مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی
فقر سے انسان میں وہ نظر پیدا ہوتی ہے جس کے ذریعہ وہ کسی شئے کی عمق، گہرائی اور حقیقت کو دیکھ سکتا ہے، فقر اور علم میں یہی فرق ہے کہ علم انسان کو حقیقت سے آگاہ نہیں کر سکتا، قرآن میں ارشاد ہے کہ اللہ کی نظر میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو متقی اور پرہیزگار ہے، کہتے ہیں کہ تاج و تخت، عزت و اقتدار اور سربلندی یہ سب شانِ فقر ہی کی صفات ہیں، ان کے ذریعہ انسان دین اور دنیا دونوں میں سروری حاصل کر سکتا ہے لیکن فقر در حقیقت بادشاہی سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے، علم و فقر میں موازنہ کرتے ہوئے ایک مفکر نے لکھا ہے کہ
”علم کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی عقل میں صلاحیت پیدا ہو اور وہ استدلال میں غلطی نہ کرے لیکن فقر کا مطلب یہ ہے کہ قلب و نظر دونوں اللہ کی نافرمانی سے محفوظ ہوجائیں، علم و فقر، دونوں کا دائرۂ کار ایک دوسرے سے جداگانہ ہے، دونوں انسان کے لیے ضروری ہیں لیکن فقر کو علم پر ترجیح حاصل ہے، فقر سے جو مستی پیدا ہوتی ہے وہ انسان کے حق میں کار آمد ہے اور علم سے جو سرمستی پیدا ہوتی ہے وہ مضر ہے، علم حقیقت کے مقم تک نہیں پہنچ سکتا، اسی لیے اکثر علم کے ذریعہ تلاش کی ہوئی شئے اکثر گمراہی کا سبب بن جاتی ہے، علم انسان کو فقیہ یا فلسفی تو بنا سکتا ہے لیکن اللہ سے ہم کلامی کا شرف حاصل نہیں کرا سکتا اور نہ میدانِ علم میں سرفروشی پر آمادہ کرسکتا ہے، علم اور فقیر دونوں توحید الٰہی پر ایمان رکھتے ہیں لیکن عالم کے ذہن میں اللہ کے موجود ہونے کا مفہوم فقیر کے مفہوم سے جدا ہوتا ہے، عالم جب یہ کہتا ہے کہ اللہ موجود ہے تو وہ اس کو خالق اور صانع عین تصور کرتا ہے جو اس کائنات سے بالکل الگ ہے بلکہ وراء الوراء ہے، اس لیے وہ خدا کے علاوہ کائنات کا بھی حقیقی وجود تسلیم کرتا ہے لیکن جب فقیر یا صوفی یہ کہتا ہے کہ اللہ موجود ہے تو وہ اس کے علاوہ اور کسی شئے کو حقیقی معنی میں موجود نہیں سمجھتا اور کائنات کے وجود کو ”پرتو“ قرار دیتا ہے اور اسی لئے وہ ذاتِ باری کو بعینہ محیط سمجھتا ہے، اقبال کی رائے میں مسلمانوں کی امامت و رہنمائی کے اہل وہی شخص ہوسکتا ہے جس کے اندر شانِ فقر ہو، اس حقیقت کو انہوں نے اپنے شعروں میں اس طرح واضح کیا ہے۔
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود ہے بیزار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی ”سان“ چڑھا کر تجھے تلوار کرے
دوسرے لفظوں میں جو ایک مؤمن، فقر کا مقام حاصل کرلیتا ہے تو اس کی زندگی میں جذب و مستی کا رنگ پیدا ہوجاتا ہے اور اس کی مستی میں تمام تر آگاہی پوشیدہ ہوتی ہے، اس کے جوشِ جنون کے کمال میں بھی شریعت کی پابندی ہوتی ہے، اس کے قول و فعل سے احکامِ شریعت کی توہین نہیں ہوتی، اقبال کے والد نے ایک بار اقبال کو فہمائش کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ
”جب تک تم یہ نہ سمجھو کہ قرآن تمہارے قلب پر اسی طرح نازل ہوا ہے جس طرح رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ پاک پر نازل ہوا تھا اس وقت تک کلام پاک کی تلاوت کا روحانی حظ حاصل نہیں ہو سکتا، تصوف کی اصطلاح میں اسی کو ”تعلق باللہ“ کہتے ہیں، اللہ سے اس ارتباط کو حاصل کرنے کے لیے ایک مرشدِ کامل کی صحبت اور رہنمائی لازمی ہے، کہتے ہیں کہ عقلِ انسانی سے دنیاوی فوائد حاصل ہوتے ہیں لیکن جب انسانِ عشق الٰہی اختیار کرتا ہے تو عقلِ انسانی اس کی دشمن بن جاتی ہے اس لیے فقران دونوں سے بے نیاز ہو کر خدا کی راہ میں جہاد کرنے کے فریضے کو دعوت دیتا ہے، اقبال نے اس مضمون کو اس انداز میں بیان کیا ہے کہ
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی
اس تفصیلی تمہید کے بعد حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی کی حیاتِ مقدسہ آئینہ بن کر ہمارے سامنے آتی ہے، آپ 14 شوال 971 ہجری مطابق 1573عیسوی میں جمعہ کے روز پیدا ہوئے، آپ کا وطن مبارک سرہند شریف ہے، اپنے عہد کے زبردست عالم دین و متع السنۃ تھے، فقر اور خدا پر یقین کا یہ عالم تھا کہ بادشاہ جلال الدین اکبر کے قائم کردہ مذہب دینِ الٰہی کی نہ صرف تردید کی بلکہ اس کے خلاف ایک جہادی مہم کا آغاز کیا، حضرت مجدد الف ثانی میں اجتہادی قوت بے پناہ تھی، وہ حق کی مکمل تحریک تھے، ان کے ہاتھ اور دامن خالی تھے لیکن ان کو اپنے فقر کی قوت پر اور ایمان بالغیب پر کامل یقین تھا، اکبری جاہ و جلال یا مغل درباروں کا دبدبہ ان کے سامنے ہیچ تھا، ان کی نظر کوہ آتش فشاں سے ٹکرانے کی طاقت رکھتی تھی، چنانچہ انہوں نے اکبری عہد کی اس بدعت کی خداداد قوت اور نورِ ایمانی سے نیست و نابود کر دیا، تاریخ میں ایسی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی جس نے توحیدِ الٰہی کو اپنے فقر کی قوت سے اور جس نے سنن نبوت کو اس طرح بیکراں کیا ہو، ان کی عملی قوت اس مقام پر تھی جہاں باطل کی فروعی قوت میں اس کے مشاہدہ سے لرزش اور زلزلہ کی کیفیت پیدا ہوجاتی تھی، وہ مسلمہ طور پر سن ہجری کے دوسرے ہزار کے مجدد تھے، جیسا کہ ہم نے پہلے بھی حضرت مجدد الف ثانی کے بارے میں لکھتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ وہ باطل کے خلاف جہاد کی تاریخ کا ایک ایسا باب تھے جس کے سامنے باطل کی قوت پارہ پارہ ہوجاتی تھی، تمثیل کے طور پر عہم نیان کے بارے میں جہانگیر بادشاہ جو تعیش پسند اور شراب و سرور کی کیفیات کا بادشاہ تھا، اسلام کی حسیات اس کو دور تک بھی نہیں چھوتی تھیں، اسلامی کوائف سے آگہی اسے اپنے والدین کے آغوش سے ہی نہیں ملی تھی، اکبر کے گمراہ دور میں اس نے دینِ الٰہی کے فتنہ “کو شعوری طور پر دیکھا تھا، اس لیے حضرت مجدد الف ثانی کے بلند روحانی مقام تک اس کے فکر و نظر کی رسائی بھی ممکن نہیں تھی، اس کی نگاہیں ہر وقت اپنی ملکہ نور جہاں کے حسن و دلفریب میں کھوئی ہوئی تھی، ”ظل الٰہی“ کے سامنے وحدت کا تصور اس کے ہوش و خرد سے ما وراء تھا، چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی کے ساتھ اس نے اپنے دربار میں جو سلوک کیا تاریخ اس کا ہمیشہ ماتم کرتی رہے گی، اس کی فکری زبوں حالی پر ایک مؤرخ کا قلم ہمیشہ آنسو بہائے گا، اس نے حضرت مجدد الف ثانی کو اپنے دربار میں طلب کیا، اس وقت معل دربار کا یہ مزاج تھا کہ ہر آنے والا انسان بادشاہ کو تعظیمی سجدہ کرتا تھا جسے ”کورنش“ کہا جاتا تھا، حضرت مجدد الف ثانی کے دربار میں تشریف آوری سے پہلے اس کو یقین تھا کہ حضرت مجدد الف ثانی اس کو تعظیمی سجدہ کریں گے لیکن جب حضرت مجدد الف ثانی جہانگیری دربار میں تشریف لائے تو انہوں نے اہل دربار کو ”السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ“ کہہ کر مخاطب فرمایا، جہانگیری جلال یہ سن کو غیظ و غضب میں آگیا اور اس نے حضرت مجدد الف ثانی کو مخاطب ہوکر کہا کہ ”بدبخت! آدابِ شاہی نمی داند؟ چرا ”کورنش“نمکیند“؟ اس پر حضرت مجدد الف ثانی نے فرمایا ”منم فقیر زادہ ام زیں سبب آدابِ شاہی نمی دانم و لیکن آدابِ خداندی ایں است کہ بوقت باریابی محفل کلمۂ السلام علیکم عمل ناگزیر ہست“ اس جواب سے برہم ہوکر جہانگیر نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس فقیر کو قید خانے کی ظلمت کی نذر کر دو، جہانگیر کی سپاہ نے حکم کی تعمیل کی اور حضرت مجدد الف ثانی کو قلعہ میں نظر بند کر دیا گیا، خدا کی شان دیکھیے اسی رات کو جہانگیر نے اپنے آپ کو نہایت کرب کے عالم میں محسوس کیا اس کو ایک آواز نے یہ کہہ کر چادیا
”او ! شاہی جاہ و جلال کے متوالے، تو نے نہ صرف ایک فقیر کو اس وقت قید خانے میں ڈالا ہے بلکہ تو نے اس وقت غیرِ حق کو للکارا ہے“
یہ سن کر جہانگیر خواب سے بیدار ہوا اور اس نے گھبرا کر داروغہ زندان کو طلب کیا اور اس سے کہا کہ جس شخص کو میں نے قید کرنے کا حکم دیا تھا مجھے اس وقت اس انسان سے ملاقات کرنی ہے، چنانچہ کسی نہ کسی صورت جہانگیر حضرت مجدد الف ثانی سے قید خانے میں جا کر ملا اور ان کے قدموں میں سر رکھ کر اس نے کہا ”حضرت جی ! مجھے معاف کر دیجیے میں آپ کے مقام کو نہیں پہچان سکا“ اس نے دوبارہ دہرایا ”حضرت جی ! مجھے معاف کر دیجیے ورنہ آن ولی تاریخ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گی“ تب حضرت مجدد الف ثانی نے فرمایا ”عفو بفرمائید خدائے بخشندہ“ اس کے بعد قید خانے کے دروازے ان پر کھول دیے گئے اور نہایت شاہی ادب و احترام کے ساتھ ان کو رہا کر دیا گیا، جہانگیر کے بیٹے خرم عرف شاہجہاں نے حضرت مجدد الف ثانی کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگیا، بادشاہ اورنگ زیب نے بھی حضرت مجدد الف ثانی کے اس واقعہ کو عظمت کا اعتراف اپنے اس تاریخی شعر میں کیا ہے۔
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مؤمن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
بالآخر فقر و استغنیٰ کا یہ آفتاب 1034ہجری مطابق 1636ء میں سرہند میں غروب ہوگیا، آپ کا مزار مبارک آج بھی زیارت گاہِ عوام و خواص ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.