Sufinama

تذکرہ محبوب علی قوال

پیر نصیرالدین نصیرؔ

تذکرہ محبوب علی قوال

پیر نصیرالدین نصیرؔ

MORE BYپیر نصیرالدین نصیرؔ

    ذرہ نوازی اور حوصلہ افزائی دیکھیے کہ میرے جد امجد اور شیخ طریقت حضرت بابو جی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اکثر و بیشتر میری فارسی اور اردو غزلوں کو پسند فرماتے اور درگاہ کے دیرینہ قوال استاد محبوب علی اور مشتاق علی سے سنا کرتے تھے، ایک مرتبہ تو میرا یہ شعر بہت ہی پسند فرمایا۔

    وہ ہمارے ہم ان کے ہو جائیں

    بات اتنی ہے اور کچھ بھی نہیں

    محبوب علی اپنے فن میں منفرد مقام رکھتے ہیں، مشتاق علی ان کا چھوٹا بھائی ہے، یہ اور ان کے اعزہ و اقارب کوئی پون صدی سے درگاہ گولڑہ شریف سے وابستہ ہیں، آبائی طور پر کیرالہ راجپوت خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے گھرانے میں رسم قوالی ان کے دادا سے شروع ہوئی، جالندھر میں ان کے دادا میاں تابہ مرحوم کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے پھر امرتسر میں آکر آباد ہوئے، چوں کہ شیخ الاسلام حضرت شیخ فریدالدین مسعود گنج شکر نے راجپوت قوم کو صحیح راستہ دکھلایا، اس لیے آستانۂ عالیہ پاکپتن شریف سے اس خاندان کی عقیدت قدرتی بات تھی، اس دور کے سجادہ نشیں حضرت دیوان سید محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ایما پاکر ان کے دادا نے حرفت کا پیشہ چھوڑا اور قوالی کا فن سیکھ لیا، حضرت دیوان صاحب نے از راہِ عنایت ان کے دادا کو درگاہ کی اعزازی دستار سے بھی نوازا اور یہ اعزاز آج تک ان کے پاس ہے، ملک کے نامور قوال محمد علی فریدی مرحوم اور رشید احمد فریدی قوال سے بھی ان کا رشتہ قرابت ہے، محبوب علی مشتاق علی عنفوان شباب سے لے کر آج تک گولڑہ شریف میں سکونت پذیر ہیں، ان کی اور ان کے آبا و اجداد اور ان کے اکثر اہل خاندان کی نسبت حضرت پیر مہر علی شاہ قدس سرہ اور حضرت بابو جی سے ہے، دونوں بھائیوں کو اللہ کریم نے ہر قسم کی آسائش کے علاوہ اولاد نرینہ سے بھی نوازا ہے، محبوب علی کے بڑے فرزند کا نام مرغوب علی اور مشتاق علی کے بڑے فرزند کا نام اشتیاق علی ہے، راقم الحروف اور اشتیاق علی بچپن میں ایک ساتھ کھیلے ہیں، اس لحاظ سے میں اسے اپنا دوست بھی کہہ سکتا ہوں، خدا کرے کہ دور حاضر کی سرد مہری اور تقلبات احوال ہماری اس دیرینہ آشنائی پر اثر انداز نہ ہونے پائیں، آشنائی کی بنا پر حضرت بیدل کا یہ قرین حقیقت شعر ملاحظہ ہو۔

    بہ دل گفتم کدا میں شیوہ دشوار است در عالم

    نفس در خوں تپید و گفت پاس آشنائی ہا

    محبوب علی اور مشتاق علی سالہا سال حضرت بابو جی کی معیت میں حرمین شریفین اور دوسرے ممالک کے دیگر مقامات مقدسہ کی زیارت سے شرف اندوز ہوتے رہے، محبوب علی نے ذوق سخن کی تربیت حضرت بابو جی سے حاصل کی، انہیں عارفین امت کا عربی، فارسی، اردو، ہندی اور پنجابی کلام کافی حد تک یاد ہے، چوں کہ حضرت بابو جی کو عارفِ رومی کی ذات اقدس اور آپ کی شہرۂ آفاق مثنوی شریف سے والہانہ عشق تھا، اس لیے محبوب علی کو بہ طور خاص مثنوی معنوی کے بے شمار اشعار کرنا پڑے، حضرت بابو جی کے التفاتِ خصوصی اور باطنی توجہ کے طفیل تلفظ کی صحت اور برجستہ و مناسب موقع گرہ بندی کا جو شعور قدرت نے محبوب علی کو عطا فرمایا اس کی مثال بہت کم دیکھنے میں آئی ہے، قوالی کے مروجہ اسلوب سے ان کا رنگ بالکل مختلف اور جدا گانہ ہے، اگرچہ پیرانہ سالی سے پیدا ہونے والی نقاہت اور دیگر عوارض کے باعث ان میں اب عالمِ شباب کا وہ دم خم نہیں رہا تا ہم ان کی درد مندی اور ان کے مخلصانہ و استادانہ عرض ہنر نے ہر بیدار ضمیر اور ہر با ذوق صاحب شعور حاضر محفل سے خراجِ تحسین حاصل کیا ہے۔

    جب اعراس کے موقع پر استاد محبوب علی اپنے مخصوص انداز میں اپنا ستار چھیڑتے ہیں اور مختلف النوع آلات سماع کو ایک سر پر مرکوز کرنے میں مشغول و منہمک ہوتے ہیں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ میرے دروازۂ ذہن پر حافظ شیرازی کا یہ شعر دستک دے رہا ہے۔

    ساقی! بہ نورِ بادہ بر افروز جامِ ما

    مطربِ بگو کہ کارِ جہاں شد بہ کامِ ما

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے