Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

مجیب الحسن نوابی

عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

مجیب الحسن نوابی

MORE BYمجیب الحسن نوابی

    عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

    اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود ضرب المثل اشعار کی فہرست میں اس شعر کے ساتھ فدوی لاہوری کا نام چسپاں کیا جاتا ہے لیکن در حقیقت یہ شعر فدوی لاہوری کا نہیں بلکہ فدوی دہلوی ثم عظیم آبادی کا ہے۔ ہم سب سے پہلے یہاں فدوی عظیم آبادی کے کوائف اجمالاً درج کریں گے۔ یہ عبارت پروفیسر محمد معین الدین دردائی کی کتاب سے ماخوذ ہے:

    حضرت مرزا محمد علی فدوی عرف مرزا بھجو کا مولد دہلی ہے مسکن اور مدفن ہونے کا فخر عظیم آباد کو حاصل ہے اپنے استاد [اور پیر و مرشد] حضرت رکن الدین عشق عظیم آبادی [ابو العلائی] کی طرح یہ بھی دہلی کی طوائف الملوکی سے متاثر ہو کر مرشد آباد چلے گئے تھے اور پھر وہاں سے ۱۱۹۰ھ میں عظیم آباد تشریف لے آئے اور مستقل سکونت پذیر ہو گئے، علوم ظاہری اور باطنی کی تعلیم حضرت عشق سے حاصل کی اور ان سے حد درجہ عقیدت اور محبت رکھتے تھے ۱۲۱۰ھ میں انتقال فرمایا۔

    (صوفیائے بِہار اردو ص ۱۴۶ از پروفیسر محمد معین الدین دردائی )

    'یادگار عشق' میں ثاقب عظیم آبادی نے فدوی کا نام سید غلام حسین بتایا ہے جو کہ درست نہیں غلام حسین نام ہے فدوی ہی کے ایک برادر طریقت (صاحب تذکرۂ شورش) شورش عظیم آبادی کا. ہم نے اولاً اسی تذکرے کی جانب توجہ مبذول کی۔ فدوی کے کوائف تو اس کتاب میں ہیں مگر مطلوبہ شعر اس میں نہیں ہے۔ اس کے بعد خاک عظیم آباد اور دبستان عشق سے تعلق رکھنے والے ایک اور شاعر اور مصنف وجیہ الدین عشقی عظیم آبادی کا تذکرۂ عشقی دیکھا جس کا اردو ترجمہ عطا الرحمان کاکوی نے کیا ہے اور موصوف نے حسب عادت اشعار حذف کر دیے ہیں۔ ناچار کلیم الدین احمد کے مرتب کردہ 'دو تذکرے' یعنی تذکرۂ شورش و عشقی دیکھا تو وہاں بھی یہ شعر نہیں ملا۔ مزید تلاش و جستجو کے بعد تین قدیم تذکروں میں یہ شعر فدوی عظیم آبادی کے نام کے ساتھ مندرج پایا۔

    ۱ مجموعۂ نغز دفتر دوئم ص ۴۲ از میر قدرت اللہ قاسم۔

    ۲ تذکرۂ ہندی ص ۱۷۴ از غلام ہمدانی مصحفی

    ۳ گلشن بے خار ص ۱۴۸ از نواب مصطفیٰ خان شیفتہ

    اس کے علاوہ جن کتب میں یہ شعر فدوی عظیم آبادی کے تذکرے کے ساتھ موجود ہے ان کے اسما یہ ہیں

    ۱ تاریخ شعرائے بہار جلد اول ص ۵۰ از عزیز الدین بلخی المتخلص بہ راز عظیم آبادی

    ۲ تذکرہ مسلم شعرائے بہار حصۂ سوم ص ۲۰۵ از سید احمد اللہ ندوی

    ۳ بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا (۱۸۵۷ تک) ص ۳۳۷ از اختر اورینوی

    ۴پروفیسر محمد معین الدین دردائی نے اپنی دوسری تصنیف بہار اور اردو شاعری کے صفحہ ۴۷ پر بھی یہ شعر مع ترجمۂ فدوی عظیم آبادی درج کیا ہے۔

    بعد ازاں ہم نے مکمل غزل کلیات فدوی سے حاصل کر لی جو کہ آگے آ رہی ہے۔ اندیشۂ خلط مبحث تو ہے مگر فدوی لاہوری کے ذکر کے بغیر بات نامکل رہ جائے گی۔ چونکہ یہ شعر اس سے منسوب کر دیا گیا ہے اس لیے اس کے حالات بھی بالاختصار لکھے جاتے ہیں۔

    شیفتہ نے اپنے تذکرے میں اس کا نام مکند بقال لکھا ہے اور آزاد نے آب حیات میں مکند کے ساتھ رام کا بھی اضافہ کیا ہے۔ وطن اس کا پنجاب بتایا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ مشرف بہ اسلام ہو کر اپنے نام کے ساتھ مرزا بھی لکھتا تھا۔ فرخ آباد میں اس کا میرزا سودا سے معرکہ ہوا اور بعد بسیار ذلت و رسوائی اپنے وطن لوٹ گیا۔ بیشتر تذکرہ نویسوں نے اس کا ذکر اچھے لفظوں میں نہیں کیا کوئی اسے بر خود غلط کہتا ہے تو کوئی جاہل محض ، کندہ ناتراش اور بے ہودہ وغیرہ کے خطابات سے سرفراز کرتا ہے۔ حافظ محمود شیرانی اپنی کتاب 'پنجاب میں اردو' میں فرماتے ہیں کہ خود فدوی کے ہم وطن اس کے حالات و کمالات سے قطعاً بے خبر ہیں اور نہ اس کی تصنیف یوسف زلیخا کا سراغ ملتا ہے۔ تاہم اس کی بلند پائگی میں شک نہ کرنا چاہیے۔ بے شک! شک نہیں کرنا اور شک کرنا کوئی اچھی بات بھی نہیں ہے مگر دو چار اشعار جو کہ دستیاب ہیں ان کی بنا پر اس کو کامل فن کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ تذکروں میں اس کے نام کی شمولیت کی وجہ بھی خاص طور پہ سودا سے اس کی نوک جھونک ہے۔سودا نے اپنے ایک شعر میں لفظ دین کو شیخ و برہمن دونوں کے لیے استعمال کیا ہوگا جس پر اسی فدوی لاہوری نے اعتراض کیا کہ دین شیخ کے لیے ہے اور برہمن کے لیے دھرم کہنا چاہیے۔ پھر سودا کے ایک شعر پر اصلاح بھی دی جس میں نرگس کو آنکھ کی بجائے کان سے تشبیہ دے کر اپنے 'کمال' اور 'بلند پائگی'کا ثبوت دیا۔ ظاہر ہے کہ پھر سودا جیسا شخص کب چوکنے والا تھا جواباً ہجویں لکھی گئیں جو کہ کلیات سودا دفتر اول باب ہجویات میں دیکھی جا سکتی ہیں پہلی ہجو کا عنوان یوں ہے مثنوی در هجو فدوی متوطن پنجاب دراصل بقال‌بچه بود، اس سے زیادہ بچۂ بقال کے ذکر کی گنجائش نہیں۔ تاحال ہمیں یہ شعر 'عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے' کسی بھی قدیم تذکرے میں فدوی لاہوری کے نام کے ساتھ نہیں ملا۔ گمان غالب ہے کہ لوگوں نے تخلص کی مماثلت کی وجہ سے اس کی طرف منسوب کر دیا ہوگا۔ اب ذیل میں مکمل غزل پیش کی جاتی ہے۔

    ٹک ساتھ ہو حسرت دلِ مرحوم سے نکلے

    عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

    قربان فنا ایک تجلی تری ہو لے

    ظلمت کدۂ ہستی موہوم سے نکلے

    کوچے میں گئے تھے متوقع ترے جو ہو

    منہ ڈالے گریبان میں محروم سے نکلے

    او دشمن انصاف خوشی کون سی تم کو

    غم بن ترے کیونکر دل مغموم سے نکلے

    کیوں نوخطوں* کی خوار قلمرو میں ہے فدوی

    کیا شہر یہی ہے کہو مظلوم سے نکلے

    ڈاکٹر سید محمد حسنین عظیم آبادی نے مرزا محمد علی فدوی ان کا عصر، حیات، شاعری اور کلام کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا ہے اور اس کا حصۂ دوئم کلیات فدوی سے موسوم ہے جس کے صفحہ ۲۷۲ تا ۲۷۳ پر یہ غزل مندرج ہے اور حاشیے میں مطلع کے مصرع اولیٰ کی مختلف صورتیں بھی ذکر کی گئی ہیں جو حسب ذیل ہیں ۔

    ۱: چل ساتھ کہ حسرت دل مرحوم سے نکلے

    ۲: ہو ساتھ کہ حسرت دل مرحوم سے نکلے

    ۳: ٹک ساتھ ہو حسرت دل مغموم سے نکلے

    ۴: چل ساتھ کہ حسرت دل محروم سے نکلے

    اس غزل کا مقطع اس دور کے مخصوص دہلوی رنگ سخن میں کہا گیا ہے جس میں اپنے معاصرین کا تتبع اور تقلید کے علاوہ اور کوئی خاص بات نہیں ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہاں متکلم کوئی تیسرا شخص ہے جو اپنے مخاطب سے کہتا ہے کہ فدوی سے کہو کہ وہ نوخطوں یعنی نو خیز لڑکوں کی قلمرو میں کس لیے خوار ہو رہا ہے، کیا بود و باش کے لیے یہی شہر رہ گیا تھا؟ اس مظلوم سے کہو کہ اس شہر سے نکل جائے۔

    کہیں ایسا نہ ہو کہ اس غزل کے مقطع کو پڑھ کو حضرت فدوی پر امرد پرستی کا اتہام لگا دیا جائے لہٰذا ذیل میں علی جواد زیدی کی رائے پیش کی جا رہی ہے۔

    غزل میں بہت کچھ تقلیدی حیثیت سے لکھا گیا ہے یہ تقلید عورتوں اور لڑکوں دونوں کے عشق کے بیان میں اختیار کی گئی ہے سچ تو یہ ہے کہ عشق و حسن کے معاملے میں اور بھی بہت کچھ تقلیدی ہے جو لوگ عشق کی پرپیچ راہوں سے کبھی نہیں گزرے وہ بھی عشق حقیقی کا ذکر کچھ اس انداز سے کرتے ہیں جیسے پیر طریقت وہی تو ہیں۔

    (دو ادبی اسکول بار دوم ص ۲۱۹)

    ہم نے نوخطوں کو ستارے کی علامت سے نشان زد کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حسرت موہانی کی رائے میں بعض الفاظ جو حرف ن پر ختم ہوتے ہیں ان میں اس ن سے قبل کے واؤ کا دبنا بھی راقم حروف کے نزدیک مناسب نہیں ہوتا۔

    ( معائب سخن ص ۱۹)

    مولانا حسرت موہانی کی رائے بسرو چشم لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جناب حسرت کی پیدائش سے کم و بیش ۸۰ سال پہلے حضرت فدوی کا انتقال ہو چکا تھا یہ شعر اس زمانے کا ہے جب اردو زبان اصلاحات کے ذریعے بہ تدریج پختگی کی منزل کو پہنچ رہی تھی تو اس دور میں اگر کسی شعر میں واؤ یا دیگر حروف علت سکڑ جائیں تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو پروفیسر وحید الدین سلیم کا مضمون 'عہد میر کی زبان' ۔ اور ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی کے تحقیقی مقالہ 'دلی کا دبستان شاعری' کا آخری باب بہ عنوان شعرا کی عہد بہ عہد اصلاح زبان۔ اب چند مثالیں فدوی کے ہم عصروں کے کلام سے ملاحظہ کی جائیں تاکہ یہ نہ ہو کہ تنہا فدوی نے واؤ کو گرا کر اپنے مصرعے کو مجروح کیا ہے۔ یہ تمام امثلہ اسی بحر میں ہیں جس میں فدوی کی غزل ہے دیگر بحور سے اس لیے اشعار منتخب نہیں کیے گئے تاکہ بار بار اس لفظ کی نشاندہی نہ کرنی پڑے جس میں واؤ ساقط ہو گیا ہو۔

    تھے نوخطوں کی خاک سے اجزا جو برابر

    ہو سبزہ نکلتے ہیں تہ خاک سے اب تک

    میر تقی میر

    تجھ بن کہوں کیا تجھ سے میں کس گھات کٹے ہے

    نے دن ہی نبڑتا ہے نہ یاں رات کٹے ہے

    خواجہ میر درد

    کیوں مصحفیِ خستہ کے تئیں تو نے کیا قتل

    کیا سیکڑوں عاشق میں گنہگار یہی تھا

    غلام ہمدانی مصحفی

    بھولا پھروں ہوں آپ کو اک عمر سے لیکن

    تجھ کو نہ کیا دل سے میں زنہار فراموش

    میرزا محمد رفیع سودا

    ابرو و مژہ غمزوں کو اس کے کہوں کیا کیا

    جس طرح کی صحبت مجھے اب ان سے یہاں ہے

    میر حسن

    اسرار حقیقت کے سر افرازوں میں منصور

    سردار نہ ہوتا جو سرِ دار نہ ہوتا

    ظہور الدین حاتم

    میرا سا لب و لہجہ کہاں مرغ چمن میں

    گل کتروں ہوں سو رنگ سے میں طرز سخن میں

    قائم چاند پوری

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے