’’حسنات العارفین‘‘ کا خصوصی مطالعہ
دلچسپ معلومات
نوٹ: یہ مقالہ "دبیر" کاکوری، لکھنؤ کے جنوری ۲۰۲۱ سے اخذ کیا گیا ہے۔ (ISSN 2394-5567)
دارا شکوہ۱۰۲۴ ھ مطابق ۱۶۱۵ ء میں خواجہ معین الدین چشتی کے شہر اجمیر کی مقدس سر زمین پر پیدا ہوا اور ۲۲ ذی الحجہ ۱۰۹۶ ھ مطابق ۱۶۹۵ء میں خواجہ نظام الدین اؤلیا کے شہر دہلی میں محض ۴۴ سال کی عمر میں اس مادی دنیا سے کوچ کر گیا، وہ تیموری دستور کے مطابق شاہجہاں کا ولی عہد مقرر ہوا تھا مگر اس سے پہلے کہ شاہجہاں اس دنیا سے رخت سفر باندھے اور دارا شکوہ مالک تخت طاوس ہو، وہ کسی افواہ و بدگمانی کا شکار ہوگیا، جس کے نتیجے میں شاہجہاں کے حصے میں قید و بند اور دارا شکوہ کی قسمت میں درد و رنج آیا اور بالآخر نوبت قتل تک پہنچ گئی، اس کو ہمایوں کی قبر کے جوار میں دفن کیا گیا اور علم و ہنر، صلح و آشتی کا در ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا۔
وہ فارسی، عربی اور سنسکرت جیسی قدیم و ثروت مند زبانوں کا ماہر، اسلامی اور ہندوئی علوم معقولہ و منقولہ سے بہرہ ور، فن خطاطی و نقاشی میں ید طولیٰ رکھتا تھا، وہ فلسفہ اسلامی اور فلسفہ ہندو ازم کا عالم اور اسلامی صوفیانہ عقائد اور علوم ویدانت کا ماہر تھا، جس شد و مد کے ساتھ اس نے ہندو ازم کے فلسفہ کو عالم اسلام میں متعارف کرایا اس سے پہلے ایسی کوئی مثال نظر نہیں آتی، وہ چاہتا تھا کہ برادرانِ وطن کے سناتن دھرم کو بھی تلاشِ حق کی نظر سے مطالعہ کیا جائے کیوں کہ اس کی نظر قرآن کی آیت ”لکل قوم ہاد“ پر تھی، اس لیے اس نے ہندؤں کی کتب کا مطالعہ شروع کیا اور جب اس کو ان کتب کے سمجھنے میں دشواری ہوئی تو اس نے سنسکرت زبان سیکھی اور ان کے فلسفے کو سمجھا، اس نے یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ اپنیشد جیسی کتاب کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا، اس نے بالآخر اس بات کا اقرار و اعلان کیا کہ اسلام اور ہندو مت ایک ہی سرچشمہ کے دو دھارے ہیں، دیگر مذاہب کی طرح اس کی راہ و منزل بھی ایک ہی ہے اور کعبہ و بت خانہ بھی در اصل ایک ہی ہیں۔
دارا شکوہ ایک بلند مرتبہ شاعر اور ادیب تھا، شاعری میں ”قادری“ تخلص کرتا تھا اس کے اشعار وحدت ادیان اور فلسفہ وحدت الوجود کے آئینہ دار ہیں، اس کی علمی لیاقت اظہر من الشمس ہے، وہ افکار عالیہ و علوم الٰہیہ سے واقف تھا اور وہ اپنے معاصرین میں صف اول کا عالم، صوفی، درویش اور فلسفی تھا، یہی سبب ہے کہ جب لوگوں نے اس کی باتوں کا غلط فائدہ اٹھانا شروع کیا اور اس پر طعن و تشنیع شروع کی اور اس پر کفر کی تہمت لگی تو وہ اس بات سے پریشان نہیں ہوا کہ لوگ اس پر انگشت نمائی کر رہے ہیں بلکہ وہ اس بات پر نوحہ کناں ہوا کہ اس کے عہد میں ان نام نہاد علما و اہل للہ کا علم اتنا سطحی کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ اپنے دور کی فکری پستی اور علمی زوال پر شرم سار ہے اور کیا ہی خوب ہو کہ اگر ہم اس کو معنوی علوم کی پستی کہیں، کیوں کہ بحث و غوغا، فتویٰ ودعویٰ اور روئے ملا کے مقابلہ میں شیدائی کا آنا جیسے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ علوم معنوی کی پستی کی بات کر رہا ہے، اسی لیے اس نے اس دور کے علما کا غزل کے پیرائے میں مرثیہ کہا ہے، اس کے یہ اشعار بہت ہی خوب صورت اور حقیقت کے عکاس ہیں۔
بہشت آنجا کہ ملائی نباشد
ز ملا بحث و غوغائی نباشد
جہاں خالی شود از شور ملا
ز فتوا ہاش پروائی نباشد
خدا خواہی ز دعوی بگذر اے یار
ترا باید کہ دعوائی نباشد
در آں شہری کہ ملا خانہ دارد
در آنجا ہیچ دانائی نباشد
مبیں اے قادریؔ تو روی ملا
مرو آنجا کہ شیدائی نباشد
دارا شکوہ علوم نقلیہ و عقلیہ کے علاوہ عقائد تصوف کا بھی دلدادہ تھا، اس نے معنوی علوم کی درستگی و تزکیۂ نفس کے لیے بہت سے دروں کی خاک چھانی، خانقاہوں کا چکر لگایا اور ان سے استفادہ کیا ہے، جب معنوی علوم میں اس کو کسی قسم کا جواب نہ مل پاتا تو وہ پریشان ہو جاتا اور اپنے شناساؤں میں اس کا حل ڈھونڈتا، اگر ان میں نہ ملتا تو وہ خط و کتابت کے ذریعہ حقیقت اشیا تک پہنچنے کی کوشش کرتا، چند بار اس نے اپنے اعتراضات و شبہات کو رفع کرنے کے لیے جہاں شاہ محب اللہ صابری الہ آبادی جیسے صاحبِ علم اور فلسفی کو خط لکھا، وہیں سرمدؔ شہید جیسے رند مشرب و برہنہ جسم سے مراسلت کیا۔
وہ قادری سلسلے کو دیگر تمام سلاسل سے افضل مانتا اور ان سے علم و معرفت، بیعت و ارشاد حاصل کرتا تھا لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ دیگر سلاسل کو برا تصور کرتا تھا بلکہ اس کو قادریہ سلسلہ فی نفسہ پسند تھا اور یہ اس کی شخصی و طبعی پسند تھی، اس بابت وہ اپنے رسالہ ”حق نما“ میں اپنے طبعی میلان کو ان باوقار کلمات سے بیان کرتا ہے۔
”شب جمعہ ہشتم شہر رجب المرجب سنہ یک ہزار و پنجاہ و پنج ہجری در سر ایں فقیر ندا در دادند کہ بہترین سلاسل اؤلیائے خدا سلسلہ علیہ و طریقہ سنیہ قادریہ است کہ از سرور عالم، مفخر بنی آدم، پادشاہ انبیا، مرشد اؤلیا، مہر سپہرِ محبوبیت، مخاطب بہ رب العالمین، احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ اسلم رسیدہ بہ پیشوائے عارفان و مقتدائے واصلان برہان حقیقت بحرِ معرفت ہادی اہل اللہ قائل ”قدمی ھٰذہ علیٰ رقبۃ کل ولی اللہ“ شیخ الاسلام خلف سیدالانام، قطب الخافقین، غوث الثقلین، ابو محمد حضرت شاہ محی الدین سید عبد القادر جیلانی الحسنی الحسینی رضی اللہ عنہ“(رسالہ حق نما، ص ۲/۳)
اس کے استادوں میں عبداللطیف سلطان پوری کا نام سرِ فہرست ہے، جنہوں نے اس کو ابتدائی تعلیم دی اور وہ اس کے پہلے استاد تھے، چوں کہ وہ طبعاً درویش صفت واقع ہوا تھا اسی لیے اس نے اپنی عمر کے ابتدائی ایام میں ہی جب کہ اس کی عمر پچیس سال سے زیادہ نہ تھی ملا شاہ بدخشانی کے دست مبارک پر1049 ھ میں بیعت کر لی، ملا شاہ بدخشانی سلسلۂ قادریہ کے مشہور مشائخ میں شمار کیے جاتے ہیں، وہ بدخشاں سے ہندوستان آئے اور یہیں پر حضرت میاں میر کے مرید ہو گیے، تقریباً تیس سال تک ان کی معیت میں رہ کر عبادت و ریاضت کی اور جب ان کی وفات ہوئی تو ملا شاہ بدخشانی ان کے جانشین مقرر ہوئے، دارا شکوہ ان دونوں حضرات کا بہت احترام کرتا تھا، کتابوں میں جب بھی وہ ان حضرات کا ذکر کرتا ہے تو اس کا سودائی قلم ان حضرات کی ثنا خوانی کرتا ہوا انتہائے شوق میں رقص کرنے لگتا ہے، رسالہ ’’حق نما‘‘ میں اس نے ان دونوں نفوسِ قدسیہ کے بارے میں کچھ اس طرح سے رقم طراز ہے۔
”و از ایشاں با شرف مشائخ زمان اقدس اؤلیائے دوراں، مخزنِ اسرارِ غیبی، مطرح انوار لاریبی، دانائے دقائق عرفان، واقف اسرارِ یزداں، دلیل اہلِ حقیقت، رہنمائے سالکانِ طریقت، محرمِ حریم جلال، شاہدِ بزمِ وصال، اعظم اؤلیائے ربانی، محی الدین ثانی، پیر دستگیر، شیخ میر قدس اللہ روحہ و از ایشاں بلا واسطہ منتقل گردیدہ بشاہ محققان، سلطان اہل عرفان، مستغرق بحر توحید، سیاح بادیہ تفرید و تجرید، سالک طریقِ لقا و اقفِ مواقفِ فنا و بقا، محرمِ حریمِ یزدانی، گنجورِ توحیدِ ربانی، دانائے اسرارِ وحدت، منزہ از آفاتِ کثرت، استادی استفادی مولائی و مرشدی، حضرت مولانا شاہ سلمہٗ اللہ و ابقاہٗ و از ایشاں بواسطہ براقم ایں حروف“ (رسالہ حق نما، ص۳)
اس نے پوری زندگی حصول علم و معرفت میں گزاری، یہی سبب ہے کہ تیموری شاہزادوں میں اگر کسی کا نام علم و عرفان کے لحاظ سے لیا جاتا ہے تو وہ دارا شکوہ ہے، اگر یہ سوال ہو کہ تیموریوں نے ہندوستان کو کیا دیا؟ تو ہم اس کے جواب میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں سکینۃ الاؤلیا، سفینۃ الاؤلیا، اپنیشد، مجمع البحرین، رسالہ حق نما، طریقۃ الحقیقت، حسنات العارفین، اکسیرِ اعظم، جوگ وشسٹ اور بھگوت گیتا جیسی شاہکار کتابیں لکھنے والا شہزادہ دارا شکوہ دیا ہے۔
’’حسنات العارفین‘‘ دارا شکوہ کی کاوشوں کا وہ کارنامہ ہے جس کی بنا پر اس کو رہتی دنیا تک یاد کیا جائے گا، یہ رسالہ اپنے منفرد موضوع کی بنا پر ہمیشہ اہلِ شوق کی توجہ کا مرکز رہا ہے اور اپنی مخصوص طرز نگارش کی وجہ سے ہمیشہ اہل صفا نے اس سے اپنی پیاس بجھائی ہے، حسنات العارفین کا موضوع شطحیات صوفیہ ہے، اس میں صوفیائے متقدمین و متاخرین کے ایسے اقوال کی تشریح و جمع آوری کی گئی ہے جو رندانہ و مسکرانہ حالات میں ان کی زبان سے جاری ہوئے ہیں، دارا شکوہ نے اس رسالے کو اڑتیس سال کی عمر میں1062 ھ میں لکھنا شروع کیا اور دو سال کی محنت و مشقت کے بعد ربیع الاول 1064 ھ میں مکمل کیا، اس کتاب میں ایسے اقوال کی جمع آوری کی گئی ہے جو بظاہر عقائد اسلام کے مخالف معلوم پڑتے ہیں مگر غور و فکر کرنے کے بعد ان اقوال میں جو گیرائی و گہرائی نظر آتی ہے وہ عین اسلام کے مطابق معلوم پڑتی ہے۔
شطحیات : یہ شطح کی جمع ہے جو بقول سید مخدوم رہین ظاہرا سریانی زبان سے آیا ہے، سریانی میں اس کے معنی ”توسعہ یافتن“ و ”توسعہ بخشیدن“ کے ہیں، اس کے بعد یہ عربی زبان میں متفرق معنی کے ساتھ وارد ہوا ہے اور پھر یہ لفظ چوتھی صدی ہجری میں صوفیہ کے درمیان خاص معنی میں استعمال کیا جاتا تھا۔
شطح کی تعریف ابو نصر طوسی (متوفی ۹۸۸ء) کی کتاب ”اللمع“ میں اس طرح نقل کی گئی ہے۔
”الشطح کلام یترجمہ اللسان عن وجد یفیض عن معدنہ مقرون بالدعویٰ الا ان یکون صاحبہ مستلبا و محفوظا۔۔۔۔ و کان بعضہم اذا سالہ انسان مسالۃ فیہا دعویٰ یقول اعوذ باللہ من شطح اللسان“ (کتاب تفسیر الشطحیا ت و الکلمات التی ظاہرا مستشنع و باطنہا صحیح مستقیم، ص۳۴۶)
ترجمہ: شطح وہ کلام ہے جو حالت وجد میں اپنے معدن اصلی سے زبان پر ظہور پذیر ہوتا ہے، اس میں دعویٰ بدیہی طور پر ہوتا ہے مگر یہ کہ صاحب شطح مسلوب العقل اور محفوظ ہو اور بعض حضرات سے جب ایسے مسئلہ کے بارے میں دریافت کیا جاتا جس میں دعویٰ ہو تو وہ کہتے اعوذ باللہ من شطح اللسان۔
ابن عربی (۱۱۶۵ء/۱۲۴۰ء) کی ’’فتوحات المکیہ‘‘ میں شطحیات کی تعریف اس طرح کی گئی ہے۔
الشطح دعویٰ فی النفوس بطبعہا
لبقیۃ فیھا من آثار الھویٰ
ھذا اذا شطحت بقول صادق
من غیر امر عند ارباب النہی
ان الشطح کلمۃ دعوی بحق تفصح عن مرتبۃ التی اعطاہ اللہ من المکانۃ عندہ افصح بھا عن غیر امر الٰہی لکن علی طریق الفخر بالراء، فاذا امر بھا فانہ یفصح بھا تعریفا عن امرالٰہی لا یقصد بذالک الفخر،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فالشطح کلمۃ صادقۃ صادرۃ من رعونۃ نفس علیھا بقیۃ طبع تشھد لصاحبھا یبعدہ من اللہ فی تلک الحال، و ھذالقدر کاف فی حال معرفۃ الشطح“ (الجلد الرابع، الباب الخامس و التسعون و ماۃ فی معرفۃالشطح، ص ۱۲۴/۱۲۸)
صاحب اصطلاحاتِ صوفیہ نے شطحیات کی تعریف کچھ ان الفاظ میں کی ہے۔
”شطح شطحیات‘‘یہ وہ کلمات ہیں جو واصلین کاملین سے حالت مستی اور غلبۂ عشق میں بے اختیار نکلتے ہیں اور بظاہر شریعت کے خلاف ہوتے ہیں، جیسے منصور علیہ الرحمتہ سے انا الحق اور بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ سے سبحانی ما اعظم شانی“(اصطلاحات صوفیہ،ص ۸۳)
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حالت وجد و سکر میں جب صوفیہ کو اتحاد کی صدا سنائی دینے لگے اور اسی حالت عدم شعور میں جو کچھ ان پر وارد ہو رہا ہو اس کے بارے میں عوام الناس کے مابین بیان کرنا جو بظاہر خلاف شرع ہو اور اس میں ایک خاص قسم کا دعویٰ پایا جائے، شطحیات کہلاتا ہے، شطحیات کے وجود کا جو اہم فیکٹر ہے وہ وجد و سکر ہے، وجد انوار الٰہی کا وہ خاص جلوہ ہے جو صوفی پر طاری ہوتا ہے اور جب یہ جلوہ طاری ہوتا ہے تو انسان عالم ناسوت سے عالمِ لاہوت کی سیر کرتا ہے، خدا و بندہ کے درمیان کا حجاب ختم ہو جاتا ہے اور اتحاد متحقق ہو جاتا ہے اس مدت میں ناسوت درمیان سے کالعدم ہو جاتا ہے اور صرف لاہوت باقی رہ جاتا ہے، جب یہ حالت ہوتی ہے تو ذکر، ذاکر اور مذکور کا فرق مٹ جاتا ہے اور یہ سب ایک ذات میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔
سکر، مستیٔ روح کو کہتے ہیں، صاحبِ ’’اصطلاحاتِ صوفیہ‘‘ نے سکر کی تعریت کچھ اس طرح کی ہے کہ
”سکر وقت مشاہدہ جمال محبوب، مست و بیخود ہو جانا اور عقل کا عشق سے مغلوب ہو جانا اور اس نوبت پر پہنچنا کہ اس کو عاشق و معشوق کی تمیز نہ رہے“(اصطلاحاتِ صوفیہ، ص۷۹)
وجد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
”وجد جذبہ معشوق ہے یعنی کشش کرنا دل عاشق کو اپنی طرف“
(اصطلاحات صوفیہ، ص ۱۶۱)
اتحاد کے بارے میں کہتے ہیں کہ
”حق سبحانہ تعالیٰ کی ہستی میں سالک کے مستغرق ہونے کو کہتے ہیں اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ وجود مطلق اس طرح پر مشاہدہ ہو کہ تمام موجودات و افراد عالم حق تعالیٰ کی ہستی سے موجود ہیں اور اس کے عین ہیں اور خود کوئی ہستی نہیں رکھتے“ (اصطلاحاتِ صوفیہ، ص ۹/۱۰)
اسی طرح عالم ناسوت و عالم ملکوت کا جاننا بھی ضروری ہے، دارا شکوہ نے رسالہ ’’حق نما‘‘ میں عالم ناسوت و ملکوت کے بارے میں قدرے مفصل بحث کی ہے وہ عالم ناسوت کے بارے میں لکھتا ہے کہ ”عالم ناسوت عبارت از ہمیں عالم محسوس است کہ بعضی آں را عالم شہادت و عالم ملک و عالم پندار و عالم بیداری نامیدہ اند“ (رسالہ حق نما، ص ۵)
اور عالمِ ملکوت کے سلسلے میں کہتا ہے کہ ”و ایں را عالم ارواح و عالم غیب و عالم لطیف و عالم خواب نامند“
(رسالہ حق نما، ص ۶)
پھر کہتا ہے کہ ”صورت عالم ناسوتی فنا پذیر است و صورت این عالم ملکوت کہ صورت اصلی ناسوت است ہیچ گاہ فانی نشود و ہمیشہ باقی ماند“
(رسالہ حق نما، ص ۶)
بقول حافظ شیرازی
خیز تا خرقہ صوفی بہ خرابات بریم
شطح و طامات بہ بازار خرابات بریم
سید مخدوم رہین نے کتاب کے مقدمے میں شیخ عبدالقادر جیلانی کا قول بھی اس سلسلے میں نقل کیا ہے اور وہ لکھتے ہیں کہ
”اگر کلمات شطح از صوفی در حالت صحو صادر شدہ باشد آن را از شیطان دانست“یعنی اگر اس طرح کی شطحیات کسی صوفی کی زبان سے حالت صحو (بیداری) میں صادر ہوں تو اس کو شیطان کا مکر سمجھنا چاہیے۔
چوں کہ یہ وہ موضوع ہے جس کی وجہ سے بہت سے صوفیہ کو صعوبت و دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے اور بہتوں کو اس کی وجہ سے دار و رسن پر چڑھا دیا گیا، کئی متہم ہوکر ذلیل و خوار ہوئے اور کئی افراد کفر و فسق کے الزام میں گرفتار ہوئے ہیں، کسی کو مہمل گو کہا گیا ہے تو کسی کو مجنون و پاگل، کوئی جامہ دریدہ ہوکر جنگلوں کی طرف بھاگا ہے تو کوئی گالیاں دیتا نظر آتا ہے، کسی نے نماز و روزہ سے توبہ کی ہے تو کسی نے ان کو شرک تصور کیا ہے، کوئی بی خود ہوا ہے تو کوئی خودی کا پروردہ، کسی نے ’’انا الحق‘‘ کی صدا بلند کی ہے تو کسی نے مظہر محمدی کو پردہ ذات حق شمار کیا ہے، کوئی کافری کی تمنا کرتا ہے تو کوئی زنار باندھے ہوئے نظر آتا ہے، ان صد رنگیوں میں بھی ایک ہی رنگ نمایاں ہے اور وہ صبغتہ اللہ ہے، سب نے اپنے وجود سے انکار اور وجود واحد حقیقی کا اقرار کیا ہے، یہ وہ صوفیائے کرام ہیں جن کی صوفیت و ولایت آج متحقق و یقینی ہے اور بلا شک و شبہ ان کی ولایت کو قبول کیا جاتا ہے بلکہ ان کے قتل پر افسوس جتایا جاتا ہے وہ اپنے انہیں کلمات کے سبب سے اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں قتل کر دیے گیے، انہیں موضوعات کی تشریح اس رسالہ کا موضوع قرار پاتا ہے۔
شاہ محب اللہ صابری الہ آبادی اپنی کتاب ”مناظر اخص الخواص“ میں لکھتے ہیں کہ
”بداں کہ بعضی عرفا زمانہ سابق را کہ امروز خاص و عام در بزرگی ایشان متفق اللفظ والمعنی اند اہل آن زمانہ مہجور داشتہ اند و بعضی ازیشان بر دست اہل زمانہ خود کشتہ شدہ اند، چنانکہ ابوالعباس ابن عطا بسبب آں کہ انکار داشت بر قتل حسین ابن منصور حلاج، کشتہ شد و ابن عطا بسی بزرگ بود چنانکہ عارف کامل، صاحب راز ابو سعید خراز گوید: التصوف خلق و لست انا بہ وما رایت من اہلہ الا الجنید و ابن العطا“ (مناظر اخص الخواص، ص۱۰/۱۱)
اسی طرح سے شیخ فریدالدین عطارؔ، حضرت شبلی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جب منصور حلاج کو قتل کیا گیا تو شبلی کو ان کا طرف دار ہونے کے سبب بہت سی تکلیفیں اٹھانا پڑیں اور چوں کہ شبلی کے بعض خیالات بھی منصور کی طرح ہی تھے اس لیے لوگ ان کے بھی در پئے آزار ہو گیے۔
”و از جہال زمانہ بسیار رنج کشید و در رد و قبول و غوغائے خلق بماندہ بود و پیوستہ قصد او کردندیتا او را ہلاک کنند چنانکہ حسین منصور را کہ بعضی از سخنان او طرفی با حسین داشت“ (تذکرۃ الاؤلیا، ذکر شیخ ابو بکر شبلی، ص ۱۳۶)
اگر یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے کہ صوفی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ”ہمہ اوست“ کے درجے پر آ کر خاموشی اختیار کرے اور ان راز ہائے سربستہ کو دروں سینہ ہی دفن کر دے، یہاں افشائے راز کی کوئی گنجائش نہیں، صوفی کو چاہیے کہ جب وہ خودی حاصل کر لے اور خودی میں اس کو خدا نظر آنے لگے تو خودی کو بھلا دے، بہ صورت دیگر شرمندگی و افشا ئےراز کی سزا متعین و متحقق ہو جاتی ہے لیکن صوفیہ نے اپنی بدنامی ہی میں نیک نامی کو مضمر پایا ہے اسی لیے وہ اس بات کا خیال رکھنے کے باوجود کچھ نہ کچھ ایسا کہہ جاتے ہیں کہ لوگ ان کے در پئے آزار ہو جاتے ہیں، حضرت جنید بغدادی کا قول ہے کہ
”لا یبلغ احد درجۃ الحقیقۃ حتی یشہد فیہ الف صدیق بانہ زندیق و ذالک لانہم یعلمون من اللہ ما لا یعلمہ غیرہم“ (مناظر اخص الخواص، ص ۵۶)
تم میں سے اس وقت تک کوئی حقیقت کے درجہ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ اس کے متعلق ہزار صدیق یہ گواہی نہ دے دیں کہ وہ زندیق ہے اور یہ اس لیے ہے کہ وہ ان باتوں کو جانتا ہے جن کو عام لوگ یا اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔
اسی طرح دوسری جگہ پر شاہ محب اللہ صابری الہ آبادی ’’فتوحاتِ مکیہ‘‘ کے خطبہ سے ایک عبارت نقل کرتے ہیں اور علم کی تین منزلیں بتائی ہیں، پہلی علم العقل، دوسری علم الاحوال اور تیسری منزل کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ
”و الثالث علم الاسرار وہو فوق طور العقل و ہو علم نفث روح القدس فی الروح یختص بہ النبی و الولی“ (مناظر اخص الخواص، ص ۳۴)
یعنی تیسری منزل علم الاسرار ہے اور وہ علم العقل و علم الاحوال سے افضل ہے اور وہ ایسا علم ہے جس کو روح القدس نے پھونکا ہے جو نبی اور ولی کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ دارا شکوہ نے اس نوعیت کا یہ پہلا رسالہ لکھا ہے بلکہ اس کی مثال اس سے پہلے بھی ملتی ہے اور چیدہ چیدہ اس طرح کے موضوعات شطحیات صوفیہ کے تذکروں میں درج کیے گیے ہیں مگر اس طرح کے اقوال کو باقائدہ فارسی زبان میں سب سے پہلے شیخ روزبہان بقلی شیرازی (1128/1209 ء) نے ہی ایک رسالہ لکھ کر جمع کیا ہے، اس میں صوفیا کی شطحیات کو یکجا کر دیا گیا ہے جو اس قسم کی پہلی کتاب شمار کی جا سکتی ہے، روزبہان بقلی نے اپنی کتاب کے ابتدا میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ جب انہوں نے اس کتاب کو لکھنے کا ارادہ کیا تو متعدد کتب کی مدد لی اور ان کے مطالعہ کے دوران یہ بات صاف ہو گئی کہ لوگوں نے اقوال کو نقل کرنے میں احتیاط نہیں برتی ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے اقوال کو درستگی کے ساتھ لکھا جائے اور ان نفوس قدسیہ کے کلام میں جو معنی کا ایک بحر بے کراں پوشیدہ ہے اس میں غواصی کر کے در بہا تلاش کیے جائیں اور اس کے لیے ان اقوال کی نصوص قرآنیہ و احادیث نبویہ کی مدد سے شرح کی جائے تاکہ معترضین کو جواب دیا جا سکے۔
”علی الخصوص زبان اہل سکر کہ در لجۂ بحر قلزم قدم غرق وحدت بودند از شقایق ایشان در وقت زفرات و حقیقت غلبات شطحیات پیدا شدہ بود و بر ہر کلمۂ جہانی از اہل علم بہم دیگر بر آمدہ بود، طاعنان شمشیر جہل از غمد حسد بر کشیدہ بودند و از نادانی بخود می زدند، غیرت عشق مرا شربت سکینہ داد، تا از غمرات محبت ساکن شدم، غیوران حق آواز دادند از بطنان غیب کہ ” اے شاہد اسرار و اے مشکوٰۃ انوار! ارواح مقدسان از طعن ایں مفلسان برہان و دہر دہار بر آں قتالان صلاب بگریان بیان کن، رمز شطح عاشقان و عبارت شور مستان بزبان اہل حقیقت و شریعت و ہر نکتہ کہ مقرون حالتست آں را بصورت علم و ادلہ قرآن و حدیث شرحی لطیف عجیب بگوی“ (شرح شطحیات، شیخ روزبہان بقلی شیرازی،ص ۱۲)
اگر چہ روزبہان بقلی کے معاصرین میں ایک نام شیخ فریدالدین عطارؔ کا بھی آتا ہے جنہوں نے ’’تذکرۃ الاؤلیا‘‘ میں صوفیہ کا تذکرہ کرتے وقت جابجا صوفیہ کے ذکر خیر کے ساتھ ساتھ ان کی شطحیات کا بھی ذکر کیا ہے مگر روزبہان بقلی نے اس پر مستقل شرح کے ساتھ رسالہ لکھا ہے جو یقینا اپنی نوعیت کیا ایک منفرد کام ہے، شیخ روزبہان بقلی شیرازی نے سب سے پہلے ”منطق الاسرار بہ بیان الانوار“ کے نام سے ایک کتاب لکھی اور اس کے بعد اس کی شرح ”شرح شطحیات“ کے نام سے مرتب کی، اس کتاب کو لکھنے کے لیے انہوں نے بہت سی مشقتیں اٹھائیں، سفر کیے اور اس میں انہوں نے صحت سند کا خاص طور پر خیال رکھا ہے اس بابت انہوں نے خود لکھا ہے۔
”در خاطرم آمد کہ شطحیات مشائخ جمع کنم و آں را بالفاظ متصوفہ بزبان عربی شرحی بگویم، استعانت از حق خواستم و بر وی توکل کردم در جمع آں، چوں در آں علم خوض کردم و دیوان ایشان مطالعہ کردم، بیشترین شطحیات از آں سلطان عارف بایزید و شاہ مرغان عشق حسین بن منصور حلاج یافتم آن از ہمہ مشکل تر دیدم، علی الخصوص از آں حلاج، برنجانیدن وے غمناک شدم، از برائے تخلیص این علم از طعن حاسدان رنج بسیار کشیدم، تا کتابی مفرد در غرایب علم شطح بفضل حق جمع کردم و آں را ”منطق الاسرار بہ بیان الانوار“ نام نہادم“ (شرح شطحیات، شیخ روزبہان بقلی شیرازی، ص ۱۲/۱۳)
شرح شطحیات کے مطالعہ کے بعد یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ اس کتاب کا ادبی مقام بھی بہت عالی ہے، انہوں نے اس کتاب کو بہت ہی خوب صورت عبارت میں لکھا ہے، عبارت پر تکلف جملات و کلمات سے آراستہ کی گئی ہے اور اس میں الفاظ کی مقدمہ چینی کو بہت واضح دیکھا جا سکتا ہے مگر اس کی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ عبارت کو پرپیچ اور مغلق نہیں ہونے دیتے، دوسرے یہ کہ جیسا عبارت بالا میں بیان بھی کیا گیا ہے کہ ان کی کتاب میں بایزید بسطامی اور شیخ منصور حلاج کو خاص جگہ دی گئی ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ یہ کتاب شیخ منصور کی شطحیات کو بیان کرنے کے لیے ہی لکھی گئی تھی، کیوں کہ کتاب کا بہترین حصہ بایزید و حلاج کے بارے میں ہی لکھا گیا ہے، انہوں نے پہلے نبی، خلفا و صحابہ اور پھر مشائخ صوفیہ کی شطحیات کا ذکر کیا ہے، روزبہان شاعر بھی تھے اور ایک صوفیٔ با صفا بھی، اس لیے انہوں نے جابجا اپنے اشعار کے ذریعے کتاب کی تزئین کاری کی ہے۔
لیکن ”حسنات العارفین“ کی عبارت میں اگر چہ تصنع اور الفاظ کی وضع داری کا اتنا خیال نہیں رکھا گیا ہے جتنا کہ روزبہان کی شرح شطحیات میں ہے مگر پھر بھی دارا شکوہ کی عبارت بے مزہ نہیں ہے اس کے یہاں سادہ عبارت کا التزام کیا گیا ہے، شاید اس نے اس لیے سادہ زبان کا انتخاب کیا ہو کہ اس سے زیادہ سے زیادہ افراد استفادہ کر سکیں اور چوں کہ شطحیات خود بھی محتاج تشریح ہوتی ہیں اس لیے اس کو آسان سے آسان تر زبان میں لکھنا اسےزیادہ مناسب معلوم ہوا ہو، دوسرے یہ کہ اقوال کو نقل کرنے میں عبارت کو زیادہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے ورنہ معنی کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے اس لیے وہ مجبور تھا کہ ان کو اسی طرح لکھے جیسے کہ وہ وارد ہوئے ہیں اور روزبہان بقلی چوں کہ ایک مستقل شرح لکھ رہے تھے اس لیے انہوں نے اقوال کی تشریح کرتے وقت اپنی عبارات کو صنائع و بدائع سے آراستہ کر دیا اور دوسری طرف شہزادہ جب اقوال نقل کرتا ہے تو بہت ہی مختصر اور نپے تلے الفاظ میں اس کے معنی بیان کرتا ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اس سے پہلے ان اقوال کی شرح کی جا چکی ہے، وہیں جب اپنے عہد کے صوفیہ کی شطحیات بیان کرتا ہے تو قدرے مفصل بیان کرتا ہے اور وہاں اس کی بات بھی گنجلک و پیچیدہ ہو جاتی ہے ورنہ اگر دارا کی عبارت کی خوبصورتی دیکھنا ہو تو اس کی دیگر کتب میں دیکھی جا سکتی کہ وہ الفاظ و معنی کو کس خوبصورتی کے ساتھ برتتا ہے اور صناعت و بداعت کو کس چابک دستی سے استعمال کر سکتا ہے اس کی عبارات کے کچھ نمونے اوپر قوسین میں درج کیے گیے ہیں ان کو دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ اس کو ہر طرح کی عبارت لکھنے پر قدرت حاصل تھی، اس نے ان ساری باتوں کا اشارتا ذکر کیا ہے وہ لکھتا ہے۔
”و چون شطحیات کہ عاشق عارف روزبہان بقلی، رحمہ اللہ، جمع نمودہ، مشتمل بر تشبیہات و استعارات بودہ خوانندگان را موجب ملال می باشد، مختصری بہ عبارت راست بہ راست و اشعار مناسب چہ از مشائخ و چہ از خود ترتیب داد“(حسنات العارفین، ص ۳)
دارا شکوہ بھی روزبہان کی طرح شاعر تھا اس لیے وہ بھی دوران کلام جا بجا متقدمین و متاخرین شعرا کے اشعار کی گرہ لگاتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور نہ صرف دیگر شعرا کے اشعار نقل کرتا ہے بلکہ وہ خود اپنے اشعار سے گل کاری کر دیتاہے، اس کے اشعار صوفیانہ عقائد کے حامی اور وحدت ادیان و وجودیت کے علمبردار ہیں اس لیے ان کی پیوندکاری کلام میں چار چاند لگا دیتی ہے، اس نے جب یہ کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تو اس کو بھی بہت سی دشواریوں کا سامنا اور دقیق مطالعہ کرنا پڑا اس کے لیے اس نے ابو طالب مکی کی ’’قوت القلوب‘‘ سے لے کر ابو نصر طوسی کی کتاب ’’اللمع‘‘ امام قشیری کی رسالہ ’’قشیریہ‘‘ علی ہجویری کی ’’کشف المحجوب‘‘ فریدالدین عطارؔ کی ’’تذکرۃ الاؤلیا‘‘ جلال الدین رومی کی ’’مثنوی معنوی‘‘ رازی کی ’’مصباح الہدایہ‘‘ امام غزالی کی ’’احیاؤالعلوم‘‘ محمود بن عثمان کی ’’فردوس المرشدیہ‘‘ روزبہان بقلی کی ’’شرح شطحیات‘‘ اور جامیؔ کی ’’نفحات الانس من حضرات القدس‘‘ جیسی کتب کا مطالعہ کیا، جب اس نے یہ رسالہ لکھا تو اس کے معتقدین و مداحین نے اس بات کا اصرار کیا کہ اس کتاب میں وہ اپنی شطحیات کو بھی بیان کرے، اس نے جواب دیا کہ
”چوں بعضی طالبان صادق خواہش نمودند کہ بہ جہت موافقت ایں گروہ والا شکوہ از خود ہم داخل رسالہ باید نمود، گفتم کہ شطح من اینست کہ من می گویم کہ ہمہ شطح ہا شطح من است“ (حسنات العارفین، ص ۷۹)
یعنی میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ یہ ساری کی ساری شطحیات، میری شطحیات ہیں۔
جب اس نے اس کتاب کو لکھنے کا ارادہ کیا تواس کے ذہن میں بہت سی باتیں گردش کر رہی تھیں، اسی لیے اس نے ان باتوں کا ذکر کتاب کے ابتدائی حصے میں کیا ہے وہ اس کے ابتدا کے سلسلے میں لکھتا ہے کہ
”می گوید فقیر بی حزن و اندوہ محمد دارا شکوہ: چوں در ایں ایام کہ سال یک ہزار و شصت و دو ہجری و سال سی و ہشتم است از ولادت ایں فقیر، خاطر بالکلیہ از کتب اہل سلوک و طریقت ملول گردیدہ بود و جز توحید صرف منظور نظر نبود و از روی وجد و ذوق اکثر کلمات بلند حقائق و معارف سر بر می زد و پست فطرتان دون ہمت و زاہدان خشک بی حلاوت از کوتاہ بینی در صدد طعن و تکفیر و انکار می شد، بنا بر آں خاطر ایں فقیر (رسید) کہ آنچہ از کبرا موحدان و بزرگان عارفان کہ بہترین مخلوق و راست بازان در معاملت اند، سخنان بلند کہ آں را متشابہات و شطحیات نامند صادر شدہ و در کتب و رسائل این قوم متفرق است، با آنچہ از عارفان ایں وقت خود شنیدہ، جمع نماید تا حجت قاطع و برہان ساطع بر دجاجلۂ عیسی نفسان و فراعنۂ موسی صفتان و ابو جہلان محمدی مشربان باشد“ (حسنات العارفین، ص ۲/۳)
دارا شکوہ نے اس کتاب کا نام ’’حسنات العارفین‘‘ رکھا ہے تا کہ ان لوگوں کو یہ جواب بھی دیا جا سکے جو اس طرح کے کلمات کو لغویات شمار کرتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے ایک دلیل قائم ہو جائے جو صوفیہ کے اس طرح کے کلمات کے طرف دار ہیں اور اس بات کو اس نے بہت ہی وثوق کے ساتھ کتاب میں کہا ہے۔
”و آں را حسنات العارفین بہ اشارہ قرآن مبین نام نہاد تا صادقان سلوک را حجت و سند باشد و زبان طاعنان از سرزنش کوتاہ گردد و افتتاح آں بہ کلام الٰہی و احادیث نبوی و اقوال صحابہ کبار کہ دلائل واضحہ اند بر اثبات این مطلب نمود“ (حسنات العارفین، ص ۳)
ذکرشطحیات متقدمین : دارا شکوہ بھی اپنی کتاب کو پہلے قرآن کی آیات متشابہات سے شروع کرتا ہے اور پھر نبی کی شطح سے برکت حاصل کرتا ہے، بظاہر اس کا ایک مقصد یہ بھی معلوم پڑتا ہے کہ وہ ان لوگوں کا منہ بند کرنا چاہتا ہے جو صوفیانہ شطحیات کو جنون و پاگل پن سے تعبیر کرتے ہیں، اس لیے اس نے سب سے پہلے قول نبی ذکر کیا ہے کہ نبی نے فرمایا ”انا احمد بلا میم“ یعنی احدم“ اس کا مطلب ظاہر ہے کہ میں احد ہوں یعنی میں خدا ہوں، یہ وہی قول ہے جس کو شیخ منصور حلاج نے ”انا الحق“ کہہ کر ظاہر کیا ہے۔
توحید نبی گفت و ولی گفت خدا
جز وحدت ذات نیست حاشا کلا
ہر گاہ خدا و انبیا می گفتند
من حوصلہ از کجا بیارم تلا
اس کے بعد وہ صحابۂ کرام کی شطحیات کی طرف مراجعت کرتا ہے اور خلفائے راشدین کے اقوال کا ذکر کرتا ہے پھر تابعین و تبع تابعین کے، اسی ضمن میں اس نے حضرت امام زین العابدین کا ذکر کیا ہے اور کہتا ہے امام زین العابدین فرماتے ہیں کہ
’’میں اپنے خاص قسم کے علم کو لوگوں سے پوشیدہ رکھتا ہوں تاکہ جہلا مجھ پر حملہ نہ کر دیں‘‘ میرے پاس ایک خاص علم ہے کہ اگر میں اس کو لوگوں پر ظاہر کر دوں تو لوگ مجھ پر بت پرستی کا الزام لگا دیں اور وہ میرا خون حلال سمجھ کر جو زیادتی مجھ پر کریں گے اس کو باعث ثواب سمجھیں گے، یہ علم مجھے میرے دادا نے وصیت کیا تھا اور امام حسن و امام حسین نے بھی وصیت کی تھی کہ اس کو کسی پر ظاہر نہ کروں‘‘
اس کے بعد دارا شکوہ نے اس کی تشریح کی ہے اور بہت ہی خوب صورت فلسفیانہ انداز اور بہت ہی کم لفظوں میں بات کو بالکل واضح کر دیا ہے، کہتا ہے کہ
”ازیں عبارت دو چیز ظاہر می شود، یکی آں کہ خلاصہ علم، علم توحید است، چہ از ظاہر ساختن علم شریعت و طریقت کسی خون کسی نمی ریزد، دوم آں کہ مرا بت پرست می گویند، یعنی چوں حق در من است بت وجود خود را خود خواہم پرستید“ (حسنات العارفین، ص ۷)
ایک جگہ پر وہ فضیل بن عیاض کی شطح گوئی کے بارے میں ذکر کرتا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ
”عرش و کرسی و لوح و قلم منم و جبرئیل و میکائیل و اسرافیل و عزرائیل منم و ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ و محمد منم“ اب ظاہر ہے کہ جب کوئی اس طرح کا دعویٰ کرنے لگ جائے تو لوگ اس کے در پے آزار ہو ہی جاتے ہیں اور عوام کس طرح سے اس طرح کے کلمات و دعوے کو برداشت کر سکتی ہے اسی لیے جب جب لوگوں نے اس طرح کے دعوے کیے تب تب علما نے ان کو اپنی گرفت میں لیا ہے کیوں کہ علمائے ظاہر پر فیصلہ صادر فرماتے ہیں جب کہ اس طرح کے دعوے کو سمجھنے کے لیے ایک خاص قسم کی فہم و ذکا کی ضرورت ہے جو اہل اللہ و کاملین کو خدا کی طرف سے عطا ہوتی ہے، دارا نے اس کی شرح اس طرح سے کی ہے جو واقعی بہت ہی خوبصورت شرح ہے وہ کہتا ہے کہ
”یعنی ہر کہ در مقام کلیت رسید او عین ہمہ اوست و ہمہ عین او“ (مصدر سابق،ص ۸)
اسی لیے حضرت جنید بغدادی فرمایا کرتے تھے کہ جب تک کہ تجھ کو ہزار صدیق زندیق نہ کہہ دیں اس وقت تک تو صدیقیت کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا (مصدر سابق،ص ۸) اور جب یہ مرتبہ حاصل ہو جاتا ہے تو وہ کائنات میں تصرف کا حقدار ہو جاتا ہے، جس سے چاہتا ہے بات کرتا ہے اور جب چاہتا ہے پیر کے سامنے اور جب چاہتا ہے مرید کو نظر آنے لگ جاتا ہے، اسی لیے بایزید بسطامی فرمایا کرتے تھے کہ مجھ سے میرے رب نے فرمایا ہے کہ تمام کائنات مجھ میں ہے (مصدر سابق،ص 10) یعنی اگر خود شناسی حاصل ہو جائے تو خدا و کائنات اور خود بندہ ایک ہو جاتے ہیں، خود شناسی یا خودی ہر انسان کے لیے ضروری امر ہے اس لیے جب تک اس کو اپنے وجود کا یقین نہ ہو جائے اس وقت تک وہ کسی دوسرے کے وجود کا کیوں کر اعتراف کر سکتا ہے اور جب انسان خود کی ذات کو پہچان لے گا تو اس کو بیخودی حاصل ہو جائے گی اور جب بے خودی حاصل ہو جائے گی تو اس وقت خدا کی ذات بھی اس کے سامنے واضح و متحقق ہو جائے گی، اسی لیے بہت سے لوگوں نے عرفان ذات پر زیادہ توجہ دی ہے اور فنائیت سے پہلے عرفان ذات کو لازمی قرار دیا ہے، شیخ عبد اللہ ملتانی فرمایا کرتے تھے کہ
”نبی نے فرمایا کہ ”من عرف نفسہ فقد عرف ربہ“ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا گویا کہ اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔
”نفرمود ہر کہ خود را فنا کرد، خدا را شناخت“ دارا کہتا ہے کہ عرفان خود کی شناخت کا نام ہے نہ کہ خود کو فنا کر دینے کا، دارا نے اسی مضمون کی ایک رباعی میں خودی و خود شناسی کو بہت ہی خوب صورت پیرائے میں بیان کیا ہے وہ کہتا ہے کہ
کی کار تو در شمار حق می آید
کی قلب تو در عیار حق می آید
باید کہ تو عین خویش دانی خود را
فانی شدنت چہ کار حق می آیدا
(مصدر سابق، ص ۴۱)
اسی مضمون کا ایک شعر مولانا جلال الدین رومی کا ہے جس میں وہ خود شناسی کی تعلیم دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
در بشر رو پوش گشتہ آفتاب
فہمم کن واللہ اعلم بالصواب
(مصدر سابق،ص۴۱)
جب انسان کی عبادات و ریاضات اس قدر ہو جائیں کہ جب وہ چاہے معراج کر سکے تو اس مرتبے کو ’’سیر فی اللہ‘‘ کہتے ہیں اس مقام میں جستجو اور قرب الٰہی کی کثرت ہوتی ہے اور ایک مقام سے دوسرے مقام تک سیر بہ آسانی کی جا سکتی ہے، استاد الموحدان حضرت ابو سعید خراز فرمایا کرتے تھے کہ ”مدتی او را می جستم، خود را می یابم، اکنوں خود را می جویم او را می یابم“ (مصدر سابق،ص ۱۲) اور جب اس کو خودی حاصل ہو جاتی ہے تو وہ خدا کو پا لیتا ہے اور جب خدا کو پا لیتا ہے تو اس کی حالت یہ ہو جاتی ہے کہ وہ خود کو فراموش کر دیتا ہے اس پر فراموشی اس قدر حاوی ہوتی ہے کہ جب اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تم کون ہو تو وہ کہتا ہے کہ میں خدا ہوں۔
امیر حسروؔ نے اس سلسلے میں کیا ہی خوب بات کہی ہے۔
عشقت خبر ز عالم بیہوشی آورد
اہل صلاح را بہ قدح نوشی آورد
رخسار تو کہ توبہ صد پارسا شکست
نزدیک شد کہ رو بہ سیہ پوشی آورد
(گنجور، دیوان امیر خسروؔ، شمارہ غزل ۸۶۶)
اس سلسلے میں ابو سعید خراز فرماتے ہیں کہ
”بندہ چوں بہ حق پیوندد و در قرب رسد، خود را فراموش کند، تا بہ حدی کہ اگر پرسند، تو از کجائی، بہ کجا می روی؟ جواب گویند، اللہ“ (مصدر سابق، ص ۱۲) دارا اس کی شرح میں کہتا ہے کہ وہ جواب دیتے ہیں کہ میں اللہ ہوں اور اللہ ہی میں جا رہا ہوں، کہتا ہے کہ اسی کو ’’سیر فی اللہ‘‘ کہتے ہیں، اسی طرح سے ابو سعید خراز (متوفیٰ ۲۸۶ھ) اپنی کتاب ’’درجات المریدین‘‘ میں فرماتے ہیں کہ
’’اسی طرح کے لوگوں میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنی لذت نفسانی کو بھی فراموش کر بیٹھتے ہیں، ان کو کسی چیز کی حاجت محسوس نہیں ہوتی، ان کو یہ تک نہیں پتا ہوتا ہے کہ ان کو چاہیے کیا، وہ کیا کہہ رہے ہیں، وہ کیا ہیں اور کہاں ہیں، کہاں کے رہنے والے ہیں وہ بے نام و ہ نشان ہوتے ہیں بے علم و بے جہل اور مشتاق ہوتے ہیں آگے فرماتے ہیں کہ
”اگر پرسند کہ چہ خواہید؟ گویند اللہ، گویند چہ گوئید؟ گویند اللہ، گویند چہ دانید؟ گویند اللہ، و اگر ہر موی از ایشان زبانی پیدا، گوید اللہ، پائے تا سر پر باشند بہ نور اللہ و از غایت قرب نتوانند گفت اللہ و از خدا جدا نیستند کہ گویند اللہ و درین حال حیرت نگنجد“ (ص ۱۲/ ۱۳)
گویا یہ لوگ اس شعر کے مصداق ہوتے ہیں کہ
مردان خدا خدا نباشند
لیکن ز خدا جدا نباشند
اور پھر وہ اس کارخانۂ قدرت میں تصرف کے حقدار ہو جاتے ہیں جن کے بارے میں مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں کہ
اؤلیا را ہست قدرت از الہ
تیر جستہ باز آرندش راہ
(مثنوی معنوی، دفتر اول، گنجور)
مگر اس طرح کا مقام حاصل کرنے کے لیے محنت و مشقت کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر فرد بشر کے بس کی بات نہیں اس لیے کہ ریاضت و مجاہدہ کوئی کار آسان نہیں ہے، لوگوں نے سالہا سال پتے کھا کر زندگی بسر کی ہے، کسی کو سالوں پانی میں کھڑے رہنا پڑا ہے، کوئی ٹہنی پکڑ کر سالوں تک ایک ہی حالت میں کھڑا رہا ہے، کسی نے خاک کھا کر ان مراتب کو حاصل کیا ہے تو کوئی قبر میں زندگی بتا کر اس مقام تک پہنچا ہے، اس لیے اہل ظاہر کو چاہیے کہ پہلے ان مقامات کی سیر کریں اس کے بعد اگر ان کا دل چاہے تو انگشت نمائی کریں مگر ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے اس راہ پر مشقت میں بادیہ پیمائی کے لیے بہت سے آئے اور اس راہ کی ابتدائی منزل طے کی اور واپس پھر گیے، دارا شکوہ ابو حمزہ خراسانی (متوفی ۲۹۰ھ) کی ایک حکایت نقل کرتا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ جب ’’احد احد‘‘ کی صدا سنائے دینے لگے اور ’’ہمہ اوست‘‘ کی کیفیت اس کے اندر جاں گزیں ہو جائے تب اس کو ہر آواز خدا کی آواز معلوم پڑنے لگتی ہے۔
”ابو حمزہ خراسانی در خانہ حارث محاسبی آواز گوسفند شنید، در وجد آمد و گفت ”لبیک جل جلا لہ“ حارث کاردی کشیدہ، گفت، ایں چہ حالت است؟ اگر بیان نکنی ترا بکشم، گفت اے بیچارہ برو چندیں سال خاکستر و سبوس و آرد باہم آمیختہ، بخور تا ایں مسئلہ بر تو روشن شود“ (حسنات العارفین،ص ۱۴)
یہ اسی طرح ہے جیسا کہ مولانائے روم کے ساتھ پیش آیا کرتا تھا، ایک دن وہ بازار سے گزر رہے تھے کہ ان کے کانوں میں لوہار کے ہتھوڑے کی آواز پڑی اور ان پر حالت وجد طاری ہوگئی اور وہ مثنوی سرائی کرتے ہوئے رقص کرنے لگے۔
ہمہ اوست وہ صفت ہے جو فنائیت کے بعد حاصل ہوتی ہے جہاں پر عابد و معبود کا فرق ختم ہو جاتا ہے اور اس پر الوہیت کا غلبہ ہو جاتا ہے، جب یہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تو بندہ خود کو خدا کی ذات میں ضم پاتا ہے اور چوں کہ خودی کا احساس مٹ جاتا ہے تو صرف اور صرف خالص خدا رہ جاتا ہے اور جب وہ اس مقام پر پہنچتا ہے تووہ شیخ ابو محمد رویم (متوفی ۹۱۵ء) کی طرح کہتا ہے کہ ”توحید دور کردن آثار بشریت است و ثابت کردن الوہیت بر خود“ (مصدر سابق، ص ۷۱) یعنی خود کو معبود کی حیثیت سے دیکھتا ہے ناکہ عابد کی حیثیت سے یا پھر حسین بن منصور حلاج ثقفی (۲۴۴/۳۰۹ھ) کی طرح اگر کوئی پوچھے کہ اے منصور! تم خدائی کا دعوی کرنے کے باوجود روزانہ ہزار رکعت نماز کس کے لیے پڑھتے ہو؟ یہ کہہ اٹھے کہ ”مرا غیر من کیست کہ بپرسد“ (مصدر سابق،ص ۲۲) یا پھر حالت اس طرح ہو جائے، یک دن منصور حلاج، جنید بغدادی کے گھر گئے اور دق الباب کیا اندر سے جنید نے پوچھا کون؟ تو عرض کیا ”حق“ یا پھر یہ کہتا ہوا نظر آئے کہ ”عارف ایمان نیاورد تا وقتی کہ کافر نشود“ (مصدر سابق،ص ۲۲) یا پھر اس منکر کو جواب کی طرح ہو جائے، جس نے حلاج سے پوچھا تھا کہ سنا ہے کہ آپ نبوت کا دعوی کرتے ہیں؟ جواب دیا ”واے بر تو، قدر مرا کم کردی“ (مصدر سابق، ص ۲۲) دارا شکوہ تشریح کرتا ہے کہ ”یعنی من دعویٰ خدائے می کنم و تو نام نبوت می گیری“ (مصدر سابق،ص ۲۲)
صوفیہ کی شطحیات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے فلسفے کو سمجھا جائے کیوں شطحیات نہ صرف حالت وجد و سکر کا ایک حصہ ہیں بلکہ قوت متخیلہ کی تندی و عیاری بھی اس میں شامل ہوتی ہے اور وہ شدت ضبط کے باوجود غیر ارادی طور پر ظاہر ہوتے ہیں اور جب ظاہر ہو جاتے ہیں تو پھر کسی کی پروا کیے بغیر صوفی اس پر قائم رہتا ہے شیخ ابو بکر شبلی (۸۶۱/۹۴۶ء) سے کسی نے دریافت کیا کہ تصوف کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا ”شرک است“ (مصدر سابق،ص۲۴) اسی طرح ایک بار ان سے شیخ رویم نے پوچھا کہ توحید کیا ہے؟جواب دیا ”کسی کہ جواب از توحید بدہد او ملحد است و کسی کہ تعریف توحید بکند او مشرک است و کسی کہ توحید را نداند او کافر است و کسی کہ اشارت کند بہ توحید، او بت پرست است، کسی کہ سوال کند از توحید او جاہل است“ (مصدر سابق،ص ۲۴) اس طرح کے اقوال متعدد صوفیہ کے یہاں ہمیں مل جائیں گے ایک بار ابو عبداللہ خفیف نے ابو جعفر خلدی سے پوچھا کہ معائنہ بہتر ہے یا مشاہدہ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ”معائنہ زندیقی است و مشاہدہ حیرت“ دارا نے اس قول کی تشریح اس طرح فرمائی ہے کہ ”یعنی کار ازیں ہر دو بالا تر است کہ آں عینیت است“ (مصدر سابق، ص۲۵) اسی لیے دارا شکوہ صوفیہ کے مذہب کو ایک رباعی میں اس طرح بیان کرتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ ہم رند مشربوں کا کوئی خاص مذہب نہیں بلکہ جہاں کے سارے مذاہب ہمارے ہیں، کہتا ہے کہ
کافر گفتی تو از پسی آزارم
ایں حرف ترا راست ہمی پندارم
پستی و بلندی ہمہ شد ہموارم
من مذہب ہفتاد و دو ملت دارم
(مصدر سابق، ص ۲۷)
جب ایک صوفی عینیت کے درجے پر پہنچ جاتا ہے تو دوئی ختم ہو جاتی ہے اور صرف ذات واحد باقی رہ جاتی ہے اس کو ہر طرف اور ہر جگہ دیدار یار ہوتا ہے جب یہ حالت ہوتی ہے تو صوفی اپنی عبادات کو ترک کر دیتا ہے کیوں کہ وہ خود بھی اس میں محوہو جاتا ہے، ہشام بن عبدان شیرازی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب وہ نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تو دوران نماز کبھی مشرق، کبھی مغرب کبھی شمال و جنوب، کبھی اوپر تو کبھی نیچے دیکھتے تھے اور نماز چھوڑ کر چلے جاتے تھے، جب مشائخ نے ان سے پوچھا کہ آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے ہیں؟ تو جواب دیا کہ ”مرا عارضی چند روی می نماید و مانع من می شود از نماز“ (مصدر سابق،ص ۲۷) یعنی جب وہ نماز پڑھتے تو ان کو ہر طرف دیدارِ خداوندی ہوتا تھا، اس لیے کس طرف کو نماز پڑھیں اس میں وسوسہ ہوتا تھا، دارا شکوہ نے ایک واقعہ اس کی تائید میں خود اپنے زمانے کا بیان کیا ہے وہ لکھتا ہے کہ
میرے پیر کے پیر حضرت میاں میر کا ایک مرید تھا جس کا نام شیخ شہاب تھا جب وہ نماز میں کھڑا ہوتا تو اتنی دیر کھڑا رہتا کہ لوگ نماز پڑھ پڑھ کر فارغ ہو جاتے اور اپنی اپنی جگہ سے اٹھ بھی جاتے تھے مگر وہ پھر بھی کبھی دائیں دیکھتا تو کبھی بائیں، کبھی مشرق کبھی مغرب، کبھی جنوب کھبی شمال کبھی اوپر تو کبھی نیچے دیکھتا رہتا تھا۔
اس طرح کی اور بھی بہت سی بے تکی باتیں صوفیہ کے یہاں مل جائیں گی، اب دیکھنے والا اس کو کس نظر سے دیکھ رہا ہے، یہ اس کی صواب دید پر محمول کرتا ہے، مثلاً ابو الحسن خرقانی فرماتے تھے کہ
”بہ دو سال خرد ترم از پروردگار خود“
(مصدر سابق،ص ۲۸)
اب خدا سے دو سال چھوٹے ہونے کا مطلب ہر ایرے غیرے کو تو سمجھ میں آ نہیں سکتا، اس لیے اس جیسے کلمے کو وہ کفر پر ہی محمول کرے گا ہاں اگر دارا شکوہ جیسا کوئی وسیع النظر اور کشادہ ذہن ہو تو اس کی صحیح توضیح ہو سکتی ہے، وہ اس کی تشریح کچھ اس طرح پیش کرتا ہے کہ ”یعنی مرتبۂ عبودیت پست تر است از مرتبۂ ربوبیت و ہویت“ اب اس قول میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی، اسی طرح احمد غزالی ،محمد غزالی کے چھوٹے بھائی کے بارے میں آتا ہے کہ ایک دن انہوں نے نماز کی نیت کچھ اس طرح سے باندھی کہ ہر صاحب ہوش استغفار پڑھنے پر مجبور ہو جائے، الفاظ یہ تھے ”کافر شدم زنار بستم اللہ اکبر“ (مصدر سابق، ص۳۱) دارا اس کی شرح ان الفاظ سے کرتا ہے ”یعنی از الوہیت نزول کردم و بہ عبودیت آمدم“ اس کے بعد اس قول کو تقویت بخشنے کے لیے دارا شکوہ اپنے پیر محترم ملا شاہ بدخشانی کے قول کو بطور دلیل لا رہا ہے کہ ”انہوں نے فرمایا کہ میں بالائے عرش تھا اذان کی آواز سنی خود کو زمین پر پایا اٹھا اور نماز ادا کی“ یعنی ادائے نماز کے لیے عبدیت شرط ہے عالم بے ہوشی و وجد و سکر میں احکام شرعی چوں کہ ادا نہیں ہوتے اس لیے صوفیہ اس طرح کے عمل کیا کرتے تھے جیسا کہ احمد غزالی نے نماز پڑھنے کے لیے کیا کیوں کہ کافری اور زنار دونوں ہی باہوش کے لیے ہیں نہ کہ صوفی سرمست کے لیے، احمد غزالی کے اور بھی اقوال ہیں کہ جن کی وجہ سے ان کو طرح طرح کے طعنے سننے پڑے ۔ایک بار انہوں نے فرمایا کہ ”ہر کہ تعلیم توحید از ابلیس نگرفت، زندیق است“ اب ابلیس سے وحدانیت کا پاٹھ پڑھنا عجب بات ہے مگر دارا توضیح پیش کرتا ہے کہ ”در یگانگی باید ملامت را مثل ابلیس باید برداشت و مردود خاص و عام گشت“ (مصدر سابق، ص ۳۲)
عین القضات ہمدانی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ”از دیدن نور محمد رسول اللہ، جملہ مؤمنان کافر شدند و ہیچ کس را از آں خبر نیست“ (مصدر سابق،ص ۳۲) یہ ایسی شطحیات میں سے ہے جس کے بارے میں خود دارا جیسا صوفی با صفا انسان یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ”ایں شطح بسیار بلند است“ اور اس کی شرح میں صرف اتنا کہتا ہے کہ ”نبوت حجاب وحدت شدہ“
پیران پیر، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں کہ ”مرد آں است کہ منازعت کند با قضا و قدر نہ آں کہ موافقت نماید با قضا و قدر“ (مصدر سابق، ص ۳۳) اسی طرح سے ایک اور شطح جو بہت ہی معروف اور زبان زد خاص و عام ہے جس کے بارے میں دارا خود کہتا ہے کہ یہ شطح عظیم ہے اور اکثر و بیشتر شیخ عبدالقادر جیلانی کے مناقب میں اس کا ورد ہوتا رہتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ”قد می ھٰذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ“ یعنی میرے قدم تمام اؤلیا کی گردنوں پر ہیں مگر دارا نے اس شطح کی شرح میں اپنی طرف سے کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے اور اس کی جگہ پر اس نے اپنے پیر کے پیر حضرت میاں میر کی توضیح کو ترجیح دی ہے اور وہ کہتا ہے کہ میرے پیر فرمایا کرتے تھے کہ ’’قدم سے مراد طریقہ ہے اور یقینی طور پر شیخ عبدالقادر رضی اللہ عنہ کا سلسلۂ تصوف تمام طرق پر بھاری اور افضل ہے‘‘ اس کو ذکر کر کے وہ یہ بھی بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ سلسلۂ قادریہ کو میں اس لیے بھی پسند کرتا ہوں کہ وہ دیگر تمام طرق پر افضل ہے، اسی طرح سے بلند و پر مغز شطح محی الدین ابن عربی سے بھی نقل ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ ”اے کاش می دانستم مکلف کیست؟ اگر مکلف بندہ است، بند خود، نیست محض است، اگر مکلف رب است، رب را چہ تکلیف؟“ (مصدر سابق، ص ۳۷) ابن عربی کی یہ شطح فلسفیانہ مباحث پر مبنی ہے جو قضا و قدر کے مبحث میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اسی طرح سے خواجہ معین الدین چشتی سے منقول ہے کہ ایک بار کسی نے ان سے کہا کہ شیخ میں آپ کا مرید ہونا چاہتا ہوں انہوں نے کہا کہو ”لا الہ الا اللہ چشتی رسول اللہ“ اس نے ایسا ہی کیا اس کو اپنا مرید بنا لیا، یہ شطح بھی نہایت بلند ہے، اس لیے کہ مرید کے لیے سب سے پہلی شرط یہی ہے کہ پیر جو بھی فرمائے مرید اس کو بلا چوں و چرا قبول کرے اس میں سوال و جواب کی گنجائش نہ نکالے اسی لیے تو حافظؔ شیرازی کہتے ہیں کہ
بہ می سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نبود زراہ و رسم منزلہا
معاصر ہندوستانی صوفیہ کی شطحیات : دارا شکوہ نے نہ صرف ان اقوال کی بات کی ہے جو اس سے پہلے درج کیے جا چکے تھے بلکہ اس نے ہندوستان کے صوفیہ کبار کی شطحیات کو بھی جگہ دی ہے، اس نے اگر چہ بعض موقع پر اختصار سے کام لیا ہے بلکہ بعض لوگوں کو چھوڑ بھی دیا ہے، اسی طرح سے اس نے اس میں متعدد شعرا کو بھی شامل کیا ہے جن کے اشعار میں فلسفیانہ مضامین یا صوفیانہ رنگ نظر آتا تھا، ہندوستان کے صوفیۂ کبار میں سے وہ شیخ شرف الدین بو علی پانی پتی کو بھی ان لوگوں میں جگہ دیتا ہے اور ان کے شطحیات کا ذکر کرتا ہے، اس نے ان کے کئی اقوال ذکر کیے ہیں یہاں صرف چند اشعار پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
بہ بد نامی بر آوردیم نامی
دگر ناموس را از ما سلامی
نمازی می گذارم در خرابات
کہ نی در وی سجودی نی قیامی
براقی کردم از وحدت چو برقی
خدایی را بہ رو کردم لگامی
مرا چوں نام زندیقی بر آمد
چو مستم نیست ننگ از ہیچ نامی
شرف! زنار و تسبیحت یکی شد
تو خواہی خواجہ شو خواہی غلامی
اسی طرح سے فخرالدین عراقی کے اشعار بھی پیش کیے ہیں کہ
دعویٰ عشق مطلق مشنو ز نسل آدم
کانجا کہ شہر عشقست انساں چہ کار دارد
معشوق و عشق و عاشق ہر سہ یکے ست اینجا
چوں وصل در نگنجد، ہجراں چہ کار دارد
پھر بابا پیارے کا ذکر کیا ہے اور ان کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے زمانے میں بہت سے صوفیائے کرام موجود تھے مگر میرے عقیدے کے مطابق ان جیسا کوئی نہیں تھا اور وہ سب پر غالب اور صاحبِ تصرف تھے وہ ان کے طریقے کے بارے میں بھی بات کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ ان لوگوں کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ ہزار یا پانچ سو مریدوں کے درمیان ایسے رہتے تھے کہ اگر کوئی شیخ کو تلاش کرتا تو تلاش نہ کر پاتا، اس لیے کہ وہ جس سے بھی پوچھتا کہ شیخ کون ہیں؟ وہی بول اٹھتا تھا کہ آپ ہی ہمارے پیر ہیں، یہ لوگ ایک دوسرے کے سامنے اپنا نام کبھی نہیں لیتے تھے اور نہ اپنا نسب ظاہر ہونے دیتے تھے، اگر ان میں سے کوئی ایک اٹھ کھڑا ہوتا تو سارے کھڑے ہو جاتے تھے اور اگر بیٹھ جاتا تو سب بیٹھ جاتے تھے، اسی طرح وہ شاعرِ نامدار کبیر داس کی شطحیات پر بھی بات کرتا ہے جو مغل بادشاہ ظہیرالدین محمد بابر کے عہد سے پہلے کے شاعر ہیں اور کہتا ہے کہ وہ ہندوستان کے کامل عارف ہیں اور یہ کہ وہ خود اپنے طریقے کی ہی پیروی کرتے تھے (جو بعد میں کبیر پنتھی کہلایا) ان کا طریق ’’موندیہ‘‘ کی طرح تھا، دارا شکوہ کہتا ہے کہ کبیر اگر چہ نساج تھے لیکن خیرالنساج تھے، اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ نساجوں (بنکروں) کو اس دور میں بہت اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا، وہ ایسے صوفی تھے کہ مسلمان ان کو مسلمان سمجھتے اور ہندو ہندو سمجھتے تھے، اگر چہ خود کبیر داس ان دونوں سے مبرا تھے یہ بھی لکھتا ہے کہ حالت نزع میں ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو دفن کیا جائے یا جلایا جائے؟ انہوں نے ہندؤں کو جواب دیا کہ اگر میری نعش ملے تو جلا دینا اور مسلمانوں سے کہا کہ اگر نعش ملے تو دفنا دینا اور یہ کہہ کر حجرے میں چلے گیے اور حجرہ اندر سے بند کر لیا جب دروازہ کھولا گیا تو ان کے حجرے میں چند پھول دیکھے گیے کبیر داس موجود نہیں تھے، یہاں پر ان کے دو اشعار نقل کیے جاتے ہیں تاکہ ہمیں کبیر کو جاننے کا موقع مل سکے، اگر چہ دارا نے کبیر کا کوئی شعر نقل نہیں کیا ہے پھر بھی ان کا ایک دوہہ ہے جس میں وہ اذان کے بارے میں کہتے ہیں کہ
کنکر پتھر جوڑ کے مسجد لیے بنائی
تا چڑھ ملا بانگ دے کیا بہر ا ہوا خدائی
یعنی کبیر یہ کہنا چاہتا ہے کہ مسلمانوں کو یہ کیا ہو گیا ہے کہ جو روز اذان کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں، ارے جس کو عبادت کا شوق ہوگا وہ خود بخود آئے گا یا خدا کو یاد کرنے کے لیے اذان کی کیا ضرورت ہے، ہم تو اس خدا کو پوجتے ہیں جو ہر جگہ، ہر وقت موجود رہتا ہے، جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، اس لیے اذان دے کر تم کیا ثابت کرنا چاہتے ہو کہ خدا کو اونچا سنائی دیتا ہے یا بہرا ہے۔
پتھر پوجے ہر ملے تو میں پوجوں پہاڑ
گھر کی چکی کوئی نہ پوجے، جس کا پیسا کائے
وہ کہتا ہے کہ جو لوگ پتھر کی پوجا و اپاسنا کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو خدا مل جائے گا اگر ایسا ہے تو میں پورے پہاڑ کو پوجوں گا ،پھر کہتا ہے کہ گھر کی چکی اس پتھر سے زیادہ حق دار ہے کہ اس کی پوجا کی جائے، اس لیے کہ اسی میں ہم روزانہ اناج پیس کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔
اس میں اس نے اپنے پیر کے پیر کا بھی ذکر کیا ہے، وہ کہتا ہے کہ حضرت شیخ میاں میر میرے بھی پیر تھے اور میرے پیر کے بھی پیر تھے وہ ان کے بارے میں کہتا ہے کہ جس طرح سے طریقت میں حضرت جنید بغدادی سب متقدمین کے استاد ہیں اسی طرح متاخرین میں حضرت میاں میر سب کے استاد ہیں اور کئی ساری ان کی باتیں نقل کی ہیں، وہ کہتا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ شیخ شہاب الدین سہروردی اور شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی اگر میرے فقر کے بارے میں جان جائیں تو وہ لوگ اپنے فقر پر شرمندہ ہوں گے، کہتا ہے کہ جب ہمارے مرشد جناب مولیٰ شاہ کشمیر کی طرف ہجرت کر گیے تو جب کوئی کشمیر سے آیا ہوا انسان ان سے ملتا تو وہ اس سے پوچھتے کہ ”خدائے کشمیر چہ حال دارد“ اس نے اس میں اپنے پیر ملا شاہ کے بارے میں بھی بات کی ہے، اگر چہ وہ کہتا ہے کہ ان کے احوال میں ایک مستقل کتاب ”سکینتہ الاؤلیا“ لکھ چکا ہوں مگر برکت کے لیے ان کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے پیر حضرت میاں میر کے مریدوں کے درمیان ایسے تھے جیسے شبلی، حضرت جنید کے مریدوں کے درمیان اور بھی بہت کچھ لکھا ہے ان کی ایک غزل پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
شکر کہ امروز شد، دولت فردائے ما
رتبۂ اعلیٰ گرفت، ہمت والائے ما
رشتۂ تسبیح ما، رشتۂ زنار شد
رہ سوئے میخانہ داد، مرشد دانائے ما
اول و آخر نداشت، وصل ترا ہر کہ یافت
آدم و حوا نبود، بی بی و بابائے ما
تا چہ زند فتنہ ہا، سر دگر ز پائے ما
شاہؔ جہاں آفریں، جائے مرا بر گرفت
گفت کہ بر خیز شاہ، جائے تو شد جائے ما
سرمد شہید :
عمریست کہ آوازۂ منصور کہن شد
من از سرنو جلوہ وہم دار و رسن را
دارا شکوہ نے سرمدؔ شہیدکا ذکر نہیں کیا ہے جو اس کے معاصرین میں ایک اہم مقام رکھتے تھے اور اس کے ہم مشرب بھی تھے اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اس نے اپنی اس کتاب کو جس زمانے میں ترتیب دیا تھا، اس وقت تک سرمدؔ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی اور اس کے بعد اس نے اضافے کی ضرورت محسوس نہیں کی کیوں کہ وہ اپنی توجہ کہیں اور مرکوز کر چکا تھا۔
دارا شکوہ کے ذکر کے ساتھ اگر سرمد کا ذکر نہ کیا جائے تو ایک خلا سا محسوس ہوتا ہے، اس لیے مناسب معلوم پڑتا ہے کہ اگرچہ دارا کی اس کتاب میں سرمد کا ذکر نہیں ہے مگر اس کا ذکر کر دیا جائے تاکہ یہ معاصر محروم حق نہ رہ جائے، کیوں کہ سرمد کی شہادت پولیٹکل رنگ میں رنگی ہوئی ایک خونچکاں داستان معلوم پڑتی ہے جس نے منصور ثانی بن کر اس داستان میں روشنی بھری ہے، ہم یہاں پر مولانا ابوالکلام آزادؔ کے مضمون ”سرمد شہید“ جس کو انہوں نے خواجہ حسن نظامی کی فرمائش پر1910 ء میں لکھا تھا اور جو بعد میں ’’حیاتِ سرمد‘‘ کے نام سے کتب خانہ حمیدیہ، دہلی سے شائع ہوئی تھی سے اور کچھ دیگر جگہ سے اطلاعات فراہم کریں گے تاکہ سرمد کی شطح گوئی کو بھی ہم جان اور سمجھ سکیں، یہ سب جانتے ہیں کہ سرمدؔ برہنہ جسم صوفی تھے اور وہ بھی دارا کی طرح وحدت ادیان کے علمبردار تھے، ان کی رباعیات چند بار تصحیح و ترجمے کے ساتھ شائع ہو چکی ہیں جن کی تعداد ۱۲۸ سے ۱۳۱ تک پہنچتی ہے ان کی رباعیات کو بال مکند عرش ملسیانی اور منشی سید نواب علی صولتؔ لکھنوی نے اردو زبان میں ترجمہ کیا ہے، مندرجہ ذیل رباعی گویا کہ ان کے پورے فلسفے کا خلاصہ ہے۔
عاشق و معشوق و بت گر و عیاری کیست
کعبہ و دیر و مساجد، ہمہ جا یاری کیست
گر در آئی بہ چمن وحدت یک رنگی بیں
غور کن عاشق و معشوق و گل خاری کیست
دارا اور سرمد میں جو مماثلت تھی وہ جگ ظاہر تھی دونوں وحدت ادیان کے علمبردار تھے اسی لیے دارا، سرمد کو اپنے مرشد کی حیثیت سے احترام کی نظر سے دیکھتا تھا ایک خط میں اس نے سرمد کو ”پیر و مرشد“ کہا ہے اور سرمد نے دارا کو دوست عزیز کہہ کر پکارا ہے، اسی خط میں دارا، سرمد سے چند سوالات کرتا ہے کہ
”اگر وجود ما است پس ارادہ ما چرا با مراد نیست؟و اگر من ہیچ چیز نیستم پس قصور ما کیست؟ اگر قتل حسین بہ رضائے الہی شودپس یزید کیست؟ و اگر بہ رضائے خدا نمی شود پس ایں چہ معنا دارد کہ ہر چہ خدا خواہد می کند و حکم می دہد، پیغمبر اسلام بہ خلاف کفار لشکر کشی می کند مگر سپاہ مسلمان شکست خورد، چرا؟ علما می گویند کہ ایں یک درس بود پس ہر کہ در ذات خود کامل شود برائے وی درس چہ معنی دارد؟“
سرمد نے صرف اتنا جواب دیا کہ ”میرے دوست جو بھی پڑھا تھا سب بھلا دیا ہے اب تو صرف محبوب کا ذکر یاد رہ گیا ہے جسے دم بہ دم لیے جا رہا ہوں، سرمد ہمیشہ ننگے رہتے تھے اس لیے اورنگ زیب نے قاضی القضاۃ ملا قوی کو سرمد کے پاس بھیجا کہ ان سے وہ پوچھیں کہ برہنگی کی وجہ کیا ہے۔ انہوں نے سرمد سے پوچھا کہ باوجود کمال علم و فضل برہنہ و مکشوف العورۃ رہنا کس عذر پر مبنی ہے؟ سرمد نے جواب دیا کہ ”شیطان قوی شد“ ملا قوی خجل ہو گیے، اس کے بعد اورنگ زیب کے دربار میں جب ان پر مقدمہ چلایا گیا تو سب سے پہلا سوال یہی تھا کہ آپ شرعی احکام کی پابندی کیوں نہیں کرتے جس کے جواب میں سرمد نے کہا کہ شریعت میں لباس کی پابندی نہیں ہے، خود پیغمبر بنی اسرائیل حضرت اشعیا ننگے رہا کرتے تھے، سرمد نے اپنے ننگے ہونے کے بارے میں بھی کئی رباعیات کہی ہیں،کبھی وہ کہتے ہیں۔
دزدی عجبی برہنہ کرد مرا
اور کبھی کہتے ہیں کہ
بی عیاں را لباس عریانی داد
وہ کبھی کبھی فخریہ کہتے ہیں کہ
گشت چہل سال کہ پوشیدمش
کہنہ نہ شد جامۂ عریانیم
اور جب ان سے دوسرا سوال کیا گیا کہ آپ جب کلمہ پڑھتے ہیں تو پورا کیوں نہیں پڑھتے صرف ”لا الہ“ ہی کیوں کہتے ہیں ”الا اللہ“ کیوں نہیں کہتے اس سے تو انکار لازم آتا ہے جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ابھی مجھے مشاہدہ ذات نہیں ہوا ہے اس لیے میں جھوٹ کیوں بولوں جس دن ہو جائے گا اس دن ”الا اللہ“ بھی کہوں گا، تیسرا سوال یہ تھا کہ آپ نے معراج جسمانی کا انکار کیوں کیا ہے یہ اعتراض سرمد کی درج ذیل رباعی پر ہے کہ
ہر کس کہ سر حقیقتش پا در شد
او پہن تر از سپہر پہناور شد
ملا گوید کہ بر فلک شد احمد
سرمدؔ گوید فلک بہ احمد در شد
آخر میں دارا کے ان اشعار پر بات ختم کی جاتی ہے۔
یک ذرہ ندیدیم، ز خورشید سوا
ہر قطرۂ آب ہست عینِ دریا
حق را بہ چہ نام کس تواند خواندن
ہر اسم کہ ہست، ہست ز اسمائے خدا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.