Font by Mehr Nastaliq Web

بہار کے عظیم شاعر - حضرت شاہ اکبر داناپوری

ڈاکٹر نظام الدین احمد

بہار کے عظیم شاعر - حضرت شاہ اکبر داناپوری

ڈاکٹر نظام الدین احمد

MORE BYڈاکٹر نظام الدین احمد

    دلچسپ معلومات

    نوٹ: یہ مضمون کتاب’’قافلہ جو گزر گیا‘‘ (سال طبع ۱۹۷۸ء) سے ماخوذ ہے۔

    حضرت شاہ اکبر داناپوری خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے معروف سجادہ نشین اور ہندوستان کے نامور صوفی ہوئے ہیں۔ انہوں نے تصوف کے میدان میں عظیم کارنامہ انجام دیا۔ ان کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع و عریض ہے۔ وہ ایک طرف نامور شاعر تو دوسری طرف بلند پایہ مصنف، مبلغ، پیر و مرشد اور مصلحِ قوم و ملت تھے۔ تصوف کے موضوع پر انہوں نے ایک ضخیم سرمایہ چھوڑا جو ہمارے لئے سرمایۂ حیات بنا۔ (آزاد ایشیا، الہ آباد، ۱۰؍ مارچ ۱۹۴۹ء)

    حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری ایک بلند پایہ صوفی ہی نہیں بلکہ ایک بڑے شاعر بھی تھے۔ ان کے بعض اشعار بہار میں زبان زد ہیں جیسے

    حباب بحر کو دیکھو کہ کیسا سر اٹھاتا ہے

    تکبر وہ بُری شئے ہے کہ فوراً ٹوٹ جاتا ہے

    دونوں ہاتھوں سے بَجا کرتی ہے تالی اکبرؔ

    ہم اکیلے ہی محبت کو نبھائیں کیوں کر

    اور گداگر اکثر ان کے اس شعر کی صدا لگاتے ہیں۔

    اے بے نیازِ مالک، مالک ہے نام تیرا

    مجھ کو ہے ناز تجھ پر، میں ہوں غلام تیرا

    ہم اس عظیم شاعر کے کلام کا ایک مختصر اقتباس پیش کر رہے ہیں۔

    بے فکروں کو لے جایئے حج کرنے کو واعظ

    چھپے مرے دنیا کے بہت کام لگے ہیں

    ٹوٹے جو پھڑکنے سے مرے جال کے پھندے

    صیاد پکارا کہ ’’ارے دام لگے ہیں‘‘

    میخانے عجب لطف سے آباد ہیں اکبرؔ

    شیشے کہیں طاقوں میں، کہیں جام لگے ہیں

    پھر انہیں ہم منا لاتے ہیں

    بات بگڑی ہوئی بناتے ہیں

    کچھ دیر بیٹھے تو کروں عرضِ حالِ دل

    ہے طول سرگذشت، مری مختصر نہیں

    نہاں ہے شاہدِ مطلب سخن کے پردے میں

    زبان بول رہی ہے دہن کے پردے میں

    بڑھ گیا ضعف بہت، کیجئے آہیں کیوں کر

    ناتوانی کا نہیں حکم، کراہیں کیوں کر

    ہے کچھ تو سبب اس کا جو شرمائے ہوئے ہیں

    کہئے تو ملاتے نہیں کیوں آج نظر آپ

    تم دیکھو تو میری طرف آتے ہو کہاں سے

    میں پوچھ نہ لوں گا، ابھی کہہ دے گی نظر آپ

    قاتل جو قتل اہلِ وفا پر کھڑا ہوا

    چیختی زبانِ تیغ کہ ’’ہے ہے یہ کیا ہوا‘‘

    کیا ہو گئیں ترش کے یہ پتھر کی مورتیں

    ہر بت ہے بت کدے میں، خدا ہی بنا ہوا

    ہزاروں صورتیں ہیں بت کدے میں دنیا کے

    مگر ہمیں تو وہی اک صنم پسند ہوا

    نہیں ہے شیشوں سے کم محتسب دلِ میکش

    تری بھی خیر نہیں گر انہیں گزند ہوا

    کبھی جو سیر کو ہم بت کدے گئے اکبرؔ

    بغل میں داب لیا جو صنم پسند ہوا

    دل کس سے مانگتے ہو، کہاں دل کہاں جگر

    مدت ہوئی کہ خاک میں سب کو ملا دیا

    اس جلوے کی بھی دیکھ لیں اکبرؔ چمک دمک

    موسیٰ کے ساتھ اب کے ارادہ ہے طور کا

    نہ پٹکے رنگِ الفت جس سے، ایسی بھی عداوت کیا

    محبت کی نہ بو آتی ہو جس میں وہ شکایت کیا

    غرض ہو جس میں اپنے نفس کی شامل، وہ طاعت کیا

    عبادت جس کی قیمت ہو، وہ مزدوریِ جنت کیا

    سکوت اچھا نہیں، اتنا بھی کچھ تو بولئے منہ سے

    بنیں گے آدمی سے آپ، اب پتھر کی مورت کیا

    انہیں غصہ ہے مجھ پر اور دل پر

    خدا جانے ہے دونوں کی خطا کیا

    اکبرؔ سفید بال ہوئے، پشت خم ہوئی

    رنگت بدل رہا ہے زمانہ حیات کا

    میں نہ کہتا تھا کہ غیروں سے بہت کم ملیے

    آج کل دیکھئے نازک ہے زمانہ کیسا

    ملے اسی سے جو ہو آدمی قرینے کا

    تمہیں خبر نہیں کیا حال ہے زمانے کا

    پیا ہے تم نے ابھی شربت اے زاہد

    کہاں لیا یہ ساغر شراب خانے کا

    جو محتسب کے چلا ساتھ، میکدے پہنچا

    کہ خضر راہ یہی ہے شراب خانے کا

    میخانہ پر برستی ہیں رحمت کی بدلیاں

    اُٹھا دعا کو ہاتھ کسی بادہ خوار کا

    کسی سے گرم صحبت تھی، کسی سے آنا جانا تھا

    جوانی بھی کوئی شئے تھی، زمانہ وہ زمانہ تھا

    کہوں کیا خوشنما جوانی کا زمانہ تھا

    وہ دن بھی تھے بہت اچھے، وہ موسم بھی سہانا تھا

    دل لیا، جان لی، ایمان لیا، صبر لیا

    ڈالا ان چور نگاہوں نے یہ ڈاکا کیسا

    میں نے او دشمنِ دیں سب کی لگا دی تقسیم

    جان اللہ کی، تن خاک کا، ایماں تیرا

    رہ گیا ٹوٹ کے وہ اس میں، تو کھٹکا کیا ہے

    میں تیرا جان، تری دل، ترا پیکاں تیرا

    نہ تو زنجیر کی جھنکار، نہ آہوں کی صدا

    آج سنسان ہے کیوں قیس بیاباں تیرا

    غضب تقویٰ شکن ہے حسن اس غارت گر دیں کا

    رہا باقی نہ کچھ فرق اب مسلمان و برہمن میں

    بہلا نہ کہیں ہائے یہ کمبخت دل اپنا

    کیا کیا نہ حسیں آئے نظر ملکِ دکن میں

    اے شیخ! آپ آئے ہیں زندوں کی بزم میں

    دستار اچھلتی ہے یہاں، اس کی خبر نہیں؟

    مینا ہے پاس، سامنے خم، جام ہاتھ میں

    دونوں جہاں کی ہمیں اب کچھ خبر نہیں

    بس کہہ چکے خاموش، اب اے ماہ لقا ہو

    کچھ منہ سے ہمارے بھی نکل جائے تو کیا ہو

    عاشقِ حور ہے پردرد بیاں اس کا ہے

    خیر سن لیجئے واعظ کے بھی افسانے کو

    پانی وہی، زمین وہی ہے، ہوا وہی

    کتنا جدا کیا ہے مگر گل سے خار کو

    وہ نیچی نگاہیں کئے جاتا ہے کدھر کو

    چلاتا ہے بازار کا بازار، ادھر دیکھ

    اس بات پر اب مٹتی ہے تکرار، ادھر دیکھ

    سو بار اُدھر دیکھ تو، اک بار اِدھر دیکھ

    بتو جفا و ستم کی کچھ انتہا بھی ہے

    تمہیں خبر نہیں بندوں کا اک خدا بھی ہے

    ہر شاخ کو جنبش ہے تو، ہر پھول کو ہے وجد

    کیا درد ہے آواز میں مرغانِ چمن کی

    کھینچا ہمیں جب خاکِ لحد نے تو یہ سمجھے

    وہ گھر تو کرائے کا تھا، اپنا یہ مکاں ہے

    دوست ہی جب دشمن کا کام کرے

    پھر کوئی دشمن کا کیا شکوہ کرے

    فقیر خانے کے دیکھو تکلفات آکر

    کہ فرش خاک بھی ہے، اس پہ بوریہ بھی ہے

    ایک سے ایک پری زاد پڑا سوتا ہے

    اک پریستاں نظر آتا ہے زمیں کے نیچے

    چین ملتا نہیں اب چرخِ بریں کے نیچے

    کیا کریں جاتے ہیں بسنے کو زمیں کے نیچے

    گو مری داستاں ہے طول بہت

    تم سنو تو یہ مختصر بھی ہے

    پتہ تم پوچھتے ہو میرے دل کا

    تمہیں اس کی خبر گویا نہیں ہے

    آئے دن کا معرکہ اور روز قتل عام ہے

    جاں نثاری کے لئے دو چار رہنے دیجئے

    کہتا ہوں جو حال اپنا تو فرماتے ہیں ہنس کر

    کچھ اور کہو، یہ تو کئی بار سنا ہے

    کس طرح سے آنا ہو میخانہ میں اے شیخ

    جبہ ہے کہاں، آپ کی دستار کہاں ہے

    بت خانہ کسے کہتے ہیں، کیا چیز ہے کعبہ

    تسبیح کدھر رہتی ہے، زنار کہاں ہے

    ہمارے قتل کا یہ ذکر جا بجا کیا ہے

    جو کچھ ہوا، سو ہوا، اس کا تذکرہ کیا ہے

    حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری عظیم صوفی تھے، اس لئے ان کے اصلی رنگ کے بھی کچھ اشعار پیش ہوں۔

    سب اسی کا ہے، یہی سب کچھ

    کیا کہوں تم سے، آدمی کیا ہے

    موسیٰ سے کہہ دو، طور پہ ہے کیا دھرا ہوا

    ہو شوقِ دید اگر، تو مدینے میں آئیے

    رکھتا تھا فرشِ خاک پہ وہ ماہ جب قدم

    کہتا تھا عرش ہائے یہ رتبہ زمیں کا ہے

    روئی محال ہے اہلِ وجود کے نزدیک

    تو جس کو کہتا ہے بندہ، وہی خدا بھی ہے

    جنت میں اگر نقص ہے باقی تو یہی ہے

    اس میں نہ بنا گنبدِ خضرائے مدینہ

    ضرورت ہے سرمے کی آنکھوں کو میری

    صبا مجھ کو لادے غبارِ مدینہ

    منصور کہہ رہا ہے ’’انا الحق‘‘ تو ہے یہ وجہ

    گھبرا گیا ہے غیر، اسے سوجھتا نہیں

    منصور! بس اب ہوش میں آ، روک زباں کو

    یہ بات بھی کہنے کی ہے، لے نام خدا کا

    تھا مدینہ سامنے آنکھوں کے ہنگامِ طواف

    میں نے کعبہ میں بھی دیکھا گھر رسول اللہ کا

    اس روز فرشتوں پہ کھلے جوہرِ آدم

    اس شان سے جب آپ کو دیکھا شہِ معراج

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے