Font by Mehr Nastaliq Web

ذکر حضرت مخدوم شیخ سعدالدین خیرآبادی

خواجۂ کمال

ذکر حضرت مخدوم شیخ سعدالدین خیرآبادی

خواجۂ کمال

MORE BYخواجۂ کمال

    دلچسپ معلومات

    ’’تحفۃ السعدا‘‘ سے ماخوذ۔

    آپ کے جد اعلیٰ قاضی قدوہ روم سے ہندوستان آئے تھے، بادشاہ وقت نے اودھ کا ایک علاقہ جاگیری میں دے دیا تھا اور اسی شہر میں ان کا مدفن بھی ہے، ان کے ہمراہ کثیر جماعت آئی تھی جس میں علما بھی تھے بلکہ کئی دایہ اور ذلام بھی دانشمند تھے۔

    مشہور ہے کہ ایک دانش مند ایک مسئلہ میں بہت غلطاں و پیچاں تھے کسی دانشمند سے وہ مسئلہ حل نہ ہو رہا تھا، قاضی قدوہ کے دروازے پر آئے قاضی صاحب زنان خانہ میں تھے، ایک ماں دروازے میں جھاڑو دے رہی تھی، دانشمند نے کہا قاضی صاحب کو خبر کرو، کنیر نے پوچھا کیا کام ہے؟ دانشمند نے کہا تو کیا جانتی ہے جا اور قاضی صاحب کو خبر کر جب کنیز اور دانشمند کے درمیان دو ایک گفتگو ہوئی تو دانشمند نے اپنا مقصود بیان کر دیا، اس نے فوراً مسئلہ کا جواب دیا اور کہا یہ قاضی صاحب سے پوچھنے کی کون سی چیز ہے؟ میں آپ کے جواب کے لیے کافی ہوں، دانشمند کو انتہائی حیرت ہوئی اور اپنے مکان لوٹ گیے۔

    ہندوستان میں قاضی قدوہ کی اولاد بہت ہوئی اور اب بھی موجود ہے، قطب العالم نے شرح ’’رسالہ مکیہ‘‘ میں یہ عبارت لکھی ہے۔

    ’’اکثر شجرہ قاضی قدوہ کہ من یکے از اولاد قاضی مذکورہ نوراللہ مرقدہٗ (ہستم) بہ بینی، بدانی عین صورت لوح محفوظ است‘‘ (یعنی سب ہی شجرے یکساں ہیں کوئی فرق نہیں)

    اولاد کی تفصیل اس طرح ہے قاضی قدوہ کے تین بیٹے تھے قاضی موفق جو قصبہ اونام میں متوطن ہوئے قاضی اعزالدین رسولی میں مقیم ہوئے، قاضی نظام الدین نے سرسند میں بود و باش اختیار کی۔

    قاضی موفق کے چار لڑکے ہوئے، قاضی علاؤالدین، قاضی نصیرالدین، قاضی تاج الدین، قاضی زین الدین حضرت سعد خیرآبادی قاضی موفق کی اولاد میں ہیں، قطب العالم شیخ سعد خیرآبادی بن قاضی بدھن بن شیخ محمد بن مسعود بن زین الدین بن موفق بن قدوہ بن داؤد شاہ بن مبارک شاہ بن علا مبارک شاہ بن عمر شاہ بن مزد شاہ بن سلیمان شاہ بن یہودہ شاہ بن یقعوب پیغمبر۔

    حضرت قطب العالم (سعد خیرآبادی) بڑے پایہ کے بزرگ تھے، علم ظاہر و باطن میں کمال حاصل تھا بلکہ پایہ اجتہاد تک پہنچے ہوئے تھے، تصانیف بہت ہیں از اں جملہ شرح حواشی کافیہ، شرح حواشی مصباح، شرح اشعار لباب الاعراب جس کا نام تحفۃ الممودیہ ہے، یہ کتاب اپنے بھتیجے محمود کے لیے لکھی تھی، یہی صاحبزادے بعد میں آپ کے جانشیں ہوئے، اس رسالہ کے دیباچہ میں اپنا نام اس طرح لکھتے ہیں ’’اضعف العباد اللہ القوی العالی سعد بن مکرم المعروف قاضی بدھن البلخی العرشولی‘‘

    اور بعض جگہ اپنی نام یوں بھی لکھا ہے ’’سعدالدین بدھن‘‘ ان کی تصنیف شرح رسالہ مکیہ تمام علوم کو جامع ہے، ایک رساللہ اباحت سماع میں ہے اور متعدد رسالے ہیں، حضرت قطب العالم کو بیعت و خلافت پیر دستگیر مخدوم شاہ مینا قدس سرہٗ سے تھی، پیر دستگیر شاہ مینا قدس سرہٗ کی پیروی فولاً و فعلاً ہر حال میں کرتے تھے، فرماتے تھے صدق و اخلاص کے ساتھ جس شخص کو پیر کا اتباع حاصل ہے تو سمجھ لو کہ ان کو دونوں جہاں کی دولت حاصل ہے۔

    منقول ہے کہ ایک روز حضرت قطب العالم کہیں جانے کے لیے اپنی خانقاہ سے اٹھے، جوتا موجودنہ تھا، ایک شخص نے اپنا ’’پاافراز‘‘ لاونچی ایڑی کا جوتا) پیش کیا کچھ دور چلے پھر یہ کہ کر اتار دیا کہ خلاف سنت ہے، ہمارے پیر نے کبھی پا افراز جوتا نہیں پہنا ہے۔

    اس عالم ظاہری میں حضرت قطب العالم کے استاد، ملک العلما بدرالصلحا قاضی مسیح بن شیخ مرتضیٰ تھے، یہ استادالائمہ منتخب بن علا کے بھتیجے تھے، قطب العالم پچاس برس تحصیل علم میں مشغول رہے، اس کے بعد اپنے وطن انام کو چھوڑ کر لکھنؤ آئے، بیس برس اپنے پیر مخدوم شاہ مینا کی خدمت میں رہے، اپنے پیر دستگیر کے وصال کے بعد بھی چھ برس تک لکھنؤ میں رہے، اس کے بعد خواب میں بشارت ہوئی کہ تم خیرآباد میں جا کر اقامت گزریں ہو جاؤ اس کے بعد خیرآبا میں آکر اپنا مسکن بنایا تیس برس تک بقید حیات رہے، اس اثنا میں ایک عالم کو علم ظاہری و باطنی، دینی و دنیاوی سے مرتبہ کمال پر پہنچاتے رہے، جس طالب علم نے ایک سبق بھی پڑھ لیا، آخر ایک روز عالم ہوکے رہا کہتے ہیں کہ حضرت قطب العالم کی زبان مازون حکمت ہوگئی تھی جو بات بھی زبان مبارک سے نکلتی تھی یقینی ہو کے رہتی تھی۔

    حضرت قطب العالم کے انتیس خلفا تھے، سب سے پہلے گیارہ خلفا کو حضرت مخدوم شیخ مینا قدس سرہٗ کے اس اشارے سے جو آپ کو خواب میں معلوم ہوئے تھے ایک ہی روز خلافت عطا فرمائی، بقیہ دیگر کو ان کے بعد جس کی تفصیل بعد میں آئے گی، قطب العالم نے اپنا خواب نامہ اس طرح تحریر فرمایا ہے۔

    ترجمہ خواب نامہ

    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم داعی کافہ اہل اسلام کہتا ہے کہ چودہویں ماہ صفر ۹۰۵ھ خمس و تسع ماتہ شب جمعہ کو خواب میں پیر دستگیر قطب العالم مخدوم شیخ مینا قدس سرہٗ کو دیکھا کہ اپنی خانقاہ میں سجادہ پر بیٹھے ہیں یہ فقیر سامنے آکر بیٹھ گیا، فرمایا جاتا ہے کہ تم محزون ہو؟ مرد خدا بنے رہو، غیر خدا کے کچھ معنیٰ نہیں ہیں۔

    گر مرا ہیچ نباشد نہ بہ دنیا و نہ عقبیٰ

    چوں تو دارم ہمہ دارم دگرم ہیچ مباد

    میں کچھ دیر خموش رہا، اظہار محبت اور التفات بہت فرماتے رہے، میں نے صوفیوں اور عوام کی طرف نظر کی میرے دل میں یہ بات آئی کہ جو عزیزان میرے زیر تربیت ہیں، ان کو حضرت کے سامنے پیش کروں جن کو جن کو حضور قبول فرمائیں ہر ایک الباس فرقہ کر دوں۔

    میں نے عرض کیا بعض صوفی میرے زیر تربیت ہیں جن کو آپ قبول فرمائیں میں ان کا لباس خرقہ کر دوں تاکہ مخلوق مستفید ہو میرے خیال میں یہ صورت اچھی ہے آگے جو حضور کافرمان ہو۔

    پیر دستگیر (شیخ مینا) نے فرمایا کہ ’’کجا شیخی درویشی کجا پیری کجا مریدی‘‘ پھر میں اور پیر دستگیر دیر تک روتے رہے، گریہ کے بعد دیر تک مراقب رہے پھر سر اٹھا کر فرمایا، تمہیں یاد ہے کہ میں نے کہا تھا کہ تم مقبول خدا ہو گئی، فرشتے گواہی دیتے ہیں، میں دوڑ کر آپ کے قدموں میں گر پڑا، عرض کیا اس کمینے نفس کے سوا میرے پاس کیا عمل ہے، فرمایا جس کو تم قبول کرو (اجازت و خلافت دو) تو پیروں کی سنت ک پیش نظر رکھو، اس کے بعد تین مرتبہ ’’وَ اُوفوضُ اَمْری الیَ اللہ‘‘ پڑھا۔

    اس کے بعد اس فقیر نے نظر دوڑانی شروع کی سب سے پہلے شیخ ’’محمود بلخی لکھنوی پر نظر پڑی میں نے مخدوم کے رو برو پیش کیا، یہ شیخ محمود بلخی شیخ مکرم کے لڑکے ہیں، ان کا لباس خرقہ ہو چکا ہے، آپ بھی عنایت فرمائیں مخدوم اے ایک خرقہ نہالچے کے نیچے سے کھینچا اور پہنا دیا اور فرمایا مخدوم زادے تم اس خرقے کے زیادہ مستحق ہو، اس لباس کی حرمت نگاہ میں رکھو اوقات ضائع نہ کرو اور تلقین فرمائی خوف خدا سے آنکھیں تر رکھو خصوصاً وقت سحر بارگاہ الٰہی میں گریہ و زاری کرو اور ایکس فید کاغذ بھی ان کے ہاتھ میں دیا۔

    پھر میں نے شیخ مبارک کو پیش کیا اور عرض کیا ان کے بارے میں کیا خیال ہے، فرمایا میں کہ چکا ہوں جس کو تم قبول کرو گے اس کو میں بھی قبول کروں گا، ایک خرقہ نہالچے کے نیچے سے نکالا اور پہنا دیا اور فرمایا اور ایک کاغذ بھی عطا فرمایا اس کے بعد ہاتھ پکڑ کر کان میں دعا بھی پڑھی۔

    اس کے بعد قاضی محمد کو طلب فرمایا بولے وضو کرکے حاضر ہوتا ہوں، اس کے بعد شیخ ملک حسین آبادی سامنے آئے میں نے ان کو پیش کیا نہالچے کے نیچے سے ایک خرقہ نکال کر پہنا دیا اور فرمایا جاہ و مرتبہ کے طلب گار نہ بنو، اوقات ضائع نہ کرو لا یعنی باتوں سے پرہیز کرو بوقت سحر ذکر بہر کی تلقین فرمائی اور ایک کاغذ ہاتھ میں دے دیا، اس کے بعد میں نے چاہا کہ قاضی محمد جو حاضر مجلس تھے ان کو پیش کروں، قاضی محمد سامنے آئے قاضی محمد مدن بن شیخ احمد عرف قاضی محمد بن امین ساکن کاکوری کو پیش کیا دیر تک مراقبے میں رہے پھر فرمایا قاضی محمد تمہارے بارے میں، میں بہت متردد ہوں، خرقہ نیچے سے نکال کر پہنایا اور فرمایا، زیادہ غصہ اور تضیع اوقات سے دور رہو، کسی کی اہانت اور غیبت نہ کرو، جاہ و منصب کے طلب گار نہ بنو جو میں کہتا ہوں کان کھول کر سنو وقت سحر ذکر کی تلقین فرمائی۔

    اس کے بعد قاضی محمد بھی حاضر ہوئے فرمایا شیخ احمد سے کہو سفید کاغذ بھی دیں۔

    اس کے بعد شیخ مبارک لکھنوی کو میں نے پیش کیا فرمایا تم میرے دوست کے لڑکے ہو شیخ محمد مولانا پن چھوڑ دو درد عاشقانہ کے ساتھ گریہ و زاری میں آگے رہو، رعایت شب کا لحاظ رکھو، ذکر جہر بوقت سحر کی تلقین فرما کر خرقہ نہالچے کے نیچے سے نکالا اور پہنا دی اور آہستہ سے میرے کان میں کہا زیادہ سبق سے منع کرو، سفید کاغذ عطا فرمایا، اس کے بعد میں نے شیخ چاند کو بھی پیش کیا فرمایا مخدوم زادے رعایت شب کو ملحوظ رکھو، صفت مولانگی سے باز آ جاؤ بال بچوں کی محبت دل سے نکال کر اس راہ میں آؤ ہمارا عاشقانہ وصف نالہ و زاری ہے ذکر جہر بوقت سحر کی تلقین کرکے نہالچے کے نیچے سے خرقہ نکال کر پہنا دیا اور سفید کاغذ ہاتھ میں دے دیا۔

    اس کے بعد قاضی راجہ یعنی راجہ میاں خیر آبادی کو میں نے پیش کیا فرمایا، رعایت شب ملحوظ رکھو جب دنیا کو چھوڑو طریقہ سنت پر کاربند رہو۔ صفت عاشقان گریہ وزاری اختیار کرو ذکر جہر بوقت سحر، کہ یہی اس راہ میں بنیاد ہے۔ اس کا التزام کرو اوقات ضائع نہ کرو اس کے بعد خرقہ نہالچے کے نیچے سے نکالا اور پہنا دیا۔ کاغذ بھی ہاتھ میں دیدیا۔

    اس کے بعد میاں سکندر کو میں نے پیش کیا۔ فرمایا شیخ سکندر نصر اللہ خیر آبادی بذات خود صاف ہیں مگر ان کی مجلس میں دنیا کا ذکر بہت ہوتا ہے رسم رسوم میں مبتلا ہیں ان سے دور ہی رہو اس کے بعد خرقہ نہالچے کے نیچے سے نکالا اور پہنایا۔ اسکے بعد فرمایا، تلقین پر کار بند رہو۔ اوقات ضائع نہ کرو ذکر جہر بوقت سحر کی ہدایت فرمائی۔ اور کاغذ بھی دیدیا۔

    اس کے بعد قاضی بڈھ کو پیش کیا فرمایا قاضی بڈھ عماد بلگرامی، مقتدائی کی صلاحیت بہت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالی ان کو تصفیہ عطا فرمائے گا۔ ان سے کہ دینا سرا سترے سے صاف کردیا کریں اس کے بعد جب وہ آئے تھے تو سرمنڈا ہوا تھا شیخ بڈھ کو دوبارہ ہدایت فرمائی۔ مخدوم زادے سنت جدّی کا لحاظ رکھو وقت ضائع نہ کرو جاہ و منصب کے درپے نہ ہو ذکر جہر بوقت سحر کی تلقین کے بعد نہالچے کے نیچے سے خرقہ نکال کر پہنا دیا۔ سفید کاغذ بھی ہاتھ میں دیدیا۔

    اس کے بعد ایک اور شخص کو میں نے پیش کیا، یاد نہیں وہ کون تھا فرمایا بہت ہوا۔

    اس کے بعد روانگی کا ارادہ فرمایا مںی نے عرض کیا ہر ایک کے ہاتھ میں سفید کاغذ کس غرض سے دیا گیا ہے؟ فرمایا ہر ایک کو جس طرح تم کو اجازت نامہ دیا گیا ہے نقل کرکے دیدو مجھے فرصت نہیں، میں نے عرض کیا کیوں فرصت نہیں ہے؟ فرمایا مجھے ہر شب جمعہ کو بارگاہ عالی مںی حاضری دینی ہوتی ہے اورمشاہدے میں مشغول رکھتے ہیں۔ چوں کہ تم بہت زیادہ میری طرف متوجہ تھے اسلیے کچھ دیر تمہارے پاس آگیا اب میں وہیں جا رہا ہوں۔ اسی اثنا میں شیخ شاہین اودھی پہنچ گئے۔ میں نے عرض کیا شیخ شاہین اودھی آئے ہوئے ہیں فرمایا وہ اپنے شیخ سے اجازت و خلافت رکھتے ہیں۔ میں نے عرض کیا وہ خلافت کیلئے نہیں آئے ہیں بلکہ ملاقات کیلیے آئے ہیں۔ بندکی مخدوم دوڑ کر گئے مصافحہ کیا اور اس گرم جوشی سے ملاقات کی کہ آپ کی دستار مبارک سرسے گرگئی میں نے اٹھا کر پیش کی۔ فرمایا تم بلند ہمت ہو سامانِ تواضع بھی لاؤ۔ اس کے بعد ایک گرینہ میں لایا کیوں کہ نرمینا موجود نہ تھا۔ فرمایا’’الموجود صفاء‘‘ گزینہ کا جو ٹکڑا میں نے لایا تھا وہ آپ نے ان کو دیدیا پھر جانے کا ارادہ کیا السلام علیکم اے عزیزان فرما کر چند قدم چلے، پھر واپس ہوئے شیخ شاہین کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا شیخ شاہین تم خوب جانتے ہو کہ خرب دل سے اگر ایمان بھی ظاہر ہو تو وہ محض کفر ہے۔ اور اگر آباد دل سے کفر بھی صادر ہو تو وہ محض ایمان ہے۔ ان تمام عزیزوں سے کہو درد مندر ہوتا کہ تمہارے دل کو آباد اور معمور کردیں کہ غیر کی گنجائش نرہے اسلیے میں دعا کرتا ہوں۔

    دعا کے بعد اس فقیر کا ہاتھ پکڑ کر اور تنہا روانہ ہوئے معانقہ کیا۔ ہاتھ پکڑ کر دعاء رخصت پڑھی استودع اللہ دینک و دنیا ک دخواتیم عملک ومن معک و ما معک۔ اسی حال مںی تھا کہ میری نیند ٹوٹ گئی،عشا کی نماز نہ پڑھی۔ فوراً اٹھا وضو کیا اور عشا کی نماز ادا کی خواب کی باتیں پوری طرح یاد تھیں۔ چراغ اور کاغذ منگوا کر اسی شب میں نے لکھ کر رکھ لیا۔

    اس خواب کے بعد آپ نے ان لوگوں کو جن کو خواب میں دیکھا تھا۔ دو مزید شخصوں شیخ ابراہیم بھوجپوری اور شیخ ابراہیم راجو (جو حضرت سعد کے بھتیجے بھی تھے) ان تمام لوگوں کو ایک ہی روز خلافت و اجازت سے نوازا جن کے نام یہ ہیں میاں شیخ صفی عالم ساکن سامپور شیخ کدن خیر آبادی، شیخ معظم گوپا موی میران سید حامد لکھنوی۔

    انکے بعد تین اور آدمیوں کو ایک ہی روز اجازت و خلافت عطا ہوئی۔ بندگی شیخ محمود محمد صاحب سجادہ شیخ نصیر الدین راجو برادر زادہ شیخ اعظم ساکن قلعہ نوا بعدہ میران سید کشائین بخاری ان کے بعد میران سید خورد ساکن کھیری۔ ان کے بعد شیخ نور اسحٰق بجنوری لکھنوی ان کے بعد چار دوسرے افراد جو ایک ہی روز مجاز ہوئے شیخ قاسم ساکن ہوئی شیخ بدھن مبارک میر، میاں شیخ علاء الدین ارزانی میاں قادر بخش، ساکن دانشو۔

    ان کے بعد دو آدمی اور بھی ایک ہی روز مجاز ہوئے شیخ مبارک ساکن ردول، میران سید پیارے جونپوری، اس کے بعد سیخ کدن مصالح لکھنوی میاں شیخ برہان رحیم اللہ تعالیٰ۔

    یہ انتیس خلفا وہ ہیں جو اپنے وقت کے عالم باللہ اور مقتدائے دین تھے دوسرے مریدین کی فہرست کا یہ مختصر رسالہ متحمل نہیں ہے۔ اس کرامت و بزرگی شیخی و مقتدائی کے باوجود حضرت قطب العالم کا یہ حال تھا کہ گریہ کرتے اور فرماتے اگر اس ناہموار زمانے میں ہملوگ سلامتی ایمان کے ساتھ اس دنیا سے چلے جائیں تو گویا جنید و شبلی کے مقام کو پالیں اور یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔

    نہ طفلے برسرما من نہ برنائے سر کوئے

    نہ پیرے بردر مسجد ہمیں خالی ہماں خالی

    اپنے تلقین ذکر کے متعلق حضرت قطب العالم نے شرح رسالہ مکیہ میں اس طرح لکھا ہے۔

    ’’(حضرت) سعد بن بدھن مثبتہ، اللہ علی صراط المستقیم حضرت شیخ محمد بن قطب المعروف بہ شاہ مینا قدس سرہ‘ حضرت برہان السالکین شیخ سارنگ قدس سرہ‘ حضرت مخدوم یوسف ایرچی قدس سرہ حضرت مخدوم جہانیاں جلال الحق والدین قدس سرہ‘

    حضرت شیخ امام الدین گازرونی قدس سرہ‘ حضرت شیخ اوحد الدین عبداللہ بن مسعود قدس سرہ‘ حضرت شیخ اصیل الدین قدس سرہ‘ حضرت شیخ رکن الدین ابی القاسم قدس سرہ‘ حضرت شیخ قطب الدین بن ابی رشید احمد بن محمد بن صفی نہری قدس سرہ‘ حضرت شیخ ضیاء الدین ابو نجیب عبدالقاہر بن عبداللہ سہروردی قدس سرہ‘ حضرت شیخ ابی احمد غزالی قدس سرہ‘ حضرت شیخ ابی عوض عمر بن محمد عمویہ قدس سرہ‘ حضرت شیخ ممثاد دینوری قدس سرہ‘ حضرت شیخ جنید بغدادی قدس سرہ‘ حضرت شیخ سری سقطی قدس سرہ‘ حضرت خواجہ معروف کرخی قدس سرہ‘ حضرت شیخ خواجہ داؤد طائی قدس سرہ‘ حضرت خواجہ حبیب عجمی قدس سرہ‘ حضرت خواجہ حسن بصری قدس سرہ‘ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الشریف حضرت خواجہ کائنات خلاصہ موجودات محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘

    بندگی مخدوم شیخ سارنگ کی تلقین جسطرح حضرت یوسف ایرچی سے ہوئی ہے۔ بندگ شیخ قوام الدین سے بھی ہوئی ہے لیکن، شیخ یوسف ایرچی سے ترک اشغال دنیاوی کے بعد ہوئی ہے اور بندگی شیخ قوام الدین سے مشاغل دنیوی کے زمانے میں جیسا کہ ان کے ذکر میں آچکا ہے نیز خود حضرت قطب العالم نے اپنے رسالہ شرح رسالہ مکیہ میں اپنی تلقین کا ذکر کیا ہے۔

    ’’جب حضرت پیر دستگیر(مخدوم شاہ مینا) نے میری تلقین کا ارادہ کیا صوم روزہ کی شرائط مذکورہ (درکتب) کی پوری تعلیم دی۔ پھر نماز عشا کے بعد غسل کرکے حاضری کا حکم دیا۔ خود قبلہ کی طرف پشت کی اور مجھ کو قبلہ رو بیٹھایا تھوڑی خوشبو بھی منگوائی اس فقیر کو دی اور خود بھی محاسن شریف میں لگائی اور سند تلقین اکابراً عن اکابر پڑھ کر سنائی۔

    حضرت قطب العالم حضرت پیر دستگیر مخدوم (شیخ مینا) کے وصال کے بعد چند برس اور لکھنو میں مقیم رہے، اس زمانے میں اکابر علما اور مخادیم لکھنؤ میں بہت تھے۔ اس حد تک کہ اگر کوئی دعوت کرنی چاہے تو بیس طشت کھانے کا انتظام کرے۔

    ایک مرتبہ کسی نے دعوت کی اکابر کی ایک بڑی جماعت مجتمع ہوگئی۔ ان لوگوں نے آپس میں مشورہ کیا اور قطب العالم کا نام لیکر کہا یہ ایک بیرونی آدمی ہیں ہمارے شہر میں آکر صدر نشین بن گئے ہیں آج کوئی بھی ان کو صدر میں بیٹھنے کی جگہ نہ دے جب حضرت قطب العالم مجلس میں تشریف لائے۔ ان لوگوں کے بھید سے واقف ہوگئے اور پائین مجلس میں بیٹھ گئے۔ ابھی کھانے کا دسترخوان نہ چنا تھا کہ خبر ہوئی سعید خاں لودی کہ جو سلطان لودی کے امراء میں تھے اور دس ہزار سوار اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے قصبہ رنبیر پور جو ایک مشہور قصبہ ہے۔ وہاں سے حضرت قطب العالم کی ملاقات کیلیے لکھنو آئے تھے حضرت سے ملاقات نہ ہوئی تو اسی راہ اس مجلس میں آکر قطب العالم کے قدمبوس ہوئے اور قطب العالم کے قریب ادب سے بیٹھ گئے۔ لشکریوں نے وہ ہجوم کیا کہ کسی اکابر کو اپنی جگہ پر رہنے کی گنجائش نہیں رہی ان کی جگہ پر لشکریوں نے قبضہ کر لیا کتنے اکابر کی دستارتک گم ہوگئی جو لوگوں کے قدموں سے روندی گئی۔ اس کے بعد کھانا کھا کر مخلوق اپنی اپنی جگہ پر روانہ ہوگئی تمام اکابر قطب العالم کی کرامت کے قائل ہوگئے اور اپنے کردار وخیال سے تبہ کی اور سخت شرمندہ ہوئے۔

    اس کے بعد حضرت قطب العالم کو خیال ہوا کہ اس شہر کے بسنے والے حاسد ہیں یہاں رہنا اچھا نہیں ہے اسی زمانے کے لگ بھگ پیردستگیر کا اشارہ بھی ہوا کہ خیرآباد میں سکونت اختیار کرو جیسا کہ اوپر مذکور ہو چکا ہے۔

    منقول ہے کہ شیخ قوام الدین کا مقام جو حضرت پیر دستگیر شاہ مینا کو ملا تھا وہ آپ نے قطب العالم کو عطا فرما دیا تھا۔ جب حضرت قطب العالم خیر آباد کی طرف متوجہ ہوئے تو اس محلہ اور رخا نقاہ کو برادزادہ شیخ نصیر الدین کو عنایت فرمادیا۔ شیخ نصیر الدین کے بعد ان کے فرزندوں نے اس اراضی کو جو اس محلے میں خانقاہ قوام الدین سے متعلق تھی بیچ کر کھا گئے۔ اس محلے اور ان اراضیات پر دوسرے لوگ قابض ہوئے کہ اب تک قابض ہیں بجز حضرت قوام الدین کے روضہ کے کوئی جگہ باقی نہیں رہی ہے۔

    قطب العالم نے اس خانقاہ کے علاوہ ایک دوسری خانقاہ لکھنؤ میں دریا کے کنارے اور اسی کے قریب ایک سرائے بھی بنوائی اگرچہ اب خانقاہ باقی نہ رہی لیکن سرائے کی تھوڑی آبادی ابھی باقی ہے۔ اس محلہ کے باشندوں میں بعض صنعت کار ہیں۔ فی الحال وہ سرائے حضرت قطب العالم کے نام سے مشہور ہے۔ خانقاہ اور آستانۂ حضرت مخدوم شاہ مینا جو فی الحال موجود ہے وہ حضرت قطب العالم کا تعمیر کیا ہوا ہے۔ اور ایک خانقاہ ناگر مؤ میحں بھی بنائی تھی، جو اپنے بھتیجے شیخ ابراہیم کو عنایت فرمائی۔

    منقول ہے کہ قطب العالم جب خیر آباد میں تشریف لائے اس وقت خیر آباد کے حاکم میاراجی اور میاں موسیٰ تھے جو سکندر لودی کے داماد بھی تھے جس جگہ قطب العالم نے خیر آباد میں سکونت اختیار کی وہ ویران تھی قلعہ شہر سے آپ کی جائے قیام تک کوئی آبادی نہیں تھی شہر میں بھی شرفا اور معززین کم تھے سب ہی قطب العالم کی وجہ سے ہر جانب سے آکر بسنے لگے۔ میاں راجی اور میاں موسیٰ کے وکیل جن کا نام برخوردار تھا قطب العالم کے مرید ہوئے۔ ایک روز دونوں بھائی میاں راجی اور میاں موسیٰ شکار کو نکلے۔ بارش نہیں ہورہی جن کا نام برخوردار تھا قطب العالم کے مرید ہوئے ایک روز دونوں بھائی میاں راجی اور میاں موسیٰ شکار کو نکلے۔ بارش نہیں ہوری تھی مخلوق پانی کی حاجتمند تھی، دونوں بھائیوں نے میاں برخوردار سے کہا، اگر آج بارش ہو تو ہم تمہارے پیر کی کرامت سمجھیں، عین بارش میں اسی راہ سے جائیں اور مرید ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ دونوں کو جدا گانہ کلاہ عطا کریں بحکم قضا وقدر یکبارگی ابر نمودار ہو اور پانی برسنے لگا۔ اسی لباس میں عین بارش میں آئے اور مرید ہوئے۔ دونوں بھائیوں نے اپنی خواہش کے مطابق کلاہ پائی۔ ایک کو سبزاون کی ایک کوزرد اون کی دونوں بھائیوں نے دوگاؤں ایک دوسرے براساری خرچ خانقاہ کیلیے دیدی۔

    منقول ہے کہ امر اے سلطان سکندر لودی میں ایک شخص قطب العالم کا مرید تھا سلطان اس سے غصّہ ہوا اور حکم دیا کہ اس کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی جائے۔ حکم کی تعمیل کی گئی۔ قطب العالم خیر آباد مںی اپنی خانقاہ میں درس دینے میں مشغول تھے کہ ناگہاں قطب العالم کے دونوں ہاتھوں کی بشت پر سلائی سے جلنے کا سیدھا نشان الف کی طرح ظاہر ہوا۔ لوگوں کو حیرت ہوئی چند دنوں کے بعد سلطان کے لوگوں نے بتایا کہ اس شخص کی دونوں آنکھیں سلامت اور بینا ہیں۔ اس شخص کو بلا کر حقیقت پوچھی اس نے کہا سلائی پھیرنے کے وقت اپنے پیر کو میں نے یاد کیا تھا۔ دیکھا کہ میرے پیر کے دونوں ہاتھ میری دونوں آْنکھوں پر ہیں اور میری آنکھوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں یہ تقریب تھی کہ سلطان نے قطب العالم کو طلب کیا کہ ایسا شیخ میری حکومت میں ہو اور میں اس کو نہ دیکھوں۔ اس بلاوے پر قطب العالم آگرہ کی طرف متوج ہوئے سرائے بردہ میں فروکش ہوئے سرائے کے قریب ایک تالاب تھا، جس کے کنارے ایک بتخانہ تھا ہرطرف کے لوگ بارہ بارہ، تیرہ تیرہ کوس سے آتے تھے اور شیر برنج (فیرنی) پکا کر لاتے تھے اور بتخانے میں بت کے آگے لا کر رکھتے تھے۔ قطب العالم کے ہمراہی صوفیوں میں ایک صوفی میاں دینی تھے۔ وہ تالاب کے کنارے جا کر دیکھ رہے تھے اس بتخانے میں چلے گئے دیکھا کہ کی طباق جسکو ہندو تھالی کہتے ہیں شیر برنج سے بھرے ہیں چاہا کہ اٹھا لیں ان کا ہاتھ بندھ گیا بایاں ہاتھ اٹھایا وہ بھی بندھ گیا حضرت قطب العالم کے نام کو وسیلہ بنایا دیکھا کہ قطب العالم کی صورت نمایاں ہوئی اور بتخانے کے ایک گوشے ایک دیونالہ و فریاد کرتا ہوا ایک گوشے سے برآمد ہوا کہ مجھے چھوڑ دیجئے پھر کبھی ادھر نہ آؤں گا میاں دینی تمام فیرنی کی تھالیوں کو خالی کرکے اٹھا کر لے آئے اور اور حضرت قطب العالم کے سامنے قصہ بیان کیا۔ اس واقعہ کے بعد لوگوں کا بیان ہے کہ وہ بتخانہ منہدم و معدوم ہو کر مٹی کے برابر ہوگیا پھر کبھی اس جگہ کسی نے بت پرستی نہیں کی۔

    جب قطب العالم آگرہ پہنچے ایک جگہ قیام کیا بادشاہ کو خبر ملی طلب کیا قطب العالم تشریف لے گئے، بادشاہ کسی کام سے اندر گیا ہوا تھا جب نماز کا وقت قریب ہوا، آپ بھی کھڑے ہوگئے اور اپنی قیامگاہ میں چلے آئے سلطان اس خبر کو سنتے ہی قطب العالم کی قیام گاہ کی طرف گیا۔ شام کے وقت قطب العالم نوافِل میں مشغول تھے۔ سلطان دیر تک کھڑا رہا لیکن قطب العالم اپنی نماز مںی مشغول رہے اس کی حالت کی طرف توجہ نہ کی۔ دلگیر ہو کر اپنے محل واپس لوٹ گیا دونوں کے درمیان صحبت راست نہ آئی بارہ دنوں تک قطب العالم آگرہ میں مقیم رہے مگر ملاقات کی کوئی صورت نہ ہوسکی۔ ملاقات نہ ہونے کی وجہ سے بادشاہ کے دل میں کینہ بیٹھ گیا۔

    بادشاہ کے ایک لشکری ایک دیہات کو جو مطیع الاسلام تھا لوٹ کر اس کی اشیا بازار میں لے جا کر بیچتے تھے اسلئیے رعایا سخت پریشان تھی قطب العالم کے دائرے مںی خوب لنگر موجود ہوتا تھا لوگ کھاتے تھے مگر آپ خود نہ کھاتے تھے کھانے کے وقت موجود رہتے تھے لوگ سمجھتے تھے کہ جب رہتے ہیں تو کھاتے بھی ہوں گے یہاں تک کہ بارہ روز اسی صورت میں گزر گئے بارہویں روز قاضی محمد بن من اللہ کو خبر ہوئی۔ بادشاہ کے لشکر میں یہ ایک ایسے امیر تھے کہ اکل حلال میں بہت احتیاط رکھتے تھے حتیٰ کہ کلوخ کی مٹی بھی کسی غیر کی زمیں سے نہیں لیتے تھے یہی قاضی محمد اپنے گھر گئے اور کچھ کھانے کاسامان لائے تو آپ نے کھایا۔

    حاصل کلام جب قطب العالم اور بادشاہ کے درمیان صحبت راست نہ آئی اور ملاقات نہ ہوسکی تو آپ اپنے وطن کی طرف متوجہ ہوئے۔ بادشاہ نے پوشیدگی سے اپنے سپاہیوں کو کہا کہ جس وقت شیخ کشتی میں سوار ہوں اور کشتی غرقاب میں پہنچ جائے تو مست ہاتھی کولے کر کشتی کو غرق کر دیں۔ ان بدبختوں نے ایسا ہی کیا جب کشتی غرقاب میں پہنچی ایک مست ہاتھی کہیں سے لے آئے اور کشتی کو غرق کرادیا۔ تمام اہل کشتی دریا میں گر پڑے جاسوسوں نے بادشاہ کو خبر پہنچائی کہ کشتی غرق ہوگئی میاں راجی اور میاں موسیٰ دونوں قطب العالم کے مرید اس مجلس میں مجود تھے۔ بادشاہ ان کی طرف متوجہ ہو کر بولا تمہارے پیر غرق ہوگئے، ان دونوں نے کہا میرے پیر ایسے نہیں ہیں کہ ایسی ندی میں غرق ہو جائیں؎

    ہر کہ از بحر بگذر و چوں برق

    کہ زسیل نہار گرد دغرق

    جو سمندر سے بجلی کی طرح گزرجاتا ہو وہ ایسی ندیوں کے سیلاب سے کیا غرق ہوگا۔ آخر ایسا ہی ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے دریا کو پایاب کردیا قطب العالم اپنی پوری جماعت کے ساتھ کنارے آگئے مگر صرف ایک صاحب، میاں قاضی خان جو حضرت کے مرید صادق، عالم و فاضل اور بہت خوش طبع تھے کشتی میں سوار ہوتے وقت خوش طبعی سے بولے اگر ہم سب غرق ہو جائیں تو کیا خوب ہو عذاب قبر سے بچ جائیں۔ میاں قاضی راجو جو قطب العالم کے خلیفہ بھی تھے بولے اے سیہ زبان کیا بد فالی کرتے ہو میاں قاضی خان نے کہا میں تو اپنے بارے میں کہ رہا ہوں تم سب وبسلامت گزر جاؤ۔ آخر وہی ہوا جو انہوں نے کہا تھا۔ ہر چند ملاحوں نے ان کی تلاش میں کوشش بلیغ کی مگر کوئی نشان ان کا نہ ملا۔ اگرچہ غرق ہونے کے وقت بعض دوستوں نے ان کی مدد کی ہاتھ پکڑ کر کھینچا مگر زمین میں پہنچ گئے۔ قطب العالم نے فرمایا، ان کو چھوڑ دو، ان کے ملنے سے ہاتھ اٹھا لو خضر علیہ السلام نے ان کے دونوں پاؤں پکڑ لیتے ہیں۔

    منقول ہے قطب العالم دہلی سے خیرآباد کی طرف لوٹ رہے تھے، بدایوں سے گزر ہوا حضرت مخدوم شیخ بدرالدین جو اس دیار کے صاحب ولایت ہیں ان کے مزار کی زیارت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے چنڈول میں سوار مقبرہ کی چہار دیواری میں داخل ہوئے ایک خادم اپنی چھوٹی بچی کو گود میں لیے بات کر رہا تھا، جب مخدوم قطب العالم کی طرف نظر کی تو کہا اے شیخ ادب کرو چنڈول سے اتر جاؤ قطب العالم نے فرمایا تم بچیوں سے کھیلنے میں مشغول رہو، اس کے بعد ہر ولادت جو اس کے یہاں ہوئی کل بچیاں ہوئیں یہاں تک کہ تعداد سات آٹھ تک پہنچ گئی، آخر حضرت بدرالدین کی بارگاہ میں التجا کی کہ کوئی لڑکا پیدا ہو جو آپ کے آستانے کی خدمت کرے، خواب میں شیخ بدرالدین کو دیکھا فرماتے ہیں کہ یہ شیخ سعد کے نفس کی تاثیر ہے، ان کے پاس جاؤ اور انہیں سے التماس کرو، وہ خیرآباد آیا قطب العالم نے اس کو دور سے دیکھا فرمایا، برادرم شیِخ بدرالدین نے بھیجا ہے، جاؤ اللہ تعالیٰ تم کو ایک بیٹا عنایت فرمائے گا، آخر اس کو ایک لڑکا ہوا، ایک مدت تک آستانہ کی خدمت کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ میرے باپ کو کوئی بیٹا پیدا نہیں ہوتا تھا میں حضرت سعد کی جوتیوں کے صدقے میں ہوا ہوں۔

    منقول ہے کہ لکھنؤ میں ایک شخص نے حضرت قطب العالم کی دعوت کی، آپ پاپیادہ ہی روانہ ہوگیے راستے میں ایک درزی کی دکان تھی جس کا نام سلیمان تھا وہ بیٹھا ہوا کپڑا سی رہا تھا، اس کی زبان سے یہ جملہ نکل گیا شیخ جیو کام میں مشغول ہوں ورنہ آپ کی تعظیم کے لیے میں اٹھتا، قطب العالم نے فرمایا بیٹھے رہو، اس کے بعد وہ وہاں سے نہ اٹھ سکا ویسے پڑا رہا اور یہ نقص اس کی اولاد میں بھی سرایت کر گیا، البتہ اس کی زیارت میں ایک دو شخص کو یہ تکلیف ہوتی ہے، یہاں پر حضرت بایزید بسطامی کی حکایت یاد آتی ہے، ایک شخص ان کے پاؤں پر چڑھ گیا، چند دنوں کے بعد اس شخص کے پاؤں میں تکلیف پیدا ہوئی، اس کا اثر اس کی اولاد میں بھی سرایت کر گیا، کسی شخص نے حضرت بایزید سے عرض کیا گناہ کوئی کرے اور سزا میں دوسرے بھی پکڑے جائیں؟ آپ نے فرمایا کڑی کمان کا تیر بہت دور تک جاتا ہے‘‘ فی الواقع ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص نے حسد، بدنیتی یا بطور تمسخر کوئی نازیبا حرکت آپ کے مقابلے میں کی ہے اور زبان مبارک سے کوئی جملہ نکل گیا ہے تو وہ ہو کر رہا ہے۔

    منقول ہے کہ ایک شخص پر گنہ امروہہ کے اطراف کا رہنے والا نہایت موٹا سیہ فلم اور میاں مدن نام، وضع قطع بھی عجیب، خیرآباد آیا اور قطب العالم کی خانقاہ میں ٹھہر گیا، آدمی خوش لحن اور خوش آواز تھا، گاہ بگاہ حضرت قطب العالم اس کا گانا سنتے تھے، اہل توحید کے ساتھ وجد بھی فرماتے تھے، حضرت کے وصال کے بعد ہندی زبان میں آپ کی مدح بھی لکھی ہے جو اس علاقے کے قوال گایا کرتے ہیں، قنوج کی ایک مطربہ نہایت صاحبِ جمال خیرآباد آئی ہوئی تھی میاں مدن دیکھتے ہی ریشہ خطمی ہوگئے اور ایسے لٹو ہوئے کہ عقد کا پیغام بھی بھیج دیا، وہ مطربہ بالکل راضی نہیں ہو رہی تھی، حضرت قطب العالم کی خدمت میں اس بات کو پیش کیا قطب العالم نے ان کے لیے سفارش کر دی، اس نے کہا قطب العالم کیا اس سیاہ مٹکے کو قبول کروں آپ نے فرمایا، اگرچہ مٹکا سیاہ ہے مگر شربت سے بھرا ہوا ہے، اس سے جو اولاد ہوگی وہ شاہی درباروں میں مقبول ہوگئی، مطربہ نے کچھ سوچ کر منظور کر لیا چنانچہ ایسا ہی ہوا، عقد کے بعد متعدد اولاد ہوئی اور وہ سب شاہی درباروں سے منسلک رہی فی الحال میاں مدن کے پوتے سندر خاں بادشاہ کے مقرب گویے ہیں۔

    منقول ہے کہ یوسف خازی نے جو گذشتہ بادشاہوں کے امرا میں تھے شہر خیرآباد کو آباد کیا، اہل اسلام کر بسایا اور قلعہ کی تعمیر کی ان کا مقبرہ بھی خیرآباد میں واقع ہے، جب یوسف خاں غازی کا انتقال ہوگیا، لشکری مختلف اطراف و جوانب میں نکل گیے، شہر میں اہل اسلام کمزور ہوگیے جس زمانے میں حضرت قطب العالم تشریف لائے ہیں اس وقت یوسف خاں کے ایک بیٹے نصرت خاں نہایت پر فرتوت زندہ تھے ملاقات کے لیے آئے اور کہنے لگے میرے والد کہا کرتے تھے کہ میں تو محض حاکم ہوں ایک گھر بنا رہا ہوں لیکن وہ دوسری شخصیت جو اس کی مالک ہوگی وہ میرے بعد آئے گی، کئی برسوں کے بعد قطب العالم کی شکل و صورت بھی بیان کی تھی، اب تحقیق ہوئی کہ وہ آپ ہی کے بارے میں کہا کرتے تھے، یہاں کے صاحب ولدیت آپ ہیں جو تشریف لائے، قطب العالم بہت تواضع سے پیش آئے اور بہت تعظیم و اکرام کے ساتھ ان کو ان کے گھر رخصت فرمایا۔

    منقول ہے کہ ایک روز ایک جوگی حضرت قطب العالم کی خانقاہ میں آیا چند روز ٹھہرا، اس نے دیکھا کہ خانقاہ میں صوفیوں، طالب علموں، مسافروں اور مجاوروں کے لیے خرچ بہت ہے مخلوق خدا کو کھانا کھلاتے ہیں مگر خود لاغر ہیں، اس نے سوچا یہ لاغری متعلقان کے خوراک کی فکر کی وجہ سے ہے اور اسی لیے غمگین رہتے ہیں، حضرت کے پاس آیا اور ایک سلائی جو کیمیا گری سے تیار کی تھی بغل سے نکال کر پیش کی اور کہا یہ سلائی آپ کی خانقاہ کے چند سال کے خرچ کے لیے کافی ہے۔

    آپ نے فرمایا اس کو کسی محتاج کو دے دو مجھے اس کی حاجت نہیں پھر میاں صفی جو آپ کے خلیفہ تھے حکم دیا کہ اس جوگی کو حجرے کے اندر لے جاؤ، جب وہ حجرے میں گیا اس کو نظر آیا کہ تمام دیوار نیچے سے اوپر تک سونے کی ینٹوں سے تعمیر کی گئی ہے اس وقت اس نے یہ سمجھا کہ جو اس تصرف کا مالک ہے اس کو کیمیا کی کیا حاجت ہے، منقول ہے کہ قطب العالم کے ایک مرید قصبہ بنولی سے خیرآباد آ رہے تھے، شیخ بدھن کی خانقاہ میں ٹھہرے۔

    شیخ بدھن نے دریافت کیا کہا جا رہے ہو؟ وہ بولے خیرآباد اپنے پیر کی ملاقات کے لیے، شیخ بدھن نے کہا تمہارے پیر مسخرے ہیں یعنی سماع سنتے ہیں، وہ مرید جب قطب العالم سے قدم بوس ہوئے تو شیخ بدھن کی بات نقل کر دی، قطب العالم نے ہندی زبان میں فرمایا ‘‘کنڈھپ ناچے گا‘‘ ایک مدت گزر جانے کے بعد قطب العالم کا گزر قنوج میں ہوا، شیخ بدھن کی خانقاہ میں فرودکش ہوئے، جو تعظیم و تکریم کہ چاہیے تھی وہ انہوں نے کی قطب العالم کے ساتھ قوال بھی تھے، گانا شروع ہوا شیخ بدھن اٹھ کر زنان خانہ میں چلے گیے اور دیر تک نہ آئے، ان کی اہلیہ نے کہا، ایک معزز مہمان آئے ہوئے ہیں آپ کے لیے مناسب نہیں ہے کہ آپ زنان خانہ میں بیٹھے رہیں اگر آپ سرود نہیں سنتے ہیں تو کان میں روئی ڈال کر بیٹھیے آخر وہ مہمان ہیں۔

    قطب العالم کو کیفیت تھی شیخ بدھن بھی دست بستہ کھڑے تھے، یکبارگی قطب العالم نے شیخ بدھن کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا، وہ اپنا ہاتھ چھڑانے لگے، دوسری مرتبہ پھر قطب العالم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا، شیخ بدھن کو عجیب و غریب وجد پیدا ہوا کہ خانقاہ میں بھی نہ ٹھہر سکے کوچہ و بازار کا رخ کیا، قوال ان کے پیچھے گاتے تھے، تمام روز اور تمام رات اسی طرح جو قطب العالم کی زبان سے نکلا تھا، ایک ہاتھ سر پر اور ایک ہاتھ کمر پر رکھے ہوئے حل کرتے رہے، جب اپنی حالت میں آئے تو وہ بے ادبانہ بات جو منہ سے نکلی تھی یاد آئی توبہ کی، معافی چاہی پھر تو طالب صادق ہوگیے، نوے سال کے بوڑھے کہ یہ معاملہ پیش آیا، ہمیشہ حسرت و افسوس کرتے تھے اور کہتے تھے ’’بڑھیا نے شادی رچائی مگر جوانی برباد، اپنے احوال انہوں نے ہندی اشعار میں لکھے ہیں جو تا حال قوال گایا کرتے ہیں، یہ اشعار انہوں نے پہلے حضرت سعد کی خدمت میں پیش کیے تھے۔

    جاری۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے