Font by Mehr Nastaliq Web

ذکرِ خیر حضرت حافظ محمد عبدالغفور

محمد حذیفہ

ذکرِ خیر حضرت حافظ محمد عبدالغفور

محمد حذیفہ

MORE BYمحمد حذیفہ

    حضرت حافظ عبدالغفور کے والدِ ماجد کا نام محمد جی تھا، جو علمِ میراث اور تصوف کے علم نظم کے استاد تھے، ان کے پاس افغانستان اور دیگر ملکوں سے لوگ علمِ میراث حاصل کرنے آتے تھے، محمد جی کے تین صاحبزادگان تھے۔

    حافظ محمد جمیل

    حافظ محمد عبدالغفور

    حافظ محمد فضلِ حق

    حافظ عبدالغفور ایک مادرزاد ولی تھے، اس کی مثال یہ ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن چھوروی جو بہت سنجیدہ مزاج بزرگ تھے، جب ان کی نظر حافظ عبدالغفور پر پڑی تو فوراً مسکرا دیے، خادم نے اصرار سے مسکرانے کی وجہ پوچھی تو آپ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ

    یہ بچہ ابھی بھی ایک قطب کے برابر فیض دے سکتا ہے

    حصولِ علم کے لیے آپ رامپور تک تشریف لے گیے، اس کے علاوہ اکھوڑی بھی گیے اور چند کتب اپنے والد ماجد سے بھی پڑھیں، نیز اپنے ماموں قاضی غلام جیلانی عرف مولوی پشاوری سے بھی استفادہ کیا، چوں کہ آپ نے اپنا شجرۂ نسب ظاہر نہیں فرمایا، اس لیے اس بارے میں دو آراء پائی جاتی ہیں، ایک رائے کے مطابق آپ قطب شاہی اعوان ہیں اور دوسری رائے کے مطابق آپ ساداتِ کرام میں سے ہیں، واللہ اعلم۔

    بچپن ہی سے قرآن مجید سے خاص لگاؤ تھا، علاقۂ چھچھ میں اشاعتِ قرآن کے ضمن میں آپ کا اسمِ گرامی صفِ اول میں شمار ہوتا ہے، آپ سے قرآن مجید حفظ کرنے والے افراد پورے برصغیر میں پھیلے ہوئے ہیں۔

    ادب کا یہ عالم تھا کہ ایک دن خربوزے کے چھلکے اٹھا رہے تھے، پوچھنے پر فرمایا کہ

    یہ چھلکے حفاظِ کرام کی زبان سے مس ہوئے ہیں اور انہی زبانوں سے قرآنِ مجید کی آیات نکلتی ہیں

    جب آپ اپنے مرشد خانے تشریف لے جاتے تو ریلوے اسٹیشن پہنچنے سے پہلے اپنے جوتے اتار دیتے اور ریلوے اسٹیشن سے لے کر آستانہ میں حاضری دے کر واپسی تک جوتے نہ پہنتے، ساداتِ کرام کے ادب میں آپ کا مقام انتہا کو پہنچا ہوا تھا، جب آپ کا وصال ہوا تو لوگ اس ماہِ منور کی آخری زیارت کے لیے آ رہے تھے، ایک شاہ صاحب دیدار کے لیے آئے اور آپ کی چارپائی کے قریب پہنچ کر جب قدم بوسی کے لیے جھکے تو ایک زوردار چیخ مار کر رو پڑے اور فرمایا کہ

    ساری عمر آپ کی قدم بوسی کا مشتاق رہا مگر آپ نے کبھی اجازت مرحمت نہ فرمائی، آج جب آخری دیدار کے لیے قدم بوسی کی نیت سے آگے بڑھا تو آپ نے اپنے قدمِ مبارک کا انگوٹھا ہلا کر مجھے منع فرما دیا!

    طلبہ جب آپ کے پاس آتے تو آپ ہمیشہ کچھ میٹھی چیز خادم کو عنایت فرماتے جو تقسیم کی جاتی، اگر کچھ نہ ہوتا تو چینی ساتھ لے آتے، آپ نے ساری عمر کسی غیر محرم کی طرف نظر نہ اٹھائی، یہی وجہ تھی کہ جب آپ کسی راستے سے گزرتے تو خواتین خود بخود راستہ چھوڑ دیتیں۔

    آپ نوافل کا خاص اہتمام فرماتے، پرہیزگاری کا یہ عالم تھا کہ کئی سالوں تک آسمان کو نہ دیکھا، آپ نے اپنی پوری زندگی بڑی مسجد میں گزاری، دعا کے دوران اکثر اس آیت کا ورد فرماتے کہ

    وَمَا تَوْفِیْقِیْ إِلَّا بِاللّٰہِ

    آپ کو تین سلاسل میں خلافت حاصل تھی۔

    سلسلۂ قادریہ و نقشبندیہ : سواگ شریف سے خلافت حاصل ہوئی۔

    سلسلۂ قادریہ : مانکی شریف سے آپ کو دو بار خلافت عطا ہوئی، آپ کے والد محترم کو بھی مانکی شریف سے خلافت حاصل تھی جو آپ کو عطا کی گئی اور بعد میں براہِ راست بھی آپ کو خلافت عطا ہوئی۔

    سلسلۂ چشتیہ : عمر کے آخری حصے میں آپ نے گولڑہ شریف جانا شروع کیا اور پیر سید محی الدین گیلانی المعروف بابو جی سے خلافت حاصل کی، بابو جی آپ کو فقیر صاحب کہہ کر پکارتے تھے، ایک مرتبہ فرمایا کہ

    فقیر صاحب! جب بروزِ قیامت بارگاہِ ایزدی سے پوچھا جائے گا کہ کیا لائے ہو، تو میں آپ کو پیش کر دوں گا

    آپ کے کل آٹھ صاحبزادگان تھے، آٹھوں حافظِ قرآن اور عالمِ باعمل تھے، آپ نے ان کی تربیت میں شرعی احکام پر سختی سے عمل کروایا، ان سب کے سروں پر ہمیشہ سفید عمامہ ہوتا، سفید کپڑے زیب تن ہوتے اور داڑھی سنت کے مطابق ہوتی۔

    آپ کا وصال 9 جمادی الثانی 1396ھ (1976ء) کو ہوا، آپ کا مزارِ مبارک ضلع اٹک کی تحصیل حضرو کے گاؤں دریا شریف میں واقع ہے، جسے دریائے رحمت شریف بھی کہا جاتا ہے، حافظ پیر عبدالغفور کو آج بھی قبلۂ عالم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، آپ کو آپ کی وصیت کے مطابق اپنے والد ماجد کے پہلو میں دفن کیا گیا، آپ کا عرس ہر سال 9 اور 10 جمادی الثانی کو دریا شریف میں عقیدت و محبت سے منایا جاتا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے