Sufinama

حضرت سلطان باہو

خالد پرویز ملک

حضرت سلطان باہو

خالد پرویز ملک

MORE BYخالد پرویز ملک

    دلچسپ معلومات

    پنجاب کے عظیم صوفی شعرا۔

    سر زمینِ پنجاب ایک ایسی پاک شفاف دھرتی ہے جس میں صوفیائے کرام اور اؤلیااللہ نے تبلیغِ اسلام کا سلسلہ جاری رکھا انہوں نے پنجاب باسیوں کو دین اسلام سے روشناس کرایا، ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے یہاں کے بسنے والے لوگوں کو مادری زبان میں انہیں دعوتِ حق دی، انہوں نے کوشش کی کہ جو پیغام عوام تک پہنچانا چاہتے ہیں اسی طرح ان تک پہنچے جس طرح کہ وہ چاہتے ہیں اسی وجہ سے انہوں نے عوام کی مادری زبان میں بات کی، دوسری اہم بات جو انہوں نے محسوس کی وہ پنجابیوں کی موسیقی سے لگ تھی یہاں کے لوگ خود گاتے اور کافیاں سننے کے بہت شوقین ہیں یہی وجہ ہے کہ پنجاب باسیوں کو مختلف صوفیائے کرام کا کلام ازبر ہے اور وہ اکثر محفلوں میں بڑے شوق سے گاتے اور سنتے ہیں اسی نکتہ کے پیش نظر ان صوفی شعرا نے اپنے پیغام کو خوبصورت شاعری کے ذریعہ عوام تک پہنچایا۔

    ان صوفی شعرا میں سلطان العارفین حضرت سلطان باہو کا نام خاصا نمایاں ہے جن کا بہت سا کلام عوم کے دلوں، ذہنوں اور زبانوں پر ہے، سلطان باہو گیارویں صدی ہجری میں پیدا ہوئے، آپ 1039 ہجری بمطابق 1629 کو ضلع جھنگ کے ایک معروف قصبہ شور کوٹ شریف میں پیدا ہوئے اور ایک بھرپور زندگی گزار کر 1102 ہجری بمطابق 1690 میں انتقال فرما گئے، آپ کے والد بزرگوار کا نام حافظ محمد بازید اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام بی بی راستی تھا جو ایک نیک بزرگ خاتون تھیں، سلطان باہو نے بچپن اور جوابی شور کوٹ شریف میں بسر کی اور ہزاروں لوگوں کو دینِ اسلام سے روشناس کرایا۔

    آپ کے والد بزرگوار حضرت محمد بازید سلطنت دہلی کے منصب دار تھے اور آپ کو شاہجہاں نے دو گاؤں بطورِ جاگیر عطا کئے تھے، ایک گاؤں ملتان کے قریب تھا اور دوسرا شور کوٹ کے نواح میں واقع تھا آپ کے والدین کے مزار شور کوٹ شہر میں واقع ہیں جنہیں مزار مائی باپ کے نام سے پکارا جاتا ہے، جہاں سیکڑوں لوگ روزانہ فیض یاب ہوتے ہیں سلطان باہو شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں ہوئے ہیں، تواریخ کے مطابق آپ کی دورانِ سفر آپ نےاورنگ شاہی نام سے ایک کتاب بھی تحریر فرمائی جو شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کو مخاطب کر کے لکھی گئی تھی اس کتاب میں تلقین معرفت کا بیان ہے۔

    جس طرح کتب سے عیاں ہے آپ نے ظاہری بیعت پیر عبدالرحمٰن گیلانی دہلوی کے ہاتھ پر کی اس بیعت کے بعد آپ سیاحت پر نکلے اور سندھ، بغداد، مصر، شام، روم، غرب اور کابل کی سیاحت فرمائی، اس سفر کے دوران بے شمار عارفینِ صوفیائے کرام اور درویشوں سے ملاقات فرمائی اس سفر میں آپ نے حج بھی کیا اور زیارت روضۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کاشرف بھی حاصل کیا۔

