Sufinama

قوالی

MORE BYنیاز فتح پوری

    دلچسپ معلومات

    ماہنامہ نگار- ماہ اپریل 1930

    اس وقت یہ تحقیق مقصود نہیں کہ یہ پیشہ کب سے رائج ہے، اس اختراع و ابداع کا سہرا ابراہیم لنکن کے سر ہے یا نپولین بونا پارٹ کے کیونکہ اگر اس بات میں یہ قول صحیح سمجھ لیا جائے کہ بگڑا گویّا قوال اور بگڑا شاعر مرثیہ گو تو پھر قوال اور مرثیہ گوئی کو اتنا ہی قدیم ماننا پڑے گا جتنا موسیقی و شاعری کو، یہ بات اور ہے کہ ان کے یہ اصطلاحی نام بعد کو وضع ہوئے، یوں اس وقت اس کی لسانی تحقیق بھی مراد نہیں کہ یہ باب قال یقول کا صیغہ مبالغہ ہے اور ایک گانے والے کے لئے اس کا استعمال بالکل اسی طرح غلط ہوتا ہے جیسے بقال کا کہ بقال اصل میں ترکاری بیچنے والے کو کہتے ہیں لیکن اب وہ عام طور پر بنیے کے معنیٰ میں بولا جاتا ہے بلکہ مدعا یہ ہے کہ اس جماعت یا زیادہ صحیح لفظ میں اس طائفہ کے غنائی و فکاہی پہلو کا انکشاف کیا جائے۔

    لفظ قوالی ایک ایسا لفظ ہے جو ایک ہی وقت میں دو مفہوم کو مشتمل ہے ایک وہ جس کا تعلق محض موسیقی سے ہے یعنی قوالی بول کر ایک مخصوص لحن ایک مخصوص برگ و ساز کے ساتھ گانا بجانا مراد ہوتا ہے اور دوسرے وہ محفلِ اجتماع یارا احتفال درویشانہ جہاں اس قسم کی صحبت برپا ہوتی ہے۔

    جب گانے کے جواز یا عدمِ جواز پر بحث ہوتی ہے تو مولوی اکثر و بیشتر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ نفس غنا تو جائز ہے لیکن مزامیر کے ساتھ ناجائز ہے اور مزامیر کے معنی وہ بتاتا ہے تار والے ساز جیسے سارنگی، ستار، قانون، بربط وغیرہ حالانکہ زبور میں جہاں غنائے داؤد کا ذکر آیا ہے وہاں مزامیرِ داؤد لکھا ہے اور یہ امر ثابت ہے کہ جنابِ داؤد صرف بانسری بجاتے تھے اور مزامیرِ داؤد سے مراد ان کے وہ تمام ترنمات ہیں جو بانسری سے پیدا ہوتے تھے اسی لئے عربی زبان میں نہ صرف ماچھی آواز کو کہتے ہیں اور زمور خوبصورت لڑکے کو، زنارہ بانسری کے معنیٰ میں آتا ہے اور مزمار ہر اس آلہ کو کہتے ہیں جس سے اچھی آواز پیدا ہو، پھر جب ہر وہ آواز جو کانوں کو بھلی معلوم ہو جو دل کو خوش کرے نعتاً ’’مزامیری وعید کے تحت میں آتی ہے تو بے مزامیری گانے کے صرف ایک ہی معنیٰ ہو سکتے ہیں یعنی وہ گانا جس سے دل کو وحشت ہو جس کے سننے سے سامعہ کے پردوں میں تشویش پیدا ہو اور جو تھوڑی دیر کے بعد ایک انسان کو کانوں میں انگلی دے کر بھاگ جانے پر مجبور کرے، اگر کوئی مثال دوں تو کہہ سکتا ہوں کہ جیسے ہمارے آسی صاحب افسر ؔصاحب اور امین صاحب کا مشاعرہ میں غزل پڑھنا کہ اس لحاظ سے ان کو بہترین قوال ماننا پڑے گا اگر قوالی نام واقعی اس غنا کا ہے جو مطلقاً کوئی مزامیری کیفیت نہیں رکھتا اور جسے دل کشی سے کوئی لگاؤ نہیں ہے ’’پوچ گو، نعت گو‘‘ مشہور مقولہ ہے اسی کے ساتھ یہ اضافہ بھی ہونا چاہیے کہ پوچ سرا، قوالی سرا کیوں کہ اس طرح اصولاً قوالی کے مفہوم کی کوئی تعین تو کر سکیں گے اور اگر کوئی قوالی کی تعریف پوچھے گا تو ہم کہہ سکیں گے کہ قوالی نام ہے موسیقی کی نعت گوئی کا اور یوں بھی چونکہ ایسی محاٖفل ہیں اکثر نعتیہ غزلیں پڑھی جاتی ہیں اس لئے یہ تو توجیہ و تصریح زیادہ برمحل و قریب حقیقت ہوگی۔

    موسیقی کی ابتدا کیونکر ہوئی، اس سلسلہ میں ہندوؤں کے ناہد داناہد کے جھگڑے یا کسی مسلمان بزرگ کا یہ کہنا کہ انہوں نے روزِ الست جو آواز سنی تھی وہ لحن پوربی میں تھی یا کسی فلسفی کا یہ دعویٰ کہ گردش سیارگان کی آواز سے اس نے اصولِ غنا مرتب کیے، یہ سب ہماری سمجھ سے باہر ہیں لیکن یہ یقینی ہے کہ ارتقا تمدن کے سلسلہ میں جس طرح اور باتوں میں مرد و عورت دونوں برابر کے شریک ہیں اسی طرح موسیقی کی ایجاد و اختراع میں بھی دونوں کی کاوشیں شامل ہیں فرق یہ ہے کہ مرد جب باہر جنگل میں حصول غذا کے لئے جاتا تھا تو اسے درندوں کی ہیبت ناک صداؤں، اپنے آلات اور چٹانوں کے آہنی و حجری تصادم کی خشن آوازوں سے واسطہ پڑتا تھا جنہوں نے اس کو اصول موسیقی کی ترتیب میں مدد دی اور عورت نماز کے اندر جھونپڑوں کے نیچے یا چمڑے کے خیموں میں ان چڑیوں کی آوازیں سنا کرتی تھیں جو پاس کے چشموں پر آ آ کر پانی پیتی تھیں اور وہیں قریب کے درختوں پر بیٹھ کر عورت کی تنہائی اور صحرائی سکوت کو شیریں نغموں سے معمور کرتی رہتی تھیں جن سے عورت نے اپنے گیت بنائے، بے خواب مچلنے والے بچوں کو سنا سنا کر ان کی روح میں سکون و راحت کی کیفیت پیدا کی اور رات کے وقت دن بھر کی محنت سے خستہ ہو کر پڑ جانے والے مرد کے دل کو صبح کے لئے نئے ولولۂ عمل سے لبریز کیا پھر چونکہ عورت کی تخلیق اس کے گلے کی ساخت صرف لچیلی، نرم اور شیریں ہی آواز پیدا کر سکتی ہے اس لئے اس کی یہ کوشش زمیر ہوگئی اور مرد اپنے گلے سے بھاری موٹی آواز نکالتا ہے اس لئے اس کی یہ سعی نصیر ہوگئی، یہی وجہ ہے کہ مولویوں اور صوفیوں کی مجالس میں کبھی عورت کا گانا نہیں ہوتا کیونکہ اس کا گانا مزامیری ہے اور غنا بالمزا امیر حرام ہو ہی چکا ہے بلکہ صرف مرد کا چیخنا پسند کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں زمیر کا کہیں پتہ نہیں اور ممکن ہے یہ سب کچھ اس لئے بھی ہو کہ آدم کا انتقام حوا کی بیٹیوں سے لیا جائے لیکن بظاہر سبب یہی معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ صوفیہ کے یہاں دل خوش کرنے کے بجائے دل دکھانا زیادہ پسندیدہ سمجھا جاتا ہے، اس لئے انہوں نے اپنی محفل میں یہ مشغلہ مرد کے سپرد کیا اور شاعری کا جو حصہ اس میں شامل کیا وہ بھی اسی پُوچ گو قسم کا۔

    اس لئے اب اس تمام بحث کے بعد اقوال کی جو تعریف بھی کی جائے لیکن یہ یقینی ہے کہ اس کا گانا کسی طرح ناجائز نہیں ہو سکتا اورجب انسان فرطِ مسرت کی یکسانی سے گھبرا کر کبیدگی خاطر پیدا کرنا چاہے تو منجملہ دیگر تدابیر کے قوالی بھی اس کی ایک کامیاب تدبیر ہے۔

    قوال کی محفلیں خواہ کسی خانقاہ میں ہوں یا کسی مرشد خانہ میں اس کے اصول تہذیب و ترتیب ایک ہی ہوتے ہیں یعنی زمین پر جہاں رنگ برنگ کی بوسیدہ دریاں اور ایک آدھ کیف سی چاندنی بچھی رہتی ہے ایک جانب گاؤ تکیہ رکھ دیا جاتا ہے جس کے سہارے سے خانقاہ کے متولی یا صاحبِ سجادہ ایک خاص ادائے مغانہ سے دو زانو یا چار زانو ہو کر بیٹھ جاتا ہے، دونوں جانب ارادت مندوں یا ساسیں کی جماعت میں کچھ ’’می پرانند قسم کے افراد شامل ہوتے ہیں اور کچھ حال لانے کے لحاظ سے می پرند قسم کے، وضع قطع کے تنوع کے لحاظ سے بھی یہ ہجوم اچھا خاصہ حدیقۃ الحیوانات ہوتا ہے جہاں معدوم (Extirent) حیوانات (مثلاً مبیتھ سیمرغ وغیرہ) سے لے کر سارس، ہدہد تک کے نمونے نظر آتے ہیں، بعض کی داڑھیاں خاکروب قسم کی ہوتی ہیں بعض کی ’’زمین دوز اور بعض کی بالکل ایسی کہ وقت ضرورت ان سے مزار پر سپیدی پھیرنے (White Wash) کا کام نہایت خوبی سے لیا جا سکتا ہے۔

    لباس میں نیم ساتی کمانی دار یا جامۂ رنگین محرابی تہمد اور شملہ بہ مقدار جہل والا عمامہ یہاں کے عام مناظر ہیں لیکن قابل ذکر وضع ایک تو اُس یہ اور نفرت ایک ہی مادہ کے لفظ ہیں۔

    جماعت کی ہے جو احرام بند کہلاتی ہے اور ایک ہی چادر میں (حسب توفیق و ولولہ ریشمی بھی ہوتی ہے) جسم کے بالائی وزیریں حصہ دونوں کو ملفوظ کر لیتی ہے اس جماعت کے نوجوان باعتبار زیبایش و آرایش اس انداز کے بھی دیکھے جاتے ہیں جو وجد کے وقت بقول عرفی۔

    چوں عروسانِ ہند درومِ رقص

    از خمِ گیسوش چکدروغن

    کا سماں پیش کرتے ہیں اور شہر کے اس حصہ میں جو چوک کے نام سے موسوم ہے اپنی کارگاہِ ولایت کو زیادہ کامیابی کے ساتھ قائم کر سکتے ہیں، دوسری قابلِ ذکر جماعت وہ ہے جسے سدا سہاگ کہتے ہیں، ان کے ہاتھوں میں چوڑیاں کان میں بالیاں، پاؤں میں گھونگھرو، سرپر دوپٹہ، آنکھ میں کاجل، ہونٹوں پر مستی، سینہ پر چولی، چوٹی میں موباف، سبھی کچھ نظر آتا ہے، گویا درویشی و تصرف کا یہ مزامیری عنصر ہے جو جنت سے نکلنے کے غصہ میں حوا کی بیٹیوں سے انتقام لینے کے لئے پیش کیا جا تا ہے، خدا کی یہ مخلوق جس کو نہ مرد کہہ سکتے ہیں نہ عورت (جو نہ خنثا مفرد ہی نہ خنثا مشکل) جس وقت مرغ زریں بنی ہوئی محفلِ سرود میں تال سم کے ساتھ گھونگھرو کی جھنکار پیدا کرتے ہوئے انتہائی جوش کے عالم میں رقص کرتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرد کی ساری جنس اس وقت بحرِ اوقیانوس میں ڈوب مرنے کے لئے بیتاب ہے۔

    قوالوں کی جماعت جو اکثر و بیشتر معمولی طبقہ کی پیداوار ہوتی ہے نہ بلحاظِ صورت قابلِ لحاظ ہوتی ہیں نہ باعتبار سیرت، جاہل ہونا اس کی اولین خصوصیت ہے اور انسان ہونا بالکل آخری، اس طائفہ کی ترتیب کم از کم تین افراد پر مشتمل ہے ایک ہارمونیم نواز یا ستار نواز جو سرخیل کی حیثیت رکھتا ہے دوسرا اس کا معاون جو اکثر کوئی نوجوان یا کمسن لڑکا ہوا کرتا ہے اور تیسرے وہ حضرت جو ڈھولک کے مالک ہوتے ہیں اور جن کی گردن کی جنبش چہرہ کے اعصاب کے تناؤ، چشم و ابرو کی متنوع الزوایا کشش ایک محقق کے لئے پوری لبوریٹری (Laboratory) کی حیثیت رکھتی ہے، سرخیل طائفہ اصولاً کسی رباعی سے ابتدا کرتا ہے جو جماعتِ صوفیہ میں بالکل حقانی ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ خسرو حافظ یا جامی کی کوئی غزل شروع کرتا ہے جس کے سمجھنے والے محفل میں زیادہ تر اس حیثیت کے ہوتے ہیں کہ جس وقت

    ما نمی خواسیم ننگ و نام را

    قوال کے منہ سے نکلتا ہے تو وہ تہمد اتار کر ننگے ہو جاتے ہیں اور دی و فردا کا فرق مٹا کر رقص میں مصروف اس سے اندازہ اس وجدانی کیفیت کا ہوسکتا ہے جو اشعار کے مفہوم سے متعلق ہوتی ہے ورنہ یوں ڈھولک، ستار اور تالیوں کی آواز سے جو ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اس کو دیکھتے ہوئے

    بہ آوازِ دو لاب مستی کنند

    پر کب اعتراض کی گنجائش ہو سکتی ہے۔

    صاحبِ سجادہ یا خانقاہ کا متولی جو اس وقت ساری محفل کا مالک الملک ہوتا ہے بہت کم وجد میں آتا ہے کیونکہ اہلِ کمال صوفیہ کے نزدیک بے تابی و بے اختیاری کا اظہار سلوک کی خامی کی دلیل ہے اور ایسے پختہ کاروں کے یہاں خامی کا کیا ذکر، اس میں شک نہیں کہ صاحبِ خانقاہ کی ذمہ داریاں بہت ہیں، مہمانوں کی ضیافت ہم مشرب لوگوں کی مدارات، قوالوں کی رخصتی، گاگر، چادر وغیرہ کی رسمیں یہ سب زر طلب باتیں ہیں اور نذر و نیاز وغیرہ سے جو کچھ ملتا ہے وہ سب اس میں صرف ہوتا ہے لیکن سب سے زیادہ قابلِ تعریف ایثار وہ ہے جو محفلِ سماع ہیں اس کی طرف سے ظاہر ہوتا ہے کہ چاروں طرف سے لوگ اٹھ اٹھ کر اس کے سامنے نذر پیش کرتے ہیں اور وہ چوتھا حصہ بھی حقِ سجادگی کا نہیں کاٹتا اور سب کا سب قولوں کو دے دیتا ہے، یہ جوشِ ولایت ! یہ زور تہمتنی ! معلوم نہیں ان حضرات کے دست بازو زخم چشم سے کیونکر محفوظ رہتے ہیں،

    یہ تھا ایک مجموعی و اجمالی بیان اس نوع کے محافل کا، اب جو مختلف خانقاہوں میں مختلف خصوصیات پائی جاتی ہیں وہ مستقل مقالات کے مقتضی ہیں، اس دوران میں اودھ کی ایک نہایت مشہور خانقاہ میں مجھے جانے کا اتفاق ہوا تھا اور ممکن ہے کہ کسی آئندہ اشاعت میں وہاں کے جزئی حالات سے بحث کروں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے