حضرت شاہ نیازاحمد کی علمی خدمات
حضور قبلہ یعنی حضرت شاہ نیاز احمد سرہندی ثم بریلوی (1834-1742) سر زمینِ ہند پر ایک نیّرہ اور درخشاں اور نابغہ روزگار شخصیت بن کر رہے، آپ کی ذاتِ والا صفات مجموعۂ کمالات تھی، آپ نے بریلی کی سر زمین پر اپنے علمی کارناموں کی بدولت اسلامی ماحول کو قائم فرما کر فیض کا دریا جاری کیا، آپ کے مدرسہ سے بڑے بڑوں کو فیض پہنچا، آپ کے علمی اور روحانی فیض سے برصغیر اور ایران افغانستان کے طالبانِ حق سرفراز ہوتے رہے، خانقاہ نیازیہ کے قیام سے قبل ہی حضرت ہی کی نسبت سے یہ پورا علاقہ محلہ ”خواجہ قطب“ کہلایا، آپ کے روحانی فیوض و برکات کے تذکرے سے متعدد کتابیں بھری پڑی ہیں، حضرت موصوف کو تمام جلیل القدر سلاسلِ تصوف سے باقاعدہ خلافت و اجازت حاصل تھی۔
فارسی اور اردو شاعر کی حیثیت آپ کی شخصیت مسلم ہے اور تمام متداول تذکرہ ہائے فارسی و اردو میں آپ کا ذکر موجود ہے، شاعری سے متعلق مسبوط کتابیں اور متعدد تحقیقی مقالے مختلف یونیورسٹیز میں لکھے اور پڑھے جاچکے ہیں اور جو شائع بھی ہوچکے ہیں لیکن آپ کی علمی خدمات کے بارے میں معلومات زیادہ عام نہیں ہوسکتی، اسی اہمیت و ضرورت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے سطور آئندہ میں ان کی مختلف علوم سے متعلق تصنیفات و تالیفات کا ایک مختصر تذکرہ پیش کر رہا ہوں تاکہ حضرت موصوف کے روحانی فیوض و برکات کے علاوہ علمی فتوحات کا بھی اعتراف کیا جائے اور خلق اللہ اس سے فیضانِ عموی حاصل کرے۔
1۔ دیوان نیاز :- حضور قبلہ کے فارسی اور اردو دیوان کے تقریباً 52 ایڈیشن مختلف مطابع سے شائع ہوکر مقبول عوام و خواص ہوچکے ہیں لیکن اس کے کچھ ابتدائی ایڈیشنز کے بارے میں معلومات درجِ ذیل ہے۔
پہلا ایڈیشن : دیوان نیاز کا اولین ایڈیشن 1265ہجری مطابق 1848عیسوی سعید الاخبار، آگرہ سے شائع ہوا، غزلیات کے اشعار کی کل تعداد 914 ہے، 25۔ 25 اشعار کی دو مثنویاں بھی اس میں شامل ہیں، اس کی قیمت ایک روپیہ تھی اس میں چار زبانوں کا کلام شامل ہے جس کی تفصیل یہ ہے۔
عربی کلام ایک غزل ایک صفحہ
فارسی کلام۔ 101 غزل۔ 83 صفحات
اردو کلام۔ 60غزلیں۔ 34 صفحات
ہندی کلام۔ متفرق اصناف۔ 4 صفحات
کل 122 صفحات
اسی ایڈیشن پر مبنی گفتگو قاضی عبدالودود نے رسالہ معاصر پٹنہ میں اکتوبر 1942عیسوی میں فرمائی تھی، اس ایڈیشن پر مبنی متعدد دیوان مختلف مطابق شائع ہوتے رہے۔
دوسرا ایڈیشن : اس کا دوسرا ایڈیشن 1278ہجری مطابق 1826عیسوی میں شیخ عبداللہ نیازی رئیس پھول پور (ضلع الہٰ آباد) نے شائع کرایا جس کی ترتیب و تسوید آپ کے خلفِ اکبر اور جانشین حضرت شاہ نظام الدین حسین تاج الاؤلیا کے زیر نگرانی عمل میں آئی تھی۔
تیسرا ایڈیشن : 1279 ہجری مطابق 1863 عیسوی مطبعِ احمدی، لاہو رسے شائع ہوا۔
چوتھا ایڈیشن : تاجر کتب حافظ محمد عظیم الدین احمد میرٹھی نے اس دیوان کا چوتھا ایڈیشن مطبعِ ہاشمی میرٹھ سے بہت اہتمام سے شائع کرایا، یہ بھی 1280 ہجری مطابق 1865 میں مطبع گلزار احمدی، الہ آباد سے منشی الٰہی بخش نیازی کے اہتمام سے شائع ہوا، اس کے بعد یہ ایڈیشن متعدد مطابع سے اسی طرح اشاعت پذیر ہوتا رہا۔
چھٹا ایڈیشن یا پہلا خانقاہی ایڈیشن : 1313 ہجری مطابق 1895 عیسوی میں دیوان نیاز کا خصوصی ایڈیشن سامنے آیا جس کو آپ کے خلفِ اکبر اور خانقاہ نیازیہ کے سجادہ نشیں دوم حضرت نظام الدین حسین تاج الاؤلیا نے خود مرتب فرمایا، اس دیوان میں اشعار کی تعداد سب سے زیادہ ہے، فارسی اشعار کی تعداد 1094 ہے، اس میں مناجات کے علاوہ حضرت صدیق اکبر، حضرت علی، حضرت امام حسین، حضرت غوث الاعظم، خواجہ معین الدین چشتی، حضرت نظام الدین اؤلیا اور حضرت مولانا فخرِ پاک کی شان میں متعدد مناقب بھی شامل کی گئی ہیں، یہ ایڈیشن اغلاط سے مبرا ہے۔
دیوانِ اردو : اس اردو مجموعہ کلام میں 65 غزلیں اور 469 اشعار شامل ہیں، ہندی حصہ میں دو بسنت، چار کبت، 18 ہولیاں اور ایک پھاگ ہے، ہندی اصناف کی کل تعداد 25 ہے، اس خانقاہی ایڈیشن میں کچھ اضافے کیے گئے ہیں۔
دیوانِ اردو کا تیسرا ایڈیشن 1345 ہجری مطابق 1929 عیسوی میں مولوی مزمل سرہندی نیازی نے حضرت علامہ میکش اکبرآبادی کی وساطت سے شائع کرایا، اسی ایڈیشن کی نقل دورباہ 1965 عیسوی میں خلیفہ فتح محمد اجمیری نیازی کے صاحبزادہ نے انجمن نیازیہ حیدرآباد سے شائع کرائی۔
پاکستانی ایڈیشن : دیوانِ شاہ نیاز (اردو) کا ایک ایڈیشن کراچی سے 1969 عیسوی میں تنظیمِ خدامِ سلسلہ عالیہ نیازیہ، کراچی کے زیر اہتمام شائع ہوا، اس کا سرورق اور طباعت خوشمنا ہے ویسے یہ اردو دیوان پینتالیسواں ایڈیشن ہے۔
حضرت قطبِ عالم کا غیر مطبوعہ کلام بہت سے مریدین اور متوسلین بالخصوص بچھراؤں کے لوگوں کے پاس محفوظ رہا ہے، ایسی ہی کچھ غزلیات کو سجادہ نشیں سوم حضرت شاہ محمد تقی عرف عزیز میاں صاحب المتخلص بہ راز بریلوی نے اپنے مجموعۂ کلام ”راز نیاز“ میں بطورِ تبرک شامل کیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ کا غیر مطبوعۂ کلام بعد اہتمام شائع کیا جائے۔
2۔ شمس العین :- مسائل تصوف سے متعلق یہ حضور قبلہ کی اہم تصنیف ہے، در اصل یہ 95 بندوں پر مشتمل ایک خمسہ ہے، اس کے ابتدائی بندوں کی زبان عربی ہے لیکن بقیہ ذوالسانین ہیں یعنی چار مصرعے فارسی میں اور پانچواں مصرعہ عربی ہے، اس خمسہ کی قابلِ ذکر خوبی یہ ہے کہ اس میں مسائلِ تصوف کو بیان کرتے ہوئے علمِ فلکیات اور ریاضی کی بعض اصطلاحات بھی نوکِ قلم سے نکل گئی ہیں، اس کی اہمیت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے حضرتِ موصوف نے اس کی کئی شرحین بھی لکھیں ہیں، اس کی شہرت برصغیر سے نکل کر ایران و افغانستان تک پہنچی، حالانکہ یہ آپ کے اوائلِ عمری کی تصنیف ہے، یہ 90-1789 عیسوی (1204 ہجری) میں پایۂ تکمیل میں پہنچ گیا تھا جیسا کہ خود تحریر فرماتے ہیں کہ
’’بہ طرفِ علم عروض گذرے نشدہ بود“
تاہم اس میں اتنے مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے کہ خود موصوف نے اس کی تین شرحیں مرتب فرمائی ہیں۔
(الف) شرحِ مفصل (جسے عرفِ عام میں ”شمس العین“ ہی کہا گیا)
(ب) کشف العین
(ج) نورالعین
(الف) شرح مفصل : اس شرح میں ابتدائی بندوں میں عقائد سے متعلق گفتگو کی گئی ہے، اسے سمجھایا گیا ہے بعض بندوں کو جو شرح کی گئی ہے اس کی دو شقیں سمجھی جانی چاہیے اولاً تصوف کے مسائل سے متعلق اصولی اور نظریاتی گفتگو ہے، ثانیاً تصوف کے بعض معاملات کو عمل و حقیقی مثالوں وغیرہ سے سمجھایا گیا ہے، حضرت موصوف نے پچاس بندو ( بند 40 سے 89)تک ان ازکار و اشغال کا ذکر کیا ہے جو خاندانِ نیازیہ کے بزرگوں کے معمولات میں شامل رہے ہیں ان میں بعض ”مراقبات“ کی بھی تفصیل بتائی گئی ہے، گوکہ حضرت موصوف نے ان اشغال وغیرہ کو ”اشغالِ قادری“ فرمایا ہے لیکن اس میں چشتیہ سلسلہ کے اذکار و اشغال بھی شامل ہیں، شرح مفصل کے اس مخطوطہ میں 234 صفحات ہیں، یہ نسخہ 17 سطری ہے اور سطر میں 13 الفاظ ہیں۔
”شمس العین“ کا ایک نسخہ راجہ کندن لال اشکی کا تحریر کردہ ہے، جس میں شرحِ خمسہ موجود نہیں ہے، شرح مفصل (شمس الدین) کے اردو تراجم:
(الف) خانقاہی ترجمہ :- اس کا سب سے معتبر ترجمہ حضور قبلہ کے پوتے اور جانشینِ دوم حضرت سراج السالکین شاہ محی الدین احمد (عرف ننھے میاں) صاحب کا کیا ہوا جس کی کتابت مولوی محمد صدیق بچھرایونی نے اپنے منشیانہ قلم سے کی ہے، اس ترجمہ شرح میں یوگ کے اشغال بھی قدرے تفصیل سے مندرج ہیں۔
(ب) اسرار الصوفیہ :- یہ دوسرا ترجمہ جزوی ہے، اس میں ابتدائی تقریباً چالیس بندوں کا ترجمہ موجود ہے، یہ ترجمہ خلیفہ غلام نیاز احمد خاں رام پوری نے کیا تھا جو 1342 ہجری مطابق 1924 عیسوی میں مکمل ہوگیا تھا، مترجم موصوف حضرت تاج الاؤلیا کے مریدِ خاص تھے، خلیفہ حضرت سراج السالکین۔
کشف العین :- یہ خمسہ شمس العین کی عربی زبان میں شرح ہے لیکن اس میں قدرے اختصار سے کام لیا گیا ہے، ابتدا میں شرحِ مفصل (فارسی) کا عربی کتبہ بھی نقل کیا گیا ہے، اس شرحِ عربی کا سنِ تصنیف تو معلوم نہیں، البتہ سنہ کتابت 1292 ہجری مطابق 1875 عیسوی مندرج ہے، یہ مخطوطہ بڑے سائز کے سو صفحات پر مشتمل ہے، یہ نسخہ بھی خلیفہ نیاز احمد خاں نیاز رامپوری کا تحریر کردہ ہے، اس میں تصوف کے گہرے مسائل کو مختصر طور پر سمجھایا گیا ہے، بعض اکابرِ صوفیا کے اقوال و حکایات بھی مندرج کیے گئے ہیں۔
نور العین :- اس رسالہ میں خمسۂ ”شمس العین“ اور اس کی شرحوں میں مندرج حواشی اور دیگر ضروری اشاروں کو یکجا کردیا گیا ہے، اس لئے رسالہ مختصر ہے اور صرف سات صفحات پر مشتمل ہے، اس کو جناب نواب محمد جان خاں ( عرف مولوی میاں) صاحب نے تحریر کیا تھا، اس کا ایک نسخہ پاکستان میں بھی محفوط ہے، حضرت نیاز بے نیاز نے مذکورہ بالا کتب میں اذکار و اشغالِ قادریہ و چشتیہ کو یکجا کردیا ہے اور ان کی اہمیت و عظمت پر بھی گفتگو فرمائی ہے، ان سب سرمایہ کو نئے سرے سے مرتب و مدون کرکے اردو میں ترجمہ کرکے پیش کیے جانے کی ضرورت ہے تاکہ فیضانِ نیازیہ جاری رہے۔
3۔ مجموعۂ قصائد عربیہ :- یہ تین خمسوں کا مجموعہ ہے، پہلا خمسہ بتیس بندوں پر مشتمل ہے جو مولانا علی کرم اللہ وجہہٗ کی شان میں ہے، اس خمسہ کی طباعت علاحدہ بھی کرائی گئی جس کی مولانا عبدالشکور (سجادہ نشین : دائرۂ حضرت ملا محمدی، الہٰ آباد) کے اہتمام سے شائع کرایا گیا اور یہ رزاقی پریس کانپور سے 1929 عیسوی میں اشاعت پذیر ہوا۔
دوسرا خسمہ حضراتِ پنجتنِ پاک کی شان میں تحریر کیا گیا ہے، یہ اکیس بند کا خمسہ ہے جس کا اختتام حرفِ نون پر ہونے کی وجہ سے ”خمسۂ نونیہ“ بھی کہلاتا ہے، اس خمسہ کے بارے میں مولوی فضل عالم بچھرایونی نے بیان کیا ہے کہ اس کو حضرت سیدنا عبداللہ شاہ قادری بغدادی کی خدمت میں پیش کیا اور انہوں نے بارگاہِ پنجتن پاک میں مقبول ہونے کی دعا فرمائی۔
تیسرا خمسہ در اصل حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غزل کی تضمین پر مشتمل ہے، مذکورہ تینوں خمسوں کا ترجمہ فارسی میں خود حضرت موصوف نے تحریر فرمائی ہے، ان خمسوں کو مختلف کاتبین اور خوش نویسوں نے کئی بار لکھا ہے، دوسرا مخطوطہ سید فرزند علی (ساکن محلہ چھیپی ٹولہ، بریلی) کا تحریر کیا ہوا ہے جس پر 1935 عیسوی مندرج ہے۔
جناب مسعود حسین نظامی (عرف گوہر میاں صاحب) نے تحریر کیا ہے انہوں نے ایک چوتھا خمسہ غیر مطبوعہ دریافت کیا ہے جو عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں ہے اور جو مذکورہ مجموعۂ قصائد میں بھی شامل نہیں ہے، حضرت قطب عالم کے خمسے متعدد مختلف کاتبوں اور خوشنویسوں نے وصیلوں اور کتبوں کی شکل میں لکھے ہیں جو بعض حضرات کے کاشانوں کی زینت ہیں۔
4۔ شرحِ قصائدِ عربی :- اس شرح میں حضور قبلہ نے اپنے تینوں قصائد کی فارسی زبان میں نہایت عمدہ تشریح فرمائی ہے، اس شرح میں آپ کا اسلوبِ تحریر بھی”شمس العین“ کے خمسوں کی شرح جیسا ہی ہے، عربی قصائد میں حضور قبلہ نے بطورِ تخلص لفظ ”امی“ تحریر کیا ہے۔
5۔ رسالۂ راز نیاز :- حضور قبلہ نے اپنے پیرومرشد حضرت مولانا فخرالدین محمد دہلوی کی وفات 1199 ہجری مطابق 1755 عیسوی کے بعد یہ رسالہ تحریر کیا، اس رسالہ کا موضوع بھی مسائل تصوف ہیں، اس کی زبان فارسی ہے لیکن اس میں عربی الفاظ و محاورات کا کثرت سے استعمال ہوا ہے، گو کہ ا س میں صرف 12 صفحات ہیں تاہم اس کے دو حصے سمجھے جانے چاہیے، پہلے حصے میں تمام ”مرتب کا جامع الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے، اس میں دس اشغال کا بیان ہے، جن کے ضمن میں ”قرب“ کی چار قسمیں بیان کی گئی ہیں۔
(الف) قربِ نوافل
(ب) قربِ فرائض
(ج) جامع بین ہٰذاین القربین
(د) قربِ جامع بینھما
مذکورہ سبھی دس اشغال نیازیہ سلسلہ کے بزرگوں کے معمولات میں داخل ہیں، اس رسالہ کے تین مخطوطات موجود ہیں۔
1۔ مکتوبہ سید محمد باقر علی ساکن سندیلہ ضلع ہردوئی 1276 ہجری مطابق 1859 عیسوی
2۔ مکتوبہ عبدالہادی سعدآبادی مرقومہ 1875 عیسوی (یہ مخطوطہ رسالہ ”کشف العین“ کی جلد میں شامل ہے)
3۔ تیسرے مخطوطہ پر نہ کاتب کا نام درج ہے نہ سنہ تحریر۔
رسالہ ’’راز نیاز‘‘ دوسری کتابوں کے ساتھ چونکہ ایک عرصہ تک خانقاہ نیازیہ کے نصاب میں شامل رہا لہٰذا اس کے مخطوطات برصغیر کے کئی ممالک سے دستیاب ہوسکتے ہیں۔
رسالہ سوز و گداز :- یہ رسالہ در اصل راز و نیاز کا اردو میں تشریحی ترجمہ ہے جس کو حضور قبلہ کے ایک مرید جناب سلامت اللہ خاں شاہجہاں پوری نے تحریر فرمایا، چونکہ پیرومرشد موصوف نے ان کو ”خدا یار خاں“ کا نام از راہِ شفقت و عنایت فرمایا تھا اس لیے وہ اپنے دستخط میں بھی اپنا نام ”خدا یار خاں عرف سلامت اللہ خاں“ لکھا کرتے تھے، یہ تشریحی ترجمہ 1271 ہجری مطابق 1854 عیسوی میں تحریر کیا گیا۔
شاہجہاں پور کے ایک بزرگ جناب صبیح الدین میاں جلیل صاحب نے اس شہر کی تاریخ ”تاریخِ صبیح“ کے زیرِ عنوان نامی پریس، لکھنؤ سے 1932 عیسوی میں شائع کرائی تھی اس میں رقم طراز ہیں کہ
”آپ (خدا یار خاں) کی تصنیف سے تصوف میں ایک رسالہ ہے شاہ صاحب (حضرت شاہ نیاز) کے مریدین نے اس کو اپنا ’دستور العمل‘ بنا لیا ہے اور یہ ’سلوک‘ میں ایک بے بہا تصنیف مانی جاتی ہے“ (تاریخ صبیح، صفحہ 100)
6۔ تحفۂ نیاز بہ حضرت بے نیاز :- حضور قبلہ نے اپنے ان طالب علموں کے لیے تصنیف کیا تھا جو ان سے علمِ فقہ کا درس لیتے تھے، یہ رسالہ سولہ صفحات پر مشتمل ہے جس کا سائز 7X5 ہے کاغذ سولہ سطری ہے، ہر سطر میں 12 الفاظ ہیں۔
7۔ رسالہ تسمیۃ المراتب :- اس رسالہ کا موضوع بھی تصوف ہے اس کی بھی زبان فارسی ہے، یہ رسالہ 27 (صفحات) پر مشتمل ہے، اس میں سلوک کے تمام ”مراتب“ کی وضاحت کی گئی ہے، یہ 13 سطری مسطر پر لکھا گیا ہے جس میں ہر سطر میں دس الفاظ ہیں۔
8۔ رسالہ لیعبدون :-
9۔ رسالہ لیعرفون :-
ایک ہی جلد میں یہ دونوں رسالے تحریر کیے گئے ہیں، ہر دو رسالہ کا موضوع تصوف ہے، یہ رسالے انہوں نے اعلیٰ درجات کے منتہی طالب عملموں نیز سالکین کے لیے تصنیف فرمائے تھے انہوں نے ”عہدیت“ اور ”معرفت“ کے اسرار کو نہایت اچھوتے انداز میں بیان کیا ہے، ان رسالوں کی زبان فارسی ہے۔
10۔ رسالہ تعلیم و تعلم :- اس رسالہ کا موضوع تصوف اور زبان فارسی ہے، یہ بھی اعلیٰ درجات کے طالب علموں کے لیے تحریر کیا گیا ہے جس میں روحانی تعلیم تربیت نہایت پُر مغز گفتگو کی گئی ہے۔
11۔ رسالہ برائے مرزا مظہر اللہ بیگ :- یہ رسالہ حضور قبلہ نے اپنے مریدِ خاص مرزا مظہر اللہ بیگ صاحب کے لیے لکھا تھا جو خانقاہ نیازیہ سے متصل مکان میں رہا کرتے تھے، یہ رسالہ انہوں نے مرزا صاحب موصوف کے معیارِ ذہنی کو ملحوظِ خاطر رکھ کر لکھا تھا، اس میں بعض صوفیانہ معلامات کا تذکرہ فارسی زبان میں کیا گیا ہے۔
12۔ ہیچ دانی کہ چیست ایں کونین؟
یہ رسالہ بھی فارسی زبان میں ہے، اس رسالہ کا عنوان حضور قبلہ نے اپنے مشہور خمسۂ ”شمس العین“ کے ساتویں بند کے مصرعِ اولیٰ کو ہی قرار دے دیا ہے، جس میں کائنات کی مادی خلقت و جبلت کی بجائے اس کی روحانی نوعیت اور ’سبعہ مراتب‘ پر گفتگو کی ہے، اس رسالہ میں قرآنِ حکیم، احادیثِ مبارکہ، حضرت مولانا علی اور محی الدین العربی اور دیگر مشائخ کے اقوال اور اشعار کی روشنی میں مدلل بحث کی ہے، آخر میں ”مقاماتِ اربعہ“ کی نوعیت پر روشنی ڈالنے کے لیے حضرت نظام الدین اؤلیا کا یہ فارسی شعر مندرج ہے۔
لاہوت بیخ است اے پسر!
جبرو شاخِ آں نگر
ملکوت گلہائے شجر
ناسوت جملہ بر ثمر
اس رسالہ کی تحریر مولوی نصیر عالم بچھرایونی کی ہے۔
13۔ رسالۂ اثبات معاد :- اس رسالہ کا پورا نام ”الاثبات المعاد فی ابطال اہل لعناد“ ہے، اس میں بعض تصورات کا رد پیش کیا گیا ہے، اس میں مسئلہ معاد کے سلسلہ میں مذاہب خمسہ کا بیان ہے، یہ رسالہ ”کلامی ھٰذا کاذب“ کی جلد کے ساتھ مجلد ہے۔
14۔ حاشیہ شرحِ چغمنی :- حضرت قطب عالم کے دوران تدریس جو نکاتِ مشکلہ نکل کر سامنے آئے، انہیں اشعار کے ساتھ نوٹ کرلیا اور بعد میں اس جلد میں ان حاشیوں کو یکجا کر لیا گیا، اس کتاب کا ذکر متعدد مقامات پر ملتا ہے لیکن اب اس کا کوئی نسخہ دستیاب نہیں ہے، جناب مسعود حسین نظامی کو باوجود کوشش اس کا کوئی مخطوطہ حاصل نہ ہوسکا۔
15۔ حاشیہ بر تصنیفِ ملا جلال :- شاملِ درس کتابِ ملا جل پر ضروری حاشیہ ہے، مولوی محمد فائق صاحب دہلوی ”کراماتِ نظامیہ“ صفہ 12 پر رقم طراز ہیں کہ
”ملا جلال وغیرہ میں جو آپ کے حواشی ہیں وہ آپ کے ’فاضل’ ہونے کی دلیل ہیں“
16۔ رسالۂ ریاضی برائے شاہ آل رسول :- مارہرہ شریف کے ایک بزرگ حضرت شاہ آلِ رسول 1810 میں آپ سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے بریلی تشریف لائے اور مختلف علوم کی تعلیم حاصل کی، علم ریاضی کے بعض اہم مسائل کو حضور قبلہ نے ایک مقالہ کی شکل میں ترتیب دیا، جس کے بارے میں حضرت محمد میاں صاحب نے اپنی کتاب ”خاندانِ برکات“ میں صفحہ 26 پر تحریر فرمایا ہے کہ
”(یہ رسالہ) بعض مسائل ریاضی پر تحریر ہے ہمارے حضرت (شاہ آلِ رسول) کی فرمائش پر شاہ نیاز احمد صاحب نے وہ (تقریر) مختصر رسالہ میں قلمبند کر دی ہے جو میرے پاس شاہ نیاز احمد صاحب کے دست خطِ خاص کی لکھی موجود ہے“
17۔ مجموعۂ رسائل بر علوم مختلفہ :- یہ مجموعہ دو سو صفحات پر مشتمل ہے، یہ مجموعہ بھی شاہ آلِ رسول مارہروی کے اصرار پر مرتب فرمایا تھا، اس مجموعہ میں مختلف علوم پر چھوٹے بڑے مضامین شامل کیے گئے ہیں، یہ مضامین بھی فارسی زبان میں لکھے گئے ہیں، یہ مجموعہ خانقاہ نیازیہ، بریلی کے تبرکات میں موجود ہے۔
18۔ رسالہ عقائدِ علمائے متکلمین :- یہ رسالہ حضور قبلہ نے مختلف علمائے متکلمین کے عقائد کو یکجا پیش کرنے کے لیے ترتیب دیا جو 1779 میں تحریر کرایا گیا، اس رسالہ کے مشمولات کے بارے میں مولوی فضلِ عالم بچھرایونی نے متعدد بار تذکرہ کیا ہے، یہ محفوظ باریک حروف میں لکھا گیا ہے صفحات کی تعداد دس ہے۔
19۔ رسالہ کلامی ھذا کاذب یا رسالہ فی جذرالاثم (فن منطق) :- یہ رسالہ جو در اصل نو چھوٹے بڑے مضامین کا مجموعہ ہے جو سب کے سب علم منطق سے تعلق رکھتے ہیں، ان مضامین حضور قبلہ کے تصنیف کردہ دو مضمون ہیں، باقی دوسرے ماہرین منطق کے مضامین اور ان کے رد کے بطور لکھے گئے مضامین شامل ہیں، جن کی فہرست درج ذیل ہے۔
1۔ شرحِ سلم از مولوی بحرالعلوم (مع بعض اجزائے منہیات)
2۔ رسالہ مولوی احمد علی در جعلِ بسیط
3۔ تقریر مولوی نیاز احمد صاحب در کلامی ہٰذا کاذب
4۔ تقریر مولوی صدرالدین شیرازی (معاصر جلال الدین دوانی)
5۔ رسالہ محقق دوانی درآن
6۔ جواب صدرالدین شیرازی
7۔ شرحِ رسالہ محقق طوسی در نفس الامر
8۔ اثباتِ معاد فی ابطال اہلِ عناد (حضرت شاہ نیاز)
9۔ اوراق معارج العلوم مولوی ملا محمد حسن
اس مجموعۂ مضامین کی کتابت 1784 میں ہوئی، اس کا ایک نسخہ رامپور رضا لائبریری میں مخزون ہے، اس کی تحریر حکیم محمد ابراہیم صاحب بریلوی کی ہے، اس کی کتابت بڑی تقطیع پر کی گئی ہے۔
20۔ تقریرات: شبہ لزوم للزوم (در فن منطق) :- اس رسالہ کی زبان عربی ہے، فنِ منطق کے آٹھ مسائل اس میں زیرِ بحث آئے ہیں، یہ رسالہ بائیس صفحات پر مشتمل ہے۔
21۔ رسالۂ نبض :- اس رسالہ میں طبیبوں کے لیے ہدایات ہیں کہ نبض دیکھتے وقت کن امور کا بطورِ خاص خیال رکھنا چاہیے اور نبض دیکھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے، در اصل حضور قبلہ محض ایک روحانی رہنما اور نباضِ فطرت ہی نہیں تھے بلکہ عملاً ایک طبیبِ حاذق بھی تھے، اس کی زبان بھی فارسی ہے۔
22۔ بیاض :- گذشتہ زمانے میں سبھی بزرگ اپنی ڈائری یا ذاتی بیاض مرتب کیا کرتے تھے، اسی روایت کے تحت حضرت شاہ نیاز احمد کی ایک بیاض بزبانِ فارسی دستیاب ہے جس میں انہوں نے بعض واقعات وقت اور تاریخ کے حوالہ کے ساتھ قلمبند کردیا ہے، چنانچہ ”کراماتِ نظامیہ“ (مرتبہ مولوی محمد فائق دہلوی) میں بعض اہم تاریخوں اور واقعات کی تصدیق و توثیق حضور قبلہ کی اسی بیاضِ قلمی سے کی گئی ہے، مثلا
(الف) حضرت شاہِ شاہاں نظام الدین اورنگ آبادی کی تاریخِ وفات
(ب) حضرت مولانا فخرالدین محمد دہلوی کی عمرِ مبارک
(ج) حضرت مولانا فخرالدین محمد دہلوی کے مختلف اسفار، درس و تدریس کے مشاغل اور 1785 میں رحلت اور درگاہ قطب صاحب میں تدفین۔
اسی بیاض میں حضور قبلہ کے مقاماتِ عالیہ کی بشارت کا بھی ذکر ہے، اس بیاض کے مخطوطہ کے آخر میں بعض ضروری باتیں حضرت موصوف کی رحلت کے بعد کی محررہ ہیں۔
23۔ ملفوظات نیازؔ بے نیاز :- مولانا آزاد لائبریری، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ”حبیب گنج کلیکشن“ میں ”دیوانِ نیاز“ کا ایک مطبوعہ نسخہ موجود ہے اس کے ابتدائی اوراق غائب ہیں، مالکِ دیوان نے اس مقام پر سادہ اوراق چپکا کر ابتدائی غزلیں تحریر کردی ہیں اور کچھ بزرگوں کی تاریخہائے وفات بطور یادداشت درج کردی ہے، ایک صفحہ پر یہ عبارت منقول ہے۔
”تاریک وفاتِ ایں بزرگان از ملفوظاتِ شاہِ نیاز احمد قدسہ سرہٗ“
جس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ متوسلینِ سلسلۂ نیازیہ میں سے کسی شخص نے حضراتِ صوفیا کے بعض ملفوظات جمع کیے تھے اور ایک عبارت ایسی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ملفوظات خود حضرت موصوف کی نگرانی میں لکھے گئے ہوں گے، ترقیمہ کی عبارت میں کسی امیر شاہ کا نام آتا ہے جن کے متعلق ڈاکٹر جواد کمال نیازی نے وثوق کے ساتھ لکھا ہے کہ وہ حضرت امیر شاہ بدخشانی ثم جبل السراجی ہیں جو نیازیہ سلسلہ کے خلیفہ تھے۔
24۔ مکتوباتِ شاہ نیاز :- حضرت شاہ نیاز کے دستِ مبارک کے تحریر کردہ بہت سے خطوط مریدین و متوسلین کے پاس محفوظ ہوا کرتے تھے لیکن ان کو کبھی یکجا نہیں کیا جاسکا، بیشتر خطوط کی عبارت وہ دوسرے لوگوں سے تحریر کراتے تھے لیکن اکثر خطوط پر اپنے دستخط ثبت فرما دیتے تھے اسی لیے بہت سے خطوط اب موجود نہیں ہیں کیونکہ بعض خوش عقیدہ مرید ان کی مہر اور دستخط والے حصے کو علاحدہ کاٹ کر اپنی قبر میں رکھ دینے کی وصیت کر دیتے تھے، البتہ بعض لوگوں نے حضرت موصوف کے خطوط کو اپنے پاس محفوظ رکھنے کی بھی سعی کو بعدہٗ یہ کوشش کی گئی کہ اس خطوط کو جمع اور مرتب کیا جائے، حضرت امام السالکین عزیز میاں صاحب کے والدِ گرامی حضرت محمد مہدی صاحب نے جو خطوط مہیا کیے تھے وہ ان کے پوتے جناب گوہر میاں صاحب مرحوم (مسعود حسین نظامی) کے ذاتی ذخیرہ میں موجود ہیں، ان خطوط کے علاوہ بچھراؤں کے اس دور کے خلفا و مریدین کے نام حضور قبلہ کے خطوط موجود ہیں جن کو مرتب و مدون کیے جانے کی ضرورت ہے۔
25۔ ہوالشافی :- یہ در اصل علمیات اور نسخہ جاتِ خصوصی کا مجموعہ ہے اس میں بعض تعویذوں کی عبارتیں اور اعداد بھی مذکور ہیں، اس نسخہ میں تقریباً 320 صفحات ہیں جن میں عربی یا فارسی زبان میں ان عملیات و نسخہ جات کے بارے میں ضروری ہدایات ہیں، اس مخطوطہ کے ابتدائیہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام عملیات وغیرہ حدیثِ نبوی کے مطابق اور مؤمنین اور متقی حضرات کے لیے مرتب کیے گئے ہیں۔
26۔ متفرق تحریرات :- حضرت نیاز کے تحریری تبرکات میں وہ تمام اسناد، خلافت نامے اور مختلف سلاسلِ تصوف کے شجرے نیز انساب و خاندان سے متعلق شجرے موجود ہیں جو آپ کے زمانہ میں ضبطِ تحریر میں لائے گئے اور آپ کے ملاحظہ کے بعد ہی محفوظ کیے گئے ہیں، سطورِ بالا میں ناچیز نے شاہ نیاز کی تصنیفات و تالیفات نیز شرحوں اور تراجم کا جو اجمالی تذکرہ کیا ہے ان کے مآخذ اور فاضل مصنفین و مؤلفین کے اسمائے گرامی اس مضمون کے آخر میں مندرج کر دیئے گئے ہیں، ہمیں ان سبھی اہالیانِ علم کا شکر گزار ہونا چاہیے، میری اراکینِ ”النیاز سوسائٹی“ سے مؤدبانہ اور مخلصانہ گذارش ہے کہ وہ ان تمام مخطوطات کو جن کی زبان عربی، فارسی اور اردو ہے متعلقہ زبان کے اہالیناِ علم کے سپرد فرمائیں تاکہ وہ ان مخطوطات کو مرتب و مدون کرکے کتابی شکل میں لے آئیں اور ان سب بابرکت تصانیف کو یکجا بھی مرتب کردیا جائے تاکہ آئندہ مستقبل کے مریدین و متوسلین اور محققین و علما وغیرہ ان نگارشات سے ہمیشہ مستفیض ہوتے رہیں۔
یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ حضور قبلہ کی فارسی اور اردو شاعری سے متعلق تو بعض اہم حضرات نے کافی کچھ لکھ دیا ہے مثلا حضرت میکش اکبرآبادی، پروفیسر عبدالغنی مرحوم اور ڈاکٹر محمد جواد کمال نیازی اور پروفیسر انوار الحسن وغیرہ لیکن ان کی علمی فتوحات کا کما حقہٗ احاطہ نہیں کیا جاسکا ہے جو بے حد ضروری ہے کیونکہ حضرت موصوف کی مذکورہ بالا تصنیفات و تالیفات کا دائرہ دینیات، تصوف، فقہ، منطق، ریاضی، طب نیز فلسفہ تک وسیع ہے اور اگر ان علوم کے ماہرین ان کی دقیقہ سنجی سے فیضان حاصل کریں تو یہ فی زمانہ نہایت اہم خدمت ہوگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.