Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت نیاز بے نیاز کے فارسی کلام کا شور و وجدان

اسد علی خورشید

حضرت نیاز بے نیاز کے فارسی کلام کا شور و وجدان

اسد علی خورشید

MORE BYاسد علی خورشید

    حضرت راز و نیاز بے نیاز قدس سرہٗ بارہویں صدی ہجری یعنی اٹھارہویں صدی عیسوی کے ایک عظیم المرتبت صوفی اور مرتاض سالکِ طریقت تھے جنہیں صانع ازل سے ایک شوریدہ و دردمند دل اور اسرار و رموز تصوف و عرفان سے آشفتہ و آمیختہ فکر و خیال کا جہانِ عالی و دیعت ہوا تھا، حضرت نیاز کی ذات مشرباً جامع سلاسل تھی جہاں خواجگانِ چشت اور اقطاب و مشائخ قادری کی تعلیمات و فکر نے باہم مل کر ایک تلاطم انگیز آبشار عرفان پیدا کردیا تھا اور شوریدگی و آشفتگی کا یہ حسین امتزاج حضرت نیاز کی تحریروں میں اس قدر پیوست اور نمایاں ہے کہ عرفان و سلوک کا ذرا سا بھی چسکا رکھنے والا اس سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا، خصوصاً حضرت نیاز کے اشعار اور کل فارسی کلام ان کے باطنی تموجات کا بہترین مخزن ہیں، حضرت نیاز کے کلام میں معرفت و سلوک کے اسرار و رموز کی نہایت عارفانہ تشریح و تصریح اور تحلیل و تحدیث نظر آتی ہے۔

    حضرت نیاز بے نیاز کے کلام میں وحدۃ الوجود کا فلسفہ بڑی آب و تاب کے ساتھ نظر آتا ہے، وحدۃ الوجود ایک ایسا نظریہ عرفان و تصوف ہے جس سے علمائے متصوفہ کا ایک بڑا طبقہ نہ صرف یہ کہ معتقد ہے بلکہ یہ نظریہ راہ سلوک و طریقت، صوفیائے کرام کے ذہن و فکر میں اس طرح سرایت ہے کہ انہیں ہر شئے میں وجود باری تعالیٰ کی جلوہ افروزیاں نطر آتی ہیں، چنانچہ حضرت نیاز بے نیاز بھی وحدۃ الوجود کی شرابِ طہور سے اس قدر سرمسرت ہیں کہ ان کے کلام کا ہر لفظ اسی مضمون کا آئینہ دار نظر آتا ہے، حضرت نیاز کا دل عاشق اسی وحدۃ الوجود کے فیض سے ذاتِ مطلق کی جلوہ گاہ بنا نظر آتا ہے اور ان کے دل کی کرسی امکان، سلطان وجوب کے عرش کی مانند ہے، اسی عاطفۂ نیاز نے حضرت نیاز کی نگاہ میں دنیا کو ایک بلبلے کی مانند نمودار کر رکھا ہے، چنانچہ حضرت نیاز بے نیاز کے یہ اشعار ملا حظہ ہوں۔

    جلوہ گاہِ ذات بیں در منظرِ ایوان دل

    عرشِ سلطانِ وجوب ایں کرسیِ امکانِ دل

    گنبد گردونِ عالم از حبابی بیش نیست

    کو نمودار آمدہ از بحر بے پایانِ دل

    دید چوں میدانِ دل برہانِ سلم نقصِ یافت

    منتج عکسِ قیاس ست حجت و برہانِ دل

    چوں زلیخا کی شوم من مبتلائے یوسفی

    صد ہزاراں یوسفِ مصریست در کنعانِ دل

    از بیانِ ایں و آں خاموش بنشینِ اے نیازؔ

    باش مستغرق بدیدار رخِ جانانِ دل

    اس کلام میں مقام امکان میں ذات وجود کی چھپرکھٹ کا مرصع ہونا یعنی تخت ناثبات پر بادشاہ علی الاطلاق کی جلوہ گری نے ترک و تجرید کا ایسا سبق پڑھایا کہ ساری دنیا کی رعنائیاں حضرت نیاز بے نیاز کی نگاہ میں خزف ریزوں کی مانند ہوگئیں، ظاہر ہے جب عاشق نیاز مند کے سامنے محبوب کا حسن بے نیاز جلوہ گر ہے تو اسے ادھر ادھر کی باتیں نہیں کرنی چاہیے اسی لیے بیانِ ایں و آں پر دل کی سرزنش کرتے ہوئے اسے جلوۂ جانان کے دیدار میں مستغرق رہنے کی تلقین کرتے ہیں، وحدۃ الوجود کی حشر سامانیوں نے حضرت نیاز بے نیاز کو اس قدر سرمست کر رکھا ہے کہ انہیں ہر طرف ذاتِ مطلق کا جلوہ نظر آتا ہے، ساری اشیا اور سارے نفوس آئینہِ الٰہی کی تصویر ہیں، وہی ذات ہے جو خود اپنے حسن کو نہارنے کے لیے حجرۂ خلوت سے نکال کر عالمِ جلوت میں جلوہ افروز ہوئی، کبھی ناقوسِ بدست شکل ترسا میں کلیسا کو رونق بخشی، کبھی تسبیح و عصا کے ساتھ جبہ و دستار میں مشائخ کی صورت زاویہ و خانقاہ کی زینت بڑھائی، وہی چہرے کا نور ہے اور وہی پیشانیوں کی چمک ہے، حضرت نیاز ایسے سالک کو گمراہ تصور کرتے ہیں جو نیرنگی دنیا کو ماسوائے مولیٰ جانتے ہیں، فرماتے ہیں کہ

    اے دوست بہ بیں در ہمہ سوروئے خدارا، باعینِ نگاہی

    می داں بہ یقیں ایں ھمگی ما و شمارا، مراۃِ الٰہی

    خود بہرِ تماشائے رخش آمدہ بیرون، از حجلۂ خلوت

    گہ دلق ببر کردہ وگہ صورت دارا، باحشمت و جاہی

    گہ سوئے کلیسا شدہ ناقوس بدستش، در پردۂ ترسا

    گلہ کردہ بدست آمدہ تسبیح عصارا، پوشیدہ کلاھی

    گہ معتکفِ مسجد و در کنجِ تفرد، پنہاں زِجہاں شد

    گہ شاہد محفل شدہ آں انجمن آرا، رشکِ خور و ماہی

    گمراہ طریقی اگرش غیر بدانی، اے طالبِ مولیٰ

    بینی ہمہِ او گر ہمہ ایں ما و شمارا، آئی سوئے راھی

    مانند نیازؔ آئی بروں از چہ ہستی، گر عاشقِ حقی

    زاں پس تو خدا باشی و بینی تو خدارا، در ہر پر کاہی

    ایک دوسرا مستزاد جو حضرت مولانا روم کی تتبع کی مکمل عکاسی کرتا ہے وہ بھی حضرت نیاز کے فکر اور وحدۃ الوجود کا نہ صرف یہ کہ آئینہ دار ہے بلکہ شور و وجد کا ایسا مرقع ہے جو اہلِ اللہ کی مجالسِ سماع کی حرقت و لتہاب، سوز و گداز اور وجدان ماورا کا باعث ہے، حضرت نیاز کو ذاتِ مطلق ہی سرپر تاج و دیہیم آراستہ کیے شاہانہ شکوہ سے جولہ فرما نظر آتی ہے جو دنیا کو مستخر کیے ہوئے ہے، وہی ذات حق کبھی قلندرانہ شان میں دلق پوش دکان بہ دکان سر گرداں ہوتی ہے، کبھی خود اصنام کا پیرایہ پہنتی ہے اور کبھی آذرانہ انداز میں بت گر ہوکر جلوہ گر ہوتی ہے، کبھی خلیل اللہ کی شکل میں بت خانے میں پہنچ کر بت شکنی کر ڈالتی ہے، کبھی شمع کی صورت مخزن انوار ہوتی ہے اور کبھی پروانے کی صورت خود اسی شمع پر نثار ہوتی ہے، چنانچہ حضرت نیاز فرماتے ہیں کہ

    خود تاجِ بسر صورت شاھانہ بر آمد، دارائے جہاں شد

    خود واق ببر شکلِ گدایانہ بر آمد، دکاں بدکاں شد

    خود گشت بت و خود بتراشید بتاں را، در صورتِ آزر

    خود گشت خیل و سوئے بت خانہ بر آمد، بشکست و رواں شد

    خود بر صفتِ شمع پر انوارِ عیاں است، روشن کنِ مجلس

    خود بود کہ او صورتِ پروانہ بر آمد، قربانِ بجاں شد

    حقا کہ ہمونست کہ او پردہ نشیں بود، در حجلۂ غیبت

    با صورت زیبا زنہار نخانہ بر آمد، دریں عیاں شد

    خود بود کہ او رفت زجیلان سوئے بغداد، شیخِ ہمہ عالم

    خود گفت نیازؔ و چو مریدانہ بر آمد، از معتقدان شد

    حضرت نیاز بے نیاز کا سارا کلام درد و عشق اور اسرار معرفت کا مخزن ہے، ان کے اشعار کے ہر ہر لفظ سے سر معرفت کردگار کی گلفام کی تراوشی ہوتی ہے، ان کی ذاتِ فنائیت حق میں اس مقام پر پہنچی نظر آتی ہے جہاں خود ان کی ذات محدودیت لا یعنی سے جدا ہوکر ذاتِ مطلق کی وسعت و بیکرانی کا جزو ہوگئی ہے، پرتو ذات ان کے قلب پر پیہم اس طرح متجلیٰ ہوتے ہیں کہ ان کا وجود خود شرر بار خرمن بن چکا ہے، ان کی ہستی کی بنیادیں نیستی سے مستحکم و پائیدار ہوچکی ہے اور غلباتِ عشق نے انہیں قشقہ و زنار میں گرفتار کرلیا ہے جو زاہد کی نگاہ میں بظاہر کفر کی نشانیاں ہیں لیکن عاشق صادق کی نگاہ میں اس قشقہ پوشی اور زنار بدوشی کی توجیہات کچھ اور ہیں، فرماتے ہیں کہ

    سرِّ حق پنہانست اندر معنی اسرارِ من

    طاہرش پیداست اندر صورتِ اظہارِ من

    از محیطم نقطۂ مرکز بود اقلیمِ ملک

    چشمِ دل بکشاد و بنگر وسعت پرکار من

    نورِ ذاتش بر دلم ہر دم تجلی می کند

    تاب دیگر می دھد ہر شعلۂ دیدار من

    در بنائے ھستیم از نیستی مستحکمی ست

    وز شکست و ریختن شد پستیٔ دیوارِ من

    زاہد از سر سواد الوجہ من آگہ نہ اے

    نیست در فہمِ تو رمز قشقہ و زنارِ من

    استیلائے عشق، عاشقِ زار کے لیے اپنے وجود اور اپنی ہستی سے بیگانگی کا سبب ہوا کرتا ہے، محبوب کی ادا و صفات میں عاشقِ بیدل کا استغراق اس سے گاہ ویسی ہی حرکات و سکنات کے صدور کا موجب ہوا کرتا ہے، چنانچہ کچھ ایسی ہی کیفیت کا مشاہدہ حضرت نیاز کی اس غزل میں ہوتا ہے کہ

    بیچوں و بیچگونم عنقائے قافِ قدسم

    بے شبہ و بے نمونم عنقائے قافِ قدسم

    بے رنگیست رنگم رنگی ست عار و ننگم

    دانی کہ من چگویم عنقائے قافِ قدسم

    از خلقِ ما سواہم وز امر ما ورایم

    برتر زکاف و نونم عنقائے قافِ قدسم

    سلطانِ بے نیازم گو صورت نیازمؔ

    نشناسیم کہ چونم عنقائے قافِ قدسم

    طریقت و سلوک میں سالک واقعی جب تک اپنی صفاتِ حادث کو ترک کرکے صفاتِ قدیم کو اختیار نہیں کرلیتا اس وقت راہِ سلوک میں خام تصور کیا جاتا ہے اور اسی ترک صفات و ذاتِ فانی کا نام فنا ہے جو سلوک کا مقام و مرتبہ تمکین ہے، چنانچہ حضرت نیاز بھی اس مرتبہ تمکین یعنی مقامِ فنا پر نہ صرف فائز نظر آتے ہیں بلکہ ہر سالک کو اس کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں، پندار و گمان کے پردے جب تک حضرت نیاز نے چاک نہ کر ڈالے اس وقت ان کی نگاہیں جمال مطلق کے دیدار معنوی سے محروم تھی اور جب یہ حجاب وہمیہ دور ہوگئے تو انہیں اپنے گلشن میں بہارِ نووزیدہ کا احساس ہونے لگا اور اب ان کا وجود جلوہ گاہِ ذات اور آئینہ صفات ہوگیا جہاں عینیت اور جدائیت دونوں کی لذتیں میسرآنے لگیں، چنانچہ فرماتے ہیں کہ

    من پاکِ باز عشقم ذوقِ چشیدہ

    آھو دشت ہُویم از ماسوا رمیدہ

    بر پردہ ھائے وھمی مارا حجاب دیدہ

    دیدیم روئے جاناں ایں پردہ ھا دریدہ

    گل گشت غنچۂ دل دلبستگیش واشد

    چوں باد نو بہاری بر گلشنم وزیدہ

    من نورِ ذاتِ حقم اے صاحبِ بصیرت

    در صورتم اگرچہ از خاکِ آفریدہ

    روحِ الٰہیم من جانِ خدائیم من

    از صنعتِ عجیبہ در آب و گل دمیدہ

    من جلوہ گاہِ ذاتم ہم مظہرِ صفاتم

    ہم اصلِ کائناتم از نورشِ آفریدہ

    آئینہ پر صفایم جامِ خدانایم

    ہم عین و ہم جدایم اے مردِ برگزیدہ

    از جامِ عشق، مستم مستانۂ الستم

    بے پاو بے سرستم از قیدِ تن رہیدہ

    زاہد مگیر برمن بگذر زگفتگویم

    نشنیدہ اے کہ فرقست در دیدہ و شنیدہ

    قولِ نیازؔ بشنو یعنی زخود بروں شو

    چوں از خود بر آئی باشی خدا رسیدہ

    حضرت نیاز عشق حقی میں سوختہ و کوفتہ ہیں اور یہ عاطفہ عشق ان کے وجود پر ایسا مستولی ہے کہ تفاوت مذہب و دین کے تعصب سے فیض عشق نے حضرت نیاز کو بے نیاز کردیا ہے، حضرت نیاز ”ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بہ عشق“ کے حافظ شیرازی کے اسرار معنوی سے نہ صرف یہ کہ آشنا ہیں بلکہ کشتۂ شمشیر عشق کو موت سے مامون اور مردۂ بے جان عشق کو زندۂ جاوید شمار کرتے ہیں، حقیقت کے بازار میں ماسوائے حق کوئی سرمایہ و متاع انہیں نظر نہیں آتا اور دوکانِ عشق فنا سے زیادہ سستی کوئی جنس انہیں نظر نہیں آتی، آئیے عشق کی نیرنگیاں خود حضرت نیاز کے الفاظ میں ملاحظہ فرمایئے، کہتے ہیں کہ

    پرتوِ مہرِ قدیم ست ایں مہِ تاباں عشق

    جلوۂ نورِ کلیم ست آتشِ سوزانِ عشق

    دود آہِ سرکشی از سینۂ سوزانِ من

    مدّ بسم اللہ باشد برسرِ دیوانِ عشق

    عاشقانِ در بے نوائی خسرویہا می کنند

    شاہیٔ کونین دارد بے سر و سامانِ عشق

    دارد آزادی زتقلیدات وہمی بے گمان

    ہر کہ دارد پائے در زنجیر در زندانِ عشق

    فارغِ از رسم و رہ گبرو مسلماں ساختہ

    مرحبا صد مرحبا بر لطف و بر احسانِ عشق

    کشتئہ شمشیرِ عشق از مرگِ باشد در اماں

    زندۂ جاوید باشد مردۂ بے جانِ عشق

    لیس فی سوق الحقیقۃ من متاعِ غیرِ حق

    لیس من دون الفنا جنسِ علی دکانِ عشق

    عشق کے فیض نے حضرت نیاز کو ایسا سرمست کر ڈالا ہے کہ ایک طرف اگر انہوں نے ننگ و ناموس کو رخصت کردیا ہے تو دوسری طرف عقل و ہوش سے فراق اختیار کرلیا ہے، زہد و تقویٰ کو ترک کر دیا ہے، جبہ و دستار کو رہن کر ڈالا ہے اور سبحہ و تسبیح کے عوض رشتۂ زنار سے اپنا تعلق استوار کرلیا ہے اور یہی مشورہ ان کا ان زاہدوں کو بھی ہے جو خرقۂ الوس میں بے معنی اور بے فائدہ زہد و تقویٰ کا ڈھونگ کرتے ہیں، فرماتے ہیں کہ

    مستِ گشتم از دو چشمِ ساقیٔ پیمانہ نوش

    الفراق اے ننگ و ناموس الوداع اے عقل و ہوش

    شد تنم ہمرنگ باجانِ جاں بہ تن ہم رنگ شد

    می برد ہرجا کہ خواہد جان بتن خانہ بدوش

    گفتمش اے جانِ من ہم جان وہم تن خود توئی

    گفت فی الواقع ولی در ستر ایں اسرارِ کوش

    زہد و تقویٰ در فگندم زیرِ پائے آں صنم

    مذہبم عشق ست ورندی مشریم جوش و خروش

    زاہد بشنو خدا را آنچہ می گویم ترا

    زہد بے معنیٰ گذار و جام عشق از من بنوش

    تصوف و عرفان کے اسرار اور رموز کے علاوہ حضرت نیاز بے نیاز کے فارسی کلام میں مناجات و نعت کے ساتھ ساتھ منقبت حضرت مولائے کائنات منقبت حضرت امام حسین اور حضرت غوثِ اعظم، خواجۂ خواجگان سلطان الہند غریب نواز اور محبوب الٰہی سلطان جی حضرت نظام الدین اؤلیا وغیرہ کی منقبتیں بھی شامل ہیں، حضرت نیاز کا نعتیہ کلام بھی صوری و معنوی دونوں اعتبار سے ارفع و اعلیٰ ہے، نعت حضرت سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی حضرت نیاز کی شوریدگی اور التہاب قلبی طالب توجہ ہے، سرکارِ نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کا لباسِ انسانی میں جلوہ گری کو حضرت نیاز اوجِ انسانی کا منتہائے کمال اور عز تمکین قرار دیتے ہیں اور ساری کائنات کے لیے ان کے ظہور اور بعثت کو شرف و عزت کی معراج جانتے ہیں، سچ ہے کہ خاک کے بنے انسان کو خالقِ کائنات نے صرف اور صرف اسی ذاتِ والا صفات کی وجہ سے شرف اور اشرافیت کے طغرائے منشور سے سرفراز فرمایا ہے جو محبوبیت کے حسین آسمان کا درخشندہ آفتاب ہے، جس کی بزم میں حسنِ یوسف صبح کا ٹمٹماتا چراغ ہے، جس کے چہرے انور کی تابانی سے شبستان دنیا منور و معمور ہے، جس کے جمال و حسن سے آفتاب، نور کی دریوزہ گری کرتا ہے، جس کی ایک نگاہ آئینہ دل کو واجب نما اور حق آشنا بنا دیتی ہے اور جس کی جنبشِ ابرو دلوں سے امکان کے زنگ دور کرکے مصقل کر دیتی ہے، نعت کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں۔

    زہے عز و علائے منتہائے اوجِ انسانی

    نبی یثربی و مہبط تنزیلِ فرقانی

    امیرِ عالمِ امیری شہ معمورۂ خلقی

    ادیبِ علوی و سفلی رسولِ انسی و جانی

    ظہورِ کامل ذات و صفات حضرت یزدا

    حبیبی سیدی محبوبِ خاص الخاص ربانی

    درخشاں آفتابِ آسمانِ حسنِ محبوبی

    چو شمع صبح در بزمش نماید ماہِ کنعانی

    شبستانِ جہاں روشن ز نورِ ماہِ روئے او

    زتابِ شعلۂ حسنش کند خورشیدِ رخشانی

    کند در یک نگہ واجب نما آئینۂ دل را

    بیک چشمک ز داید از رخش زنگارِ امکانی

    نیازؔ اندر دلت گر برزخ کبراش جاگیرد

    نہ بینی تا ابد روئے پریشانی و حیرانی

    مختصراً یہ کہ حضرت نیاز بے نیاز کا عافارنہ کلام صوفیائے حق اور سالکینِ راہ کی مجلسوں میں جِلائے قلوب کے لیے اس چقماق کی طرح شمار ہوتا ہے جو دل میں شور و وجدان کی آگ کو شعلہ زن رکھنے کے لیے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔

    حضرت نیاز کے فارسی کلام کا سرمایہ ایک ہزار چھیانوے اشعار پر مشتمل ہے، اس میں 92 اشعار کی ایک مناجات، ایک سو دو غزلوں کے 914 اشعار، 50 اشعار پر مشتمل ایک مختصر مثنوی اور 40 اشعار پر محیط پانچ مستزاد شامل ہیں، حضرت نیاز کا کلام خیرکلام ماقل و دل کا آئینہ ہے جس میں اگر ایک طرف سالک کی روح میں اضطراب و بے چیتی پیدا کرنے کے دو آتشہ محلولِ عرفانی کے لبریز مٹکے ہیں تو دوسری طرف عارف کی حرکت قلب و جگر کو سکون عطا کرنے والے مسکن اجزا بھی، حضرت نیاز کے اشعار آہنگ و صوتیات اور پروازِ فکر و تخیل گویا صورت و معنی دونوں اعتبار سے شور انگیزیوں کے آئینہ دار ہیں یعنی اگر اندیشہ و افکار آتشیں ہیں تو بحریں بھی اس کی آتشناکی کو مزید کرتی نظر آتی ہیں، مولانا روم کے تجملاتِ عرفانی کا عکس حضرت نیاز کی شاعری میں بھی جلوہ گر ہے، غزلوں اور مستزاد میں جلال رومی کی کج ادائیاں مستحضر ہیں، خود حضرت نیاز کے عرفانی تجارب بھی اشعار کی کسوت میں سالکین کی رہنمائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

    خانقاہ نیازیہ کے خانوادے کے بعض کرم فرما افراد کی خواہش پر راقم السطور نے حضرت نیاز بے نیاز کے فارسی کلام کا اردو ترجمہ کیا ہے جو عنقریب خانقاہِ مذکور کے اشاعتی پروگرام کا حصہ ہوکر قارئین کے پیشِ نظر ہوگا اور امید ہے کہ ایسے صاحبانِ ذوق جنہیں فارسی زبان کی ویسی واقفیت نہیں ہے وہ اس ترجمے کی مدد سے حضرت نیاز کے عرفانی افکار سے بہرہ ور ہوسکیں گے، اسی کے ساتھ حضرت نیاز کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ

    عشق آنست کز و نام و نشانم باقیست

    گرچہ فانی شدہ ام نام و نشانم باقیست

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے