مجدد سلسلۂ صفویہ مخدوم شاہ خادم صفی محمدی
سلسلۂ صفویہ کے تمام مشائخ اپنے آپ میں ایک عالم سمیٹے ہوئے تھے مگر ان میں سے بعض نے ایسا تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا ہے جن کے ذکر کے بغیر تاریخ صفویت نامکمل رہے گی، ان میں سے چند کا تذکرہ گزر چکا، اب اس عظیم شخصیت کا ذ کر کیا جارہا ہے جو سلسلۂ صفویہ کے مجدد ہیں، جن کے بارے میں اس سلسلے کے عظیم بزرگ حضرت شاہ قدرت اللہ غوث الدہر قدس سرہ نے فرمایا تھا کہ میرے بعد صفی پور میں ایک چراغ روشن ہوگا، جس پر ایک زمانہ شیفتہ اور پروانہ وار نثار ہوگا، اس شمع ہدایت سے بہت سے طالبانِ مولیٰ مستفیض ہوں گے، وہ اپنا اور اپنے پیرانِ طریقت کا نام روشن کرنے والا ہوگا۔
ولادت : اس پیشن گوئی کے مصداق حضرت قطب العالم مخدوم شاہ خادم صفی محمدی قدس سرہ ہوئے، آپ 12 رجب 1229 ھ (30 جون 1814ء) کو دوشنبہ کی رات صفی پور میں پیدا ہوئے۔
نسب : آپ کے والد کا نام حضرت شاہ عطائے صفی تھا، آپ حضرت بندگی شیخ مبارک کی اولاد میں ہیں، سلسلۂ نسب اس طرح ہے۔
حضرت شاہ خادم صفی بن شاہ عطائے صفی بن شاہ محمد معصوم (جن کا تذکرہ چندصفحات قبل گزرا) رحمہم اللہ تعالیٰ
آپ کی والدہ ماجدہ بھی بہت پارسا اور خدا رسیدہ تھیں، والدہ صاحبہ کی طرف سے بھی آپ فاروقی تھے، آپ کے نانا شیخ فیض اللہ بن حضرت شاہ غلام پیر رحمہما اللہ تعالیٰ تھے، والد و والدہ ہر دو کا سلسلۂ نسب شیخ دانیال بن شیخ عبدالرزاق (نبیرۂ بندگی شیخ مبارک) پر ایک ہوجاتا ہے۔
ابتدائی احوال ،تعلیم و تربیت : آپ مادر زاد ولی تھے، بچپن ہی سے آپ کی طبیعت لہو و لعب کی طرف مائل نہیں تھی، بچپن سے پرندے پالنے کا شوق تھا جو ہمیشہ رہا، بچپن میں حضرت شاہ غلام زکریا قدس سرہ نے آپ کی ایک خدمت گزاری پر خوش ہوکر فرمایا تھا کہ ہم نے تمہاری ایک امانت برادرم حفیظ اللہ شاہ کو سپر دکر دی ہے، جب سن شعور کو پہنچو گے تمہیں مل جائے گی۔
آپ نے قرآن مجید کی تعلیم حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی قدس سرہ کے شاگرد مولانا شیخ چراغ علی علیہ الرحمہ سے حاصل کی اور مثنوی مولوی معنوی، سبع سنابل اور تصوف و سلوک کی چند کتابیں مولانا حکیم ہدایت اللہ صفی پوری پڑھیں، ہر علم و فن میں کسی نہ کسی کو اپنا استاد بنایا، علم برائے عمل حاصل کیا، ہمیشہ اس کو واسطہ خیال کیا اور اصل مقصد کو پیش نظر رکھا۔
ابتدائے عمر سے ہی احکام شرعیہ کے پابند، ہمیشہ ہر سنت و مستحب پر نظر رکھتے، مسائل شرعیہ کی نہایت تحقیق فرماتے اور باوجود علم و آگہی علما سے ضرور استفسار فرماتے، ابتدا سے ہی دل طلب مولیٰ کے جذبے سے سرشار تھا۔
بیعت و خلافت : باشعور ہونے کے بعد مرشد کامل کی تلاش ہوئی، اس وقت صفی پور میں حضرت مخدوم محمد حفیظ اللہ شاہ قدس سرہ کا فیض جاری تھا جو آپ کے حقیقی ماموں تھے، بیس سال کی عمر میں آپ نے ان کے دست حق پرست پر بیعت کی، بیعت کے بعد حالت مزید بدل گئی، صرف یاد الٰہی سے کام رہا، اسی زمانے میں چچازاد بہن سے آپ کا عقد مسنون بھی ہوگیا، ازدواجی زندگی میں مصروف ہونے کے باوجود طلب مولیٰ کے جذبے میں کوئی کمی نہ آئی، مجاہدات و ریاضات کے پہلے ہی سے عادی تھے، مرشد کے حکم کے مطابق اس راہ میں مختلف قسم کی شدتیں برداشت کرنی پڑیں اور ایک دن ان تمام مجاہدات شاقہ کی تپش سے کندن ہوگئے، بالآخر ماہ ذی قعده 1255ھ / جنوری 1840ء میں جمعہ کے روز مرشد گرامی نے تمام روحانی نعمتوں سے نوازا اور اجازت و خلافت سےسرفراز فرما کرمسند ارشاد پر فائز کیا۔
اخلاق : آپ خلق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے آئینہ دار تھے، اسی حسنِ خلق کی وجہ سے غیروں نے بھی آپ کو تسلیم کیا اور اکثر راہِ راست پر آئے، آپ کی بارگاہ میں طالبین کی ایک بڑی جماعت ہمیشہ موجود رہتی جن کی تعلیم و تلقین کو آپ اپنا دینی و منصبی فریضہ خیال کرتے ہوئے ان کی ہر طرح کی کفالت بھی فرماتے، حاضر یا غائب کسی کی برائی نہیں کرتے تھے۔
1255ھ / 1840ء میں جب حضرت مخدوم حفیظ اللہ شاہ نے اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا تو آپ نے اپنی تمام جائداد یہاں تک کہ ذاتی گھر بھی مرشد کو نذر کر دیا اور خود مرشد کے عنایت فرمودہ گھر میں رہنے لگے۔
آپ نے عمر کی صرف 58 بہاروں کو دیکھا، زندگی کے اکثر حصے عبادت و ریاضت اور تنگی میں گزارے، آپ 1277ھ کے بعد مسلسل بیمار رہے اور درمیان میں والدہ کے اصرار پر علاج و معالجہ کی غرض سے لکھنؤ اور کان پور جانے کا اتفاق ہوا۔
ایام علالت میں پیر و مرشد کی عیادت بھی حاصل رہی، مرشد کی دعا کی برکت سے مکمل صحت یاب بھی ہوئے، اس کے شکرانے میں مرشد کے وصال (1281ھ ) کے بعد مزار مبارک پر چادر پیش کی اور اپنے مرشد زادے حضرت امیر اللہ شاہ کو عمامہ، پیرہن اور نقد نذر کیا، مرشد برحق کے مرقد منور کی چادر پر یہ شعر نقش کرایا۔
در بشر رو پوش گشتہ آفتاب
فہم کن واللہ أعلم بالصواب
(بشر کے پردے میں آفتاب روپوش ہوگیا ہے، اس بات کو سمجھو، اللہ درستی کو سب سے زیادہ جاننے والا ہے)
سفر : آپ ساری عمر صفی پور میں رہے اور صرف ضرورت کے تحت آس پاس کے چند ایک مقامات پر چھ سات بار جانا ہوا، علاج کے لیے کان پور کے سفر کے دوران جاجمؤ میں حضرت مخدوم شاہ اعلیٰ جاجموی قدس سرہ (جو آپ کے اجداد میں آتے ہیں) کی درگاہ میں حاضر ہوئے۔
حضرت مخدوم شاہ اعلیٰ جاجموی کی درگاہ پر جب آپ پہلی بار حاضر ہوئے توخلاف عادت بہت ساری قبروں کا لحاظ نہ کیا اور ان پر پاؤں رکھتے ہوئے داخل ہوگئے، معمول کے خلاف یہ عمل دیکھ کر لوگوں کو حیرت ہوئی، تھوڑی دیر بعد آپ نے فرمایا کہ ان قبروں میں کوئی مدفون نہیں ہے، تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ پرانے زمانے میں امرا و وزرا، بزرگوں کی قبروں کے قریب دفن ہونے کی خواہش کرتے تھے، ان کو دور رکھنے کے لیے لوگوں نے بہت سی مصنوعی قبریں بنادی تھیں۔
کان پور میں قیام کے درمیان حضرت شاہ غلام رسول نقشبندی قدس سرہ سے ملاقات ہوئی، دونوں بزرگوں کے مابین پر لطف صحبت رہی، آخری ملاقات کے روز آپ نے حضرت شاہ غلام رسول نقشبندی قدس سرہ سے فرمایا کہ آج آپ کا گھر بے رونق نظر آ رہا ہے، انہوں نے فرمایا کہ گھر چونکہ پرانا ہو چکا ہے، مزدور اس کی مرمت میں لگے ہیں، شکست و ریخت درست کر رہے ہیں، اسی لیے ایسا نظر آ رہا ہے، جب حضرت اقدس اپنی قیام گاہ پر واپس تشریف لائے تو فرمایا کہ شاہ صاحب کی وفات کا وقت قریب ہے، چنانچہ اس کے دوسرے یا تیسرے روز حضرت شاہ غلام رسول قدس سرہ کا وصال ہوا۔
عادات واطوار : آپ روپے پیسے کو ہاتھ سے نہ چھوتے مگر محفل سماع میں جب کوئی نذر دیتا تو بھی اس کے ہاتھ کو پکڑ کر قوال کے سامنے کر دیتے اور کبھی خود دست مبارک سے اٹھا کر دے دیتے یا پیر و مرشد کو اور ان کے بعد ان کے صاحبزادے کو جب نذر دیتے تب ہاتھ لگاتے، نہ دنیا داروں کی محفل میں جاتے اور نہ کسی کے گھر کا کھانا تناول فرماتے، آپ توبہ کرانے اور بیعت لینے میں تاخیر نہ فرماتے لیکن آخر ایام میں بہت کم بیعت لیتے تھے، مرید کرنے کی خواہش کو بہت مذموم جانتے تھے، فرماتے تھے کہ درویشی کی پہلی شرط یہ ہے کہ مرید کرنے کا حریص نہ ہو۔
چودھری حشمت علی سنڈیلوی نامی گرامی تعلقہ دار اور بڑے رئیس تھے، انہوں نے آپ کو بذریعۂ خط بیعت کی غرض سے دعوت دی، آپ نے بہ مصداق ”اگر جنبد زمیں جنید، قطب از جا نمی جنبد“ (زمین جنبش کر سکتی ہے لیکن قطب اپنی جگہ پر مستحکم رہتا ہے) اُسی خط پر یہ دو شعر لکھ کر روانہ فرمادیے اور خود تشریف نہیں لے گئے۔
کرا دماغ کہ از کوئے یار برخیزد
نشستہ ایم کہ از ما غبار برخیزد
(کس میں یہ حوصلہ کہ یار کے کوچے سے اٹھ سکے! ہم تو ایسا بیٹھے ہیں کہ ہمارا غبار ہی اٹھے گا)
نہ نالے کے قابل نہ فریاد کے
پھنسے دام میں ایسے صیاد کے
آپ کی غذا بہت قلیل تھی اور چونکہ دعائے سیفی (حرز یمانی) آپ کے ورد میں تھی، اس لیے مچھلی اور بڑے گوشت سے پرہیز فرماتے تھے۔
آپ کی نظروں میں بڑی تاثیر اور جاذبیت تھی، سید ارادت حسین اثنا عشری محفل سماع میں ہنسے، آپ نے پلٹ کر دیکھا وہ فورا تڑپنے لگے محفل کے بعد تائب ہوکر مرید ہوگئے، ان کے اعزہ انہیں مجتہد تک لے گئے لیکن کچھ نہ ہوا، آخر مجتہد نے کہا کہ ان پر پڑھا ہوا جن سوار ہے، اس طرح کے بے شمار واقعات رونما ہوتے رہتے۔
ارشادات : آپ قولاً و فعلاً ہر وقت خلق خدا کی خیر خواہی اور فائدہ رسانی پر آمادہ رہتے، باطنی ہمت، دعا تعویذ، مالی امداد اور زبانی ارشاد سے ہمہ وقت لوگوں کی دلجوئی اور ہدایت کا سامان فراہم کرنا، آپ کی حیات مبارکہ کا روشن ترین باب ہے۔
آپ کے ملفوظات معرفتِ الہیہ کا مخزن ہیں، تفصیل کا یہ مقام نہیں، اس لیے ذیل میں بالاختصار آپ کے چند ارشادات ”مخزن الولایت و الجمال“ (مؤلفہ حضرت شاہ عزیزاللہ صفی پوری) سے نقل کیے جاتے ہیں۔
کوئی شخص اگر آسمان میں اُڑے اور ذرہ برابر شریعت کی خلاف ورزی کرے تو وہ قابل اعتبار نہیں، اس کے کشف و کرامت پر فریفتہ نہیں ہونا چاہیے۔
اگر مرید پایۂ طریقت سے گرا تو شریعت اس کا مقام ہے، اگر شریعت سے بھی گرا تو اُس کا ٹھکانا کہاں!
آخری زمانہ ہے، اب اگلوں سا وقت کہاں! برتن میں تلچھٹ باقی ہے اسے ہی چاٹ لینا چاہیے۔
زمانہ اللہ تعالیٰ کے بندوں سے خالی نہیں ہے، اس وقت بھی ایسے بہت سے بندے ہیں کہ جو وہ چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے، البتہ بہت نازک دور ہے، اب دن مثل رات تاریک ہیں، اگر کسی سے خرق عادت کا ظہور ہوا تو لوگ اسے جاں بہ لب کر دیں گے اور فرصت ہی نہ دیں گے۔
طالب صادق جب تک اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کسی ایک کا تابع نہیں ہوگا، منزل مقصود تک نہیں پہنچے گا۔
رسمی مرید تو بہت ہوتے ہیں لیکن حقیقی مرید بہت کم ہوتے ہیں، حقیقی مرید وہی ہے جو بالکلیہ پیر کے نقش قدم پر ہو۔
مرید جو کچھ پیر کو کرتا دیکھے اس پر عمل نہ کرے بلکہ جو پیر کہے اس پر عمل کرے۔ (یعنی مرید کو عزیمت پر عمل کرنا چاہیے، رخصت پر عمل شیخ کے حکم سے کرے)
مرید اگر ظاہری شکل و صورت بھی اپنے پیر کی طرح نہ کر سکا تو اس سے آگے اور کیا ہوسکتا ہے!
مرید وہی ہے جس میں مرشد کی بو آتی ہو، شاخ میں جب تک قلم نہیں لگتی اس میں لذیذ پھل نہیں آتا۔
محض اسلام تقلیدی (یعنی نام کا اسلام ) کام نہیں آتا ہے، جب تک کہ حقیقی ایمان حاصل نہ ہو جائے۔
طالب کو کشف صدر اور کشف قبر کے چکر میں نہیں پڑنا چاہیے، جتنا ہوسکے طلب خدا میں جد و جہد کرے کیونکہ من لہ المولی فلہ الکل (جس کا رب، اُس کا سب)
بعض لا (مقام نفی) میں رہ گئے اور بعض الا اللہ (اثبات) میں، کوئی کوئی ہی حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ سکا، جس کی رسائی یہاں تک ہوئی وہی کامل ہے ورنہ وہ کمال سے بے بہرہ ہے۔
لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم شیخ زادے اور پیر زادے ہیں! در اصل یہی چیز راستے کی رکاوٹ ہوتی ہے۔
لوگ جو ہمارے پاس آتے ہیں نرمی اور مدارات کی وجہ سے آتے ہیں، اگر ایک دن بھی ان کی طرف نظرِ التفات نہ کروں تو کوئی نہ آئے۔
جن یا خبیث جو بھی ہو مقابلہ (سامنا) کرتا ہے، لہذا جس جگہ ڈر محسوس ہو وہاں پلٹ کر نہ دیکھے۔
آثار : آپ ہندی میں اکثر چیزیں ارشاد فرماتے، فارسی اور اردو میں نسبۂ کم کہتے، آپ کا عرفانی کلام آپ کے دیوان موسوم بہ اسرار حقیقت میں جمع ہے۔
آپ کے ملفوظ کے دو مجموعے ہیں۔
(۱) نغمۂ طریقت (تاریخی نام : نغمۂ صوفیہ 1286ھ) آپ کے مرید و خلیفہ مخدومی حضرت شاہ محمد شفیع قیس صفی پوری (م 1336ھ/ 1918ء) نے فارسی زبان میں مرتب فرمایا، 1324ھ/ 1906ء میں قیصر ہند پریس، الہ آباد سے شائع ہوا۔
(۲) مخزن الولایت والجمال (1286ھ ) جسے آپ کے عزیز خلیفہ مخدومی شاہ محمد عزیزاللہ عرف منشی ولایت علی صفی پوری (م1347ھ/ 1928ء) نے جمع کیا، یہ اپنی نوعیت کا منفرد و لاجواب ملفوظ ہے، اس میں آپ کی سوانح کے ساتھ آپ کے خلفا کے بھی مختصر حالات درج ہیں، 1300ھ میں مطبع انوار محمدی لکھنؤ سے طبع ہوا، یہ بھی فارسی میں ہے، اردو تر جمہ پاکستان سے 1963ء میں شائع ہو چکا ہے۔
اولاد : آپ کے ایک صاحبزادے حضرت نیاز صفی تھے جو تین سال کی عمر میں ہی وفات پاگئے اور ایک صاحبزادی منیا بی بی رحمہا اللہ تھیں جو حضرت خلیفۃ اللہ شاہ عرف شیخ امیر احمد قدس سرہ کو منسوب تھیں، منیا بی بی کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ 1307ھ / 1889ء میں ان کی وفات ہوئی۔
خلفا : سلسلۂ صفویہ جس طرح سے آپ کی ذات سے شائع ہوا، بندگی شیخ مبارک قدس سرہ کے بعد کسی کی ذات سے اس کی ایسی اشاعت نہیں ہوئی، 42 /نفوس قدسیہ کی تکمیل فرما کر ان کو اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا، جن میں سے سب کے سب اپنے وقت کے کامل مرشد اور رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں، ان میں سے اکثر کے دست حق پرست پر ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ تائب ہوئے اور ان کے ذریعے طالبین مولیٰ نے اپنے مقصد حیات تک رسائی حاصل کی۔
کعبۃ العشاق باشد ایں مقام
ہر کہ ناقص آمد ایں جا شد تمام
(یہ بارگا ہ عشاق کا مرکز ہے، اس کے گرد جو بھی ناقص آیا اس کی تکمیل ہوئی)
(1) حضرت خلیفۃ اللہ شاہ عرف شاہ امیر احمد ( جانشیں)
(2) حضرت ذوالفقاراللہ شاہ عرف الطاف محمد صفی پوری
(3) حضرت کریم اللہ شاہ عرف کریم بخش (صفی پور)
(4) حضرت عظمت اللہ شاہ (فرخ آبادی)
(5) حضرت حبیب اللہ شاہ عرف رمضان خان بانگر موی (سیل گنج)
(6) حضرت یقین اللہ شاہ عرف سید قمر علی پنجابی ثم لکھنوی
(7) حضرت عطاؤاللہ شاہ عرف عطا حسین صفی پوری
(8) حضرت عنایت اللہ شاہ صفی پوری
(9) حضرت مولانا حافظ شاہ عبدالرحمٰن تر ہوانی
(10) حضرت مظہراللہ شاہ عرف سید مظہر حسین لکھنوی
(11) حضرت اہل اللہ شاہ عرف مشرف علی دہلوی ثم میرٹھی
(12) حضرت مبارک اللہ شاہ عرف مبارک حسین
(13) حضرت ظہوراللہ شاہ عرف اجپل شاہ ملتانی
(14) حضرت مولانا حافظ شوکت علی سندیلوی
(15) حضرت سعادت علی شاہ رام پوری
(16) حضرت امیر اللہ شاہ اناؤی
(17) حضرت شرافت اللہ شاہ (آسیون ، اناؤ)
(18) حضرت نور اللہ شاہ عرف نور محمد خان ( گھاٹم پور، کانپور )
(19) حضرت اسد اللہ شاہ عرف چودھری محمد خصلت حسین (رئیس سنڈیلہ)
(20) حضرت قل ہواللہ شاہ عرف قاضی عبدالغفور (بارہ بنکی)
(21) حضرت مراداللہ شاہ عرف مدار بخش (لکھیم پور کھیری)
(22) حضرت کلیم اللہ شاہ عرف فرزند حسن (نیوتنی ، اناؤ)
(23) حضرت مظہراللہ شاہ عرف سرفراز علی (سانڈی، ہر دوئی)
(24) حضرت وجہ اللہ شاہ عرف مولوی فیض محی الدین (ہر دوئی)
(25) حضرت کرامت اللہ شاہ بانگر موی
(26) حضرت رحیم اللہ شاہ عرف سالار بخش کانپوری
(27) حضرت احسان اللہ شاہ صفی پوری
(28) حضرت خوب اللہ شاہ اناوی
(29) حضرت سید شاہ یعقوب علی ترکواسی (گڑ گاؤں، ہریانہ)
(30) حضرت شاہ محمد شفیع صفی پوری
(31) حضرت برحق اللہ شاہ حقانی اناوی
(32) حضرت شاہ نیاز حسین با نگر موی
(33) حضرت انواراللہ شاہ عرف نور محمد محمود نگری لکھنوی
(34) حضرت کفایت اللہ شاہ (بلہور، کانپور)
(35) حضرت سید یعقوب علی موہانی (موہان، اناؤ)
(36) حضرت اظہاراللہ شاہ عرف نیاز محمد صفی پوری
(37) حضرت خلیل اللہ شاہ عرف حکیم خلیل الدین خان طبیب لکھنوی (الہ آباد)
(38) حضرت روح اللہ شاہ عرف مولوی حسین علی صفی پوری ثم سندیلوی
(39) حضرت احمداللہ شاہ عرف مولوی احمد علی موہانی (صفی پور)
(40) حضرت بشارت اللہ شاہ صفی پوری
(41) حضرت عین اللہ شاہ عرف خلیل احمد صفی پوری
(42) حضرت عزیزاللہ شاہ عرف منشی محمد ولایت علی خان صفی پوری رحمہم اللہ ان 42 / حضرات کے علاوہ 29 / مردوں اور 7/ عورتوں کو پیالہ نوش فقیر بنایا۔
فقیر داس : شیو چرن موضع تکیہ (لکھنؤ) کے رہنے والے ایک صاحب کمال برہمن تھے، حضرت اقدس کو خواب میں دیکھ کر حاضر ہوئے، بعینہٖ وہی صورت پائی جو نظر آئی تھی، آپ کے سچے بھکت ہوئے اور مرید ہوگئے، حضرت صاحب قبلہ نے فقیر داس نام رکھا اور خلفا کی طرح تعلیم فرما کر صاحب اجازت کیا، ان کے بہت سے چیلے ہوئے۔
جانشینی و تولیت : حضرت خلیفۃ اللہ شاہ عرف شیخ امیر احمد قدس سرہ آپ کے جانشین ہوئے، حضرت شاہ امیر احمد قدس سرہ آپ کے داماد اور بھتیجے تھے، پیر و مرشد نے آپ کے حق میں فرمایا تھا کہ میرے فرزند، لخت جگر اور جان و مال کے مالک ہیں، آپ اپنے مرشد گرامی کے آخری خلیفہ تھے، پیر و مرشد نے وصال سے صرف 3/ دن پہلے آپ کو اجازت و خلافت عطا کی اور جانشیں مقرر فرمایا۔
حضرت شاہ امیر احمد صفوی نے زوجۂ اولیٰ (بنت حضرت صاحب) کی وفات کے بعد دوسرا عقد انیس بی بی سے کیا، وہ بھی لاولد رہیں۔
حضرت خلیفۃ اللہ شاہ عرف شاہ امیر احمد کا وصال 7/ ذوالحجہ 1314ھ / 1897ء کو ہوا، حضرت شاہ عزیز صفی پوری نے درج ذیل تاریخ کہی۔
جاشین مرشد ما رفت آه خوش برآمد جان او از کالبد
مصرع تاریخ بنوشتم عزیز شاہ امیر احمد گل فردوس شد
حضرت شاہ امیر احمد قدس سرہ کے بعد درگاہ شریف اور جائداد کی منتظم آپ کی اہلیہ انیس بی بی ہی رہیں، انہوں نے اپنے بھتیجے سید خادم علی بن سید فرزند علی اور ان کے چھوٹے بھائی سید ناظم علی کو اپنا وارث نامزد کیا۔
حضرت مواہب اللہ شاہ عرف سید خادم علی رحمہ اللہ کو بیعت اور اجازت و خلافت حضرت شاہ شمشاد صفی محمدی قدس سرہ سے تھی اور انہی کی منجھلی صاحبزادی سے عقد بھی ہوا، جن سے ایک صاحبزادے حضرت سید ضیا خادم عرف نوابو میاں یادگار ہوئے۔
حضرت خادم علی میاں کی حیات کے آخری دنوں میں کچھ نا چاقی اور نا اتفاقی کے سبب ان کے چھوٹے بھائی جناب سید ناظم علی میاں نے درگاہ کا انتظام و انصرام اپنے ہاتھوں میں لیا اور متولی ہوئے، حضرت سید خادم علی میاں نے اپنے صاحبزادے سید ضیا خادم عرف نوابو میاں کو اپنا خلیفہ و جانشیں مقرر کیا، حضرت خادم علی صاحب کی وفات 22 / رجب 1396ھ / 1976ء میں ہوئی اور ان کے صاحبزادے حضرت نوابو میاں رحمہ اللہ کی وفات 16/ذی القعدہ 1423ھ / 2003ء کو ہوئی، اب آپ کے بڑے صاحبزادے جناب سید ضیا عارف عرف بو میاں آپ کے جانشیں ہیں۔
درگاہ شریف کے متولی جناب سید لائق ناظم بن سید ناظم علی صاحب ہیں جو معاملہ فہم، ذی شعور اور بہتر انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔
وصال : قطب العالم حضرت مخدوم شاہ خادم صفی محمدی کا وصال 13 / رجب 1287ھ مطابق 19/ اکتوبر 1870ء بروز یک شنبہ کو ہوا، مزار مقدس صفی پور میں مرجع خلائق ہے۔
مادہ ہاے تاریخ
از حضرت شاہ روح اللہ عرف مولانا حسین علی سرشار صفی پوری
جناب حضرت خادم صفی شاہ شفوق
نمود عزم ازیں جابہ خالق مخلوق
سین تولد و عمر و وصال در شعری
نوشت عاشق سرشار اندریں منطوق
ظہور حسن تولد، سنین او محبوب
سن وصال بدانید عاشقش معشوق
از حضرت شاہ عزیز اللہ صفی پوری
شاه خادم صفی ولی الله
قد تلقى بجنَّتِ الماوى
قلت بالفكر عامہ كعزيز
أَوصَلَ اللَّهُ شَيْخَنَا بِلِقَا
ولہ
آمد از آسمان بلائے عظیم
قطب آفاق رفت وا ویلاه
گفت تاریخ فی البدیہ عزیزؔ
شاہ خادم صفی نمانده آه
ولہ ایضا
شده واصل بخدا مرشد ما حضرت خادم
چو صبا گشت سبک خیز وبہ فردوس برین شد
ملک آمد ز فلک گفت چہ تاریخ عزیزا
صبح یکشنبہ ہمہ حق ز رجب سیزدهم شد
ولہ در سال عیسوی (1870)
چوں اکتوبر آمد نهم روز رفت
ولی خدا سوئے جنت پگاه
دلم گفت سال مسیحی عزیز
جدا شاه خادم صفی گشته آه
ولہ در سال سمت (1927)
کنوار آمد و رفت روز مخستین
بخلدِ برین مرشد پاک خوش خوی
عزیز جگر خستہ سمت رقم زد
بشد شاہ خادم ولی خدا جوی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.