’’علم الکتاب‘‘ تصوف کے باب میں اجتہاد کا استعارہ نو
خواجہ میر دردؔ اردو زبان و ادب کے ان اہل علم اور با ذوق گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے شعر و سخن میں محض ادبی رجحان سازی نہیں کی بلکہ شعر گوئی میں متصوفانہ نہج کے مضامین نہایت خلاقانہ اسلوب میں بیان کیے ہیں، ان کی شہرت تصوف کے ان رموز و اوقاف کی گرہ کشائی کے حوالے سے ہے جس کا آغاز خود ان کے ہی معاصر شعرا نے کر دیا تھا جن میں سعداللہ گلشنؔ، ولیؔ دکنی اور مرزا مظہرؔ جان جاناں کا نام سرفہرست ہے، دردؔ کی شاعری کا اکثر حصہ تصوف و عرفان کے رازہائے سربستہ سے سرشار ہے، اردو زبان کے کسی بھی شاعر کے یہاں اس قدر کثرت سے واردات تصوف نظر نہیں آتے، وہ اردو زبان و ادب میں متصوفانہ مباحث اور عرفانی خیالات کے بے تاج بادشاہ ہیں لیکن ان کی ذات کو صرف زبان و ادب تک محدود رکھنا نہ صرف ان کی شخصیت کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ ان کے رتبے کو گھٹانے کے مترادف ہے، تصوف کی شاہراہ میں درد نے جو نغمہ سرائی کی ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی اگرچہ بعض شعرا نے ان کے ساتھ ہمنوائی اور ہم سری کی کوشش کی ہے مگر متصوفانہ عناصر کے رچاو میں جو چابکدستی درد کے یہاں نظر آتی ہے وہ دوسروں کے یہاں دیکھنے کو نہیں ملتی۔
دردؔ کا صحیح مطالعہ فقط ان کی اردو شاعری سے ممکن نہیں اس لیے کہ ان کی اردو شاعری گویا ان کی تفکیرات و تصویرات کی ایک قاش ہیں جو ہمیں فقط ان کی فکری پرواز کی ایک جھلک دکھا کر برانگیختہ کر کے شدت تشنگی کا احساس دلا کر یک لخت غائب ہو جاتی ہے۔ہاں اگر ہم ان کی دیگر فارسی تصنیفات و تالیفات کا جائزہ لیں اور ان کی فارسی شاعری کا مکمل مطالعہ کریں تو ہمیں ان کی فکری پرواز کی بلندی اور پختہ خیالی کا اندازہ بخوبی لگ سکتا ہے، درد کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے نہ ان کی شاعری کافی ہے اور نہ ہی ان کی نثر نگاری بلکہ ان کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کے نثری شہ پاروں کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے کیوں کہ درد نے اپنی زندگی کے رموز و اسرار جہاں اپنی شاعری میں بیان کئے ہیں وہیں اپنی زندگی کی کتاب کے نمک پارے ان کی نثری تصانیف میں جا بجا بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں اور ان کی ذہنی و معنوی فکری پرواز، گیرائی اور گہرائی، عظمت و بلندی، وجدان و عرفان، تصوف و معرفت، پرہیزگاری و للہیت، فنا و بقا، ذکر و فکر، مراقبہ و مشاہدہ، ورع و تقوی، وجد و سماع، سکر و مستی وغیرہ کا اگر جائزہ لینا ہو تو ان کی نثر و نظم، قطعہ و رباعی، دیوان اردو و فارسی، نثری رسائل اور بطور خاص ان کی مایہ ناز تصنیف علم الکتاب کا مطالعہ لازم قرار پاتا ہے جس میں درد کی معنوی شخصیت پوشیدہ و مضمر ہے وہ خود رقمطراز ہیں کہ
’’باری این مختصر ات یعنی نالہ درد و واردات دو شہپر پرواز علم الکتاب ست و علم الکتاب پا انداز نالہ عندلیب کہ تصنیف حضرت والا ست۔۔۔۔ پس علم الکتاب را ازین دو رسالہ در عالم بالا کشائی ست و بذروہ علیای نالہ عندلیب از رتبہ علم الکتاب رسائی کہ اندک دلالت بر بسیار می کند و قطرہ خبر از دریا می دہد‘‘ (نالۂ درد، ص۳)
یوں تو وہ اپنی ابتدائی زندگی سے ہی زبان و بیان کی چاشنی سے روشناس تھے جیسا کہ ان کے رسالہ اسرارالصلوۃ سے ظاہر ہے مگر ان کی فکری گیرائی اور تعمق ان کے آخری عمر میں لکھے گیے رسائل نالہ درد،آہ سرد، درد دل و شمع محفل میں نظرآتاہے جن میں ان کی فکر کی پختگی، بالغ نظری، تجربہ کاری اور مہارت و مشاقی بہت ہی صاف طور پر دیکھنے کو ملتی ہے، اس مقالہ میں نہ ہم ان کے ابتدائی ایام کی پختہ و خام تفکیرات کی آمیزش کی مساعی جمیلہ پر سخن بیانی کرینگے اور نہ ہی ان کے ایام آخری کے خالص پختہ خیالات کو بیان کریں گے بلکہ ہم ان کے ان ایام میں لکھے گئے صفحات پر بحث و مباحثہ کرینگے جو انہوں نے اپنی عمر کے اس پڑاو پر تحریر کئے جب انسان ذہنی و جسمانی اعتبار سے نہایت ہی مضبوط و قوی ہوتا ہے اور اضمحلال اعصاب و اختلال ذہن کا شائبہ بھی نہیں ہوتا۔
علم الکتاب میر درد کی ایسی تصنیف ہے جس میں ان کی ذہنی پختگی اور بالغ نظری کی واضح علامات دیکھنے کو ملتی ہیں. یوں تو یہ کتاب کوئی مستقل تصنیف کے ارادہ سے نہیں ترتیب دی گئی بلکہ اس کا مقصد ان رباعیات کی شرح لکھنا تھاجو خود ان کی ہی موزوں طبیعت کی پروردہ تھیں، جنہیں انہوں نے اپنے برادر حقیقی خواجہ میر اثر کے اصرار و تشویق پر شرح و تفسیرکے ساتھ بیان کیا۔ تاہم اس کتاب کو خواجہ ناصر عندلیبؔ کی بھی تائید و تقریظ حاصل ہے، خود میر درد کے بیان کے مطابق اس کتاب کو والد ماجد کے حضور سنایا گیا تو انہوں نے بیحد خوشی کا اظہار فرمایانیز بہت سے تعریفی کلمات اور دعاوں سے نوازا جس پر میر درد کو بہت فخر تھا اور وہ اسے اپنے لئے خوش نصیبی کی دلیل اور اپنی کتاب کے لیے نیک فال تصور کرتے تھے، انہوں نے اپنی اس کتاب میں رباعیات کی تشریح و توضیح فرمائی ہے اور اس کے ضمن میں تصوف و عرفان کے وہ دریا بہائے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر عقل ششدراور فکر متحیر نظر آتی ہے، عرفان ذات الہی اور معرفت خدا وندی کے ان مباحث کو رباعیات کی شرح کے ضمن میں بیان کیا ہے اور وہ شرح سے دور ایک مستقل تصنیف کی حیثیت کے طور پرظاہر ہوتی ہے، رباعیات کا درجہ ان مباحث کے ضمن میں اتفاقی معلوم پڑنے لگتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے گویا بیان مطالب کے دوران ان رباعیات کو بطور تمثیل ذکر کیا گیا ہے۔
حقیقت حال و کیفیت ایں مقال الٰہی بتوسط ہدایت حضرت خیرالبشر علیہ السلام تو شروع کنایندہ تحریر این کلام در بیان حقائقی کہ مفید ہر انسان ست و کلید قفل توحید و عرفان و شامل شریعت و طریقت و حاصل معرفت و حقیقت و جامع علم و عمل و دافع رد و بدل و حق و مطابق واقع و حجتہ بالغہ و برہان قاطع و کاشف جمیع اسرار و متضمن تبلیغ و اظہار و مشتمل جامعیتہ و نتیجہ قرب و معیت و ان فی ذلک لآیات لقوم یتفکرون و ہم در بیان خصائصی کہ مخصوص بخالص محمدیان ست و باعث تقویتہ ایمان و اخلاص ایشان و دافع شکوک و نافع سلوک و موجب نجات و فلاح و مثمر برکات و صلاح و مہذب اوصاف و اخلاق و مصحح احوال و اذواق و مزین اعمال و افعال و مبین اذکار و اشغال (علم الکتاب، ص ۴)
علم الکتاب اٹھارہویں صدی عیسوی میں لکھی گئی عام کتب سے جداگانہ اور اپنی جدت بیان و ندرت مضامین کے سبب تمام معاصر کتب پر فوقیت رکھتی ہے۔یہ میر درد کی محنت و کاوش کا وہ ثمرہ ہے جسے انہوں نے نہایت ہی عرق ریزی و جاں فشانی سے انجام دیا ہے، یہ تصنیف اپنے عہد کی ان تصانیف میں شامل ہے جو تصوف و عرفان کے باب میں نہایت ہی اہم اضافہ کی حیثیت رکھتی ہے کیوں کہ اٹھارہویں صدی عیسوی تصوف و عرفان کے لحاظ سے مادیت پرستی کی روز افزوں ابداعات و بدعات کی آمد کی شروعات اور تصوف و عرفان کے عہد شباب کے خاتمے کا آغاز ہے، اس اعتبار سے یہ کتاب تصوف کے باب میں ان اہم کتابوں میں سے ایک ہے جو اپنی نظیر نہیں رکھتی ہے۔اس کتاب کے مطالب و مضامین اسلامی اقدار و روایات کی پاسدار اور غیر اسلامی روایات کی نشان دہی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہ کتاب خالص اسلامی معاملات کو ان ملاوٹوں سے پاک کرتی ہے جو مرور زمانہ کی وجہ سے اسلامی لبادہ اوڑھے بظاہر اسلامی نظر آنے والی روایات کو ان کی اصلی ہیئت میں متشکل کرکے ان کی اصل صورت و شباہت کی نشان دہی کرتی ہے یہی وجہ ہیکہ کتاب اپنے مطالب کو بیان کرتے وقت باوجود سادگی بیان و سادہ نویسی کی کوشش کے اس روایت کو برقرار رکھنے میں قاصر ہے، یہ کتاب اپنے مطالب کے بیان کرنے میں اس وقت اور بھی قاصر نظر آتی ہے جب عقائد اور فلسفیانہ مضامین کا ذکر ہوتا ہے، وہاں پر درد کی سادہ نویسی مغلق، گنجلک، ثقیل و مشکل ہو جاتی ہے اور عربی و فلسفیانہ اصطلاحات کے کثرت استعمال کی وجہ سے بعض مقامات پر اگر معنی کی پاسداری کی جاتی ہے تو عبارت مغلق ہو جاتی ہے اور اگر الفاظ کا خیال رکھا جاتا ہے تومعنی مغلق ہو جاتے ہیں، تاہم اگر عربی کی مداخلت اور صنعت اقتباس کو نظر انداز کر دیا جائے تودرد کی عبارت کو سادہ نویسی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
علم الکتاب کا موضوع متصوفانہ عناصرکا بیان ہے جسے میر درد علم الہی سے تعبیر کرتے ہیں اور ان کا یہ دعوی ہیکہ وہ اس کتاب میں انہیں مطالب کو جگہ دیتے ہیں جو شریعت مطہرہ کے عین مطابق ہوں اور جو خرافات و مزخرفات بعد زمانہ کی وجہ سے دین و آئین اسلام میں جگہ پا چکی تھیں ان کو نقد و انتقاد کے ذریعہ بے وقعت گردانتے ہیں اوران پر بحث و مباحثہ نیزجرح و تعدیل کرتے ہوئے ایک نئے زاویہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔اس طرح انہوں نے مشکل مسائل اور فلسفیانہ دقائق کو آسان کر دیا ہے، بطور خاص تصوف و عرفان کی ان فرسودہ روایات کو جو عوام کے درمیان غلط طریقے سے رائج ہو گئی تھیں اوراس دور میں انہیں تصوف کے ارکان و اساس شمار کیا جانے لگا تھا،، دردؔ نے ان کی خوبیوں اور خرابیوں دونوں کو ظاہر کر کے ان کی اصل صورت کو آئینے کی مانند صاف کیا ہے نیز عقائد اسلام میں جن فلسفیانہ عناصر کا دخول ہو گیا تھاان کو چھان بین کر کے عقائد کے ان نقائص کی نشان دہی کی ہے جوکسی بھی اعتبار سے غیریت و ثانویت کا شائبہ بھی رکھتے ہیں، وہ اثبات مطالب کے دوران مختلف گروہوں و فرقوں کے نظریات و معتقدات کا بھی ذکر کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ ہی اپنی تائید و اختلاف کو بھی بیان کر تے ہیں اور آخر میں اپنے مؤقف کو واضح کر دیتے ہیں اور اگر وہ طریقہ محمدیہ میں اس کو کسی اور تعبیر سے متعارف کراتے ہیں تو اس کی بھی توضیح کر دیتے ہیں، غرض کہ ان کی یہ کتاب بہت سے مسائل میں جدت و ندرت کی آپ اپنی مثال ہے، جہاں پر تصوف کی موشگافیاں اور شریعت کی صاف گوئیاں ایک ساتھ مجتمع نظر آتی ہیں اور اگر دقیق نظر سے دیکھاجائے تو ان کی کوشش عرفان و اسلام کی یکجہتی اور ان میں وحدت و موافقت کی ایک اعلی مثال ہے جس کا مقصد ان لوگوں کو جواب دینا بھی ہے جو شریعت و طریقت کو الگ الگ تصور کرتے ہیں اور تصوف و عرفان کو بدعت اور ادیان جہان کی آمیزش سے تیار شدہ معجون تصور کرتے ہیں، اس کے ساتھ ہی میر درد نے اس بات کا بھی التزام کیا ہے کہ جو لوگ تصوف کو عین اسلام قرار دیکر اس کی جملہ بدعات و اختراعات کو اسلامی روایت سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو بھی منہ توڑ جواب دیا جا سکے، اس سلسلے میں درد کا خیال یہ ہے کہ اگر تصوف شریعت کے موافق اور شانہ بہ شانہ ہے تواسلام کا جز ہے اور اگر تصوف اپنے اندر روایات و رسومات، خرافات و مزخرفات کے ساتھ ساتھ اسلام کی بھی حمایت چاہتا ہے تو یہ کسی طرح ممکن نہیں بلکہ بعید از قیاس ہے، وہ کتاب کے موضوع سے متعلق فرماتے ہیں کہ
’’پس موضوع ایں کتاب حضرت رب الارباب ست تعالی شانہ و جل برہانہ و عوارض ذاتیہ او تعالی صفات و کمالات و شیونات و اعتبارات و حیثیات و اضافات او ست کہ درینجا مبحوث و مذکور ست۔۔۔۔۔ درین علم الکتاب کدام امر ست کہ مذکور نیست و یا چہ چیز ست کہ مسطور نہ۔۔۔۔و از بیان ہر مطلب مقصود رسانیدن بقرب حق تعالی ست و کشف حقیقت راہ مولی و فی الواقع موضوع این علم اوست و بس و ہیچ شی غیر او منظور نیست‘‘ (علم الکتاب، ص ۴۔۵)
انہوں نے اپنی کتاب کے موضوع سے متعلق بہت ہی صاف طور پر وضاحت فرما دی ہے تاکہ لوگ اس دھوکے میں نہ رہیں کہ یہ علم الہی آخر کس بلا کا نام ہے الئے انہوں نے مزید وضاحت فرماتے ہوئے اس کتاب کے موضوع کی اور بھی وضاحت فرمائی ہے۔اسی لئے انہوں نے اسلام کے دو بہت ہی معروف و مشہور نظریات کی تردید کر کے اپنا ایک الگ موقف قائم کیا ہے جسے وجودی کہا جا سکتا ہے اور وہ اس کتاب کے موقف کو اور بھی واضح انداز میں بیان کرتے ہیں۔
’’ایں علم الکتاب ہمہ بیان الہی ست کہ فوق جمیع علوم ست و این علم مسمی بعلم الالہی المحمدی گردیدہ لیکن این علم الہی نہ آن علم الہی ست کہ مصطلح حکما ست بلکہ درین مقام وحدت الہیہ با کسوت محمدیہ جمع گردیدہ و قامت فردیت خلعت جامعیت پوشیدہ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ۔۔۔پس امتیاز علم الہی محمدی از علم این حکما بسبب شمول و جامعیتہ اوست زیراکہ آن علم الہی حکما مقید در قید یک قسم مجردات ست و این علم حق محیط ہمہ موجودات۔۔۔و ہم این علم نہ آن علم اصطلاحی صوفیہ است کہ آن را تصوف می خوانند زیراکہ این زمان آنچہ جاہلان معنی تصوف معروف و مشہور نمودہ اند و ترہات و مہملہ بیمعنی دران افزودہ اند محض الحاد ست‘‘ (علم الکتاب، ص ۶)
خواجہ میر دردؔ نے متصوفین کی عام جماعت سے ہٹ کراپنے ایک الگ موقف کا انتخاب و اظہار کیا ہے کیوں کہ درد کے عہد تک اگر ہم بنظر غائر دیکھیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ متصوفین موٹے طور پردو عالمی و شہرہ آفاق نظریات میں بنٹے ہوئے نظر آتے ہیں اور انہیں دو نظریات کے مدار پر کاروبار تصوف کا کارواں رواں دواں نظر آتاہے، پہلا گروہ طرفداران وحدت الوجود کا ہے جن کے سرخیل و پیشروشیخ محئی الدین ابن العربی ہیں جسے مختصر الفاظ میں ہمہ اوست سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جس نے پورے عالم اسلام کوایک منظم و منضبط تفکیرات کے ذریعہ اپنے نظریات کی پرکشش و خیرہ کن روشنی سے اس قدر متاثر کر دیا کہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی کسی کے لئے اس کے خلاف لب کشائی کی گنجائش نہیں چھوڑی اور تقریبا پانچ سو سال سے زیادہ تک عالم اسلام کے زیادہ تر متصوفین صرف اسی نظریہ کے ارد گردگھومتے رہے اور وحدت وجود کا علم اٹھائے ہوئے نظر آتے ہیں مگر اس عرصے میں اکثر متصوفین نے اس فکر کو اس زور و شور کے ساتھ آگے بڑھایا ہیکہ بہت سی الحاقی و خود ساختہ باتیں اور اعتراضات اس پر عائد ہوگیے اور کچھ ظاہربیں متصوفین نے اس نظریہ کی آڑ میں اپنے غیر اسلامی تفکرات کو بھی اس فلسفہ کا حصہ بنا کر پیش کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عہد اکبری تک پہنچتے پہنچتے عالم اسلام میں کچھ ایسی تحریکات مورد وجود میں آ گئیں کہ اس فلسفہ کی حمایت و پشت پناہی سے انہوں نے اپنے نظریات کو بھی اس فلسفے سے جوڑ دیاجس کا نتیجہ یہ ہواکہ غیر اخلاقی و غیر اسلامی اقدارکو بھی اس کا حصہ تصور کیا جانے لگا انہیں وجوہات کے پیش نظر یہ ناگزیر ہو گیا کہ اس فلسفہ کی خامیوں و خرابیوں اور اس کی کمزور کڑیوں کو واضح کیا جائے تاکہ اس نظرئے کی ان خود ساختہ روایات کو اس سے پاک کیا جاسکے جو اسے شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کی شخصیت نے جب اپنی تجدیدی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو ان کو ابتدائی ایام میں ہی اس کے نقائص کا اندازہ ہو گیا تھا اور انہوں نے اس کی ان کمزور کڑیوں کو جس سے ہر فریق خود کو ان نظریات کا متحمل قرار دیکر من مانی کرتا ہوا نظر آتا تھا بھانپ لیا اور اس کے مقابل ایک دوسرا نظریہ پیش کیا جو وحدت شہود کے نام سے جانا گیا اور ہمہ اوست کے بجائے ہمہ از اوست سے تعبیر کیا گیااورآخر کاردنیا ئے تصوف و عرفان ان دو نظریات کے بار کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر پھرنے لگی، اگرچہ مجدد الف ثانی نے وحدت وجود کو یکسر مسترد نہیں کیا بلکہ انہوں نے اس نظریے کو راہ تصوف و عرفان کی ابتدائی منزل قرار دیا۔ ان کے خیال کے مطابق اگر سالک وحدت وجود کی منزل پر پہونچ کر خود کو عروج کی آخری منزل تصور کرتا ہے تو وہ خسران مراتب کا حقدار ہے وہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ وحدت وجود بھی عرفانیات کی منازل میں سے ایک منزل ہے مگر یہ ابتدائی منازل میں سے ایک منزل ہے اس راہ کی اور بھی منازل ہیں ان میں سے ایک منزل وحدت شہود کی بھی منزل ہے جو یقینی طور پر وحدت وجود سے اعلی و ارفع ہے اور یہ وحدت الوجود کی منزل کے بعد حاصل ہوتی ہے۔خواجہ میر درد کے نزدیک یہ دونوں ہی فلسفہ و نظریات مقصود اسلام نہیں بلکہ کشف و جذب کی حالت زار کا نتیجہ ہیں اور حقیقت حال سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہے بلکہ جذبہ شوق و مستی اور کشف و مراقبہ کی حالت بے حالی کا نتیجہ ہیں جو فلسفہ و کلام کی مدد سے اسلامی تفیکرات کا حصہ بن گئی ہیں۔اسی لئے میر درد خود کو اور طریقہ محمدیہ کے متبعین کوان بے نتیجہ مباحث سے دور رکھا ہے اور ان دونوں نظریات کو تعلیمات اسلام کے منافی تصور کرتے ہیں اور کسی ایک نظریہ سے پابندی کے ساتھ منسلک ہونے کو عیب تصور کرتے ہیں ان کا ماننا ہے کہ عقیدہ وہی صحیح ہے جو قرآن و حدیث کی تعلیمات کے عین مطابق اور موافق ہو کہ
’’تصوف دانی عبارت از دانستن چند مصطلحات ست کہ مانند صرف و نحو و دیگر علوم کسبیہ از دیدن کتب و رسائل آن علم حاصل میشود و حکمتی کہ نصیب فلاسفہ است بیان چند حدود اعتباریہ و قیود اضافیہ اشیا ست کہ متعلق بعلم بشری ست. و حدت وجود تقریر بی ادبانہ و بیان مستانہ است کہ در ابتداے احوال ناقص علمان و مغلوب حالان را رو میدہد و باعث ضرر بسیاری از عوام کالانام ست و وحدت شہود حالت کثرت شوق و غلبہ جزبہ است بلا درک حقیقت و مفید اکثری از سالکین میباشد و علم الہی محمدی عبارت است از تبیان مرادات کلام اللہ و احادیث رسالت پناہ بقوت نور ایمان و اقامت برہان مع شواہد کشف و عرفان کہ مفید سائر انام از خواص و عوام است‘‘ (علم الکتاب، ص ۷)
خواجہ میر دردؔ نے اس پوری کتاب میں طریقہ محمدیہ کے بہت سے اصول و مبانی بیان کئے ہیں۔طریقہ محمدیہ جو کہ نقشبندیہ احراریہ مجددیہ سے نکلی ہوئی ایک شاخ و قاش ہے جس کے موسس و موجد خواجہ ناصر عندلیب رسالہ ہوش افزا و رسالہ نالہ عندلیب کے مولف ہیں جو کہ میر درد کے والدو پیر،اور شیخ عبد الاحد ملقب بہ وحدت مجدد الف ثانی کے پوتے ناصر عندلیب کے پیر و مرشد ہیں، ناصر عندلیب اول سپاہی پیشہ انسان تھے مگر جلد ہی انہوں نے اس پیشہ کو خیرآباد کہہ کراس دنیا ئے ناپائدار کی تمام آلائش سے دور ہوکر سلک و سلوک، تقوی و طہارت، عبادت و ریاضت اور زہد و ورع سے خود کو آراستہ و پیراستہ کر کے عبادت خدا میں منہمک ہو گئے۔ میر درد نے علم الکتاب میں بیان کیا ہیکہ جب وہ آٹھ سال کے تھے تو ان کے والد ناصر عندلیب نے ایک بار خود کو حجرہ میں بند کر لیا اور خلوت نشینی اختیار کر لی جو ان کے لئے کسی قیامت سے کم نہ تھی، وہ ان دنوں کی کرب و جدائی کا منظر نہایت ہی مؤثر انداز میں بیان کرتے ہیں۔وہ بیان کرتے ہیں کہ والد بزرگوار مسلسل سات دن رات خود کو حجرے میں بند کر لیا اور والد سے انسیت کی بنا پر ان دنوں درد کی حالت نہایت ہی بے حال ہے اور انہوں نے ان ایام میں رو رو کر اپنا حال خراب کر لیااور اپنا بوریا و بسترکے بغیر ہی حجرے کی دہلیز پر گویا معتکف ہوگیے اور باوجود ماں کے اصرار کے گھر نہیں جاتے کھانے پینے کا ہوش نہیں، ماں کی جھڑکیوں اور مسلسل ڈانٹ ڈپٹ پر بے رغبتی سے چند نوالے کھاتے، رات میں والدہ نے نگرانی کے لیے خدام کی ڈیوٹی متعین کر دی تاکہ وہ ڈریں نہیں، بیان کرتے ہیں آٹھویں دن جب حجرے کا دروازہ کھلا اور والد صاحب باہر تشریف لائے تو مجھ بیچارے کو دہلیز کے باہر چوکھٹ کے قریب سسکیاں مار مار کر سویا ہوا پایا فورا مضطرب ہوکر اٹھا یا اور اندر لے گیے اور ان تمام ایام کی روداد سنائی جسے انہوں نے کتاب میں کچھ اس طرح بیان کی ہے کہ
’’جناب ہدایت مآب حضرت امیر المحمدیین خواجہ محمد ناصر محمدی در ایام ظہور ین معاملہ تا ہفت روز شبانہ روز ساکت ماندند ہرگز متوجہ باین عالم ناسوت نشدندو از مقتضیات بشریہ کہ خوردن و نوشیدن وغیرہما باشد ہیچ بعمل نیاوردند و تنہا در حجرہ خاص کہ معین بود تشریف داشتند‘‘ (علم الکتاب، ص ۸۵)
علم الکتاب کے مطابق وہ ان سات دنوں تک حضرت حسن علیہ السلام کی خدمت سے فیضیاب ہوتے رہے جنہوں نے ان کو ایک مخصوص طریقے کی تعلیم دی اور ان کی برکت و تعلیمات سے ان کا دل انوار سے منور ہوا۔جب تعلیمات سے فراغت حاصل کی تو ناصر عندلیب نے اس بات کی اجازت چاہی کہ ان دنوں جس طریقے کی تعلیم انہیں دی گئی ہے اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ اس طریقے کا نام طریقہ حسنی رکھیں تاکہ تعلیمی مناسبت بھی حاصل ہو جائے مگر حضرت حسن علیہ السلام نے منع فرما یا کہ ہم سب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار اور ان کی لائی ہوئی شریعت کے خوشہ چین ہیں، ہمارا اوڑھنا بچھونا سب کچھ رسول اللہ کی اطاعت و فرماں برداری پر موقوف ہے اس لیے اگر نام رکھنا ہی ہے تو اسی ذات بابرکت کے نام پر نام رکھو تاکہ نسبت تامہ حاصل ہو جائے، اسی لیے اس طریقہ کا نام طریقہ محمدیہ رکھا گیا، اس کے ساتھ ہی حسن علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا چونکہ رسم دنیا ہے کہ پہلے سالک کسی شیخ کامل اور پیر طریقت کی معیت و صحبت نیز شاگردی میں رہ کر آداب و رسومات تصوف سیکھتا ہے اور مراتب تصوف و عرفان کی آگہی حاصل کرتا ہے اس کے بعد وہ مسند نشینی اختیار کرتا ہے اس لیے تم بھی کسی شیخ کامل اور پیر طریقت کی صحبت اختیار کرو، چنانچہ ناصر عندلیبؔ دہلی کی مشہور و معروف شخصیت سعداللہ شاہ گلشنؔ کی خدمت میں بیعت کے لیے حاضر ہوئے مگر انہوں نے معذرت ظاہر کی اور شیخ عبد الاحد وحدت کی خدمت میں جانے کا مشورہ دیااور کہا کہ میں نے آج تک ان جیسا صوفی با صفا نہیں دیکھااس لئے تمہارے لیے وہ مناسب ہیں اور اگر چاہنا تو گاہ گاہ میرے پاس بھی آتے رہنا چونکہ سعداللہ گلشنؔ سلسلۂ نقشبندیہ سے تعلق رکھنے کے بعد بھی سماع و موسیقی سے شغف رکھتے تھے اس لئے انہوں نے خود کو ان کے حال کے مطابق مشورہ دیا۔
بہر حال چون روز ہشتم حضرت ذوالجلال و الافضال عم نوالہ از راہ عنایت بر کمال آن با جلال و جمال را بسوی ما گرفتاران عالم ناسوت فرستاد و متوجہ گردانید بعد افاقہ چون باب حجرہ را بدست مبارک کشادند و بندہ را بر نہج مذکور بر دروازہ افتادہ دیدند بحر بخشش نہایت بجوش آمد و نسیم قبول بغایت وزید و بدست شریف خویش از زمین برداشتہ۔۔۔۔در حق این غلام خود فرمودند فالحمد للہ الذی جعلنی اول المحمدیین الخالصین و انی امرت ان اکون اول من اسلم و اول من بایع علی ید ابی فی ھذہ الطریقتہ الوثیقتہ العلیتہ الخاتمتہ و ارشاد نمودند کہ ای محمدی قلق و اضطراب مکن بلکہ شادی و خوشی نما کہ او سبحانہ ما محمدیان را بعجب عنایت خاص نواختہ و بعجب شرف مشرف ساختہ کہ روح مقدس حضرت امام حسن علی جدہ و علیہ السلام نزول فرمودہ بود تا این قدر مدت ہمین جا تشریف داشت و القاء نسبت خاص کردہ فرمود کہ این نسبت را بامتیان و بندگان برسان۔۔۔۔۔۔عرض کردم در جناب حضرت امام کہ این طریقہ را طریق حسن گویانیم حضرت امام انگشت مبارک خود را در دہن شریف گرفتہ فرمودند کہ ای فرزند این کار دیگران ست کار ما نیست اگر ارادہ ما چنین می بود در وقت خود طریق خویش را مسمی باسم خود چون دیگران می گرداندیم ما ہمہ فرزندان در بحر عینیت گم ایم و غریق یک قلزم نام ما نام محمد ست و نشان ما نشان محمد محبت ما محبت محمد ست و دعوت ما دعوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم این طریقہ را طریقہ محمدیہ باید گفت کہ ہمان طریق محمد ست و ما از طرف خود چیزی بران نیفزودہ ایم سلوک ما سلوک نبوی ست و طریق ما طریق محمدی (علم الکتاب، ص ۵۸)
میر دردؔ نے اپنی اس کتاب میں اسی طریقہ محمدیہ کے متعلق بہت سے طریقے، خصائص، اوراد و وظائف بیان کیے ہیں نیز اس طریقے کے بہت سے ایسے اصول و تعلیمات جو دیگر سلاسل سے جداگانہ ہیں، اس کے ساتھ ہی انہوں نے کتاب میں جا بجا اس سلسلے کی برتری و فوقیت، اس کی عظمت و رفعت، اس کی انفرادیت و امتیاز اور اس سلسلے کو دیگر تمام سلاسل پر فوقیت دی ہے اور سلسلۂ محمدیہ کو دیگر تمام سلسلوں کا متمم و خاتم بتایا ہے جیسے کہ انسان کی خلقت اگرچہ تمام مخلوقات کے بعد ہوئی مگر وہ تمام خلائق سے افضل و برتر ہے نیز جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ تمام انبیا و رسل سے بعد میں مبعوث ہوئے مگر ختم نبوت و رسالت اور افضلیت کا سہرا آنجناب کے سر پر ہی ہے ٹھیک اسی طرح یہ طریقہ بھی اگرچہ تمام طرق سے بعد میں آیا ہے مگر سب سے افضل و متمم جملہ سلاسل ہے۔ جابجا اس سلسلہ کے فضائل کتاب میں بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ان کا یہ بھی دعوی ہے کہ طریقہ محمدیہ شریعت کے عین مطابق ہے اس لیے انہوں نے اپنی کتاب کا موضوع بھی علم الہی محمدی قرار دیا ہے جس میں قرآن و حدیث کے مطابق وحدانیت کے مسائل بیان کیے گیے ہیں، اس کتاب کے مطالب بیان کرنے کے دوران وہ دیگر ارباب فن کا بھی ذکر کرتے ہیں اور مذاہب معروفہ فلسفہ و کلام، منطق و حکمت کے نظریات کو بھی پیش کرتے ہیں اور اس دوران اگر ان کو کہیں پر کچھ کلام ہوتا ہے تو وہ اسے بھی بیان کر دیتے ہیں، مطالب کتاب کو بیان کرنے کے دوران وہ قرآن و حدیث سے استدلال کو ترجیح دیتے ہیں اور تشریح و توضیح کے ساتھ ساتھ اہم نکات کی نشان دہی کر کے اس کی معنی خیزی و معنی آفرینی کا بھی ذکر نہایت ہی خوبصورتی سے کرتے ہیں، دوران کلام اگر مذاہب تصوف پر بات شروع کرتے ہیں تو تمام مشارب تصوف کا احترام کرنے کے ساتھ ہی ان کی روش کا بھی بیان کر دیتے ہیں مگر قادریہ سلسلہ سے ان کو بہت مانوسیت ہے چونکہ ان کا مادری سلسلہ نسب عبد القادر جیلانی سے ملتا ہے اس لیے اس کی تعریف و توصیف بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن وہ سب پر نقشبندیہ سلسلہ کو فوقیت دیتے ہیں شاید اس کی وجہ ان کی خواجہ بہاؤالدین نقشبند سے جدی نسبت ہو یا پھر ان کے والد کا نقشبندی مجددی سلسلے سے بیعت ہو نے کی وجہ سے کیوں کہ وہ خواجہ نقشبند و مجدد الف ثانی کے اقوال کو اپنی کتاب میں جابجا نقل کرکے ان سے قلبی ارتباط کو ظاہر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ان کے بیان میں جدت و ندرت اور گفتگو میں متانت و سنجیدگی ہے اسی لئے انہوں نے اپنی اس کتاب میں نہایت ہی اہم موضوعات پر بحث کی ہے اور ان مشکل و ادق مسائل کو زیر بحث لائے ہیں جن کی طرف خواص علماء بھی بہت مشکل سے رخ کرتے ہیں حالانکہ ان کے مباحث پہلے بھی مورد بحث رہ چکے ہیں مگر انہوں نے ان قدیم موضوعات کو ہی اپنی بحث کا حصہ بنا کر ترقی دینے کی کوشش کی ہے اور اس کتاب میں انہوں نے اپنی ان تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائے ہیں جو ان کے دیگر رسائل میں نظر نہیں آتے۔
اس تصنیف سے ان کی عربی و فارسی دانی نیز دونوں زبانوں پر قدرت و صلاحیت کا بھی علم ہوتا ہے کیوں کہ انہوں نے اس کتاب میں کوئی ایسا موقع نہیں چھوڑا جہاں اپنی عربی دانی کا ثبوت نہ دیا ہو، استدلال کے وقت وہ سب سے زیادہ قرآن کو ترجیح دیتے ہوئے نظر آتے ہیں پھر حدیث کا سہارا لیکر وہ اپنے بیان کو آگے بڑھاتے ہیں اور ان سے نئے نئے استنباط کرتے ہوئے تمام مباحث کو تکمیل تک پہنچاتے ہیں، درد کی یہ کتاب واقعی اپنے عہد میں نہ عبارت کی شگفتگی کے اعتبار سے اور نہ ہی معنی کی لطافت کے اعتبار سے اپنا ثانی نہیں رکھتی۔
ان کی یہ کتاب ان کی کاوشوں کی بین دلیل ہے جس میں ان کی تمام تر صلاحیتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ تصوف کے باب میں یہ کتاب بے نظیر اور جدت و ندرت کے ابواب کو وا کرتی ہے، جہاں نہ روایتی تصوف سے ہمدردی ہے اور نہ ہی اس پر اندھی تقلید کی گنجائش نظر آتی ہے، اس مختصر مضمون میں نہ ہی کتاب کی خصوصیات کا احاطہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کے مطالب و مبانی کی توضیح ممکن ہے بلکہ اس کو ایک تعارفی نوٹ کی حیثیت سے لکھا گیا ہے تاکہ محققین اس کی طرف اپنی خاص توجہ کر کے درد کے مطالب کو پردہ ظہور میں لاکر اس کے نقائص و محامد کو بیان کریں، اگر توفیق رفیق ہوئی تو آیندہ اس کے دیگر مباحث پر گفتگو کی جائے گی، یہاں پر صرف اس کے اجمالی جائزہ پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.