Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

بہار میں صوفیائے کرام کی تاریخ

شکیل عظیمی

بہار میں صوفیائے کرام کی تاریخ

شکیل عظیمی

MORE BYشکیل عظیمی

    دلچسپ معلومات

    ماہنامہ افکار ملی، دہلی کی خصوصی پیش کش۔

    بہار میں مسلمانوں کی باضابطہ تاریخ کی ابتدا خانقاہ اور صوفیہ کی تاریخ سے اس طرح ہم آہنگ ہے کہ اسے جدا کرنا مشکل ہے، جب کبھی بہار میں حق کی آمد اور ان کے وجود و ارتقا کا ذکر چھڑے گا، لا محالہ خانقاہ اور صوفیائے کرام کا ذکر ناگزیر ہوجائے گا، سیاسی اعتبار سے بختیار خلجی کی آمد ہی کو بہار میں مسلمانوں کا داخلہ مانا جاتا ہے لیکن یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ بختیار خلجی کے حملے سے قبل مسلمانوں کی آبادیاں یہاں قائم ہو چکی تھیں اور صوفیہ کی سرگرمی کے کئی مراکز قائم ہو چکے تھے، یہ صحیح ہے کہ ابھی فیصلہ کن انداز میں یہ کہنا مشکل ہے کہ اس سلسلے میں سرِ فہرست کون سی شخصیت تھی اور اس کا زمانہ چھٹی صدی ہجری میں ٹھیک ٹھیک کیا تھا؟ لیکن دہلی سے پٹنہ کو جوڑنے والی شاہ راہ پر مضافات پٹنہ کا مشہور و معروف قصبہ منیر شریف اس سلسلے میں خصوصی توجہ کا مستحق ہے، جس سے متعلق صدیوں سے یہ صدا عوام و خواص دونوں میں گشت کرتی چلی آرہی ہے کہ یہی وہ متبرک بستی ہے جہاں مسلمانوں کا نقش اولیں باضابطہ ثبت ہوا تھا منیر شریف سے جڑی ہوئی اطلاعات میں حضرت سالار مسعود غازی بہرائچی اور فاتحین بلگرام کے پس منظر میں مشرقی ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کی ابتدائی تاریخ میں کچھ چونکا نے والے اکشافات عین ممکن ہیں۔

    کہتے ہیں کہ 576ھ میں امام محمد تاج فقیہ نے منیر کو فتح کیا اور ایک ایسی خانقاہ کی بنیاد ڈالی جو شاید مشرقی ہندوستان میں ایسی پہلی خانقاہ تھی جو نہ صرف روحانی قیادت کا مرکز تھی بلکہ بختیار خلجی کے حملے تک سیاسی زمام اقتدار بھی سنبھالے رہی، ان کے بیٹوں اور رفقا نے پورے بہار میں جنگی سطح پر روحانی مشن کو پھیلانے کا کام کیا، چنانچہ بہار کو میمنہ، میسرہ اور قلب میں تقسیم کرتے ہوئے بڑے بیٹے شیخ اسرائیل نے قلب یعنی منیر شریف میں رہتے ہوئے اپنے منجھلے بھائی شیخ اسماعیل کو میسرہ یعنی گنگا پار علاقہ ترہت میں تبلیغ و دعوت کی ذمہ داریاں سونپیں جب کہ چھوٹے بھائی عبدالعزیز نے بطور میمنہ جنوبی بہار کی کمان سنبھالی۔

    پورے بہار میں پھیلی ہوئی ان کی اولاد کے نسبی شجرے اور ان کے قدیم مقابر از خود زبان حال سے اس قصہ پارینہ کو بخوبی دہرا رہے ہیں، ان تینوں بھائیوں کی اولاد میں ساتویں صدی ہجری میں ایسے نوادر روزگار پوتے اور پڑپوتے پیدا ہوئے کہ انہو ں نے پوری دنیا میں نہ سہی کم از کم اس پورے بر صغیر میں تو ضرور اپنی شناخت بنائی اور محترم و برگزیدہ ہوئے، ان میں سر فہرست حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد بن یحییٰ منیری کی ذات والا صفات ہے جو شیخ اسرائیل کے سگے پوتے تھے، بہار شریف میں ان کی خانقاہ کے لیے عمار کی تعمیر خود سلطان محمد بن تغلق نے کرائی اور انتظام و انصرام خانقاہ کے لیے راجگیر کا پرگنہ بطور جائداد و زبردستی قبول کرانے میں کامیاب ہوا، یہ خانقاہ حضرت مخدوم کی حیات میں ہی شہرت کے آسمان کو چھو گئی، مخدوم جہاں کے ہاتھوں پر ایک محتاط چشم دید ثقہ گواہ کی زبانی ایک لاکھ لوگ بیعت واردات کا شرف حاصل کر سکے، دور دراز چشت کی مشہور و معروف قدیم خانقاہ کے پیر زادے اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے پوتے بھی بہار کی اس خانقاہ تک کھنچے چلے آئے اور ملتان سے بنگال ہی تک نہیں بلکہ جنوبی ہند کے سلاطین و قضاۃ اور عمال بھی اس خانقاہ کی جاروب کشی میں حاضر ہوئے اور حضرت مخدوم جہاں نے ان کے نام اپنے جادو بیانی سے لبریز کردار ساز مکتوبات ارسال فرمائے، موجودہ نالند ضلع کا بہار شریف سب ڈویژن جو کبھی بودھ وہاروں کی کثرت کی وجہ سے خود ”وہار“ کہلانے لگا تھا، مخدوم کی زندگی میں بکثرت صوفیائے کرام کی خانقاہوں، چلہ گاہوں، جماعت خانوں اور درویشوں کے تکیوں سے بھرا پورے عالم میں انتخاب ہوگیا، اس خانقاہ معظم میں مخدوم کے بعد مولانا مظفر بلخی جو خود ایک عالم متبحر و عارف اور شارح حدیث تھے سجادہ پر رونق افروز ہوئے، اس دور میں خود مخدوم جہاں کے کئی خلفا کی خانقاہیں مصروف رشد وہدایت تھیں جن میں شیخ پورہ میں مخدوم شعیب بن حلال منیری، چراواں میں حجرت مولانا آموں، پھلواری شریف میں حضرت منہاج الدین راستی، چوسہ میں قاضی شمس الدین اور اطراف گیا میں حضرت علیم الدین گیسو دراز نیشا پوری کی خانقاہیں ہر لحاظ سے کامیاب اور قابل احترام تھیں۔

    خود حضرت مخدوم جہاں کی خانقاہ معظم میں مولانا مظفر بلخی کے بعد حضرت مخدوم حسین بن معز نوشہ توحید بلخی جب سجادہ نشیں ہوئے تو مولانا مظفر بلخی کے مقابلے میں ان کی مستقل اقامت نے مخدوم جہاں کی خانقاہ میں پھر وہی شب و روز کی روحانی تر و تازگی اور آبادی کو ایک بار پھر لوٹا دیا جو بلاشبہ مخدوم جہاں کی یاد تازہ کرانے لگی، محفل سماع کی مجلسیں قائم ہوئیں اور 70 70 قوال بیک وقت سوز و ساز رومی کے بربط چھیڑتے اور روحانی عظمتوں کا یہ عالم کہ بیک وقت چالیس چالیس ابدال خانقاہ کے گوشوں میں چلہ کش مشغول بحق ہوئے، خود مختار، درویش صفت، شرقی سلطان، ابراہیم شرقی عقیدت کے مارے سر نیاز خم کرنا تو ملک العلما قاضی شہاب الدین دولت آبادی اپنے مشکل مسائل کے حل کے لیے مخدوم حسین نوشہ توحید بلخی کی طرف بہار شریف کی خانقاہ معظم سے رجوع فرماتے۔

    حضرت مخدوم جہاں کی پیروی میں تعلیم و تربیت کی غرض سے جو مکتوبات مخدوم حسین نوشہ توحید نے مختلف روحانی و علمی و سیاسی شخصیتوں کے نام لکھے وہ اتنے اہم اور مقبول ہوئے کہ ڈیڑھ سو سال بعد جب اخبارالاخیار مرتب ہوا تو حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے بالاتزام آپ کے چار مکاتیب کو بطور نمونہ نقل کرنے کا اہتمام فرمایا۔ رشحات قلم سے ایک مختصر سا عربی رسالہ توحید کے موضوع پر وجود میں آیا تو نہ صرف مفہوم و مطلب نے اسلاف کی یاد تازہ کرائی بلکہ عربو ں نے اس رسالہ کی عربی انشا اور زبان و اسلوب کی بھی دل کھول کر تعریف کرنے پر خود کو مجبور پایا، احادیث پر مبنی و ماخوذ دعاؤں کے مجموعے ”حصن حصین“ پر تصوف دنیا ابھی ناز کیا ہی چاہتی تھی کہ بہار شریف کی خانقاہ معظم نے حصن حصین کی صفت سے لبریز اور کم ضخامت میں عام لوگوں کے لیے کہیں آسان اور مفید دعاؤں کا مجموعہ ”اوراد دہ فصلی“ کے نام سے پیش کر دیا جو بے انتہا مقبول ہو اور ہے، بہار شریف کی خانقاہ معظم ہر دور میں مقامی و بیرونی زائرین و طالبین کے لیے توجہ کا مرکز بنی رہی۔

    بلخی سجادہ نشینان کے بعد جب خود مخدوم جہاں کی اولاد میں سجادہ نشینی کا سلسلہ منتقل ہوا تب بھی شاہ و گدا، درویش و دنیادار سبھی اس خانقاہ سے مستفیض ہوتے رہے، سکندر لودی، شیر شاہ، سلمان کرارانی، جہانگیر، شاہ جہاں، اورنگ زیب، عظیم الشان، شاہ عالم ثانی میں سے بعض تو ذاتی طور پر حاضر ہو کر گل عقیدت نچھاور کر گئے اور بعضوں نے فرامین کے ذریعہ تعمیری یادگاریں چھوڑیں یا جدائیدادیں نذر کیں، حضرت شاہ علی فردوسی، حضرت شاہ علاؤالدین فردوسی، حضرت شاہ عبدالسلام فردوسی، حضرت شاہ علیم الدین درویش فردوسی، حضرت شاہ ولی اللہ فردوسی، حضرت شاہ امین احمد ثبات فردوسی، حضرت مخدوم جہاں کی خانقاہ کے معروف سجادہ نشینوں میں گذرے ہیں اور حضرت مولانا سید شاہ سیف الدین فردوسی طال اللہ عمر و زاد اللہ عرفانہ موجودہ 27 ویں سجادہ نشیں ہیں۔

    حضرت مخدوم جہاں کی زندگی میں دوسرے مشائخ اور دوسرے سلاسل کی خانقاہیں بھی باوجود فرق مزاج و آہنگ بڑی خوبی کے ساتھ بہار شریف اور اس کے اطراف میں آداب و شاداب تھیں، جن میں حضرت مخدوم جہاں کے اپنے خالہ زاد بھائی حضرت مخدوم احمد چرم پوش سہروردی کی بہار شریف کے محلہ انبیر میں واقع خانقاہ کا ذکر ناگزیر ہے، فیروز شاہ تغلق حضرت مخدوم جہاں کی خانقاہ کے علاوہ اس خانقاہ میں بھی خود حاضری کا شرف حاصل کر چکا تھا، بلخ کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے مولانا مظفر بلخی کے والد مولانا شمس الدین بلخی مع اہل و عیال حضرت مخدوم احمد چرم پوش کے ہی مرید و معتقد ہو چکے تھے۔

    اسی دور میں حضرت مخدوم جہاں کے ایک دوسرے خالہ زاد بھائی مخدوم تیم اللہ سفید باز چشتی کی خانقاہ وبیج ون، بہار شریف میں چشتی فیضان عام کر رہی تھی، وہ بھی خاندانی پیر زادے اور خود مرشد کامل تھے، اس خانقاہ کے عقیدت مندوں کا حلقہ بھی کافی وسیع تھا، راجدھانی پٹنہ کے علاوہ جہان آباد ضلع اور اس کے اطراف میں نہ صرف ان کے بکثرت مریدین و معتقدین تھے بلکہ بعض باجازت خلفا بھی اپنی اپنی خانقاہوں میں تبلیغ و دعوت میں مصروف تھے، جہان آباد ضلع کے ارول میں حضرت مخدوم شمس الدین سمن ارولی کے مشہور و بافیض شخصیت ان ہی کی تربیت یافتہ تھی اور ان کی خانقاہ بھی آج تک ارول میں مصروف کار ہے۔

    حضرت شرف الدین بو علی قلندر پانی پتی کے ایک خلیفہ حضرت لطیف الدین دانشمند موڑوی بھی بہار شریف میں حضرت مخدوم جہاں سے استفادے کی غرض سے حاضر ہوئے اور پھر یہیں اپنی خانقاہ بنائی، بہار شریف کے موڑہ تالاب میں آپ کی خانقاہ ایک عرصے تک بڑی ممتاز رہی، عہد لودھی میں اس خانقاہ کو حضرت بڈہ طیب دانشمند جیسا سجادہ نشیں ملا جن کی شہرت عہد شیر شاہی میں اس پورے بر صغیر میں پھیل گئی، علم نحو میں قاضی شہاب الدین دولت آبادی کے مشہور رسالہ ”ارشاد کی شرح تالیف فرمائی جو عرصے تک مدارس میں شامل نصاب رہی، شیر شاہ اس خانقاہ کا اس حد تک معتقد تھا کہ خود اپنے ہاتھوں شیخ کی جوتیاں سیدھی کرتا۔

    شیر شاہ کے جانشیں سلیم شاہ نے شیخ علائی مہدوی کے مسئلہ میں سارے ہندوستان کے علما کے فتاوے کے باوجود شیخ بڈہ طیب دانشمند بہاری کی رائے جاننا ضروری سمجھا، تیرہویں صدی ہجری میں اس خانوادے کے افراد ابوالعلائی سلسلے میں داخل ہو کر داناپور شاہ ٹولی میں آکر بس گئے اور یہیں خانقاہ بنا لی، حضرت شاہ محمد اکبر داناپوری اسی خانوادے کے چشم و چراغ تھے، ان کی خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ ہنوز داناپور پٹنہ کے شاہ ٹولی محلہ میں آباد ہے۔

    حضرت مخدوم جلال بخاری المعروف بہ جہانیاں جہاں گشت بھی مخدوم جہاں سے رشتۂ اخوت و محبت رکھتے تھے اور آپ کے مکتوبات کے مداح تھے ان کے خلفا میں بھی ایک بزرگ حضرت داؤد قریشی بہار شریف آئے اور اپنے سلسلے کی ترویج و اشاعت کے لیے کاشی تکیہ بہار شریف میں ایک خانقاہ کی بنیاد ڈالی عرصے تک یہ خانقاہ تبلیغ و دعوت کا کام کرتی رہی، اب صرف مقبرہ محفوظ ہے۔

    ۔۔۔حضرت قاضن علا شطاری کے تینوں صاحبزادے صاحبِ سلسلہ تھے جن میں سب سے چھوٹے مخدوم عبدالرحمٰن شطاری نے مظفر پور کے ثریا گنج میں اپنی خانقاہ قائم کی، بڑے صاحبزادے مخدوم اویس شطاری نے والد کی جگہ سنبھالی اور منجھلے صاحبزادے حضرت مخدوم ہدیۃ اللہ المعروف بشاہ ابوالفتح سرمست شطاری نے حاجی پور کے تنکول میں سجادۂ رشد و ہدایت بچھایا، مخدوم شاہ ابوالفتح ہدیۃ اللہ شطاری کی شخصیت بڑی ہی عظیم الشان گذری ہے، آپ ہی کے خلیفہ حضرت شیخ ظہور حاجی حصور شطاری تھے جن کے خلیفہ معروف بزرگ حضرت محمد غوث گوالیاری ہوئے، حضرت شیخ محمد غوث گوالیاری ہندوستان کے مشہور ترین صوفی گذرے ہیں، آپ کا سلسلہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور بڑے بڑے جید علمائے کرام آپ کے خلفا میں تھے جن میں حضرت شیخ وجیہہ الدین علوی گجراتی کا نام نامی سر فہرست ہے۔

    حضرت شیخ وجیہہ الدین علوی شطاری گجراتی کے ایک خلیفہ حضرت میر سید یاسین گجراتی محدث دانشمند بہار شریف تشریف لائے اور محلہ خندق میں اپنی خانقاہ قائم کی جو عرصے تک مرکزِ علم و عرفان رہی اب صرف مزار مبارک باقی ہے لیکن آپ کے مشہور و معروف خلیفہ حضرت مولانا شہباز محمد بھاگلپوری کی باعظمت خانقاہ اب تک بھاگل پور میں تبلیغ و دعوت کی سرگرمیاں انجام دے رہی ہیں، بھاگل پور کی خانقاہ شہبازیہ بہار کی عظیم الشان خانقاہوں میں سے ایک ہے، حضرت مولانا شاہ صفی العالم شہبازی صاحب موجودہ سجادہ نشیں ہیں۔

    حضرت مخدوم شاہ ابوالفتح ہدیۃ اللہ سرمست شطاری کے خلیفہ اور برادر زادے حضرت مخدوم شاہ علی شطاری نے حاجی پور ضلع ویشالی سے قریب موضع چنداہا میں اپنی خانقاہ قائم کی اور خوب خوب رشد و ہدایت کا فریضہ انجام دیا، مغلیہ سلطنت کا جب تک عروج رہا یہ خانقاہ بھی عروج پر رہی اور مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ ساتھ یہ خانقاہ زوال پذیر ہوتی گئی، سلسلۂ سجادگی ہنوز قائم ہے، اسی خانقاہ کے ایک معروف صوفی اور سجادہ نشیں حضرت شاہ رکن الدین شطاری کے ایک خلیفہ حضرت شاہ پیر امام الدین شطاری نے اپنی خانقاہ راجگیر میں قائم کی تھی، عہد فرخ سیر میں یہ خانقاہ بہت معروف اور مقبول تھی، اب راجگیر میں بھی ویرانی ہے، مزار موجود ہے اور فرخ سیر کی تعمیر کردہ مسجد بھی موجود ہے لیکن محض ویرانی ہی ویرانی ہے۔

    گیا ضلع کے بیتھو شریف میں بھی ایک محترم خانقاہ ہنوز موجود ہے جس کے بانی حضرت مخدوم شاہ درویش اشرف چشتی تھے جن کا سلسلہ نسب حضرت مخدوم شاہ اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی کے بھانجے حضرت شاہ عبدالرزاق نورالعین سے جا ملتا ہے، پروفیسر شاہد اشرفی موجودہ سجادہ نشیں ہیں۔

    ضلع پٹنہ کے خسرو پور میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دو خانقاہیں بڑی ہی تاریخی گذری ہیں، یہ دونوں خانقاہیں نوآبادہ کلاں اور نو آبادہ خرد میں آباد تھیں، اول الذکر کے بانی حضرت مخدوم شاہ احمد نوآبادی تھے جن کا سلسلۂ نسب جہان آباد کاکو کی مشہور ولیہ حضرت بی بی کمال سے جا ملتا ہے، آپ ہی کے صاحبزادے مخدوم شاہ اخوند چشتی نے نوآبادہ کلاں سے ہجرت فرما کر کچھ ہی فاسلے پر ہرداس بیگہہ ریلوے اسٹیشن سے قریب اپنی خانقاہ قائم کی یہ مقام اب چھوٹا نوادہ کہلاتا ہے، عہد عالمگیری میں یہ خانقاہ اپنے عروج پر تھی اب محض ویرانی ہے، اس خانقاہ کے سلسلے کی اجازت و خلافت اور نسبتی جزئیت بعض خاندانوں میں محفوظ ہے۔

    نویں اور دسویں صدی ہجری میں ضلع گیا سے قریب امجھر شریف میں قادریہ سلسلہ کی ایک محترم خانقاہ قائم ہوئی جس کے بارے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی اولاد میں حضرت مخدوم شاہ محمد القادری قدس سرہ تھے، یہ خانقاہ ہنوز مصروف خدمت ہے اور سلسلۂ سجادگی کے ساتھ ساتھ یہ محترم خاندان اب تک سر سبز و شاداب ہے۔

    گیارہویں صدی ہجری میں پٹنہ میں حضرت دیوان شاہ ارزانی کی خانقاہ بھی بڑی اہمیت کی حامل تھی، فقیرانہ اور درویشانہ طور طریقے کی یہ خانقاہ اپنی مثال آپ رہی ہے۔

    بارہویں صدی ہجری میں حضرت مخدوم شاہ محمد منعم پاک کی پٹنہ آمد سے ایک نئی روحانی بہار کا آغاز ہوتا ہے، آپ کے خلفا کے ذریعے اور ان کے خلفا کے ذریعہ اس بر صغیر میں بے شمار خانقاہوں کا قیام عمل میں آیا اور نظام خانقاہی اور اس کے ذریعہ تبلیغ و دعوت، رشد و ہدایت کے طریقۂ کار کو گویا احیا ہوگیا، مخدوم منعم پاک کی عظیم الشان خانقاہ پٹنہ کے محلہ میتن گھاٹ میں ہنوز آباد و شاداب ہے اور حضرت پروفیسر سید شمیم احمد منعمی صاحب موجودہ سجادہ نشیں ہیں، مخدوم منعم پاک کے خلفا میں خواجہ شاہ رکن الدین عشقؔ کی خانقاہ میتن گھاٹ میں متصل بارگاہ عشق کے نام سے مشہور ہے اور آباد ہے، موجودہ سجادہ نشیں بانی خانقاہ کے ہم نام ہیں، مخدوم منعم پاک کے خلیفہ حضرت مخدوم حسن علی کی خانقاہ خواجہ کلاں سے متصل نیم گھاٹ میں آج بھی موجود ہے اور آباد ہے، اسی سلسلے کی ایک ممتاز کڑی پٹنہ سیٹی کے سملی شریف میں واقع حضرت شاہ غلام حسین ابوالفیاض کی خانقاہ فیاضیہ ہے جس کے موجودہ سجادہ نشیں حضرت شاہ منور حسین فیاضی ہیں، اسی خانقاہ کی ایک شاخ موجودہ شیخ پورہ کے پنڈ میں خانقاہ شاکریہ کی شکل میں آباد ہے، مولانا شاہ رضوان الہدیٰ موجودہ سجادہ نشیں ہے، ضلع رفیع گنج کے کراپ میں واقع خانقاہ منعمیہ بھی اسی سلسلے کا ایک گل سر سبد ہے، یہاں کے سجادہ نشیں جناب شاہ ضیاؤالرب منعمی ہیں۔

    منعمی ابوالعلائی سلسلے کی ایک مشہور خانقاہ گیا ضلع کے محلہ رام ساگر میں آباد ہے جس کے بانی حضرت شاہ عطا حسین المتخلص بہ فانی منعمی تھے، یہ خانقاہ بھی اب تک سر سبز و شاداب ہے، حضرت شاہ غلام مصطفیٰ احمد منعمی صاحب موجودہ سجاد نشیں ہیں، اسی خانقاہ کی ایک شاخ گیا کے آبگلہ میں خانقاہ منعمیہ مظاہریہ کی شکل میں آباد ہے۔

    شیر شاہی سلطنت کے زوال کے بعد فوراً بعد افغان سردار سلیمان کرارانی نے حاجی پور میں خود مختاری کا احساس دلانا شروع کر دیا تھا، اسی زمانہ میں باقری سادات کے ایک محترم خاندان کا ایک حصہ کالپی سے ہجرت کر کے حاجی پور میں آباد ہوا اور یہیں موضع چیچر میں اپنی خانقاہ قائم کی جس کے بانی حضرت سید تقی الدین عرف سید بوڑھے چشتی تھے، کرارانی خاندان نے آپ کی بڑی قدر و منزلت کی اور ایک بڑی اراضی آپ کی نذر کی، چنانچہ حضرت سید تقی الدین کے صاحبزادے سید قطب الدین کے نام سے موسوم ہو کر قطب پور چیچر مشہور ہوا، کرارانی خاندان کے زوال کے ساتھ ساتھ یہ خاندان بھی پٹنہ کی کچوری گلی میں ہجرت کر کے آباد ہوگیا، اب صرف مزارات باقی ہیں۔

    داناپور پٹنہ کے محلہ شاہ ٹولی میں حضرت شاہ جہانگیر رضوی چشتی نے ایک خانقاہ کی بنیاد ڈالی جو فقیرانہ و متوکلانہ روش کی علمبردار تھی، اس خانقاہ میں حضرت مخدوم شاہ یٰسین داناپوری بڑے بزرگ اور مسلم الثبوت ولی گذرے، آج بھی ان کا خاندان موجود ہے، حضرت مخدوم شاہ یٰسین داناپوری کے پوتے حضرت شاہ غلام حسین داناپوری نے حضرت مخدوم منعم پاک سے بیعت و خلافت حاصل کیا تھا اور آپ سے منعمی فیضان کا اس علاقے میں اجرا ہوا، سلسلہ سجادگی ہنوز قائم ہے اور جناب سید شاہ عمران احمد چشتی منعمی موجودہ سجادہ نشیں ہیں۔

    سلسلہ چشتیہ کےمشہور بزرگ حضرت حسام الدین مانک پوری کے اولاد میں ایک بزرگ حضرت شاہ کریم الدین چشتی بھی بہار کے چھپرہ میں تشریف لائے، آج بھی چھپرہ میں محلہ کریم چک ان کی یادگاہ ہے، ایک عرصے تک ان کی خانقاہ رشد و ہدایت کا فریضہ انجام دیتی رہی، اس خانوادے کے مشہور بزرگوں میں حضرت حکیم شاہ فرحت اللہ کریم چکی، حضرت حکیم شاہ مظہر حسین اور حضرت حکیم شاہ مہدی حسن وغیرہ منعمی سلسلے کے فیضان سے مالا مال تھے، اب صرف درگاہ باقی ہے سلسلہ سجادگی مندرس ہوگیا۔

    بارہویں صدی ہجری میں پٹنہ کے پھلواری شریف میں حضرت پیر شاہ محمد مجیب اللہ قادری کی خانقاہ بھی بڑی ممتاز و مقبول رہی، خود بانی خانقاہ حضرت شاہ مجیب اللہ قادری جامع السلاسل صوفیٔ صافی تھے اور اپنے اچھے جانشینوں کی وجہ سے ہنوز یہ خانقاہ بابرکت ہے، حضرت شاہ ابوالحسن فرد پھلواروی، حضرت شاہ بدرالدین قادری مجیبی، حضرت شاہ محی الدین قادری مجیبی اور حضرت شاہ محمد امان اللہ قادری اس خانقاہ کے مشہور سجادہ نشینوں میں گذرے ہیں، امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کے امیر شریعت بھی عرصے تک اسی خانقاہ کے سجادہ نشیں رہے، حضرت شاہ رضوان اللہ قادری موجودہ سجادہ نشیں ہیں، خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کی ہی ایک شاخ پٹنہ سٹی کے منگل تالاب میں خانقاہ عمادیہ کے نام سے معروف ہے، حضرت پیر مجیب اللہ قادری کے بڑے صاحبزادے کی اولاد اس خانقاہ میں نسلاً بعد نسل سجادہ نشیں ہوتی آرہی ہے، حضرت شاہ فریدالحق عمادی موجودہ سجادہ نشیں ہیں۔

    خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کی ہی ایک شاخ پھلواری شریف میں خانقاہ سلیمانیہ کے نام سے مشہور ہے اور ایک دوسری شاخ خانقاہ فریدیہ کے نام سے بھی یہیں موجود ہے۔

    پیرانِ پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے اولاد میں ایک صحیح النسب قادری خانوادہ بھی اچہ ملتان اور دہلی سے ہجرت کرتا ہوا یہاں پٹنہ پہنچا اور محلہ مغل پورہ میں آباد ہے، اس خانوادے کے ایک جاں نثار ہندو معتقد نے حضرت شاہ عبدالمنان قادری کے لیے مغل پورہ پٹنہ سٹی میں ایک خانقاہ بنوائی اور یہ محلہ شاہ منان کی گڑھی کے نام سے مشہورہوا، اس خانقاہ میں حضرت شیخ عبد القادری جیلانی کے مستند ترین تبرکات بھی نسل در نسل محفوظ چلے آئے تھے جن میں خرقہ و نعلین اور کمند وحدت ہنوز شاہ ٹولی داناپور میں محفوظ ہے، اس خانقاہ کی سجادہ نشینی اعلیٰ حضرت شاہ قمرالدین حسین منعمی کی اولاد میں ہنوز باقی ہے اور خانقاہ منعمیہ قمریہ، میتن گھاٹ میں اس خانقاہ کا انضمام ہو چکا ہے۔

    تاریخ کے صفحات میں گم ہونے والی خانقاہوں میں پٹنہ کے شاہ کی املی میں واقع حضرت شیخ غلام یحییٰ حضور چشتی کی خانقاہ اور مغل پورہ میں واقع حضرت مولانا شاہ محمد سعید حسرت عظیم آبادی کی خانقاہ شاذلیہ بھی بہت اہم تھی اور عرصے تک عروج پر رہنے کے بعد اب صرف مزارات باقی ہیں، حضرت حمزہ علی رند کی خانقاہ مہاراج گنج پٹنہ سٹی میں بارہویں صدی ہجری میں ایک بافیض خانقاہ تھی اب صرف مزار محفوظ ہے، اسی سلسلے کی ایک اور خانقاہ حضرت شاہ باقر کی تکیہ تھی، یہ بھی ویران ہوگئی، کچھ یہی حال پٹنہ میں حضرت شاہ معروف، حضرت شاہ منصور اور حضرت شاہ مہدی چشتی کی خانقاہوں کا بھی ہوا، صرف درگاہیں مرجع خلائق ہیں۔

    مأخذ :
    • کتاب : Monthly Afkaar Milli, Delhi (Pg. 10)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے