فیض علی شاہ کے صوفیانہ مضامین
شاہ جہاں کے آگرہ کا ولی حضرت سید احمد بخاری
شہر اکبرآباد کے مشہور بزرگ حضرت سید احمد بخاری شاہ جہانی عہد کے نامور شخصیت ہیں لیکن ان کی سوانح اور حالات کتبِ تاریخ میں بہت کم ملتے ہیں نہ ان پر ابھی تک کوئی تحقیق ہوئی جو بزرگ زبانی بہت کچھ جانتے تھے وہ بھی اب نہیں رہے جو کچھ معلومات ہے وہ بس مزار
حضرت سید اصغرعلی شاہ قادری چشتی نیازی
1282ھ /1865ء میں پیدائش ہوئی، ان کے والد حضرت سید مظفرعلی شاہ اللہی ہندستان کے مشہور صوفی اور آگرہ میں سلسلۂ قادریہ اور چشتیہ نیازیہ کے امین تھے، انہوں نے ہی اپنے فرزند اکبر حضرت سید اصغرعلی شاہ کو اپنا جانشین کیا۔ درگاہ اجمیر شریف سے حضرت کو چشت کے
تذکرہ حضرت سراج اورنگ آبادی
سراج اورنگ آبادی اردو تہزیب کا ایک اہم نام ہے، وہ اردو کے صوفی شعرا میں اپنی ایک علاحدہ شناخت رکھتے ہیں، اردو شاعری کے ابتدائی دور میں جہاں حاتم، آبرو، یقین وغیرہ اردو شاعری کے حق میں تذبذب کا شکار تھے، اس وقت ولی کے جانشین سراج کی شاعری کا طوطی بول
حضرت سید عبدالقادر گیلانی
حضرت سید عبدالقادر آگرہ میں خاندان قادریہ اعظمیہ کے مشائخِ میں سے تھے، علم و فضل میں علمائے وقت آپ کی شاگردی پر فخر کرتے تھے، زہد و تقویٰ آپ کا مشہور اور عبادت و ریاضت شہرہ آفاق، تمام دن آپ درس و تدریس سے بندگان خدا کو فیض پہنچاتے، صرف دوپہر کو قیلولہ
خانقاہ
خانقاہ کے لفظی معنیٰ ہیں تکیہ، عربی زبان میں زاویہ، یہ فارسی لفظ خان گاہ سے بنا ہے جس کے معنیٰ ہوتے ہیں روحانی تربیت گاہ دل اور روح کے علاج کی جگہ، خانقاہ کے معنیٰ حضرت نصیرالدین چراغِ دلی کے ملفوظ خیرالمجالس میں حضرت کا ارشاد ہے۔ "خانقاہ دو لفظوں کا
قرآن اور حضرت علی مرتضیٰ
نام و نسب اور زندگی :- آپ کا اسم گرامی علی بن ابی طالب اور کنیت ابوالحسن ہے، آپ رسول کریم کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے، حضرت فاطمتہ الزہرا آپ کے نکاح میں تھیں، نبی کریم کی اولاد حضرت علی و فاطمہ سے آگے چلی، آپ کی والدہ محترمہ فاطمہ بنتِ اسد بن ہاشم
حضرت سید رفیع الدین قادری محدث اکبرآبادی
شہر اکبرآباد کے صوفیائے کرام میں اولین جن شخصیتوں نے خانقاہی تعلیمات اور تصوف کو عام کیا اس میں حضرت سید رفیع الدین محدث کا نام آگرہ کی تاریخ میں صفحۂ اول میں ہوتا ہے۔ حضرت عبدالحق محدث دہلوی اپنی مشہورِ زمانہ کتاب اخبارالاخیار کے صفحہ ۵۱۳ میں ان کا
سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اؤلیا
محیط فیض و ارشادے بہ علم فقر استادے سراپا حسن جاں بخشے ہمہ جان دل خواہے (حضرت شاہ نیاز احمد بریلوی) نام و نسب :- آپ کا اصل نام محمد ہے۔ نسب حضرت سلطان المشائخ :- محمد نظام الدین بن خواجہ احمد بن خواجہ علی الحسینی البخاری بن عبداللہ بن حسن بن میر علی۔ آپ
حضرت سید امجد علی شاہ قادری
حضرت امجد علی شاہ قادری کا خاندانی پسِ منظر :- آپ نسباً جعفری سادات میں سے ہیں، آپ کے جدِ چہارم قطبِ مدینہ حضرت سید ابراہیم مدنی قادری جو آستانۂ سرورِ کائنات حضور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مجاور اور شیخِ وقت تھے، مستجاب الدعوات بزرگ
حضرت سید احمد اللہ احمدی قادری
حضرت سید احمداللہ قادری ابن سید الہام اللہ ابن سید خلیل اللہ ابن سید فتح محمد ابن سید ابراہیم قطب مدنی شہر اکبرآباد میں اس وقت پیدا ہوئے جب مغلوں کے انحطاط اور سیاسی افراتفری کا دور تھا، شاہ عالم ثانی تھے تو ہندوستان کے بادشاہ لیکن در حقیقت انگریزوں
خواجہ غریب نواز کی درگاہ کا تاریخی پسِ منظر
بقول خواجہ غریب نواز "تصوف کا تعلق دل کی نفاست سے ہے، دل اللہ کا گھر ہے، یہ کائنات کی کل حقیقتوں کی عکاسی کرتا ہے اس نور سے وجدانی کیفیت پیدا ہوتی ہے، تصوف روحانی تعلیم کی اس منزل کو کہتے ہیں جہاں اسرارِ خداوندی کے پرتو نظر آتے ہیں، علم و عرفان کے وہ
حضرت امام جعفر صادق اور تصوف
بنتے ہیں ان کے در سے غوث و قطب قلندر ہیں ہر ولی کے رہبر حضرت امام جعفر (قاسم نیازی) تصوف کے معنی :- • لفظی معنی : راہ طریقت، سلسلہ بیعت و سلوک، وہ مسلک جس کے وسیلے سے صفائی قلب حاصل ہو، علم معرفت۔ • تزکیۂ نفس کا طریقہ، اشیائے عالم کو صفات حق کا مظہر
حضرت شاہ محمد عمادالدین محمدی بیدار چشتی
پیدایش : بیدار کی ولادت کی صحیح تاریخ اور عمر کا پتہ نہیں چلتا لیکن وہ میر صاحب کے تذکرے کی تالیف کے زمانے (۱۱۶۵ھ) اور میر حسن کی ملاقات کے وقت (۱۱۸۸ھ تا ۱۱۹۲ھ) سے ۱۴ سال قبل (۱۱۷۴ھ) میں جوان تھے، اس وقت بیدار کی عمر ۳۰ سال ضرور ہوگی۔ (دیوان بیدار مرتب
تصوف کی عملی تصویر حضرت مظفر علی شاہ اکبرآبادی
(1227-1299ھ / 1881/1811ء) تخلص : اللّٰہی اکبرآبادی محبِ الفقرا و الغرابا حضرت سید امجد علی شاہ قادری کے سبط و جانشین ہیں، 21 جمادی الاول 1227ھ میں ولادت ہوئی، ہندوستان کے مشہور مشائخ میں ہیں ہزاروں لوگوں نے آپ سے سلسلۂ قادریہ چشتیہ کا فیضان حاصل کیا۔ زندگی
طرفتہ العینِ آگرہ
شہر آگرہ عہدِ اکبری سے ہی ادب دوست اور علم گیت رہا ہے، ادیب اور درویش یہاں کثرت سے ہوئے جو اپنی طرح کے منفرد آہنگ و طرز رکھنے والے ہیں، آگرہ کی موجودہ بساوٹ اور نقشہ جس بنیاد پر قائم ہے وہ ابراہیم لودھی کا بسایا ہوا شہر ہے جو جمنا کے دونوں طرف برابر
حضرت امام حسن مجتبیٰ اور قرآن
سورۂ کوثر کی پہلی تفسیر امام حسن مجتبی نے لکھی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱)فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْؕ(۲)اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ۠(۳) اے محبوب بے شک ہم نے تمہیں کوثر عطا کیا ہے یعنی بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں تو
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere