محبوبِ الٰہی حضرت نظام الدین اؤلیا اور ان کا خانوادہ
دلچسپ معلومات
یہ رسالہ ۱۹۷۷ میں نظامی پریس، بدایوں سے تقریباً ۴۰ صفحات پر مشتمل مختصر ’’سوانح حیاتِ مبارکہ قدوۃ السالیکن، زبدۃ العارفین، شیخ المشائخ، حضرت نظام الدین اؤلیا زری زر بخش محبوبِ الٰہی (بدایونی) مع اہلِ خاندانِ باصفا‘‘ کے عنوان سے شائع و ذائع ہوا، یہ رسالہ مختار سبزواری بدایونی کا یادگار رسالہ ہے۔
آپ سیدالافراد خواجہ سید احمد بخاری بدایونی کے فرزند ارجمند اور خواجہ سید عرب بخاری بدایونی کے نواسے ہیں، آپ طرفین سے حسینی النسل سید ہیں، اٹھارہ پشت پر آپ کا شجرہ حضرت علی مرتضیٰ پر منتہی ہوتا ہے، آپ کی ولادت ۶۳۱ھ میں ہوئی آپ چار سال کے بھی نہ ہونے پائے تھے کہ سایۂ پدری آپ کے سرسے اٹھ گیا، آپ چار سال کے بھی نہ ہونے پائے تھے کہ سایۂ پدری آپ کے سر سے اٹھ گیا، آپ کے دونوں ماموں سید عبداللہ اور سید محمود آپ کے نگاران حال رہے، چھٹے برس ۳؍ ذی الحجہ ۶۳۷ھ میں آپ کے بڑے ماموں نے بھی داعی اجل کو لبیک کہا، آپ کے والد ماجدہ بی بی زلیخہ پر غم کی گھٹا چھا گئی اور وہ آپ کی تعلیم و تربیت کا خیال کرکے بیحد پریشان ہونے لگیں، خواجہ سید محمود آپ کے چھوٹے ماموں نے جو کوئی اولاد نہ رکھتے تھے، بہن کی بہت کچھ ڈھارس بندھائی اور اپنے یتیم بھانجے کو بڑی محبت کے ساتھ آپ نے اپنی آغوش شفقت میں لے لیا، سب سے پہلے آپ نے بعد تسمیہ خوانی قرآن شریف کا تیسواں پارہ خواجہ شادی مقری قدس سرہٗ العزیز سے پڑھا، جس کی برکت سے سارا قرآن شریف یاد ہوگیا پھر قاضی حسام الدین سہروردی ملتانی سے برابر پڑھتے رہے، اس کے بعد قطب الاؤلیا مولانا علاؤالدین اصولی سے قدوری جو اس زمانے میں داخلِ نصاب تھی پڑھی، مولانا نے فرمایا کہ ’’میاں! تم نے قدوری پڑھ لی ہے، اب تمہارے دستارِ فضیلت بندھ جانے کی ضرورت ہے، چنانچہ مولانا کے تمام علما و مشائخین اور معززین شہر کو جمع کرکے شیخ علی مولیٰ کبیر سے آپ کے سر پر دستارِ فضیلت بندھوائی، شیخ علی مولیٰ کبیر نے آپ کو دعا دی کہ ’’اے مولانا نظام الدین! تو بزرگ ہوگا‘‘ مولانا علاؤالدین اصولی نے اس کہنے کی تصریح چاہی، آپ نے فرمایا کہ ’’میں نے اس لڑکے میں دو خوبیاں پائیں ایک تو وہ پگڑی باندھنے والے کے پاؤں پر پڑا، دوسرے اس کی پگڑی سادہ ہے، اس میں ریشم کا نام نہیں، یہ دونوں دلیلیں اس کی بزرگی و برتری کی ہیں، ان شاءاللہ ایسا ہی ہوگا‘‘
۲۷؍ رجب ۶۴۱ھ میں آپ کے چھوٹے ماموں خواجہ سید محمود کا بھی انتقال ہوگیا، جنہوں نے اپنا بیٹا بنایا تھا، آپ کی والدہ ماجدہ اپنی تنہائی اور بیٹے کی بقیہ تعلیم کے رہ جانے سے بیحد گھبرائیں اور بقیہ تعلیم کے لیے آپ اپنی والدہ کے ہمراہ دہلی تشریف لے گیے، اس وقت آپ کی عمر چودہ سال کی تھی، دہلی پہنچ کر آپ کی والدہ مکرمہ نے آپ کو حضرت شیخ نجیب الدین متوکل کی سپردگی میں دے دیا، انہوں نے اپنے ہمراہ لے جا کر مولانا شمس الملک خواجہ شمس الدین خوارزمی کی شاگردی میں داخل کرا دیا، یہاں آپ نے مقامات پر پرسی اور حدیث کی کتابیں پڑھیں اور مولانا کمال الدین زاہد سے مشارق الانوار پڑھ کر حدیث کی سند حاصل کی اور مولانا رئیس احمد تبریزی سے بھی حدیث کی سند لی اور پھر شیخ الاسلام حضرت بابا فریدالدین گنج شکر اجودہنی سے چھ پارے قرآن مجید کے دہرائے اور قرأت ٹھیک کی اور چند باب عوارف اور تمہید ابو شکور سلمیٰ کی اور بعض دوسری کتابیں پڑھیں، تعلیم سے فارغ ہو کر آپ کو عہدہ قضا کی خواہش پیدا ہوئی، اس کے متعلق آپ نے حضرت نجیب الدین متوکل سے ذکر کیا، انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا پھر دوبارہ بلند آواز سے یہ سوچ کر کہا کہ شاید انہوں نے سنا نہیں مگر پھر آپ نے کہا کہ خدا نہ کرے کہ تم قاضی ہو اسی خیال کو لے کر آپ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزار پر تشریف لے گئے، وہاں آپ نے ایک مجذوب کو دیکھا یہ اس کے پاس جا کر کھڑے ہوگیے، وہ مجذوب انہیں دیکھ کر بولا کہ نظام الدین تو قاضی ہونا چاہتا ہے میں جسے دین و دنیا کا بادشاہ دیکھتا ہوں، یہ بات سن کر آپ کے خیالات فوراً بدل گیے اور آپ اپنے گھر واپس چلے آئے گھر آکر اپنے دوستوں سے کہنے لگے کہ سب درویشوں اور فقیروں کو میں اپنے اس خیال پر ملامت کرتے ہی سنتا ہوں، مجھے کسی کا مرید کرا دو، اس وقت دہلی کے مشاہیر اؤلیاءاللہ میں شیخ نجیب الدین متوکل تھے لوگ ان کو بلا لائے، شیخ نجیب الدین متوکل نے دل میں خیال کیا کہ ابھی شیخ الاسلام بابا فریدالدین گنج شکر اجودہی بقید حیات ہیں ان کے موجود ہوتے ہوئے میں ایسی جرأت کیوں کر کر سکتا ہوں، اب اگر یہ کہتا ہوں کہ تم شیخ فرید کے پاس جاؤ تو لوگ یہ کہیں گے یہ اپنی ہی طرف مائل کرنا چاہتے ہیں، لہٰذا انہوں نے یہ تمہید اٹھائی کہ اس وقت ہندوستان میں دو ہی شیخ بے مثل ہیں، ایک تو غوث العالم حضرت زکریا سہروردی ملتانی اور دوسرے قطب العالم حضرت بابا گنج شکر فریدالدین اجودھنی تم ان دونوں میں سے جا کر کسی کے مرید ہو جاؤ۔
پھر آپ بقصد ارادت دہلی سرے روانہ ہوئے، ہانسی پہنچ کر ایک قافلہ ملا، اس میں ایک بزرگ بابا صاحب کے مرید تھے جو قافلے کی رہبری کر رہے تھے، آپ اس قافلے میں شریک ہوگئے، اس قافلے نے سرشی کے کنارے تین دن قیام کیا، ہر روز آپ کے دل میں کبھی تو یہ ارادہ ہوتا کہ ملتان جا کر شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی سہروردی کا مرید ہو جاؤں اور کبھی یہ خیال ہوتا کہ اجودھن جا کر بابا فریدالدین گنج شکر کا مرید ہو جاؤں، تیسرے دن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ فرماتے ہیں ’’نظام الدین! اجودھن جا‘‘ اس وقت آپ کے قلب کو اطمینان ہوگیا اور اجودھن کی راہ لی۔
کتاب راحت القلوب اور سیرالعارفین میں لکھا ہے کہ ۱۵؍ رجب ۶۵۵ھ روز چہار شنبہ وقت ظہر بہ عمر چوبیس سال آپ بابا فریدالدین گنج شکر کی خدمت میں قصبہ اجودھن جسے اب پاک پٹن کہا جاتا ہے پہنچے وہ زمانہ سلطان ناصرالدین محمود بادشاہ دہلی کا تھا، بابا صاحب نے دیکھتے ہی آپ کے یہ شعر اپنی زبانِ مبارک سے ارشاد فرمایا کہ
اے آتش فراقت دلہا کباب کردہ
سیلابِ اشتیاقت جانہا خراب کردہ
پھر فرمایا کہ میرا ارادہ ولایت دہلی کسی دوسرے شخص کو سپرد کرنے کا تھا مگر تم راستے میں تھے کہ مجھے الہام ربانی ہوا کہ یہ نظام الدین بدایونی کا حق ہے، جب وہ آئے تو اسے دینا، حضرت محموب الٰہی فرماتے ہیں کہ میں یہ سن کر قدمبوس ہوا اور چاہا کہ اپنا بھی اشتیاق ملازمتِ ظاہر کروں مگر ہیبت اور دہشت ایسی سمائی کہ میں کچھ بول نہ سکا، میری یہ حالت دیکھ کر بابا صاحب نے فرمایا (لِکُلِّ دَاخِلٌ دَہشتہٌ) ہر داخل ہونے والے پر دہشت ہوتی ہے، میں نے قدم چوم کر بیعت کی اور مرید ہوگیا، میں نے پوچھا اب کیا حکم ہے، آیا تعلیم ترک کردوں اور اوراد و وظائف اور نوافل میں مشغول ہو جاؤں، فرمایا نہیں میں تعلیم کو منع نہیں کرتا، یہ بھی کرو اور وہ بھی کرو، غالب اپنے مغلوب کو آپ ترک کرا دے گا، درویش کو قدرے علم ضرور ہونا چاہیے، اخبارالاخیار میں ہے کہ پھر محبوب الٰہی نے چھے پارے قرآن مجید کے بابا صاحب سے دہرائے اور قرأت ٹھیک کی اور چھے باب عوارف کے اور تمہید ابو شکور سلمی کی پڑھیں اور بعض کتابیں اور بھی پڑھیں۔
فوائدالفوائد جامع السلاسل سیرالعارفین اور تاریخِ فرشتہ میں لکھا ہے کہ حضرت محبوب الٰہی کے قیام اجودھن کے زمانہ میں ان کے پیر و مرشد کے یہاں عسرت و تنگ دستی اس قدر تھی کہ وہ ہفتہ میں دو روز فاقے سے گزر جاتے تھے، مریدوں میں مولانا بدرالدین اسحٰق جو کہ جامع معقول و منقول تھے، آپ کے باورچی خانے کے لیے جنگل سے لکڑیاں بین کر لایا کرتے تھے، مولانا جمال الدین ہانسوی کریل کے پھل توڑ لاتے اور مولانا حسام الدین کابلی پانی بھر لاتے تھے اور باورچی خانے کے برتن دھوتے تھے اور مولانا نظام الدین بدایونی ان پھلوں کو ابال کر بڑی احتیاط کے ساتھ مٹی یا لکڑی کے پیالوں میں افطار کے وقت بابا صاحب کے سامنے پیش کیا کرتے تھے، کبھی تو ان میں نمک ہوتا تھا اور کبھی نہیں۔
ایک مرتبہ تین روز نمک میسر نہیں ہوا، مولانا نظام الدین نے پاس کے بنیے سے جو مسجد کے قریب ہی بیٹھا کرتا تھا، ایک درم کا نمک قرض لے کر ان پیالوں میں جن میں کریل کے پھل ابلے ہوئے رکھے تھے چھڑک کر حسب دستور بابا صاحب کے سامنے لے کر گیے اور دیگر درویشوں کے آئے وہ پیالے رکھ دیے، شیخ جمال الدین ہانسوی، مولانا بدرالدین اسحٰق اور مولانا نظام الدین بدایونی حسب الحکم پیر و مرشد ایک ہی پیالے میں کھایا کرتے تھے اور قریب ہی بابا صاحب کے بیٹھتے تھے، اس دن بابا صاحب نے پیالے میں ہاتھ ڈال کر لقمہ منہ تک لے جاؤں شاید اس طعام میں کچھ شبہ ہے اور لقمہ وہیں پیلے میں ڈال دیا، حضرت محبوب الٰہی فرماتے ہیں کہ میں یہ بات سنتے ہی کانپ گیا اور میں نے فوراً ہی کھڑے ہوکر سر زمین پر جھکا کر نہایت ادب سے عرض کیا کہ حضور ایندھن اور کریل کے پھل اور مطبخ کا پانی تو مولانا بدرالدین اسحٰق اور شیخ جمال الدین ہانسوی اور مولانا حسام الدین کابلی لاتے ہیں اور احقر بڑی احتیاط کے ساتھ ان کو ابالتا ہے مگر حقیقت حال حضور پہ روشن ہوگئی، بابا صاحب نے پوچھا کہ نمک پیالے میں کہاں سے آیا، یہ سنتے ہی محبوب الٰہی صاحب متنبہ ہوئے اور سارا حال عرض کر دیا، بابا صاحب نے فرمایا کہ اگر درویش فاقہ سے مر بھی جائے تو بھی لذتِ لقس کے لیے قرض نہیں لیتا، اس لیے کہ قرض اور توکل میں بعدالمشرقین ہے، اگر قرض ادا نہ ہو سکا تو قیامت تک گردن پر بار رہے گا۔
محبوب الٰہی فرماتے ہیں کہ طالب علمی کے زمانہ میں میرا دستور تھا کہ جب زیادہ احتیاج ہوئی تو قرض لے لیا کرتا تھا مگر اس روز سے توبہ کی اور پھر کتنی ہی ضرورت کیوں نہ لاحق ہوئی کبھی قرض نہیں لیا۔
صاحب روضہ صفا ناقل ہیں کہ ایک دن بابا صاحب کی خانقاہ میں فاقہ تھا، بابا صاحب نے محبوبِ الٰہی سے فرمایا کہ مولانا نظام الدین کچھ لاؤ تو ہم کھائیں، محبوبِ الٰہی نے اپنی پگڑی گروی رکھ کر تھوڑا سا لوبیا لائے اور اس کو ابال کر بابا صاحب کے سامنے لا کر رکھ دیا، بابا صاحب نے اپنے یارانِ جلسہ کے ساتھ بیٹھ کر کھایا اور فرمایا کیا اچھا پکا ہے اور نمک بھی پڑا ہے، خدائے تعالیٰ ایسا کرے کہ تیرے باورچی خانہ میں منوں نمک اٹھا کرے۔
عین العارفین اور دیگر کتب میں لکھا ہے کہ ایک دن حضرت محبوب الٰہی اجودھن میں کسی کام کی غرض سے بازار تشریف لے گئے راستہ میں ایک درویش کویہ کہتے ہوئے سنا کہ جو شخص آج مجھے دیکھ لے گا، اس پر آتش دوزخ حرام ہو جائے گی، لوگ جوق در جوق اس کی زیارت کرنے لگے مگر محبوب الٰہی نے کوئی توجہ نہیں فرمائی بلکہ اس رہ گزر سے ہٹ کر ایک آڑ میں بیٹھ گئے، جب وہ درویش راستے سے گزر گیا تو آپ نکل کر اور کام انجام دے کر بابا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے، اتفاق سے خانقاہ میں اس درویش کا ذکر ہو رہا تھا، بابا صاحب نے پوچھا تم نے بھی اس درویش کو دیکھا، آپ نے بڑے ادب اور عاجزی کے ساتھ عرض کیا کہ
میری جنت تو تم ہو اور جب تم ہی نہیں اس میں
کروں گا کیا بتاؤ لے کے پھر میں ایسی جنت کا
یہ بات سنتے ہی بابا صاحب پر ایک واجدانی کیفیت طاری ہوگئی۔ اور فرمایا کہ ایک دروازہ تیار کرو، چنانچہ فوراً ہی دروازہ تیار ہوگیا، پھر بابا صاحب نے محبوب الٰہی کا ہاتھ پکڑا اور اس دروازے میں سے ہو کر نکلے اور بولے، نظام الدین اؤلیا جنتی اور اس کا باپ جنتی اور اس کا دادا جنتی اور اس کی سات پست جنتی اور آج سے قیامت تک جو شخص اس دروازے سے ہو کر نکل جائے گا وہ بھی جنتی ہوگا، چنانچہ پانچویں محرم کو بابا صاحب کے عرس کے موقع پر وہ مقفل دروازہ کھولا جاتا ہے اور ہزارہا آدمی اس دروازے سے نکلتے ہیں۔
’’راحت القلوب‘‘ کی چوبیس مجلس میں تحریر ہے کہ ۲؍ ربیع الاول ۶۵۶ھ میں بروز چہار شنبہ حضرت محبوب الٰہی نے بابا صاحب کی قدم بوسی حاصل کرنے کے بعد خلعتِ خاص پایا، اس دن اہل اللہ کا بہت بڑا مجمع موجود تھا، بابا صاحب نے ان سب سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ مولانا نظام الدین کو ولایت ہند دی گئی اور صاحبِ سجادہ بنایا گیا، محبوبِ الٰہی فرماتے ہیں کہ جس وقت میں نے یہ ارشاد سنا بابا صاحب کے پائے مبارک پر اپنا سر رکھ دیا، بابا صاحب نے بڑی شفقت سے مجھے یہ کہہ کر اٹھایا کہ سر اٹھا اے جہاں گیر عالم! پھر فوراً دستارِ مبارک حضرت قطب الدین بختیار کاکی اوشی کی اپنے سر سے اتار کر میرے سر پر رکھ دی اور عصا بھی مرحمت فرمایا اور خرقۂ خواجگانِ چشت جو سلسلہ بہ سلسلہ چلا آتا تھا، اپنے دستِ مبارک سے مجھے پہنایا پھر فرمایا نماز دگانہ شکرانہ ادا کرو، جب میں نماز پڑھنے کے لیے رو بہ قبلہ کھڑا ہوا تو آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر اور آسمان کی طرف منہ کرکے فرمایا جاؤ خدا کے سپرد کیا، بعد ازاں ارشاد کیا کہ یہ سب میں اس لیے دیے دیتا ہوں کہ تم میری وفات کے وقت میرے پاس نہیں ہوگے پھر میری تسلی کے لیے یہ بھی فرمانے لگے کہ میں بھی اپنے پیر و مرشد کے وصال کے وقت دہلی میں نہیں تھا، ہانسی میں گیا ہوا تھا پھر شیخ بدرالدین اسحٰق سے فرمایا کہ مثال (سندِ خلافت) لکھ کر ان کو دے دو، انہوں نے فوراً مثال (سندِ خلافت) تحریر کی، بابا صاحب نے اپنے دست مبارک سے مجھ کو عطا فرمائی اور بغل گیر ہو کر بوئے جاؤ تم کو خدا کو سونپا اور تم کو واصل بحق کیا پھر فرمایا کہ ہانسی میں شیخ جمال الدین سے بھی ملاقات کرتے جانا اور سند دکھلا دینا۔
سیرالاؤلیا، روضۃ الصفا اور تاریخ فرشتہ میں لکھا ہے کہ بابا صاحب نے وہ کملی جس پر آپ خود بیٹھتے تھے، حضرت محبوب الٰہی کو عنایت فرمائی اور دعا دی کہ ان شاءاللہ تجھے کبھی قرض کی حاجت نہ ہوگی اور نصیحت فرمائی کہ اپنے دشمنوں کو ہمیشہ خوش رکھنا اور جو لوگوں سے قرض لیا جائے اس کی ادائیگی کی جلد کوشش کرنا، دیکھو اس میں غفلت نہ ہو پھر آپ دہلی روانہ ہوئے ہانسی پہنچنے پر شیخ جمال الدین ہانسوی سے ملے اور اپنی مثالی خلافت ان کو دکھلائی، وہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور یہ بیت زبان پر لائے۔
خدائے جہاں را ہزاراں سپاس
کہ گوہر سپردہ بہ گوہر شناس
غرض کہ آپ نے واپس ہو کر موضع غیاث پور میں قیام فرمایا اور یہیں کے جنگل میں جا کر آپ قرآن مجید حفظ کیا کرتے تھے۔
تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادر جیلانی میں شیخ عبدالقادر اربلی نے آپ کو مجاز خاندانِ قادریہ میں حضرت سید عمر صاحب بغدادی کا لکھا ہے، دیکھو اسرارالسالکین، ملفوظات حضرت شیخ جنید نبیرۂ حضرت شیخ فریدالدین گنج شکر اجودھنی کی چودھویں مجلس کے صفحہ ۳۳ سطر ۱۷ میں تحریر ہے، موضع غیاث پور کی سکونت کے زمانہ میں نہایت فقر و فاقہ سے گزرے ہوتی تھی، کوئی فتوح کسی قسم کی کہیں سے نہیں تھی، صرف دو درویش صاحب یقین آپ کے مریدوں میں سے خانقاہ میں پڑے گزران کرتے تھے، ایک تو شیخ برہان الدین غریب جو دولت آباد میں آسودہ ہیں، دوسرے شیخ کمال الدین یعقوب جو پاک پٹن میں مدفون ہیں، یہ ہی دونوں بزرگ خلفائے دیگر سے پہلے خرقہ خلافت پا کر کسب کمال اور یاضت نفس میں مشغول تھے۔
ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ چاردن تک متواتر کوئی شئے میسر نہیں آئی، جو افطارِ صوم کے وقت یہ تینوں بزرگ کھاتے، پڑوس میں ایک عورت صالحہ رہتی تھی، وہ رسی بٹ کر اپنا گزارہ کرتی تھی اور محبوب الٰہی کی معتقد تھی، جب اسے خانقاہ میں فاقہ کا حال معلوم ہوا تو اس کے پاس اپنے خرچ سے زیادہ ڈیڑھ سیر آٹا جمع ہو گیا تھا، اس نے وہ آٹا محبوب الٰہی کے حضور میں بھیج دیا، محبوب الٰہی نے شیخ کمال الدین یعقوب سے فرمایا اس آٹے کو پانی میں گھول کر ہانڈی میں پکاؤ شاید کسی اور آنے والے کا بھی اس میں نصیب ہو، شیخ کمال الدین اس کو پکانے لگے، اتنے میں ایک فقیر گدڑی پوش آیا اور اس نے بآواز بلند محبوب الٰہی سے کہا جو کھانا ہوا لا، آپ نے فرمایا ذرا ٹھہروں، ہانڈی پک رہی ہے، اس نے کہا کہ ٹھہرنا کیسا؟ تم ابھی اٹھو اور جیسی ہے ویسی اٹھا لاؤ، محبوب الٰہی فوراً اٹھے اور اپنے دونوں ہاتھوں میں کُرتے کی آستین لپیٹ کر ہانڈی کے کنارے پکڑ کر درویش کے سامنے لے آئے، درویش نے اس ہانڈی سے لقمہ نکال کر اپنے ہاتھ سے کھانا شروع کیا، وہ ہانڈی بہت کھول رہی تھی مگر اس درویش کا ہات کو کوئی صدمہ نہیں پہنچتا تھا، وہ بے تکلف ہر بار ہانڈی میں ہاتھ ڈلتا اور لقمہ منہ میں رکھ لیتا تھا، محبوب الٰہی دونوں ہاتھوں سے ہانڈی کے کنارے پکڑے ہوئے تھے، جب وہ سب کھا گیا تو اس نے ہانڈی محبوب الٰہی کے ہاتھ سے لے کر توڑ دی اور بولا کہ نظام الدین! نعمتِ باطنی تو تم کو شیخ فریدالدین مسعود نے دی ہے، ظاہری فقر کی تمہاری ہانڈی میں نے توڑ دی، یہ کہہ کر نظروں سے غائب ہوگیا پھر تو اس قدر فتوح ہونے لگی کہ جس کا کچھ بیان نہیں، روزانہ خانقاہ میں لنگر فقرا اور مساکین کے لیے جاری رہنے لگا، صدہا غربا و مساکین روزانہ کھانا کھانے لگے، ہزارہا اشخاص مرید و معتقد ہوگیے اور اصحابِ شرع بھی محبوب الٰہی کو بوجہ ان کے وفور دانش اور کثرتِ علم و فن کے گنج معانی کہنے لگے، آپ سے سیکڑوں کرامتیں ظہور میں آئیں، جن کے ذکر کیا یہاں ضرورت نہیں، غرضکہ ۶۹ سال خلق اللہ کو رشد و ہدایت اور پائی نفس کا درس دے کر ۹۴؍ سال کی عمر میں ۱۸؍ربیع الثانی ۷۲۵ھ روز چہار شنبہ بعد طلوع آفتاب خانقاہ موضع غیاث پور میں آپ نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا اور اسی کے ایک جنگل میں حسبِ وصیت ایک تالاب کو پاٹ کر آپ کا مزار بنایا گیا۔
آپ کے بعد آپ کے بھانجے حضرت خواجہ ابو بکر چشتی مصلیٰ دار آپ کے جانشین ہوئے، انہیں کی اولاد میں پیر ضامن نظامی سید بخاری موجودہ سجادہ نشین درگاہ ہیں۔
آپ کے حالات اور کشف و کرامات اور بہت زیادہ ہیں ان کو ان شاءاللہ ’’حیاتِ مقدسہ‘‘ کی شکل میں پیش کیا جائے گا، چوں کہ کتابچہ میں اس قدر حالات پر اکتفا کیا گیا ہے، اس لیے میں اپنی ایک منقبت پر اس کو ختم کرتا ہوں، خدا میری مدد کرے۔ آمین۔
منقبت در شان حضرت سلطان المشائخ رحمۃ اللہ علیہ
فقیر شان میں میں بھی تم تباجِ کجکلاہی ہو
شرف کوئی یہ کیا کم ہے کہ محبوب الہی ہو
بتایا ہے جو رستہ نورِ عرفان و حقیقت کا
تمہارے نقشِ پا دیکھے جو اس منزل کا راہی ہو
جہادِ نفس سے ٹھکرا دیا دنیائے فانی کو
کہ مارا نفس امارہ کو تم نے وہ سپاہی ہو
رسول اللہ نے تحت قبائی جن کو فرمایا
اسی لا یعرف غیری کی تم بھی اک گواہی ہو
زمین چرخ شاید ہیں تمہارے نور باطن کے
حقیقت میں جو سچ پوچھو چراغ مہر و ماہی ہو
حضور سید عالم کی نسبت کے تصدق سے
نظام الدین الملت بھی ہو اور دیں پناہی ہو
حضوری سے رسول پاک کی ہے یہ شرف پایا
بہار باغ رحمت کی نسیم صبح گاہی ہو
تمہاری زندگی میں بھی سرِ مخلوق جھکتا تھا
فنا کے بعد بھی در اصل کرتے بادشاہی ہو
خدا کے واسطے مختارؔ پر اتنا کرم کیجے
دل آئینہ بنے اور دور اس کی یہ سیاہی ہو
خواجہ سید احمد غزنوی بخاری بدایونی :-
آپ کے والد ماجد سید احمد بخاری بدایونی ۴۶۹ھ میں غزنی میں پیدا ہوئے اور یہیں سے تحصیل و تکمیل علوم متعارفہ کر کے سندِ فراغ حاصل کی، گروہِ صوفیا میں آپ سیدالافراد کے ممتاز لقب سے یاد کیے جاتے تھے، چوں کہ آپ کے آبا و اجداد بخارا کے رہنے والے تھے، جب آپ کے پدرِ بزرگوار حضرت خواجہ سید علی نے غزنی سے ترکِ سکونت کی اور مع اہل و عیال اور دیگر خاندانی افراد کے بدایوں میں تشریف لا کر محلہ کالیان میں قیام فرمایا، اس وقت آپ کی عمر ۱۷ سال کی تھی، آپ کے والد ماجد خواجہ سید علی نے اس محلہ میں ایک مسجد بھی تعمیر کرائی (جو اب تک موجود ہے) آپ کا شجرۂ نسب ۱۷؍ واسطوں کے بعد حضرت علی مرتضیٰ پر منتہی ہوتا ہے، جیسا کہ کتاب تاریخ الانساب الشرفاء بدایون میں تحریر ہے اور وہ یہ ہے کہ
خواجہ سید احمد بخاری بدایونی بن خواجہ سید علی سپرِ کلاں سید میر عبداللہ غزنوی بن سید میر حسن شرف جہاں غزنوی پسر کلاں خواجہ سید میر علی بے بازو بخاری غزنوی بن سید میر احمد مشہدی بن سید اعظم ابو عبداللہ جعفرالثانی بن امام علی الہادی النقی العسکری بن امام محمدن الجواد النقی بن امام علی رضا بن امام موسیٰ کاظم الغیظ بن امام جعفرالصادق بن امام محمدالباقر بن حضرت علی مرتضیٰ۔
یہ ہی نسب نامہ خاندانِ نظامیہ میں مستند اور صحیح مانا جاتا ہے اور اسی پر محققین بدایوں کا اتفاق ہے لیکن جو آبا و اجداد حضرت نظام الدین اؤلیا کے کتاب جواہر فریدی میں تحریر ہیں وہ بالل غیر مستند اور ناقابلِ وثوق ہیں، چنانچہ ہمارے ہم وطن صاحب تذکرۃ الواصلین نے بھی اسی نسب نامہ کو درجِ کتاب کرکے اس کے غیر مستند اور نامصدقہ ہونے پر اپنی رائے ظاہر کی ہے جو صحیح ہے۔
غرض کہ آپ عرفا میں سیدالافراد، علما میں امام صوفیا میں پیشوائے مذہب حنفی اور طریقۂ جنیدیہ رکھتے تھے، شریعت و طریقت میں آپ کا قدم استحکام کے ساتھ جما ہوا تھا، زہد و اتقا میں اپنے والدِ بزرگوار کے نقشِ قدم پر تھے، انہیں سے بیعت و خلافت حاصل تھی، ۶۰۷ھ نبوی میں اپنے باپ کے ساتھ غزنی سے براہ لاہور بدایوں میں تشریف لاکر متمکن ہوئے، وہ زمانہ اخیر نظامت امیرالامرا، ملک شمس الدین التمش کا تھا، اس نے آپ کے علم و فضل کا شہرہ سن کر اپنی مجلس خاص میں آپ کا طلب فرمایا اور بات چیت کرنے کی غرض سے حضرت شیخ دانیال قطری عثمانی قاضی لشکر سلطانی کو بھی بلوا لیا اور ان سے کہا کہ تم فقہ کے مسائل میں ان سے گفتگو کرو، قاضی صاحب نے آپ سے ایک پیچیدہ اور لابخل مسئلہ دریافت کیا، آپ نے اس کا نہایت شائستگی کے ساتھ برجستہ اور شافی جواب دیا، جس کو سن کر ناظم بہت خوش ہوا اور اسی وقت منصب قاضی القضاۃ کا آپ کو مرحمت فرمایا اور پچتور دی جاگریں دے کر خود دہلی کے تخت پر جلوس کرنے چلا گیا، چنانچہ آپ ہی بدایوں کے سب سے پہلے قاضی ہوئے ہیں۔
حقائق پناہ مولانا مخدوم عالم سمرقندی بدایونی آپ کے ہم عصر تھے، آپ ہی کی خدمت میں شیخ دانیال قطری قاضی لشکر سلطانی ہمیشہ دوستی اور رازداری کی راہ سے آمد و رفت رکھتے تھے، آپ اپنے زمانے کے علما اور کامیاب اہل سعادت کا مرجع تھے اور فرماں روایان عہد جیسے ملک نصیرالدین ملتانی ناظم بدایوں اور اس کے قریب والے کیا خویش و یگانے اور کیا امیرانِ اعظم وغیرہ تمام آپ کے دولت کدہ پر حاضر ہوا کرتے تھے، سلطان شمس الدین التمش جیسے باوقار بادشاہ دہلی سے بلا واسطہ خط و کتابت رہتی تھی، مولانا ضیاؤالدین سنامی دہلوی آپ کے دل سوز دوستوں میں تھے، یہ ہی وجہ ہے کہ آپ کے فرزند دلبند حضرت نظام الدین اؤلیا باوجود مولانا کے طعن و تشنیع سننے کے پھر بھی ان سے نیاز مندانہ خلوص رکھتے تھے اور مولانا کا وقتِ اخیر سن کر ان کی عیادت کو تشریف لے گئے تھے، جیسا کہ اخبارالاخیار میں لکھا ہے کہ قاضی منہاج السراج صاحب طبقاتِ ناصری آپ کے مخصوص مخلصوں میں تھے، خواجہ سید عرب بخاری بدایونی کے ساتھ دامادی کا رشتہ تھا۔
غرض کہ آپ کے طینت میں شریعت کی آبدار باتیں خمیر تھیں، آپ کی نصیحت بیمارانِ شریعت کے لیے شفائے کامل اور آپ کی تقریر گمراہوں اور تیرہ باطنوں کے لیے روشنی کا سبب تھی، آپ کے وقت میں دارالقضا اسلامی شعاعوں سے جگمگا اٹھا تھا، کچھ اوپر آٹھ سال منصب قضا کی نگہداشت خوب اور بہت خوب کی مگر افسوس ۶۱۵ھ میں اپنی ہمشیرہ مکرمہ ہاجرہ بی بی کے انتقال سے آپ کی وہ دل بستگی جاتی رہی جو پیشتر تھی، بالآخر گھبرا کر پھر منصبِ قضا سے بھی استفا دے دیا اور خانہ نشینی اختیار کی اور بقیہ عمر سورتِ خانہ تقدیر کا نظارہ کر کے دل کو تصور حقیقی کے جمال سے منور کیا اور ۷ ذی الحجہ ۶۲۵ھ میں موت کی ابدی نیند سو گیے۔
۶۶ برس کی عمر پائی، دو اولادیں چھوڑیں، ایک دختر بی بی زینب المشہور بی بی جنت اور ایک پسر حضرت نظام الدین اؤلیا، آپ کی خوابگاہ بدایوں میں ساگر تال کے کنارے پر اپنے والد خواجہ سید علی بخاری بدایونی کے شرقی پہلو میں ہے، آپ ہی کے پائیں میں بیرون فجر مزار شاہ صدرالدین چشتی ملتانی مرید و خلیفہ شیخ اخی سراج الدین عثمانی چشتی اودھی بدایونی کا ہے۔
مولانا سید دلدار علی مذاقؔ بدایونی نے آپ کی شان میں یہ رباعی لکھی ہے۔
ہے آپ کی ذات مظہر ذاتِ احد
حاصل ہوں نہ کیوں جز و کل کے مقصد
دلدارؔ علی کے ہو، جگر زہرا کے
اولادِ محمد میں ہو سید احمد
خواجہ سید علی غزنوی بخاری بدایونی :-
آپ خواجہ سید عبداللہ خلمی غزنوی کے بڑے صاحبزادے اور سیدالافراد خواجہ سید احمد بخاری بدایونی کے والد اور ہمارے محبوب الٰہی کے دادا ہیں، آپ کی زاد یوم غزنی کی ہے اور سال پیدائش ۵۱۹ھ ہے، ابھی آپ کے دادا بقید حیات تھے، انہوں نے ہی آپ کا نام اپنے باپ کے نام پر علی ہی رکھا اور پانچویں برس آپ کا مکتب پڑھا کر ملکِ جاودانی کی راہ لی، کہتے ہیں کہ جب آپ کے مکتب کا شہانہ آپ کو پہنا کر ٹوپی اوڑھائی گئی تو آپ نے وہ ٹوپی سر سے اتار کر پھینک دی، آپ کے دادا نے اپنے سرکی کلاہ اوتار کر آپ کے سر پر رکھ دی اور فرمایا کہ میرا بیٹا یہ ٹوپی اوڑھے گا، یہ کلاہ میرے شیخ کے ماموں شیخ تاج الاؤلیا شاہ قالیز باں غزنوی کی ہے جو تجھے اپنے شیخ سے ملی تھی، ان شاءاللہ خوش وقت رہے گا، غرض آپ ضروری علوم رسمیہ سے فارغ ہو کر اپنے والد کی درس گاہ میں داخل ہوگیے اور جملہ علوم ظاہری باطنی سے بہرہ یاب ہو کر بیعت کا شجرہ اور خلافت کا خرقہ بھی اپنے والد ماجد سے پا لیا۔
اور آپ کی عمر کا ایک بڑا حصّہ غزنی میں رہتے گزر چکا، یہاں تک کہ غزنی کے تخت پر دوبارہ سلطان تاج الدین یلدوز (جس کی وفات ۲۳ ذوالحجہ ۶۲۸ھ میں ہوئی اور قبر بدایوں میں عقب جامع مسجد شمسی واقع ہے) متمکن ہوگیا اور سلطان قطب الدین ایبک لک بخش فرماں روائے غزنی و ہند نے عزنی کا تخت چھوڑ دیا اور ہندوستان میں آکر دہلی کے تخت پر جلوس کیا تو جو لوگ اس بادشاہ سے مانوس اور اس کے ہوا خواہ تھے، ان میں ہلچل پڑ گئی، بالخصوص آپ کے محلے کے بہت سے لوگ ترکِ وطن کر گیے، مشیت الٰہی میں یہ ہی آپ کو وطن سے نکال کر بدایوں لانے کا سبب ہوا، غرض کہ فجر کی نماز آپ نے اپنے دادا کے پیر و مرشد حضرت مخدوم علی عثمان گنج بخش ہجویری جلالی غزنوی لاہوری برد معنجو کی معمرہ مسجد میں پڑھی اور بڑی حسرت کے ساتھ مسجد سے رخصت ہوئے پھر اپنے دادا کے مزار پر فاتحہ پڑھنے تشریف لے گئے، یہاں سے فارغ ہو کر آپ شیخ رضی الدین علی لالہ اور خواجہ ابو بکر یلغاری صدیقی اور خواجہ شمس العارفین اور شیخ اجل شیرازی اور ختم الاؤلیا خواجہ جامی یلدی اور تاج الاؤلیا شاہ میر فالیزبان غزنوی اور شیخ عمثان غزنوی والد ماجد پیر علی مخدوم ہجویری لاہوری اور امام محمد حداد اور ابو محمد اعرابی اور حکیم سنائی اور خواجہ محمد باغبان اور خواجہ احمد مکی اور شیخ بہلول اور خواجہ بقال اور شیخ ملک یار وغیرہ ہم اکابرین کے مزارات پر جو عزنی میں ہیں گیے اور فاتجہ پڑ کر غلام رخصتی کیا پھر گھر آکر آپ نے اپنے چھوٹے بھائی خواجہ سید محمد موسیٰ اور اپنے لخت جگر خواجہ سید احمد اور اپنی پیاری بیٹی بی بی ہاجرہ فاضلہ اور اپنے عزیز داماد ملا سید حسن واعظ کو ہمراہ لے کر غزنی سے لاہور آئے اور آتے ہی اپنے دادا کے پیر و مرشد حضرت مخدوم علی عثمان گنج بخش ہجویری جلالی لاہوری وفات ۱۴؍ جمادی الآخر۴۶۴ھ مزار لاہور میں بیرون قلعہ جانب غرب اندوہ حرم دروازہ پر تاریخ وفات تحریر ہے، روح اللہ روحہ کے مزار پر حاضر ہوئے اور بڑی عقیدت اور خلوص کے ساتھ اکتساب فیض کیا اور کئی وفد وہیں مقیم رہے، جب ملک شمس الدین التمش ناظم بدایوں کی درویش دوستی اور آنے والوں کے ساتھ عزت و احترام کا شہرہ سنا تو ۶۰۷ھ میں دوسرے بزرگوں کے ساتھ لاہور سے قبۃ الاسلام، بدایوں میں تشریف لائے اور قلعہ کے اندر پتنگی ٹیلہ پر جواب کالیان محلہ کہلاتا ہے خانقاہ پیر فتوتلے محل اقامت قرار دیا، خواجہ سید عرب غزنوی بخاری جو آپ کے رشتے کے بھتیجے تھے اور آپ کے آنے سے کچھ ماہ پیشتر بدایوں آ کر سونہ محلہ میں آباد ہوگیے تھے، انہوں نے آپ کی بہت کچھ مدد کی، حتیٰ کہ اپنی بیٹی بی بی زلیخا کی شادی بھی آپ کے فرزند خواجہ سید احمد کے ساتھ کر دی اور رسمِ یگانگت از سرِ نو تازہ ہوگئی۔
کہتے ہیں کہ خواجہ سید علی غزنوی بدایونی نہایت صاحبِ باطن اور صوفی مشرب بزرگ تھے، اوائلِ عمر سے تصوف کی تجلیوں کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھے اور تنہائی پسند تھے، زیادہ تر مسجد ہی میں جو اپنے مکان کے قریب میں بنائی تھی۔ بیٹھے ذکر وشغل کرتے رہتے تھے۔ شبانہ روز مراقبہ اور مکاشفہ کی حالت میں مستغرق پائے جاتے تھے، بلا ضرورت کلام نہ کرتے تھے، ہر ایک کے حقطِ مراتب کا خیال کرکے دل کو شاہدِ حقیقی کے مشاہدہ سے منور کیا تھا، ۹۳؍ سال عالم حیات میں رہ کر نہاں خانۂ تصویر کا نظارہ کیا، غرہ جمادی الآخر ۶۱۲ھ کو نقشِ نیستی کی چار دیوار عناصر کو مٹا کر بہ سلیم قلب اور اطمینان خاطری کے ساتھ حضور اقدس کو روانہ ہوگیے، خواب گاہ بدایوں میں ساگر تال پر حریم سرخ پوش و سبزہ پوش شہدا میں غربی جانب ہے، آپ ہی کے پائیں محجر کے باہر مزار خواجہ اختیارالدین عمر چشتی خلیفہ قاضی شادی فاضل خلیفہ شیخ نصیرالدین محمود روشن چراغ دہلی کا ہے، آپ سے صرف ایک دختر بی بی ہاجرہ فاضلہ اور ایک فرزند خواجہ سید احمد چھوڑے۔
خواجہ عبداللہ خلمی غزنوی بخاری :-
یہ خواجہ حسن نظامی شرف جہاں کے صاحبزادے ہیں، ۶۷۵ھ میں پیدا ہوئے، تزکیۂ نفس، تہذیب اخلاق، تصفیہ و ترتیب وغیرہ کی جملہ صفات آپ کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھیں، سلطان بہرام شاہ بن سلطان مسعود ثانی فرماں روائے غزنی کی سرکار میں ملکی اور مالی کاموں کا انتظام و انحصار آپ ہی کی رائے پر منحصر تھا، اسی وجہ سے خلمی کہے جاتے تھے، کیونکہ خلم زیر کے ساتھ لغت میں مصاحب کو کہتے ہیں، آپ کو خرقۂ خلافت اپنے پدر بزرگوار خواجہ حسن شرف جہاں سے ملا تھا جو مخصوص خلیفہ حضرت مخدوم علی عثمان گنج بخش لاہوری پرد مضجعہ کے ساتھ ۵۶۵ھ میں نوے برس کی عمر میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا اور غزنی میں باپ کے برابر و فن ہوئے، وہ فزند چھوڑے، بڑے خواجہ سید علی غزنوی بدایونی جو محبوب الٰہی کے دادا تھے اور چھوٹے فرزند خواجہ سید موسیٰ غزنوی بدایونی۔
خواجہ حسن شرف جہاں بخاری غزنوی :-
آپ سید میر علی بخاری غزنوی کے بڑے فرزند ہیں، ۴۳۷ھ میں پیدا ہوئے اور ۹۲ برس کی عمر پا کر ۵۲۹ھ میں انتقال فرمایا، غزنی میں باپ کے پاس دفن ہوئے، یہ اندر باہر سے اس قدر دُھلے منجھے تھے کہ سمجھ میں نہیں آ سکتا تھا، آپ کو شرف جہاں کا خطاب پیر و مرشد نے عطا فرمایا تھا، مرید و خلیفہ حضرت مخدوم علی عثمان گنج بخش لاہوری خلیفہ شیخ ابوالفضل محمد بن حسن جیلانی کے اور وہ شیخ ابوالحسن خضری کے اور وہ شیخ ابوبکر شبلی کے تھے، انہوں نے حضرت خواجہ عبداللہ خلمی فرزند چھوڑے۔
حضرت میر علی بے بازو غزنوی بخاری :-
مولانا عبدالکریم بن عطاؤاللہ نیم دیہی شیرازی احمد آبادی گجراتی طبقات محمود شاہی میں لکھتے ہیں کہ آپ کے مورثِ اعلیٰ خواجہ میر علی بخاری ابن احمد مشہدی المشہور بہ خواجہ علی بے بازو غزنوی ۳۹۵ھ میں بخارا میں پیدا ہوئے اور ۴۹۳ھ میں ۹۸ برس کی عمر میں رحلت فرما کر غزنی میں استراحت فرما ہوئے، (آپ کے زنار کی زیارت کرنا صاحب سفینۃ الاؤلیا نے بھی حضرت شیخ رضی الدین علی غزنوی کے حال میں لکھی ہے)
کہتے ہیں کہ میر علی بے بازو غزنوی اپنی اٹھارہ سال کی عمر میں بخارا ہی میں جملہ علوم ظاہری و رحیہ سے فارغ ہو کر بخارا کی ایک پُرفضا اور سبزہ زار جگہ کی سیر فرما رہے تھے کہ ان کو دور سے ایک بڑی شان و شوکت والے بزرگ آتے ہوئے دکھائی دیئے، یہ ان کی طرف بڑھے اور چاہتے تھے کہ ان کو سلام کریں کہ انہوں نے خود ہی ان کو دیکھ کر کہا کہ علی احمد تو کہاں پھرتا ہے، یہ دن پھونے کے نہیں ہیں، علوم معنوی سے فارغ ہو کر پھرنا۔
علی احمد کہتے ہیں کہ میں نے تعجب سے عرض کیا، کیا آپ مجھے جانتے نہیں ہیں میں نے آپ کو نہیں پہنچانا، فرمایا جو عالمِ علومِ ربانی ہو جاتا ہے، وہ سب کو پہچانتا ہے تو بھی اس کی کوشش کر، عرض کیا کہ میں کس سے سیکھوں، فرمایا قطب عالم سے، عرض کیا آپ کہاں جاتے ہیں فرمایا خرقان الشیخ ابوالحسن کی خانقاہ میں، عرض کیا اگر ناگوار خاطر نہ ہو تو یہ احقر بھی ساتھ چلے، شاید انہیں کی جناب میں میرا مقصد پورا ہو جائے، فرمایا شوق سے چل، یہ کہہ کر میرا ہاتھ پکڑا اور پلک مارنے میں فرقان شیخ کی خانقا کے دروازے پر کھڑا کرکے خود غائب ہوگیے، میں خانقاہ کے اندر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ اسی حلیہ اور وضع قطع کے ایک بزرگ جو ابھی مجھے بخارا سے اپنے ساتھ لائے تھے، سجادہ پر جلوہ افروز ہیں میں ان سے ملا اور قطب العالم کی زیارت کا شوق ظاہر کیا فرمایا کوہ نسباً پر پہنچا دیکھا کہ وہاں ایک جماعت درویشوں کی رد بقبلہ کسی کے انتظار میں بیٹھی ہے اور ایک جنازہ کسی کی میت کا سامنے رکھا ہوا ہے، میں نے ان لوگوں سے کہا کہ اس جنازہ کی نماز کیوں نہیں پڑھ لیتے، انتظار کس کا ہے، انہو ں نے کہا کہ قطب العالم کا انتطار ہے، وہ یہاں پانچوں وقت کی نماز پڑھانے آتے ہیں، یہ معلوم ہو کر مجھے انتہائی مسرت ہوئی کہ اب میری صعوبتِ سفر راحت سے بدل جائے گی، ہنوز ایک گھڑی نہیں گزری تھی کہ وہ سب لوگ ایک دم کھڑے ہوگیے اور کہنے لگے کہ قطب العالم آگیے، میں بھی کھڑا ہوگیا، تو میں نے دیکھا کہ اسی حلیہ کے بزرگ جو مجھے بخارا سے فرقان مائے تھے اور خرقان میں خانقاہ شریف کے اندر رونق افروز پائے گئے تھے، معلوم ہوئے میں ان کے دیکھ کر ان کے رعب و ہیبت سے ڈر کر بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑا، جب ہوش آیا تو مردہ دفن ہو چکا تھا اور قطب عالم سے عرض کیا کہ وہ مجھے کہاں ملیں گے، فرمایا اہل اللہ سے دریافت کر، عرض کیا آپ کہاں جاتے ہیں فرمایا خرقان الشیخ ابوالحسن کی خانقاہ میں، عرض کیا اگر ناگوارِ خاطر نہ ہو تو یہ احقر بھی ساتھ چلے، شاید انہیں کی جناب میں میرا مقصد پورا ہو جائے، فرمایا شوق سے چل یہ کہہ کر میرا ہاتھ پکڑا اور پلک مارنے میں فرقان شیخ کی خانقاہ کے دروازے کھڑا کرکے خود غائب ہوگیے، میں خانقاہ کے اندر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ اسی حلیہ اور وضع قطع کے ایک بزرگ جو ابھی مجھے بخارا سے اپنے ساتھ لائے تھے، سجادہ پر جلوہ افروز ہیں میں ان سے ملا اور قطب العالم کی زیارت کا شوق ظاہر کیا، فرمایا کوہ نسبا پر ان کا مقام ہے پھر میں ان سے رخصت ہو کر بہار دشواری ایک سال میں کوہ نسبا پر پہنچا دیکھا کہ وہاں ایک جماعت درویشوں کی روبقبلہ کسی کے انتظار میں بیٹھی ہے اور ایک جنازہ کسی کی میت کا سامنے رکھا ہوا ہے، میں نے ان لوگوں سے کہا کہ اس جنازہ کی نزما کیوں نہیں پڑھ لتیے، انظار کس کا ہے، انہوں نے کہا کہ قطب العالم کا انتظار ہے، وہ یہاں پانچوں وقت کی نماز پڑھانے آتے ہیں، یہ معلوم ہو کر مجھے انتہائی مسرت ہوئی کہ اب میری صعوبتِ سفر راحت سے بدل جائے گی، ہنوز ایک گھڑی نہیں گزری تھی کہ وہ سب لوگ ایک دم کھڑے ہوگیے اور کہنے لگے کہ قطب العالم آگیے، میں بھی کھڑا ہوگیا، تو میں نے دیکھا کہ اسی حلیہ کے بزرگ جو مجھ بخارا سے فرقان مائے تھے اور خرقان میں خانقاہ شریف کے اندر رونق افروز پائے گئے تھے، معلوم ہوئے، میں ان کو دیکھ کر ان کے رعب و ہیبت سے ڈر کر بیہوش ہو کر زمین پر گرپڑا، جب مجھے ہوش آیا تو مردہ دفن ہو چکا تھا اور قطب العالم رخصت ہوئے تھے، میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون بزرگ تھے، کہا ان کا نام شیخ ابوالحسن خرقانی ہے، یہ ہی قطب عالم ہیں اور اب عصر کی نماز پڑھانے پھر تشریف لائیں گے، میں نے ان لوگوں سے نہایت عجز کے ساتھ عرض کیا کہ اب جس وقت شیخ تشریف لائیں تو ان سے میری سفارش کر دینا کہ آپ کا یہ معتقد چاہتا ہے کہ مجھے بھی آپ اپنے ہمراہ خرقان لے چلیں، چنانچہ ان لگوں نے میری سفارش کی، شیخ نے مجھے اپنے سامنے بلا کر فرمایا کہ ایک شرط پر لیے چلتا ہوں کہ میری زندگی میں یہ حال کسی سے نہ کہنا، میں نے اقرار کیا، شیخ نے اپنے دامن مجھے پکڑوا دیا اور میں آنِ واحد میں خرقان میں داخل ہوگیا، اس وقت خانقاہ میں سلطان محمود غزنوی کی تشریف آوری کی خبر تھی، جلد سے شیخ کی خدمت میں پہنچ کر شرفِ ارادت اور خرقۂ خلافت سے بہر یاب ہوگیا اور میرے لیے غزنی میں رہنے کا حکم ملا، اتنے میں سلطان محمود غزنوی بھی اپنے فردوگاہ سے حاضر ہو کر مرید ہوا اور پیراہن شیخ کا پایا، اس وقت شیخ نے پھر مجھے اپنے پاس بلا کر ایک گلاب مرحمت فرمائی اور غزنی کے لیے رخصت کر دیا۔
تاریخ گیتی میں ہے کہ آپ وہاں سے تن شریعت کا مظہر دل طریقت کا منبع اور سر معرفت کا معدن اور جان حقیقت کا آئینہ بنا کر غزنی میں وارد ہوئے اور ایک گوشے میں قیام کا بستر بچھا کر خدا سے لو لگائی، چند روز کے بعد آپ کا مکان بھی بن گیا اور والدین بھی آگئے، خاندان بھی فراہم ہوگیا اور آپ کد خدا بھی ہوگیے، ۲۳؍ ربیع الثانی ۴۲۱ھ میں سلطان محمود غزنوی نے اس عالمِ فانی سے عالم باقی کو کوچ کیا اور عزنی ماں اپنی آرام گاہ بنائی، آپ کو اس کا بیحد صدمہ ہوا، دفن وقت آپ موجود تھے، فرمانے لگے آج علیؔ بے بازو ہوگیا، چنانچہ آپ اسی وجہ سے علیؔ بے بازو کہلانے لگے۔
۴۲۵ھ میں منگل کے دن جو عاشورہ کی رات تھی آپ غزنی میں منبر پر بیٹھے مصائب آلِ عبا کا ذکر فرمارہے تھے کہ یکا یک ایک سرد آہ بھر کر فرمایا ’’اِنّا للّٰہ وَ اِنّا الیہِ راجعون‘‘ لوگ تعجب سے دیکھنے لگے، فرمایا اس وقت خرقاند میں میرے پیر و مرشد خواجہ ابوالحسن خرقانی کا انتقال ہوگیا، جب لوگوں نے دریافت کرایا تو انتقال کا یہی دن اور یہی تاریخ تھی، لکھا ہے کہ بعد انتقال کے بھی آپ اپنے پیر و مرشد کو حضرت خضر کی طرح زندہ تصور کرتے تھے اور ہمیشہ اپنے دوستوں اور راز داروں سے کہا کرتے تھے کہ اگر چہ ہمارے شیخ کا جسد عنصری خاک میں چھپا دیا گیا ہے مگر خلاصۂ (روح) مثالی بدن میں اسی طرح طالبوں کی رہنما ہے، جیسا کہ زندگی میں تھی، بقیہ شجرہ کے حضرات کے حالات چوں کہ دیگر کتبِ تواریخ میں مفصل و مشرح درج ہیں، لہٰذا جن بزرگوں کے حالات کی یہاں ضرورت تھی انہیں بزرگوں کے حالات پر اکتفا کیا گیا ہے۔
خواجہ حسین غزنوی :-
خواجہ سید علی بے بازو کے دو لڑکے تھے، بڑے خواجہ سید حسن شرفِ جہاں جن کا ذکر ہوچکا اور چھوٹے فرزند خواجہ سید حسین تھے، یہ ۴۴۱ھ میں پیدا ہوئے، آپ بڑے عارف کامل عامل، لباسِ ظاہری و باطنی سے آراستہ تھے، ۸۲ برس کی عمر میں راہی ملک بقا ہوئے، خواجہ محمد اطہر فرزند چھوڑے، یہ ۴۷۸ھ میں پیدا ہوئے تھے اور کرامت میں کمال حاصل تھا۔
۵۵۰ھ میں ۷۲ برس کی عمر پا کر اجل کی گہری نیند اپنے باپ کے آغوش میں جا کر سو رہے، سیدا ابوالفاخر پسر چھوڑے، یہ ۵۱۹ھ میں پیدا ہوئے تھے، کہتے ہیں کہ دیانت امانت دانش و بینش، مہربانی و خوش خلقی اور گوچہ نشینی میں اپنی نظری نہ رکھتے تھے، یہ تمام ستودہ صفات گویا آپ کی ذات میں خمیر تھیں، کسی سے نذر و نیاز نہیں لیا کرتے تھے، ۵۸۴ میں ۶۵ سال کی عمر پاکر غزنی میں خواب گاہ بنی اور خواجہ سید عرب غزنوی بخاری بدایونی فرزند چھوڑے جو ہمارے محبوب الٰہی کے نانا ہیں، صاحب طبقات محمودی لکھتے ہیں کہ خواجہ علی بے بازو بخاری غزنوی اور ان کی اولاد مذکورالصدر کے مزارات غزنی میں قریب روضۂ سلطانی محمود غزنوی کے واقع ہیں۔
خواجہ سید عرب چشتی غزنوی بدایونی :-
یہ محموب الٰہی کے نانا ہیں، ۵۵۱ھ میں نہانخانۂ عدم سے عالمِ وجود میں آئے، سلطان قطب الدین ایبک لک بخش فرماں روائے ہند کا عہد تھا، ۶۰۶ھ میں اپنے رشتے کے چچا خواجہ سید علی غزنوی بدایونی سے کچھ مہینہ پہلے سادات مشہدی کے ساتھ بدایونی میں تشریف لا کر سوتہہ محلہ میں قریب مسجد معمرہ مولانا حسام الدین سہروردی ملتانی بدایونی میں سکونت پذیر ہوئے اور اسی مسجد میں آپ نماز پڑھا کرتے تھے، یہی آپ کی زنانی حویلی تھی جواب کوچہ کے اندر نہ معلوم کس کے قبضہ و تصرف میں ہے اور یہیں آپ کا مردانہ مکان تھا، جس کا دروازہ مولانا حسام الدین کی مسجد کے سامنے تھا۔
صاحبِ طبقاتِ محمودی لکھتے ہیں کہ آپ علم و فضل میں یگانۂ عصر اور فاضل روزگار تھے، سلسلۂ چشتیہ میں حضرت اشرف الاقطاب خواجلی النور عمثان ہارونی نیشاپوری سے بیعت و خلافت حاصل تھی، معاصر اور پیر بھائی حضرت شیخ فتح اللہ چشتی شیرازی بدایونی عرف پیر فتو صاحب کے تھے، بے حد و نہایت لوگوں کے دل آپ کے پنجۂ تصرف میں تھے، شاہ سے لے کر فقیر تک اور بڑے سے لے کر چھوٹے تک آپ کی خدمت میں زانوئے ادب تہہ کرتے تھے، اقسامِ دعوت پر بہت کچھ عبور تھا، آپ کی خدمت میں زانوئے ادب تہہ کرتے تھے، اقسامِ دعوت پر بہت کچھ عبور تھا، آپ کی ظاہری خواہشیں اور باطنی قوتیں دوئی کی سنگاخ سے نکلی ہوئی تھیں اور وحدت کے سبزہ زار میں خرماں خراماں پھرا کرتی ہیں، کمالاتِ دوجہانی آپ کو حاصل تھے، دنیاوی مال اور اخروی اعمال یہ دونوں چیزیں قدرت سے آپ کے حصے میں آئی تھیں، دو چار نئے مہمان روانہ آپ کے دسترخوگان پر موجود ہو تھے، پاس ایک حصہ نہ تھا، یہ سب دستِ غیب کا کرشمہ تھا، جس روز جس قدر بھی خرچ ہونے کو ہوتا، اسی قدر رقم مصلے کے تلے سے مل جاتی تھی مگر دوسرے دن کو ایک حبہ باقی نہیں بچتا تھا، حتیٰ کہ چراغ کا تیل بھی وقتِ مقررہ پر ہی ختم ہو جاتا تھا۔
ایک رات حسبِ اتفاق پڑوس میں کچھ مہمان آ گیے، ہمسایہ آپ کے بڑے صاحبزادے خواجہ سید عبداللہ سے تیل مانگنے آیا، گھر میں چوں کہ تیل ختم ہو چکا تھا، وہ شرمانے لگے، آپ کو معلوم ہوگیا، فوراً ہمسایہ کو اپنے پاس بلا کر ایک بھرا ہوا کنٹر عطر کا جو اس روز ایک سودا گر عطر بصرہ سے خریدا تھا اس کے حوالے کر دیا، وہ دِل میں پس و پیش کرنے لگا، آپ نے فرمایا میاں یہ بھی تیل ہے اور مرنیت اس میں بھی ہے، لے جا کر جلاؤ خوب جلے گا مہمان تمہارے اندھیرے میں بیٹھے ہوں گے، غرض کہ پڑوسی نے وہ عطر لے جا کر چراغ میں جلایا، جب مہمانوں کو آپ کی یہ اولوالعزم معلوم ہوئی نو عش عش کرنے لگے، یہی وجہ ہے کہ دنیا اوروں میں آپ دولت مند مشہور تھے اور رئیس سمجھے جاتے تھے، لوگ جانتے تھے کہ یہ اپنے وطن سے زر و جواہر لایا ہوا یہاں صرف کرتے ہیں مگر آپ کی اصل حقیقت سے کوئی شخص بھی واقف نہ تھا، نہ کسی کو یہ معلوم تھا کہ کس کے مرید ہیں، جب انتقال کے دن حضرت شیخ فتح اللہ شیرازی عرف پیر فتو بدایونی نے آکر آپ کا شجرہ نکلوایا اور حالِ خلافت ظاہر کیا تو اصل حقیقت لوگوں کو معلوم ہوئی کہ آپ صورت کے رئیس اور سیرت کے درویش تھے۔
وفات آپ کی ۱۸؍ شوال ۶۱۸ھ روز شنبہ کو ہوئی، ۷۶؍ برس کی عمر پائی، تجہیز و تکفین کر کے شیخ فتح اللہ شیرازی اور ملا عبداللہ مکی نے قبر میں اتارا اور نماز جنازہ مولانا رضی الدین صنعانی محدث بدایوں نے پڑھائی، انتقال کے وقت سے واصل حق ہونے تک خواجہ محمود مسعود نخاستی مجذوب برابر کھڑے آنسو بہاتے رہے، یہ خواجہ بزرگ اجمیری کے مرید تھے اور انہیں کی بددعا سے خواجہ سید حسن سلطان العارفین بدایونی نے جل کر شہادت پائی تھی۔
راوی کہتا ہے کہ یہ دستِ غیب آپ کی زندگی ہی تک ممدود نہ تھا بلکہ اب تک برابر مزار کی جاروب کشی کرنے والے کو دوانّی چونّی حسب حیثیت روزانہ لی جاتی ہے مگر اس راز کو فاش کرنے پر یہ عطیہ بند ہو جاتا ہے، چنانچہ راقم الحروف بھی اس عطیہ سے کچھ دنوں تک سرفراز ہوا ہے اور یہ بات بھی قابل وثوق ہے کہ اکثر اہل اللہ نے بہ ہنگام مراقبہ آپ کے زور پر خواجہ غریب نواز کو رونق افروز دیکھا ہے، اسی سبب سے اہلِ باطن اکثر فاتحہ آپ کے استانے سے باہر کھڑے ہو کر پڑھ لتیے ہیں اور اندر نہیں جاتے، ایک دختر بی بی زلیخا اور دو لڑکے خواجہ سید عبداللہ اور خواجہ سید محمود چھوڑے۔
آپ کا مزار قلعہ بدایوں کے شمال میں بہر تول دروازہ سے تخمیناً ۱۱۔۱۲ سو قدم کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی حریم کے اندر پختہ واقع ہے، پائیں پہلے ایک درخت نیب کھڑا تھا جو اب کٹ گیا، وہیں ایک قبر کسی کی زمین دوز واقع ہے۔
سنا ہے کہ اس آستانے کی پاسبانی ایک جن بصورت مارِسیاہ کیا کرتا ہے، انسانی پے چہل پاتے ہی غائب ہو جاتا ہے، آج تک کسی کو کاٹتے نہیں سنا دیکھا اکثر لوگوں نے ہے۔
منقبت خواجہ سید عرب چشتی بخاری بدایونی
تم جو کرو ہو رہبری یا حضرتِ سید عرب
حل ہو ہر مشکل اڑی یا حضرتِ سید عرب
تم ہو سید اور پھر ماہِ عرب کے لاڈلے
یہ فضیلت ہے بڑی یا حضرتِ سید عرب
خواجۂ عثماں سے بیعت کا شرف تم کو ملا
کیوں نہ ہو پھر برتری یا حضرتِ سید عرب
تیل ہمسایہ نے مانگا عطر اس کو دے دیا
تم سخی ابن سخی یا حضرتِ سید عرب
حضرتِ خواجہ کا صدقہ فکرِ دنیا سے مجھے
دو نجاتِ دائمی یا حضرتِ سید عرب
میں ہوں منگتا، تم ہو داتا دیر ہے پھر کس لیے
جھولیاں بھر دو مری یا حضرتِ سید عرب
میرے دینے سے خزانے میں تمہارے یا حضور
ہوگی کا کوئی کمی یا حضرتِ سید عرب
مانگنے کی پھر ضرورت ہو نہ مجھ کو عمر بھر
ہے یہ حاجت آخری یا حضرتِ سید عرب
بی بی زلیخا بنت خواجہ سید عرب بدایونی :-
یہ ہمارے محبوب الٰہی کی والدہ ماجدہ ہیں، ۵۸۰ھ میں پیدا ہوئی تھیں، ۲۶ برس کی عمر میں اپنے باپ کے ساتھ ۶۰۶ھ میں غزنی سے بدایوں آئی تھیں، یہیں آکر آپ کی شادی خواجہ سید احمد بن خواجہ سید علی غزنوی بدایونی کے ساتھ عمل میں آئی، پہلے لڑکی بی بی زینب عرف بی بی جنت پیدا ہوئیں پھر ۶۳۱ھ میں جب کہ محترمہ کی عمر اکیاون سال کی ہوچکی تھی بڑی امنگوں اور مرادوں کے بعد محبوبِ الٰہی پیدا ہوئے پچپن برس کی عمر میں رانڈ ہوگئیں، ۶۴؍ سال کی عمر میں اپنے فرزند محبوب الٰہی کی تکمیلِ علم کی غرض سے دہلی تشریف لئے گئیں، اپنے والدِ بزرگوار خواجہ سید عرب کی مرید تھیں۔
محبوب الٰہی فرماتے ہیں کہ میری والدہ کی خدا سے آشنائی تھی، انہیں جب کوئی مشکل آنے کو ہوتی تو خواب میں معلوم ہو جایا کرتی تھی اور اس کا اختیار بھی انہی کے ہاتھ میں دے دیا جاتا تھا اور جب کوئی مشکل پڑتی تو وہ پانچ سو بار درود شریف پڑھ کر اور اپنا دامن پھیلا کر جو بھی دعا مانگتیں خدا سے اسی ہفتہ یا اسی مہینے میں پوری کر دیتا تھا اور جس دن ہمارے گھر میں اناج ختم ہو جاتا تھا تو مجھ سے فرماتیں، بابا نظام الدین امروزت مہمانِ خدائیم، تھوڑی دیر نہیں گزرنے پاتی تھی کہ کوئی نہ کوئی ہمارے گھر میں اناج دے جاتا تھا، مجھے اپنی ماں کے منہ سے خدا کا مہمان کہنا بہت اچھا معلوم ہوتا تھا اور اکثر میرا دل یہ ہی چاہتا تھا کہ کب اناج ختم ہو اور کب میری ماں مجھ سے خدا کا مہمان کہیں، محترمہ جب کبھی دہلی میں بیمار پڑتیں، تو صحت یابی کے لیے دعا منگوانے مجھے ایک شہید کے مزار پر بھیجتیں، میں جا کر دعا مانگتا اور خدا کے حکم سے صحت ہو جاتی، جب محذومہ کا وصال ہونے کو ہوا تو وہ غرۂ جمادی الآخر تھا، اس رات میں حسبِ عادت چاند دیکھنے کی خوشی میں ان کے سلام اور قدمبوسی کو حاضر ہوا، وہ مجھے دیکھ کر بولیں کہ بیٹا! اب کی چاند رات کو کس کی قدمبوسی کرو گے، یہ سن کر میں جان گیا کہ اب زمانۂ وصال قریب ہے میں آنسوں ہو کر پوچھنے لگا کہ اماں جان! مجھ غریب بیچارہ کو کس پر چھوڑے جاتی ہو، فرمایا اس کا جواب میں صبح کو دوں گی، آج کی رات تم شیخ نجیب الدین متوکل کے مکان پر جاکر سو رہو، میں وہیں چلا گیا، آخر رات صبح ہوتے لونڈی آئی اور کہنے لگی، بی بی آپ کو بلاتی ہیں، میں فوراً حاضر خدمت ہوا مجھ سے فرمانے لگیں، بیٹا! تم نے جو مجھ سے رات پوچھا تھا اور میں نے اس کا آج کی رات تم شیخ نجیب الدین متوکل کے مکان پر جا کر سو رہو، میں وہیں چلا گیا، آخر رات صبح ہوتے لونڈی آئی اور کہنے لگی، بی بی آپ کو بلاتی ہیں، میں فوراً حاضِر خدمت ہوا، مجھ سے فرمانے لگیں کہ بیٹا! تم نے جو مجھ سے رات پوچھا تھا اور میں نے اس کا آج کا وعدہ کیا تھا، وہ اب بتاتی ہوں، اپنا سیدھا ہاتھ لاؤ، میں نے سیدھا ہاتھ دیا، وہ میرے ہاتھ کو پکڑ کر بولیں کہ اِلٰہ العٰلمین! اس کو میں تیرے سپرد کرتی ہوں کہ یہ کہہ کر فوراً جاں بحق تسلیم ہوگئیں۔
محبوبِ الٰہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ والدہ محترمہ کے انتقال کے بعد جب مجھے کوئی مشکل پیش آتی تو میں ان کے قبر پر جا کر عرض کرتا، بسا اوقات اسی ہفتہ میں وہ کام پورا ہو جاتا، ایسا بہت ہی کم ہوتا کہ مہینہ لگ جاتا۔
آپ کی تاریخ وفات یکم جمادی آلاخر وقت صبح صادق ۶۴۸ھ تحریر ہے، ۶۸؍برس کی عمر پائی، مزار دہلی میں بی بی نور کے صمنِ چبوترہ پر ہے، برابر میں آپ کی صاحبزادی بی بی زینب عرف بی بی جنت کی قبر ہے اور چبوترے کے نیچے آپ کی نواسی بی بی رقیہ کی قبر ہے۔
محترمہ جب دہلی جانے لگیں تو اپنی جائیداد اور مکان وغیرہ سب اپنے داماد خواجہ محمد صالح کو دے گئیں، چنانچہ اسی جائیداد سے پچتور گاؤں کو خواجہ محمد صالح نے اپنے زمانۂ آخر میں اپنے سالے خواجہ نظام الدین اؤلیا کے نام سے نظام پور پچتور درجِ کاغذاتِ شاہی کرا کر منافع اس کا واسطے مصارفِ درگاہ خواجہ سید احمد اپنے خسر کے نام وقف کر دیا اور مہتمم اس کا اپنے بیٹے سید محمد فاخر دہلوی کو بنا دیا، جس کا نفاذ ہر دورِ حکومت میں ہوتا رہا، چنانچہ انگریزی عملداری میں بھی بحکمِ گورنمنٹ ۲۹۷۹ مؤرخہ ۳۰؍ جولائی ۱۸۵۳ء وہ موضع اسی نام یعنی نظام پور پچتور کے نام سے قائم رہا اور اب کانگریسی دور میں بھی اسی نام سے پکارا جاتا ہے، اس کی کل اراضی ایکڑ کا محاصل واسطے مصارف زیارت خواجہ سید احمد کے لیے معارف ہوگیا ہے۔
آپ کا شجرۂ نسب بایں طور ۶؍ واسطوں سے اپنے خاوند خواجہ سید احمد غزنوی کے جد اعلیٰ حضرت سید میر علی بے بازو سے مل جاتا ہے، جو یہ ہے۔
بی بی زلیخا بنت خواجہ سید عرب غزنوی بدایونی بن خواجہ سید ابوالفاخر بن خواجہ محمد اطہر بن خواجہ حسین بن سید علی بے بازو۔
خواجہ سید عبداللہ :-
آپ خواجہ سید عرب غزنوی بدایونی کے بڑے صاحبزادے اور محبوب الٰہی کے بڑے ماموں تھے، کُنتُ کنزا فحفیا کے رموز کی عباافرولآمن شیٔ اِلاّ عندنا خزائنہ‘ کی قبا آپ کے زیبِ بند تھی، دنیا و آخرت کی سعادت مندی کی اس پر سنجاف ٹکی ہوئی تھی اور آستینوں پر ذاتی شرافت کا ٹھپہ لگا ہوا تھا، علوم رسمیہ کے سمایہ سے آپ کی جبیں بھری ہوئی تھیں، ظاہری آرائش آپ کی باطنی خلوت میں کبھی مانع نہ ہوسکی، ہمیشہ گوشہ گزیں اور چلہ نشیں رہے، دنیا والوں میں جو اسباب تعارف ہیں ان میں کسی سبب کو اپنی خواہش کا ہاتھ نہیں لگایا لیکن بایں ہمہ جو کچھ خشک وتر دوپہر کو یا شام کو میسر آتا بغیر کسی بے نوا مہمان کے کام تھا، تیسری ذوالحجہ ۶۳۷ھ ۵۳؍ برس کی عمر میں راہی ملک بقا ہوئے، خواب گاہ بدایوں ساگر تال کے اند بلندی پر پختہ بنی ہوئی ہے، آپ نے ایک فرزند خواجہ سید محمد صالح چھوڑے۔
ان ہی کے ساتھ بی بی زینب عرف بی بی جنت ہمشیرۂ محبوب الٰہی کا حصہ ہوا تھا، ان سے صرف دو اولادیں ہوئیں، ایک پسر خواجہ محمد فاخر اور ایک دختر بی بی رقیہ، خواجہ محمد فاخر کے دو لڑکے ہوئے، بڑے خواجہ رفیع الدین ہارون چشتی اور چھوٹے خواجہ تقی الدین نوح چشتی دہلوی تھے، بی بی رقیہ کی شادی سید عبداللہ بن حسن واعظ بدایونی بن خواجہ سید موسیٰ غزنوی بدایونی سے ہوئی تھی، ان کے بطن سے دو لڑکے سید ابوبکر مصلی دار چشتی دہلوی اور سید عمر دہلوی پیدا ہوئے۔
خواجہ سید محمود :-
پسر خرد خواجہ سید عرب غزنوی بدایونی محبوب الٰہی کے چھوٹے ماموں، یہ بھی اپنے والدِ بزرگوار کے شاگرد و مرید تھے اور سترہ ساتل کی عمر میں اپنے والد بزگوار کے ساتھ غزنی سے بدایوں آئے تھے، ملک نصیرالدین ملغان مصاحب شمس الدین التمش ناظم بدایوں آپ کو مخدوم الملک کے لقب سے یاد کریا کرتا تھا، آپ کی تقریر کی زبان اور تحریر کا قلمروِ فصاحت و بلاغت سے آراستہ ہو کر حسن کو دو بالا کر دیتا تھا، آپ کے قلم کی لکھی ہوئی تالیفات و تصنیفات اکثر دیکھنے میں آئیں جو اپنی خوبی میں آپ نظیر تھیں، حضرت مولانا رضی الدین صنعانی محدث بدایونی سے جب آپ کو علما کے ساتھ علم آزمائی کی مجلسوں میں دیکھا تو آپ کو سب پر ترجیح دی اور فرمایا کہ اس نوجوان کی معنوی فطرت پختگی کی راہ سے کمال پیری میں اور استحکام کے اعتبار سے آغاز شباب میں ہے، آخر ۶۴۱ھ میں ۵۲ برس کی عمر پاکر ۲۷؍ رجب کو اخریٰ نامہ لکھ کر خطِ نیستی کو ختم کیا، کوئی اولاد نہیں رکھتے تھے، اپنے بھانجے محبوبِ الٰہی کو ہی مثلِ اولاد پالا تھا، آرام گاہ ساگر تال پر اپنے بڑے بھائی خواجہ سید عبداللہ کے برابر چبوترے پر ہے، آپ ہی کے برابر مشرقی جانب زیرِ چبوترہ آپ کے بھتیجے خواجہ سید محمد صالح خفتہ ہیں اور ان کے پائینِ مزار سید عبدالکریم سمرقندی کا خام مزار واقع ہے۔
خواجہ سید موسیٰ غزنوی بدایونی :-
آپ خواجہ سید عبداللہ خلمی سے چھوٹے صاحبزادے اور خواجہ سید علی کے چھوٹے بھائی اور خواجہ سید احمد غزنوی کے حقیقی چچا اور محبوب الٰہی کے چھوٹے دادا تھے، ۵۲۴ھ میں غزنی میں پیدا ہوئے اور وہیں تحصیل و تکمیل علم فرمائی، یہ جب اپنے بڑے بھائی خواجہ سید علی کے ساتھ بدایوں میں تشریف لائے تو انہیں سادات قبائی نے اپنے گھر میں بڑے خلوص اور محبت کے ساتھ ٹھہرایا چنانچہ آپ اسی مکان میں رہتے رہے اور اپنی بقیہ عمر کا حصہ درس و تدریس اور گوشہ نشینی میں گزارا، فقہ میں آپ کی وسعت نظر ضرب المثل تھی، اپنے والد ماجد کے مرید تھے، حنفی مذہب اور جنیدی مشرب رکھتے تھے، ۲۱؍ ربیع الاول ۶۲۳ھ میں ننانوے برس کی عمر میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا اور اپنے رشتے کے بھیجتے خواجہ سید عرب چشتی بدایونی کے مزار کے قریب جانب شرق دفن ہوئے، بالینِ مزار ستون پر چراغداں بتا ہوا ہے، ایک فرزند عبدالرحمٰن صرف ملا سید حسن واعظ بدایونی اپنی یادگار چھوڑے۔
حضرت عبدالرحمٰن عرف ملا حسن واعظ بدایونی :-
فرزند ارجمند خواجہ سید موسیٰ غزنوی بدایونی کے اور محبوبِ الٰہی کے پھوپھا تھا، نہایت باوقار اور خوش تقریر عالم تھے، بزرگ باپ اور مقدس تایا سے علم حاصل کرنے کے بعد بغداد میں جا کر تحصیل و تکمیل فرمائی، انتہا کے خوش تقریر تھے، وعظ بہت پُر تاثیر ہوتا تھا، قرآن و حدیث کے نکات بتاتے وقت عجب قسم کی شگفتگی خاطر پیدا ہو جاتی تھی، بی بی ہاجرہ فاضلہ بنتِ خواجہ سید علی غزنوی بدایونی آپ ہی کی زوجۂ مقدسہ تھیں، جن کے بطن سے خواجہ سید عبداللہ پیدا ہوئے تھے۔
لکھا ہے کہ عبد الرحمٰن عرف ملا حسن واعظ بدایونی ابھی اپنے صاحبزادے سید عبداللہ کا عقد بی بی زینب کے ساتھ نہیں کر پائے تھے کہ ۱۱؍ ربیع الآخر ۶۲۸ھ میں شبِ جمعہ کو خلوتِ وصال کی آراستگی کا مژدہ پہنچا اور جان کو آفریں کے سپرد کرکے دنیا کے مخمصوں سے چھٹکارا پایا، قبر بدایوں میں اپنے باپ اور رشتہ کے بھائی خواجہ سید عرب بدایونی کے مابین ایک وسیع اور پختہ چبوترہ پر واقع ہے۔
حضرت بی بی ہاجرہ فاضلہ :-
بنت خواجہ سید علی غزنوی بدایونی زوجہ مقدسہ حضرت عبدالرحمٰن عرف ملا حسن واعظ بدایونی اور والدہ شریفہ خواجہ سید عبداللہ اور خوش دامن بی بی رقیہ کی تھیں، آپ بہت پڑھی لکھی اور سلیقہ شعار بی بی تھیں، فقہ کے پیچدہ مسائل اور علمائے بخارا کے فتاویٰ پر اس قدر عبور تھا کہ بدایون کے مستند علما بارہا زاعیہ مسائل میں ان سے مشورہ لینے آتے تھے، قاضی منہاج الدین عثمان ابن سراج الدین المعروف بہ منہاج السراج صاحب طبقات ناصری جو بدایوں کے مفتی عدالت تھے، کہتے ہیں کہ ’’میں نے قاضی خواجہ سید احمد غزنوی بدایونی کی بہن سے زیادہ سمجھنے والا معانیٔ قرآن کا کسی عالم کو نہیں پایا، میرے سامنے کی بات ہے کہ قاضی صاحب کے پاس ایک مرد آیا اور اس نے اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگا کر یہ دعویٰ پیش کیا کہ اس عورت سے میرا عقد ہوئے صرف چھ ماہ گزرے ہیں اور آج اس کے لڑکا پیدا ہوگیا، لہٰذا یہ لڑکا میرا نہیں ہے، شرع کے بارے میں کیا حکم دیتی ہے، قاضی صاحب یہ سن کر بہت متفکر ہوئے اور دارالقضا سے اٹھ کر سیدھے اپنے زنان خانہ میں تشریف لے گیے اور اپنی خواہرِ محترمہ کو بلا کر پوچھنے لگے کہ تم جانتی ہو کہ فلاں عورت جو تمہارے پڑوس میں رہتی ہے اس کا چال چلن کیسا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے جہاں تک سنا ہے اور دیکھا ہے، وہ بہت نیک عورت ہے اور اس کی نشست و برخاست بھی نیک بیبیوں میں رہتی ہے، کیوں کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اس کا خاوند اس پر زِنا کا الزام لگاتا ہے اور وجہ یہ بتلاتا ہے کہ اس عورت کے بجائے نو مہینے کے چھٹے مہینے میں بچہ پیدا ہوا، یہ کسی اور کا ہے میرا نہیں ہوسکتا، وہ بولیں یہ حمل اسی کا ہو سکتا ہے، قرآن بتلاتا ہے، وحملہ فصالہ ثلٰثو شھراً یعنی مدتِ حمل اور دودھ پینے کی تیس مہینے قرار دی گئی ہے، تو دو سال تو مدت دودھ پینے کی ہوئی، ممکن ہے کہ چھ مہینہ مدت حمل کی ہو، یہ وہی قصہ ہے جو حضرت عمر فاروق کے عہدِ خلافت میں پیش آیا تھا اور حضرت علی مرتضیٰ نے ان کی توجہ اس طرف دلائی تھی، میں بھی حضرت علی کی پوتی ہوں، اس لیے تم کو مطلع کیا، قاضی صاحب نے فرما کہ کیا میں ان کا پوتا نہ تھا، میرے خیال میں یہ بات کیوں نہ آئی، انہوں نے جواب دیا کیا حضرت عمر کے خیال میں نہ آنا کچھ ان کے فضل میں کمی لاتا ہے، اس کو یوں سمجھنا چاہیے کہ خدا کو تم سے وشاورھم فی الامر کی تکمیل کرانی مقصود تھی اور میرا اس نیک کام میں حصہ لینا مقدر تھا۔
یہ مخدومہ ۳؍ ربیع الاول ۶۱۵ھ میں رحلت فرما کر پائیں مزارات حضرت سید حامد مشہور سبز پوش اور حضرت سید راشد مشہور سرخ پوش شہدا کے دفن ہوئیں، جواب شامل حریم اندرونی درگاہ سیدالافراد خواجہ سید احمد بدایونی کے ہے، ان مخدومہ نے صرف ایک ہی فرزند خواجہ سید عبداللہ چھوڑے تھے، جن کی شادی بی بی زینب عرف بی بی جنت خواہر محبوبِ الٰہی سے ہوئی تھی، ان کے بطن سے دو لڑکے سید ابوبکر اور سید عمر پیدا ہوئے جو دہلی میں خواجہ ابوبکر وراق مصلیٰ دار خاص چشتی کے نام سے مشہور ہیں، انہیں کے نسل کے صاحبزادگان درگاہ محبوبِ الٰہی ہیں، جو فریق ہندوستانی کہلاتے ہیں اور خواجہ پیر ضامن نظامی سید بخاری دہلوی صاحب سجادہ نشیں درگاہ حضرت نظام الدین اؤلیا انہیں کی اولاد میں سے ہیں۔
مولانا شاہ دلدار علی مذاقؔ بدایونی نے بہت سے اولیائے بدایوں کے اسمائے گرامی کو ایک نظم میں جمع کر دیا ہے، اس سے صرف ان ناموں کا جن سے کتابچہ کا تعلق ہے، اقتباس کیا جاتا ہے، وھو ھٰذا۔
سید سلطان نظام الدین محبوب اِلہٰ
ابنِ احمد بن علی اولادِ امجاد رضا
حضرتِ بی بی زلیخا ہیں ولیہ سیدہ
مادرِ سید نظام الدین محبوبِ خدا
ہیں سراپا نور بی بی نور ہمشیرہ حضور!
ہیں یہ دونوں بیبیاں و نبی میں مدفون ایک جا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.