Sufinama

خواجہ سید قیام اصدق

اشتیاق ایوبی

خواجہ سید قیام اصدق

اشتیاق ایوبی

MORE BYاشتیاق ایوبی

    آپ کا نامِ مبارک شاہ قیام اصدق لقب محب و فخرالاؤلیا ہے، والد ماجد کا نام قاضی محمد صادق حسین ہے، وطن مالوف قاضی پورہ میاں پور بنگال ضلع بردوان ہے، آپ یکتائے وقت، یگانۂ عصر، برہان الشریعت، امام الصوفیہ، ہادی دین و ملت، محرم اسرار حقیقت، سر چشمہ معرفت، مجدد طریقت اور امین امانت قادریت و چشتیت اور گنجینہ باطنی کے امام ہیں۔

    والد ماجد قاضی محمد صادق حسین صاحب بھی یکتائے وقت امام الطریقت حضرت سید فخرالدین بمعروف صادق علی شاہ مونس اللہ چشتی کے مرید خاص تھے، دورانِ سفر صادق علی شاہ مونس اللہ چشتی آپ کے دولت کدہ پر رونق افروز ہوئے و سات سال کے صغر سن میں ہی حضرت صادق علی شاہ کی بیعت سے مشرف ہوئے اور مرشد طریقت کی صحبت خاص میں شریک سفر ہوئے، علومِ ظاہری و باطنی تبرکات سے مشرف ہو کر بعد وصال مرشد طریقت جزیرہ سراندیپ پولو پلانگ سے واپس ہو کر پیر بیگھ شریف ضلع نالندہ بہاری میں اقامت پذیر رہ کر تشنگانِ علم اور طالبان طریقت کو مطلوب و مقصود کی منزل تک پہنچانے کے لیے درس و ارشاد و بیعت اور اجرائے طریقت کا سلسلہ شروع کیا، آپ نے ملک گیر سطح پر سفر کیا ملک کے گوشے گوشے میں احیائے دین اور تبلیغ تصوف کے لیے سرگرم رہ کر دین و ملت اور احکام و سنت کو استحکام بخشا اور عقائد باطنہ کی خوب خوب مخالفت و مدافعت کی۔

    یہ انتہائی مبالغہ آرائی ہے کہ مبلغِ دین اور احیائے سنت کا حق صرف اور صرف علمائے بریلی نے ادا کیا ہے بلکہ یہ حق اور سچ ہے کہ آل رسول کرام نے مشترکہ طور سے علمائے بریلی کی راہنمائی کی اور علمائے بریلی اسی راہنمائی کے سبب شہرت گیر ہوئے۔

    حیرت انگیز انکشاف : آپ کے مریدوں کی تعداد کافی ہے، آپ کی شہرت و عظمت اور یگانۂ عصر شخصیت کا ثبوت اس طرح آشکارا ہوتا ہے کہ 1857ء کے غدر سے نہ صرف دہلی اور یوپی کا نظام سلطنت اور سیاست درہم برہم ہو گیا تھا بلکہ تصوف و طریقت کا سرسبز و شاداب گلشن بھی خزاں رسیدہ ہو چکا تھا جب کے سبب مرزا غالب کے معروف ممتاز شاگرد شاعر بے مثال سید محمد فخرالدین حسین سخنؔ دہلوی اولاد مودود چشتی دہلی سے اور شاعر سحرالبیاں محمد عبدالعزیز خاں نغزیؔ (رئیس شیر پور ضلع میرٹھ، یوپی) سے چل کر بارگاہ اصدقیہ میں فخرالاؤلیا خواجہ سید قیام اصدق کے حضور میں حاضر ہوکر جبین عقیدت خم کیا اور بیعت و ارادت و خرقہ خلافت سے مشرف ہوئے جس کا اظہار سخنؔ دہلوی نے دیوان سخن جلد 1 ص 20، 21، 25، 121 جلد 2 مطبوعہ 1303ھ میں اور فصیح اللساں محمد عبدالعزیز نغزیؔ نے مجموعۂ نغز کے ص 11 اور ص 16 اشعار عقیدت و منقبت کی صورت میں برملا کیا ہے، مجموعۂ نغز پر قطعۂ تاریخ مولانا محمد قاسم کے شاگرد و مرید محمد اکبر نذر نے لکھا ہے۔

    مختصر تعارف سخنؔ دہلوی : سید محمد فخرالدین حسین بمعروف سخنؔ دہلوی کے والد ماجد کا نام خواجہ سید محی الدین حسین ہے، خواجہ مودود چشتی کی اولاد سے ہیں، سخنؔ دہلوی کا مولد مسکن دہلی تھا، علوم و فنون کی تکمیل کے بعد 1820ء میں بصورت ملازمت شاہی بہادر شاہ ظفر کے مقربین خاص میں شامل ہوئے، 1822 میں لکھنؤ آئے پھر 1827ء میں بہار میں فائز ہوئے کچھ دنوں رہ کر واپس دہلی چلے گئے دوبارہ 1857ء کے ہنگامہ غدر سے پریشان ہو کر بہار آئے خواجہ قیام اصدق کی بیعت سے مشرف ہوئے دیوان سخنؔ پر مرزا غالب کی تقریظ ہے جس سے موصوف کی عظمت و بلندی کا ثبوت ملتا ہے، موصوف سروش سخن، تہذیب النفوس مطبوعہ 1822ء دیوان سخنؔ 1303ھ جیسی گراں قدر تصانیف کے مصنف ہیں، آپ کے اشعار سے خلافت و اجازت کا بھی ثبوت ملتا ہے۔

    نوٹ : یہ امر قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر سید نسیم بخاری (سجادہ : درگاہ جلالیہ، دہلی) کا فخر طریقت، اولادِ گنج شکر، علامہ سید احتشام الدین احمد فریدی (سجادہ نشیں : خانقاہ چشتیہ اصدقیہ فریدیہ، شہسرام) کی بیعت و ارادت اور خلافت سے مشرف ہونا کوئی نئی یا حیرت کی بات نہیں ہے، ماضی سے دہلی اور یوپی کی عقیدت خانقاہ اصدقیہ، پیر بیگھ، نالندہ) کی بارگاہ میں جبیں کیش رہی ہے، راقم کے پاس دیوان صادقؔ، دیوان سخنؔ (جلد اول و دوم) اور مجموعۂ نغزؔ (مطبوعات 1315ھ 1303ھ 1329ھ) بطور ثبوت موجود ہے، خواجہ قیام اصدق سے وارداتِ قلب اور کرامات کا صدور بکثرت ہوا جسے احاطۂ تحریر میں لانا مشکل ہے، تفصیلات کرامات و دیگر سوانح کے لیے کرامات اصدقیہ اور تاریخ ابلاغ چشت ملاحظہ فرمائیں۔

    آپ نے تاریخ 21 رمضان المبارک 1301ھ مطابق 1884 کو اس دنیائے فانی سے ملک بقا کی طرف کوچ کیا۔

    آپ کی خلفا کی تعداد بکثرت ہے آپ کے وصال کے بعد خلیفہ و جانشیں سجادہ خواجہ سید شہودالحق ہوئے، خانقاہ شریف کے سابق سجادہ شاہ مشہور اصدق‏‏ کے شہزادے مشاہد اصدق اور شاہ سدیدالدین صاحب سے خانقاہی آب و تاب کا سلسلہ جاری ہے، آپ کے پوتی زادے سید شاہ مصطفیٰ حسین اصدق بھی مانند لوگوں میں شمار تھے، خواجہ سید شاہ فریدالدین فرید ثانی کا اجل و افضل خلیفہ و مجاز میں شمار ہوتا ہے، قادریہ چشتیہ فخریہ دونوں سلسلوں کے مجاز ہیں اور کرامات اصدقیہ جیسی گراں قدر کتاب کے مصنف ہیں، حضرت شاہ فرید ثانی کے علاوہ شہسرام میں ابراہیم قلی خاں اصدقی بھی خلافت و اجازت سے سرفراز تھے۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے