سید اولاد علی کاہشؔ جونپوری
دلچسپ معلومات
حوالہ :- تذکرہ مسلم شعرائے بہار، حصہ چہارم۔
سید اولاد علی نام اور کاہش تخلص ہے، والد ماجد کا نام سید محمد عوض ہے، عربی فارسی اور اردو زبانوں میں ید طولیٰ حاصل تھا اور طب میں بھی کامل دستگاہ حاصل تھی، شاعری میں مرزا محمد حسن قتیلؔ سے تلمذ تھا، اصل وطن آپ کا جونپور تھا، بسلسلۂ ملازمت مدت مدید تک بہ عہدۂ پیشکاری عدالت دیوانی گیا میں فائز تھے، حضرت شاہ عطا حسین فانی جو گیا میں خلق اللہ کو اپنے رشد و ہدایت سے مستفید فرما رہے تھے، کاہش بھی اس فیض عام سے بہر یاب ہوئے، چنانچہ خود حضرت شاہ صاحب ممدوح اپنی تصنیف ”کیفیت العارفین“ میں کاہش کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ
”یکے از فضلائے و حکیم حاذق زمانہ زبدۃ الشعرائے یگانہ مولوی سید اولاد علی جونپوری ایشاں را بیعت بطریقۂ قادریہ رشیدیہ از بزران خود در وطن بود، از عرصہ بسبب عہدہ جلیلۃ القدر دریں قصبہ بودند بہ سبب ربط دل ازیں فقیر بسیار مودت نمودند خواستگار نسبت ایں طریقہ گشتہ فیض معنوی ازیں فقیرحصول ساختند بعدہ بعرصہ چند اقامت وطن اصلی پرداختند اکثر از شاگردان ایشاں دریں قصبہ موجود اند“
حضرت شاہ عطا حسین فانی کے پر پوتے حضرت شاہ حسین الدین احمد سجادہ نشیں خانقاہ منعمیہ، گیا نے مذکورہ بالا عبارت کے حاشیہ میں جو لکھا ہے وہ یہ ہے کہ
’’آپ کاہشؔ تخلص کرتے تھے، اردو فارسی میں قادرالکلام تھے، گیا میں آپ نے شادی بھی کر لی تھی، اولادیں ہوئیں، حفاظ سید ارادت الحق صاحب مرحوم آپ کے پوتے تھے، اردو کلام میرے پاس نہیں ہے، فارسی کا دوسرا دیوان ہے، اب آپ کے خاندان کا یہاں کوئی نہیں، شاید جونپور میں کوئی صاحب ہوں“
کاہشؔ 1857ء کے غدر کے بعد جونپور چلے گئے اور وہیں انتقال کیا، ان کے پوتے حافظ سید محمد ارادت الحق نے ان کا تذکرہ لکھا تھا اور اردو کی غزلیں جمع کی تھیں مگر اب ان کا اردو کلام نایاب ہے۔
فارسی دیوان جلد دوم کے آخر میں خود کاہشؔ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی یہ تحریر موجود ہے کہ
”تمام شد دیوان دویم فارسی از نتائج طبع بندہ ہیچمدان احقرالعباد کمترین خلائق اعجزالناس المر الی اللہ المدعو السید اولاد علی الکاظمی الجونفوری بن سید محمد عوض مرحوم غفراللہ لہما وستر عیوبہما متخلص کاہشؔ در ۱۲۷۱ ھ ماہ ربیع الاول تاریخ سیوم مطابق سیوم جنوری ۱۸۵۴ء موافق ہیجدہم ۱۲۶۱ فصلی روز سہ شنبہ در قصبہ گیا متعلقہ ضلع بہار نوشتہ شدواین کمترین از تلامذہ جناب فیض مآب غواص بحور تکمیل جناب مرزا محمد حسن قتیلؔ کہ باتفاق آب و دانہ دریں قصبہ رسیدہ و بہ عہدہ پیشکاری عدالت دیوانی ضلع بہار ممتاز گردیدہ دیہان زماں تالیف دیوان ہذا نمود“
تاریخ شعرائے جونپور مصنفہ سید اقبال احمد صفحہ ۴۶۳ میں کاہشؔ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ
”نام حکیم اولاد علی کاہشؔ تخلص، نواسہ شاہ عنایت مخدوم کے تھے، ۱۲۷۱ ھ میں پیدا ہوئے، جب سن تمیز کو پہنچے تو پڑھنے میں لگائے گئے، اولاً مختصرات عربی اپنے بزرگوں سے پڑھا بعدہ لکھنؤ گئے اور علمائے فرنگی محل سے فیض حاصل کیا، علم طب حکیم مسیح الزماں سے پڑھا اور مطب میں بیٹھے، ہر قسم کا تجربہ تھوڑے عرصہ میں حاصل کر کے حکیم بن گئے، آپ کو شاعری سے بھی شوق تھا، کلام فارسی کی مشق و اصلاح مرزا قتیلؔ سے اور اردو کلام کی مشق و اصلاح شیخ غلام ہمدانی مصحفیؔ سے کیا، آپ شاعر نازک خیال اور خوش گو تھے، بعد تکمیل کمالات آپ جاہ و منصب کے حصول میں کوشاں ہوئے، اولاً گیا میں بہ عہدۂ پیشکاری عدالت دیوانی مقرر ہوئے۔
بعدہٗ سرشتہ داری کے عہدہ پر مامور ہوئے چند سال ملازمت کر کے ترک کر دیا اور گوشۂ قناعت میں بیٹھے، آپ کی تصانیف میں رسالہ فارسی، رسالہ مکتوبات، منتخب العروض، دیوان فارسی کلام دوم، دیوان اردو“
مولوی عاصم جونپوری وکیل مقیم کراچی جو مولانا ابوبکر شیث جونپوری سابق پروفیسر دینیات علی گڑھ یونیورسٹی کے حقیقی بھانجے ہیں اور جن کی کاہش جونپوری سے رشتہ داری بھی ہے، ایک روز راقم سے فرمانے لگے کہ ایک دفعہ جونپور میں ایک مجلس مشاعرہ نہایت تزک و احتشام سے منعقد ہوئی، لکھنؤ سے جناب انیس کے پوتے تشریف لائے، جناب کاہش اور دوسرے چوٹی کے شعرا جمع ہوئے، جناب انیس کے پوتے نے چند اشعار تعلی کے پڑھے جن کے تین شعر جو زبانی جناب عاصم کو یاد تھے، راقم کو سنائے وہ یہ ہیں۔
جامی وہ کہاں ہیں؟ مانگِ زلیخا بگڑ گئی
سعدی کہاں ہیں؟ اُس گلستاں پہ پڑ گئی
عرفی کے دل میں نوک تعلی کی گڑ گئی
حافظؔ کی قبر صاف زمیں سے اکھڑ گئی
سب شاعران دہر تذلل میں پڑ گئے
اس معرکے میں پاؤں سب ہی کے اکھڑ گئے
یہ اشعار سن کر کاہش کی رگِ حمیت پھڑکی اور برجستہ ڈیڑھ سو اشعار مثنوی کی بحر میں لکھ کے اور مشاعرہ میں پڑھ کے سنایا جس کے بعد سناٹا چھا گیا، کاہش کے ان اشعار میں سے تین شعر جو موصوف کو زبانی یاد تھے سنائے وہ یہ ہیں۔
رکتی ہے کب کسی سے مری طبعِ نکتہ گیر
مونسؔ ہوں، یا انیس ہوں یا انس ہوں یا دبیر
جولانی پہ جو آئے مری طبعِ نکتہ گیر
نیزوں اڑے یہ اشہب خسامہ، بستانِ تیر
جولانی پہ اگر فرسِ طبع بھر پڑے
چکر دہ دوں کہ ابلقِ ایام گر پڑے
راقم کہتا ہے، کاہش کے چند اور اشعار ملاحظہ ہوں۔
رسی ملی تو دیکھ کے سوسن نے آہ کی
نرگس شہید ہوگئی ترچھی نگاہ کی
غنی ہوتا ہے ہر محتاج تیری آشنائی کا
حبابِ بحر نے کاسہ لیا الٹا گدائی کا
ہڈیاں مجنوں کی مت کھا اے ہما
آگ ہے اس استخوانِ زار میں
بیان حالِ دلِ زار ہو نہیں سکتا
یہ درد وہ ہے کہ اظہار ہو نہیں سکتا
رشک مقتل ہے ترا کوچہ بتِ قاتل! مگر
گبر تڑپے ہیں جدا، کافر جدا، ترسا جدا
یوں حسرتِ دل کہتی تھی فرہاد سے رو رو
تیشہ کو لگا سر پہ تو پچھائے گا آخر
کاہشؔ کے تلامذہ میں صوبۂ بہار کے اکثر اصحاب داخل تھے، بعض کے نام یہ ہیں، سید آل احمد شوکت ساکن روہائی، جناب سید ضمیرالدین احمد عرف منا کیفی جان پوری گیاوی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.