تبصرہ : التفات امجدی کی تضمین نگاری
زیرنظر کتاب ’’سروش غیب‘‘، ڈاکٹر التفات امجدی کی تضمینوں پر مشتمل ہے۔ اس مجموعۂ کلام پر گفتگو سے پہلے شاعر و مرتب کا تعارف ضروری ہے، اگرچہ شاعر عزیز علم و ادب کے میدان میں اپنا ایک مقام بنا چکے ہیں اور مزید کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، لیکن جب اس حسین گلدستۂ تضمینات پر کچھ لکھنے کا موقع آیا ہے تو ایک تعارف ضابطہ کی پابندی بھی ہے اور اعتراف و قدردانی کے ساتھ خیال خاطر احباب بھی۔
عزیز موصوف پیشے سے ڈاکٹر ہیں، یعنی بی یو ایم ایس میں گریجویٹ ہیں اور اسی شعبے میں ملازم ہیں، اور اردو میں پوسٹ گریجویٹ کر رکھا ہے۔ التفات امجدی صاحب اصلاً رباعی کے شاعر ہیں، جو صنف سخن میں ایک نازک اور مشکل فن ہے، لیکن انھوں نے اس فن میں بڑی مہارت حاصل کی ہے۔ اس وقت کے رباعی گو شعرا میں التفات کو ممتاز مقام ملنا چاہیے۔ ان کی رباعیات کے کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں، جن میں انھوں نے اپنے کمال فن کا ثبوت دیا ہے، اور اب تضمین کے میدان میں ان کی ترک تازیوں کا یہ نمونہ ’’سروش غیب‘‘ سامنے آیا ہے، جس پر ہمیں گفتگو کرنی ہے۔
التفات کی ہر میدان میں کامیاب شاعری ان کی ’’امجدی‘‘ نسبت کی بنا پر ہے۔ ہم وابستگان سلف صالحین و صوفیائے کاملین، عارفانہ و صوفیانہ نسبتوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ اگرچہ اس کو اس دور جدید میں ردو قدح کا سامنا ہے اور اس پر دقیانوسیت کا طعنہ ہے، مگر کیا کریں کہ ان نسبتوں کے بغیر کام بھی نہیں چلتا اور نسبتوں کے بغیر تعارف بھی مکمل نہیں ہوتا، خواہ وہ وطنی ہو خواہ لسانی، قرویت سے جڑی نسبت ہو یا مدنیت سے، تصوف و طریقت کی نسبت ہو یا علم و حکمت کی۔ کہیں نہ کہیں کوئی کڑی ٹوٹتی محسوس ہوتی ہے اگر نسبت مفقود ہوجائے۔ کہہ سکتے ہیں کہ بہت ساری نسبتوں میں گھرا بندۂ عاجز کس کو مقدم رکھے، کس کو موخر۔ کسی کہنے والے نے اچھا کہا:
کسی نے لی رہ کعبہ، کوئی گیا سوئے دیر،
پڑے رہے ترے بندے مگر ترے در پر۔
ایک طبقے نے ربانی نسبت اختیار کرلی، جو حقیقت میں طریقت کی نسبت ہے، اس کا تعلق دنیا سے بھی ہے اور آخرت سے بھی، اس کا ایک سرا اگر سالک کے ہاتھ میں ہے تو دوسرا سرا مرشد الاولین والآخرین، شیخ الانبیاء والمرسلین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے دامن عظمت سے وابستہ ہے۔ التفات امجدی کی نسبت سلسلۂ چشتیہ صابریہ کے ایک عارف باللہ حضرت سید شاہ امجد علی چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۱۳۲۸ ھ) سے ہے، جو مین پوری (یوپی) سے آکر شمالی بہار کے شہر علی گنج سیوان میں ارشاد و تربیت میں مشغول ہوئے۔ التفات امجدی کے آبا واجداد کو ان ہی سے سلسلۂ چشتیہ صابریہ میں ارادت تھی۔ سلسلۂ چشتیہ صابریہ کی یہ خانقاہ ۱۸۹۲ء میں حضرت شاہ امجد علی اور ان کے خلیفہ و مجاز اور خصوصی تربیت یافتہ مولانا سید شاہ تصدق علی اسد رحمہما اللہ کے ذریعہ قائم ہوئی۔
ڈاکٹر التفات، سید شاہ تصدق علی سلطان اسد چشتی صابری کی چوتھی پشت میں پوتے ہیں۔ حضرت شاہ تصدق علی عالم و عارف تھے، اپنے مرشد کے بعد ان کے مسند ارشاد پر بیٹھے، وہ ’’پر والے شاہ صاحب‘‘ سے بھی مشہور تھے، اس کا سبب یہ تھا کہ ابتدائی دور میں وہ حصول معاش کے لیے پرندوں کے پروں کی تجارت کرتے تھے۔ ان سے سلسلۂ چشتیہ صابریہ کی اشاعت ہوئی، شمالی بہار میں وہ ایک ممتاز شیخ طریقت کی حیثیت سے بڑے مقبول تھے اور انھوں نے سلسلہ کی برکات کو آگے بڑھایا۔ شاہ تصدق علی اسد، حضرت امام جعفر صادق کی اولاد میں تھے۔ ان کا وطن میرٹھ تھا، خاندانی روایت کے مطابق ان کے ابا واجداد غزنی (افغانستان) سے سلطان محمود غزنوی کے ساتھ ہندستان آئے اور مختلف شہروں میں قیام پذیر ہوتے ہوئے میرٹھ میں مستقل اقامت گزیں ہوئے۔
سید شاہ تصدق علی کسب معاش کے لیے سفر کرتے رہتے تھے، اپنے دینی مزاج اور خاندانی رجحان کے مطابق کسی باکمال شیخ کی طلب بھی ان کے دل میں رہتی تھی۔ ان ہی مقاصد کے لیے سفر کرتے ہوئے جب وہ سیوان پہنچے تو یہاں ان کو حضرت شاہ امجد علی جیسا مرشد کامل اور طبیب روحانی مل گیا، تو انھوں نے سیوان کو ہی اپنا مستقر بنالیا۔ اس طرح شمالی بہار میں سلسلۂ چشتیہ کی ایک شاخ قائم ہوگئی۔ یہ سلسلہ، حضرت مخدوم شیخ احمد عبد الحق ردولوی صاحب توشہ قدس سرہ کے واسطے سے قدوسی صابری سلسلہ ہے۔
سید شاہ تصدق علی اسد رحمہ اللہ نے سالکوں کی تربیت و اصلاح کے ساتھ تصنیف و تألیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ عرفان و تصوف میں ان کی کئی ضخیم تصنیفات ہیں جو خانقاہ امجدیہ سے شائع ہوچکی ہیں، تصنیفات اردو میں ہیں، ان کتابوں کے نام یہ ہیں: ارشاد الاعظم المعروف بہ جلوۂ حقیقت، سرّہستی، کاسۂ عشق وغیرہ۔ شاہ تصدق علی اسد، شعر و سخن کا بھی اعلی مذاق رکھتے تھے، فارسی و اردو میں ان کے عارفانہ کلام ہیں، اسد تخلص کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے مرشد نے ان کو ’’اسد‘‘ کا لقب دیا تھا۔ ۱۳۴۷ھ (۱۹۲۹ء) میں انھوں نے وفات پائی، خانقاہ کے احاطے میں اپنے پیر و مرشد کے قریب پائتی میں مدفون ہوئے۔ ان کے بعد ان کے بڑے صاحبزادہ حکیم سید شاہ خورشید علی چشتی صابری ۱۳۹۴ھ (۱۹۷۴ء) جانشین ہوئے۔
ڈاکٹر سید التفات امجدی اسی خاندان تصوف کے چشم و چراغ ہیں۔ حکیم سید شاہ خورشید علی رحمہ اللہ کے حفید سعید ہیں اور حضرت سید شاہ صغیر احمد امجدی ۱۴۲۳ھ (۲۰۰۲ء) کے فرزند ہیں۔ فیضان نسبت سے چشتی صابری ہیں، صوفیانہ مزاج رکھتے ہیں، بزرگوں سے ان کو عقیدت ہے، تہذیب و شائستگی کا پیکر ہیں، خوش و خلق و خوش طبع ہیں، مزاج میں تواضع و انکسار ہے۔ ان کی تمام خوبیاں اسی دینی و علمی ماحول کا نتیجہ ہیں جہاں انھوں نے نشو و نما پائی اور اپنے بزرگوں کے فیضان نظر سے اس وقت شعر و سخن کی دنیا میں معروف ہیں۔ اپنے استادوں کی شفقت و محبت کے معترف ہیں، ادب میں ان کے کئی استاد ہیں جن کی توجہ سے انھوں نے اپنی شاعری کو سنوارا اور جن کی ادبی اصلاح سے ان کے شعر و سخن کی فطری صلاحیتوں نے جلا پائی۔ شاید اسی احساس کے تحت انھوں نے اپنے استاد اور معروف ادیب و شاعر، معروف اہل قلم جناب سید شاہ طلحہ رضوی برق سجادہ نشیں خانقاہ چشتیہ نظامیہ، داناپور کے نام اس کتاب کا انتساب کیا ہے۔
’’سروش غیب‘‘ میں فارسی اور اردو دونوں کلام پر تضمینیں ہیں۔ فارسی کے زیر تضمین کلام ۳۵ ہیں۔ اردو کے زیر تضمین کلام کی تعداد ۳۷ ہے۔ فارسی اشعار پر اردو میں بھی تضمینیں کہی گئی ہیں اور فارسی میں بھی۔ فارسی تضمینوں میں اس بات کا التزام نہیں کیا گیا ہے کہ ہر شعر کی تضمین فارسی ہی میں ہو، ایک ہی غزل کے کسی شعر پر اردو تضمین ہے اور کسی شعر پر فارسی تضمین ہے۔
تضمین کے لیے فارسی و اردو کی جن غزلوں اور نعتوں کا انتخاب کیا گیا ہے، وہ مشہور و متداول ہیں، اہل سماع کے یہاں بھی مروج ہیں اور اہل ادب کے یہاں بھی متعارف ہیں۔ فارسی شعرا میں مولانا روم، خواجہ عثمان مروندی، بوعلی شاہ قلندر، حافظ، سعدی، خسرو، عراقی، جامی، قدسی، نیاز، فرد، تصدق علی اسد، عزیز صفی پوری وغیرہ کے کلام پر تضمین کی گئی ہے۔
اردو شعراء میں مشہور متقدمین و متاخرین شاعروں کے کلام کا انتخاب ہے، مثلاً میر، درد، سودا، مومن، ذوق، غالب، انشاء، داغ، مصحفی، شاہ اکبر داناپوری، اکبر الہ آبادی، شاد اور اقبال وغیرہ کے مشہور کلام پر تضمین ہے۔ تضمین میں فیض، شکیل، میراجی اور ابن انشا کو بھی محروم نہیں کیا گیا ہے۔ بہر صورت، یہ مجموعۂ تضمین التفات امجدی کے حسن ذوق اور حسن معیار کا ثبوت ہے۔ چونکہ ان کا تعلق صوفی خاندان سے ہے اور وہ خود بھی اسیر طریقت و تصوف ہیں، اس لیے ان کے اس انتخاب میں عارفانہ کلام زیادہ ہیں۔ اس کتاب سے تضمین نگار کی پسند اور رجحان کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ التفات کی تضمینیں کامیاب ہیں کیونکہ وہ تضمین کا فن جانتے ہیں، زبان و بیان اور طرز ادا پر دسترس رکھتے ہیں۔
تضمین مخمس بھی ہوتی ہے اور مثلث بھی۔ مخمس میں کسی شاعر کے ایک شعر پر تین مصرعے لگاتے ہیں، اس طرح ایک بند پانچ مصرعوں کا ہوتا ہے، جبکہ مثلث میں ایک بند تین مصرعوں کا ہوتا ہے، یعنی زیر تضمین شعر پر تضمین ایک ہی مصرعہ سے ہوتی ہے۔ ’’سروش غیب‘‘ میں مخمس تضمینیں ہیں۔
تضمین کے کچھ نمونے پیش کرتے ہوئے پہلے ہم فارسی اشعار پر کی گئی تضمین کا ذکر کریں گے، وہ تضمین کچھ فارسی میں ہے اور زیادہ اردو میں ہے۔ اس کے بعد خالص اردو غزلوں اور نعتوں و منقبتوں کا جائزہ لیں گے کہ ان پر تضمین کتنی کامیاب ہے۔
فارسی کلام پر تضمین کا آغاز حضرت شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کی حمد سے ہے (جو اصلاً مولانا روم کے اشعار ہیں)۔ حضرت کے حمدیہ کلام کا مطلع ہے:
مالک الملک لا شریک لہ،
وحدہ لا الہ الا ھو۔
اس پر تضمین کے تین مصرعے اللہ تعالی کی مالکیت حقیقی اور مالکیت عمومی کی وضاحت کرتے ہیں:
تیرا ہر گل تیرے ہی رنگ و بو،
تیرا میخانہ تیرے جام و سبو،
زندگی کی رگوں میں تیرا لہو۔
مالک الملک لا شریک لہ،
وحدہ لا الہ الا ھو۔
اگرچہ تضمین کا تیسرا مصرعہ ’’زندگی کی رگوں میں تیرا لہو‘‘ تاویل چاہتا ہے، تاویل کے بغیر کام نہیں چلے گا، کیونکہ ذات باری تعالی کے لیے ’’لہو‘‘ کا لفظ الوہیت ذات کے منافی ہے۔
حضرت شمس تبریزی کے نام سے مولانا روم کا شعر ہے:
عاشقاں جان و دل نثار کنند
بر در لا الہ الا ھو۔
مذکورہ شعر میں تضمین کے تینوں مصرعے سے محبت الہی کے نتیجے کو اس طرح نظم کیا گیا ہے کہ زیر تضمین شعر کے مضمون کی اچھی وضاحت ہوجاتی ہے:
تجھ پہ قربان سارے پست و بلند،
تو ہی ہر ذہن و دل میں بند،
جلوہ تیرا ہی ہر نظر کو پسند۔
’’عاشقاں جان و دل نثار کنند‘‘،
’’بر در لا الہ الا ھو‘‘۔
شمس تبریزی اپنے اس شعر میں:
صوفیاں گر بہشت می طلبند،
ذکر شاں لا الہ الا ھو۔
صوفیوں کی عالی ہمتی کو بیان فرمارہے ہیں کہ وہ جنت کی طلب اس لیے نہیں کرتے کہ عافیت دائمی کے طالب ہیں، بلکہ ان کے طلب جنت میں یہ خواہش پنہاں ہوتی ہے کہ وہاں ان کو ذکر حق کا موقع دوامًا اور بے نہایت حاصل ہوگا جو دنیا میں ممکن نہیں۔ اس پر تضمین عمدہ کہی گئی ہے:
باغ فردوس عاشقوں کی پسند،
اس تصور سے وہ رہیں خرسند،
اپنی ہمت رکھیں نہ کیوں وہ بلند۔
’’صوفیاں گر بہشت می طلبند‘‘،
’’ذکر شاں لا الہ الا ھو‘‘۔
فارسی نعتوں پر التفات کی فارسی تضمین بھی معیار ادب سے فروتر نہیں ہے، زیر تضمین شعر سے لفظی و معنوی ہم آہنگی انھوں نے برقرار رکھی ہے۔ فارسی تضمین کی کچھ مثال ہدیۂ ناظرین ہے:
حضرت مولانا روم کی وہ نعت جس کا مطلع ہے:
یا رسول اللہ حبیب خالق یکتا توئی،
برگزیدہ ذوالجلال پاک بے ہمتا توئی۔
التفات نے اس پر حسب ذیل تضمین کہی ہے:
اول و آخر توئی، اعلا توئی، بالا توئی،
از پئے ما بے کساں ملجا توئی، ماوا توئی،
یا شفیع المذنبیں در حشر امید ما توئی۔
’’یا رسول اللہ حبیب خالق یکتا توئی‘‘،
’’برگزیدہ ذوالجلال پاک بے ہمتا توئی‘‘۔
اسی نعت کے تیسرے شعر پر زیادہ بہتر تضمین ہے، تین مصرعے زیر تضمین شعر سے بڑی مناسبت رکھتے ہیں:
نسل نو امروز ہم غرق مئے پخت و پزیست،
بندۂ عاصی چو من ہم عاشق بنت رزیست،
ذات مومن از برائے آزمایش مرکزیست۔
’’یا رسول اللہ تو دانی امت تو عاجزیست‘‘،
’’عاجزان و بے کساں را رہبر و اعلا توئی‘‘۔
حافظ کی مشہور غزل کے دو شعر کی تضمین ملاحظہ کریں، حافظ کا شعر ہے:
اے خسرو خوباں نظر سوئے گدا کن،
رحمے بہ من سوختۂ بے سرو پا کن۔
اس پر تضمین کے تین مصرعے شعر حافظ کے مضمون کی تفسیر کرتے ہیں:
نو مید نیم از طرف چشم عطا کن،
بس وا تو در لطف و کرم از پئے ما کن،
ہر چند کہ بہ شکستہ دلم آئی وجا کن۔
’’اے خسرو خوباں نظر سوئے گدا کن‘‘،
’’رحمے بہ من سوختۂ بے سرو پا کن‘‘۔
دوسرے شعر کی تضمین میں تضمین کے مصرعے زیر تضمین شعر کے پہلے مصرعہ کو باعتبار مضمون وسعت دیتے ہیں اور یہ تضمین اچھی ہے:
’’دربزم طرب حسن بخارا و سمرقند،
بر اوج فراوانی الطاف خداوند،
رخشندہ و شاداب رخ روشن و خرسند‘‘،
’’شمع و گل و پروانہ و بلبل ہمہ جمع اند‘‘،
’’اے دوست بیا رحم بہ تنہائی ما کن‘‘۔
فارسی اشعار پر اردو تضمین کہنے کا سلسلہ میر نے شروع کیا، میر کے یہاں مثلث اور مخمس دونوں کی مثالیں ملتی ہیں۔ اس کتاب ’’سروش غیب‘‘ میں التفات امجدی نے میر کا تتبع کیا ہے۔ التفات کے اشعار مفاہیم و معانی سے ایسی ہم رنگی پیدا کرتے ہیں کہ ان کی اردو تضمین اصل فارسی شعر کا حصہ معلوم ہوتی ہے، مثلاً حضرت بوعلی شاہ قلندر کے شعر پر تضمین دیکھیں، کتنی چست اور کتنی ہم رنگ معنی ہے:
مرے جذبات کا محور عقیدت کا مری قبلہ،
حرم میرے تقدس کا مرے ایمان کا رشتہ،
مری خاطر یہی سب کچھ ہے کوئے یار کا سجدہ۔
’’بگرد کعبہ کے گردم کہ روئے یار من کعبہ‘‘،
’’منم طواف میخانہ ببوسم پائے مستاں را‘‘۔
حضرت امیر خسرو کا مشہور شعر ہے:
بہر قتلم چوں کشد تیغ نہم سر بہ سجود،
او بہ نازے عجبے من بہ نیازے عجبے۔
حضرت خسرو کے اس شعر میں معشوق و محبوب کے سامنے عاشق و محب کے سرنگوں رہنے کا مضمون ہے کیونکہ خود سپردگی اور فنا ہی جذبات عشق کا حاصل ہیں۔ اس شعر پر تضمین کے دو مصرعے وحدت الوجود کا مضمون بیان کرتے ہیں، لیکن تیسرا مصرعہ اپنے مضمون کے اعتبار سے اصل شعر کا حصہ معلوم ہوتا ہے:
گرچہ ہیں ایک ہی شاہد و مشہود و شہود،
پھر بھی لگتا ہے کہ میں عبد ہوں، وہ ہے معبود،
زیر کرنا تو مجھے اس کو نہیں ہے مقصود۔
’’بہر قتلم چوں کشد تیغ نہم سر بہ سجود‘‘،
’’او بہ نازے عجبے من بہ نیازے عجبے‘‘۔
فارسی اشعار میں اردو اشعار کا ایسا پیوند کہ دونوں زبانوں کا فرق باقی نہ رہے، التفات کے تضمین کی خوبی اور خصوصیت ہے۔ حضرت امیر خسرو فرماتے ہیں:
از سر بالین من برخیز اے ناداں طبیب،
دردمند عشق را دارو بہ جز دیدار نیست۔
التفات کو پڑھئے:
کیوں پریشاں ہورہا ہے میری خاطر اے طبیب،
کون تجھ کو لے کے آیا ہے یہاں میرے قریب،
چاہیے ہجراں نصیبوں کو تو دیدار حبیب۔
خالص فارسی نعتوں پر التفات کی تضمینیں ایک خاص لطف کی حامل ہیں اور ان اشعار پر تضمین کہنے میں ان کا قلم ذات رسالت کے ساتھ شیدائیت اور والہانہ پن ظاہر کرتا ہے۔ التفات کی نعت گوئی کے جوہر دیکھئے اور تضمین کی مناسبت بھی ملاحظہ کیجئے:
زمانے کو جس نے نظر سے سنوارا،
دیا بے سہاروں کو جس نے سہارا،
نظر کی طلب ہے اسی کا نظارا۔
’’خوشا چشم کو دید آں مصطفی را‘‘،
’’خوشا دل کہ دارد خیال محمد‘‘۔
اسی کا تصور نظر دل میں ڈھالے،
کرے اپنی ہستی اسی کے حوالے،
اسی کو عقیدت کی منزل بنالے۔
’’بود در جہاں ہر کسی را خیالے‘‘،
’’مرا از ہمہ خوش خیال محمد‘‘۔
حضرت جامی ایک نعت میں فرماتے ہیں:
چو سوئے من گذر آری من مسکیں زناداری،
فدائے نقش نعلینت کنم جاں یا رسول اللہ۔
یعنی جب آپ میری طرف تشریف لائیں تو میں اپنی ناداری کے باعث آپ کی خدمت میں کچھ نذر کرنے کے لائق نہیں ہوں سوائے اس کے کہ یا رسول اللہ، آپ کے نقش قدم پر اپنی جان فدا کردوں۔ جامی کے اس شعر میں مضمون اور مقصد واضح ہے اور شعر مکمل ہے۔ تضمین میں تضمین نگار نے بارگاہ نبوی میں اپنی بے حیثیتی اور ناداری کے ذکر کے ساتھ تیسرے مصرعے میں ایک نیا مضمون لا کر زیر تضمین شعر کا لطف بڑھا دیا ہے:
مرے حصے میں آئی ہے غریبی اور ناداری،
پریشانی غم دوراں تفکر اور بے زاری،
مگر پھر بھی ادھر ہے بہر خدمت پوری تیاری
’’چو سوئے من گذر آری من مسکیں زناداری‘‘
’’فدائے نقش نعلینت کنم جاں یارسول اللہ‘‘
حضرت امیر خسرو کی مشہور غزل، جس کی ترکیب فارسی اور ہندی الفاظ و مصرعے سے ہے، تضمین سے پہلے اس کے بعض اشعار کے املا اور تلفظ کو واضح نہیں کیا گیا۔ مطلع کے پہلے مصرعے اور مقطع کے دوسرے مصرعے میں ’’ورائے‘‘ کا لفظ آیا ہے، سروش غیب میں اس کو اس طرح نقل کیا گیا:
زحال مسکیں مکن تغافل ورائے نیناں بنائے بتیاں،
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کائے لگائے چھتیاں،
بحق روز وصال دلبر کہ داد مارا فریب خسرو،
سپیت منکہ ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کے کھتیاں۔
اس کلام پر تضمین موجود ہے لیکن تضمین سے بھی لفظ ورائے کا مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ ’’ورائے نیناں‘‘ میں ورائے فارسی اور عربی میں مستعمل لفظ ہے، ہندی نہیں، اور پوری غزل میں کسی فارسی لفظ کی ہندی کی طرف اضافت نہیں ہے۔ کہیں آدھے جملے فارسی، آدھے جملے ہندی سے کام لیا گیا ہے، اور کہیں پورا مصرعہ ہندی میں ہے۔ اس لیے اس لفظ کو واو سے ’’ورائے‘‘ نہیں پڑھا جا سکتا کیونکہ اس سے شعر کا مفہوم بھی صحیح نہیں ہوتا۔ ہمارے یہاں یہ لفظ دال سے ’’دُرائے‘‘ پڑھا جاتا رہا ہے اور پرانی تحریر میں بھی دُرائے ہے، دور کے معنی میں۔ اس اعتبار سے مطلع کے پہلے مصرعے کا معنی یہ ہوگا کہ نظروں سے دور، گفتگو سے محروم مسکین کی حالت سے بے پروا نہ رہو۔
مقطع کے دوسرے مصرعے میں ’’سپیت منکہ دُرائے راکھوں‘‘ میں لفظ دُرائے کو صحیح مان کر ترجمہ کریں تو یہ ترجمہ ہوگا کہ پیا کے پاس جاؤں تو اپنے دل کی بات کو دور رکھوں (یعنی عشق کا راز لوگوں پر ظاہر نہ کروں)۔
التفات اردو کے شاعر ہیں اور اساتذۂ سخن کے معروف اردو کلام پر تضمین میں انھوں نے شاعری کے خوب جوہر دکھائے ہیں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، شعر و سخن میں جو کامل الفن ہیں، تضمین نگاری کے میدان میں ان کو متنوع مضامین مل سکتے ہیں اور زیر تضمین کلام کے مضامین سے فائدہ اٹھا کر ان کے ادبی فکر کو بڑی وسعت حاصل ہوسکتی ہے، کیونکہ زیر تضمین غزل کا ہر شعر ان کی توجہ اپنی طرف کھینچتا ہے بلکہ ان کو دعوت مبارزت دیتا ہے۔
شاعر اگر اس احساس خودی سے باہر آجائے کہ دوسرے شاعروں کے مضامین پر تضمین سے اس کے اپنے مضامین کی ندرت مجروح ہوتی ہے، تو تضمین نگاری میں اس کی شاعری کے محاسن زیادہ کھلیں گے۔ یہ مجھ جیسے ادب کے ’’معاملات‘‘ سے ناواقف کا خیال ہے، ’’محرمان ادب‘‘ کا اس سے اتفاق ضروری نہیں۔ التفات نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا ہے، زیر تضمین کلام کے مضامین میں اضافہ کیا ہے اور نئے افکار تلاش کیے ہیں، تضمین نگاری کے فن سے کام لے کر اچھی تضمینیں کہی ہیں۔
تضمین نگار کے جد اعلیٰ سید شاہ تصدق علی اسد کے فارسی اور اردو کلام پر بھی ’’سروش غیب‘‘ میں تضمینیں ہیں۔ ایک اردو نعت پر تضمین ملاحظہ کریں:
شاہ تصدق علی رحمہ اللہ کی نعت کا شعر ہے:
نہ ویسا بن پڑا ہر گز کسی اہل نبوت سے،
دکھایا جیسا تو نے راستہ ملک حقیقت کا۔
شعر میں اس حقیقت کا اظہار ہے کہ خاتم النبیین ﷺ کے دعوت دین اسلام کی تاثیر عالم گیر ہوئی اور اس کو بقائے دوام حاصل ہوا، ماقبل کے انبیا و مرسلین کی دعوت دین کا اثر محدود رہا اور مرکز ہدایت بھی مخصوص تھا، کیونکہ یہی مشیت الہی تھی۔ التفات نے اپنے جد اعلیٰ کے اس شعر پر ایسی تضمین کی ہے کہ ایک ناواقف کے لیے تضمین اور زیر تضمین شعر میں فرق کرنا مشکل ہے۔ دونوں کے طرز ادا اور انداز بیان میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ تضمین کے مصرعوں نے مضمون کو وسیع کرکے ہر امت کے صلحا و مبلغین کی ناکامی کا ذکر شامل کر دیا ہے، یعنی زیر تضمین شعر کا مفہوم اب تدریجاً مکمل ہوتا ہے:
کسی اہل شریعت سے کسی اہل طریقت سے،
کسی اہل تصوف سے کسی اہل عقیدت سے،
کسی غمخوار و مونس سے کسی معمار ملت سے۔
’’نہ ویسا بن پڑا ہر گز کسی اہل نبوت سے‘‘،
’’دکھایا جیسا تو نے راستہ ملک حقیقت کا‘‘۔
التفات کے کلام کی خوبی ہے کہ جب وہ تضمین کہتے ہیں تو اساتذہ کا کامیاب تتبع کرتے ہیں۔ یعنی کبھی ان کے اشعار میں سودا کا رنگ نظر آتا ہے، کبھی میر کا، کبھی غالب کا، اقبال کے اشعار پر تضمین میں اقبال کا خاص رنگ نمایاں ہے۔ علامہ اقبال کا مشہور شعر ہے:
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں،
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں۔
شعر کا مفہوم ظاہر ہے کہ حقیقت منتظر (ذات حق) کے طالبین منتظر ہیں کہ وہ لباس مجاز میں نظر آجائے تو اپنے تڑپتے ہوئے سجدوں سے اسے مسجود بنالیں۔ شعر مکمل ہے، کسی اضافے کا محتاج نہیں، لیکن تضمین نگار کے پرواز تخیل نے یہ مضمون بیان کیا کہ طالب دید کے اندر بہت کمی ہے، نہ اس کی دعاوں میں اثر ہے، نہ دل میں گداز، نہ درد و غم میں سوز و ساز، نہ قبلے کی طرف اس کی توجہ ہوتی ہے، نہ مسجد میں کشش محسوس ہوتی ہے۔ اس کمی کے باوجود جذبوں میں تڑپ، دل میں کسک موجود ہے، یا حقیقت منتظر کی دید سے ساری کمی دور ہو سکتی ہے:
یہ دعائیں خالی اثر سے ہیں جو کمی ہے دل کے گداز میں،
کوئی سوز غم ہے نوائوں میں نہ نشان درد ہی ساز میں،
نہ خیال قبلہ کی سمت کا نہ کشش ہے جائے نماز میں۔
’’کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں‘‘،
’’کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں‘‘۔
اقبال کہتے ہیں:
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں،
کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر۔
تضمین نے شعر کا لطف بڑھا دیا ہے، اقبال صرف حکم سفر کا ذکر کرتے ہیں، تضمین کے مصرعوں میں اور بھی چیزوں کا ذکر ہے جو باغ بہشت سے نکالتے ہوئے ملی تھی۔ علامہ کے شعر میں صرف بہشت سے نکالے جانے کی شکایت ہے۔ تضمین نگار کی شکایتیں بھی ملاحظہ کریں:
شب کا اثر دیا تھا کیوں، رنگ سحر دیا تھا کیوں،
قلب حزین دیا تھا کیوں، اُڑنے کو پر دیا تھا کیوں،
کرنا ہی تھا جو بے مکاں، رہنے کو گھر دیا تھا کیوں۔
’’باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں‘‘،
’’کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر‘‘۔
تضمین نگاری کا یہ کمال ہے کہ تضمین کا مصرعہ اصل مصرعہ سے مل کر مکمل شعر بن جائے۔ جگر کے شعر پر تضمین میں اس کی بہترین مثال ہے:
کیوں سمجھتا ہے کوئی انسان دیوانہ مجھے،
مشورہ دینے لگا کیوں کوئی فرزانہ مجھے،
دینے والے نے دیا ہے ظرف رندانہ مجھے۔
’’جان کر من جملۂ خاصان میخانہ مجھے‘‘،
’’مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے‘‘۔
زیر تضمین شعر کے دوسرے مصرعے کو الگ کردیں تو پہلا مصرعہ تضمین سے مل کر مکمل شعر بن جاتا ہے، مثلاً یوں پڑھیں:
دینے والے نے دیا ہے ظرف رندانہ مجھے،
’’جان کر من جملۂ خاصان میخانہ مجھے‘‘۔
تضمین نگاری تو پہلے بھی شعرا کرتے رہے ہیں، مگر وہ جزوی تضمینیں ہیں۔ کسی مشہور غزل پر کبھی کسی نے تضمین کہہ دی، کبھی کسی ایک شعر پر تضمین کردی۔ تضمین نگاری کی طرف باقاعدہ ایک فن کی حیثیت سے توجہ نہیں دی گئی، اگرچہ یہ ایک مستقل فن ہے، مگر حسب حال اور حسب ذوق ہی اس کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ میرے علم میں یہ پہلا کام ہے جس میں تقریباً ساٹھ سے زائد فارسی اور اردو کلام پر مکمل تضمین کی گئی ہے۔
تضمین کا انداز بتا رہا ہے کہ شاعر نے توجہ اور یکسوئی کے ساتھ تضمینیں لکھی ہیں اور نقائص سے پاک تضمین نگاری کی کامیاب سعی کی ہے۔ تضمین گوئی میں التفات کے کام کو تقدم حاصل ہے اور ان کو اس دور کے تضمین گو شعرا میں صف اول میں جگہ ملنی چاہئے۔
آخر میں ہم التفات کی تضمین کے دو بند پیش کرنا چاہتے ہیں، جس میں انھوں نے ایک بڑی تمنا اور خواہش کا اظہار کیا ہے، اور وہ تضمین حفیظ جالندھری کے دو شعر پر ہے۔ اللہ تعالی ان کی تمنا پوری فرمائے:
نگاہوں میں ہمیشہ گنبد خضرا کا منظر ہو،
مری آنکھیں بھی ہوں روشن، مرا دل بھی منور ہو،
کسی دن میری قسمت کو بھی وہ لمحہ میسر ہو۔
’’ترا در ہو، مرا سر ہو، مرا دل ہو، ترا گھر ہو‘‘،
’’تمنا مختصر سی ہے مگر تمہید طولانی‘‘۔
مرے آقا مری خاطر بھی کھل جائے در راحت،
بلا کر اس کے دامن میں بھی بھر دیں دولت رحمت،
یہی تو التفات امجدی کے دل کی ہے چاہت۔
’’حفیظ بے نوا بھی ہے گدائے کوچۂ الفت‘‘،
’’عقیدت کی جبیں تیری مروت سے ہے نوارانی‘‘۔
سروش غیب کے محاسن پر جو کچھ گفتگو کی گئی وہ اگرچہ ناکافی ہے، لیکن یہ چند کلمات عزیز گرامی ڈاکٹر سید شاہ التفات احمد امجدی چشتی صابری سلمہ اللہ کی خواہش پر اور اعتراف و قدر دانی کے طور پر سپرد قلم کیے گئے ہیں، ورنہ یہ خاکسار ادب کے میدان سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ قارئین اب براہِ راست سروش غیب کے مطالعہ سے لطف اندوز ہوں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.