہ رفع ہوجائے گا اور اچھا معاشرہ رواج پائے گا جو مقصود اصلی ہے ان ملفوطات کا لیکن اس کے لئے باہمی اتحاد اشد ضروری ہے، مجھے توقع ہے کہ اؤلیاءاللہ کے عقیدت مند اس ضرورت کو محسوس کریں گے اور اپنے اپنے حلقے میں کام شروع کریں گے، پہلا قدم یہی ہے کہ ملفوظات کے فارسی نسخوں کو صحت کے ساتھ شائع کیا جائے اگر مستعدی سے کام لیا جائے گا تو اشاعت بھی آسان ہوجائے گی، یہ تحریک ہے جب عمل کا آغاز ہوگا تو جو موانع حائل ہوں گے رفع ہوتے رہیں گے۔

    بنہ گام و خواہی بیاب

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے