ہندوستان کا صوفیانہ سفر نامہ
دلچسپ معلومات
کتاب ’’نقشِ رہ گزر‘‘ سے ماخوذ۔
بارگاہ خواجہ نظام الدین اؤلیا میں :-
یوں تو تصوف کے تمام سلاسل کے بزرگوں سے عقیدت رکھتا ہوں مگر طبعاً اپنے آپ کو سلسلۂ چشتیہ سے زیادہ قریب پاتا ہوں، اس نسبت سے غریب نواز خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی عقیدت نس نس میں رچی ہوئی ہے، عرصہ سے تمنا تھی کہ ان کے مزار پُرانوار پر حاضری دوں اور آنکھوں کو خطۂ اجمیر کی زیارت سے شاد کام کروں مگر بار بار ارادہ باندھنے کے باوجود ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی رکاوٹ ایسی پیش آتی رہی کہ سفر ملتوی ہوتا رہا تا آں کہ اب کے قسمت نے یاوری کی اور مجھے اپریل کے دوسرے ہفتے میں اپنی یہ دیرینہ تمنا پوری کرنے کا موقع مل گیا، یہ سفر اگر چہ چند گھنٹوں کا سفر تھا مگر بلا شبہ یہ میری زندگی کے یادگار لمحوں میں شامل ہونے کے لائق تھا، اس کی روداد تو سناؤں گا ہی مگر سفرِ اجمیر کی وجہ سے چند دن عروس البلاد دہلی میں رہنے کا جو اتفاق ہوا اور یہاں کی مختلف محفلوں میں جانے اور بعض اہم شخصیات سے ملنے کا جو موقع ملا اس کی تفصیلات بھی اس قابل ہیں کہ پیش کی جائیں، بھارت جانے والے ادبیوں اور شاعروں کے سفر نامے تو آپ کی نظر سے گذرتے ہی رہتے ہیں میری یہ تحریر اس لحاظ سے مختلف ہوگی کہ اس میں سفر نامہ کی جھلک ہونے کے ساتھ ساتھ بھارتی حکومت اور سوسائٹی کے بارے میں میرے تاثرات اور پاک و ہند تعلقات کی راہ میں حائل مسئلوں اور ان پر دونوں طرف کے نقطہ ہائے نظر کا بے لاگ اظہار بھی شامل ہوگا، یہ کوشش کروں گا کہ بات ایجاز و اختصار کے ساتھ ہو اور دو تین قسطوں میں ختم ہو جائے لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو سکا تو امید ہے قارئین اس سے زیادہ طوالت کو بھی گوارا کر لیں گے۔
دہلی پہنچ کر میری پہلی خواہش محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین اؤلیا کے آستانۂ فیض پر بوسہ دینے کی تھی، خواجہ حسن نظامی کے صاحبزادے خواجہ حسن ثانی نظامی میرے پرانے کرم فرماؤں میں سے ہیں، آج سے چو ہیں پچیس سال پہلے ان سے لاہور میں ملاقات ہوئی تھی، مدیرِ نیرنگِ خیال حکیم محمد یوسف حسن مرحوم نے اپنی قیام گاہ واقع فلیمنگ روڈ، لاہور پر ایک مخصوص شعری نشست کا اہتمام کیا تھا، خواجہ صاحب ان دنوں لاہور آئے ہوئے تھے اور اپنے ارادت مند خاص جناب عابد نظامی کے ہاں قیام پذیر تھے، انہیں اس محفل میں مہمان خصوصی بنایا گیا، میں نے بھی اس میں اپنا کلام پڑھا، اس وقت سے لے کر آج تک خواجہ صاحب سے جو رشتہ ٔخاطر استوار ہوا ہے تو استوار تر ہی ہوتا چلا گیا ہے، بعد میں ایک مرتبہ حج کے دوران ملاقات ہوئی تو دیکھا انہوں نے داڑھی بھی بڑھالی ہے، 1979ء میں ایک دو دنوں کے لیے دلی جانا ہوا تو بڑے تپاک سے ملے، بڑے اچھے شکاری ہیں ان دنوں ہرن کا شکار کر رکھا تھا، بڑے اہتمام سے اسے خود ہی پکایا اور بڑی محبت سے کھلایا، اتنے دیرینہ تعلقات کے ہوتے ہوئے کیسے ممکن تھا کہ انہیں اپنے آنے کی اطلاع نہ کرتا، مزار سے ملحق اور متصل ہی ان کی قیام گاہ ہے، یہیں منادی کا دفتر بھی ہے، جسے ان کے نامور والد اور اردو زبان کے صاحبِ طرز ادیب اور انشا پرداز خواجہ حسن نظامی نے جاری کیا تھا اور جسے حسن ثانی اپنا خونِ جگر صرف کر کے اب بھی زندہ ر کھے ہوئے ہیں۔
بستی نظام الدین اؤلیا پہنچا تو نقشہ ہی کچھ اور تھا، آج سے چند سال پہلے یہاں اک کچی سی آبادی تھی، قریب میں ایک قبرستان، اب نہ کچے مکان نظر آئے نہ کہیں قبریں، انہیں مسمار کر کے ہر طرف دکانیں اور پختہ مکان بنا لیے گیے ہیں، مجھے یاد ہے پچھلی مرتبہ ہماری گاڑی بالکل روضے کے باہر جا رکی تھی، اب کے ایک پر رونق بازار سے گزر کر کافی پیدل چلنا پڑا تب کہیں جا کر خواجہ صاحب کی بیٹھک دکھائی دی دلی کے مشہور ادیب رئیس مرزا کو میری آمد کی اطلاع ہو چکی تھی وہ بھی یہیں پر مل گیے، چائے پی اور پھر خواجہ صاحب کی معیت میں بارگاہِ نظام الدین اؤلیا میں شرف باریابی حاصل کیا، درگاہ کی آمدنی بے شمار ہے لیکن باقاعدہ نظام نہ ہونے کی وجہ سے اس کا بیشتر حصہ ”خدام‘‘ لے اڑتے ہیں، مزار تک جاتے جاتے کتنے ہی خود ساختہ مدرسوں، یتیم خانوں اور مسجدوں کے ’’سفیروں‘‘ سے مڈ بھیڑ ہوئی، خواجہ صاحب آگے آگے تھے، اس لیے ہم تو کسی کے قابو نہیں آئے، ورنہ کوئی انجان اس گروہ میں پھنس جائے تو بڑی مشکل سے اپنی جیب محفوظ رکھ پاتا ہے، حضرت امیر خسروؔ کا مزار بھی احاطے میں ہے جن کے ’’سوز دل‘‘ کے طفیل خواجہ نظام الدین اپنے رب سے التجا گزار ہوا کرتے تھے، وہاں فاتحہ پڑھی اور پھر حضرت محبوب الٰہی کی قبر مبارک پر پہنچے، تذکروں میں لکھا ہے کہ حضرت بابا فریدالدین گنج شكر آپ سے خوش ہوتے تو دعا دیا کرتے ’’خدا تمہیں درد دے‘‘ آپ کو نصیحت فرماتے تو کہتے ’’اپنے رب سے تین چیزیں مانگا کرو…………….. وقت خوش و آبِ دیده و راحتِ دل‘‘
اس بارگاہِ گردوں مآب میں قدم رکھا تو یوں لگا جیسے دل درد کی دولت سے مالا مال ہوگیا ہے، آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے، بے اختیار اقبالؔ کے وہ اشعار زبان پر جاری ہو گیے جو انہوں نے خواجہ حسن نظامی کی معیت میں درگاہ کی زیارت کے موقع پر سپرد قلم کیے تھے۔
فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا
بڑی جناب تیری فیض عام ہے تیرا
ستارے عشق کی تیری کشش سے ہیں قائم
انتظام مہر کی صورت نظام ہے تیرا
تیری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی
مسیح و محضر سے اونچا مقام ہے تیرا
نہاں ہے تیری محبت میں رنگِ محبوبی
بڑی ہے شان بڑا احترام ہے تیرا
دُردِ نظامی میں ہے خواجہ نظام الدین اؤلیا نے فرمایا کہ ’’انوارِ روحانی کے دس درجے ہیں‘‘
نورِ روح
نورِ عقل
نور معرفت
نورِ علم
نورِیقین
نورِ توفیق
نورِ بصر
نورِ حيا
نورِ محبت
نورِ عشق
فرمایا کہ
’’نورِ عشق انوار روحانی کا آخری درجہ ہے اور عشق عشقہ سے نکلا ہے، یہ ایک بیل ہے جو درختوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے تو خود پنپتی رہتی ہے مگر انہیں پہننے نہیں دیتی، اسی طرح جو شخص عشق کی لپیٹ میں آ جائے اس کا عشق تو پنپتا رہتا ہے لیکن وہ خود اس آگ میں جل کر بھسم ہو جاتا ہے‘‘
ایسے لگا جیسے میرا وجود جل کر راکھ ہوگیا ہے اور اس کے اندر عشق کی چنگاری جل اٹھی ہے، کاش یہ لمحے جاودانی اور دوامی ہوتے مگر مجھ ایسے مادیت زدہ گنہگار کی یہ قسمت کہاں؟ اس بار گاہ عصیاں پناہ سے نکلوں گا تو دل کی وہی حالت ہو جائے گی، مکروہاتِ زمانہ کی دل دل اس چنگاری کو کہاں روشن رہنے دے گی، خانقاہ سے متصل ہی حضرت حسن نظامی کا مزار ہے، یہیں پر جناب حسن ثانی نے خواجہ حسن نظامی میموریل سوسائٹی قائم کر رکھی ہے جو تصوف پر اعلیٰ درجے کی کتا بیں بھی چھاپتی ہے اور اپنے شاندار ہال میں وقتاً فوقتاً مجالسِ مذاکرہ بھی منعقد کرتی رہتی ہے، خواجہ صاحب کی قبر کا کتبہ ایک یادگار چیز ہے، یہ انہوں نے اپنی زندگی میں قلمبند کیا تھا، ان کے اسلوب خاص میں یہ تحریر عجیب دل گداز اور پُر اثر تحریر ہے، خلاصہ اس کا یہ ہے کہ یہاں وہ سو رہا ہے جس کی شہرت کی دھوم تھی، تحریر کا چرچہ تھا، تقریر کا شہرہ تھا مگر اب اس حال میں ہے کہ دعا کے دو بولوں کا محتاج ہے، گویا وہی بات کہ
جینا وہ کیا جو ہو نفسِ غیر پر مدار
شہرت کی زندگی کا بھروسہ بھی چھوڑ دے
خانقاہ کے قریب ہی میں مرزا غالب کی قبر ہے، پچھلی مرتبہ جانا ہوا تھا تو مجھے معلوم نہ تھا کہ اردو کا سب سے بڑا شاعر یہیں آسودۂ خواب ہے، فاتحہ پڑھے بغیر ہی لوٹ آیا تھا، اس کا بڑا قلق تھا، اب کے یہ ارادہ لے کر چلا تھا کہ اس غلطی کی ضرور تلافی کروں گا، میں ان لوگوں میں سے ہوں جن کا اس فرمودۂ اقبالؔ پر پورا پورا یقین ہے کہ شعر و ادب کے اعتبار سے دلی کی سر زمین میں غالبؔ کا کوئی ہم سر نہیں۔
اے جہان آباد! اے گہوارهٔ علم و ہنر
ہیں سراپا نالۂ خاموش تیرے راہ گزر
ذرے ذرے میں ترے خوابیدہ ہیں شمس و قمر
یوں تو پوشیدہ ہیں تیری خاک میں لاکھوں گہر
دفن تجھ میں کوئی فخرِ روزگار ایسا بھی ہے
تجھ میں پنہاں کوئی موتی آبدار ایسا بھی ہے
پھر اب کے غالبؔ کی قبر پر حاضری دینے کا داعیہ اور بھی پیدا ہو گیا تھا، اردو کے مشہور شاعر ساغرؔ نظامی بھی غالبؔ کے احاطے میں مدفون ہیں، ساغرؔ عزیزم شہزاد خان کے تایا تھے اور شہزاد کئی سال میرے پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت سے کام کرنے اور اپنے ذاتی اوصاف و محاسن کی وجہ سے مجھے بہت عزیز ہیں، ان سے وعدہ کر کے چلا تھا کہ ساغرؔ صاحب کی قبر پر ضرور فاتحہ پڑھ کر آؤں گا، پچھلے سفر میں ساغرؔ صاحب نے میرے اعزاز میں ایک پُر تکلف دعوت کا انتظام کر رکھا تھا مگر میں اپنی نالائقی کی وجہ سے اس میں نہیں پہنچ پایا تھا، سو اب کے دونوں غلطیوں کی تلاقی کی، قبر غالبؔ پر فاتحہ نہ پڑھ سکنے اور حضرت ساغرؔ کی دعوت میں نہ پہنچ پانے کی غلطیوں کی……………. دونوں کے لیے خوب خوب دعا کی، خواجہ حسن ہمراہ تھے، ساغرؔ صاحب کے بارے میں انہوں نے پتے کی بات کہی، کہنے لگے کہ
’’ان کے نام کے ساتھ نظامی کی جو نسبت لگی تھی، اس کا صلہ انہیں یہ ملا کہ غالبؔ کے ساتھ قبر بنی، اردو کے ہر بڑے شاعر کے دل میں یہی حسرت رہی ہوگی مگر یہ رتبۂ بلند صرف جناب ساغرؔ نظامی کے لیے مقدر ہوا‘‘
آستانہ حضرت شیخ سلیم چشتی کے حضور :-
اگلے دن آگرے کے لیے رختِ سفر باندھا، تاج محل میں پچھلی مرتبہ دیکھ چکا تھا، اب کے اصل تمنا فتح پور سیکری میں حضرت شیخ سلیم چشتی کے مزار پر حاضری کی تھی، (گو تاج محل کو دوبارہ دیکھنے کی آرزو پر قابو پانا بھی کسی صاحبِ ذوق کے بس کی بات نہیں) آگرہ اور فتح پور سیکری کی عمارات کے کیا کہنے، انہیں سیکڑوں سال ہو گیے مگر ہنر مندی اور ہنروری کے جو نقوش انہوں نے جریدۂ عالم پر ثبت کیے ہیں وہ آج بھی جگمگ جگمگ کر رہے ہیں، سچ ہے مردانِ آزاد کے فن کی بات ہی……………. ’’از جہانِ دیگر است‘‘ میں مغلوں کا فن تعمیر دیکھ رہا تھا اور مجھے ’’بندگی نامہ‘‘ میں کہے ہوئے علامہ اقبالؔ کے وہ اشعار یاد آ رہے تھے جو انہوں نے ’’صنعتِ آزادگان‘‘ پر ارشاد فرمائے ہیں کہ
’’یک زماں با رفتگان صحبت گزیں
صنعتِ آزاد مرداں ہم یہ بیں
(کچھ وقت کے لیے پچھلوں کی ہم نشینی اختیار کر اور آزاد مردوں کے ہنر پر بھی نگاہ ڈال)
خیز و کارِ ایبک و سوری نگر
و انما چشمے اگر داری جگر
(ذرا ایک اور شیر شاہ سوری کا کام بھی دیکھ اور اگر دیکھنے کی ہمت رکھتا ہے تو اپنی آنکھیں کھول کر دیکھ)
خویش را از خود بروں آورده اند
ایں چنیں خود را تماشا کرده اند
(انہوں نے اپنی ذات کا اس درجہ نظارہ کیا ہے کہ (اپنے فن کے ذریعے) وہ اپنی ذات کو (اپنے
جسم کے خول سے) باہر نکال کے لے آئے ہیں)
سنگ ہا باسنگ ہا پیوستہ اند
روزگاری را بآنے بستہ اند
(انہوں نے پتھروں کو پتھروں کے ساتھ جوڑ دیا ہے اور اس طرح (وقت کی رفتار روک کر) زمانے کو ایک لمحے کے ساتھ باندھ کر رکھ دیا ہے)
دیدن او پختہ تر سازد ترا
ور جہانِ دیگر اندازد ترا
(اس فن کا نظارہ تجھے پختہ کر دے گا اور (جیتے جی) دوسرے جہان میں پہنچا دے گا)
یک نظر آں گوہر نابے نگر
تاج را در زیرِ مہتا بے نگر
(ایک نظر اس گوہر آبدار کو بھی دیکھ اور چاندنی میں تاج محل پر بھی نگاہ ڈال)
مرمرش ز آب رواں گردنده تر
یک دمِ آں جا از ابد پائنده تر
اس کا سنگ مرمر بہتے ہوئے پانی سے کہیں زیادہ گردش میں ہے اور یہاں ایک لمحہ بسر کرنا بھی حیاتِ جاودانی کی مانند ہے)
عشقِ مرداں سر خود را گفتہ است
سنگ را با نوکِ مژگاں سفتہ است
(یہاں اہلِ دل کے عشق نے اپنے بھید کھولے ہیں اور ان کی پلکوں نے پتھروں کو پرو دیا ہے)
عشق مرداں پاک و رنگین چوں بہشت
می کشاید نغمہ ہا از سنگ و خشت
اہلِ دل کا وہ جذبۂ عشق جو بہشت کی مانند پاک اور حسین ہوتا ہے اس کے دم قدم سے پتھروں سے بھی نغمے پھوٹ نکلتے ہیں)
تو آگرہ اور فتح پور سیکری کا فنِ تعمیر اسی جذبۂ عشق کا مرہونِ منت ہے جس نے ان کے نقش کو جاوداں بنا دیا ہے، ہم پہنچے تو چلچلاتی گرمی تھی لیکن دساور سے آئے ہوئے سیکڑوں افراد تاج محل کی ایک جھلک دیکھنے کو بے قرار تھے۔
تاج محل تو پھر تاج محل ہے، فتح پور سیکری میں حضرت شیخ سلیم چشتی کے مقبرے کا بھی جواب نہیں، ایسے لگتا ہے جیسے اس کے ارد گرد پھیلا ہوا وسیع و عریض صحن ایک جھیل ہے اور اس میں یہ مقبرہ ایک سفید کنول کی مانند تیر رہا ہے، اسی صحن میں تعمیر شدہ مسجد بھی قابلِ دید ہے، کہتے ہیں کہ اپنے مقبرے کی بنیاد حضرت شیخ نے خود اپنے ہاتھوں سے رکھ چھوڑی تھی، بعد میں اکبر بادشاہ نے اس پر مقبرے کی تعمیل کی۔
حضرت شیخ سلیم چشتی حضرت بابا فرید گنج شکر کی اولاد میں سے تھے، 897 ہجری میں پیدا ہوئے۔
عالمِ شباب میں سیاحت کو نکل کھڑے ہوئے اور عرب و عجم میں گھومتے پھرتے حرمین شریفین پہنچے، بعد میں سیکری کے مقام پر آکر بس گیے، اللہ تعالی نے حالات میں کشادگی پیدا کی، عمارتیں، باغ اور کنو ئیں بنوائے، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنی کتاب ’’اخبارالاخیار‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
’’نماز اہلِ حرمین کے ذوق کے مطابق اول وقت میں پڑھتے اور بعض مخالفِ شریعت عادات جو عوام میں پیدا ہو گئی تھیں، انہیں دور کرنے کی سعی فرماتے اور طالبوں کو ریاضت و مجاہدہ کی ہدایت کرتے، آپ کی مجلس بظاہر امرأو حکام کی محفلوں کے مشابہ ہوتی کسی کو نصیحت فرماتے اور کسی کو جھڑکتے تھے، جن لوگوں کو آپ کی خدمت کا
شرف حاصل ہوا وہ آپ کے کشف و کرامت و تصرفِ ظاہر و باطن کے بارے میں عجیب و غریب واقعات بیان کرتے ہیں‘‘
اور انہی کرامات میں سے ایک کرامت یہ بھی تھی کہ شہنشاہ اکبر اولادِ نرینہ سے محروم تھا آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر دعا کا طلب گار ہوا، شیخ کی دعا کے نتیجے میں جہاں گیر پیدا ہوا جس کا نام اکبر نے آپ کے نام پر سلیم رکھا، ہیموں بقال کے زمانے میں اس کے مظالم سے تنگ آکر آپ نے حرمین شریفین ہجرت کی، چودہ سال کے بعد واپسی ہوئی اور 979 ہجری کے رمضان المبارک میں بحالتِ اعتکاف اللہ کو پیارے ہوئے، اس وقت سے لے کر آج تک آپ کا مزار مرجعٔ خلائق ہے، اس ناہنجار نے بھی کچھ دیر مراقبہ کیا تو انوار کا
عجیب و غریب مشاہدہ ہوا اور سینہ انبساط و انشرح سے معمور ہوگیا۔
کہاں ایسا مقدر تھا کہ ہم کو یہ شرف ملتا
عنایت ہے کہ سائے میں ترے دامن کے بیٹھے ہیں
درگاہ خواجہ غریب نواز کے آستانے پر :-
اجمیر شریف میں عرس کے دنوں میں اتنی بھیڑ بھاڑ ہوتی ہے کہ دل جمعی سے حضور خواجہ سلام کرنا بھی مشکل ہوتا ہے، اس لیے میں نے جان بوجھ کر عرس کے چند دن کے بعد حاضری کا پروگرام بنایا تھا، ادھر قافلے واپس آنا شروع ہوئے، اُدھر میں نے سوئے اجمیر جانے کی ٹھانی، دلی سے جے پور کے لیے صبح چھ بجے ایک فلائٹ روانہ ہوتی ہے، ہم نے پینتیس منٹ میں اس ’’گلابی شعر‘‘ کے ہوائی اڈے پر کھڑے تھے جے پور کو ’’پنک سٹی‘‘ یا ’’ گلابی شہر‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے بازاروں اور عمارتوں کا رنگ گلابی ہے جے پور ریاست کے مہاراجہ کو یہ رنگ بے حد پسند تھا، اس لیے ان کے حکم پر پورے شہر کو گلابی رنگ میں غسل دے دیا گیا تھا، بڑے بڑے خوبصورت دروازوں کے اندر ایک ہی انداز کی دکانیں آنکھوں کو بڑی بھلی لگتی ہیں، مہاراجہ کا رہائشی محل اب میوزیم میں تبدیل ہو چکا ہے، البتہ اس کا ایک حصہ اب بھی ان کے اہل خاندان کی قیام گاہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے، ایک بڑے محل میں تاج گروپ نے ہوٹل بنا رکھا ہے، ہوا محل بھی دیکھنے کی چیز ہے، اس میں اتنے لا تعداد دروازے اور کھڑکیاں ہیں کہ آپ اس میں کھڑے ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے کھلی ہوا اور فضا میں کھڑے ہیں، جنتر منتر کے نام سے ایک اور جگہ قابلِ دید ہے جس میں بڑی دور بینیں اور ستاروں اور سیاروں کو دیکھنے کے آلات نصب ہیں، ایئر پورٹ پر
وزارتِ خارجہ کے پروٹوکول افسر مسٹر بساریہ میرا انتظار کر رہے تھے، یہاں سے ہم سرکٹ ہاؤس پہنچے جہاں ہمارے لیے کمرے ریزرو تھے ناشتہ کیا اور پھر کار کے ذریعے اجمیر روانہ ہو گیے۔
شدید گرمی راجستھان کا علاقہ اور پھر پیشِ شوق، چار ساڑھے چار گھنٹے کے اس سفر کے دوران اس سہ آتشہ گرمی نے جھلسا کر رکھ دیا وہی بات تھی کہ
گرمئی شوق بھی ہے گرمئی موسم بھی ہے
اور پھر اس پہ مرا سوزِ جگر کیا کہنا
مگر دربارِ خواجہ میں پہنچنے کی امنگ اتنی زوردار تھی کہ گرمی کا احساس تک نہیں ہوا یا شاید یہ بھی خواجہ کا تصرف تھا کہ وہ ابھی سے اپنے تن آسان مہمان کی خاطر داری فرمارہے تھے، کوئی مولوی صاحب فتویٰ نہ لگا دیں کہ میں شرک کا مرتکب ہو رہا ہوں، یہ میرا ہی نظریہ نہیں توحید کے معاملے میں شمشیرِ برہنہ امام ربانی مجدد الف ثانی نے بھی اپنے مکتوبات میں سفرِ اجمیر کا ذکر کرتے ہوئے خواجہ کے تصرفات کا کچھ ایسا ہی تذکرہ کیا ہے، تیسری جلد میں مکتوب نمبر 104 میں لکھتے ہیں کہ
’’آں مشکلے کہ داشتم آں معاملہ شاید در عالم مثال دریں ایام حل شد و خافیہ نماند شاید دریں معنی روحانیت خواجہ معین الدین را ہم مدخلے باشد‘‘
(وہ مشکل جو مجھے در پیش تھی، اس کا معاملہ انہی دنوں میں حل ہوگیا اور اس میں کوئی اخفا نہ رہا، شاید اس میں خواجہ معین الدین کی روحانیت کا بھی دخل ہے)
اجمیر کی پہاڑیاں نظر پڑیں تو تاریخ فلم کی مانند نگاہوں کے سامنے گھومنے لگی، تقریباً آٹھ سو سال پہلے کس طرح یہاں ایک فقیر درویشوں کی ایک جماعت کے ہمراہ پہنچا ہوگا، یہ پتھورا رائے کے شعبدہ باز ہیں جو خدائی کرامتوں کے بالمقابل سجدے میں پڑے ہیں، یہ دھتکارے ہوئے سماج کے ٹھکرائے ہوئے اچھوت ہیں جو خواجہ غریب نواز کے دستر خوان پر بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں، لیجیے یہ سلطان شہاب الدین محمد غوری کی سواری آن پہنچی، وہ گھوڑے سے اتر کر آپ کے ہاتھ پر بوسہ رہے ہیں اور اب مجھے اپنے تربیت یافتہ شاگردوں کی جماعتوں کو حضرت خواجہ ہندوستان طول و عرض میں تبلیغ اسلام کے لیے بھیجوا رہے ہیں، اس شخص کو پہچانیے یہ تو سلطان شمس الدین التمش لگتا ہے، ارے یہ بھی آپ کی زلف گرہ گیر کا اسیر نکلا، اب اجمیر شہر کے اندر ایک قبر کا منظر چشمِ تخیل کے سامنے ہے، کسی انگریز کا یہ تاثر ٹھیک ہی تو تھا کہ ہندوستان پر ایک قبر حکومت کر رہی ہے، یہ جلال الدین اکبر بادشاہ اکبرآباد سے پیدل اجمیر چلا آ رہا ہے، درگاہ کے لیے ایک دیگ کلاں نذر کرتا ہے، یہ جہاں گیر بادشاہ ہے جو حاضر ہو کر درویشوں اور اہلِ خانقاہ کے لیے دیگ خور د نذر کر رہا ہے، یہ شاہجہاں ہے جو یہاں ایک عالی شان مسجد تعمیر کرا رہا ہے، جو اب بھی شاہ جہاں مسجد کے نام سے موسوم اپنے حسن تعمیر کی بہار دکھا رہی ہے، اس مجاہد کو پہچانو یہ شیر شاہ سوری ہے اس طرح سراپا ادب و نیاز بنا، خانقاہ میں داخل ہو رہا ہے اور یہ کون ہے؟ یہ اور نگ زیب عالمگیر ہے سخت پابندِ شرع اور زاہدِ خشک مگر کئی بار میر تقی میرؔ کے الفاظ میں ’’اس بارگاہِ فلک اشتباہ میں‘‘ حاضری دے چکا ہے اور یہ ان مہاراجوں کی قطاریں دیکھیے یہ غیر مسلم والیانِ ریاست ہیں مگر خواجہ غریب نواز سے ان کوبھی عقیدت وارادت ہے اس لیے حصولِ برکت کی خاطر چلے آئے ہیں۔
اس تاریخی سر زمین پر قدم رکھ کر دل و دماغ کی جو حالت ہوئی وہ کچھ میں ہی جانتا ہوں، ایسے لگا جیسے میں بھی اسی تاریخ کا ایک حصہ بن کر حضورِ خواجہ میں موجود ہوں، کم سے کم مزارِ مبارک پر پہنچ کر میری یہی حالت تھی ہاتھ جو دعا کو اٹھائے بس اٹھے ہی رہ گیے، آنکھیں بند ہوگئیں اور میں تصور ہی تصور میں کہاں سے کہاں جا پہنچا کوئی ایک گھنٹے کے بعد ساتھیوں نے جھنجوڑا تو واپسی ہوئی، زہے نصیب! یہ لمحہ بھی مقدر میں لکھا تھا کہ بقول اقبالؔ
دلِ بیتاب جا پہنچا دیارِ پیر سنجر میں
میسر ہے جہاں درمانِ دردِ پا شکیبائی
خانقاہ کا نظام موروثی طور پر چند خاندانوں کے سپرد چلا آ رہا ہے، جنہیں ”خدام‘‘ کہتے ہیں، اس وقت اجمیر شریف کے خدام کی تعداد بارہ سو کے لگ بھگ ہے، یہ لوگ زائرین کے عطیات اور نذر و نیاز پر ہی گزاران کرتے ہیں اور بعض اوقات زائرین کو لے اچکنے کے لیے ان میں بڑے دلچسپ مقابلے ہوتے ہیں، اسٹیشن پر ٹرین پہنچی تو ’’خدام‘‘ زائرین کے استقبال کے لیے پہلے ہی موجود ہیں اور اب ایک ایک زائر کی با قاعدہ بولی دی جانے لگی ہے، جس خادم نے زائر کو پانچ سو روپے میں خریدا ہے وہ پانچ سو روپے نکال کر خدام کی ٹولی کے حوالے کر دیتا ہے، اب زائر اس کے سپرد ہوگیا وہ اسے زیارات کرائے گا، اسے دعائیں پڑھوائے گا، ان ساری خدمات کے عوض اسے جو معاوضہ ملے گا اب یہ اس کی قسمت ہے وہ یہ سارا سودا پانچ سو روپے میں خرید چکا، ظاہر ہے اب کم سے کم ایک ہزار روپے زائر کی جیب سے نکلوائے گا تو تبھی کچھ بات بنے گی، خدام کے ہاتھوں زندہ انسانوں کی نیلامی کے جو مناظر اجمیر میں نظر آتے ہیں وہ اس درگاہ کی روایات کے سراسر منافی ہیں، یہاں کی روایت غریب نوازی ہے، غریب سازی نہیں، اگر مسلم اوقاف درگاہ کے نظام کو اپنے ہاتھ میں لے لے اور خدام کے باقاعدہ وظیفے باندھ دے تو ان حرکات کا سدّ باب ہو سکتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ بھارتی حکومت اس طرح کا کوئی اقدام کرے گی تو شور مچ جائے گا کہ وہ ایک عظیم درگاہ پر قبضہ جمانا چاہتی ہے، بہر حال! جیسے بھی ہو مسلم تنظیموں اور بالخصوص بریلوی مکتبِ فکر کی جماعتوں اور عمائدین کو اصلاح احوال کے لیے کوئی نہ کوئی صورت ضرور نکالنی چاہیے، ان مناظر سے مجھ ایسے شخص کو جو تکلیف پہنچی سو پہنچی، ڈر ہے کہ اس طرح کی باتوں سے خواجہ غریب نواز کی روح مبارک کو بھی تکدر ہوتا ہوگا، پاکستانی زائرین کی ایک جماعت بھی ہر سال عرس کے موقع پر اجمیر آتی ہے، اب کے ایک مرکزی وزیر اس کے سربراہ تھے، ذاتی طور پر تو ان کا یہ جذبہ قابل ستائش ہے کہ انہوں نے حصولِ روحانیت کے لیے اتنا لمبا سفر اختیار کیا مگر وزیر ہونے کے بعد کسی شخص کی سرگرمیاں ذاتی جذبے کے پیمانے سے نہیں مانی جاتیں، اس میں قومی اور حکومتی نقطۂ نظر سے بھی کئی پہلو محل نظر ہوتے ہیں، اب تک ہمارے ملک سے صرف حج وفد کے لیے کسی وزیر کو قائد بنایا جاتا رہا ہے، سبب یہ ہے کہ تمام مسلمان ملکوں کا یہی قاعدہ ہے مگر یہ پہلا موقع تھا کہ زائرین اجمیر کی قیادت بھی ایک مرکزی وزیر کو سونپی گئی، اس سے ایک تو دو سرے زائرین کے حق کا اتلاف ہوا دوسرے پروٹوکول اور مراسم کے اعتبار سے ایک غیر ملک میں وزیر صاحب کے استقبال میں جس طرح سرد مہری دکھائی گئی، اس سے ملک اور قوم کا وقار بھی متاثر ہوا، اس کا الزام میں بھارتی حکومت کو نہیں دیتا کہ وہ تو زائرین کا استقبال کر رہی تھی کسی وزیر کانہیں لیکن امر واقعہ یہی تھا کہ حکومتِ پاکستان کا ایک مرکزی وزیر بنفسِ نفیس زائرین کی قیادت کر رہا تھا اس سے ہماری اپنی حکومت اور ملک کے احترام میں فرق آیا۔
پاکستانی سفارت خانہ بار بار حکومت ہند کو متوجہ کر رہا تھا کہ وزیر صاحب ان ان اوقات پر امرتسر، دلی اور اجمیر کے اسٹیشنوں پر قدم رنجہ فرمائیں گے مگر ہوا کیا امرتسر اسٹیشن پر ایک نائب تحصیل دار ان کے استقبال کے لیے تشریف لائے، دلی میں بار بار کی یاد دہانیوں کے باوجود ایک میونسپل کونسلر نے زحمت فرمائی اور اجمیر اسٹیشن پر ریلوے اسٹیشن ماسٹر اور ایک اسٹنٹ کلکٹر نے ان کا خیر مقدم کیا، کاش کہ وزیر صاحب جذبۂ زیارت کو اس وقت تک کے لیے اٹھار کھتے جب وہ وزارت سے سبک دوش ہو جاتے یا پھر سرکاری حیثیت ہی میں جانا ضروری تھا تو عرس کے علاوہ دوسرے ایام میں چلے جاتے کہ بھارتی حکومت پروٹوکول کے مطابق ان کا استقبال کر سکتی یا پھر انہیں بے نفسی ہی کا مظاہرہ کرنا تھا تو عام زائر بنتے اور زائرین کی قیادت کسی اور کے سپرد کر دیتے، یہ چھوٹے چھوٹے مناصب بھی عام آدمیوں کو نہ دینے کا طریقِ کار مستحسن نہیں، اس ’’مرکزیت‘‘ کے نتیجے میں ملک اور قوم کی جو بے وقری ہوئی اس سے حساس پاکستانی قلبی تکلیف محسوس کرتے ہیں، مجھے خوش گمانی ہے کہ یہ سارا کچھ صدر جنرل محمد ضیاؤالحق کی منظوری سے نہیں ہوا ہوگا، جمہوری حکومت ہوتی تو یہ مسئلہ پارلیمینٹ میں اٹھتا اور وزیر صاحب کی وساطت سے ملک اور قوم کی جو بے احترامی ہوئی اس پر انہیں استعفیٰ ہی دیتے بنتی۔
دیوہ شریف میں حاضری :-
میں جن دنوں لکھنؤ پہنچا ہوں بر صغیر کے مشہور صوفی اور بزرگ حضرت حاجی وارث علی شاہ کا عرس ہو رہا تھا، حضرت کی جائے پیدائش جہاں اب ان کا مزارِ پُرانوار بھی ہے دیوہ شریف ضلع بارہ بنکی میں واقع ہے جو لکھنؤ سے کار کے ذریعے گھنٹہ سوا گھنٹہ کی مسافت ہے، سلسلۂ وارثیہ کے بہت سے متوسلین میرے حلقۂ احباب میں شامل ہیں، کچھ ان کے حوالے سے اور کچھ حضرت حاجی صاحب کے ملفوظات و واقعاتِ حیات سے تصوف کے اس عظیم سلسلے سے عرصۂ دراز سے عقیدت رکھتا ہوں، پہلے سے پروگرام بنا کے چلا تھا کہ اس خاک کو بھی بوسہ دوں گا جہاں رشد و ہدایت اور عشق و محبت کی یہ شمع فروزاں ہے اب آکے پتہ چلا کہ ان دنوں سالانہ عرس کی تقریبات بھی منعقد ہو رہی ہیں تو اس موقع کوغنیمت جانا اور اپنے دوست اور یوپی حکومت کے صوبائی وزیر ڈاکٹر عمار رضوی کی معیت میں دیوہ شریف کا قصد کر لیا۔
ہندوستان کے سلسلۂ اؤلیا میں یوں تو کتنے ہی بزرگ حاجی گزرے ہیں مگر تصوف اور ولایت کی دنیا میں جب کسی کے لیے تنہا ’’حاجی صاحب‘‘ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں تو ان سے مراد حضرت حاجی امداداللہ مکی یا حضرت حاجی وارث علی شاہ ہوتے ہیں، آپ 1822ء میں دیوہ شریف ضلع بارہ بنکی یوپی میں پیدا ہوئے، ابھی عہدِ طفولیت تھا کہ یکے بعد دیگرے آپ کے والد اور والدہ جنت کو سدھارے، دادی جان نے آپ کو آغوشِ تربیت میں لیا، ابھی سات سال کے تھے کہ دادی بھی اللہ کو پیاری ہوئیں، اب بڑی بہن اور بہنوئی کی باری تھی، انہوں نے اس درِ یتیم کو سینے سے لگایا، آپ کے بہنوئی حضرت حاجی خادم علی شاہ وقت کے پہنچے ہوئے بزرگ اور حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے شاگردِ رشید تھے، انہوں نے دینی تعلیم کے لیے آپ کو فرنگی محل میں داخل کرا دیا، قرآنِ پاک تو آپ سات سال کی عمر ہی میں حفظ کر چکے تھے، اب دینی علوم کی تحصیل شروع کی مگر ایسے میں آپ اکثر جنگل کی راہ لیتے اور ویرانوں میں جا کر یادِ خدا میں غرق ہو جاتے، پیار سے آپ کو سب لوگ ’’مٹھن میاں‘‘ کہتے تھے، ان کا خیال تھا کہ ’’مٹھن میاں‘‘ خدا نخواستہ کسی دماغی عارضے کا شکار ہیں مگر حضرت حاجی خادم علی شاہ جو خود ایک ولیٔ کامل تھے، جانتے تھے کہ یہ بچہ آگے چل کر کس طرح تصوف و طریقت کے آسمان پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکنے والا ہے، انہوں نے آپ کو باقاعدہ بیعت کر کے قادریہ سلسلہ میں داخل کر لیا اور گیارہ سال کی عمر میں آپ کو خلافت عطا کر دی، حضرت شاہ کا کچھ ہی عرصہ بعد ستر سال کی عمر میں انتقال ہوگیا، تو آپ کے تمام ارادت مندوں نے بالا اتفاق نو عمر وارث کو آپ کا جانشین منتخب کر لیا، اس وقت آپ کی عمر تیرہ سال کی تھی، دستارِ خلافت سر پر بندھوا کر چلے تو ایک ساتھی نے کھانا کھلانے کی فرمائش کی، آپ کی جیب میں کچھ نہ تھا، کبابنے نے پیسے مانگے تو اس کے عوض وہی دستار اس کے حوالے کر دی، اس طرح مشائخِ عظام اور پیرانِ کرام کے رسم و رواج کے پہلے دن ہی سے تارک ہوگیے، یہی وجہ ہے کہ اپنی وفات کے وقت آپ نے یہی وصیت کی کہ اس خانقاہ میں کوئی سجادہ نشیں نہیں ہوگا، کاغذ قلم دوات منگوا کر دمِ وصال آپ نے با قاعدہ تحریر لکھائی کہ
’’ہماری منزل عشق ہے اور عشق میں جانشینی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا‘‘
غالباً بر صغیر کے سلسلہ ہائے تصوف میں یہ پہلا سلسلہ ہے جس میں نسبی اور نسلی سجادہ نشینی کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا
پندرہ سال کی عمر میں آپ نے اپنی تمام جائیداد رشتہ داروں میں تقسیم کر دی، گھر کا سامان غریبوں میں بانٹ دیا اور خود تن تنہا حج کے لیے نکل کھڑے ہوئے، اس دوران آپ کی شہرت دور دور تک پھیل چکی تھی، اثنائے سفر میں جہاں جہاں سے گزر ہوا، عقیدت مندوں کے ٹھٹھ لگ گیے، آپ بھی جگہ جگہ مختصر سا قیام کرتے لوگوں کو اپنے حلقۂ بیعت میں داخل کرتے منزلیں مارتے چلے گیے، اٹاوہ سے گزر ہوا تو حضرت بیدمؔ شاہ وارثی کو مرید بنایا جن کی صوفیانہ شاعری آج بھی حضرت امیر خسروؔ کی طرح ہر محفلِ سماع کی جان ہے، بیدمؔ عشقِ مجازی میں مبتلا تھے، مرشد کامل کی نظر نے عشقِ مجازی کو عشق مجازی کو عشق حقیقی میں تبدیل کر دیا، اٹاوہ سے دیوہ شریف جا بسے اور یہیں اپنے مرشد کے قدموں میں زندگی گزار دی، اس سفر میں آپ اجمیر میں خواجہ غریب نواز کی بارگاہ میں پہنچے اور یہاں ایک دفعہ جو جوتے اتارے تو پھر ساری زندگی جوتے نہیں پہنے، اجمیر سے جے پور ہوتے ہوئے آپ بمبئی پہنچے اور یہاں سے بحری جہاز کے ذریعے عازمِ حجاز ہوئے اور یہ پہلا حج آپ نے 1836ء میں ادا کیا۔
مدینہ منورہ سے آپ 1838ء میں پایپا وہ نجف اشرف روانہ ہوئے، یہاں تین ہفتے قیام کیا اور ننگے سر، ننگے پاؤں کربلائے معلیٰ پہنچے، یہاں کی حاضری کا یہ اثر ہوا کہ آپ نے اس کے بعد پوری زندگی چار پائی، کرسی مسہری، تخت چوکی وغیرہ پر بیٹھنا اور لیٹنا چھوڑ دیا، زندگی بھر ہمیشہ آپ زمین پر بیٹھے اور اسی کو اوڑھنا بچھونا بنایا، شہدائے کربلا کی بھوک پیاس کی وجہ سے لذائذِ دنیا ترک کر دیے، ہمیشہ روزے سے رہے، ایک چھٹانک سے زیادہ کبھی غذا نہیں کھائی، آخری ایام میں تو اس کی مقدار ایک تولہ کر دی، زبان ذائقے کا امتیاز کھو بیٹھی تھی، ایسا بھی ہوا کہ مریدوں نے دودھ چاول پیش کیے اور آپ نے انہیں چکھنے کے بعد فرمایا ’’دال بہت اچھی بنی ہے‘‘ کربلائے معلیٰ کے بعد پیدل ہی مشہد مقدس پہنچے اور پھر بغداد میں حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی کے مزارِ پُر انوار پر حاضری دی، کہتے ہیں کہ آپ کی آمد سے پہلےدرگاہِ جیلان کے سجادہ نشیں کو القا ہوا کہ ہندوستان سے ایک حسنی حسینی سید آ رہا ہے، جس کا نام وارث علی ہے وہ یہاں پہنچے تو اسے ہماری طرف سے زرد رنگ کی دو چادریں پیش کی جائیں، یہ چادریں آپ نے کیا پہنیں کہ اس کے بعد ساری زندگی آپ ’’احرام پوش‘‘ بن کر رہ گیے اور یہ چادریں سلسلۂ وارثیہ کے فقیروں کی خاص پہچان ٹھہریں، یہاں تک کہ انہیں چادروں کا انہیں کفن دیا جاتا ہے، فقر کا منتہا اپنے آپ کو مٹا کر خاک ہو جانا ہے اور خاک کا رنگ زردی مائل ہوتا ہے، اس لیے حضرت علی مرتضیٰ کی شانِ بو ترابی سے نسبت رکھنے والے فقیر اسی رنگ کو پسند کرتے ہیں، سنن ابو داؤد میں ہے کہ حضرت عیسیٰ دو بارہ نزول فرمائیں گے تو وہ بھی دو زرد چادریں پہنے ہوں گے۔
دنیائے عرب کے اس سفر میں آپ بار بار مکہ اور مدینہ آتے جاتے رہے، چنانچہ چار بار حج سے سرفراز ہو کر 1841ء میں واپس تشریف لائے، واپسی پر عزیزوں نے شادی کے لیے اصرار شروع کر دیے، آپ انہیں ٹالنے کے لیے اسی سال دوبارہ حج کے لیے نکل کھڑے ہوئے اور اب کے جہاز کے بجائے پیدل ہی عشق کی یہ منزل طے کی۔
منزلِ عشق پہ تنہا پہنچے، کوئی تمنا ساتھ نہ تھی
تھک تھک کر اس راہ میں آخر، اک اک ساتھی چھوٹ گیا
حج کے بعد ترکی کا سفر اختیار کیا، یہاں سلطانِ ترکی سلطان عبدالمجید خان نے آپ کی بیعت کی، پورے ملک میں آپ کی خدا رسیدگی کا ڈنکا بجنے لگا، آپ نے یہ دیکھا تو پھر حج کا ارادہ کر لیا اور حج ادا کر کے 1844ء میں واپس دیوہ شریف تشریف لے آئے، یہاں پہنچ کر کچھ ہی دن گزارے تھے کہ حرمین شریفین کی یاد پھر تڑپانے لگی اور آپ ایک دفعہ پھر پیدل حج کے لیے روانہ ہو گیے، حج کے بعد آپ ایران آئے وہاں سے روس گیے، جرمنی پہنچے، مصر کی سیاحت کی، بیت المقدس میں حاضری دی اور یہاں سے پھر حج کے لیے حجاز روانہ ہو گیے، ادائے حج کے بعد عدن اور یمن تشریف لے گیے اور وہاں سے رمضان میں دوبارہ مکہ مکرمہ پہنچ گیے، حج تک یہیں رہے محرم میں مدینہ منورہ حاضری دی اور دو ہفتے تک روضۂ اقدس کی مجاوری کرنے کے بعد اجمیر شریف سے ہوتے ہوئے 1850ء میں دیوہ شریف نزول فرما ہوئے۔
آپ کی کرامتیں لا تعداد ہیں، لاکھوں آدمیوں نے آپ کے دستِ حق پرست پر بیعت کر کے توبہ کی، آج عالم یہ ہے کہ مسلم اور غیر مسلم بلا امتیاز آپ کی زلفِ محبت کے اسیر ہیں، آپ نے طالبانِ حق کو فقیری کا جو راستہ دکھایا، اس کا خلاصہ تین لفظوں میں سمیٹا جائے تو اس کا عنوان محبت، غیرت اور فنائیت………… بنیں گے، خدا سے محبت بندگانِ خدا سے محبت بلا امتیاز مذہب و مسلک سے محبت آپ کی تعلیمات کا نچوڑ ہے، آپ کا فرمان تھا جس سے ملو یہ خیال کرو کہ یہ مجھ سے بہتر ہے، کسی سے سوال نہ کرو، اللہ پر توکل رکھو، تعویذ گنڈا تک نہ کرو کہ عاشقوں کی دعا مدعا سے بے نیاز ہوتی ہے، اس سے سوائے اس کے کچھ نہ مانگو، درود شریف پڑھو تو اللہ کے لیے پڑھو، طلب دنیا کے لیے نہیں پڑھو، قرآن پاک کی تلاوت کو حرزِ جاں بناؤ، میلاد شریف کی نورانی محفلوں میں شرکت کرو، محبوب کی شکایت نہ کرو کہ یہ مذہبِ عاشقی میں کفر کا درجہ رکھتی ہے، ہر حال میں خوش رہو، تکلیف و راحت سب خدا کی طرف سے ہے پھر شکایت کیسی؟ عشق کی تشریح آپ کے ملفوظات میں یہ کی گئی ہے کہ اس کا ’’ع‘‘ عبادت الہی ہے، ’’ش‘‘ شریعت کی پابندی ہے اور ’’ق‘‘ قربانیٔ نفس ہے، آپ فرماتے تھے کوئی تارکِ نماز وارثی نہیں ہوسکتا، وارثی فقیر کی پہچان یہ بتائی کہ اس کے پاس خدا کے سوا کچھ نہیں ہوتا، اس کے لیے سوال حرام ہے، وہ زمین کو بستر بناتا ہے، اس کا تکیہ اللہ پر ہوتا ہے، اس لیے تکیہ سے بھی بے نیاز ہے، وہ شادی اور بچوں وغیرہ کے جھمیلے میں نہیں پڑتا، تعویذ گنڈا نہیں کرتا، مکان نہیں بناتا، مال و اسباب جمع نہیں کرتا، سواری کا انتظام نہیں کرتا، وہ جیتے جی مر جاتا ہے، زرد چادریں اس کا کفن ہیں، وہ کرتہ پاجامہ ٹوپی وغیرہ کچھ نہیں پہنتا، فرماتے تھے ہم فقیر بنانا چاہتے ہیں پیر اور شیخ نہیں بنانا چاہتے، ہمارا کوئی جانشین نہیں اس لیے کہ عشق میں جانشینی نہیں ہوتی، بھلا مجنوں کا بھی کوئی جانشین تھا؟ عاجزی کی اپنے عمل سے تشریح یوں کی کہ ایک مرتبہ گلی سے گزر رہے تھے، ایک کتا سامنے آ گیا، آپ نے اپنی چادروں کو سمیٹ لیا، ایک مرید ہمراہ تھے، انہوں نے بھی ایسا ہی کیا، آپ نے مسکرا کر پوچھا کہ ’’تم نے ایسا کیوں کیا‘‘ عرض کیا ’’تا کہ میرا احرام ناپاک نہ ہو جائے‘‘ فرمایا کہ ’’مگر میں نے تو اس لیے احرام سمیٹا کہ مجھ ننگِ وجود کے لباس سے چھو کر کہیں خود کتا ناپاک نہ ہو جائے‘‘
نماز میں آپ کے شغف کا یہ عالم تھا کہ وفات کے قریب ایک ایک نماز کو غلبۂ شوق میں بار بار ادا کرتے، لوگ عرض کرتے کہ ابھی تو آپ نماز ادا کر چکے ہیں تو فرماتے ’’خیر! پھر پڑھ لی، اس سے تمہارا کیا حرج ہوا‘‘ روزے داری کا یہ عالم تھا کہ آپ ’’دائم الصوم‘‘ ہوگیے، سات سات دن مسلسل روزہ رکھتے، عمر کے آخری حصے میں یادِ خدا اتنی غالب تھی کہ عرض کیا جاتا ’’کھانا کھا لیجیے‘‘ آپ فرماتے کہ ’’ابھی تو کھایا ہے‘‘
آپ کی شان قلندرانہ اور مجذوبانہ تھی، ایسی شخصیتیں خال خال پیدا ہوتی ہیں اور مستثنیات میں شمار ہوتی ہیں، عام لوگ ان کی پیروی نہیں کر سکتے، ان کا کام فقیروں اور صوفیوں کی ایک ایسی جماعت پیدا کرنا ہوتا ہے جو خلقِ خدا کی روحانی پیاس بجھائے بشادی بیاہ نہ کرنے کی پابندی آپ اپنی بیعت کرنے والے تمام افراد سے نہیں کراتے تھے مگر روحانیت کی منزلیں طے کر کے فقر کے درجے پر فائز ہونے والے اصحاب کے لیے اس کا اہتمام ضروری قرار دیتے تھے، صوفیائے کرام میں اور بھی بزرگ ایسے گزرے ہیں جنہوں نے (بیوی بچوں کے بغیر) مجردانہ زندگی گزاری جیسے سلسلۂ چشتیہ کے نامور بزرگ محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین بلکہ ان کا تو یہ قول خاصا مشہور ہے کہ ’’متابل (اہل و عیال والا) ہونا رخصت ہے اور مجرد ہونا عزیمت، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ نے شادی نہیں کی اور ان کے اس فعل کو قرآن کو قرآن نے سراہا ہے، حضرت رسولِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات دوسری ہے، وہ ہر کہ ومہ کے لیے قابلِ عمل نمونۂ زندگی بن کر تشریف لائے تھے، صوفیا اور اؤلیا ایک شعبۂ خاص میں خدمات انجام دیتے ہیں، اس لیے غلبۂ حال میں ان کے انفرادی خصائل کو فقہی موشگافیوں کا موضوع ٹھہرانا صحیح نہیں، تقریبا 84 سال کی عمر میں جب آپ کا انتقال ہوا ہے تو آپ سترہ بار حج کر چکے تھے، ان میں سے کئی حج پاپیادہ تھے، شاید اسی وجہ سے آج بھی تصوف کے دوسرے سلسلوں کے مقابلے میں وارثی سلسلہ میں سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں، آپ کے جنازے میں اتنا اژدہام تھا کہ سترہ مرتبہ آپ کی نماز جنازہ پڑھی گئی، بیدم شاہ وارثی نے ’’سلامِ عاشقانہ‘‘ کہا ہے کہ
سلام اے شمعِ بزمِ مصطفائی
سلام اے نورِ چشمِ مرتضائی
سلام اے روحِ زہرا جانِ حسنین
سلام اے زینتِ گلزارِ کونین
میں اس ارضِ مقدس پر ہوں قرباں
کہ آسودہ ہے تو جس میں مری جاں
دلِ مہجور لائے تاب کب تک
یہ آخر نیند کب تک خواب کب تک
میں صدقے میٹھی نیندیں سونے والے
ذرا رخسار سے چادر ہٹا لے
اُٹھ اے سروِ خراماں جانِ بیدمؔ
بہارِ گلشنِ ایمانِ بیدمؔ
مشہور بزرگ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی نے فرمایا ہے کہ
’’حاجی وارث علی شاہ جیسا موحد پھر دیکھنے میں نہیں آیا‘‘
حضرت حاجی صاحب کی محبت و عقیدت سے میرا دل برسوں سے سرشار چلا آرہا تھا، میں نے کہیں پڑھا تھا کہ تر جمانِ حقیت علامہ اقبالؔ بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور ان کے قلب پر تجلیات کی جو بارش ہوئی تھی، اس کے متعلق پوچھنے پر صرف اتنا بتا یا تھا کہ
یہ واقعہ اتنا حیران کن ہے کہ بتاؤں تو دنیا والے اسے صحیح تسلیم نہیں کریں گے، ‘‘میری خوش قسمتی تھی کہ اس آستانِ مقدس کی چوکھٹ چومنے کے لیے آج میں بھی سفر میں تھا ہمارے ساتھ تین گاڑیاں تھیں یہ سب انڈیا میں بنی ہوئی ’’ایمبیسیڈر‘‘ گاڑیاں تھیں، یہاں کے وزرائے کرام بھی انہی دیسی گاڑیوں سے سفر کرتے ہیں مگر ان گاڑیوں کی ’’مضبوطی‘‘ کا یہ عالم ہے کہ ان میں سے ایک گاڑی تو راستے ہی میں خراب ہو کر داغِ مفارقت دے گئی، ڈاکٹر عمار رضوی نے پولیس کی گاڑی بھی آگے لگوائی تھی، مجھے شان و شوکت کا یہ مظاہرہ ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا مگر راستے میں زائرین کی بھیڑ بھاڑ دیکھی اور کھوئے سے کھو اچھلتا دیکھا تو پولیس گاڑی کی حکمت سمجھ میں آ گئی، مزار سے متصل آٹھ راستوں پر بازار لگے ہوئے تھے، جن میں کھانے پینے کی چیزوں سے لے کر دنیا جہان کی ہر چیز مل رہی تھی، ایک بات عجیب و غریب دیکھی مٹھائیوں وغیرہ کے کئی اسٹال تھے لیکن کہیں مکھی نہیں دیکھی، کہتے ہیں یہ آپ کا تصرفِ خاص ہے، ایک ایک بازار کئی کئی میل لمبا تھا، معلوم ہوا کہ ان بازاروں میں اپنا مال لانے کے لیے دکاندار مہینوں تیاری کرتے ہیں اور عرس کے بعد بھی کئی کئی دن یہ بازار سجے رہتے ہیں، تا آنکہ ایک ایک آئم بک جاتا ہے، زائرین میں مسلمانوں سے زیادہ نہیں تو ہندو اور سکھ کم بھی نہیں تھے، اپنا ہجوم میں نے زندگی میں حج کے سوا کہیں نہیں دیکھا، اجمیر شریف عرس کے موقع پر میرا جانا نہیں ہوا کہتے ہیں وہاں بھی کم و بیش یہی صورت ہوتی ہے، مزار پر باطنی انوار کی تو بارش ہو رہی تھی، بجلی کی رنگا رنگ روشنیوں سے بھی یہ بقعۂ نور بنا ہوا تھا، بازار کے اندر گاڑیوں کی آمد و رفت منع تھی مگر وزیر کی گاڑی کو پولیس والے مزار تک اندر لے گیے اگر پیدل جانا ہوتا تو شاید کئی گھنٹے لگ جاتے، یہاں بعض پاکستانی زائرین بھی نظر پڑے، عرس کمیٹی کے اراکین ہمارے انتظار میں تھے، دھکے کھاتے کھلاتے ہمیں قبر مبارک تک لے گیے، یہاں فاتحہ پڑھی، دعا کی، تبرک میں ایک چادر بھی عطا ہوئی، انڈین کونسل آف کلچرل ریلیشنز یوپی کے ڈائریکٹر مسٹر ماتھر ہمارے ہمراہ تھے، حضرت حاجی صاحب سے ان کی عقیدت اور چادر کے لیے اُن کا حسنِ طلب دیکھ کر میں نے چادر انہیں دے دی، کچھ نہ پوچھیے ان کی کیا حالت ہوئی، پھولے نہ سما رہے تھے، کہا کہ ’’میری ماں کو کتنی خوشی ہوگی میں بتا نہیں سکتا‘‘ مجھے تو کئی ماہ سے حضرت وارث پاک خواب میں یہاں بلا رہے تھے، مجھے معلوم نہیں تھا کہ مجھے اتنا بڑا تحفہ ملنے والا ہے‘‘
ایک شام یوپی پریس کلب نے میرے اعزاز میں ’’میٹ دی پریس‘‘ کا پروگرام ترتیب دیا، پچاس ساٹھ صحافی شریکِ مجلس تھے، میرے مختصر اظہارِ خیال کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا، میں پاکستان کی اندرونی سیاست کو زیرِ بحث نہیں لانا چاہتا تھا، پھر بھی بچتے بچاتے میں نے بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی، بہت سے سوالات کراچی کی صورت حال کے بارے میں تھے، مہاجر قومیت پر دیر تک گفتگو رہی، یہاں کے صحافیوں کا زور اس پر تھا کہ ’’اس کا مطلب ہے وہاں مہاجر اب تک مہاجر ہے‘‘ ایک سوال
انڈیا کے انتخابی نتائج کے بارے میں تھا، میں نے کہا کہ ’’میرا یہ منصب نہیں کہ آپ کے اندرونی معاملات پر رائے دوں‘‘۔
خواہش تھی کہ دارالمصنفین، اعظم گڑھ کا بھی چکر لگاؤں گا، حضرت مولانا شبلی نعمانی اور حضرت علامہ سید سلیمان ندوی کی سربراہی میں اس ادارے نے اسلامی تاریخ و ثقافت کی بڑی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، اس کے سابق مہتمم مولانا صباح الدین عبدالرحمٰن مرحوم ہمارے دورِ حکومت میں پاکستان تشریف لائے تھے تو کچھ حقیر خدمت اس ادارے کی میں نے بھی کی تھی، تب سے ادارے کے کار پرداز چاہتے ہیں کہ وہاں حاضری دوں، یہاں آ کر حاضری کے ارادے کی اطلاع بھی دارالمصنفین کو کرا دی گئی تھی مگر پتہ چلا کہ ہوائی جہاز ادھر جاتا نہیں، ٹرین کئی جگہ بدلنی پڑتی ہے اور سڑک کے ذریعے آنے جانے میں تقریباً چودہ گھنٹے لگ جائیں گے پھر سڑک بھی کچھ خاص نہیں اور اس پر مستزاد انڈیا کی ایمبیسیڈر گاڑی………….. ایک وزارتی گاڑی کا حشر میں دیویٰ شریف کے سفر میں دیکھ چکا تھا، لاچار ارادہ ترک کرنا پڑا مگر دارالمصنفین دیکھنے کی حسرت اب تک دل میں موجزن ہے، دیکھیے! قسمت کب یاوری کرتی ہے۔
- کتاب : نقشِ رہ گزر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.