    سلطان باہو نے عوام کو دین سے روشناس کرانے، تعلیم کو عام کرنے اور جہالت کو دور کرنے کے لئے قلمی جہاد فرمایا اس سلسلے میں آپ نے فارسی زبان میں 144 کتب تصنیف فرمائیں ان میں سے بہت بڑی تعداد میں نایاب ہیں اس وقت صاحبزادہ ڈاکٹر سلطان الطاف علی اور کچھ دیگر احباب کی کوششوں سے صرف 30 کتابیں دستیاب ہوسکیں ہیں جن کے نام یوں ہیں۔

    اسرار قادری، امیرالکونین، اورنگ شاہی، توفیق الہدایت، شیخ برہنہ، جامع الاسرار، حجب الاسرار، دیدار بخش، دیوانِ باہو، رسالہ رومی، سلطان الوہم، شمس العارفین، عقل بیدار، عین العارفین، عین الفقر، فضل القا، قرب دیدار، کشف الاسرار، کلید التوحید صغیر، کلید التوحید کبیر، کلید جنت، گنج الاسرار، محک الفقر، محک الفقرا صغیر، محک الفقرا کبیر، مفتاع العارفین، نورالہدیٰ صغیر، نورالہدیٰ کبیر۔

    ان کتب کے علاوہ آپ نے مادری زبان میں ایک کتاب ابیاتِ باہو کے نام سے تصنیف فرمائی، ابیات باہو اب تک ہزاروں بار چھپ چکی ہے، یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں آپ کی زندگی کی ریاضت کا نچوڑ ہے، یہ ایک منظوم عارفانہ کلام ہے جو عوام کے دلوں اور ذہنوں پر راج کر رہا ہے ابیاتِ باہو کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے جن میں درج ذیل طور پر قابل ذکر ہیں، ابیات باہو مع ترجمہ و شرح از ڈاکٹر سلطان الطاف علی، ابیات باہو معہ منظوم ترجمہ پشتو از فقیر عبدالحمید سروری باہو منظور اردو ترجمہ سرور مجاز، پیامِ باہو، ابیات کا نثری ترجمہ از ضمیر جعفری، دی ابیات آف سلطان باہو از مقبول الٰہی، ابیات باہو سندھی ترجمہ از ڈاکٹر گل حسن لغاری، ابیات باہو براہوی ترجمہ از پیر محمد زبیرائی، ابیات باہو فارسی ترجمہ از ڈاکٹر سلطان الطاف علی، سلطان باہو نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ عوام کو محبت پیار اور دیانت داری، بھائی بچارے کا درس دیا، آپ نے عوام کو علم و عرفان، پاکیزگی و نفس اور صفائی قلب سے روشناس کرایا۔

    سلطان باہو کا شمار ممتاز صوفیا میں ہوتا ہے : اپنی کتاب عین الفقر میں سلطان باہو لکھتے ہیں کہ ان کی ماں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو جس نے ان کا نام باہو رکھا جو ایک نقطہ سے یاہو ہو جاتا ہے، آپ کے والد کا نام حضرت بازید محمد ہے وہ حافظِ قرآن، عالم اور شریعت کے سخت پابند تھے، کوہستان سے ملتان آکر اقامت گزیں ہوئے، ان کو دوبارہ کوہستان بھیجے جانے کا احکام صادر ہوئے لیکن انہوں نے انکار کردیا، ملتان سے وہ شور کوٹ چلے آئے اور وہاں سکونت اختیار کی، شور کوٹ میں ان کو جاگیر ملی اور وہیں وفات پائی، ان کے والدین کے مزار شور کوٹ میں ہیں ایامِ طفولیت ہی سے آپ پر کشف و کرامات ظاہر ہونا شروع ہوگئی تھیں، شیر خوارگی کے زمانے میں اپنے روحانی پیر و مرشد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی طرح ماہ رمضان میں آپ نے دن کو دودھ نہیں پیا، گویا دن کو روزہ رکھتے تھے ابتدائی تعلیم و تربیت والدہ ماجدہ کی نگرانی میں ہوئی۔

    تلاشِ حق کی خاطر وہ پہلے حضرت شاہ حبیب اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جن کے کمالات صوری و معنوی کا بہت شہرہ تھا ان کی ہدایت کے مطابق حضرت سید عبدالرحمٰن قادری دہلوی کے ہاں پہنچے اور فیوضِ روحانی سے متمتع ہوئے، سلطان باہو اگر چہ امی تھے، تا ہم و علم کے بیکراں سمندروں پر حاوی تھے، آپ نے لگ بھگ ڈیڑھ سو کتب فارسی میں اپنی یادگار چھوڑی ہیں، حلیہ مبارک ایسا تھا کہ دیکھنے والا دیکھتا رہ جاتا مگر شوقِ دیدار بڑھتا ہی رہتا، سر متوسط درجے کا گول، نہ بہت بڑا نہ بہت چھوٹا، اکثر سر منڈواتے، پیشانی فراخ تھی، پلکیں اور بھویں بڑی بڑی، موٹی اور چمکدار تھیں، آنکھیں سیاہ اور سفیدی میں سرخ رگیں بکثرت تھیں، ناک بلند، رخسار پر گوش موزوں نہ بالکل گول نہ بالکل لمبوترے متوسط درجے کے تھے، ٹھوڑی نہ بہت لمبی نہ بہت چھوٹی جس سے چہرہ مبارک نہایت خوبصورت معلوم ہوتا تھا، ریشِ مبارک گھی تھی، تریسٹھ برس کی عمر میں داڑھی میں مہندی لگایا کرتے تھے مگر سارے بال سفید نہ تھے، سینہ فراخ اور خوبصورت تھا سارا بدن ایسا موزوں تھا کہ لوگ ان کے جمال پر نگاہ جمائے رکھتے تھے، وہ عظیم صوفی اور جلیل القدر عالم ہونے کے ساتھ ساتھ پنجابی اور فارسی زبانوں کے ممتاز شاعر تھے، ان کے پنجابی ابیات کی شہرت آفاقی ہے، آپ کے عقیدت مند ملک کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں۔

    حضرت سلطان العارفین توجہ کے بارے میں اپنی فارسی تصنیف میں فرماتے ہیں کہ

    ترجمہ : میری آدھی نظر، نیم نظر بھی سو آفتاب سے بہتر ہے، اگر سو آفتاب بھی نصف النہار پر پوری آب و تاب سے چمک رہا ہو تو پھر بھی میری آدھی نظر اس سے بہتر اور قوی ہے، توجہ میں اس قدر اثر، اللہ تعالیٰ کے ذاتی نور کی خاص تجلی ہے جو سلطان العارفین کو عطائے ربی بچپن سے ملی تھی، اس لیے آپ مادر ذات ولیِ کامل تھے۔

    آپ کے پنجابی اشعار کے بعد میں اسم ہو آتا ہے جو عجیب تاثر پیدا کرتا ہے، اسم ’’ہو‘‘ اللہ تعالیٰ کا پاک اسم ذات ہے، اس پر سلطان باہو فرماتے ہیں باہو ایک نطقہ سے یاہو بن جاتا ہے اور یاہو کا ورد دن رات ہوتا رہتا ہے، پھر فرماتے ہیں کہ اے طالب! جان لے، کیا تو نہیں جانتا کہ باہو کے معنیٰ ہیں باخدا یعنی خدا کےساتھ واصل، وہ خدا سے الگ نہیں ہے اور اگر (اسم باہو) الٹا کر دیا جائے تو وہ وہاب بن جاتا ہے، ایک اور جگہ اپنی تصنیف میں فرماتے ہیں کہ اگرچہ ہمیں ظاہری علم نہیں ہے لیکن باطنی علم کی وجہ سے ہماری جان پاک ہوگئی، پھر یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہمیں ذاتِ الٰہی سے انوارِ تجلیات کے مکاشفوں کے باعث ورد وظیفہ اور چلوں کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم وحدانیت کے گہرے سمندر میں غرق رہتے ہیں، ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ

    باہو کی قبر سے بھی اس کے نام باہو کے ساتھ حق کے نعرے نکلیں گے اور بات درست ہے کہ حقِ باہو یا باہو بے شک باہو کے نعرے نکلتے ہیں اور یہ نعرے بے اختیار نکلتے ہیں، عہدِ بچپن میں آپ کو کھیل کود پسند نہ تھا، تنہائی زیادہ پسند فرمایا کرتے، آپ کا ایک پنجابی بیت ہے۔

    میں شہباز کراں پرواز اندر دریا کرم دے ہو

    زبان میری جو کن برابر موڑاں کم قلم دے ہو

    ارسطو تے افلاطو ور گے میرے اگے کسی کم دے ہو

    حاتم جہے لکھ ہزاراں در باہو دے منگلتے ہو

    ایک اور بیت ہے۔

    ترک دنیا دی جداں کیتو سے تداں فقر ملیو سے خاصہ ہو

    راہِ فقر داتداں ملیو سے جداں ہتھ پکڑیوں سے کاسہ ہو

    دریا وحدت دا نوش کیتو سے اجے جی پیاسا ہو

    نین فقررت، ہنجور وون باہو تے لوکاں بھانے ہاسہ ہو

    ترجمہ : ہم نے جس سمے اس دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور ترکِ تعلق کر لیا تو پھر ہم کو خاص فقر معرفت اور عرفان حاصل ہوا ہے، بعد ازاں فقر کا خاص الخاص راستہ اور مقام ہم پر اس وقت کھلا جب ہم نے کاسۂ گدائی ہاتھ میں لے کر نفس کو درد بدر ذلیل و رسوا کیا، ہم وحدت اور معرفت کا سارا دریا پی گئے مگر پھر بھی ہماری پیاس نہیں بجھی، ہم تشنہ ہیں اور ہلِ من مزید پکارتے رہتے ہیں۔

    اے باہو! فقر کی راہ تو صبح و شام ہر وقت عشق سوز محبت سے خون کے آنسو ہی رونا ہے۔

    آپ نے روزی کی خاطر کوئی دنیاوی شغل اختیار نہیں کیا، کتابوں میں صرف اتنا مرقوم ہے کہ آپ نے کھیتی باڑی کے سلسلے میں دو یا تین بار بیلوں کی جوڑی خریدی اور کھیتی باڑی شروع کی مگر جب فصل پک کر تیار ہو جاتی تو اسی حالت میں بمعہ بیلوں کے چھوڑ چھاڑ کر کہیں ویرانوں میں نکل جاتے، لوگ فصل کاٹ کر استعمال میں لے آتے اور جو کوئٰ بھی چاہتا، بیلوں کو بھی ہانک کر لے جاتا، وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل بھروسہ رکھتے، زیادہ تر فقر و فاقہ میں زندگی کے ایام بسر کرتے، آپ اپنی تصانیف میں فرماتے ہیں کہ فاقہ کی رات فقر کے لئے معراج کی شب ہوتی ہے، پھر فرماتے ہیں کہ تو اپنا پیٹ کھانے سے خالی رکھ تاکہ تو اس میں معرفت کا نور دیکھے، فاقہ کو ہر ولی نے پسند کیا ہے، اس کے بغیر معرفتِ الٰہی نہیں مل سکتی، فقرا کاملین ان کثافتوں سے اپنے بدن کو صاف رکھتے ہیں، صرف زندہ رہنے کی خاطر کھاتے ہیں، نہ کھانے کے لئے زندہ رہتے ہیں، اسی لیے فقر میں فاقہ ضروری ہے، عبادات ذکر و فکر کی پہلی منزل ہی فاقہ ہے، آپ اپنی تصانیف کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر جاہل ان کتب کا مطالعہ کرے تو عالم ہوجائے اگر عالم پڑھے تو عامل ہوجائے اگر عامل پڑھے تو کامل ہوجائے اور اگر کامل پڑھے تو اکمل ہوجائے گا، اگر اکمل پڑھے گا تو روشن ضمیر ہوجائے گا۔ (تنویر ظہور روزنامہ جنگ مؤرخہ 18 ستمبر 1999)

    سلطان باہو کی تصنیفات : فقیر نور محمد کلا چوری رقمطراز ہیں کہ سلطان باہو نے (بزبانِ فارسی) ایک سو سے متجاوز کتابیں علم تصوف میں تصنیف فرمائی ہیں، من جملہ ان کی تقریباً چھوٹی بڑی چالیس کتابیں قلمی بزبانِ فارسی راقم الحروف کے پاس موجود ہیں، علم تصوف میں اس فقیر کا مطالعہ بہت وسیع رہا ہے اور تقریباً ہر زبان و ہر زبان کے جملہ متقدمین و متاخرین سالکین و مشائخ کی تصانیف کو ایک ایک کر کے دیکھا ہے لیکن جو تاثیر اور برکت سلطان باہو کی کتابوں میں پائی ہے دیگر تصانیف سے کہیں اس کی بو بھی نہیں آئی، اللہ تعالیٰ شاہدِ حال ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے گویا آں حضرت کی روح پر فتوح حروف اور عبادت میں اس طرح جاری اور ساری ہے کہ محض کتاب پڑھنے سے ہی طالب کے وجود میں حضرت سلطان وحید الزماں کی توجہ کا نور برقِ براق کی طرح بے واسطہ متجلی ہوجاتا ہے اور اہلِ مطالعہ کو بے ریاضت مقامِ راز میں پہنچا دیتا ہے اور بلا مجاہدہ صاحبِ مشاہدہ بنا دیتا ہے، یہ فقیر متواتر تیس سال تک آپ کی فارسی کتابوں کو ہاتھ سے لکھتا رہا۔

    کتابوں کے مطالعہ کی تاثیر کے متعلق خوس سلطان العارفین کے متعدد ارشادات موجود ہیں، ہم یہاں پر آپ کتب متبرکہ سے صرف دو اقتباسات درج کرتے ہیں، اپنی کتاب امیر الکونین کی ابتدا فرماتے ہیں کہ

    ”تصوف کی یہ کتاب قرآن شریف کی با تاثیر تفسیر ہے جس کے مطالعہ سے انسان روشن ضمیر ہو جاتا ہے، ظاہر ہے دنیاوی خزانوں کا تصرف اور پوری پوری عنایت الٰہی اور باطن میں معرفت و ہدایتِ الٰہی کا تصرف حاصل ہوتا ہے۔

    آپ کی نہایت نادر، جامع اور انتہائی معارف و اسرار پر مشتمل کتاب نور الہدیٰ میں منقول ہے کہ

    ”جو شخص اس کتاب کو اخلاقِ یقین اور اعتقاد کے ساتھ دن رات اپنے مطالعہ میں رکھے گا ان شااللہ واقف اسرار الٰہی ہوجائے گا، اسے تعلیم اور تلقین کی حاجت نہیں رہے گی، یہ کتاب معرفتِ حق تعالیٰ اور حضرت محمد مصطفیٰ تک پہنچا نے کا وسیلہ ہے اس کا مطالعہ کرنے والا خلق کا راہ نما اور باطن با صفات ہوجاتا ہے لیکن طالب اہلِ مطالعہ صادق الارادت اور با حیا ہو مذکورہ بالا عبارت میں محض الاف و گزاف اور مبالغہ آمیز کلمات نہیں ہیں بلکہ ٹھوس حقائق ہیں، اگر کوئی شخص صدق دل اخلاص و یقین اور ادب و احترام سے متواتر شب و روز آپ کی تصنیفات کا مطالعہ کرتا رہے تو وہ ضرور بالضرور اپنی دلی مراد کو پہنچ جاتا ہے۔

    یہ بیان کیا جاتا ہے کہ نثری کتب کے علاوہ آپ نے ابیات باہو کے نام سے پنجابی زبان مین سہ حرفی تصنیف فرمائی چنانچہ حضور کے پنجابی ابیات میں بھی ایک نہایت عجیب باطنی جادو بھرا ہے کہ جس مجمع اور مجلس میں آپ کا کوئی پنجابی ابیات پڑھا گیا ہے تمام سر معین وجد و کیف کی سی حالت طاری ہوگئی ہے اور حق حق ہو ہو کے نعروں سے ایک کہرام مچ گیا ہے نیز پہلے زمانے کے ان پڑھ طالب صادق اور پاک باز فقرا اور درویش صوفی ان پنجابی ابیات کو ازبر یاد رکھتے تھے اور دن رات ان کو بطورِ ورد پڑھا کرتے تھے اور اس سے منازلِ سلوک طے کر تے تھے نیز بعض کامل اصفیا اور فقرا کو گذشتہ زمانے میں بار بار دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنے سینوں کو حلقہ ہائے ذکر کے اندر حضور کے پنجابی ابیات سے گرمایا کرتے تھے یعنی شیخ اپنے طالبوں سمیت جب کبھی حلقۂ ذکر کی صورت میں جمع ہوکر بیٹھے تھے تو کسی خوش الحان طالب سے اونچی آواز کے ساتھ حضور کے پنجابی ابیات کو پڑھنے کو کہتے تھے اور جب مجمع ان ابیات کے سننے سے متاثر ہو جاتا تھا تو سب مل کر اونچی آواز سے کلمے کا ذکر جہر شروع کردیتے تھے، اس قسم کے حلقہ ہائے ذکر میں نہایت عجیب باطنی کیفیات دیکھنے میں آئی ہیں اور کمال درجے کے فیوضات و برکات طالبوں کو حاصل ہو جایا کرتے ہیں لیکن آج کل تو زمانہ کچھ اور ہوگیا ہے، نہ وہ طالب صادق رہے، نہ وہ شیخ پاک باز نہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے حلقے باقی رہ گئے ہیں اور نہ ذکر میں وہ مستی، کیف اور تاثیر باقی رہ گئے ہیں۔

    اسم باہو کی وجہ تسمیہ : سلطان باہو کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی راستی جو اؤلیائے کاملین میں سے تھیں ان کو باطن میں قبل از ولادت اعلام ہوا کہ آپ کے بطن سے عنقریب ایک ایسا ولی اللہ عارفِ واصل اور فقیرِ کامل ظہور فرمائے گا جو آخری زمانے میں تمام روئے زمین کو اپنے انوارِ فیضان اور اسرار و عرفان سے پر اور مملو کردے گا، اس مولود مسعود کو باہو کے نام سے موسوم کرنا کہ وہ صاحبِ اسم بامسمیٰ یعنی باہو باخدا ہوگا، سلطان العارفین اپنی تصنیفاتِ متبرکہ میں کمال شکریہ ادا فرماتے ہیں کہ آپ کی والدہ صاحبہ نے آپ کا نام باہو رکھا، چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ

    رحمت و غفران بود بر راستی

    راستی از راستی آراستی

    یعنی مائی راستی صاحبہ کی روح پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو کہ انہوں نے ہمارا نام باہو رکھا اور ایک دوسری جگہ ایک شعر میں یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ

    رحمت و غفران بود بر راستی

    راستی از راستی آراستی

    یعنی اللہ تعالیٰ کی بخششیں اور رحمتیں ہوں مائی راستی صاحبہ پر (جنہوں نے ہمارا نام باہو رکھ کر تسمیہ کا حق ادا کیا) اے اللہ! تو ہی نے ہماری والدہ مائی راستی صاحبہ جو (جیسا کہ نام سے ظاہر ہے) راستی اور سچائی سے آراستہ کیا۔

    اسمِ باہو کے رموز و اسرار : آپ اللہ تعالیٰ کے اسم کے عین مظہر ہیں اور اپنی تصانیف میں فقیر باہو فنا فی عین یا ہو ذکر فرماتے ہیں اور اسم باہو اور یا ہو میں کبھی نثر اور کبھی نظمیں جابجا بڑے اسرار عجیبہ اور معارف غریبہ کا انکشاف فرماتے ہیں چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ اگر بائے بشریت حائل نہ ہوتی (تو) باہو عین یا ہو تھا اور نیز فرماتے ہیں کہ

    باہو باریک نقطہ یا ہو می شود

    ورد باہو روز و شب یا ہو بود

    یعنی باہو، صرف ایک نقطے سے یاہو بن جاتا ہے، باہو کا ورد دن رات یاہو رہتا ہے، ایک اور مصرعہ میں فرماتے ہیں کہ

    تو نمی دانی کہ باہو یا خداست

    یعنی تو نہیں جانتا کہ باہو کہ معنیٰ ہیں باخدا یعنی اللہ کے ساتھ واصل اور متصل اور اس شعر میں تو نہایت ہی عجیب رمز ادا فرماتے ہیں کہ

    ہر چہ خواہی طالب از باہو بیات

    اسم باہو ہو چیست یعنی کج وہاب

    اے طالب! تو جو کچھ بھی چاہے فقیر باہو سے طلب کر کیوں اسم باہو الٹا وہاب ہے یعنی اسم باہو کو اگر الٹا کر پڑھو تو وہاب بن جاتا ہے یعنی فقیر باہو اللہ تعالیٰ کے انوار ذات و صفات میں فنا و بقائے کل حاصل کر چکا ہے اسی لیے وہ اللہ تعالیٰ کی صفت وہاب سے انفس میں متصف اور آفاق میں جلوہ گر ہے۔

    اسمِ باہو کے متعلق رموز و اشارات : اسم باہو کے متعلق بے شمار رموز و اشارات آپ کی تحریروں میں پائے جاتے ہیں، اس عارف ربانی اور شہبازِ لامکانی کے اسمِ مبارک میں نہایت عجیب و غریب برکات اور ہے، چنانچہ کتابوں کو بار بار لکھا ہے اور دن رات مطالعہ کرتا رہا لیکن کتابوں کی نسبت ادب اخلاص اور صدق یقین کا یہ عالم تھا کہ اس طویل عرصے میں نہ کبھی کتاب کو بے وضو لکھا ہے اور نہ بے وضو ہاتھ لگایا ہے اور کتاب کی تاثیر اور برکت کا یہ حال تھا کہ دن کو جو عبارت لکھی ہے یا پڑھی ہے اور اس میں فقیر اور معرفت کا جو مقام بیان ہوا ہے وہی حالت اور وہی کیفیت رات کو قلب اور قالب میں جاری اور طاری ہوگئی ہے اور وہی مقام کھل گیا کبھی کوئی ایسی عبارت نہ لکھی ہے اور نہ پڑھی ہے جس کا اسی وقت فوری اثر نہ ہوا ہو اور ان کتابوں کے اندر ایک ایسا لازوال ذاتی نور مستور ہے کہ اب بھی جس وقت کتاب کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو بالکل نئے انوار اور اچھوتے اسرار کا انکشاف ہوتا ہے، بعض لوگ چند روز بطور تجربہ و آزمائش کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور جب کوئی فوری اثر انہیں دیکھتے تو سمجھتے ہیں کہ کتابوں کے مطالعہ کی تعریف میں مبالغہ سے کام لیا گیا ہے اور بد اعتقاد ہوکر کتاب کا مطالعہ چھوڑ دیتے ہیں، ایسے نفسانی وقتی غرض مند طالبوں کے لئے معرفت کا باطنی راستہ ہرگز نہیں کھلتا بلکہ اس راستے میں وہی طالب منزلِ مقصود کو پہنچ سکتا ہے جس کی ہمت آسمان کی طرح بلند، جس کا عزم پہاڑ کی طرح راسخ اور جس کا صبر اور تحمل زمین کی طرح پائیدار ہو۔

    تاثیرات دیکھنے میں آئے ہیں اگر آپ کے اسمِ مبارک کے جملہ اسرار و معارف مفصل لکھے جائیں تو ایک علیٰحدہ دفتر بن جائے، یہ امر واقع ہے کہ بعض طالبانِ ازلی پر تو صرف اسم 'باہو' کے سنتے ہی حالتِ وجد طاری ہوجاتی ہے اور ان لطیفۂ قلب نے اختیار ذکر اسم اللہ سے جاری ہو جاتا ہے۔

    سلطان باہو کا وصال : آپ نے 63 سال کی عمر پائی، 1102 ہجری بمطابق 1690 میں بتاریخ یکم جمادی الثانی اس دار فانی سے دار البقا کی طرف رحلت فرمائی، آپ کامزارِ مبارک دیارئے چناب کے مغبری کنارے ایک گاؤں میں جو آپ ہی کے اسمِ مبارک موضع سلطان باہو سے موسوم ہے اور جھنگ سے پچاس میل دور جنوب کی جانب قصبہ گڑھ مہاراجہ کے نزدیک تحصیل شور کوٹ میں واقع ہے، زیارت گاہِ خواص و عوام اور مرجع جملہ خلائق ہے، توحید کے متوالوں کا ہر وقت اجتماع رہتا ہے چار دانگ عالم سے جام عرفان کے متلاشی پروانہ وار جوق در جوق آپ کے مزارِ مقدس پر حاضری دیتے ہیں اور تسکین دل و جان اور منزل مراد حاصل کرتے ہوئے بیان کئے جاتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ 1236 ہجری میں آپ کا موجودہ دربار حضرت محمد امیر سلطان سجادہ نشین نے تعمیر فرمایا، اس مزار پر لاکھوں عقیدت مند ہر سال حاضری دیتے ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے