Font by Mehr Nastaliq Web

ذکر حضرت بندگی مخدوم شیخ سارنگ

خواجۂ کمال

ذکر حضرت بندگی مخدوم شیخ سارنگ

خواجۂ کمال

MORE BYخواجۂ کمال

    دلچسپ معلومات

    ’’تحفۃ السعدا‘‘ سے ماخذ شدہ۔

    بندگی مخدوم سارنگ سلطان فیروز شاہ کے امرا میں تھے، ملک سارنگ کے لقب سے یاد کیے جاتے، جب دنیاداری میں تھے تو بارہ سو سوار آپ کی چاکری میں تھے، بیعت حضرت مخدوم قوام الدین سے تھی، ترک دنیا کے بعد حضرت مخدوم جہانباں سے خلافت حاصل کی۔

    صدرالدین سید راجو کو قتال اس لیے کہتے ہیں کہ کسی میں اتنی تاب نہیں تھی کہ ان کی نظر کی تاب لا سکے، ان کی زباں سے جو بات نکل جاتی تھی، قطعی ہو کے رہتی تھی۔

    ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ خود آپ کے صاحبزادے نے ایک بے جرم کے سر کے بال اور داڑھی کے مونڈ دینے کا حکم دیا، اس فریادی غریب نے حضرت کی خدمت میں عرضِ حال کیا، آپ کی زبان مبارک سے یہ جملہ نکل گیا، وہ خود اپنی داڑھی تراشے گا اسی وقت آپ کے صاحبزادے پر ایک حالت طاری ہوئی، نائی کو بلایا، اپنے روبرو بٹھایا اور حکم دیا کہ جلدی کرو، میری داڑھی تراش دو، نائی ڈرا، آئینہ اور استرا ان کے سامنے رکھ کر ہاتھ دھونے کے بہانے سے باہر نکل گیا اور کہیں چھپ گیا، ان صاحبزادے نے جب دیکھا کہ آئینہ سامنے رکھا ہے، استرا اٹھایا اور داڑھی مونڈ لی۔

    منقول ہے کہ حضرت سارنگ بیعت کے بعد حضرت قوام الدین کی قدم بوسی کے لیے آیا کرتے تھے، ایک مرتبہ قوام الدین ایک کیفیتِ خاص میں تھے، فرمانے لگے ملک سارنگ! اکہرا کپڑا برساتی کی طرح بناؤ، تم کو ذکر تلقین کروں گا انہوں نے ان کا مشورہ قبول کیا، تلقینِ ذکر کے بعد فرمایا یہی اکہرا کپڑا پہنو، ان شاءاللہ کسی نہ کسی وقت یہ تلقین کام آئے گی

    بندگی مخدوم سارنگ نے اپنے دورِ تمول میں بعض اشغال کی تعلیم حضرت راجو قتال سے سلطان فیروز شاہ کے عہد میں پائی تھی، جب کہ حضرت راجو قتال نواہوں کے قضیے کے سلسلے میں تشریف لائے تھے۔

    نواہوں کا قصہ سیر العارفین میں اس طرح لکھا ہے کہ نواہوں نام کا ایک ہندو تھا جو فارسی نویس تھا، سلطان فیروز شاہ نے دارونگی کی خدمت پر مامور کرکے شہر اوچ بھیجا تھا، انہی دنوں حضرت مخدوم جہانیاں مرضِ موت میں گرفتار تھے، نواہوں ان کو دیکھنے گیا، مخدوم جہانیاں کی خدمت میں آیا، اس کی زبان سے یہ جملہ نکلا حضرت مخدوم کو اللہ صحبت بخشے کہ آپ خاتم الاؤلیا ہیں، جس طرح محمد رسول اللہ خاتم الانبیا تھے

    مخدوم جہانیاں نے جب یہ بات سنی، حضرت راجو قتال کی طرف دیکھ کر فرمایا سنتے ہو، کیا کہتا ہے؟ مخدوم راجو قتال نے عرض کیا سن رہا ہوں نواہوں نے سمجھا مجھے مسلمان ہونے کو کہتے ہیں، اسی وقت اوچ سے بھاگ کر سلطان فیروز شاہ کے پاس دہلی چلا آیا اور تمام واقعہ سنا دیا۔

    سلطان فیروز شاہ نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو مسلمان ہو جاؤ نواہوں نے کہا کہ میں جان دے دوں گا مگر مسلمان نہ ہوں گا

    اس واقعہ کے چند دنوں بعد مخدوم جہانیاں نے رحلت فرمائی، فاتحہ سوم کے بعد حضرت راجو قتال سواری کا انتظام کرکے دہلی کی طرف روانہ ہوگیے، جب شہر کے قریب پہنچے، سلطان فیروز شاہ کو تشریف آوری کی خبر ملی، سمجھا کہ اسی نواہوں کے قضیے کے سلسلے میں تشریف لا رہے ہیں۔

    سلطان نواہوں کو بہت عزیز رکھتا تھا، دو تین علما کو جو شہر میں بہت ممتاز تھے، بلایا اور نواہوں کا واقعہ بیان کرکے ان سے دریافت کیا کہ شرعی اعتبار سے اس واقعے کی کیا حیثیت ہے؟ قاضی عبدالمقتدر کے ایک بیٹے جن کا نام محمد تھا، بہت ذہین تھے، انہوں نے بادشاہ سے عرض کیا آپ خود حضرت کے استقبال کے لیے جائیے اور پہلی ملاقات میں حضرت سے پوچھیے، کیا آپ اسی کافر کے قضیے میں آئے ہیں؟ جب کہیں ہاں اسی کافر کے قضیے میں آیا ہوں تو ہم استفسار سے بری ہو جاتے ہیں

    بادشاہ چند علما کو ہمراہ لے کر استقبال کے لیے گیا، پہنچنے پر اس نے پوچھا کہ کیا حضرت مخدوم اس کافر کے قضیے میں آئے ہیں؟

    حضرت شیخ راجو قتال نے فرمایا ہاں! اسی مسلم کے قضیے میں آیا ہوں شیخ محمد نے کہا کہ اب اس کے اسلام کا ثبوت شرعی طریقے پر نہیں ملا ہے اور آپ اسلام کا حکم لگا رہے ہیں! آپ نے ان کی طرف تیز نظر کی اور زبان مبارک سے فرمایا تمہاری باتوں سے دیانت کی بو نہیں آتی، جاؤ! آپ کے کہتے ہی ان کے پیٹ میں سخت درد ہوا، اپنے مکان میں لے جائے گیے، قاضی عبدالمقتدر دوڑے اور حضرت سے عرض کیا یہی ایک آنکھ ہے، اس کو بخش دیجیے! آپ نے فرمایا کہ اس کا وقت پورا ہو گیا اور وہ جا چکا

    البتہ اس کے گھر ولادت ہوئی، تو ایک صاحبزادہ پیدا ہوئے جن کا نام ابوالفتح رکھا گیا، یہ اپنے وقت کے درویشِ کامل ہوئے، ان کا مقبرہ جونپور میں موجود ہے، نواہوں کے معاملے میں اس رگڑے جھگڑے کے بعد یہی ہوا کہ لوگوں نے اس کی گردن مار دی، شیخ بھی دہلی سے اپنے وطن واپس آ گیے۔

    اس حکایت کے لکھنے کی غرض یہ تھی کہ حضرت راجو قتال اسی تقریب سے دہلی آئے تھے، مخدوم شیخ سارنگ کو انہوں نے پسند کیا اور بعض اشغال کی تعلیم دی، یہ بھی کہی جاتی ہے کہ بادشاہ حضرت راجو قتال کے پاس کھانا، شیخ سارنگ ہی کی معرفت بھیجا کرتے تھے، بندگی مخدوم نے چند لقمے اسی کھانے کے اپنے ہاتھ سے حضرت شیخ سارنگ کو کھلا دیے، چند ہی دنوں میں اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں ایک جذبہ پیدا کر دیا، کلیۃً ان کا دل تمام املاک، مال و متاع، گھر بار سے پھر گیا، تمام اشیاء درویشوں میں تقسیم کر دیں اور خانہ کعبہ کی طرف چل پڑے۔

    حج اور روضہ مطہرہ حضرت رسالت پناہ سے فارغ ہو کر اپنے مقام کی طرف لوٹے اور ایک گاؤں موضع مچکوان میں مستقل مقیم ہوگئے، یہ فتحپور کا ایک دیہات ہے، لکھنؤ سے بارہ کوس پر واقع ہے، یہیں مختلف ریاضات و طاعات میں مشغول رہے۔

    انہی ایام میں حضرت راجو قتال نے اوچ سے جامہ خلافت اور مثال آپ کے پاس بھیجی، شیخ سارنگ نے اس غدر کے ساتھ واپس کیا کہ میں ایک نو مسلم ہوں، مجھ میں یہ صلاحیت کہاں ہے کہ درویشوں اور اؤلیا کا لباس پہنوں؟ میں خود کو اس کا اہل نہیں سمجھتا، میں اس لباس کی محافظت کی صلاحیت نہیں رکھتا ہوں اس کے جواب میں حضرت راجو قتال نے لکھ بھیجا کہ میں نے یہ خرقہ و مثال خدا کے حکم، رسول اللہ کے فرمان اور پیرانِ سلسلہ رضوان اللہ علیہم کے حکم و ارشاد سے بھیجا ہے، کسی وسوسے اور دغدغے کو دل میں لائے بغیر بے فکر ہو کر پہنو، اللہ تم کو مبارک کرے اس کے بعد شیخ سارنگ نے خرقۂ خلافت پہن لیا۔

    اس کے بعد ہر وہ شخص جو بیعت و ارادت کی نیت سے سرکار لکھنؤ کے اطراف سے حضرت راجو قتال کے پاس پہنچتا، اس کو لوٹا دیتے اور فرماتے کہ میں نے اس جگہ شیخ سارنگ کو متعین کر دیا ہے، تم لوگ کس لیے اتنی مسافت سفر طے کرکے یہاں آتے ہو؟ وہیں جاؤ اور شیخ سارنگ سے مرید ہو

    نقل ہے کہ شیخ سارنگ کی عمر ایک سو بیس سال ہوگئی تھی، شیخ فانی ہوگیے تھے، رمضان کے روزے رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے، رمضان میں کچھ کھا رہے تھے، پیر دستگیر مخدوم شاہ مینا قدس سرہٗ ان کی خدمت میں ان کے روبرو کھڑے تھے، ان کے دل میں یہ بات آئی کہ مخدوم اپنا پس خوردہ عنایت فرما دیں، تو میں فوراً کھا جاؤں، کفارے کے ساٹھ روزے رکھ لوں گا

    حضرت مخدوم نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا کہ شیخ مینا، تم قطب ہو! کیا یہ مناسب ہے کہ میں تمہیں کسی نامناسب شے کا حکم دوں؟ مجھ کو شریعت نے روزہ نہ رکھنا مباح کیا ہے۔ اگر رات میں کوئی چیز کھاؤں گا تو کچھ اس میں دوں گا

    اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ منصبِ قطبیت حضرت مینا کو اپنے پیر دستگیر سے حاصل تھا اور مدت دراز سے رئیس درویشاں اور محب عارفاں شیخ قوام الدین بھی تھے، جیسا کہ پیر دستگیر (شاہ مینا) کے ذکر میں مذکور ہوگا۔

    حضرت مخدوم شیخ سارنگ کے دو خلیفہ تھے۔

    پیر دستگیر مینا

    مخدوم شیخ حسام الدین صوفی فتحپوری

    اسی طرح حضرت پیر دستگیر (شیخ مینا) کے بھی دو خلیفے تھے۔

    مخدوم عالم شیخ سعد قدس سرہٗ

    آپ کے برادر زادہ و جانشین شیخ قطب الدین

    اور کوئی دوسرا خلیفہ نہ تھا۔

    حضرت شیخ سارنگ عیال دار تھے، کئی صاحبزادے تھے، ان صاحبزادوں کی اولاد موضع مچکواں میں ان کے روضے کی خادمی اور جاروبی کرتی ہے۔

    شیخ سارنگ قولاً و فعلاً اپنے شیخ حضرت قوام الدین کے متبع تھے، ایک مرتبہ شیخ سارنگ طویل جبہ برساتی نما (جیسا کہ علما میں مروج ہے) پہنے ہوئے تھے، مخدوم شیخ مینا نے دریافت کیا کہ حضرت شیخ قوام الدین بھی اس قسم کا جبہ بارانی پہنتے تھے؟ شیخ سارنگ نے فرمایا یاد نہیں اور فوراً اتار کر درزی کو دیا کہ اس کو تراش کر شلوار بنا دو

    بندگی مخدوم شیخ سارنگ کی وفات شب پنجشنبہ اور دفن روز پنجشنبہ ۸۵۵ھ (آٹھ سو پچپن ہجری) میں ہوئی۔

    جس روز حضرت مخدوم شاہ سارنگ کا وصال ہوا، پیر دستگیر (شاہ مینا) نے خیال کیا کہ میرے پیر نے ایسی جگہ انتقال کیا ہے کہ کوئی شخص نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے بھی حاضر نہیں ہے، کیونکہ یہ جگہ ویران ہے اور حضرت کو ازدہامِ خلق پسند بھی نہ تھا حضرت مخدوم نے فوراً چہرے سے کفن ہٹایا اور فرمایا شیخ مینا! فکر نہ کر، اللہ کفایت کرنے والا ہے

    جب جنازہ تیار ہو گیا، برقعہ پوشوں کا ایک عظیم لشکر ہر طرف سے آنا شروع ہوا، با جماعت نماز پڑھی، دفن کیا اور غائب ہوگیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے