قوالی کا فن ہندوستانی تہذیب کی وراثت
بھارت اور پاکستان میں قوالی کے فن کو مقبولیت حاصل رہی ہے اور بہت سی قوالیاں یہاں مقبول عام ہوچکی ہیں، حضرت امیر خسروؔ کی طرف منسوب ’’چھاپ تلک سب چھینی رے‘‘ ’’اے ری سکھی ری مورے خواجہ گھر آئے‘‘ سے لے کر ’’بھردو جھولی مری یامحمد‘‘ ’’سجدے میں سر کٹادی محمد کے لعل نے‘‘ تک ایسی قوالیاں بڑی تعداد میں ملتی ہیں جن کی مقبولیت زمان و مکان کی قید سے اوپر ہے، برصغیر کا خطہ ’’قوالی‘‘ کی جنم بھومی ہے، یہ ایک خالص ہندوستانی فن ہے جو اسی دھرتی سے اٹھا ہے، یہ خانقاہوں میں پیدا ہوا اور وہیں اس کی نشو نما ہوئی، البتہ وقت اور حالات نے اس پر اثر ڈالا اور اس میں بہت سی تبدیلیاں بھی ہوتی رہیں، ابتدا میں اس کی زبان فارسی ہوتی تھی مگر رفتہ رفتہ اس کی زبان ہندوی یا اردو ہوگئی، ’’محمد کے شہر میں‘‘ ’’دمادم مست قلندر‘‘ عام لوگوں کے اندر بے حد مقبول ہوئیں، اس کے بعد یہاں کی علاقائی زبانوں میں بھی قوالیاں گائی جانے لگیں۔ قوالی کی تاریخ بے حد دلچسپ ہے۔
قوالی کی تاریخ : لفظ ’’قوالی‘‘ عربی کے لفظ ’’قول‘‘ سے مشتق ہے، قول کا مطلب ہوتا ہے ’’بات‘‘ یا ’’بیان کرنا۔‘‘ اس طرح قوالی کا مطلب ہوا وہ بات جو بار بار دہرائی جائے، حالاں کہ لفظ قوالی کو بھارت اور پورے برصغیر میں گانے کی ایک خاص صنف کے نام کے طور پر استعمال کیا جانے لگا، قوالی ایک خاص اسٹائل کے گانوں کو کہتے ہیں جن میں خدا کی حمد و ثنا ہوتی ہے، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف ہوتی ہے یا صوفیہ اور اللہ والوں کی منقبت بیان کی جاتی ہے، اس کے لیے موسیقی لازم ہے، بغیرآلات موسیقی کے قوالی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، قدیم روایتوں، صوفیہ کے تذکروں اور تاریخی کتابوں کے مطابق اس خطے میں پرانے زمانے سے صوفیہ کی خانقاہوں میں قوالی کا رواج رہا ہے، اس کی ابتدا اگر چہ حضرت نظام الدین اؤلیا کے مریدِ خاص حضرت امیر خسروؔ سے مانی جاتی ہے جو اپنے عہد کے ایک معروف شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ موسیقی کے فن میں بھی مہارت رکھتے تھے مگر سماع کی محفلیں اس سے پہلے بھی رائج تھیں اور باوجود اس کے رائج تھیں کہ علما کا ایک طبقہ موسیقی کو غیراسلامی مانتا تھا اور اس کی مخالفت کرتا تھا، محفل سماع کا ذکر برصغیر کے چشتی مشائخ کے تذکروں میں خاص طور پر ملتا ہے، خواجہ معین الدین چشتی خود اچھے شاعر تھے اور ان کی خانقاہ میں محفل سماع ہوتی تھی، ان کے مرید وخلیفہ حضرت قطب الدین بختیارکاکی کی خانقاہ دلی میں تھی اور انہیں سماع کا اس قدر شوق تھا کہ اسی حالت میں انہیں حال آگیا اور وہ بے خودی کی کیفیت میں آ گیے اور اسی کیفیت میں کئی دن رہ کران کی موت واقع ہوگئی، بعض علما کی مخالفت کے باوجود چشتی مشائخ اس پر اصرار کرتے رہے اور لطف کی بات تو یہ تھی کہ انھوں نے بڑی حکمت عملی سے اس کا استعمال اسلام کی تبلیغ میں کیا کیوں کہ یہاں کے باشندے موسیقی سے رغبت رکھتے تھے اور یہاں ہزاروں سال سے موسیقی کی روایت چلی آتی تھی، قدیم مذہبی گرنتھ ویدوں میں بھی اس پر بہت کچھ موجود ہے۔ یہاں بھجن میں موسیقی کا استعمال ہوتا تھا، ہندوستانی تاریخ میں موسیقی کے حوالے سے حیرت انگیز شہرت کے حامل اکبر کے نورتنوں میں سے ایک تان سین کی پرورش گوالیار کے معروف صوفی حضرت محمد غوث گوالیاری کی خانقاہ میں ہوئی تھی اور اسے موسیقی کی تعلیم بھی آپ نے ہی دی تھی۔ آج بھی تان سین کی قبر آپ کے پہلو میں موجود ہے۔ اس قسم کے واقعات اس بات کی گواہی کے لئے کافی ہیں کہ یہاں کے صوفیہ کو موسیقی سے خاص لگائو تھا اور انھوں نے اس ملک کے سنگیت کو بہت کچھ دیا ہے جس میں سے ایک قوالی بھی ہے، اس کی ایجاد اور مقبولیت صوفیہ کی مرہون منت ہے، سنٹرل ایشیا کے صوفیہ کا بھی موسیقی سے خاص لگاؤ رہا ہے اور ان کی بھارت آمد سے قبل بھی ان کا موسیقی سے تعلق خاطر تھا، خود حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کئی مواقع پر موسیقی بجائی گئی اور آپ نے اسے منع نہیں کیا، عہد نبوی میں دف بجاکر گانے کا رواج عام تھا جس کا ثبوت احادیث میں موجود ہے۔
قوالی کے موجد امیرخسرو : قوالی کے موجد حضرت امیر خسرو مانے جاتے ہیں اور یہ ان کے فن کی سچائی کی دلیل ہے کہ صدیاں بیت جانے کے بعد بھی یہ فن زندہ ہے اور اسے پسند کرنے والوں کا ایک طبقہ موجود ہے، کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ امیرخسرو، اپنے مرشد حضرت نظام الدین اؤلیا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض گزار ہوئے کہ ان کی شاعری میں وہ شیرینی آ جائے جو بے مثال ہو، مرشد نے اپنے فرماں بردار مرید کی عرض داشت سنی اور ارشاد ہوا کہ کھاٹ کے نیچے شکر رکھی ہوئی ہے نکالو، اسے خود کھائو اور حاضرین میں تقسیم کردو۔ امیر خسرو نے ایسا ہی کیا اور پھر ان کی زبان میں وہ شیرینی آ گئی کہ آج سات سو سال سے زیادہ کی مدت گزرنے کے بعد بھی اس کی مٹھاس میں کمی نہیں آئی، خسروؔ کو ان کے عہد کے ایک بادشاہ نے ’’ملک الشعرا‘‘ کے خطاب سے نوازا تھا مگر وہ کشورِ سخنوری کے ایسے شہنشاہ ثابت ہوئے جس کی سلطنت کو آج تک کسی نے چیلنج نہیں کیا، غالباً یہ اسی شکر کی برکت تھی جو خسروؔ کو بارگاہِ نظامی سے عطا ہوئی تھی، وہ باالاجماع برصغیر کی تمام زبانوں کے سب سے بڑے شاعرتھے اور آج تک ہیں، ان کی برابری کا کوئی سخنور اس ملک نے پیدا نہیں کیا، ان کی عظمت کو دنیا نے تسلیم کیا، وہ شاعری ہی نہیں موسیقی کے فن میں بھی یکتا تھے اور کچھ نئی ایجادات و اختراعات کا سہرا بھی ان کے سر جاتا ہے، خسروؔ نے اپنی شاعری اور موسیقی کو خالص ہندوستانی رنگ دیا جسے کثرت میں وحدت کی مثال کہا جاسکتا ہے اور اسی کی تقلید بعد کے فنکاروں نے کی، امیر خسروؔ کی ولادت اتر پردیش کے پٹیالی قصبے میں ہوئی، جو کہ متھرا سے ایٹہ جانے والی شاہ راہ پہ گنگا کنارے واقع ہے، ۶۵۱ھ بمطابق ۱۲۵۲ء کو یہاں کے ایک امیر کبیر گھرانے میں انہوں نے جنم لیا، یہ سلطان ناصرالدین محمود کا دور سلطنت تھا، والد کا نام امیر سیف الدین محمود اور والدہ کانام دولت ناز تھا، والد ایک مہاجر ترک تھے تو والدہ ایک (ہندو) نومسلم، سیاہ فام ہندوستانی سیاست داں کی بیٹی تھیں، وہ اپنے تین بھائیوں اور ایک بہن میں منجھلے تھے، خسرو کا اصل نام یمین الدین محمود تھا مگر شہرت انہیں ان کے تخلص سے ملی، امیر، ان کا موروثی خطاب تھا، انہوں نے اپنی شاعری اور موسیقی میں خالص ہندوستانی انداز کو اپنایا اسی لئے وہ خوب مقبول ہوئے، ان کے فن میں اہل وطن نے اسی مٹی کی سوندھی خوشبو محسوس کی۔
