Sufinama

سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اؤلیا

فیض علی شاہ

سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اؤلیا

فیض علی شاہ

MORE BYفیض علی شاہ

    محیط فیض و ارشادے بہ علم فقر استادے

    سراپا حسن جاں بخشے ہمہ جان دل خواہے

    (حضرت شاہ نیاز احمد بریلوی)

    نام و نسب :- آپ کا اصل نام محمد ہے۔

    نسب حضرت سلطان المشائخ :- محمد نظام الدین بن خواجہ احمد بن خواجہ علی الحسینی البخاری بن عبداللہ بن حسن بن میر علی۔

    آپ کے جد مادری بن خواجہ عرب حسینی بخاری بن محمد بن حسن بن میر علی بن میر احمد بن ابی عبد اللہ بن میر علی اصغر بن جعفر بن علی الامام بن علی الہادی التقی بن امام محمدن الجواد بن الامام سلطان الشہدا حضرت علی موسیٰ رضا بن امام حضرت موسیٰ کاظم الغیظ بن ہمام حضرت امام جعفر الصادق بن امام حضرت محمدن الباقر بن امام علی حضرت امام زین العابدین بن امام فی الارض و السماع سلطان الشہدا حضرت امام حسین بن امیرالمؤمنین حضرت علی المرتضیٰ۔

    ولادت و خاندانی حالات :- سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اؤلیا کی ولادت مبارک 636ھ میں بدایوں شریف میں ہوئی، سلطان المشائخ کے آبا و اجداد شہر بخارا کے رہنے والے تھے، یہ شہر علم و تقویٰ کا خزانہ اور کان ہے، شیخ المشائخ کے پدری جدِ اعلیٰ کو خواجہ علی بخاری کہتے تھے اور آپ کے جدِ مادریں کا نام خواجہ عرب تھا، یہ دونوں بزرگ ایک دوسرے کے ساتھی اور دوست تھے اور دونوں بزرگ ایک ساتھ ہی بخارا سے لاہور تشریف لائے پھر لاہور سے بدایوں پہنچے، بدایوں اس زمانے میں قبستہ الاسلام تھا، آپ دونوں نے بدایوں ہی میں سکونت اختیار کی۔

    خواجہ عرب کے دو صاحبزادے اور ایک صاحبزادی تھی، ان دونوں بزرگوں یعنی خواجہ عرب اور خواجہ علی بخاری کے درمیان نئی قرابت یہ قائم ہوئی کہ خواجہ عرب نے اپنی صاحبزادی بی بی زلیخا سے جو ولیہ اور اپنے وقت کی رابعہ تھیں جن کا روزہ متبرکہ آج بھی شہر دہلی میں اہل درد کا درماں اور درماندوں کا کعبۂ حاجات ہے، ان کی شادی خواجہ علی بخاری کے صاحبزادے خواجہ احمد سے کر دی، یہ ہی خواجہ احمد بن علی سلطان المشائخ کے والد محترم ہیں، اللہ تعلیٰ نے ان ہی خاتون کے بطن سے قانع کرامت کے موتی اور سرمایۂ عشق و محبت یعنی حضرت نظام الدین اؤلیا کو پیدا فرمایا اور اس افتاب عالم تاب سے عالم میں روشنی ظاہر ہوئی جن کے وسیلے سے اہل جہاں نے دنیا میں پرورش اور آخرت میں نجات پائی۔

    تعلیم و تربیت:- سلطان المشائخ کے والد محترم بچپن میں ہی انتقال فرما گئے تھے، سلطان المشائخ جب ذرا بڑے ہوئے تو ان کی والدہ نے آپ کو مکتب میں بھجوایا، پہلے آپ نے کلام اللہ ختم کیا پھر کتابیں پڑھنا شروع کیں ایک بڑی کتاب قریب الختم تھی تو آپ کے استاد نے سلطان المشائخ سے کہا تم اب ایک معتبر کتاب ختم کر رہے ہو تمہیں دانشمندی کی دستار اپنے سر بندھوانی چاہیے، سلطان المشائخ نے استاد کی بات اپنی والدہ سے کہی، آپ کی والدہ نے خود اپنے ہاتھ سے سوت کات کر کپڑا بنوایا اور دستار تیار کی، جب سلطان المشائخ نے اس کتاب کو ختم کرلیا تو آپ کی والدہ بزرگوار نے کھانا تیار کرایا اور اس شہر کے ممتاز بزرگوں اور علما کو دعوت دی، اس مجلس میں خواجہ علی جو شیخ جلال الدین تبریزی کے مرید تھے اور انہوں نے نعمت دینی شیخ جلال الدین سے حاصل کی تھی جن کی کرامتیں مشہور تھیں، موجود تھے، کھانے کے بعد سلطان المشائخ نے وہ دستار ان کو دی اور ان کے ساتھ مجلس میں آئے تاکہ تمام بزرگوں کو سامنے آپ کی دستار بندی ہو، شیخ علی نے دستار کا ایک سرا اپنے ہاتھ میں پکڑا اور دوسرا سرا سلطان المشائخ کے ہاتھ میں دیا، سلطان المشائخ نے وہ بزرگانہ دستار اپنھ سر پر باندھی، آپ نے پہلے خواجہ علی کی قدم بوسی کی خواجہ علی نے دعا کی کہ خدائے تعالیٰ تمہیں علمائے دین میں کرے اور ہمت کے اعلیٰ مرتبے پر پہنچائے، اس کے بعد آپ نے حاضرین مجلس میں دوسرے بزرگوں کی قدم بوسی کی اور ان کی دعائیں لیں۔

    بابا فرید گنج شکر سے تعلیم :- حضرت سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ میں نے ۶ پارے کلام اللہ کے اور تین کتابیں جن میں سے ایک میں میں قاری تھا اور دو کتابیں شیخ شیوخ العالم کے حلقئہ درس میں سنی، ۶ باب عوارف کے اور ابو شکور صالمین کی تمہید تمام کی تمام شیخ شیوخ العالم سے پڑھیں۔

    بیعت :- سلطان مشائخ فرماتے تھے کہ میں زمانہ طالب علمی میں حضرت شیخ شیوخ العالم فریدالدین کی قدم بوسی کی تمنا غالب ہوئی چناچہ میں اجودھن گیا، بدھ کا دن تھا میں نے آپ کی قدم بوسی کی سعادت حاصل کی، میں سب سے پہلے جو الفاظ آپ زبان مبارک سے سنے وہ یہ شعر تھا۔

    اے آتش فراقت دلہا کباب کردہ

    سیلابِ اشتیاقت جانہا خراب کردہ

    بعد ازاں میں چاہا کہ میں اپنے اشتیاقِ ملاقات کو آپ سے تفصیل سے بیان کروں لیکن آپ کا رعب مجھ پر غالب رہا، صرف اس قدر عرض کرسکا کہ مجھے آپ کے قدم بوسی کا نہایت اشتیاق تھا، مجھے مرعوب پا کر آپ نے فرمایا کہ

    لکل داخل دھشۃ

    ترجمہ : ہر نئے آنے والے پر دہشت غالب ہوتی ہے۔

    میں نے اسی روز آپ سے بیعت کی۔

    بیعت کے وقت سلطان مشائخ کی عمر :- سلطان المشائخ سے پوچھا گیا کہ جب آپ نے شیج الشیوخ العالم فریدالدین الحق و الدین کی بیعت سے مشرف ہوئے تو اس وقت آپ کی عمر کیا تھی؟ آپ نے فرمایا بیس سال۔

    بیعت ہونے کے بعد میں نے اپنے شیخ سے عرض کیا کہ میرے متعلق کیا حکم ہوتا ہے؟ اب میں تعلیم کو جاری رکھوں یا اوراد و نوافل میں مشغول ہو جاؤں؟ فرمایا کہ میں کسی کو تعلیم سے نہیں روکتا، وہ بھی کرو یہ بھی کرو یہاں تک کہ ان میں سے ایک غالب آ جائے پھر فرمایا کہ درویش کے لئے تھوڑا سا علم کافی ہے۔

    خلافت :- ۲ ماہ مبارک ربیع الاول ۶۵۶ھ عطاءِ خلعت خاص و ولایت و سجادہ نشینی و دستارِ فضیلت، دولت قدم بوسی میسر آئی اس بندہ کو خلعت خاص کے ساتھ مشرف فرمایا عزیزانِ اہل زباں حاضر تھے زبان مبارک سے ارشاد کیا کہ مولانا نظام الدین کو میں نے ہندوستان کی ولایت دی اور صاحب سجادہ بنایا اس ارشاد پر بندے نے دوبارہ قدم بوسی کی فرمان ہوا کہ میں جہانگیرِ عالم سر اٹھا اور فوراً ہی حضرت شیخ قطب الدین کی دستار جو اپنے سر پر باندھے ہوئے تھے عطا کی اور عصا ہاتھ میں دیا اور اور اپنے دست مبارک سے خرقہ ہاتھ میں دیا اور فرمایا جاؤ دو گانہ ادا کرو میں جب قبلہ رو ہوا تو میرا ہاتھ پکڑ کر آسمان کی طرف نظر کی اور فرمایا کہ میں نے تم کو خدا کے سپرد کیا پھر فرمایا کہ یہ سب چیزیں میں تم کو اس سبب سے دیتا ہوں کہ تم آخری وقت میرے پاس نہ ہوں گے اور یہ بھی فرمایا کہ میں بھی اپنے مرشد حضرت شیخ قطب الدین کے وصال کے وقت حاضر نہ تھا اس وقت میں ہانسی میں تھا الغرض اس کے بعد مولانا بدرالدین اسحاق کو حکم دیا کہ سند تحریر کریں پھر جب سند مجھ کو مل گئی تو میرا سر پہلو میں لے کر فرمایا کہ میں نے تم کو خدا تک پہنچا دیا۔

    حضرت بابا فرید گنج شکر کا روزنامچہ راحت القلوب

    از-سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اؤلیا رحمت اللہ علیہ

    ترجمہ : حضرت سید ملا محمد واحدی نظامی دہلوی، ناشر خواجہ سید حسن ثانی نظامی دہلوی۔صفحہ نمبر ۱۳۰ )

    عرس کی تقریب کا انعقاد:- شیخ نظام الدین اؤلیا اپنے بزرگوں کے عرس بڑے اہتمام اور پابندی سے کرتے تھے، لنگر کے خرچے بڑھا دئیے جاتے تھے اور سماع کا خاص انتظام ہوتا تھا، کھانا گھروں پر بھی بھیجا جاتا تھا، تبرک کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ ہر شخص کو مل جائے، مولانا برہان الدین غریب لنگر کی روٹیاں ایسے موقعوں پر سکھا کر رکھ لیتے تھے اور بیماروں کو دیتے تھے، خود شیخ اس بارے میں دریافت فرماتے تھے کہ کھانا کس کس کے یہاں بھیجا گیا اور کون کون ان تقریبات میں شریک ہوا۔

    ذوقِ سماع:- حضرت محبوب الٰہی کی خانقاہ میں قوالوں کا باقاعدہ انتظام رہتا تھا، بعض اوقات کیسی خوش لحن مرید یا شاعر سے بھی اشعار ترنم سے سن لیتے تھے لیکن اکثر یہ خدمت قوال ہی انجام دیتے تھے، شیخ نے سماع کی چار قسمیں قرار دی تھیں، حلال حرام، مکروہ اور مباح جس کا رحجان بالکل حق کی طرف ہو، اس کے لئے حلال جس کا بیشتر حق

    کی طرف ہو، اس کے لئے مباح جس کا میلان مجاز کی طرف زیادہ ہو اس کے لئے مکرو جس کا میل بالکل مجاز ہی کی طرف ہو اس کے لئے حرام پھر جن کے لئے سماع حلال تھا ان کے لئے بھی بعض شرطیں تھیں جن پر خاص زور دیا جاتا تھا، گانے والا مرد ہو، لڑکا ہو، عورت نہ ہو، سننے والے یاد حق سے خالی نہ ہوں جو چیز سنائی جائے وہ فحش یا مسخرہ پن کی نہ ہو، مزامیر (چنگ، رباب، باجے) استعمال نہ کئے جائیں۔

    حضرت محبوب الٰہی کا معمول تھا کہ جب کسی سماع میں شرکت کا دعوت نامہ قبول فرماتے تھے تو دو روز پہلے سے افطار میں کمی کر دیتے تھے، دہلی میں جہاں بھی محفل ہوتی اور کیسے ہی مشائخ اور صاحبان سجادہ وہاں موجود ہوتے لیکن صدرنشین حضرت محبوب الہی ہی ہوتے، گو آپ صاحب سماع نہیں بنتے تھے، حضرت شیخ کا ایک قوال حسن میمندی تھا جس کے گانے کی تاثیر غیر معمولی تھی، دوسرا صامت تھا جو علم موسیقی میں لاجواب تھا، شیخ کا دستور تھا کہ دوران سماع جو کپڑا یا دستار چہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا اسے قوال کو مرحمت فرما دیتے تھے، جب شیخ کسی باغ با خطیرہ میں تشریف لے جاتے تو ڈولے کے ایک طرف اقبال اور دوسری طرف عبداللہ چلتے اور نرم اور رقت آمیز الفاظ میں اشعار پڑھتے جاتے سلطان المشائخ پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی اور آنسو ان کی آنکھوں سے رواں ہو جاتے۔

    ہندی کلام پر کیفیت:- حضرت شیخ ”ہندی دوہروں کو بھی بہت پسند کرتے تھے، ایک بار ایک قوال نے یہ گانا شروع کیا بنیا من بھاجی ایسا سکھ سین یاسون تو آپ رقص کرنے لگے، ایک جگہ رہٹ سے پانی نکالا جارہا تھا، بیلوں کو چلانے والا کہہ رہا تھا، باہری ہو باہر شیخ پر یہ سن کر ایک کیفیت طاری ہوگئی، ایک بار جماعت خانہ کے بالائی حصہ پر محفل سماع منعقد ہوئی، یہ غیاث الدین تغلق کا عہد تھا اور غالباً وسیع محفل سماع پر کچھ اعتراض ہوگا جس کے پیش نظر یہ مجلس کوٹھے پر منعقد ہوئی میرخورد کا بالخصوص یہ لکھنا کہ یہ غیاث الدین تغلق کے عہد کی بات ہے بے معنی نہیں، امیر خسرو کھڑے تھے اور شیخ چارپائی پر تشریف رکھتے تھے، مریدین کی خاصی تعداد موجود تھی حسن میمندی نے سعدی کا یہ شعر گایا۔

    سعدی تو کیتی کہ در آئی دریں کمند

    چنداں فتاده اند کہ ما صید لاغریم

    اے سعدی! تیری کیا حیثیت ہے کہ تو شکار کے جال میں آئے، ہم سے پہلے تو بڑے فربہ شکار اس جال میں پھنس چکے ہیں اور (بمقابلہ ان کے ہم بہت کمزور شکار کی چیز ہیں)

    تو حضرت پر گریہ طاری ہوگیا اور باریک دستارچہ کے ٹکڑے جو پھاڑ پھاڑ کر ان کو پیش کئے جاتے تھے حسن میمندی کو آنسو پوچھ کر دیتے رہے پھر امیر خسرو کے فرزند امیر حاجی نے ایک غزل پڑھنی شروع کی، جب اس شعر پر پہنچے۔

    خسرو توکیتی کہ در آنی در بی شمار

    کین عشق تیغ برسر مردان دین زده است

    ترجمہ : خسرو بھلا تیری کیا حیثیت ہے کہ تو کس گنتی میں آئے کیونکہ اس نے تو اس عشق کی تلوار کو بڑے بڑے جواں مردوں پر چلایا ہے۔

    تو شیخ پر حال وجد کی کیفیت طاری ہوگئی، امیر حاجی اس شعر کو بار بار پڑھتے تھے اور شیخ ایک دستارچہ حسن قوال کی طرف ڈالتے تھے اور دوسرا امیر حابی کی طرف پھر شیخ نے خواجہ موسیٰ و فرزند مولانا بدرالدین اسحاق کو رقص کا اشارہ کیا شیخ پر ایسی بے خودی طاری ہوئی کہ تقریباً آدھے دن اسی میں غرق رہے۔

    مقام :- سلسلۂ چشتیہ کے عظیم المرتبت مشہور زمانہ بزرگ خواجہ نظام الدین اؤلیا خواجہ خواجگان معین الدین حسن سنجری چشتی کے کامل روحانی جانشین ہیں ہندستان میں اہل تصوف میں صف اول کے مشائخ میں شیخ کامل ہیں پوری دنیا میں سلسلہ نظامیہ سے لا تعداد افراد جڑے ہیں، حضرت سلطان المشائخ سلسلہ چشتہ میں خواجہ غریب نواز کے بعد مغبول و مشہور ترین شخصیت ہیں امت محمدیہ میں ان چند فردالفرید میں سے ہیں جن پر اسلام کو اور پور عالم انسانیت کو فخر ہے۔

    خواجہ نصیرالدین چراغ دہلی کے مرید و خلیفہ حضرت جعفر مکی لکھتے ہیں کہ

    یہ فقیر ایک دن دریائے نیل میں کشتی پر حضرت خضر علیہ السلام کا مصاحب تھا اور شاہدانِ لا یزالی کے بارے میں گفتگو کی، خضر علیہ السلام نے بھی فرمایا کہ اب شیخ عبدالقادر گیلانی اور شیخ نظام الدین بدایونی مقامِ معاشوقی میں تھے پھر فرمایا وللہ نظام الدین بدایونی اور عبدالقادر گیلانی کا جیسا نیلے آسمان کے نیچے نہ آیا اور نہ آئےگا اور مقامِ معاشوقی مقامِ غیرت ہے، دونوں کے کمالِ سلوک کے لئے عمر نے وفا کی اور جلد جلد ترقی میسر ہوئی اور مقامِ معاشوقی پر پہنچے یعنی دونوں کے لئے روحِ احمدی علیہ السلام سے مشارب تھے

    (بحر المعانی از حصرت شیخ محمد ابو جعفر حسینی مکی۔۔مترجم مولانا حافظ شاہ تقی انور قلندر علوی کاکوروی۔۔صفحہ نمبر ۲۱۲- ۲۱۳ )

    در‌ دریائے تجریدے گل بستان تفریدے

    بہ شکل صورت انساں نمایاں ذات اللہے

    دریائے ترک و تجرید کا موتی ہیں، یگانگت کے چمن کا پھول ہیں

    انسان کی شکل و صورت میں اللہ تعالیٰ کی ذات کا ظہور ہیں

    (حضرت شاہ نیاز احمد بریلوی)

    خانقاہ نظام الدین اؤلیا غیاث پور:- یہ گاؤں جمنا دریا کے کنارے تھا جہاں آج کل ہمایوں بادشاہ کا مقبرہ ہے، کچھ دن کے بعد مولانا ضیاؤالدین وکیل عمادالملک نے حضرت کے لئے یہاں ایک خانقاہ بنوا دی جو آج تک موجود ہے یہ مکان ہمایوں بادشاہ کے مقبرے کی فصیل سے ملا ہوا شرق اور شمال کے گوشے پر ہے، سہ منزلہ عمارت ہے نیچے وہ کوٹھریا ہیں جہاں حضرت کے خلیفہ عبادت کرتے تھے اور اس کے سامنے صحن ہے جہاں کھانا کھلایا جاتا تھا، دوسری منزل میں بیٹھنے کی جگہ ہے اور سنگ سرخ کی خوشنما شہ نشین ہے اور تیسری منزل میں حضرت کی عبادت اور آرام کے لئے حجرہ ہے اور بالائی چھت پر گرمی کے موسم میں آرام کے لئے ہشت پہل چبوترہ ہے اور اس کے سامنے ایک بڑی چھت ہے جس پر حضرت شب بیداری کرتے تھے، اس کے شمال میں کئی مکانات تھے جہاں حضرت کے اقربا اور مخدوم زادے اور خاص خاص خلفا رہتے تھے اور ان سے آگے ایک عمارت ہے جس میں حضرت کا کتب خانہ تھا اور اسی مکان میں حضرت کا انتقال ہوا تھا یہ سب مکان اب تک تمام و کمال موجود ہیں کتب خانے کے صحن میں خانقاہ کے بانی مولانا ضیاؤالدین وکیل عماد الملک کی قبر بھی ہے۔

    (سیر الاؤلیا تصنیف- حضرت سید محمد مبارک علوی کرمانی، مترجم حضرت مولانا اعجاز الحق قدوسی۔۔ صفحہ نمبر- ۱۵)

    حسن اخلاق:- شیخ ابوالحسن کا یہ قول کشف المحجوب میں نقل ہوا ہے کہ

    تصوف رسوم اور علوم کا نام نہیں ہے بلکہ اخلاق کا نام ہے

    مشائخ کے نزدیک تصوف کا مقصد یہ ہے کہ انسان خود اپنے اندر چھے اخلاق پیدا کرے اور دنیا کے دوسرے بسنے والوں کو مادی نجاستوں اور آلودگیوں سے پاک وصاف کرے، بنی نوع انسان کے ساتھ تعلقات میں شگفتگی پیدا کرنا غم زدوں کے زخم پر مرہم رکھنا، برائی سے بچانا بھلائی کی طرف بلانا۔۔۔ یہ وہ کام ہیں جو عبادت سے زیادہ اہم ہیں، شیخ نظام الدین اؤلیا فرمایا کرتے تھے۔

    ”بہت نماز پڑھنا اور وظائف میں بکثرت مشغول رہنا، قرآن مجید کی تلاوت میں بہت مصروف رہنا، یہ سب کام چنداں مشکل نہیں ہیں، ہر باہمت شخص کرسکتا ہے بلکہ ایک ضعیف بڑھیا بھی کرسکتی ہے، تہجد گزاری میں مصروف رہ سکتی ہے قرآن مجید کے چند پارے پڑھ سکتی ہے لیکن مردان خدا کا کام کچھ اور ہی ہے (سیرالاؤلیا)

    حسن اخلاق کے حقیقی معنی:- حضرت سلطان المشائخ نے فرمایا کہ حسنِ اخلاق یہ ہے کہ تیرا قلب فعل حق کے دیکھنے کی وجہ سے لوگوں کی جفا سے متاثر نہ ہو۔

    (سیر الاؤلیا، تصنیف حضرت سید محمد مبارک علوی کرمانی، مترجم، حضرت مولانا اعجاز الحق قدوسی۔۔ صفحہ نمبر- ۸۵۰)

    سلطان المشائخ نظام الدین اؤلیا سیرت و کردار میں رسول اللہ کی کامل تصویر تھے ان کا اخلاق اللہ اور بندوں دونوں کے ساتھ کامل تھا۔

    وفات :- خواجہ نظام الدین اؤلیا نے 18ربیع الثانی بروز بدھ 725ھ بمطابق 4 مارچ 1324ء کو طلوعِ آفتاب کے وقت وصال فرمایا، وقت وصال فرماتے حضور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ملاقات کا وقت قریب ہے ایک وقت کی نماز بار بار پڑھتے فرماتے نہ معلوم اس نے قبول فرمائی بھی ہے یا نہیں مزار سے متصل مسجد کی دیوار پر تاریخ وفات کندہ ہے۔

    نظام دو گیتی شہ ماہ وطیں۔۔

    سراج دو عالم شدہ بالیقیں۔۔

    چو تاریخ فوتش بر حبتم زغیب۔۔

    نداداد ہاتف شہنشاہ دیں

    (725ھ - 1324ء)

    یا نظام الاؤلیا والدین صفدر اصفیا

    قرۃ العین بنی شان علی مرتضٰی

    ہست سلطان المشائخ مرشدو مولائے من

    آنکہ محبوب الہٰی ہست ذاتش حق نما

    (حضرت مظفر علی شاہ)

    700 سے زیادہ سال گزر جانے کے بعد بھی شیخ کی درگاہ سے ایسی کشش محصوص ہوتی ہے جیسے وہ ہمیں دیکھ رہے ہوں ابھی کچھ فرما دیں گے کروڑوں لوگ پوری دنیا میں سلطان المشائخ کے دربار عالی وقار سے مستفید ہوتے ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے