اقتباس کراماتِ نظامیہ
ایک مرتبہ حضرت بی بی غریب نواز صاحبہ (والدہ ماجدہ حضرت شاہ نیاز احمد) نے حضرت شاہ نیاز احمد کو طلب فرمایا، آپ حاضر ہوئے تو فرمایا کہ محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین کی شان میں تم نے کیا لکھا ہے، آپ نے عرض کیا۔
بخاشاکِ وجود زد نگاہ گرم او آتش
بروں از آسماں شد شعلہ مشت پر کا ہے
بیان اس کا یہ ہے کہ حضرت شاہ نیاز نے اس شعر کے متعلق فرمایا کہ میں نے ایک مرتبہ عالمِ مثال میں محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین اؤلیا کو دیکھا، آپ نے میری جانب گرم نگاہ سے دیکھا، میں نے جو اپنے وجود کو دیکھا تو مثل گھاس کے گٹھے کے دیکھا اور حضرت کی نگاہ نے اس میں آگ لگا دی تو میں جلنے لگا اور شعلہ میرا آسمان کو پہنچا، اولِ آسمان تک مجھ کو علم رہا پھر مجھ کو علم نہیں رہا، دو چار روز کے بعد پھر حضرت بی بی شاہ غریب نواز نے فرمایا کہ جب حضرت حاضر ہوئے تو فرمایا کہ دیکھو اور اپنا دستِ مبارک میرے سامنے کیا فرمایا کہ یہ کیا ہے میں نے عرض کیا کہ حضور کا ہاتھ ہے، دوبارہ فرمایا کہ یہ کیا ہے حضرت نے پھر عرض کیا کہ حضور کا ہاتھ ہے، سہ بارہ بنظرِ عتاب فرمایا کہ غور سے دیکھو یہ یدِ بیضا ہے، حضرت نے فرمایا کہ میں نے جو دیکھا کہ حضرت بی بی غریب نواز کی پانچوں انگلیاں مثل مشعل کے روشن ہیں اور اپنے وجود کو جو خیال کیا تو مثلِ روئی کے دیکھا اور لاگ نے اس کو آگ لگا دی اس حال کے طاری ہونے پر آپ نے فرمایا۔
لاگ کی آگ لگتے ہی پنبہ نمط یہ جل گیا
زختِ وجود جان و تن کچھ نہ بچا جو ہو سو ہو
ایک مرتہ بمقامِ دہلی جب حضرت شاہ نیاز احمد تحصیلِ علمِ ظاہری فرما رہے تھے، حضرت بی بی غریب نواز مستغرق تھیں اور حضرت بالا خانہ پر کتاب کا مطالعہ فرما رہے تھے، اور اس وقت حضرت بی بی غریب نواز ذرہ ذرہ کائنات میں سما رہی تھیں، محلہ میں ایک شخص نے دتون کے واسطے نیم کی ٹہنی کاٹی، چاقو لگنا تھا کہ حضرت بی بی غریب نواز نے شور کیا کہ اس کو منع کرو، چنانچہ اس کو منع کر دیا گیا، جس قدر چاقو وہاں نیم کی لکڑی میں بیٹھا تھا یہاں اسی قدر آپ کی چھنگلیہ انگلی کٹ گئی اور اس میں سے خون جاری تھا اور حضرت شاہ نیاز احمد کی انگلی میں بھی اسی قدر نشان یعنی کھرونچ آگئی، جس کا نشان مدت العمر باقی رہا۔
ایک مرتبہ عالمِ مثال میں حضرت بی بی غریب نواز نے حضرت شاہ نیاز احمد کو جب آپ کی عمر ساڑھے چار برس کی تھی، خاتونِ جنت حضرت بی بی سیدہ زہرہ کے قدموں پر ڈال دیا، آپ نے اپنا دستِ مبارک حضرت شاہ نیاز احمد کے سر پر پھیر کر فرمایا کہ یہ اپنا بچہ ہے۔
ایک مرتبہ بارش نہ ہونے کے سبب مخلوق کو سخت پریشانی ہوئی اور وجہ نہ برسنے کے یہ تھی کہ ایک مجذوب دریا کے کنارے ایک جھونپڑی میں رہا کرتے تھے اور وہ شکستہ ہوگئی تھی جب ابر اٹھتا وہ ڈنڈا لے کر کھڑے ہوتے اور ابر ہٹ جاتا، مخلوق کا یہ حال کہ نمازِ استسقا پڑھتے دعائیں مانگتے کچھ اثر نہ ہوتا بادشاہِ وقت نے بزرگوں کی طرف رجوع کی، نوبت بنوت بزرگوں نے اس مجذوب کو سمجھایا کہ مخلوق پریشان ہو رہی ہے پانی مت روکیے، ہر ایک کو یہی جواب دیتے کہ ہماری جھونپڑی بہہ جائے گی، ہم ہرگز پانی نہ برسنے دیں گے، جب کسی کے کہنے کا اثر نہ ہوا تو آخر کو حضرت بی بی غریب نواز سے درخواست کی گئی کہ آپ سمجھایئے آپ نے فرمایا کہ جب اس نے مردوں کا کہنا نہیں مانا تومجھ ایک عورت کے کہنے سے کیا ہوگا۔
جب بادشاہ کی طرف اصرار ہوا تو آپ کی ایک خادمہ جن کا نام بی بی نورن تھا ان سے فرمایا کہ بی بی نورن تم مجذوب کے پاس جاؤ اور بالحاح اور خوشامد ان سے عرض کرو کہ مخلوقِ خدا پریشان ہورہی ہے آپ پانی کی بندش نہ کریں، حسب الحکم وہ چند قم جا کر لوٹ آئیں اور یہ عرض کیا کہ اگر اس نے میری الحاح اور خوشامد پر بھی میری عرض کو قبول نہ کیا تو پھر میں کیا کروں فرمایا کہ اپنے بالوں کو کھول کر ان کے پیروں پر سر رکھ کر التجا کرنا اور جا، یہ سن کر وہ چند قدم گئیں اور پھر واپس آئیں اور یہ عرض کیا کہ وہ اس عاجزی پر بھی نہ مانے تو کیا کروں، آپ نے فرمایا کہ تو ان سے یہ کہنا کہ اگر کسی دوسرے نے برسا دیا تو آپ کی کیا بات رہے گی اور اس نے عرض کیا کہ اگر اس پر بھی نہ مانیں تو آپ نے حالتِ جذب میں ہوکر فرمایا کہ پھر تو برسا دیجو۔
حسب الارشاد بی بی نورن ڈولی میں سوار ہوکر دریا کے کنارے مجذوب کی خدمت میں پہنچیں اور جو مراتبِ آداب تعلیم ہوئے تھے سب بجا لائیں مگر وہ اپنی ہٹ میں ایسے جمع تھے کہ کسی بات سے راضی نہ ہوئے، آخر کو بی بی نورن نے کہا کہ اگر کسی دوسرے نے برسا دیا تو آپ کی کیا بات رہ جائے گی، وہ جوش میں آکر کہنے لگے کہ کس کی طاقت ہے کہ وہ برسائے، اگر کوئی برسا دے گا تو ہم اپنی ناک کاٹ دیں گے مجبور بی بی نورن ڈولی میں سوار ہوکر لبِ دریائے جمنا آئیں اور ہر جانب پردہ ہوگیا۔
آپ نے اپنی چادر اتار دی کہ سامنے ڈولی کے مثل شامیانہ تان دو پھر خود ڈولی سے نکل کر اس کے نیچے بیٹھیں، بعد نصف گھنٹے کے ہیت سخت پیدا ہوئی اس واسطے کہ آسمان سے ابر برابر چادرِ مبارک کے پیدا ہوا تھا اس کو دیکھ کر مجذوب مذکور نے ڈنڈا لیا اس کوشش جانبین سے خوف و ہیبت سخت طاری تھی مختصراً جتنا مجذوب خفا ہوتے تھے اور ڈنڈا گھماتے تھے اتنا ہی ابر ترقی کرتا تھا آنکہ ابر محیط آسمان ہوگیا اور پانی برسنا شروع ہوا اور اتنا برسا کہ جمنا کو طغیانی ہوئی اور مخلوق کو انتشارِ غرق معلوم ہونے لگا تو بادشاہ نے جو حاضر تھا قریب ڈولی جاکر عرض کیا، بی بی نورن صاحبہ ڈولی میں چلی گئیں اور فرمایا کہ ہماری ڈولی پھر مجذوب کے یہاں لے چلو، چنانچہ پہنچیں، مجذوب کی جھونپڑی کے گرد چالیس چالیس قدم تک کوئی قطرۂ آب نہیں گرا تھا، مجذوب صاحب اٹھے اور چاقو لاکر کھول کر بی بی نورن کے سامنے لاکر رکھ دیا اور منہ سامنے کر کے بیٹھ گئے، بی بی نورن نے چاقو علیحدہ کردیا اور مجذوب کے قدم پکڑے اور کہا کہ میں جیسے پہلے خادمہ تھی وہسے ہی اب بھی خادمہ ہوں مگر آپ کو مخلوقِ خدا پر رحم کرنا چاہیے پھر وہاں سے اپنے مکان کو تشریف لے گئیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.