وحدت الوجود اور مارکسزم
تصوف کی بنیاد وحدت الوجود پر ہے، قرون وسطیٰ کے مشائخ کی طرح ہمیں اس کے بیان کرنے اور سمجھانے میں تامل نہ کرنا چاہیے بلکہ مذہب و ملت کی تفریق کے بغیر ضرورت اس کی ہے کہ اس کے بنیادی تصورات کو اسکولوں کی کتابوں میں بیان کیا جائے، مسلمانوں کے لیے اس نظریے کی مذہبی اساس قرآن کا یہ ارشاد ہے۔
ھُوَ الاوّلُ والاٰخِرُ والظَّاھِرُ والبَاطِنُ وَھُوَ بِکُلِّ شَیٍ علیم۔
لیکن یہاں ہم وحدت الوجود کو صرف اسلامی تصوف کے ایک نظریے کی حیثیت ہی سے دیکھنا نہیں چاہتے بلکہ اس کی عالمگیر حیثیت کا تجزیہ کرنا چاہتے ہیں، وہ حیثیت جس نے اس کو پوری انسانیت کے لیے ایک اہم تغزیۂ حیات بنا دیا ہے۔
کسی ضابطہ یا اصول کو سمجھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کا مقابلہ اس کے متضاد نظریہ سے کیا جائے، اس ضمن میں میں برکلے کے نظریۂ مطمحیت (IDEAl15m) کا ذکر نا مناسب نہیں سمجھتا، اس نظریے نے برکلے کو عیسائی اعزاز بخشا لیکن مطمحیت کو میں یورپ کی ایک مقامی غلطی تصور کرتا ہوں، موضوعِ بحث کے اعتبار سے میں لینن کا ذکر کرنا زیادہ موزوں خیال کرتا ہوں۔
لینن یورپ کے فلسفہ اور سائنس کی دنیا کا پورا جائزہ لینے کے بعد بالآخر مارکس کی جدلیاتی مادیت سے متفق ہوگیا، مادہ کا ذکر کرنا اب لا حاصل ہے، مادہ تو ختم ہوچکا۔
بالفاظ دیگر سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ مادہ محض ایک ہیت ہے جسے کوئی بھی شئے (سہولت کے لیے اسے ہم قوت کہہ سکتے ہیں) اپنے اظہار کے لیے اختیار کر سکتی ہے، بہر کیف! انسان اور خارجی مظاہر کی دو گونہ حیثیت برقرار رہتی ہے، برکلے کی غلطی کو نظر میں رکھ کر لینین انسان کی روزانہ کے حقائق کی طرف واپس بلاتا ہے، وجود میرا بھی ہے اور اس کائنات کا بھی جو میرے گرد و پیش ہے لیکن اولیت اور برتری مجھے حاصل نہیں ہے میرے گرد و پیش کو ہے، اشیا کی حقیقت ان کے مظاہر سے بالکل مخلقت ہے لیکن میرے مشاہدہ اور خارجی دنیا میں مطابقت کا ہونا اس ہی قدر ناگزیر ہے، میرا تجربہ اور عمل بھی مجھے اس ہم آہنگی کا پتہ دیتے ہیں کیوں کہ خارجی دنیا کو تبدیل کرنے پر مجھے قدرت کامل ہے۔
وحدت الوجود کے مسئلے میں اس غلطی کی تکرار ہرگز نہیں ہے جو برکلے سے سرزد ہوئی، وحدت الوجود خارجی دنیا کا منکر نہیں ہے اس کا اعتراف کرتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ کائنات کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ اس کے بغیر تو یہ نظر یہ بھی ہے معنی ہو جاتا ہے، وحدت الوجود تو ایک حد تک جدلیاتی مادیت سے بھی فوق لیے ہوئے ہے اس کا کہنا ہے کہ موجودات کی اصل ایک ہے، سائنس یا تجربات کی رو سے قوت (ENERGY) کو شعور میں اور شعور کو قوت میں اس طرح تبدیل کر دنیا جیسے حرارت کو بجلی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ممکن نہیں، بایں ہمہ جدلیات کی اصطلاح ہی میں انسان اور خارجی شواہد میں وحدت کا موجود ہونا مضمر ہے، آدمی کے افکار سے خارجی دنیا کی ہم آہنگی بھی اس کا ثبوت ہے لینن اور اینگلو بھی اس پر زور دیتے ہیں کہ دونوں کے تطابق کو ایک امر مسلم کے طور پر تسلیم کر لیا جائے، ’’چنا نچہ وحدت الوجود کا مسئلہ جدلیاتی مادیت کے منافی نہیں ہے بلکہ اس کا ایک منطقی نتیجہ ہے
وحدت الوجود ایک ایسے شعور اعلیٰ کا تصور پیش کرتا ہے جس کے دو مظاہر انسان اور خارجی دنیا ہیں، انسان کی اخلاقی زندگی اس میں شعور اعلیٰ سے ماخوذ ہے فرض کر لیجیے کہ یہ شعور موجود نہ ہوتا تو دنیا ایک ہیولیٰ کی شکل میں ہوتی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تمام بے ترتیبوں کے باوجود دنیا منظم اور آراستہ شکل میں موجود ہے اور انسان اس کی اصلاح پر قادر بھی ہے یہ سب اس ہی شعور اعلی کی وجہ سے ہے جو انسان کی قدرت کو طاقت بخش کر اس سے بناتا ہے کہ وہ ہر چیز کو متغیر کر سکے اور اسے ترتیب دے دے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.