ذکر حضرت بندگی مخدوم شیخ محمد مینا لکھنوی
دلچسپ معلومات
’’تحفۃ السعدا‘‘ سے ماخذ شدہ۔
جن کا قول یہ ہے کہ خراب دل سے اگر ایمان بھی صادر ہو کفر ہے اور اگر آباد دل سے کفر صادر ہو تمام تر ایمان ہے۔
منقول ہے کہ جب پیر دستگیر (شاہ مینا) پیدا ہوئے تو بندگی شیخ قوام الدین نے ہندی زبان میں فرمایا ’’اوامور مینا‘‘ اسی سبب سے ان کا عرف مینا ہوگیا، بعض لوگوں سے اس طرح منقول ہے کہ پیر دستگیر (شاہ مینا) حضرت قوام الدین کے انتقال کے بعد پیدا ہوئے مخدوم قوام الدین نے ایک روز اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ میرے بعد برادرم قطب الدین کو ایک بیٹا پیدا ہوگا جو قطب ہوگا اور میرا پسری خاندان اسی سے جاری و روشن ہوگا، تم اس کو دودھ پلاؤ گی اور میری خانقاہ اس کے حوالہ کر دوگی، بی بی صاحبہ نے کہا مدت ہوئی میرا دودھ خشک ہوگیا، بندگی مخدوم شاہ نے فرمایا تم کو کیا معلوم کی اللہ تعالیٰ نے تمہاری قسمت میں ایک ذخیرہ جمع کردیا ہے، جب پیر دستگیر پیدا ہوئے بی بی صاحبہ کو بندگی مخدوم کی وصیت یاد آئی گود میں لے کر سینے سے قریب کیا، دودھ اس طرح رواں ہوا کہ تمام دیکھنے والیاں حیران تھیں لوگوں کا بیان ہے کہ چالیس سال کے بعد یہ دودھ پیدا ہوا تھا،
منقول ہے بی بی صاحبہ فرماتی ہیں کہ جس وقت میں بے وضو ہوتی تھی، میاں مینا دودھ پیتے تھے اور تمام مدت شیر خوارگی میں یہی حال رہا۔
بی بی صاحبہ یہ بھی فرماتی ہیں کہ جب تین سال کے ہوئے تو جو پرندہ گوریا وغیرہ کی قسم سے ان کے سامنے سے گزر رہا ہوتا اس کو بلاتے فوراً چلا آتا اور ان کے سامنے بیٹھ جاتا، جب تک اس کو جانے کو نہیں جاتا تھا جب چار سال چار مہینے کے ہوئے، ان کو مکتب میں بٹھایا گیا، معلم کو یہ معلوم ہوگیا تھا کہ یہ ولی اللہ ہیں، اس سبب سے ان کی تعلیم سے فکر مند نہیں رہتے تھے، دوسرے لڑکے پڑھتے تھے اور یہ مشغول رہا کرتے تھے، جب فرص کا وقت ہوتا اور لڑکے استاد کے پاس پہنچ کر یک بارگی سلام کرکے روانہ ہوتے دعا و سلام کی آواز پر پیر دستگیر حاضر ہوتے اور معلوم کو سلام کرکے رخصت ہوئے۔
جب آپ کی عمر دس سال کی ہوئی بندگی مخدوم راجو قتال کے ایک خادم لکھنؤ آئے ہوئے تھے، معرفت میں کمال نسبت حاصل تھی انہوں نے پیر دستگیر (مخدوم مینا) کو بعض اشغال کی تعلیم دی جب بارہ سال کے ہوئے قطب وقت ہوئے۔
ان کی قطبیت کا اعلان حضرت شاہ مدار کے واسطہ سے ہوا اور یہ واقعہ اس طرح ہے کہ قاضی شہاب الدین ساکن مقام چپلائی جو دریا باد کا ایک دیہات ہے بعض قاضی شہاب الدین کی جگہ قاضی محمود کنتوری کا نام لیتے ہیں جو شاہ مدار کے مرید تھے اور شہاب الدین آتش پرکالہ سے مشہور ہیں، ایک مرتبہ اپنے پیر سے ملنے جا رہے تھے راستے میں جب لکھنؤ پہنچے اکثر مخلوق اپنی حاجات کے سلسلے میں ان کی خدمت میں آئی قاضی شہاب نے کہا میں اپنے پیر کی ملاقات کو جا رہا ہوں، تم میں سے ہر ایک کی حاجت کو لکھ کر ان کے سامنے پیش کروں گا تاکہ جو جواب آئے ویسا ہی کیا جائے، قاضی شہاب حضرت شاہ مدار کی خدمت میں حاضر ہوئے چند روز ٹھہرے پھر رخصت کے وقت ہر ایک کی حاجت کاغذ پر لکھی تھی پیش کی حضرت شاہ مدار نے فرمایا کہ قاضی شہاب تم کو معلوم نہیں کہ ولایت شیخ مینا کے حوالہ ہوئی ہے ان لوگوں سے کہو کہ شیخ مینا سے رجوع کریں، قاضی شہاب نے کہا شیخ مینا کون ہیں حضرت شاہ مدار نے فرمایا کہ تمہاری آنکھوں پر تو مرغ کی چربی چڑھ گئی، کیوں کہ قاضی شہاب کے پاس نذور و فتوح میں مرغ بہت آیا کرتے تھے پھر حضرت شاہ مدار نے بتایا کہ یہ ایک کم عمر بچہ ہے جس کی عمر بارہ سال ہے اور ان کا حلیہ بھی بتایا اور یہ فرمایا کہ یہ قطب ہیں اور تم کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ولایت میرے حوالہ ہے لیکن وہاں کے لوگوں کو معلوم نہیں ہے، تم جاؤ اور تمام لوگوں کو خبر کر دو کہ لوگ اپنی حاجتیں ان کے سامنے پیش کریں تم بھی ان سے جاکر ملاقات کرو اور میرا دعا و سلام پہنچاؤ اور ایک مصلیٰ دیا کہ میری طرف سے شاہ مینا کو نذر پیش کرو حضرت شاہ مدار کا نام بدیع الدین ہے اور مدار لقب، یہ بزرگ اویسی نسبت تھے، سادتِ حسینی سے ہیں، والد کا نام ابو اسحٰق شامی اور والدہ کا نام بی بی ہویدا جد بزرگوار حضرت زین العابدین ابو موسیٰ کاظم ابن جعفر صادق ابن محمد باقر ابن زین العابدین بن امام حسین شہید کربلا رضوان اللہ علیہم بعضوں نے شجرۂ طریقت اس طرح لکھا ہے۔
شاہ بدیع الدین مدار ہو جاز من شیخ عبداللہ المکی ہو جاز من شیخ طیفور الشامی ہو جاز من ابی بکر الصدیق ہو جاز من خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم۔
نسبت علویہ: بعضوں نے شیخ عبداللہ المکی ہو جاز شیخ ابو ربیع المقدسی ہو من شیخ یمین الدین الشامی ہو من اسداللہ الغالب علی بن ابی طالب۔ واللہ اعلم
تاریخ وفات’’ساکن بہشت‘‘ ہے کہ جس سے آٹھ سو اڑتیس برآمد ہوتا ہے۔
جب قاضی شہاب الدین لکھنؤ واپس آئے حاجت مند جمع ہوئے قاضی شہاب الدین نے کہا کہ میرے پیر نے فرمایا ہے کہ وہ ولایت شیخ مینا کے سپرد ہوئی ہے، وہ قطب میں تم لوگ ان کے پاس اپنے مہمات میں جایا کرو اس وقت قاضی شہاب الدین تمام حاجت مندوں کے ساتھ مخدوم مینا کی خدمت میں حاضر ہوئے ملاقات کی اور دعا و سلام کے بعد مصلیٰ پیش کیا اور حاجت مندوں کے لیے سفارش کی اور مؤدب بیٹھ گیے، ایک حاجت مند فوراً کھڑا ہوکر عرض کرنے گلا میرے پیر بیمار ہیں، پیر بیمار ہیں، پیر دستگیر نے دوات و قلم طلب کیا اور ہر حاجت مند کو دعا تعویذ وغیرہ دینے لگے، ایک حاجت مند جس نے پیر کی علالت کے متعلق عرض کیا تھا، اسی طرح کھڑا رہا، بندگی مخدوم نے سر جھکایا پھر بہت دیر کے بعد سر اٹھایا اور فرمایا ’’بابا جاؤ صبر کرو ہر چنداں کہ شفا میں نے درگاہ حق سے چاہی مگر حکم ملا کہاں کی عمر اسی قدر تھی اور یہ سو رپٹھ پڑھا۔
ٹوٹی پیت اکاس جتنا جوڑوں نہ جڑے
جنھ سرجن کی آس لیے سرجن دوجن بھئی
رسی اوپر سے ٹوٹ چکی ہے میں جوڑ نہیں سکتا، دوست نے دشمنی ابھاردی دوستی کا رشتہ توڑ دیا۔
اب آپ کا کام روز بروز بڑھتا چلا گیا، اس کے بعد آپ مخدوم شاہ سارنگ کی خدمت میں گیے اور مرید ہوئے اور سالہا سال ان کی خدمت کرتے رہے۔
روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سارنگ نے مخدوم مینا کو کسی کام سے کسی دیہات میں بھیجا اس کام کو بحسن و خوبی انجام دے کر واپس ہوئے مخدوم شاہ سارنگ نے فرمایا اس دیہات میں ایک بزرگ رہتے ہیں ان سے بھی ملتے تھے؟ آپ نے عرض کیا نہیں مخدوم شاہ سارنگ نے فرمایا جب کہیں جاؤ وہاں کے بزرگوں سے بھی ملا کرو، آپ نے عرض کیا۔
ہمہ شہر پر زخوبان منم و خیال ماہے
چکنم کہ چشم بدخو نکند بکس نگاہے
بندگی مخدوم شاہ سارنگ نے پیر دستگیر مخدوم شیخ مینا کو اجازت و خلافت عطا فرمائی کہ آپ اپنے مقام پر جاؤ اور یاد حق میں مشغول رہو۔
منقول ہے کہ پیر دستگیر (شیخ مینا) کے والد کے دو صاحبزادے تھے شیخ احمد اور شیخ محمد المعروف بہ شیخ مینا پیر دستگیر حصور رہے، حصور اس کو کہتے ہیں جو قدرت کے باوجود عورت کے قریب نہ جائے تاکہ نفس شہوات سے محفوظ رہے، شیخ احمد کے دو لڑکے ہوئے ایک شخ قطب الدین دوسرے شیخ فرید شیخ قطب الدین کو پیر دستگیر (شیخ مینا) نے اپنا متبنیٰ بنا لیا تھا، آخر میں انہی کو انہوں نے اپنا خلیفہ اور جانشیں بنایا، آج کل ان کے نواسوں کے ہاتھ میں آستانہ کی خادمی ہے۔
منقول ہے کہ پیر دستگیر کو بعیت و خلافت سلطان العارفین شیخ سارنگ سے تھی، جملہ حرکات و سکنات میں اپنے پیر کے متبع تھے اپنے پیر کے سوا کسی دوسرے کی طرف توجہ نہ کرتے تھے، فرماتے تھے مرید اگر اپنے پیر کی زندگی میں کسی دوسرے کی اتباع اور تلقین کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو بہرہ ور نہیں ہوتا، پیر کی موجودگی کے باوجود کسی دوسرے سے محبت ہوتی اور خلافت قبول کرنی جائز نہیں ہے، اگرچہ اپنے پیر کے ساتھ محبت و رابطہ قلبی بہت زیادہ ہی کیوں نہ ہو ترقی زیادہ نہیں ہوتی۔
جو رنج و مشقت کہ حضرت پیر دستگیر سے راہ خدا میں دیکھی گئی ہے وہ طاقت بشری سے باہر ہے بجز عنایت الٰہی حاصل نہیں ہوسکتی، جاڑے کے موسم میں جب کہ سردی شدت کی ہوتی بیدار رہنے کے لیے کہ نیند کا غلبہ نہ ہو، پانی میں لباس تر کرکے جسم پر ڈال لیتے اور حضرت قوام الدین کے صحن خانہ میں جہاں سرد ہوا نہایت تیزی سے آ رہی ہوتی وہاں بیٹھ جاتے سردی شدت سے جم پر اثر انداز ہوتی اور نیند کا غلبہ دور ہو جاتا، کبھی ایسا ہوتا کہ اپنی ٹوپی پانی میں تر کرکے اپنے منڈے ہوئے سر پر پہن لیتے کبھی سنگ ریزہ جمع کرکے اس پر بیٹھتے تمام رات عبادت خدا میں مشغول رہتے، جب بھی نیند کا غلبہ ہوتا ان سنگ ریزوں پر لوٹتے یہاں تک کہ نیند جاتی رہتی، معلوم ہے کہ سنگ ریزے پر کیا نیند آئے گی اور کیا آرام ملے گا، کبھی ایسا ہوتا کہ بلند دیوار کے سرے پر بیٹھ جاتے تھے، گرنے کے خوف سے نیند نہ آتی تھی تمام رات اللہ کی یاد میں گزرتی تھی، بعض اوقات جب کہ پانی گرم کر دیتے تھے اور نفس اس کی گرمی سے قدرے آرام حاصل کرتا، یا کچھ کاہلی اثر انداز ہوتی یا یہ خطرہ دل میں گزرتا کہ وضو میں قدرے تاخیر ہو جائے گی فوراً اٹھ جاتے گرم پانی چھوڑ دیتے اور سرد پانی غسل کرتے، کتنی راتیں صلوٰہ معکوس میں گزرتیں صوم طے اکثر رکھا کرتے تھے کھڑاؤں پہنتے اور بارہ بارہ کوس پیدل چلتے تھے۔
مردان بسعی و رنج بجائے رسیدہ اند
تو بیخبر کجارسی از نفس پروری
قطب العالم حضرت سعد خیرآبادی فرماتے ہیں کہ پیر دستگیر کے عرس میں جو میں اس قدر طعام داری کرتا ہوں یہ مخلوق کے لیے کرتا ہوں ورنہ مجھ کو پیر دستگیر سے شرم آتی ہے کہ کبھی بھی پیر دستگیر نے بلاناغہ کھانا نہیں کھایا، پیر دستگیر کو چرب دار کھانے سے نفرت تھی، یہاں تک کہ چربی یا روغن کی بو اگر دماغ میں پہنچتی تو تحمل نہیں کر سکتے تھے وہ اس کو مسکر سمجھتے تھے۔
منقول ہے کہ پیر دستگیر نے اربعینات بہت کی ہیں لیکن ان کی شہرت نہ تھی صائم اور مشغول رہا کرتے تھے، لوگوں سے ملنے کے لیے باہر آتے تھے خانقاہ میں تھوڑی دیر ٹھہرتے اور پھر حجرہ میں چلے جاتے اور مشغول رہتے، بعض اوقات انتیس روز گزرنے کے بعد اچانک کوئی عزیز یا معتقد آپ کا جوٹھا یا بے طلب کرتے، چوں کہ پوشیدگی کا لحاظ رہتا تھا اس لیے نہیں کہتے تھے کہ میں روزہ دار ہوں جو اس کی خوشی ہوتی وہی کر دیتے تھے پھر نئے سرے سے اربعین کی نیت کرتے اس قہر نفس کا مقصد صرف یہ تھا کہ اربعین کی تکمیل سے نفس مغرور نہ ہو اور ایک مسلمان بھائی کی دل شکنی نہ ہو۔
بزرگان بیان کرتے ہیں کہ حضرت پیر دستگیر کی عادت تھی کہ نیند سے بیدار ہوتے ہی تیمم کرتے تھے پھر وضو کے لیے مستعد ہوتے فرماتے تھے کہ آدم کی اصل خلقت مٹی اور پانی ہے، انہی دونوں سے آگ بجھتی ہے، کل قیامت میں بھی بڑی امید ہے کہ خداوند تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے آخرت کی آگ کو بھی ان دونوں کی وجہ سے بجھا دے گا۔
حضرت پیر دستگیر کو اگرچہ ہر وقت وضو ہوتا تھا مگر ہر ایک دو گھنٹے کے بعد اٹھتے وضو کرتے اور دو رکعت نماز پڑھتے تھے، فرماتے تھے تازہ وضو قساوت ظاہری اور تاریکی قلب کو دور کرتا ہے اور ایک تازہ نور دل میں پیدا کرتا ہے کہ شیطان جب اس کو دیکھتا ہے کڑھتا ہے، جب تک یہ پانی برتن میں رہتا ہے وضو کا ثواب اس شخص کے نام سے لکھا جاتا ہے۔
قطب العالم مخدوم شیخ فرماتے ہیں کہ بیس سال تک میں پیر دستگیر کی خدمت میں رہا لیکن کبھی میں آپ کو پاؤں کھڑا کرکے یا پاؤں پھیلا کے بیٹھتے نہ دیکھا، ہمشیہ قبلہ رخ نماز کے ارادے میں بیٹھے رہا کرتے تھے، میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نے کوئی چیز اپنے لیے طلب کرکے کھائی ہو یا اپنے لیے کوئی فرمائش کی ہو یا اپنی خواہش اور پسند سے کوئی کپڑا اپنے لیے سلوایا ہو، یا یہ کہا ہو کہ یہ کپڑا اچھا نہیں ہے یا درزی پر خفا ہوں کہ یہ کپڑا ایسا کیوں سیا، یا یہ کپڑا ایسا کیوں کر دیا، فرماتے تھے صوفی ہوائے نفس سے نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے نہ کپڑا پہنتا ہے، حاشا کلا ایسا شخص صوفی نہیں ہے دین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا رہزن ہے، کبھی اپنا جوتا قبلہ کی طرف نہ رکھتے تھے نہ اتارتے تھے منقول ہے، فرماتے تھے جو شخص کھانا پانی بغیر وضو کے کھاتا پیتا ہے شیطان اس میں شریک ہوجاتا ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ جس کھانے میں شیطان شریک ہو اس سے طہارت باطنی اور سلامتی سینہ کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔
آپ کی عادت تھی کہ جب کھانے کا ارادہ کرتے وضو ہوتے ہوئے بھی تازہ وضو کر لیتے تھے فرماتے تھے جو کھانا کہ باوضو کھایا جاتا ہے، وہ دل میں تسبیح کرتا رہتا ہے اور وہ کھانا دل کو منور اور روشن کر دیتا ہے عبادت میں کاہلی پیدا نہیں ہوتی ہے، جب کھانے سے فارغ ہوتے تھے اس وقت بھی وضو کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ جو وضو کھانے کے بعد کیا جاتا ہے، گرانی شکم سے محفوظ رکھتا ہے۔ نورٌ علیٰ نور کا جلوہ دکھاتا ہے، پیر دستگیر کی یہ بھی عادت تھی کہ بے وضو گفتگو بھی نہیں کرتے تھے، نہ بے وضو کبھی سوتے تھے فرماتے تھے کہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص با وضو سوتا ہے اس کے برابر فرشتہ سوتا ہے اور جب تک وہ سویا رہتا ہے فرشتہ دعا کرتا ہے اے خدا! اس بندے کو بخش دے کہ یہ بندہ با وضو سویا ہے، یہ بھی عادت تھی کہ جب پہلو پر سوتے تھے بیدار ہوتے تو پھر دوسرے پہلو پر بے وضو نہیں سوتے تھے، اٹھ جاتے وضو کرتے دوگانہ ادا کرتے پھر سوتے یا ذکر میں مشغول ہو جاتے فرماتے تھے جس طرح قرآن، ایمان و اسلام نور رکھتے ہیں وضو بھی نور رکھتا ہے۔
منقول ہے کہ بہت زیادہ نماز پڑھتے کثرت سے روزہ رکھتا، کلام مجید کی تلاوت کرنی ہر شخص سے ممکن ہے لیکن درد محبت کا حاصل کرتا جو اس راہ کی اصل ہے ہر ایک کے بس کی بات نہیں، اس وقت یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔
مارا ز مرید درد خواں می باید
نے زاہد و حافظ قرآن می باید
صاحب درد و سوختہ جان می باید
آتش زدہ نجا نماں می باید
اس درد سے متعلق یہ اشعار بھی پڑھا کرتے تھے۔
در سینہ چو دردِ یار دارم
صد ملک درین دیار دارم
اے درد مروز سینہ بیرون
زنہار کہ باتو کار دارم
ایک مرتبہ حضرت پیر دستگیر نے فرمایا کہ مولانا عمدہ بدایونی جو بہت بڑے عالم، صاحب عزت و جاہ تھے، حضرت نظام الدین اؤلیا کے زمانے میں سیر و سیاحت میں مشغول رہا کرتے تھے، عنایت الٰہی جوان پر ہوئی تو سب کچھ ترک کرکے طریقہ ملا متیہ اختیار کرلیا، زنانہ لباس زنانہ سنوار، بناؤ کرکے ایک گال سیاہ ایک گال سرخ کرکے حضرت نظام الدین اؤلیا کی خدمت میں حاضر ہوئے زانو سے زانو ملا کر رو برو بیٹھ گیے اور کہنے لگے مولانا نظام الدین آپ سے یہ سب کچھ ہوگا جو میں نے کیا ہے؟ ہمیشہ سجادہ کبر اور نہالچہ رعونت پر بیٹھتے رہتے ہیں اور خود کو سالکان، طالبان اور صادقان میں شمار کرتے ہیں۔
حضرت نظام الدین اؤلیا خموش رہے مولانا عمدہ نے مکررہ سہ کرر یہی بات کہی پھر کہا مولانا جواب یوں نہیں دیتے؟ حضرت نظام الدین اؤلیا نے فرمایا کہ ’’جو کام آپ نے کیا ہے سہل ہے، یہ بیہودہ عورتوں اور فحنشوں کا کام ہے لیکن مردان خدا کا کام دوسرا ہے‘‘ مولانا عمدہ کو تعجب ہوا، پوچھا کہ وہ کیا کام ہے، حضرت نظام الدین اؤلیا نے فرمایا کہ ’’مردان خدا کام یہ ہے کہ ہمیشہ خدائے تعالیٰ کے درد عشق کی آگ میں جلتے ہیں، دل کے پاسباں رہتے ہیں کہ خطرات سے محفوظ رہے‘‘ حضرت پیر دستگیر شیخ (مینا) نے فرمایا ایک مرتبہ ایک شخص شیخ الاسلام حضرت شیخ نظام الدین اؤلیا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک بزرگ کا تذکرہ کرنے لگا کہ وہ ایسا کشف رکھتے ہیں اور ایسی ایسی ان کی کرامتیں ہیں، حضرت نظام الدین اؤلیا نے دریافت فرمایا کہ ’’آں دارد‘‘؟ یعنی عشق صفویا کی اصطلاح میں عشق کے لیے موہ‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام شیخ نصیرالدین فرماتے ہیں کہ ’’چوں محبت شدہ ہمہ شد‘‘ جب محبت ہوئی تو سب کچھ ہوا اور آپ نے یہ بھی فرمایا’’ ہمارے خاندان میں دو چیزیں ہیں، ایک محبت دوسرا اتفاق‘‘ ایک مرید نے پوچھا محبت کس طرح حاصل ہوتی ہے، آپ (چراغ دہلی) نے فرمایا کہ اللہ کی عنایت سے مرید نے دریافت کیا، اس کے علاوہ دوسرے چیز؟ فرمایا کہ ’’احسان‘‘ مرید نے پوچھا کوئی ایسا ورد نہیں ہے جس کے پڑھنے سے اللہ کی محبت پیدا ہو؟ آپ نے فرمایا کہ ’’جو شخص بعد نماز عصر پانچ بار سوۂ نبا یعنی سورۂ عم روزانہ پڑھے گا اس کو اللہ کی محبت حاصل ہوگی اور آپ (چراغ دہلی) نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے شیخ الاسلام شیخ نظام الدین اؤلیا سے سنا ہے کہ جو شخص سبعات عشر کے بعد یہ دعا پڑھے’’ اللھم الرزقنی محبالک وأمتنی محبالک وحشرنی تحت اقدام احبابک‘‘ اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھ کر اسی دعا کو پڑھے، اللہ اپنی محبت میں اسیر فرمائے گا پھر فرمایا انسان کو اپنی کوشش جاری رکھنی چاہیے، عطا و بخشش کا تعلق اللہ کے ساتھ ہے۔
اے عزیز! سالکان راہ طریقت نے عشق و محبت کے درمیان فرق بتایا ہے، عشق انتہائے محبت کو کہتے ہیں، محبت کی ابتدا موافقت سے ہے (پھر مدارج ہیں) پھر میل کا مرتبہ ہے اس کے بعد موانست ہے پھر مودت پھر مواصلت کی منزل ہے، اس کے بعد مقام خلت ہے اس کے بعد محبت اس کے بعد شفقت اس کے بعد مرتبۂ وہم، اس کے بعد مرتبۂ ولہ اور آخری مرتبہ عشق ہے، ان میں سے ہر ایک کی تشریح رسالۂ مکیہ کی شرح میں موجود ہے، پیر دستگیر نے فرمایا لفظ عشق عشقہ سے ماخود ہے یہ ایک بیل ہے جو تروتازہ درختوں پر لپٹتی ہے، درخت کو خوشک کر دیتی ہے اور خود تروتازہ رہتی ہے، یہی حال عشق کا ہے جس جسم پر لپٹ گیا غیر محبوب کو خشک کر دیتا ہے پھر فرمایا کہ عشق و محبتِ خدا یا غیر شرعی امور سے رہائی، اللہ کی مدد اور توفیق ہی سے حاصل ہوتی ہے، اس کے بعد ایک عجیب و غریب اور نصیحت آموز واقعہ بیان فرمایا۔
ایک مرتبہ قاضی شہاب الدین شاہی لشکر کے ساتھ جا رہے تھے، راستے میں پڑاؤ تھا، قضائے حاجت کی وجہ سے صحرا کی طرف گیے، راہ میں قحبہ خانے کی طرف سے گزر ہوا، ایک خیمے سے رونے کی آواز آرہی تھی، حیرت ہوئی اس طرب آباد میں گربہ وزاری کیسی؟ آواز اتنی دل دوز تھی کہ آگے بڑھنے کی ہمت نہ ہوئی گھوڑے کو روک لیا، اتر پڑے، دیر تک متائل رہے، مخلوق کے خوف اور لوگوں کی بدگمانی کے ڈر سے خیمے کے اندر جانے کی ہمت نہ ہو رہی تھی لیکن جب دیر ہوئی تو طبیعت نہ مانی، خیمے کے اندر چلے گیے، دیکھا ایک طوائف بیٹھی رو رہی ہے، آپ کو دیکھ کر اس نے کہا جاؤ جاؤ میں آج کل اچھی نہیں ہوں، یہ میرے ایام ماہواری کے دن ہیں معذور ہوں، تم سے پہلے بھی ایک آشنا آیا تھا اس کو بھی یہی کہہ کر واپس کر دیا ہے، تم بھی واپس جاؤ، قاضی شہاب نے کہا دیکھو میں ایک سن رسیدہ آدمی ہوں میرے لباس کو بھی دیکھو صالحین کا لباس ہے، میں بدوضع بدقماش نہیں ہوں جو تم ایسا گمان کرتی ہو، اس نے پوچھا تم کس لیے آئے ہو؟ قاضی صاحب نے کہا مجھ کو تمہارے رونے کی آواز کھینچ لائی ہے، آخر تمہارے رونے کا سبب کیا ہے؟ اس نے کوئی جواب نہیں دیا، جب آپ نے بہت اصرار کیا تو اس نے کہا محترم! آج میرے دل میں یہ خیال آیا کہ دنیا میں لوگ مجھے فاحشہ کہتے ہیں، کل قیامت میں خدائے تعالیٰ اس نام کی بنا پر مجھے عذاب نہ دیدے، قاضی صاحب نے کہا نام کا کیا اعتبار ہے جب کہ تم ایسے قبیح فعل میں مبتلا نہیں ہو، اس نے کہا نعوذباللہ منہا لوگ آتے ہیں، میں نوع بنوع حیلے کرکے ان کو لوٹاتی ہوں اور خود کو اس فعل قبیح سے بچاتی ہوں، قاضی صاحب نے پوچھا اے دلیہ تم آزاد ہو، یا کسی کی باندی ہو۔
اس نے جواب دیا، ایک شخص کی باندی ہوں اس کے کہنے کے مطابق یہاں آکر بیٹھی ہوں تمام روز مصلے پر بیٹھی عبادت الٰہی میں مشغول رہتی ہوں، جب شام ہوتی ہے یہاں سے روانہ ہوتی ہوں چار چتیل درم جو روزانہ میرے آقا نے مجھ پر مقرر کیا ہے، مصلے پر پاتی ہوں اور اپنے آقا کو جا کر دے دیتی ہوں پھر مخدوم قاضی شہاب نے پوچھا اگر کوئی آشنا رات کے وقت آتا ہے اور تمہارا مالک تم کو اس کے پاس بھیجنا چاہتا ہے تو کیا کرتی ہو، اس نے جواب دیا کہ میں اٹھتی ہوں کہ مکان میں جاؤں لیکن اتنا شدید بخار آتا ہے کہ مجھے تن بدن کا ہوش نہیں رہتا، بالکل بے خبر ہو جاتی ہوں، اس طرح بفضل ذخا اس خیانت سے بچ جاتی ہوں، پیر دستگیر نے فرمایا، صوفیا کا طریقہ یہ ہے کہ اگر کوئی ان پر جور و ستم کرتا ہے، یا چوران کا مال لے جاتا ہے تو اس کے لیے بددعیا نہیں کرتے اور اگر کوئی بدعا کرے تو تو کل باطل ہو جائے گا، اگر چوری ہو یا مال گم ہو جائے تو غمگین ہونے کے بجائے یہ کہے اس میں دین و دنیا کی کوئی بھلائی پوشیدہ ہوگی جب ہی مال چوری ہوا ہے یا گم ہوا ہے، ایک مرتبہ مرید نے آپ (شیخ مینا) کو ایک گھوڑا نذر کیا، رات کو چورآئے اور چرا کر لے گیے، جب چوروں کو یہ خبر ملی کہ یہ گھوڑا مخدوم شاہ مینا صاحب کا ہے، تو کہلا بھیجا کہ آپ کا گھوڑا ہمارے پاس ہے کچھ دیجیے تو میں آپ کو واپس کر دوں، آپ نےجواب دیا کہ خدا منشا یہی تھا کہ گھوڑا چوری ہو جائے، اس میں کچھ بھلائی ہی پوشیدہ ہوگی، میں نے تو چوری ہی کے بعد یہ ارادہ کر لیا تھا کہ جس نے چرایا ہے میں نے اس کو دے دیا ہے، دی ہوئی چیز واپس نہیں ہوتی، میں گھوڑے سے در گزرا، اس کو بیچو اور کھاؤ مجھے اس گھوڑے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
منقول ہے کہ کسی حاضر مجلس نے حضرت پیر دستگیر سے دریافت کیا کہ حضرت سری سقطی کا قول ہے کہ بندے کو اپنا گناہ فراموش نہ کرنا چاہیے اور توبہ میں مشغول رہے اور حضرت جنید فرماتے ہیں کہ گناہوں کو فراموش کردینا چاہیے، ان دونوں قولوں میں تضاد ہے، حضرت پیر دستگیر نے فرمایا تضاد نہیں ہے، سری سقطی نے مبتدی کے متعلق کہا ہے توبہ میں مشغول رہے تاکہ عبادت و ریاضت میں عجب و غرور نہ پیدا ہوا اور جنید منتہی کی بات کرتے ہیں جس کو اللہ نے مقام بلند پر نواز دیا ہے، اس مقام میں گناہ کو فراموش کر دینا چاہیے، وہ مقام قرب کا ہے، وہاں ایسا ذکر جائز نہیں ہے، لان ذکر الجفاء فی حالۃ الوفاء جفاء ورنہ اس مقام سے الگ ہو کر سب ہی کے لیے توبہ استغفار رہے۔
منقول ہے کہ ایک رواز ادب کا ذکر نکل آیا پیر دستگیر نے فرمایا نفس ادب کے باب میں لوگوں کا تین گروہ ہے۔
اول اہل دنیا : ان کا ادب یہ ہے کہ فصاحت و بلاغت، علم اور اسرار و معانی کو حاصل کریں، جن میں یہ خصائل نہیں ہوتے ان کو بے ادب کہتے ہیں، زہے کم بینی و نادانی کہ بس اسی ادب میں رہتے ہیں اہل شریعت اور اہل خصوص کے ادب کی حصول کی ہمت نہیں کرے ہیں، دوسرا گروہ اہل شریعت و دین کا ہے، علوم کی تحصیل، ریاضت نفس، اعمال جوارح کا لحاظ، طبیعت کی پاکیزگی حدود الٰہی کی نگہداشتِ ترک شہوات و شبہات سے کنارہ کشی، حسنات و خیرات کی طرف میلان یہ اہل شریعت کا ادب ہے۔
تیرا اگر وہ اہل خصوص کا ہے ان کا ادب دل کی نگہداشت کہ ہمیشہ دل کی پاسبانی کرتے ہیں اور ان اسرار کی نگہبانی جو اللہ کی طرف سے ان کے دلوں پر منکشف ہوتے ہیں، یہ کام سب سے مشکل ہے، وہ نفاق سے دور ہیں، ظاہر و باھن میں یکسانی کی کوشش کرتے ہیں، کیا تم نے نہیں دیکھا ہے کہ بعض اہل سلوک صفت و نفاق کے دور کرنے میں عاجز رہے ہیں تو انہوں نے کمر میں زنار باندھ لی ہے اور کہا ہے، اگر مسلمان نہ رہوں گا تو منافق بھی نہ رہوں گا۔
منقول ہے حضرت سعد خیرآبادی نے حضرت پیر دستگیر مخدوم شیخ مینا قدس سرہٗ سے دریافت کیا کہ ’’علما اور مجتہدین، دنیا میں بہت ہوئے اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘
حضرت مینا قدس سرہٗ نے جواب میں فرمایا کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا میں نے خواب دیکھا ہے، حضرت مصطفیٰ نے فرمایا کیا خواب دیکھا ہے؟ اس نے کہا میں نے دیکھا ایک خیمہ آسمان و زمین کے درمیان معلق ہے، اس خیمے کی چار طنابیں ہیں اور ایک ایک طناب ایک ایک شخص کے ہاتھ میں ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، معلق خیمہ دین اسلام ہے اور چار طنابیں جو دیکھیں یہ وہ لوگ ہیں ہمارے بند ظاہر ہوں گے۔
منقول ہے کہ حضت پیر دستگیر نے فرمایا کہ ایک مرتبہ موسیٰ نے بارگاہ الٰہی میں مناجات کی، الٰہی وہ عبادت سکھا دے جس میں تکلیف و مشقت ہو، رب العزت کا حکم ہوا لا الٰہ الا اللہ کہو موسیٰ نے کئی ہزار مرتبہ پڑھا پھر درخواست کی کوئی ایسی عبادت کی تعلیم دیجیے جس میں انتہائی مشقت ہو اس کلمے سے تو مجھے راحت و مستر کا احسا ہوتا ہے، فرمان الٰہی پہنچا، اے موسیٰ اس کلمے کے رنج و مشقت کو فرعون سے پوچھو، میں نے تم پر آسان کر دیا ہے، تمہارے دل کو پاک و صاف کر دیا ہے، اس لیے یہ کلمہ تم کو آسان معلوم ہوتا ہے۔
منقول ہے کہ پیر دستگیر نے فرمایا۔۔۔ مصطفیٰ نے فرمایا کہ ’’الذین اخمر الشیطان فمن سکر فیھا لا اصحوا الا بذھا بہ‘‘ دنیا شیطان کی شراب ہے جس پر اس کا نشہ چڑھا وہ ہوش میں نہیں آتا مگر (اسی دن) جب وہ یہاں سے چلا جائے گا، نیز آپ نے یہ بھی فرمایا ہے، الدنیا جیفۃ وطالبھا کلاب دنیا مردار ہے اور اس کا طلب گار کتا ہے۔
منقول ہے پیر دستگیر فرماتے تھے، عشق آمدنی بھی ہے اور آوردنی بھی، آمدنی یہ ہے کہ از خود بے اختیار اور بغیر کسب کے اللہ اپنے بندے کو اپنے عشق میں مبتلا کر دیتا ہے، آوردلی وہ کہ اپنے اختیار اور کسب سے حاصل کرتے ہیں کہ خانہ دل میں منتظر بیٹھتے ہیں۔
روخانہ روب کہ شاہ سحر گاہ آید (کذا)
حضرت پیر دستگیر نے فرمایا، طعام حلال اور چیز ہے اور طعام پاک اور چیز ہے، اس کے بعد یہ حکایت بیان فرمائی، ایک بزرگ ایک بادشاہ کے دسترخوان پر مہمان ہوئے، جب دسترخوان چن گیا، ان بزرگ نے اپنی آستین سے چند روٹیاں نکالیں اور کھانے لگے، بادشاہ نے کہا یہ کھانا حلال طریقے پر فراہم کیا گیا ہے کیوں نہیں کھاتے کھائیے۔
ان بزرگ نے کہا واللہ اعلم حلال ہوگا، پاک نہ نہ ہوگا، کیوں کہ میرا دل اس پر فتوی نہیں دے رہا ہے، بادشاہ نے رعونت سلھانی میں آکر کہا بار بار کہ رہا ہوں مگر آپ کھاتے نہیں ہیں، کھائیے اس کھانے سے آپ کا ایمان نہیں جائیے گا، ان بزرگ نے فرمایا ایمان نہیں جائے گا مگر حلاوت ایمانی چلی جائے گی، پیر دستگیر نے فرمایا کہ درویش کو چاہیے فضول گفتگو سے احتیاط کرے اس کے بعد یہ حکایت بیان فرمائی، ایک بزرگ نے چاہا کہ ایک مرید کو خرقہ خلافت پہنا کر دعوت و ارشاد کے لیے متعین کرے، چند بزرگوں کو جمع کیا کہ ان کی مجودگی میں خرقہ خلافت پہنائیں اور مسند رشد و ہدایت پر بٹھائیں، ہوا گرم تھی اور آفتاب کی تابش نیز تر تھی، اس شخص کی زبان سے نکل گیا کہ کس قدر سخت گرمی ہے، ہر ایک بزرگ جو جمع ہوئے تھے سب اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے یہ شخص اس لائق نہیں کہ یہ کام کر سکے لغو اور بے فائدہ بات کرتا ہے اس گفتگو میں کیا نفع تھا۔
منقول ہے کہ امیرالمؤمنین ابو بکر صدیق فضول گوئی سے بچنے کے لیے ریز منہ میں رکھا کرتے تھے، جو نماز ذکر اور کھانے کے وقت منہ سے نکال لیتے تھے ورنہ کسی وقت بھی منہ سے نہ نکالتے تھے اور یہ سب اس لیے کرتے تھے تاکہ لایعنی گفتگو سے محفوظ رہیں۔
منقول ہے کہ حضرت مخدوم شیخ مینا قدس سرہٗ جب کسی کو مرید کرتے تو یہ ہدایت فرماتے جو کچھ اللہ نے حکم کیا ہے اس پر عمل کرو، جس سے منع کیا ہے اس سے بچو غسل جمعہ، نماز با جماعت روزہ ایم بیض اور چار رکعت نماز چاشت کا اپنے کو پابند بنا لو، حضرت پیر دستگیر جب اس آیت کی تفسیر بیان کرتے فاذکر واللہ قیاما وقعود اوعلی جنوبکم، تو یہ دوہرہ بھی پڑھتے تھے۔
اوٹھٹ بیٹھت سب کیجیے
کسی پورکھ امر نہ کیجیے
پیر دستگیر مخدوم میناقدس سرہٗ نے اپنی تصنیف کردہ کتاب فوائدالسالکین میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے متعلق لکھا ہے کہ حضرت خواجہ فرماتے ہیں کہ جس زمانے میں میں حضرت یوسف چشتی کی خدمت میں تھا، بزرگوں کا تذکرہ چھڑ گیا، اسی اثنا میں ایک شخص حضرت یوسف چشتی کی خدمت میں بیعت کے ارادے سے آیا قدمبوس ہوا، حکم ہوا بیٹھ جاؤ، کیسے آئے، اس نے بیعت کا ارادہ ظاہر کیا، اس وقت خواجہ یوسف چشتی کسی اور عالم میں تھے، آپ نے فرمایا ایک کام کرو تو میں مرید کر لوں، اس نے کہا فرمائیے آپ نے کہا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہتے ہو اسی طرح ایک بار اقرار کرو لا الہ الا اللہ چشتی رسول اللہ چوں کہ وہ مرید راسخ تھا اس نے اسی طرح کہہ دیا، اس کے بعد آپ نے اس کر مرید کر لیا، خلعت و نعمت عطا فرمایا، اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا میں کہ میں کون ہوں، میں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ادنیٰ غلام ہوں، اصلی کلمہ یہی ہے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لیکن یہ جانچنے کے لیے کہ تم کو کس قدر میرے ساتھ اعتقاد ہے، یہ سخت امتحان میں نے لیا، جب تمہاری عقیدت مندی کی تصدیق ہوگئی تو مجھے اطمینان ہوا تو میں نے مرید کر لیا مرید کو ایسا ہی راسخ العقیدہ ہونا چاہیے۔
حضرت مخدوم مینا قدس سرہٗ دوپہر کے وقت مکروہ وقت میں سجدے پر سجدے کرنے لگے، (نماز پڑھنے لگے) یاران و مصاحبان میں جو لوگ موجود تھے کہنے لگے مکروہ وقت میں سجدہ منع ہے، حضرت دونوں ہاتھ چہرے پر رکھ کر کہنے لگے، عزیزو خدا کے لیے کچھ نہ کہو خموش رہو اس وقت معشوق نگاہوں میں ہے، اس وقت مجھ میں تاب نہیں ہے کہ اس کو دیکھوں اور سجدہ نہ کروں، اس کے بعد آپ نے یہ دوہرہ پڑھا۔
سائیں جب چڑھے جب آئے
ریت کریت نہ دیکھن جائے
پیر دستگیر قدس سرہٗ نے فرمایا کہ صفائے باطن کے ساتھ جب ذکر کیا جاتا ہے تو بلاؤں کی سختی فراموش ہو جاتی ہے، اس کے بعد یہ حکایت بیان فرمائی۔
حضرت کلیت بنجاری نے ایک روز اپنے ملازم سے فرمایا، دیکھو میرے جسم میں کوئی ایسی جگہ بھی ہے جو گرم نہ ہو مگر زبان جو گرم نہیں ہے، ملازم نے کہا ایسا ہی ہے، حضرت کلیت بنجاری نے فرمایا ہاں کلیب ایسا ہی ہے کہ تمام جگہ گرم ہے مگر زبان کو ذکر و شکر کے لیے مخصوص کیا ہے اوف دل کو فکرو حضوری کے لیے جس کی وجہ سے بلاؤں گی سختی ہیچ ہے۔
یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت کلیت بنجاری کسی سفر میں ایک میدان میں مقیم تھے، ایک رات چند افراد گیے اور ان کے گرد جمع ہو گیے کہ اس حالت میں خدا سے وہ کیا کہتے ہیں کان لگائے ہوئے تھے لوگو نے سنا وہ کہ رہے تھے، میرا نام کلیت ہے، مخدوم سے موسوم ہوں میری غذا فاقہ کشی کے بعد ہے تو جبریل علیہ السلام اس میدان بلا میں کہاں ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ دعویٰ محبت میں میرا مقابل کون ہے۔
لوگوں نے یہ حکایت بھی کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ممشاد دینوری بیمار ہوئے بلاؤں میں مبتلا تھے، لوگوں نے پوچھا آپ کی تکلیف کیسی ہے، آپ نے فرمایا تکلیف سے پوچھو کہ وہ مجھ کو کیسا پارہی ہے، لوگوں نے پوچھا آپ کے دل کا کیا حال ہے؟ فرمایا تیس سال ہوئے کہ دل گم کر چکا ہوں، سختی، تکلیف اور دل کا حال کیا پوچھتے ہو؟
منقول ہے پیر دستگیر نے فرمایا کسی مرید نے اپنے پیر سے کہا چاہتا ہوں کہ ایک اجنبی کی طرح اس مکان میں جاؤں اور کچھ روز رہ کر ان ثروت مند کو دیکھوں پیر نے کہا اگر وہاں سے واپس نہ آنے دیں تو کیا کرو گے؟
منقول ہے کہ پیر دستگیر میں جو شان حلیمی تھی مصطفیٰ کے وا شاذ و نادر ہی کسی میں ہوگی، ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ اس حجام ہاتھ میں اینٹ لیے ہوئے غصے سے بدمست گالیاں دیتا ہوا آپ کے پاس آیا، آپ نے کچھ رقم اس حرکت کے ہو اب میں اس کے ہاتھ میں رکھ دی اور چھٹکارا حاصل کیا، وہ دوڑ کر آئی اور آپ کے قدموں میں گر گیا۔
منقول ہے کہ ایک مرتبہ میں رکھ دی اور چھکارا حاصل کیا، وہ دوڑ کر آیا آور آپ کے قدموں میں گر گیا۔
منقول ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص آپ کی خدمت میں تحفۃ کھیرے لایا، آپ نے چکھا سخت تلخ تھا خود کھا گیے، اسی طرح ہر ایک کو چکھا سب تلخ کسی کو نہ دیا، یہ بات چوں کہ خلاف عادت تھی اس لیے لوگوں کو تعجب ہوا، بعد میں معلوم ہوا کہ سب تلخ تھا اس لیے نہیں دیا کہ حاضرین مجلس میں کوئی تلخی کی شکایت کرے اور لانے والے کو شرمندگی نہ محسوس ہو۔
منقول ہے حضرت پیر دستگیر فرماتے تھے کہ جس زمانے میں میں حضرت قوام الدین قدس سرہٗ کے روضے پر مقیم تھا، بہت پریشان خاطر رہا، کبھی ایسا ہوتا مسافر ان بہت آ جاتے کھانا تھوڑا ہوتا وہی سامنے رکھ دیتا پھر چراغ کی روشنی درست کرنے کے بہانے سے اٹھتا، چراغ بجھا دیتا، تاریکی میں سب کھانے میں مشغول ہوتےمیں ہاتھ ڈالتا لیکن کھاتا نہ تھا تاکہ سب سیر ہو جائیں میں اسی طرح بھوکا رہ جاتا ایک روز کئی فقیر مخدوم کی درگاہ میں اترے والدہ حیات ہیں، میں نے کہا مہمان آ گیے ہیں کچھ کھانے کو ہے، انہوں نے فرمایا ہوگا تلاش کرو میں نے تلاش کیا بہت مختصر سا آٹا ملا میں نے کہا روٹی پکا دیجیے، یہ کہہ کر چلا گیا مگر اس مختصر آٹے کی روٹی پکنے میں بہت تاخیر ہوئی، جب کھانا تیار ہوگیا والدہ کے پاس گیا اور دریافت کیا اتنے مختصر آٹے پکارنے میں اتنی دیر کیوں ہوئی فرمانے لگیں، تمہارے سب ہی بھانجے جاگ اٹھے تھے، میں نے خیال کیا ان کے سانے پکاؤں گی تو یہ بھی مانگیں گے اس طرح مہمانوں کے کھانے میں اور بھی کمی ہو جائے گی، بچوں کو سلانے میں مشغول ہوگئی جب سو گیے تو اس وقت روٹی پکائی، لے جا کر مہمان کو کھلاؤ میں نے وہی مختصر کھانا مہمانوں کو کھلایا لیکن ان بچوں کے بھوکے رہنے سے دل بہت محزون رہا پھر مخدوم فرمانے لگے، اس وقت یہ فراغ البالی جو مجھے حاصل ہے وہ میرا گمان ہے کہ اسی رات کا صدقہ ہے اور یہ روشنی جو اس وقت نظر آتی ہے، وہ والدہ کی خدمت کی بدولت ہے۔
منقول ہے پیر دستگیر نے فرمایا کہ ایک بزرگ خراسان سے شام گیے دریافت کیا یہاں کوئی عالم متقی ہے کہ میں ملاقات کروں، لوگوں نے شیخ سعدالدین منصر کا نام لیا، جب وہ بزرگ وہاں پہنچے دیکھا گوبر پانی میں گھول رہے ہیں تاکہ مکان کی دیوار لیپیں یہ دیکھ کر وہ فوراً واپس لوٹ گیے اور کہا کیسے عالم و متقی ہیں کہ ایسی پلید کو دیوار میں لگائیں گے، اِنَّ اللہَ لِحُبُّ المُتَطَھِّرین۔
منقول ہے ایک مرتبہ حضرت سعد قدس سرہٗ اپنے پیر شیخ مینا سے رخصت ہو کر اپنے وطن اونام میں اپنے والدین سے ملاقات کے لیے جا رہے تھے، برسات کا موسم تھا، جب قصہ موہان کے قریب پہنچے دیکھا ہر طرف جل تھل ہے، جدھر نگاہ جاتی پانی ہی پانی، سیلاب ہے کہ اپنے شدت سے رواں ہے فرماتے تھے ہیں گھوڑ سے پرسوار تھا میں نے چاہا کہ گھوڑے پر چڑھے ہوئے ہی پانی پار کر لوں گھوڑا پانی ڈال دیا، ابھی چند ہی قدم گیا تھا کہ گھوڑے نے ٹھوکر لی، میں گھوڑے سے گر پڑا، پانی غرقاب تھا ڈوبنے لگا، پیر دستگیر کو یاد کیا ان کو اپنا شفیع گردانا اور اللہ سے دعا کی، حضرت پیر دستگیر کو قریب پایا، انہوں نے اس غرقاب سے نکال کر آگے ڈال دیا، میرے وہ ساتھی جو تیرنا جانتے تھے، کھینچ کر باہر لائے۔
حضرت سعد خیرآبادی اپنا ایک دوسرا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ تھا، مجھے سخت بخار آیا ہوا تھا، چند روز فاقے بھی کیے حالت نہ بدلی، تپ غالب ہی رہی تیر ہویں رمضان شریف کو حالت بہت تشویشناک ہوگئی بے چینی سخت تھی نہ زمین میں قرار نہ آسمان میں چین یہاں تک کہ رات ہوگئی، ایک شخص کو پریشانی کی حالت کہ کر پیر دستگیر کی خدمت میں بھیجا، پیر دستگیر حضرت نصیرالدین چراغ دہلی کے عرس کے لیے کھانے کے انتظام میں مشغول تھے تلچند کہ یہاں سے تقریبا ایک روٹی روغن اور شکر میں تربہ تر آئی ہوئی تھی، ایک روٹی میرے پاس بھیج دی اور فرمایا سب کی سب کھا جاؤ ایک ذرہ بھی نہ چھوڑو، طبیعت ناساز اس پر کئی دنوں کا فاقہ طبیعت کھانے کی طرف بالکل مائل نہ ہوتی تھی مگر حکم کی پابندی اور عقیدت مندی کی وجہ سے طبیعت پر جبر کرکے میں سب کھا گیا غذا کرنی تھی کہ مجھے نیند آگئی، میں نیند ہی میں تھا کہ مجلس سماع شروع ہوگئی، میری آنکھ کھلی دیکھنا تھا تمار بالکل نہ تھا، میں اٹھا وضو کیا اور محفل سماع میں حاضر ہوگیا، صوفیان سماع سن رہے تھے میں کھڑا تھا، قوال نے یہ شعر پڑھا۔
رفتم بہ کلیسائے و ترسائے جہود
ترساؤ جہود را رخ بتو بود
مجھے ذوق پیدا ہوا اور اٹھ کھڑا ہوا اور سماع سننے لگا، جب دیر کے بعد میں بیٹھا تو پیر دستگیر نے مجھے پکڑا اور اپنے کمرے میں لے گیے وہاں مجھے قرار آیا، محفل سماع بر خواست ہونے کے بعد اپنی سیاہ دستار اپنے سر سے اتار کر مجھے عنایت فرمائی۔
منقول ہے پیر دستگیر نے فرمایا کہ ابدالوں کا طریقہ یہ ہے کہ جب کسی کو اپنی جماعت میں لینا چاہتے ہیں تو تصفیۂ قلب کے لیے زعفران آش میں ملا کر اس شخص کو پلا دیتے ہیں، اس کو اثر ظاہری و باطنی کہتے ہیں، اس کے علاوہ ان کے پاس ایک چیز اور بھی پائی جاتی ہے جو پانی کی طرح ہوتی ہے یہ کئی رنگ کی ہوتی ہے سفید بھی سرخ بھی زرد بھی اور سیاہ بھی بوزن چند درم یہ بھی مستعمل ہے، سیاہ، روشن اور خوش منظر ہوتی ہے، یہ چیز ایسی خوشبو ہوتی ہے کہ کیا کوئی چیز ایسی ہوگی، نہایت مفرح قلب، ان لوگوں سے لوگوں نے پوچھا یہ کیا چیز ہے، ان لوگوں نے کہا۔۔۔۔ بنی اسرائیل ایک درخت ہے یہ اسی درخت کا پانی ہے۔
منقول ہے ایک بڑھیا شدید کھانسی میں مبتلا تھی کہ زندگی دوبھر حضرت سے اس نے عرض حال کیا، فرمایا گائے کا گھی کھاؤ چند روز اس نے کھایا بالکل صحت مند ہوگئی، پیر دستگیر حضرت مخدوم شیخ مینا قدس سرہٗ کا وصال ۸۸۴ھ میں ہوا، در بست و سوم ماہ صفر سنہ اربع و ثمانمین و ثما نماتہ۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.