Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت مخدوم یحییٰ منیری اور منیر شریف

شاہ مراد اللہ منیری

حضرت مخدوم یحییٰ منیری اور منیر شریف

شاہ مراد اللہ منیری

MORE BYشاہ مراد اللہ منیری

    بہار کا مردم خیز منیر شریف اپنی تاریخی و مذہبی حیثیت سے شہرت تامہ رکھتا ہے، صدیوں سے علمائے کرام و صوفیائے عظام کا مسکن اور صوبہ بہار میں اسلام کا مرکز ہے۔

    منیر کا پہلی بار تذکرہ فیروز رائے ولد کیشوراج ولد مہاراج ولد کشن کی حکومت کے سلسلہ میں اور دوسری بار بختیار خلجی کے فتح بنگالہ کےموقع پر ہوا ہے، محمد قاسم فرشتہ اپنی کتاب ”تاریخِ فرشتہ“ میں بختیار خلجی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

    ”ہمیشہ ولایت بہار اور منیر کو تخت و تاراج کرکے بے شمار مالِ غنیمت حاصل کرتا تھا“

    صاحبِ ’’طبقاتِ ناصری‘‘ لکھتے ہیں کہ

    ”بختیار خلجی المتوفیٰ 602ہجری نے چھٹی صدی ہجری کے آخر میں منیر و بہار پر قبضہ کیا“

    زمانہ گذشتہ میں منیر و بہار صوبہ کے مرکزی شہر تھے بختیار خلجی کے یہاں آنے سے بہت پہلے منیر کے زیرِ حکومت آچکا تھا اور مسلمانوں نے دینی بادشاہت کے ساتھ دنیاوی حکومت بھی عرصہ تک کی، ہندوستان وار خاص کر صوبۂ بہار میں منیر پہلی جگہ ہے جہاں سے اسلام کا نشو و نما ہوا اور حضرت مخدوم شاہ اسرائیل منیری ابن حضرت مخدوم امام محمد تاج ہاشمی قدس خلیلی اور آپ کے خاندان کے ممتاز افراد اپنی روحانی ضیا سے چپہ چپہ کو منور فرمایا، یہاں کا بیشتر حصہ ایک کھنڈر کی صورت میں اختیار کئے ہوئے ہے، اگلے وقتوں میں یہ ایک بڑا اور معمور شہر تھا مگر سلطنتِ مغلیہ کے زوال کے ساتھ اس کا بھی انحطاط شروع ہوگیا، قدیم فارسی کاغذات سے اور کتابوں میں بلدہ یعنی بڑے شہر کے نام سے موسوم ہے، پرانے کاغذ سے اس کے عدالتِ عالیہ ہونےکا پتہ چلتا ہے جس کے فیصلوں پر دو قاضیوں کے دستخط ہوتے تھے۔

    مسلمانوں کے دورِ حکومت میں یہ شہر اہمیت رکھتا تھا، پہلے دریائے سون و گنگ اسی کے زیر پائیں جاری تھا جو اب کچھ دور مغرب کی جانب ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ کاروبار کی شاہ راہ اور تجارت کا بڑا مرکز تھا، ساتھ ہی دریا کی طرف اس کا مضبوط اور بلند قلع اس کی حفاظت کے لئے تھا جو اب ایک ڈھیر کی صورت میں ہے اور اس لحاظ سے اگلے وقتوں میں جنگی نقطۂ نظر سے بھی یہ جگہ اہم تھی۔

    حضرت امام محمد تاج فقیہ ہاشمی نے اپنے قدمِ مبارک سے اس سرزمین کو شرف بخشا اور ملک مفتوحہ اور خاندان کے اپنے بڑے صاحبزادے حضرت عمادالدین المعروف حضرت مخدوم شاہ اسرائیل منیری متوفیٰ 593ھ کی سرکردگی میں دے کر خود اپنے بیت المقدس چلے گئے، حضرت مخدوم عمادالدین المعروف شاہ اسرائیل منیری جمیع ملک مفتوحہ سنہ 589ھ میں بختیار خلجی کے سپرد آپ کے اس ایثار و للٰہیت کا اثر بختیار خلجی کے قلب پر ایسا پڑا کہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ آپ کے حلقۂ ارادت میں آگیا کچھ دنوں خدمت میں رہ کر بہار و بنگال کی طرف گیا اور وہاں سے بدایوں آیا 597 یا 598 ہجری میں کچھ ایسی باتیں اس کے کانوں تک پہنچیں جس سے بختیار خلجی نے خطرہ محسوس کیا اور وہاں سے منیر چلا آیا یہ وہ وقت تھا کہ مسندِ تاج فقہی پر حضرت مخدوم شاہ عمادالدین اسرائیل کی وفات کے بعد آپ کے صاحبزادے حضرت مخدوم کمال الدین احمد یحییٰ منیری جلوہ افروز تھے۔

    حضرت سلطان المخدوم شاہ یحییٰ منیری قدس سرہٗ

    نام و نسب :- کمال الدین احمد یحییٰ منیری نام سلطان المخدوم لقب ابن حضرت مخدوم عمادالدین اسرائیل منیری ابن حضرت امام محمد تاج فقیہہ ہاشمی ابن حضرت مولانا ابو بکر۔

    ولادت :- آپ کی ولادت منیر شریف ضلع پٹنہ میں ہوئی۔

    تعلیم :- آپ کی ابتدائی ظاہری و باطنی اپنے والد محترم اور حضرت مخدوم رکن الدین مرغیلانی منیری سے ہوئی اور والد سے اجازت سلسلہ بھی ہے۔

    سفر بغداد :- بختیار خلجی جب دوبارہ منیر آئے تو حضرت مخدوم کو مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے بغداد جانے کا مشورہ دیا اور خانقاہ کا نظم حضرت مخدوم شاہ اسمٰعیل منیری اور حضرت مخدوم شاہ عبدالعزیز منیری کے سپرد کرکے آپ عازم بغداد ہوئے اور ممالک اسلامیہ کی سیر کرتے ہوئے 202ھ میں بغداد کے مشہور مدرسہ نظایہ میں داخل ہوئے، چھ سات سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے۔

    بیعت و خلافت :- بعد تکمیل تعلیم حضرت شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی سے بیعت حاصل کی، کئی سال تک آپ کی خدمت میں ریاضت و مجاہدہ میں مشغول رہے اور اجازت و خلافت سے سرفراز کئے گئے، اس کے بعد حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ ولی تراش کی خدمت میں رہ کر مستفیض ہوئے پھر دمشق جاکر حضرت شیخ الکبیر محی الدین ابن عربی کی خدمت میں فیوض و برکات حاصل کرکے سنہ 608ہجری میں وطن واپس ہوئے اسی زمانہ میں حضرت قطب الدین بختیار کاکی کی بیعت حضرت خواجہ معین الدین چشتی سے ہوئی۔

    وطن کی واپسی :- آپ جس وقت دمشق سے چلے تو سارے ممالک اسلامیہ تاتاری و چنگیزی فتنہ و فساد مچا ہوا تھا اور ایک عالم تھا کہ ہندوستان کا رخ کئے تھا، چونکہ یہی جگہ ان کے دستبرد سے محفوظ تھی، رستہ میں علمائے کرام و مشائخِ عظام جو عام ہندوستان تھے، انہیں کے ساتھ آپ بھی یہاں پہنچے اور خانقاہ کے سجادہ پر جلوہ افروز ہوکر خدمتِ خلق میں مصروف ہوئے، آپ کے چشمۂ فیض سے ایک عالم سیراب ہوا اور آپ کی بزرگی کا شہرہ عالمگیر ہوا۔

    شادی :- آپ کی شادی صوبہ کے نیّرِ اعظم بزرگ حضرت مخدوم شہاب الدین پیر جگجوت عظیم آبادی کی بڑی صاحبزادی سے ہوئی۔

    اولاد :- آپ کے چار صاحبزادے اور ایک صاحبزادی ہوئیں۔

    1۔حضرت مخدوم شاہ جلیل الدین احمد منیری

    حضرت مخدوم الملک شاہ شرف الدین احمد یحییٰ منیری

    حضرت مخدوم شاہ خلیل الدین احمد یحییٰ منیری

    حضرت مخدوم شاہ حبیب الدین احمد یحییٰ منیری

    تصنیف :- آپ کی تصانیف کا پتہ چلتا ہے لیکن دستبرد زمانہ سے ضائع ہوگئیں، ایک کتاب حکیم سید احمد صاحب یکے از اولاد حضرت شمس الدین خلیفہ حضرت مخدوم الملک شاہ شرف الدین احمد یحییٰ منیری یاس نظر سے گذری ہے جس کا نام ”معراج نامہ“ ہے جو نظم ہے اور آپ کی طرف منسوب ہے اس کے ایک صفحہ پر حضرت مخدوم جلیل الدین منیری کا دستخط بھی ہے۔

    وصال آپ کی شمع ہدایت سے بے شمار افراد نے راہِ ہدایت پائی، آپ نے اپنی تمام عمر شریف یادِ الٰہی اور خدمتِ خلق میں گزاری، دنیا طلبی اور جاہ و حشمت سے کنارہ فرمایا، آپ کا نسب ہندوستان اور ملک کے مختلف حصوں میں کثرت سے پھیلا، صوبۂ بہار کے قدیم سادات کرام کے خانوادوں کو آپ سے جزئیت حاصل ہے۔

    آپ کا وصال 11 شعبان سنہ 690 ہجری میں ہوا، مخدوم 690 مادہ تاریخِ وصال ہے، آپ کا مزار شریف منیر شریف میں ایک مرتفع ٹیلہ پر مرجع خلائق ہیں۔

    مأخذ :
    • کتاب : بہار کی خبری (Pg. 24)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے