اقبال اور عشق رسول
علامہ اقبال کی حیات میں ان کی شاعرانہ قوت اور فلسفیانہ عظمت کا احساس و اعتراف ہندوستان کے علاوہ ایشا اور یورپ کے تمام مہذب ممالک کی پوری طرح ہوچکا تھا لیکن ایسے بھی اکثر واقعات ہوتے ہیں جو زندگی میں قابل اعتبار نہیں سمجھے جاتے اور موت کے بعد اس لیے بھی بیان کیے جاتے ہیں کہ دکھے ہوئے دل کچھ نہ کچھ سننا چاہتے ہیں اور کہنے والوں کو معمولی واقعات کے بھی اچھی سننے والے میسر آ جاتے ہیں، علامہ اقبال کی وفات کے بعد ان کی نجی زندگی کا سب سے زیادہ تابناک پہلو جو ہمارے سامنے آیا وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ والہانہ محبت ہے اس طرح ان کی شخصیت جسے ہم اب تک صرف قابل قدر ہی سمجھتے تھے، قابل احترام و عقیدت بھی ہو جاتی ہے، موصوف باوجود اپنی عمیق فلسفیت اور عقلیت کے حب رسول کی شورش و سرمستی میں گم ہو کر رہ گیے تھے، یہ ایک مسلمہ سعادت ہے جو زور بازو سے حاصل نہیں ہو سکتی لیکن اسی کے ساتھ ایک محقق کے لیے لمحہ فکریہ بھی پیش کرتی ہے کہ مبلغ خودی جو ساری عمر تبلیغ خودی میں صرف کرتا ہے کس طرح عملاً غیر خودی کی محبت میں گرفتار ہے، اس بات پر غور کرنے کے لیے فروری ہے کہ ہم فرداً فرداً اور مجموعی طور سے عنوان کے تینوں حصوں پر نظر ڈالیں، کی محبت میں گرفتار ہے، اس بات پر غور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم فرداً فرداً اور مجموعی طور سے عنوان کے تینوں حصوں پر نظر ڈالیں۔
عشق : اگر تخلیق عالم محض ضرورت کا نتیجہ تسلیم کیا جائے جیسا کہ ’’مادتیین‘‘ سمجھتے ہیں تو ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ عالم میں غیر ضروری اشیا کا وجود ہی نہیں ہے لیکن بداہتاً ہم دیکھتے ہیں کہ بقائے حیات کے لیے جن اشیا کی ضرورت ہے اس سے بہت زیادہ سامان عالم کو عطا کیا گیا ہے اور اس بہت زیادہ کے علاوہ حسن و جمال یقیناً موجود ہے اور حسن و جمال کی یقیناً نہ مادے کی ضرورت ہے نہ حیات کو بلکہ مادے اور حیات کے انتہائی نقطۂ ارتقا پر جمال کا ظہور ہوتا ہے جہاں ضرورت کا کوئی مفہوم ہی نہیں ہے اور چوں کہ جمال ہی کائنات کی حقیقت ہے اس لیے ارتقائے کائنات کا رخ جمال کی طرف ہے، چوں کہ محبت جمال ہی کی ایک شکل ہے اس لیے وہ بھی قانون ضرورت کی پابند نہیں ہو سکتی۔
کلیہ ہے کہ ہر شے اپنی اصل کی طرف رجوع ہوتی ہے اسی خواہش رجوع کا نام محبت ہے اسی لیے کہا گیا ہے کہ محبت سے کائنات کا کوئی ذرہ خالی نہیں، یہی وجہ ہے کہ لطیف طبیعتوں کی خواہش اور میلان نفیس صورتوں، موزوں آوازوں اور نیک خصلتوں کی طرف ہوتا ہے کیوں کہ ان سب اشیا کی اصل اور جنس مشترک لطافت و تجرد ہے، انسان کا شرف و امتیاز اس کے بلند محسوسات و خصائل ہی کی وجہ سے ہے ورنہ نفس ترکیب اور فیضان حیات کے اعتبار سے انسان اور حیوان برابر ہے، تمام انسانی خصائل اور جذبات میں لطیف ترین اور مقدس ترین جذبہ ’’محبت‘‘ ہی ہے کیوں کہ وہ حسن سے اتصال کی خواہش ہے اور اس لیے خود بھی حسن ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : جس طرح علم کا شرف اس کے موضوع کے اعتبار سے ہوتا ہے اسی طرح محبت کا معیار پستی و بلندی محبوب کی شخصیت سے قائم ہوتا ہے اس لیے انسان سے محبت کرنے والا مکان و حیوان، زر و جواہر سے محبت کرنے والوں سے افضل و اعلیٰ ہونا چاہیے، اسی طرح انسانوں میں بھی جس کا محبوب صوری و معنوی کمالات کے اعتبار سے اعلیٰ و افضل ہوگا وہ محبت کرنے والا بھی تمام محبت کرنے والوں سے اعلیٰ و افضل ہوگا۔
تاریخی اور اسلامی نقطہ نظر سے مسلمہ طور پر حضور اقدس کی ذات قدسی صفات کیا باعتبار خصائص الوہیت اور کیا با عتبار کمالات عبدیت کامل ترین اور افضل ترین ہے، مسئلہ افضلیت سے قطع نظر یہ ظاہر ہے کہ حضور کے ساتھ محبت کرنے والے کی محبت کا تعلق اسی جہتِ اکملیت و افضلیت سے ہے اس لیے اس محبت کے اعلیٰ و افضل ہونے میں شک ہی نہیں کا جاسکتا، خود حضور کا ارشاد ہے کہ تم میں کوئی مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے مال و اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں (او کما قال) لہٰذا اسلامی نقطۂ نظر سے بھی ایمان لمبی داڑھیوں اور اونچے تہمدوں کانام نہیں بلکہ وہ صرف محبت رسول ہے اور اس لیے علامہ اقبال ان ہزاروں مسلمانوں سے بہتر مسلمان تھے جو جد شریعت کے بت کے پجاری ہیں اور محبت رسول سے خالی ہیں۔
علامہ بحیثیت مبلغ خودی : علامہ اقبال وحدۃ الوجود کے شدت سے معتقد تھے اس گروہ کا مسلک ہے کہ وجود اور موجود ایک سے زیادہ نہیں (لا موجود الا اللہ) مسیحیت اپنی تثلیث کی وجہ سے اس عقیدہ سے خالی ہے، اسے بھی بدھ مذہب کی طرح ہستی میں خیر سے زیادہ شر نظر آتا ہے حضرت عیسیٰ کا مقولہ ہے جس کا مطلب ہے کہ کوئی آدمی نیک نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ بدھ مذہب کا مقصود ہی ہستی کی انانیت کو فنا کرنا اور زندگی کے عذاب سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے، عیسائیت کی رہبانیت اور ترک دنیا اور کفارے کے عقائد کی بنیاد یہی عقیدہ ہے، یہودیت میں صفاتِ الٰہی کا تجسم، قہر و انتقام کی شدت اور ادنیٰ درجے کے تمثیلی بیان اس عقیدے کے لیے راس نہیں ہیں، ایرانی مذاہب خیر شرکی دوئی سے باہر نہ آسکے، اس لیے صرف ویدانت کا عقیدہ رہ جاتا ہے جو اسلامی وحدۃ الوجود کے مماثل بھی ہے اور اس سے قدیم بھی ویدانت کے دو بڑے اسکول ہیں، ایک کا عقیدہ ہے کہ خالق نے کائنات میں حلول کیا ہے یہ عقیدہ وحدۃ الوجود کے اصولاً منافی ہے کیوں کہ حلول یا اتحاد کے لیے ثنویت کا اعتقاد لازمی ہے، دوسرا اور بڑا اسکول وہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ حق تعالیٰ کے سوا تمام اشیا باطل اور اعتباری ہیں، ہم خدا کو کائنات کے ذریعے سے ادراک نہیں کر سکتے جسمانی تعلقات کا بندھن توڑ کر اس کو پا سکتے ہیں بغیر یہ بندھن توڑے ہوئے آوا گون کے چکر سے نکلنا محال ہے معرفت کی انتہا یہ ہے کہ اتما پر آتما میں اپنے کو فنا کر دے۔
یہاں بھی اصل عقیدے کا پس منظر فنا اور ترک تعلقات ہی ہے لیکن اسلامی وحدۃ الوجود عالم کو عین حق کہتا ہے وہ ترک عالم کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ عالم کو صحیح طور سے سمجھنے کی ترغیب دیتا ہے، اسلامی شعرا نے بہ استثنائے عارف رومیؔ اور شاہ نیازؔ احمد بریلوی اس مسئلے کو پوری طرح نہ سمجھا یا بیان کرنے کی کوشش نہ کی، متاخرین میں علامہ اقبال تنہا شخص ہیں جنہوں نے اسے بہتر طریقے پر سمجھا اور بہترین طریقے پر بیان کیا۔
گفت آدم؟ گفتم از اسرار اوست
گفت عالم؟ گفتم او خود رو بروست
(اقبال)
کمال ترک نہیں آب و گل سے مہجوری
کمالِ ترک ہے تسخیر خاکی و نوری
(اقبال)
محض ہمارے اعتبار سے وجود کی دو جہتیں ہیں ظہور اور بطون، یا ذہنی اور خارجی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جہت باطن تو جو کچھ تھی وہ تھی ہی لیکن آپ کی جہتِ ظاہر کو موجوداتِ خارجی کی بھی مرکزیت حاصل ہے اور بفحوائے المجاز قنطرۃ الحقیقۃ حضور کی جہت ظاہر زینۂ حقیقت ہے اس لیے حقیقت یا خودی تک پہنچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے مرکز کی طرف بڑھیں اسی کا دوسرا نام ’’محبت رسول‘‘ ہے لہذا علامہ اقبال بحیثیت مبلغ خودی کے محبت رسول پر مجبور تھے کیوں کہ عرفانِ خودی اور محبت رسول لاز و ملزوم ہیں بلکہ علامہ کے نزدیک حقیقت، خدا، خودی اور رسول ایک مسمیٰ کے متعدد اسم اور ایک ہی حقیقت کی مختلف جہتیں ہیں، جاوید نامے میں فرماتے ہیں۔
پیش او گیتی جبیں فرسودہ است
خویش را خود عبدہ، فرمودہ است
عبدہ از فہم تو بالا تر است
زانکہ اوہم آدم وہم جوہر است
عبدہ‘ صورت گرِ تقدیر ہا
اندرو ویرانہ ہا تعمیر ہا
عبد دیگر عبدہ چیزے دگر
ماسراپا انتظار او منتظر
عبدہ دہر است و دہر از عبدہ ست
ماہمہ رنگیم و او بے رنگ و بواست
کس زسرِ عبدہ آگاہ نیست
عبدہ جز سر الا اللہ نیست
لا الہ تیغ و دم او عبدہ
فاش تر خواہی بگو ہو عبدہ
اکثر اصحاب کو علامہ کی خودی کی اصطلاح پر اعتراض ہے وہ اسے قدیم اسلامی تصوف کے خلاف سمجھتے ہیں حالاں کہ اصطلاح خفا ہونی یا اعتراض کرنے کی چیز نہیں ہے، قدیم تصوف میں بھی جگہ جگہ عرفانِ نفس کی تاکید ہے علامہ عرفان نفس کو عرفانِ خودی کہتے ہیں، نفس اور خودی میں فرق ہی کیا ہے شید وجہ اشتباہ یہ ہو کہ قدیم صوفیہ ترکِ خودی کی تعلیم دیتے ہیں لیکن وہاں ان کی مراد خودی سے وہم غیرت ہی یعنی وہ تشخص جو انسان نے مغائر حقیقت قائم کر لیا ہے، علامہ بھی اس خودی کے مبلغ نہیں، ان کی خودی یہ ہے۔
خودی را از وجودِ حق و جودے
خودی را از نمودِ حق نمودے
کف خاکے کہ دارم از در اوست
گل و ریحا نم از ابر تر اوست
نہ ’’من‘‘ را می شنانم سم من نہ ’’او‘‘را
دلے دانم کہ’’من‘‘ اندر برِ ‘‘ او’’ست
(اقبال)
صوفیہ متقدمین کے کلام میں جہاں کہیں ترکِ دنیا یا ترکِ خودی کے الفاظ آئے ہیں وہ سب اسی وہم غیرت اور حبِ ماسوا کے لیے مستعمل ہوئے ہیں خود علامہ کو بھی اس اندازِ کلام کے بغیر چارہ نہ ہوا فرماتی ہیں۔
جنگ مؤمن چیست ہجرت سوئے دوست
ترکِ عالم اختیارِ کوئے دوست
دل زغیر اللہ بہ پر داز اے جواب
ایں جہانِ کہنہ در بازار اے جواں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.