Font by Mehr Nastaliq Web

ذکر حضرت بندگی شیخ قوام الدین لکھنوی

خواجۂ کمال

ذکر حضرت بندگی شیخ قوام الدین لکھنوی

خواجۂ کمال

MORE BYخواجۂ کمال

    دلچسپ معلومات

    ’’تحفۃ السعدا‘‘ سے اخذ شدہ۔

    آپ کی جائے پیدائش اور ابتدائی تربیت گاہ شہر کڑا مانک پور تھا، وطنِ مالوف سے منتقل ہو کر لکھنؤ میں قیام پذیر ہو گیے تھے، بندگی مخدوم شیخ مینا قدس سرہٗ کے والد مخدوم شیخ قطب الدین، مخدوم شیخ قوام الدین کے چچازاد بھائی اور مرید تھے، وہ اپنے وطن کڑا مانک پور سے اپنے پائی کے ساتھ لکھنؤ ہی میں آ کر بس گیے تھے۔

    منقول ہے کہ بندگی شیخ قوام الدین نے سات حج کیے تھے، ایک مرتبہ کسی وادی سے گزر رہے تھے، ایک کتے کو دیکھا کہ پیاس سے جاں بلب ہو رہا ہے، آپ نے فرمایا کہ کوئی ہے جو اس کتے کو پانی پلا کر سات حج کا ثواب لے؟ ایک شخص نے پانی پلا کر سیراب کر دیا، ہاتفِ غیبی کی آواز آئی کہ جب تک تمہاری زندگی ہے، ہر سال تمہارے نام سے حج مبرور لکھا جائے گا، اس شفقت کی وجہ سے جو تم نے اس کتے پر کی ہے

    منقول ہے کہ حضرت شیخ قوام کو بیعت حضرت نصیرالدین محمود اودھی سے تھی، خلافت مخدوم جلال الدین جہانیاں سے ملی، ذکر و اشغال کی تلقین مخدوم جہانیاں کے علاوہ حضرت شیخ قطب الدین دمشقی (مصنف رسالہ مکیہ) سے بھی تھی، نسخۂ معیار التصوف مصنفہ بندگی مخدوم شیخ قوام الدین میں بھی یہی لکھا ہے۔

    منقول ہے کہ مخدوم شیخ قوام الدین متأہل تھے، آپ کے کئی صاحبزادگان تھے، بڑے صاحبزادے کا نام نظام تھا، ایک روز کا واقعہ ہے کہ شیخ قطب الدین جماعت سے نماز پڑھا رہے تھے، شیخ نظام بعد میں پہنچے اور جماعت میں شریک ہو گیے، (اس اثنا میں کوئی ایسی بات ہوئی کہ شیخ قطب الدین کو تکلیف پہنچی) شیخ قطب الدین نماز سے فارغ ہو کر یہ سوچنے لگے کہ مخدوم شیخ قوام الدین کے فرزندان مخدوم کی موجودگی میں تو میری عزت کرتے ہی نہیں ہیں، مخدوم کے بعد میری عزت کیا ہوگی؟ دوسری نماز کے وقت حضر ہوئے، حضرت مخدوم کو ان کی کوفت کا سبب معلوم ہو چکا تھا، فرمایا کہ جو شخص برادرم قطب الدین کو تکلیف پہنچائے گا، وہ باقی نہ رہے گا۔

    اس جملے سے شیخ نظام الدین کو اس قدر تشویش اور پریشانی ہوئی کہ اسی میں ہلاک ہوگیے۔

    منقول ہے کہ ایک روز حضرت مخدوم نے اپنی اہلیہ محترمہ سے فرمایا کہ برادرم قطب الدین گاہ بہ گاہ کسی نہ کسی کام کے لیے میرے مکان میں آتے ہیں اور تم ان سے پردہ کرتی ہو، وہ تمہارے فرزند کے برابر ہے، اب سے سامنے ہوا کرو مگر بی بی صاحبہ اس کو روا نہ رکھتی تھیں، مخدوم نے فرمایا کہ میری بات نہیں مانتی ہو، ایک وقت ایسا آئے گا کہ خود کو دکھاؤ گی، اس حال میں کہ نہ سر پر دوپٹہ ہوگا، نہ پاؤں میں جوتی اور جا کر قدموں میں گر پڑو گی

    لوگوں کا بیان ہے کہ مخدوم کا وصال ہوا تو فاتحۂ سیوم کے بعد شیخ قطب الدین نے کہا کہ میں اپنے بھائی کی خاطر داری میں اپنے وطن سے جدا ہوا تھا اور مسافرت میں گزار رہا تھا، اب کہ بھائی نہیں رہے تو اپنے وطن جاتا ہوں، مسافرت اور محنت کا غم کیوں اٹھاؤں؟ بشہرِ خود رویم و شہریارِ خود باشم

    خبر کسی طرح حویلی میں پہنچ گئی اور بی بی صاحبہ سے کسی نے کہہ دیا، اس گفتگو کو سنتے ہی بی بی صاحبہ ایسی پریشان اور مضطرب ہوئیں کہ نہ دوپٹہ کا خیال رہا نہ جوتی اور دوڑتی ہوئی آئیں اور شیخ قطب الدین کے قدموں میں گر پڑیں، یہی وجہ ہوئی کہ شیخ قطب الدین بھی لکھنؤ ہی میں رہ گئے اور وطن کا ارادہ ترک کر دیا۔

    انہیں شیخ قطب الدین سے یہ بات منقول ہے کہ

    تصوف و سلوک بوالہوسی نہیں ہے کہ فلاں شخص جاہ کوتاہ پہنتا ہے، میں بھی پہنوں یا فلاں شخص نمازیں بہت پڑھتا ہے، میں بھی پڑھوں۔

    ایں کارِ کسانی است کہ خیزد ز سر و جاں

    ایں خانہ خرابی رہِ ہر بوالہوسی نیست

    سیمرغ تو اند کہ کند خانہ بہ کوہِ قاف

    ترجمہ : یہ ان لوگوں کا کام ہے جو سر و جان سے دستبردار ہوتے ہیں، یہ خانہ خرابی ہر بوالہوس کا طریقہ نہیں ہے، سیمرغ ہی کے بس کی بات ہے کہ کوہِ قاف میں گھر بنا لیتا ہے۔

    تصوف و سلوک یہ بھی نہیں کہ علم حاصل کیا، درس و تدریس میں مشغول ہو گیے، بحث و مباحثہ کی مجلس آراستہ کی، خود صدر نشیں ہو کر عزت و جاہ کی مسند بچھائی۔ ان میں سے کوئی چیز بھی سلوک و تصوف نہیں ہے۔

    تصوف یہ ہے کہ علم حاصل کرے، علمِ مشروع میں مشغول ہو مگر دل نخوتِ علم سے پاک رہے، عمل کرے مگر اپنے عمل کو ناکردہ کے برابر سمجھے، احوال و مقامات حاصل کرے اور مقامِ مکاشفہ و مشاہدہ تک پہنچے۔

    مقصود گشت ثابت از گفتن و شنیدن

    بگذار سبق گفتن از قرب تا نمانی

    ابرار سبق گوید، نہ صوفیِ مقرب

    بے ترکِ سبق گفتن از مقرباں ندانی

    ترجمہ : ان تمام گفت و شنید سے یہی بات ثابت ہوئی کہ سلسلۂ درس و تدریس کو چھوڑیے تاکہ مقامِ قرب سے محروم نہ رہ جائے، درس و تدریس ابرار کا کام ہے، صوفیانِ مقرب کا یہ کام نہیں، جب تک کوئی سبق گوئی کی روش کو نہ چھوڑے، اسے مقربانِ حق کی جماعت سے نہ جانیے۔

    نصیحت : شیخ کا قلب صیقل شدہ آئینہ ہے، جو حضرت رب العزت کی ذاتی، صفاتی، افعالی تجلیات سے روشن اور تاباں ہوگیا ہے اور ہر لحظہ لطائفِ غیبی سے آراستہ ہو رہا ہے، جب مرید صادق اپنے سچے اعتقاد سے اپنے دل کو شیخ کی طرف مائل کرتا ہے تو شیخ اپنے پرتو سے زنگِ غیرت کو اس کے قلب سے دور کر دیتا ہے، ہر ایک مرید پر اس کی استعداد اور صلاحیت کے اعتبار سے ہی اثر پڑتا ہے، تجلیہ و تصفیہ کا یہ مقام مدتوں کی ریاضت کے بعد حاصل ہوتا ہے۔

    نصیحت : درویش خود کسوٹی اور معیار ہے، عہدِ قدیم میں جو اؤلیائے اللہ گزرے ہیں وہ یوں ولی نہیں ہو گیے تھے کہ کسی شیخ کے مجاز تھے یا کسی بزرگ کے جانشیں تھے اور یہ حسنِ عقیدت کہ اگر بزرگ نہیں ہوتے تو ایسے بزرگ کے جانشین کیسے ہو جاتے؟ کوئی اصلیت نہیں رکھتی۔

    یہاں مکان و زمان کا سوال نہیں ہے، ایک معیار مقرر کیا ہوا ہے کہ

    اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِندَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ

    یہی اصل کسوٹی ہے، جب دل ماسویٰ سے خالی ہو جاتا ہے تو قربِ حق میسر ہوتا ہے۔

    منقول ہے کہ بندگی مخدوم (قوام الدین) کے ایک کاتب تھے جن کا نام احمد تھا، مخدوم کے کتب خانہ میں اجرت پر کتابیں نقل کرتے تھے، شب کے وقت چراغ کے لیے جو تیل منگواتے تھے، اس کی روشنی میں کتابت کرتے تھے، جب کھانا آجاتا تو اس چراغ کو بجھا دیتے اور اس کی روشنی میں کھانا نہیں کھاتے تھے پھر جب کھانے سے فارغ ہوتے تو چراغ جلا کر کتابت کرتے۔

    نصیحت : جس شیخ کا قول و فعل، کتاب و سنت اور اجماعِ صحابہ کے خلاف ہو، وہ شیخی و مقتدائی کے لائق نہیں ہے، ایسے شیخ کا پیروکار کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا، مردانِ خدا وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے رختِ ہستی کو دریائے وحدت میں ڈبو دیا تھا، سب کچھ کھو کر دھلے دھلائے، یکہ و تنہا باہر آگیے تھے، انہیں لوگوں نے تقرب کی راہ پائی مگر اب تو حطّ الرجال ہے۔

    نصیحت : کتاب ارشادالمریدین میں جو انہی (قوام الدین) کی تصنیف ہے، لکھتے ہیں کہ علمائے شریعت مخلوق کو حق کی طرف بلاتے ہیں، انہیں بزرگوں کا بتایا ہوا یہ مسئلہ ہے کہ معتقدین نے اس گمان پر کہ امام باوضو ہے، اقتدا کی، بعد نماز یہ معلوم ہوا کہ امام باوضو نہ تھا، مجنِب تھا، اب تمام مقتدیوں کا فرض ہے کہ اپنی نماز دہرائیں اور باوضو امام کی اقتدا کریں۔

    ٹھیک یہی خیال علمائے طریقت کا ہے کہ جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ جس شیخ کی پیروی کی گئی ہے وہ شیخی کی شرائط سے عاری ہے، تو قواماً باوضو کی طرح شیخِ حقانی کی تلاش بھی واجب ہے، اللہ تعالیٰ تم کو کمالِ باطنی نصیب کرے۔

    آپ نے فرمایا کہ ایسا شیخِ کامل چاہیے جو چوگانِ طلب ہاتھ میں لے، اس میدان کی گیند سے اس طرح کھیلے کہ کبھی یہ طلب کی گیند آسمان کی طرف جائے، کبھی لوح کی سمت، کبھی قلم کی جانب، کبھی غایتِ علیا میں اور کبھی تحت الثریٰ میں تاکہ مادۂ سعادت نمایاں ہو، سراپردۂ عزت تک پہنچے، سالک پر اگر شاہی کا لباس چڑھا ہوتا ہے تو اس کے منہ پر مارتے ہیں اور اگر درویشی کا لباس ہوتا ہے تو اس کو خلوتِ خاص میں جگہ دیتے ہیں اور صدر میں بٹھاتے ہیں

    کسے کہ اُنسِ حق جوید، مقامِ اوست ویرانی

    زمین زن تاجِ نخوت را، پس آنگہ ترکِ عالم گو

    کسے کو قربِ حق خواہد، نخواہد عالمِ فانی

    ترجمہ : جو انسِ حق کا طلب گار ہے، اس کا مقام ویرانی ہے، نخوت کے تاج کو زمین پر دے مارو اور اس سے ترکِ تعلق کرو جو حق کا طلب گار ہے، وہ عالمِ فانی سے دستبردار ہے۔

    حضرت قوام الدین سماع سے بہت ذوق رکھتے تھے، صاحبِ وجد و حال تھے، اکثر اپنے مخصوص دوستوں کے ساتھ سماع سنا کرتے تھے، ایک محفل میں سماع سن رہے تھے، ایک شخص پر انتہائی گریہ طاری تھا اور اس کی شکستگی نمایاں تھی، آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے، پرسشِ احوال کرنے لگے کہ اے عزیزم! تم نے کیا سمجھا کہ تمہاری یہ حالت ہو رہی ہے؟

    اس شخص نے عرض کیا کہ اے شیخ! آپ لوگوں کے فہم کا حال مجھے معلوم نہیں اور نہ میں خود کو اہلِ حال کے زمرہ میں شمار کرتا ہوں لیکن میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے اور اسی خیال کی وجہ سے میری آنکھوں سے آنسو رواں ہیں کہ میرے وجود سے پہلے ہی مجھ سے کیا جرم سرزد ہوا کہ میرا نام گنہگاروں کے دفتر میں لکھ دیا گیا؟ اور بندگی مخدوم سے پیش از وجود کیا طاعت انجام پائی کہ آپ کو عارفینِ کاملین میں بنایا؟ اور تختِ معرفت پر بٹھایا؟

    اس گفتگو سے حضرت مخدوم پر ایک کیفیت مزید پیدا ہوگئی، اس شخص کو گلے سے لگا لیا اور فرمایا کہ اگر صحیح ذوق پیدا ہوا ہے تو وہ تم کو ہی پیدا ہوا ہے، حاضرین کو اور خود مجھ کو (قوام الدین) جو ذوق پیدا ہوا وہ تمہارے ہی طفیل میں ہوا ہے

    اور بار بار اس آیت کی تلاوت فرماتے تھے کہ

    وما کنّا لِنھتدی لولا ان ھدٰنا اللّٰہ

    ترجمہ : اگر اللہ ہدایت نہ فرماتا، تو ہم ہدایت نہ پاسکتے تھے۔

    ان شوریدہ گانِ محبت کے حال کو کوئی نہیں جان سکتا، یہ عاشقانِ رحمان ہیں، یہ مشتاقانِ سبحان ہیں، یہ مشتاقانِ یزدان وہ ہیں کہ ان کے جسم و جان آتشِ محبت میں سوختہ ہیں، ان دیوانوں کا عجب حال ہے، ان عالموں کا عجب کمال ہے۔

    اے عزیز! ان کے احوال و اعمال کو دیکھو تاکہ ان کے جمال کے اسرار تم پر منکشف ہوں کہ ان کی طاعت ان کے نزدیک تمام تر گناہ ہے مگر ان کی معصیت گناہ پوشوں کی گناہ پوش ہے۔

    نصیحت : الشیخ ھوالذی قدسی الذات و فانی الصفات

    یعنی شیخ کو پاکیزہ نفس اور فنا فی الصفات ہونا چاہیے، اگر اتنا مقام حاصل ہے تو شیخی کی اہلیت رکھتا ہے۔

    بندگی مخدوم قوام الدین کا وصال بستم ماہ شعبان، روز دو شنبہ، سنہ 806ھ میں ہوا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے