Sufinama

حضرت شاہ کبیرالدین احمد درویش

شاہ تقی الدین احمد

حضرت شاہ کبیرالدین احمد درویش

شاہ تقی الدین احمد

MORE BYشاہ تقی الدین احمد

    دلچسپ معلومات

    یہ مضمون ایک صاحب کی تحریر کا جواب ہے جنہوں نے حضرت شاہ کبیرالدین درویش کو حضرت شاہ بوڑھن دیوان کا ہم نسب بتایا ہے وغیرہ وغیرہ۔

    حضرت شاہ کبیرالدین احمد درویش کا سلسلۂ نسب حضرت غوث الاعظم جیلانی سے ملتا ہے جس کی تفصیل ذیل میں درج کی جا رہی ہے۔

    سلسلۂ نسب : شاہ کبیرالدین درویش ولد سید عبداللہ ولد سید محمود گیلانی ولد سید عبدالقادر گیلانی ولد سید عبدالباسط ولد سید حسن گیلانی ولد سید احمد گیلانی ولد سید شرف الدین علی ولد سید سعدالدین ولد سید شمس الدین ولد سید شرف الدین یحییٰ ولد سید شہاب الدین ولد سید عمادالدین ولد سید صالح ولد سید شیخ ولد سیدنا عبدالرزاق ولد غوث الاعظم سید محی الدین عبدالقادر گیلانی۔

    درویش موصوف خدمت کے سلسلہ میں بغداد سے ہندوستان وارد ہوئے اور سر زمینِ شہسرام کو اپنا مسکن قرار دیا، تشریف آوری کی صحیح تاریخ کا تعین نہیں کیا جاسکتا، درویش موصوف صاحبِ فضل و کمال بزرگ تھے، ساری زندگی علائقِ دنیوی سے کنارہ کش رہے اور عبادات و مجاہدات میں بڑا بڑا درجہ حاصل کرتے رہے۔

    خانقاہ کبیریہ کے خاندانی مسودات و کاغذات سے معلوم ہوتا ہے کہ فرخ سیر بادشاہ نے 1717ء میں درویش موصوف کی قدم بوسی کے بعد بہت بڑی جائداد بطور عطیہ فرمان شاہی کی صورت میں ایک خاص ایلچی کے ذریعہ خدمت عالی میں پیش کیا لیکن جب درویش موصوف نے اس کے قبول سے اعراض فرمایا تو ایلچی کو یہ حکم ہوا کہ جب تک یہ عطیہ قبول نہ فرما لیا جائے، درویش موصوف کی چوکھٹ نہ چھوڑے چنانچہ آج بھی اس شاہی ایلچی کی قبر ایک پختہ مقبرہ میں درگاہ کے احاطہ میں اپنی عقیدت کا افسانہ بیان کر رہی ہے، درویش موصوف کے وصال کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت شاہ خلیل اللہ نے یہ عطیہ اور شاہی فرمان قبول فرما کر مخلوق پروری کی خاطر جود و نوال کا سرچشمہ جاری فرمایا جو بحمداللہ ابھی بھی جاری و ساری ہے۔

    شاہی فرمان کی ایک اہم عبارت یہ ہے کہ ”یک لاکھ دام پرگنہ حویلی شہسرام بہ تصرف آنہا بگذارند…

    ان حقائق سے معلوم ہوگیا کہ حضرت شاہ کبیرالدین درویش بانئ خانقاہ شہسرام فرخ سیر بادشاہ 1717ء کے ہم عصر تھے اور جس سے آپ کے ورود شہسرام کا بھی یہی دور متعین کیا جاسکتا ہے لیکن یہ بات بالکل بے بنیاد اور غلط ہے کہ درویش موصوف کو حضرت شاہ بوڑھن دیوان فردوسی سے کوئی خاندانی رابطہ یا نسبت تھی۔

    شاہ کبیر درویش کے صاحبزادگان : درویش موصوف کے تین صاحبزادے تھے، بڑے کا نام حضرت شاہ خلیل اللہ جنہوں نے عطیۂ بخشا، منجھلے شاہ خیراللہ اور چھوٹے شاہ اہل اللہ تھے۔

    شاہ کبیر درویش کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے شاہ خلیل اللہ سجادہ نشیں ہوئے، ان کے کوئی اولاد ذکور نہ تھی، ایک صاحبزادی تھی جن کا نام بی بی رابعہ تھا، شاہ اہل اللہ لاولد تھے، شاہ خیراللہ کے صاحبزادہ جو شاہ خلیل اللہ کے داماد تھے، اپنے عمِ بزرگ کے بعد سجادہ نشیں ہوئے، ان کا اسمِ گرامی شاہ شرف الدین تھا، انہیں شاہ شرف الدین کے صاحبزادہ شاہ قیام الدین تھے جو شاہ عالم بادشاہ کے ہم عصر تھے اور جن کا ذکر صاحب سیرالمتاخرین نے بھی کیا ہے۔

    شاہ عالم بادشاہ کو آپ سے بیحد عقیدت تھی، چنانچہ 1762ء میں بادشاہ موصوف نے بذریعہ فرمان شاہی جو عطیات پیش کیں وہ صیغہ عالم شاہی کے نام سے خانقاہ کبیریہ، شہسرام میں موجود ہیں۔

    حضرت شاہ قیام الدین کے بعد ان کے صاحبزادہ حضرت شاہ شمس الدین سجادہ نشیں ہوئے، یہ لاولد تھے ان کے بعد شاہ قیام الدین کے منجھلے بھائی شاہ غلام غوث کے پوتے شاہ کبیرالدین ثانی چھٹویں سجادہ نشیں قرار پائے، شاہ کبیر ثانی اپنے دورِ سجادگی میں بڑے صاحبِ تمکنت بزرگ گذرے ہیں، تاریخ بنائے مسجد خانقاہ آپ ہی کے نام نامی سے منسوب ہے، شاہ کبیرالدین ثانی لاولد تھے، ان کے بعد ان کے بھتیجے شاہ محی الدین عرف لالہ میاں سجادہ ہوئے، مدرسہ خانقاہ کبیریہ کی عالی شان سنگی عمارت جو شیر شاہی سڑک کے ہر راہی کے لیے جاذبِ نظر ہے، آپ ہی کے دورِ تمکنت کا شاندار و عظیم کارنامہ ہے، آپ کے صاحبزادہ حضرت شاہ معین الدین آٹھویں سجادہ قرار پائے، شاہ معین الدین کے بعد یکے بعد دیگرے تین بزرگ اور زینت سجادہ بنے جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں :-

    حضرت شاہ مسیح الدین

    حضرت شاہ ملیح الدین

    حضرت شاہ صلیح الدین

    موجودہ سجادہ نشیں حضرت الحاج مولانا حکیم سید شاہ صلیح الدین احمد صاحب ہیں جو بارہویں سجادہ نشیں ہیں، یہ بہت بیدار مغز اور متقی و پرہیزگار ہیں، آپ کا دامن ہر طرح کی آلودگیوں سے پاک و صاف ہے…تاریخی واقعات و حقائق کی روشنی میں اور نسب نامہ کے بہ غور مطالعہ کے بعد یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ شاہ کبیرالدین درویش کو حضرت شاہ بوڑھن دیوان سے قطعی کوئی خاندانی نسبت نہ تھی اور فرخ سیر و شاہ عالم شاہان مغلیہ کے نذرانے اور معافی نامے کے عنوان سے جو کچھ مقالہ نگار موصوف نے خانقاہ کبیریہ کے متعلق اظہار خیال کیا ہے وہ سر تا سر بے بنیاد ہے جیسا کہ سطورِ بالا سے ظاہر ہوگیا ہوگا کہ عطیات و جائداد جو فرخ سیر بادشاہ نے شاہ کبیرالدین احمد درویش کو پیش کیے جسے ان کے وصال کے بعد ان کے صاحبزادہ شاہ خلیل اللہ نے قبول فرمایا اور پھر شاہ عالم نے جو کچھ عطیات شاہ قیام الدین کی نذر کیے اس کو ان عطیات و نذور سے جو شاہ محمد شاہد دیوان کو بقول مقالہ نگار موصوف کے دیئے ہوں، کسی قسم کا سروکار نہیں، اس کے شاہد خانقاہ کبیریہ کے خاندانی کاغذات اور ہائی کورٹ وغیرہ کے فیصلے ہیں جو آج بھی اس خانقاہ کے دفتر و صاحبِ سجادہ کی تحویل میں موجود ہیں۔

    مأخذ :
    • کتاب : Al-Mujeeb, Phulwari Sharif (Pg. 26)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے