حضرت شاہ اکبر داناپوری کی غیرمطبوعہ نگارشات پر ایک نظر

حضرت شاہ اکبر داناپوری کی غیرمطبوعہ نگارشات پر ایک نظر
ڈاکٹر شمیم منعمی
MORE BYڈاکٹر شمیم منعمی
چودہویں صدی ہجری کی ابتدائی دہائیوں میں، بہار کی جو شخصیتیں علمی و روحانی قیادت کے حوالے سے ملک گیر سطح پر نمایاں تھیں، ان میں ایک وقیع نام حضرت شاہ محمد اکبر داناپوری کا بھی ہے۔ حضرت شاہ اکبر داناپوری کا حلقۂ مریدین بھی کافی وسیع تھا، اور آپ کی علمی، اخلاقی، تاریخی اور عرفانی تصنیفات بھی بے حد مقبول تھیں۔ شعر و سخن کے ستھرے ذوق پر تصوف کی عطر بیزی نے قال کو حال بنا دیا تھا۔ فارسی دبے پاوں رخصت ہو رہی تھی، اور اردو کے لیے ہر جگہ مرحباہی مرحبا تھا۔ ایسے میں حضرت شاہ محمد اکبر داناپوری کا اردو کلام بڑی تیزی سے خانقاہوں میں فارسی کلام کی جگہ لے رہا تھا۔ عاجزی و انکساری، نفس کشی، بے ثباتی دنیا، خوف آخرت و عاقبت، نسبت بزرگان، امید شفاعت یہ وہ مضامین تھے جو حضرت شاہ محمد اکبر داناپوری کے کلام میں رگِ جاں کی حیثیت رکھتے تھے۔ حضرت اکبر کی بود و باش بڑی پاکیزہ تھی، قد و قامت، چہرہ، خد و خال، اور انداز و اطوار دلکش اور منور تھے جو دیکھتا وہ بھول نہیں پاتا۔ جہاں تشریف فرماں ہوتے، نمایاں ہوتے۔ طبیعت سنجیدہ و متین تھی، اور اخلاق، مروّت و شفقت گویا جبلت میں شامل تھی۔ زیادہ تر سفر میں رہتے، اور جہاں رہتے، حلقۂ مریدین و معتقدین سے گھرے رہتے۔ مزاج میں ندرت بھی تھی۔ نواب رام پور ہوں یا نظام حیدر آباد، امراء و رؤسائے دہلی ہوں یا پٹنہ کے نواب، سب ان کے قدر دان تھے۔ حضرت شاہ اکبر داناپوری مشرباً ابوالعلائی تھے، لیکن وہ چشتیوں کے مرکزِ نگاہ تھے، اور قادری ان پر فدا تھے۔ فردوسی ان کو اپنا سمجھتے تھے، اور خاندانِ نقشبند تو ان کا گھرانہ ہی تھا۔
ہر سال اکبر آباد (آگرہ) میں حضرت سیدنا امیر ابوالعلا احراری قدس اللہ سرہ کے عرس مبارک پر پروانہ وار حاضر ہوتے، اور محفل عرس میں جدھر جاتے، لوگ ان پر پروانہ وار ٹوٹتے۔ پٹنہ میں ہر سال بڑی پابندی سے اپنے پیرانِ پیر حضرت مخدوم شاہ محمد منعم پاک قدس سرہ کے عرس مبارک (11؍ رجب المرجب) کو میتن گھاٹ میں حاضر آتے اور فرماتے کہ:
شاہ منعم کے عرس کی شب ہے
آگیا صاحبانِ قال کو حال
خانقاہ منعمیہ، میتن گھاٹ سے حضرت شاہ محمد اکبر داناپوری کا تعلق بے پناہ عقیدت، محبت اور یگانگت و مودت کا تھا۔ حضرت اکبر کے پیر و مرشد، حضرت مولانا شاہ محمد قاسم ابوالعلائی داناپوری نے یہیں آستانۂ منعم پاک میں اعلیٰ حضرت سید شاہ قمرالدین حسین منعمی ابوالعلائی قدس سرہ سے تعلیم و تربیت، صحبت و استفادہ حاصل فرمایا تھا، چنانچہ فرماتے ہیں کہ
قمردیں غوث و قطب زمان،
کیجئے مجھ کو صاحب عرفان،
یہ تمہارا غلام قاسم ہے،
گو تبہ کار و آثم ہے۔
حضرت اکبر داناپوری کے خسر اور مرشد، حضرت مولانا سید شاہ ولایت حسین دلاوری المنعمی رحمۃ اللہ علیہ کا مزار بھی حضرت سیدنا مخدوم منعم پاکباز کے احاطہ میں ہے۔ یہی سب وجوہات تھیں کہ حضرت شاہ اکبر داناپوری کا تعلق بارگاہ منعم پاک سے بے حد جذباتی اور والہانہ تھا۔
ایں پٹنہ کہ جائے شاہ قمرالدین ست
ہر کوچۂ او چو طور نور آگیں ست
اکبر سوئے پشتہ چوں نہ ساجد باشیم
واللہ کہ سجدہ گاہ پاکاں اینست
حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کی ولادت اکبر آباد میں ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب کہ حکومت مغلیہ کی بساط سمٹ رہی تھی، اور انگریزی حکومت اپنی جڑیں مضبوط کر رہی تھی۔ مسلمانوں کے لیے حصول رزق مشکل اور آسائش آزمائش میں تبدیل ہو رہی تھی۔ شاہ اکبر کے والد ماجد کے حقیقی ماموں، حضرت سید شاہ سلطان احمد داناپوری نے مظفر پور کی عدالت میں سر رشتہ دار کی حیثیت سے ملازمت اختیار کر لی تھی۔ چنانچہ حضرت اکبر کے چچا اور پیر و مرشد، حضرت مولانا شاہ محمد قاسم داناپوری نے اپنے مرشد اعلیٰ حضرت سید شاہ قمرالدین حسین داناپوری ثم عظیم آبادی کی اجازت و ایما سے عدالت انگریزی میں ملازمت اختیار کر لی، اور ترقی کرتے ہوئے سر رشتہ دار کے عہدے تک جا پہنچے۔ بھائی کے ساتھ ساتھ رہنے والے حضرت اکبر کے والد (حضرت شاہ محمد سجاد ساجدؔ داناپوری) بھی اسی ملازمت میں داخل ہوگئے۔
حضرت اکبر کے والد و چچا کی یہ نوکری محض نوکری نہیں تھی، بلکہ تبلیغ و دعوت کا ایک بہانہ بھی تھی۔ اپنی علمی لیاقت کے علاوہ روحانی و عرفانی صلاحیت سے ان دونوں بھائیوں نے اپنے انگریز ججوں کو بھی معتقد کر لیا تھا، اور مختلف انگریز حکام حضرت شاہ اکبر کے چچا اور والد کے کامیاب صوفی بزرگ ہونے کے باضابطہ قائل تھے۔ نتیجتاً ہندوستانی عوام الناس کے مسائل و معاملات ان دونوں کے توسط سے انگریز ججوں کے ذریعہ نا انصافی اور ظلم و جبر کے مثال بننے سے محفوظ رہتے تھے۔
حضرت شاہ محمد اکبر داناپوری بھی اپنے والد ماجد اور چچا حضور کے ساتھ ساتھ ان کی ملازمت میں جہاں تبادلہ ہوتا جاتے، وہاں رہتے۔ چنانچہ چچا کی پاکیزہ صحبت اور مختلف شہروں کے باکمال علما و صوفیا و ادبا و شعراء سے ملنے، استفادہ کرنے اور سبق حاصل کرنے کا قیمتی موقع انہیں حاصل ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت اکبر بڑے پختہ کار، باکمال اور گوناگوں کمالات ظاہری و باطنی کے مالک تھے۔
حضرت اکبر داناپوری مسلمانوں کے سیاسی زوال، لسانی انقلاب اور پس ماندگی کو بہت غور سے دیکھ رہے تھے، اور ان کا دل نہ صرف اس سے دکھتا تھا، بلکہ وہ شب و روز اس کے تدارک اور سدباب کی فکر میں مبتلا رہتے تھے۔ مسلمانوں کو اخلاقی زوال سے کیسے بچایا جائے، اور اپنے اسلاف اور اپنی روش سے انہیں کیسے وابستہ رکھا جائے، یہ وہ بنیادی باتیں تھیں جو حضرت اکبر کے نثر و نظم میں نمایاں ہیں۔
حضرت شاہ محمد اکبر داناپوری کی نثری تصنیفات کو ہم موٹے طور پر دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
اخلاق
تاریخی
اخلاقی یا نصحانہ انداز کی کتابیں مثلاً ارادہ، سرمۂ بینائی، ادراک، شور قیامت، احکام نماز و غیرہ ہیں۔ تاریخی یا تذکرہ کے انداز کی کتابیں حضرت اکبر کی متعدد اور کافی ضخیم ہیں، مثلاً اشرف التواریخ (تین جلدیں)، تاریخ عرب (دو جلدیں)، سیر دہلی، مولود فاطمی، شہزادی اردو بیگم (منظوم تاریخ اردو)، نذرِ محبوب، چراغ کعبہ و غیرہ۔
حضرت شاہ محمد اکبر کا ایک دیوان بنام ’تجلیات عشق‘ ان کی حیات میں ہی شائع ہوگیا تھا، دوسرا دیوان بنام ’جذبات اکبرؔ‘ ان کے وصال کے بعد ان کے صاحبزادے حضرت سید شاہ محمد محسن ابوالعلائی داناپوری نے شائع کرایا۔
حضرت شاہ محمد اکبر داناپوری قدس اللہ سرہ کی تصنیفات سے ایک زمانہ واقف ہے۔ ان کی مطبوعہ تصانیف کے علاوہ غیر مطبوعہ تصنیف کی بھی خاصی تعداد ہے۔ بقول حکیم شاہ زہیر حسن ہلسوی
’’حضرت اکبر کی تصنیفات کی تعداد تصوف اور تواریخ و دواوین میں قریب پچاس تک پہنچ چکی ہیں۔‘‘ (حق الحق، قلمی)
حضرت شاہ محمد اکبر داناپوری کے ممتاز شاگرد، شاہ غفور الرحمن حمدؔ کاکوی نے آثار کاکو میں حضرت اکبرؔ کی تصنیفات پر گفتگو کی ہے، جس میں تین تصانیف ایسی ہیں جو دوسروں کے یہاں نہیں ملتی ہیں۔ پہلی شفاعت امت، دوسری تذکرہ دیوان وار بیان (غالباً)، تیسری سیرت المومنین۔ حضرت حمدؔ کاکوی نے ’شور قیامت‘ کو ۱۳۰۰ھ میں طبع بتایاہے، اور ’سرمۂ بینائی‘ کا دوسرا نام خبر الاسرار لکھا ہے۔
گلدستۂ بہار، مئی ۱۸۸۳ء میں اکبرؔ کا مختصر سات تعارف موجود ہے، جس میں یہ جملہ قابل غور ہے۔
’’آپ کی استعداد عالی، آپ کی کتب مصنفہ مثل سرمۂ بینائی، شور قیامت سے ظاہر ہے‘‘ (ص۱)۔
ظاہر ہے کہ ۱۸۸۳ء میں ان دونوں تصانیف نے شہرت حاصل کر لی تھی۔ یہ دونوں کتابیں اکبر داناپوری کی اولین تصانیف میں سے ہیں۔ جذبات اکبرؔ، مطبوعہ ۱۳۳۳ھ کے دیباچہ میں نثارؔ اکبرآبادی نے لکھا ہے کہ
’’اور ایک دو رسالہ ناتمام رہ گئے، احکام نماز، چہل حدیث، ایک رسالہ اردو بیگم منظوم، اردو شعرا کے ذکر میں بھی ناتمام رہا‘‘ (ص۲۱)۔
صفحہ ۲۱ پر نثارؔ کی اس اطلاع سے گمراہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ نثارؔ اکبرآبادی کو یاد نہیں رہا کہ احکام نماز ۱۳۲۰ھ میں مطبوعہ شوکت شاہجہانی، آگرہ سے چھپ گئی ہے، اور خود انہوں نے اس کے طبع کا قطعہ بھی کہا ہے۔ جبکہ جذبات اکبر ۱۳۳۳ھ میں چھپا، اس لیے چہل حدیث کے بارے میں ان کی اطلاع پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ میرا اپنا خیال ہے کہ سوائے اردو بیگم کے، تمام تصانیفات اکبرؔ مکمل تھیں اور شائع ہو چکی تھیں۔
نعم النصیر معروف بہ خضر طریقت : اس رسالہ کا دوسرا نام خضر طریقت بھی تھا۔ اس کا اشتہار اشرف التواریخ، جلد اول کے خاتمے میں موجود ہے، اور خود حضرت اکبر داناپوری اپنی تصنیف رسالہ خواجہ غریب نواز، معروف بہ تاریخ خواجہ، مطبوعہ ۱۳۲۰ھ آگرہ میں فرماتے ہیں کہ
’’نعم النصیر المعروف بہ خضر طریقت، ابتدائے سلوک سے انتہا تک جو مرشد، مسترشد کو تعلیم کرتا ہے یہ بڑی کتاب ہے‘‘ (ص۲)۔
’’رسالہ نعم النصیر، بیان طریقت میں ہنوز زیر قلم ہیں۔ اگر زندگی مستعار کو رعایت دینے والے نے کچھ زمانہ تک میرے پاس رہنے دیا اور صحت قائم رہی، تو ان شاء اللہ تعالیٰ یہ بھی اپنے وقت پر اختتام کو پہنچ جائیں گے، ورنہ مرضی مولیٰ ازہمہ اولیٰ۔‘‘ (احکام نماز، ص ۲۴۰، مطبوعہ ۱۳۲۰ھ، آگرہ)
حضرت اکبرؔ اپنی کتاب مستطاب ’ادراک‘، مطبوعہ ۱۳۰۹ھ آگرہ کے حاشیہ میں اقسام خطرات سے متعلق رقم طراز ہیں کہ
’’مفصل کتاب اس کی رسالۂ خضر میں تحریر ہوگی، جو ان شاء اللہ اسی مطبع میں طبع ہوگی۔ یہاں مختصر قاعدہ لکھ دیا جاتا ہے کہ ان کی کسوٹی اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے‘‘ (ص۵۶)۔
اسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ
’’منزل زہد یہ سلوک کی ساتویں منزل ہے۔ فقر اور زہد میں یہ فرق ہے کہ اگر دنیا آدمی سے الگ رہے تو اس کو فقر کہتے ہیں، اور اگر آدمی خود دنیا سے الگ ہو جائے تو اس کو زہد کہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ منزل فقر کے بعد منزل زہد، اور زہد کے بعد منزل توحید ہے۔ اس کے اور مناظر ہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ، ان جملہ منازل کا بیان باتصریح رسالہ خضر میں ہوگا، چونکہ یہ رسالہ میں نے عزیز سعید منشی محمد عبدالغفار خان ابوالعلائی مدعمرہ کو دے دیا ہے، اور وہ اپنے خرچ سے اس کو طبع کرتے ہیں۔ لہٰذا من وجہ اس مقام پر قلم رک گیا، خداوند تعالیٰ شانۂ ان کے ایمان و عمر و رزق میں برکت عطا فرمائے‘‘ (ص۸۱)۔
اشرف التواریخ (جلد اول)، مطبوعہ ۱۳۲۲ھ آگرہ کے اخیر صفحہ میں خضر طریقت کا اشتہار موجود ہے کہ
’’رسالہ خضر طریقت، یہ رسالہ بیان تصوف میں ہے۔ جس روز سے مرید داخل ہوتا ہے، اس وقت سے آخر وقت تک شیخ اسے کیوں کر لے جاتا ہے۔ اقسام بیعت اور اقسام ذکر، شغل، مراقبہ سب کی کیفیت مفصل اس میں تحریر ہے۔ اگر کوئی شخص چاشنی فقر کا کچھ بھی ذائقہ چش ہے تو وہ اس کے مسائل بآسانی سمجھ لے گا۔ تیار ہے، کچھ تھوڑا سا باقی ہے، خریداروں کی درخواست آنے پر اس کا چھپنا موقوف ہے۔ یہ رسالہ خود مصنف کے پاس ہے‘‘ (ص۶۳۰)
چہل حدیث : اس رسالہ کے بارے میں تادم تحریر کوئی معلومات نہیں، لیکن یہ حضرت اکبر داناپوری کی اولین تصانیف میں سے ایک ہے۔ حمدؔ کاکوی نے جس ترتیب سے تصنیفات کا نام پیش کیا ہے، اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ چالیس احادیث کا مجموعہ ہے، اور اس پر حضرت اکبر کی تشریح و توضیح اور مثال طریقت موجود ہے۔
شہزادی اردو بیگم، معروف بہ تذکرہ شعرائے اردو (منظوم) : دیگر تذکرہ نگاروں نے صرف اردو بیگم لکھا ہے، حمدؔ کاکوی نے بھی صرف اردو بیگم لکھا ہے، لیکن عطاؔ کاکوی نے شہزادی اردو بیگم لکھا ہے۔ اس رسالہ کا تعارف خود مصنف حضرت اکبر نے مختلف مواقع پر کرایا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
حضرت اکبر نے اس رسالہ کا نام شہزادی اردو بیگم لکھا تھا۔
’’تذکرہ شعرائے اردو، ولی گجراتی سے لے کر اس زمانے کے شعرا کے کلام اس میں ہیں۔ اس کے تین قرن تو ہوگئے ہیں، تین قرن اور باقی ہیں‘‘ (رسالہ خواجہ غریب نواز، ص۲)۔
رسالہ خواجہ غریب نواز میں ہی دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ
’’تذکرہ شعرائے اردو، جس کا دوسرا نام شہزادی اردو بیگم ہے، زیر قلم ہے‘‘ (ص۵۴)۔
حضرت اکبر داناپوری، تاریخ عرب (جلد اول) میں فرماتے ہیں کہ
’’بالفعل ایک تذکرہ شعرائے اردو کا بھی زیر تصنیف ہے، اور وہ نظم ہوگا۔ کئی ہزار اشعار اس کے لکھ چکا ہوں۔ جب سے تاریخ عرب میں ہاتھ لگایا ہے، وہ تذکرہ اس کی تکمیل تک ملتوی کردیا گیا ہے‘‘ (ص۱۵، مطبوعہ ۱۳۱۸ھ، آگرہ)۔
تاریخ عرب (جلد اول) ۱۳۱۸ھ کی تصنیف ہے، اور ۱۳۲۷ھ میں حضرت شاہ اکبر داناپوری کا انتقال ہوا، اس لیے کوئی ایسی وجہ نہیں کہ تقریباً آٹھ سال کے درمیان بھی یہ تصنیف تکمیل کو نہ پہنچتی ہو۔ حضرت اکبر داناپوری کی یہ تصنیف بڑی گراں مایہ اور بیش قیمت ہوگی۔ کاش وہ کسی علم دوست کے ہاتھ لگی ہوتی۔ مجھے امید قوی ہے کہ یہ تصنیف، مطبوعہ ہو یا غیر مطبوعہ، ضائع نہیں ہوئی ہوگی۔ آج یا کل یہ نسخہ ضرور منظر عام پر آئے گا۔
حضرت اکبر کی تصانیف کا مارکیٹ بہت اچھا تھا۔ حضرت اکبر کی تصنیف تکمیل کو پہنچتی، اور مریدین و معتقدین کے حلقے میں سے کوئی نہ کوئی اسے حاصل کر لیتا، اور حضرت اکبر بخوشی اسے کاپی رائٹ عطا کردیتے۔ اکثر دفعہ تو مریدین و معتقدین کے سخت اصرار پر، ان کی خواہش کے عنوان پر حضرت اکبرؔ نے تصنیف و تالیف کا کام کیا، اور دیکھتے دیکھتے وہ چھپ کر بازار میں آگئیں۔ جان نثار مریدوں میں گھرے حضرت شاہ اکبر داناپوری نے اپنی تصانیف سے کبھی بھی مالی فائدہ کا ارادہ نہیں کیا۔
اس سلسلے میں حضرت اکبر کی تحریر ملاحظہ کیجیے۔
’’اے نور نگاہو، اگر تم میں سے کوئی صاحب تصنیف ہو تو کتب دینیہ کی تصنیف کا شغل بہت بہتر ہے، مگر بوجہ اللہ ہو، اس سے فائدہ دنیوی منظور خاطر نہ ہو۔ دیکھو، میں نے اپنی کسی تصنیف سے فائدہ نہیں اُٹھایا، اور اگر احیاناً اُن سے بے طلب فائدہ پہنچ جائے، تو اس کے تین حصے کر دو: ایک حصہ اپنے محلہ کی مسجد میں، دوسرا یتیم بچوں یا بیوہ عورات کو، تیسرا حصہ خود لے لو‘‘ (احکام نماز، ص ۲۴۷، مطبوعہ ۱۳۲۰ھ، آگرہ)۔
تاریخ عرب (جلد دوم) : تاریخ عرب کے دوسرے حصے کے بارے میں حضرت اکبر داناپوری اپنی تصنیف رسالہ غریب نواز، مطبوعہ ۱۳۲۰ھ میں خود فرماتے ہیں کہ
’’دوسرا حصہ تاریخ عرب کا بھی زیر طبع ہے، اس میں انبیا علیہم السلام کے مفصل حالات ہیں، تخمیناً ایک ہزار صفحات سے زیادہ ہوگی‘‘ (ص۲)
حضرت اکبر نے احکام نماز، ص۲۴۲ پر بھی ایسا ہی تحریر کیا ہے۔
تاریخ عرب کے بعد حضرت اکبر داناپوری نے اشرف التواریخ کی طرف مکمل توجہ دی اور تین ضخیم جلدوں پر مشتمل عظیم کارنامہ انجام دیا۔ پہلی جلد ۶۳۰ صفحات پر مشتمل، ۱۳۲۲ھ کی مطبوعہ ہے، دوسری جلد ۷۷۵ صفحات پر محیط، ۱۳۲۵ھ کی مطبوعہ ہے، اور تیسری جلد ۳۶۰ صفحات پر مشتمل، ۱۳۲۸ھ کی مطبوعہ ہے۔ کل ملا کر ۱۷۶۵ صفحات ہوتے ہیں۔ اگر زندگی نے حضرت اکبر کا ساتھ دیا ہوتا تو شاید کئی جلدیں منظر عام پر آتیں۔
حضرت اکبر داناپوری کی فن تاریخ میں دوسری تصنیف، تاریخ عرب المعروف بہ جغرافیہ عرب، دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد ۲۷۲ صفحات پر، اور دوسری بقول حضرت اکبر داناپوری ہزار صفحات سے زیادہ پر مشتمل ہوگی۔ فن تاریخ میں حضرت اکبر داناپوری نے دنیائے ادب کو تین ہزار صفحات سے بھی زیادہ دیے۔ بحیثیت مؤرخ، حضرت اکبر داناپوری کا مشہور نہ ہونا یا بحیثیت مؤرخ نمایاں نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ ان کی تاریخ نویسی غیر معیاری ہے۔
اکبرالہ آبادی کی سنجیدہ غزل گوئی، ان کی ظریفانہ غزل گوئی کے مقابلے میں بالکل غیر معروف اور محتاج تعارف ہے۔ سرسید احمد خاں کی تحریکی زندگی اور اس سے وابستہ خدمات کی چمک میں سرسید بحیثیت مصنف، آثار الصنادید ماند پڑ گئے ہیں۔ میرؔ شہنشاہ متغزلین ہیں، تذکرہ نگار کی حیثیت سے انہیں متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ دردؔ کی شاعری نے شہرت کے آسمان کو چھو لیا، لیکن نثر نگاری میں، میں سمجھتا ہوں کہ جمیلؔ مظہری کی نثر نگاری اور منفرد نثر نگاری، باعتبار شہرت، ان کی شاعری کے مقابلے میں کوئی مقام نہیں رکھتی۔
ایسے ادیبوں اور شاعروں کی لمبی فہرست ہے، جن کی خدمات کے ایک پہلو نے ان کے دوسرے پہلو کو شہرت میں کہیں پیچھے چھوڑ دیا، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان حضرات کی کم شہرت یافتہ خدمات غیر معیاری ہیں یا فنی جانچ پرکھ پر پوری نہیں اترتیں۔ حضرت اکبرؔ نے اکثر و بیشتر حوالے کے ساتھ روایتیں پیش کی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ حضرت اکبرؔ کے دور میں بحث اور ماخذ کی چھان پھٹک کے بعد کسی روایت یا سانحہ کو پیش کرنے کا رواج یا طریقہ شروع نہیں ہوا تھا، بڑے عقیدت مند انہ انداز میں قصہ گوئی کا لطف دلاتے ہوئے تاریخیں لکھی جاتی تھیں۔
اگر قلت وقت اور خوف طوالت معنی نہ ہوتا تو میں اکبرؔ داناپوری کی تاریخ نگاری اور مؤرخانہ حیثیت پر سیرحاصل گفتگو کرتا۔ ظاہر ہے آج جدید تحقیقی اور تنقیدی شعور سے مالا مال ایک نوجوان اگر احساس ذمہ داری اور ایمان داری کے ساتھ تاریخ اسلام پر اپنی عمر کے بہترین حصے صرف کرے تو شبلیؔ کو بھی کہیں پیچھے چھوڑ دے گا۔
حضرت اکبر کی دوسری تصنیف، تاریخ عرب المعروف بہ جغرافیہ عرب، پہلی جلد ۲۷۲ صفحات اور دوسری جلد بقول خود اکبرؔ ہزار صفحات پر محیط ہے۔ اشرف التواریخ اور تاریخ عرب کو ملا کر تین ہزار ایک سو صفحات ہوتے ہیں، جو اب تک اس بات کے محتاج ہیں کہ کوئی ان کی صحیح قدرو قیمت کا اندازہ لگاتا۔
دیوان اکبرؔ، حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری دو دیوان کے مالک ہیں:
تجلیات عشق
جذبات اکبرؔ
مگر آپ کا تیسرا دیوان بھی تھا۔ خود حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری نے ’تجلیات عشق‘ میں اپنے ایک اور مرتب دیوان کا ذکر کیا ہے جو کھو گیا۔ حضرت اکبرؔ اپنی غزل کے حاشیے میں فرماتے ہیں کہ
سرمہ جو زیب چشم سیاہ فام ہوگیا
فتنہ سوار ابلق ایام ہوگیا
حاشیہ : ’’یہ غزل عالم طفلی کی ہے اور میرے استاد مرحوم مولوی وحیدالدین احمد صاحب کی اصلاحی ہے، لہٰذا مجھے عزیز ہے۔ ایک مرتب دیوان، جس میں اکثر غزلیں استاد مرحوم کی اصلاح کردہ تھیں، وہ کھو گیا۔ اب یہی ایک غزل یادگار حضرت استاد باقی ہے۔ محمد اکبر ابوالعلائی‘‘ (حاشیہ ’’اثبات رابطہ‘‘، ۶۵)
حضرت اکبرؔ داناپوری نے مولوی سمیع الدین احمد کی تصنیف رسالہ اثبات رابطہ پر حاشیہ لکھا تھا۔ رسالہ اثبات رابطہ، مطبوعہ فوٹو گرافیہ، محلہ مہدی باغ، پٹنہ سے طبع ہوا تھا۔ مطبوعہ رسالہ پر حاشیہ لکھا گیا ہے۔ حضرت اکبرؔ کے دست خاص کا نوشتہ خانقاہ منعمیہ قمریہ، میتن گھاٹ، پٹنہ سیٹی کے کتب خانہ میں موجود ہے۔ حاشیہ اکبرؔ میں ۱۷ ربیع الثانی ۱۲۹۵ھ لکھا تھا۔ اس حاشیہ سے حضرت اکبرؔ داناپوری کی ایک اور صفت نمایاں ہوتی ہے، اور وہ ہے حضرت اکبر کا خوشخط ہونا۔ نہایت ہی پاکیزہ اور پختہ حروف میں یہ حاشیہ موجود ہے۔
حضرت اکبرؔ داناپوری کے چند مکاتیب اپنے عزیزوں کے نام خانقاہ منعمیہ قمریہ کے کتب خانہ میں ہیں۔
مکاتیب و اشعار : حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری نے نواب ولایت حسین خان نصرتیؔ، عرف مہدی (نواب رئیس محلہ گذری) کی وفات پر بھی ایک قطعہ کہا تھا جو ۴۸ ابیات پر مشتمل ہے، پروفیسر سید احمد اللہ ندوی نے ۲ بیتیں نقل کی ہیں کہ
وہ نیک باطن، وہ بے مثل مہدی نواب
ابھی ابھی جسے ہم نے لحد میں رکھ آئیں
وہ گھر جو شان محمل کا کل تھا صدر مقام
اسی میں حسرتوں کا آج ڈھیر خیمہ ہے
(تذکرہ مسلم شعرائے بہار)
جاننا چاہیے کہ حضرت اکبر داناپوری کے مکاتیب کا مجموعہ سید محمد وکیل اکبری، خلف نسیمؔ ہلسوی نے ترتیب دیا ہے۔ یہ چند صفحات پر مشتمل مکتوبات لاجواب ہیں۔
حضرت شاہ محمد اکبر داناپوری قدس سرہ میرے دادا حضرت شاہ محمد منظور منعمی کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ حضرت اکبر کی صحبتوں نے شعری ذوق بھی پیدا کر دیا۔ جب تک حضرت اکبر حیات رہے، آپ انہیں سے اصلاح کا شرف حاصل کرتے رہے، پھر کسی کو اپنے اشعار دکھانے کی ضرورت نہ سمجھی۔ رشتہ قریب میں دادا تھے۔ جب بھی گیا، تشریف لاتے، حضرت منظور کو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔
ایک دفعہ حضرت اکبر داناپوری گیا، تشریف لائے، اور اسی موقع سے گیا، میں کہیں مقابلہ کشتی منعقد ہوا، جس میں خانقاہ منعمیہ ابوالعلائیہ گیا میں قیام پذیر مشہور غلام پہلوان کا مقابلہ سُچِت سنگھ نامی پہلوان سے ہوا۔ حضرت اکبر داناپوری خود بھی کشتی کے ماہر اور قدردان تھے، چنانچہ اس مقابلہ میں آپ تشریف لے گئے۔ حضرت منظورؔ کو ہمیشہ کی طرح ہم رکابی کا شرف حاصل تھا۔ اس مقابلہ میں سُچِت سنگھ مات کھا گیا اور غلام پہلوان کو فتح ہوئی۔ حضرت اکبرؔ داناپوری نے برجستہ چند اشعار کہے، اور حضرت منظور کو جو آپ کے آغوش میں بیٹھے تھے پڑھنے کو کہا۔ ہمارے دادا حضرت منظورؔ فرماتے تھے کہ مجھے صرف ایک شعر یاد رہ گیا، وہ یہ ہے:
سُچِت چِت ہوا دومنٹ سے بھی کم میں
پڑا آج وہ شیر کے پیچ و خم میں
مذکورہ شعر غیر مطبوعہ ہے۔ ناجانے اس طرح کے سینکڑوں اشعار حضرت اکبرؔ داناپوری کے پردۂ اخفا میں ہیں۔
کلام اکبرؔ جو دواوین میں شامل نہیں : حضرت اکبر کے ایسے کلام کی جانب کوئی توجہ نہیں کی گئی ہے، جو خود حضرت کی تصانیف میں بکھرے پڑے ہیں لیکن دواوین میں شامل نہیں ہیں۔ میں نے اس سلسلے میں تحقیق و جستجو کی ہے، جس کا نتیجہ ہدیہ ناظرین ہے۔
غزل:
نور نگاہ مصطفیٰ سیدنا ابوالعلا
آئینہ خدانما سیدنا ابوالعلا
جلوہ انی انا سیدنا ابوالعلا
پرتو حسن مرتضیٰ سیدنا ابوالعلا
زینت خاندان چشت رونق نقشبندیان
کرد ترا خدائی ماسیدنا ابوالعلا
مرد ز درد ہجر تو زود بنزد خود طلب
اکبرؔ جاں نثارسیدنا ابوالعلا
(چراغ کعبہ)
دیگر
ہیں مقدر میں دربار پہ ساجد ہونا
کیاپسند آئے ہمیں عابد و زاہد ہونا
کعبہ دل جسے سب کہتے ہیں وہ گھر ہے یہی
اس مکان میں ہے ضرور آپ کو وارد ہونا
او بڑے گھر کے مکیں کعبہ کے مالک داتا
ہم فقیروں سے بھی کچھ واحدوشاہد ہونا
راہ کو چھوڑ کے گمراہ نہ ہونا اکبر
سخت دشوار مقلد کوہے موجد ہونا
(تاریخ عرب ،حصہ اول)
مکان مولد حضرت خیر البشرسرورانبیاسیدنا مولانا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم
جو تاج سرعرش بریں ہے یہ زمیں ہے
اللہ کی رحمت کا نزول اب تو یہیں ہے
پیداہوا اللہ کا محبوب اسی گھر میں
اے عاشقوں عشاق کی مسجد تو یہیں ہے
پھرتا تھا اسی میں وہ مہہ اوج رسالت
سب کحل جواہر ہے یہاں گرد نہیں ہے
کیوں کر تن مردہ مرا پھرتا ہے زمیں پر
اکبرؔ میرا قالب ہے یہاں قلب وہیں ہے
دیگر
ہم کو دو عقلیں خداکیں عطا
ایک اپنی دوسری ہے مستعار
ہے جو اپنی فطرتی نام
اس کا ہے دوسری ہے تجربوں کی یادگار
عقلیں دوم ہیں سفر کی روشنی
یعنی سیر ملک وامصارودیار
اکبرؔ اپنی عقل کو صائب تو کہہ
ورنہ ہوگا یاروں کی آنکھوں میں خوار
(اشرف التواریخ،حصہ دوم)
سہرا حضور پُرنور آصف جاہ سلطان دکن خلداللہ ملکہ
رخ نوشہ پہ فضل حق سے ہے ایمان کا سہرا
نکیوں سرتاج سہروں کا ہویہ سلطان کا سہرا
حضور اور ا س پے رخ پُر نورپھر اس پر یہ سہرا ہے
تجلی پر تجلی ہے یہ ہے عرفان کا سہرا
شہنشاہ دکن کہ روئے روشن پر جگہ پائی
غلاف اب بے تکلف بن گیا قرآن کا سہرا
میرا نوشہ نقاد سخن ہے آپ ائے اکبرؔ
کہوں کیااپنے منہ سے میں یہ ہے کس شان کا سہرا
دیگر
ہے سر پہ باندھنے کو شاہ مہرباں سہرا
خداکے فضل سے اب ہوگا در خشاں سہرا
ستارے موتی ہیںشاہ دکن کا منہ ہے چاند
بنا ہے آج کی شب رشکِ آسماں سہرا
ہم آنکھوں میں اس کو چھپاکے رکھیں گے
کہیں چرا نہ لے جائے کہکشاں سہرا
یہ نور ہے کہ کسی کو نظر نہیں آتا
نظر کے سامنے ہے اور ہے نہاسہرا
یہ سہرا جذبات اکبرؔمیں اسی ضمین میں الگ اشعار کے ساتھ شامل ہے اور سیردہلی میں بھی چھپا ہے ،سیر دہلی میں موجود سہرے کے ان اشعار کو میں نے نقل نہیں کیاہے جو جذبات اکبر میں موجود ہیں۔(سیردہلی)
منقبت حضرت قبلہ عالم قطب اکرم پیردستگیر مولانا سیدشاہ محمد قاسم ابوالعلائی داناپوریقدس اللہ سرہٗ
پلا ساقیابادۂ صاف و پاک
کہ میں مست ہوجاؤں روحی فداک
مجھے مدحت پیر لکھنی ہے اب
ہے عالی حسب وہ صحیح النسب
رسول خداکا وہ فرزند ہے
علی علا کا جگر بند ہے
سیادت کے دریاکا گوہر ہے وہ
شرافت میں ہجوم جوہر ہے وہ
(تاریخ عرب،جلد اول)
اس منقبت کے ساتھ ساتھ تاریخ عرب میں ایک طویل نظم بھی موجود ہے لیکن اس نظم میں تخلص استعمال نہیں ہوا ہے حالاں کہ مجھے یقین ہے کہ یہ نظم بھی اکبرؔہی کی ہے لیکن شواہد کی غیر حاضری میں نقل کرنا مناسب نہیں سمجھتاہوں ۔
رباعی:
بے منتظم انتظام کیوںکرہوگا
جب ہاتھ نہ ہو تو کام کیوں کرہوگا
بندوں کا ہے اکبر کوئی مالک بھی ضرور
آقا نہ ہو تو غلام کیوں کر ہوگا
(ارادہ)
حضور پُر نورکی آمد کا شور از فقیر محمد اکبر ابوالعلائی،مؤلف کتاب ہذا
آمد ہے آمد ہے رسول اللہ کی
آمد آمد ہے شہ ذیجاہ کی
آمد آمدحق کے پیغمبر کی ہے
آمد آمد شافع محشر کی ہے
چھوڑ اکبرؔہند کو کعبہ کو چل
یہ ہے دارالحرب اب اس سے نکل
پاک ہوکر کعبے سے بستر اُٹھا
پھر مدینے کا پکڑ لے راستہ
(اشرف التواریخ ،جلد دوم)
دیگر
حضور آئے زمین پر زمین ہوئی روشن
عرب کاملک کاملک آج ہوگیا گلشن
زمیں کو چوم رہے ہیں فلک کے سیارے
زمیں ہے عرش پر اب انبساط کے مارے
زمیں فخر کرے جس قدر وہ زیبا ہے
بلند عرش سے بھی آج اس کا رتبہ ہے
اب اپنی امت عاصی کابھی لیں سلام حضور
نگاہ لطف ادھر بھی ہوں آئیں خداکے نور
امت عاصی کا سلام
السلام اے شفیع روز نشور
السلام اے خدائے پاک کے نور
یا رسول خدا سلام علیک
یا نبی الوریٰ سلام علیک
شافع مذنبین سلام علیک
خواجہ راستین سلام علیک
اپنے اکبرؔ کے حال پر ہو نگاہ
کھول دو اس پر اب خدا کی راہ
دیگر
آدمی جان جہاں ہے مجھے معلوم ہوا
خاک میں گنج نہاں ہے مجھے معلوم ہوا
میں نے پہچانا ارے خاک کے پتلے تجھ کو
لامکاں تیرا مکاں ہے مجھے معلوم ہوا
ہے شجر دانے میں مخفی تو شجرمیں دانہ
یونہیں ترکیب جہاں ہے مجھے معلوم ہوا
شکل انسان میں نہ ڈھونڈو اسے کیوں ائے اکبرؔ
معنی صورت میں نہاں ہے مجھے معلوم ہوا
معراج شریف
خواب نوشیں میں تھے شاہ انبیا
بر مقدر آپ کا بیدار تھا
آئے جبریل امیں لے کر براق
خوبیاں نہیں تھیں جتنی سب میں تھا وہ طاق
دست بستہ عرض کی چومیں زمین
ہوجیے بیدار ختم المرسلین
اپنی امت کا نہ بھولا تو کہیں
آفریں صد آفریں صدآفریں
دیگر
جلوہ فرماہے وہی گنبد خضریٰ دل میں
ساتھ ہر وقت ہے میرے تراروضہ دل میں
جب تصور میں پہنچتا ہوں میں روضہ کے قریب
لی مع اللہ کا نظر آتا ہے جلوہ دل میں
ہے تو چھوٹا سا یہ گھر طور کا قبلہ ہے مگر
ہم نے جب دیکھا تو روشن ہے ثریادل میں
ہے کوئی پردہ نشین اس میں ضرور ائے اکبرؔ
نظر آتا ہے ہمیں نور کا پردہ دل میں
(تاریخ عرب،جلد اول)
اختصار کے طور پر مذکورہ اشعارسے صرف چارچار اشعار ہی نقل کئے گئے ہیں، باذوق قارئین مذکورہ کتب کا مطالعہ کریں، تفصیل کے لئے حضرت شاہ اکبرداناپوری ایک تحقیقی جائزہ (معیار و تحقیق )دیکھیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.