قوالی میں تبدیلی کا دور : قوالی کا فن اس قدر مقبول ہوا کہ وہ خانقاہوں سے نکل کر عوام الناس تک پہنچ گیا اور عوامی محفلوں میں اسے گایا جانے لگا، اب یہ خانقاہوں اور درگاہوں تک محدود نہیں رہا بلکہ عام لوگوں کی پسند بن چکا تھا، ایک ایک محفل میں ہزاروں اور لاکھوں کی بھیڑ جمع ہوجاتی اور قوالی گانے والے راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتے، بھارت میں سنیما کی آمد سے قبل عام لوگوں کی تفریح طبع کا سامان ہوا کرتی تھیں قوالی کی محفلیں اور جب یہاں سنیما متعارف ہوا تو قوالیوں کو بھی یہاں جگہ دی گئی، البتہ ایک بڑا بدلائو یہ ہوا کہ قوالی کے مضامین بدل گیے، جہاں خالص حمد و نعت، منقبت اور پند ونصیحت کے مضامین اس کا حصہ ہوا کرتے تھے وہیں اب عاشقانہ مضامین اس میں شامل ہو گیے، غزل میں جس طرح حسن و عشق کا بیان ہوتا تھا، اس میں بھی ہونے لگا، فلمی قوالیوں نے جہاں اس فن کو مقبول بنانے کا کام کیا وہیں اسے کمرشیلائز کرکے اس کی حرمت اور تقدس کو بھی پامال کیا، قوالی اخلاقیات سے دور ہوتی چلی گئی اور اس میں صوفیانہ مضامین کی جگہ سوقیانہ خیالات در آئے، مرد اور خواتین قوالوں کے بیچ مقابلے شروع ہو گیے، اسی قسم کی ایک فلمی قوالی جو بے حد مقبول ہوئی تھی وہ تھی ’’عشق عشق ہے‘‘ حالاں کہ ۸۰ ۱۹ء کی دہائی میں فلم ’’نکاح‘‘ کی قوالی ’’چہرہ چھپا لیا ہے‘‘ نے مقبولیت کے تمام رکارڈ توڑ دیئے تھے، فلم مغل اعظم کی اس قوالی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا جو انار کلی اور بہار کے بیچ مقابلے کی شکل میں ہوتی ہے ’’تیری محفل میں قسمت آزما کے ہم بھی دیکھیں گے‘‘ علاوہ ازیں ’’ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے‘‘ ’’جھوم برابر جھوم شرابی‘‘ جیسی قوالیوں کو مشہور ترین قوالیوں کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
قوالی کے پرانے انداز کو زندہ کرنے کی ضرورت : جس زمانے میں قوالی کا فن اپنے رنگ روپ بدل رہا تھا اور اسے اکتساب زر کا اچھا ذریعہ سمجھا جا رہا تھا اسی دوران پاکستان کے صابری برداران کا ظہور ہوا جنہوں نے اس کے پرانے رنگ و روپ کو دوبارہ ابھارنے کی کوشش کی اور اسے ماضی کی طرف لے جانے میں اہم کردار نبھایا، یہ قوالی کے احیا کا دور تھا، حالاں کہ اسی دوران بھارت اور پاکستان میں بڑی تعداد میں قوال موجود تھے مگر کسی کا صابری بھائیوں سے کوئی مقابلہ نہیں تھا، ان بھائیوں کے بعد صوفیانہ قوالی کو رنگ و آہنگ عطا کیا استاد نصرت فتح علی خاں نے مگر انہوں نے کم عمر پائی، ان دنوں استادراحت فتح علی خاں مقبول ہیں اور درگاہوں سے لے کر فلموں تک ان کی آواز سنائی دے رہی ہے، بھارت اور پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو آج بھی اس فن سے واقفیت رکھتے ہیں مگر بیشتر لوگ اسے پارٹ ٹائم جاب کی طرح دیکھتے ہیں کیوں کہ سوائے چند حضرات کے اب یہ کسی کی مالی ضرورت پوری کرنے سے قاصر ہے، درگاہوں کے آس پاس جو قوال نظر آتے ہیں ان میں سے بیشتر فن سے ناواقف ہوتے ہیں اور ان میں ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جو دن بھر آس پاس کوئی معمولی قسم کے کام کرتے ہیں اور شام کو ڈھول، ہارمونیم لے کر بیٹھ جاتے ہیں، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری طور پر اس فن کی سرپرستی کی جائے اور اس کے روایتی پرانے انداز کو دوبارہ عوام کے سامنے لایا جائے، یہ ہماری تہذیب سے جڑا ہوا فن ہے اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے کلچر کی حفاظت کریں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.