حضرت شاہ محسن داناپوری حیات و خدمات
خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کی ادبی خدمات اور اس کی مرکزیت:-صوبۂ بہار میں داناپور ایک ایسی بستی ہے جہاں برسہا برس سے علم وادب اور روحانیت کا آفتاب روشن رہا اور اس کی خاک سے اٹھنے والی عظیم ہستیوں نے علم وادب کو ہمیشہ اپنے سینے سے لگائے رکھا، برسہا برس سے چراغ سے چراغ جلتے رہے، اندھیروں میں اُجالاہوتا رہا اور داناپور کی ادبی مرکزیت مستحکم ہوتی گئی، بزرگوں کے ارشادات و ملفوظات اور ان کی روحانی خدمات کے علاوہ سرزمینِ داناپور ان اصحابِ فکر و دانش اور قلم کے شناوروں سے بھی آباد رہی جن کے کارناموں کا آج ہمارے سامنے ایک عظیم سرمایہ موجود ہے اور یہ عظیم سرمایہ مرہونِ منت ہے حضرت شاہ محسنؔ داناپوری کے آباؤ اجداد کا جن کے ادبی وقلمی مشاغل نے داناپور کی حیثیت نمایاں کر دی۔
حضرت شاہ محسنؔ داناپوری کے جد اعلیٰ سیدالطریقت حضرت مولانا شاہ محمد قاسم ابوالعلائی نے پانچ کتابیں یادگار چھوڑیں۔
(۱) اعجازِ غوثیہ
(۲) نجاتِ قاسم
(۳) انشائے فرمانِ علیم
(۴) چراغِ مکتب
(۵) سیرِ نینی تال
صوبۂ بہار کی قدیم نثری تصانیف میں ’’نجاتِ قاسم‘‘ کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔
شاہ محسنؔ داناپوری کے منجھلے دادا حضرت شاہ محمد واجد ابوالعلائی بھی بڑے پایہ کے شاعر تھے، خواجہ میر دردؔ کے رنگ میں عارفانہ کلام کہنے میں قدرت رکھتے ، پریشاںؔ تخلص تھا، افسوس کہ آپ کا مجموعۂ کلام شائع نہ ہوسکا۔
شاہ محسنؔ کے جدامجد قطب العصرحضرت مخدوم شاہ محمد سجاد پاک بھی شعر و شاعری سے گہرا ذوق رکھتے اور ساجدؔ تخلص کرتے ، کلام میں پختگی اور عارفانہ رنگ موجود ہے آپ کے کلام کا زیادہ حصہ ضائع ہوگیا، کچھ کلام اب بھی محفوظ ہیں۔
شاہ محسنؔ کے والد ماجد حضرت شاہ محمد اکبر ابوالعلائی داناپوری کا دور خانقاہ کے لیے’’ دورِ زریں‘‘ کہلاتا ہے، آپ کی علمی، ادبی اور تاریخی کارناموں کی شہرت کا ستارہ دور دور تک جاکر چمکا، آپ نے چھوٹی بڑی ۲۴؍ کتابیں یادگار چھوڑیں جن میں سے تین جلدوں پر مشتمل ’’ اشرف التواریخ‘‘ اپنی عظمت کی خود آئینہ دار ہے، بڑے بڑے علما و دانشور اس سے استفادہ کرتے ہیں، شاہ اکبرؔ داناپوری کے دو ضخیم دیوان تجلیاتِ عشق اور جذباتِ اکبر نہ صرف عارفانہ، صوفیانہ اور تغزلانہ قدروں کے امین ہیں بلکہ’’دبستانِ عظیم آباد‘‘ کا گراں قدرسرمایہ تصور کیا جاتا ہے۔
الغرض یہ ساری تحریکی ساری تہذیبی اور سارے ادبی کارنامے جو سرزمینِ داناپور کی امانت و میراث سمجھے جاتے ہیں، خانوادۂ محسنؔ ہی کے مرہونِ منت اور احسان مند ہیں، ایک روشنی تھی جو چمکی اور دور دور تک نکلتی چلی گئی۔
شاہ محسنؔ نے اسی ماحول میں ہوش سنبھالاجہاں ان کے والد ماجد حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے علم وادب کا ڈنکا برصغیر میں بج رہا تھا اور شعر وسخن کی قندیلیں جل رہی تھیں، اس زمانے میں ایک سے ایک مشاعر ے منعقد ہوتے تھے، متعدد طرحی مشاعروں کی تو ایسی بھی روایتں ملتی ہیں جو تین تین روز تک جاری رہے اور یہ حقیقت قابل قدر ہے کہ ایک سہ روزہ مشاعرے میں اکبرؔالہ آبادی اور ان کے بعض تلامذہ نے بھی شرکت فرمائی ہے، ’’احکامِ نماز‘‘ میں ایک واقعہ کے ضمن میں حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری لکھتے ہیں کہ
’’میری شادی کے موقع پر سیّد اکبر حسین الہ آبادی سشن جج، ان کے چچا میر حسین علی صاحب اور ان کے خاندان کے کچھ دوسرے حضرات داناپور آئے تھے‘‘ ( ص؍ ۵۸)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اکبرؔ الہ آبادی نے کم سے کم دو بار خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ، داناپور کے مشاعروں میں ضرور شرکت کی ہے، صفیرؔ بلگرامی اور فضل حق آزادؔ بھی یہاں کے مشاعرے میں شریک ہوتے رہے ہیں، عظیم آباد اور اس کے گرد ونواح کے اکثر شعرا خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ کے مشاعروں کو اہمیت دیتے تھے اور شاہ اکبرؔ داناپوری کی دعوت پر برابر شرکت کرتے، گویا یہاں کی ادبی فضا کی دھوم مچ چکی تھی ، استادانِ سخن کی شرکت سے مشاعروں کا ہمیشہ وقار قائم رہا۔
یہ بات بھی قابل قدر ہے کہ داناپور کے اکثر و بیشتر شعرا کو شاہ اکبرؔ داناپوری ہی سے شرفِ تلمذ حاصل رہا ہے، اتنے کثیر تلامذہ داناپور کے کسی بھی شاعر نے نہیں پیدا کیے، داناپور اور عظیم آباد کے مشاعروں میں شاہ اکبرؔ داناپوری کے شاگردوں کی نمایاں تعداد ہوا کرتی تھی اور بڑے کرّوفر کے ساتھ غزلیں سناتے تھے، شاہ محسنؔ بھی اپنے والد حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے شاگرد رشید تھے۔
شرفِ تلمذاور اصلاحِ سخن:- حضرت شاہ محسنؔ داناپوری کی ابتدائی عمر تعلیم وتربیت اور حصول علم میں ہی صرف ہوئی، فارغ التحصیل ہونے کے بعد ہی ان کے شعری سفر کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے کیوں کہ صالح اخلاقی اور صوفیانہ شاعری کے لیے عمدہ تعلیم وتربیت اور صحبت کا ہونا بھی بہت ضروری ہے، فن شعر کے متعلق اپنے برادرانِ طریقت کو بطور تاکید ونصیحت شاہ اکبرؔداناپوری فرماتے ہیں کہ
’’شاعری جاہل، اوباش اور زبان دراز لوگوں کا کام نہیں ہے، اس کے واسطے قلبِ سلیم اور نفس مزکیِ درکار ہے، عرفا، حکما اور صلحا لوگوں نے اس فن کو اختیار کیا ہے، اب جو لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اوباش اور بے علم شعر کہہ سکتا ہے یہ بالکل غلط ہے، ایسے لوگوں کی تُک بندیوں کو شعر نہیں کہتے، اسے ریختی کہتے ہیں یا ہزلیات، شعرا کی صف سے وہ باہر ہے، لہٰذا محسن مد عمرہٗ نے فارغ التحصیل ہونے تک شعرگوئی موقوف رکھی، آپ حضرات بھی خیال رکھیں اور اپنی اولاد کو تاتحصیلِ علوم اس فن کی طرف متوجہ نہ ہونے دیں‘‘ (ص؍ ۹)
چنانچہ شاہ محسنؔ داناپوری نے فراغتِ تعلیم کے بعد شاعری کا آغاز کیا اور اپنے والد ماجد سے اصلاحِ سخن لینا شروع کیا لیکن ان کے دیوان میں شامل ۱۳۱۴ھ کی ایک غزل سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے طالبِ علمی کے زمانے ہی سے شاعری شروع کردی تھی جبکہ ان کی عمر صرف ۱۶؍برس کی تھی، ممکن ہے فطری رجحان اور ماحول کے زیرِ اثر یہ غزل ۱۶؍ برس کی عمر ہی میں کہہ لی ہو اور اصلاح بعد میں لی ہو اور یہی قرین قیاس بھی ہے کیوں کہ شاہ اکبرؔداناپوری کی اصلاح سے پہلے کسی دوسرے استاد سے اصلاح لینا کسی طرح بھی ثابت نہیں ہے اور نہ یہ ثابت ہے کہ وہ سولہ برس سے پہلے فارغ التحصیل ہوچکے تھے، ۱۳۱۴ ھ کی یہ غزل ۲۸؍ اشعار پر مشتمل ہے جس کا مطلع ہے۔
عاشقوں سے یہ حجاب اور یہ پردا کیسا
دل میں آئے ہو تو پھر آنکھوں سے چھپنا کیسا
کلیاتِ محسنؔ میں مندرجہ سن و تاریخ کے اعتبار سے شاہ محسنؔ داناپوری کی پہلی غزل کا یہ پہلا مطلع ہے۔
شاہ اکبرؔ داناپوری اور شاہ محسنؔ داناپوری :-شاہ محسنؔ داناپوری کی شاعری کا مطالعہ کرنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی شاعری میں جہاں متعدد شعرا کا رنگ پایا جاتا ہے وہیں اپنے استادِ محترم کا اثر بھی ہر جگہ نمایاں ہے، وہی عارفانہ تخیلات وہی صوفیانہ اندازِ بیان اور وہی تغزل کے حسیں تصورات جن کی بھینی بھینی چھاؤں میں شاعری کے باوجود بھی ان کے ذاتی جذبات و احساسات کی دنیا کافی وسیع دکھائی دیتی ہے، وہ اپنے فکر وفن کی بے شمار پیکر آرائیوں کی بنیاد پر الگ راہ بناتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں، شاہ اکبرؔ داناپوری نے جن ذاتی یا پرائی زمینوں میں غزلیں کہی ہیں ان میں سے بہت ساری زمینوں میں شاہ محسنؔ داناپوری نے بھی غزلیں کہی ہیں، چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں، ان اشعار سے واضح ہوتا ہے کہ شاہ محسنؔ داناپوری اپنی شاعری کو شاہ اکبرؔ داناپوری کی شاعری سے کس قدر قریب رکھنا چاہتے تھے۔
قتل عاشق کو کیا اس کا تڑپنا دیکھا
دل کو تھامے ہوئے بیٹھے ہو تماشا دیکھا
-شاہ اکبرؔ داناپوری
آئینہ سامنے رکھ کر یہ تماشا دیکھا
اپنی صورت میں ترے حسن کا جلوا دیکھا
-شاہ محسنؔ داناپوری
دیگر
اس مقدس دل کے اندر اور تصویرِ صنم
تجھ سے اے مؤمن خدا سمجھے یہ تونے کیا کیا
-شاہ اکبرؔ داناپوری
دل تو کعبہ تھا اسے تو نے صنم خانہ کیا
تجھ سے اے مؤمن خدا سمجھے یہ تونے کیا کیا
-شاہ محسنؔ داناپوری
دیگر
شکل جب بس گئی آنکھوں میں تو چھپنا کیسا
دل میں گھر کرکے مری جان مری جان یہ پردا کیسا
-شاہ اکبرؔ داناپوری
عاشقوں سے یہ حجاب اور یہ پردا کیسا
دل میں آئے ہو تو پھر آنکھوں سے چھپنا کیسا
-شاہ محسنؔ داناپوری
دیگر
نظارہ ہو کس آنکھو سے رخسارِ یار کا
آئینہ ہے یہ قدرتِ پروردگار کا
-شاہ اکبرؔ داناپوری
تعویذ ہو جو نقشِ قدم اس نگار کا
ایسا کہاں نصیب ہمارے مزار کا
-شاہ محسنؔ داناپوری
دیگر
ہے ہماری روحِ شبنم روئے دلبر آفتاب
کھینچ لے گا اس کو جب نکلا چمک کر آفتاب
-شاہ اکبرؔ داناپوری
ہو نہیں سکتا ہے اس رخ کے برابر آفتاب
لاکھ دکھلائے چمک اپنی چمک کر آفتاب
-شاہ محسنؔ داناپوری
دیگر
جاگا وہاں نصیب عدد کا تمام رات
میں بیقراریوں سے نہ سویا تمام رات
-شاہ اکبرؔ داناپوری
پہلو سے میرے چپکے سے اٹھ کر تمام رات
پھرتے رہے ہو غیروں کے گھر گھر تمام رات
-شاہ محسنؔ داناپوری
دیگر
وقفِ درِ محبوب ہوئی اپنی جبیں آج
ہمسر نہیں میرا کوئی بالائے زمیں آج
-شاہ اکبرؔ داناپوری
ہے نور کا عالم جو سرِ عرشِ بریں آج
معمور ہے رحمت سے مدینہ کی زمیں آج
-شاہ محسنؔ داناپوری
دیگر
کہا ہے کچھ تو کسی نے جو تم نے بدلا رخ
نہیں ہے آج ہماری طرف تمہارا رخ
-شاہ اکبرؔ داناپوری
ہو رہا ہے ادھر تمہارا رخ
پھر بدلنے کو ہے ہوا کا رخ
-شاہ محسنؔ داناپوری
دیگر
واہ کس رنگ میں ہے رنگِ بہارِ عارض
باغِ فردوس کا ہر پھول نثارِ عارض
-شاہ اکبرؔ داناپوری
پھول شرمندہ ہے بلبل ہے نثارِ عارض
غیرتِ باغِ ارم ہے یہ بہارِ عارض
-شاہ محسنؔ داناپوری
دیگر
دل کو چھیدے گی پری روتری چتون کب تک
تیر نظارہ چلیں گے پسِ روزن کب تک
-شاہ اکبرؔ داناپوری
آئے آغوش میں وہ گوہرِ یکتا کب تک
دیکھوں چمکے مری قسمت کا ستارا کب تک
-شاہ محسنؔ داناپوری
دیگر
اس کوچہ میں رسائی تری نامہ بر نہیں
کیا بھیجوں تجھ کو وہم کا بھی واں گذر نہیں
-شاہ اکبرؔ داناپوری
غافل وہی ہے جس کی خدا پر نظر نہیں
حق پر نگاہ جس کی نہیں وہ بشر نہیں
-شاہ محسنؔ داناپوری
دیگر
فتنہ جو قد میں ہے تو قیامت ہے چال میں
پھلتی ہیں آفتیں اسی طوبیٰ کی ڈال میں
-شاہ اکبرؔ داناپوری
یکتا ہیں آپ سر سے قدم تک کمال میں
فتنہ جو قد میں ہے تو قیامت ہے چال میں
-شاہ محسنؔ داناپوری
دیگر
او کماندار! اسے کھینچوں زنہار نہیں
ابھی یہ تیر نظر دل سے مرے یار نہیں
-شاہ اکبرؔ داناپوری
کون انسان ہے جو دنیا میں گنہگار نہیں
کون بندہ تری رحمت کا سزاوار نہیں
-شاہ محسنؔ داناپوری
دیگر
فاش اگر راز ہو میرا ابھی طوفاں ہو بپا
جوش زن عشقِ محمد کا ہے دریا دل میں
-شاہ اکبرؔ داناپوری
خوف کس واسطے ہو آتشِ دوزخ سے مجھے
جوش زن عشق محمد کا ہے دریا دل میں
-شاہ محسنؔ داناپوری
دیگر
وہ آئے مرے بالیں پر دم نزع
اجل سکتے میں ہے چپکی کھڑی ہے
-شاہ اکبرؔ داناپوری
پڑ رہے کوچۂ قاتل میں بسمل
اجل بھی دور سکتے میں کھڑی ہے
-شاہ محسنؔ داناپوری
شاہ محسنؔ داناپوری کی شعری خصوصیات:-مسلم الثبوت استاد اور قادرالکلام شاعروحیدؔ الہ آبادی کے کثیر تلامذہ میں اکبرؔ الہ آبادی، شاہ اکبرؔداناپوری اور افسرؔ الہ آبادی اپنے استاد کی قیمتی یادگار سمجھے جاتے ہیں خصوصاً اکبرؔالہ آبادی اپنے طنز اور شاہ اکبرؔ داناپوری اپنے تصوف کی بنیاد پر زیادہ مشہور ہوئے، اکبرؔالہ آبادی کی ادبی عظمت اردو شاعری کی پیشانی پر آبرو بن کر چمک رہی ہے، صوبۂ بہار کے نامور شعرا جنہوں نے اپنے تلامذہ کی ایک کثیر تعداد چھوڑی ہو ان میں شاہ اکبرؔ داناپوری سرِفہرست نظر آتے ہیں، آپ کے دور میں داناپور جیسے علمی و شعری ماحول میں آپ کی استادی کا سورج چمک رہا تھا۔ ( تذکرۂ مسلم شعرائے بہار، جلداول، ص؍ ۲۷۵)
شاہ اکبرؔ داناپوری کے ممتاز تلامذہ میں نثارؔ اکبرآبادی،شاہ محسنؔ داناپوری، عرفاںؔ داناپوری، قیسؔ گیاوی، شوقؔ اجمیری، نیرؔ داناپوری اور اخترؔ داناپوی وغیرہم سرِ فہرست نظر آتے ہیں، ان تلامذہ نے نہ صرف اپنے استادِگرامی کا نام روشن کیا بلکہ اپنے اپنے شعری اوصاف و محاسن اور تخئیلی کیفیات کی روشنی میں ایک مقام بھی حاصل کیا، شاہ محسنؔ داناپوری نے اس ماحول میں آنکھیں کھولیں تھیں جہاں عرفان و آگہی اورتصوف و معرفت کا آفتاب چمک رہا تھا، جہاں آباؤاجداد کی عالمانہ عظمت علم و ادب اور شعر و سخن کی دنیا آباد تھی، انعقادِ مشاعرہ اور اساتذۂ فکر و فن کی صحبت سے شاہ محسنؔ داناپوری نے بھی پورا پورا اثر قبول کیا اور نظری رجحان و میلان کی بنیاد پر خود بخود شاعری سے دلچسپی لینے لگے، حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کی رہنمائی نے حوصلہ بخشا اور موروثی ذوق کی کار فرمائی نے بہت جلد آپ کی شاعری کو نکھارنا شروع کر دیا، کلیاتِ محسن کی بعض غزلوں پر مندرجہ سن و تاریخ کے تحت پتہ چلتا ہے کہ آپ نے کافی نو عمری یعنی ۱۶؍سال ہی کی عمر میں اشعار کہنا شروع کر دیا تھا، مشقِِ سخن نے آپ کو بہت جلد درجۂ استادی پر فائز کر دیا۔
حکیم احمد اللہ ندوی لکھتے ہیں کہ
’’فن شاعری میں آپ کو ابتدا سے دلچسپی تھی اپنے والد ماجد حضرت سید شاہ محمد اکبرؔ داناپوری سے اصلاح لیتے رہے ،چند ہی سال میں اس فن میں آپ مسلم الثبوت استاد ہوگئے، کلام میں آپ کے پختگی اور صوفیانہ رنگ ہے‘‘ (تذکرۂ مسلم شعرائے بہار، حصہ ٔچہارم، ص؍ ۱۳۰)
ہر دور کی شاعری اپنے عصری مزاج و رجحان اور صحبت وہمنشینی کی ترجمان و امین ہوا کرتی ہے اور اپنی ساکھ کی روشن تاریخ سے وابستہ ہوتی ہے، شاہ محسنؔ داناپوری نے بھی شاعری کا وہی ماحول پایا جہاں چاروں طرف قدامت پسندی اور تقلید نوازی کا بول بالاتھا اور روایات کی پاسداری کا اخلاقی ماحول بنا ہوا تھا، شعرائے متقدمین اور اساتذۂ فن کی راہ پر شاہ محسنؔ داناپوری بھی گامزن ہوئے اور روایتی شان و عظمت کے چراغ کو تابندہ رکھنے کے لیے بھرپور قدم بڑھائے، جذبات و احساسات کی خوشگوار اور لطیف جلوہ ان کے کلام کی اہمیت کو بخوبی واضح کرتی ہے، داخلی و خارجی عوامل کے ملے جلے اثرات نے ہر جگہ فکر و فن کے گیسوؤں کو سنوارا ہے، اظہارِ توارد کے باوجود انداز جداگانہ کی راہوں سے گذر جانا کوئی معمولی بات نہیں اور نہ ہی پٹے ہوئے فرسودہ خیالات کو قدم قدم پر نئی تازگی سے آشنا کرانا معمولی بات ہے، بعض تخیلات کو اپنے فن کی راہ سے گذار کر انفرادیت کا لباس پہنا دینا حضرتِ محسن کی نمایاں شعری خصوصیت میں شامل ہے، آپ کے ایسے اشعار یہاں کثرت سے مل جاتے ہیں جن میں نہ حرف روایت کی نئی آنچ کی گرمی ہے بلکہ اچھوتا پن اور بلیغ مفاہیم سے بھی آراستہ و پیراستہ نظر آتے ہیں، شاہ محسنؔ داناپوری نے اپنی شاعری کی محض قافیہ پیمائی، وزن آرائی اور وقت گذاری کے عتاب سے کافی حد تک محفوظ رکھا وہ اپنی شاعری کو اپنے تخئیلی پرواز سے مالامال کرنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے بہت سے اشعار اعلیٰ عمدہ خوشگوار قدروں کے امین اور جذبات و احساسات کے سچے مظہر نظر آتے ہیں، صوفیانہ اشعار کی کثرت سے ان کا کلیات مزین دکھائی دیتا ہے، شاہ محسنؔ داناپوری کا سلسلۂ تلمیذ اگرچہ مصحفیؔ، آتشؔ، وحیدؔ اور شاہ اکبرؔ داناپوری سے ہوتے ہوئے ان تک پہنچتا ہے، صوفیانہ شاعری کا رنگ خواجہ میر دردؔ، وحید الہ آبادی اور خود اپنے والد شاہ اکبرؔ داناپوری سے حاصل کیا ہے، عشقِ مجازی اور تغزل کا انداز داغؔ دہلوی سے حاصل کیا ، عظیم آباد کے شعری ماحول پر وحیدؔ الہ آبادی کی صوفیانہ و اخلاقی شاعری کے مقابلہ میں داغؔ دہلوی کے اندازِ تغزل کی ہر طرف دھوم مچی ہوئی تھی اور طرزِ داغؔ کو اپنانے کا عام مزاج بنا ہوا تھا، عظیم آباد میں داغؔ دہلوی کا سلسلۂ تلمیذ بھی کافی پھیلا ہوا تھا، بڑے بڑے نامور شعرا کو داغؔ سے تلمیذ حاصل تھا چنانچہ بہتیرے شعرا کی طرح تصوف و تغزل کے نتیجہ میںشاہ محسنؔ داناپوری کا شعری مزاج بھی متعدد خانوں میں بٹا ہوا تھا، کبھی ان کی شاعری روحانی قدروں اور اخلاقی عظمتوں کی علمبردار بن جاتی ہے تو کبھی عارفانہ اسرار و رموز کے جلوے بکھیرنے لگتی ہے کبھی شرابِ معرفت میں جھومنا شروع کر دیتی ہے تو کبھی حسن و جمال کی حقیقت بیان کرنے لگتی ہے کبھی عشق مجازی کے قدموں پر خون جگر نچھاور کرنے لگتی ہے تو کبھی یادِ یار کی کسک سے لطف اندوز ہونے لگتی ہے غرض کہ شاہ محسنؔ داناپوری کی شاعری انہیں سب جذبات و خیالات کی آنچ میں تپتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، تصوف و معرفت، عرفان و آگہی، اسرار و رموز، شمع و پروانہ، گل وبلبل، بزم و محفل، نشیمن و خرمن، حزن و ملال، ہجر و فراق، برق و شدر، طور و موسیٰ، بہار و خزاں، دامن و گریباں، دشت و بیاباں، موج و ساحل، مسجد و بتخانہ، دیر و حرم، جام و مینا ، کاروان و قافلہ، رہبر و رہزن، غمزہ و انداز، وعدہ و فریب، اشک ولہو، خنجر و تلوار، مہر و ماہ، گلشن و صحرا ، حسرت دید اور دستِ حنائی وغیرہ جیسے موضوعات پر حضرتِ محسن نے کثرت سے طبع آزمائی کی ہے، آپ ایک مسلم الثبوت استاد تھے اور اکثر و بیشتر اصنافِ سخن کے بہترین نمونے پیش کرتے ہیں غزل، نظم، رباعی، خمسہ، تضمین، مسدس، سہرے، قطعات، تاریخ، رقعات وغیرہ آپ کےکلیات کی زینت ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ شاہ محسنؔ داناپوری بنیادی طور پر صوفی شاعر ہیں،اس سلسلے میں انہوں نے اپنے منصب کا خصوصی خیال رکھا ہے تاہم ان کاکلیات مجازی رنگ و آہنگ سے خالی نہیں، طبیعت کی شوخی، طرز کا بانکپن اور تصور کی انگڑائیاں ہر جگہ نمایاں ہیں، دنیا کی ہر زبان کی شاعری میں یہ بات عام طور سے دیکھی گئی ہے کہ تخئیلی میلان کی ابتدا ہمیشہ عشقِ مجازی ہی سے ہوتی ہے اور ذہنی معزونیت جلوۂ رنگیں کی طرف پہلے قدم بڑھاتی ہے بعد میں یہ شاعر کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ اپنے اظہارِ جذبات کو عشقِ مجازی ہی تک محدود رکھے یا عشقِ حقیقی تک لے جائے، شاہ محسنؔ داناپوری کے ساتھ ایسا ہی ہوا کہ ابتدا تو عشقِ مجازی اور رنگین بیانی سے کی بعد میں اسی کے ساتھ ساتھ عشق حقیقی کا رنگ بھی اختیار کر لیا، خود فرماتے ہیں۔
مجھے پہنچا دیا عشقِ مجازی نے حقیقت تک
نہ اب وہ بے قراری ہے نہ دل سینے میں جلتا ہے
گویا شاہ محسنؔ داناپوری کے شعری سفر میں یہ دونوں ہی عناصر آگے پیچھے ساتھ لگے رہے اور ایک امتزاجی رنگ و آہنگ کی تشکیل ہوتی رہی۔
شاہ محسنؔ اپنے عہد کے اکثر وبیشتر شعری محاسن پر اچھی نظر رکھتے تھے جس کا اظہار ان کے کلام سے بخوبی ہوتا ہے۔
غزل گوئی :-شاعری اپنے ماحول اور حالات سے سب سے پہلے متاثر ہوتی ہے، اسی اعتبار سے جذبات و خیالات کی راہیں بھی ہموار ہوتی رہتی ہیں، ظاہر ہے غزل کے لغوی معنی کا پس منظر یہی ثابت کرتا ہے کہ شاعری کی ابتدا تفریح طبع اور رنگینی خیالات کے اظہار ہی کے طور پر ہوئی اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کا یہ مفہوم بھی وضع نہ ہوا ہوتا، ایامِ جہالت کی شاعری تکلفات وبلاغت اور نفیس پسندی کا سرمایہ سمجھی جاتی ہے،یہ تو ان شعرائے کرام کی تبدل نوازی اور روحانی قدروں کا سعادت مند نتیجہ ہے جنہوں نے اپنے ذاتی اخلاقی ماحول اور ذہنی احتیاط کے زیر اثر شاعری کا مزاج بدلنے میں کامیابی حاصل کی ورنہ اس کا خمیر اس کے مفہوم سے تیار کیا گیا تھا۔
ناسخؔ و آتشؔ کی مشترکہ شعری و لسانی خدمات نے دبستان لکھنؤ کے خوب خوب گیسو سنوارے اور اس سرزمین کوشوخی و انداز اور نزاکت ولطافت کی رنگینیوں سے بھر دیا، مطالعۂ کلیات سے پتہ چلتا ہے کہ شاہ محسنؔ داناپوری اگرچہ دبستان لکھنؤ سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں مگر میر تقی میرؔ کو سب پر فوقیت دیتے ہیں فرماتے ہیں۔
یوں تو اب بھی ہیں زمانے میں سخن داں لیکن
شاعری کہتے ہے جس کو وہ گئی میر کے ساتھ
داغؔ دہلوی دہلی کو چھوڑنے کے بعد رام پور پھر حیدرآباد میں آباد ہوئے تو دبستان لکھنؤ کے نمائندہ شاعر و استاد تسلیم کیے گئے، اترپردیش سے زیادہ بہار میں داغؔ کا طرز و انداز مقبول ہوا جیسے جیسے داغؔ کی دھوم مچتی گئی ویسے ویسے سلسلۂ تلمیذ بھی دراز ہوتا گیا، شاہ محسنؔ داناپوری کی تغزل آرائی بھی داغ ؔسے متاثر ہوئی اور شوخی وادا سے قریب تر ہوتی گئی، چند خوبصورت مثالیں بھی ملاحظہ کیجیے جو داغؔ و محسنؔ کی ہم آہنگی اور یکسانیت کو بخوبی واضح کرتی ہے۔
اس کی رفتار نے کی اور قیامت برپا
اٹھنے پایا بھی نہ تھا فتنۂ محشر پورا
-داغؔ دہلوی
اسی رفتار سے ہوتی قیامت برپا
میں تری چال کو اے فتنۂ دوراں سمجھا
-شاہ محسنؔ داناپوری
دیگر
ترے خرام سے برپا ہے شو رو شر کیسا
اٹھا یہ فتنہ قیامت سے پیشتر کیسا
-داغؔ دہلوی
تم چلے تھے دو قدم یاں حشر برپا ہوگیا
کیا قیامت جس کو کہتے ہیں یہی رفتار ہے
-شاہ محسنؔ داناپوری
دیگر
فتنہ ان کے قدم سے اٹھتا ہے
ہر قدم کس ستم سے اٹھتا ہے
-داغؔ دہلوی
زندہ کیا اِسے اسے پامال کر دیا
کیا کیا قیامتیں ہیں حسینوں کی چال میں
-شاہ محسنؔ داناپوری
دیگر
تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتادو مجھ کو
دوسرا کوئی تو اپناسا دکھا دو مجھ کو
-داغؔ دہلوی
چاہنے والے تمہیں ہائے نہ چاہیں کیونکر
نہ جبیں تم سا کوئی رشکِ قمر ہے صاحب
-شاہ محسنؔ داناپوری
دیگر
تمہاری طرح بھی ہوگا نہ کوئی ہرجائی
تمام رات کہیں ہو کہیں ہو
-داغؔ دہلوی
غیروں میں تم نے رات گذاری اِدھر اُدھر
ہر خوں رہا فراق میں دامن نگاہ کا
-شاہ محسنؔ داناپوری
دیگر
ہر ادا مستانہ سر سے پاؤں تک چھائی ہوئی
اُف تری کافر جوانی جوش پر آتی ہوئی
-داغؔ دہلوی
دلربا ہے ہر ادا اس بت کی سر سے پاؤں تک
کیا ہو شیدا اگر اس کا زمانہ ہوگیا
-شاہ محسنؔ داناپوری
اسی طرح اور بھی اشعار ملتے ہیں جو داغؔ و محسنؔ کی شعری ہم آہنگی کی نشاندہی کرتے ہیں،تاثرات کا نتیجہ ہے کہ شاہ محسنؔ داناپوری کے عشقِ مجازی کا سفر بڑا پُرکشش، رنگین اور شوخ ہے، تصورات کی لطافت اور جذبات کی بے تکلفی ان کے عشقیہ اور جمالیاتی شعور کا خوبصورت مرقع پیش کرتی ہے، شاہ محسنؔ داناپوری کی شاعری میں وہ سب کچھ نظر آتا ہے جو دبستان لکھنؤ کی خصوصیات سمجھی جاتی ہیں، آپ کی تغزل پسندی، خارجی عوامل اور مشاہدے سے زیادہ قربت رکھتی ہے جو کچھ بھی دکھائی دیتا ہے وہ جلوۂ حسن و لطافت اور شوخئی معشوق ہی کا رہین منت ہوتا ہے، شاعر تغزل کے میدان میں وہی سب کچھ دیکھنے کا متمنی ہے جس میں حسن و ادا کی دل فریبی ہو اور وہی سوچنے کا خواہش مند ہے جو خارجی طور سے اس کے سامنے آتا ہے۔
شاہ محسنؔ داناپوری میں چونکہ عارضی رومانیت اور مجازی جذباتیت کے عناصر زیادہ ہے اس لیے ان کے یہاں حقیقی سوز و گداز جلن وکسک اور داخلی نشیب و فراز کے مقابلہ میں ادا نوازی شوخ پسندی اور شکوہ طرازی کی تصویریں زیادہ نظر آتی ہے، شاہ محسنؔ داناپوری اپنے خیالی معشوق کے حسن و ادا کو بڑی فوقیت دیتے ہیں اور قصیدہ خوانی میں کبھی کمی نہیں کرتے طبیعت کی شوخی اور جذبات کی روانی ان اشعار سے ملاحظہ کیجیے۔
تم نیچی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے ہو
یا دل یہ مری جان لگاتے ہو نشانے
ناز و انداز حسینوں کے لیے زیور ہے
دلربا ہوتی ہے جو ان کی ادا ہوتی ہے
کج ادائی کا دیکھیے انداز
تیر سیـدھا کمان سے نکلا
دیکھتے ہی اک نظر دل ہاتھ سے جاتا رہا
ہیں عجب دلکش ادائیں آپ کی تصویر میں
چل رہی ہے ترے انداز کی چھریاں دل پر
تجھ سے سفاک کہیں تیری ادا ہوتی ہے
حسن و ادا کی بارگاہ میں کتنی فراخدلی اور بے باکی کے ساتھ جذبات کی تڑپ قربان کی جا رہی ہے دبستان لکھنؤ کی بھرپور اثر پذیری نے جذبات کو سرشار بنا دیا وہ کون سا انداز ہے وہ کون سا عشوۂ ترکانہ ہے جس کےشاہ محسنؔ داناپوری دلدادہ نہ دکھائی دیتے ہوں، تصورات ومشاہدات کے سفر میں طبیعت کی جو لانی ان پیکروں کو تلاش کرتی رہتی ہے جو شاعر کے جذبات میں ہنگامہ برپا کرسکے اور تباہی کے ساماں مہیا کرسکے، کج ادائی کا انداز تغزل میں انقلاب پیدا کرتا رہتا ہے،شاہ محسنؔ داناپوری دو قدم چلنے بھی نہیں پائے کہ محبوب کی شوخئی رفتار کو دیکھ ٹھہر جاتے ہیں اور اپنے جذبات کی تصویر کھینچنے لگتے ہیں، محبوب کے خرام ناز پر تغزل کا سر خم کرنا پرانا شیوہ رہا ہے، شاہ محسنؔ داناپوری اپنے تاثرات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں۔
یکتا ہیں آبِ سر سے قدم تک کمال میں
فتنہ جو قد میں ہے تو قیامت ہے چال میں
اسی رفتار سے ہوتی ہے قیامت برپا
میں تری چال کو اے فتنۂ دوراں سمجھا
عاشقوں کے دل پسے جاتے ہیں ہنگامِ خرام
کس غضب کی چال ہے کیا ناز کی رفتار ہے
مجھے یہ خوف ہے اے جاں کہیں محشر نہ برپا ہو
قدم رکھیے زمیں پر اے نگار آہستہ آہستہ
زمیں جب یار کی رفتار سے زیر و زبر ہوگی
قیامت آکے صدقہ قامت دلدار پر ہوگی
تم چلے تھے دو قدم یاں حشر برپا ہوگیا
کیا قیامت جس کو کہتے ہیں یہی رفتار ہے
جس کی چال قیامت کا سماں پیش کرتی ہو جس کی رفتار سے فتنے جنم لیتے ہوں اور جس کے قدمِ ناز سے عاشقوں کے دل پسے جا رہے ہوں، ان باتوں کا احساس وہی شاعر کر سکتا ہے جو لطافت و نزاکت کا خوشگوار جذبہ رکھتا ہوگا غزل کی دنیا ناز و انداز عشوۂ رنگین، حسنِ شباب اور حسن طلب کی آنچ میں برسوں سلگی تپتی رہی ہے، تصور کا بے ساختہ پن اعلان کرتا ہے کہ تغزل کی تقلید دلداری کی ایک علامت ہے اور آئینہ مجاز ڈولتی مچلتی رہتی ہے۔
شاعر کے حسن طلب اور اظہار خیال میں تضع و تکلف کے لاکھ عناصر موجود سہی مگر مجازی ادب کی ایک پائدار تاریخ ہے جو عشق حقیقی کی طرف گامزن کرنے کا زبردست سلیقہ عطا کرتی رہی ہے حسنِ ظن کا والہانہ پن واضح کرتا ہے کہ حضرتِ محسن کو محبوب کے سراپا پر کتنا ناز ہے اور وہ اس دلکشی کو کتنے رخ سے دیکھنے سے متمنی نظر آتے ہیں، ابروئے معشوق بھی ان کے تصور کا قیمتی سرمایہ ہے ذرا تاثرات کی بندش ملاحظہ کیجیے اور تغزل کی روایت کا نمونہ بھی دیکھیے۔
ابرؤں پر بل کمر میں تیغ، خنجر ہاتھ میں
مرنے والے خوش ہیں قاتل کا یہ عالم دیکھ کر
قاتل ترے ابرو کا اشارہ ہی بہت ہے
کٹوائے گلا کیوں جا کر تہہ خنجر
ہمارے قتل کو بس جنبشِ ابرو ہی کافی ہے
عبث قاتل خیالِ خنجرِ فولاد کرتا ہے
یہ نگاہیں خشمِ آلودہ ادھر بھی کیجیے
دیکھ لیں سب شانِ جنبشِ ابروئے خمدار کی
مہ نو میں نہ ایسا خم، نہ یہ تلوار میں جوہر
غضب ہے ابروئے خمدار نسبت دوں تو کس سے دوں
ان خیالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابروئے معشوق کی لطافت شاعر کے نزدیک کتنی نمایاں حیثیت رکھتی ہے، اظہارِ تغزل کے طور پر گویا شاعر یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ ہمارے قتل کے لیے خنجر و فولاد کی کوئی ضرورت نہیں، جنبشِ ابرو ہی کافی ہے، شاہ محسنؔ داناپوری تغزل کی ناز برداری سے اچھی طرح واقف ہیں، ان کا مجازی رویہ ان کے رومانی لہجہ کا خاصہ ہے اور وہ اپنے اس خاصہ کی آب و تاب کو ہر منزل پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں، یہی جذبہ چشم میگوں کے سلسلے میں بھی سامنے آتا ہے، محبوب کی مخمور نگاہی شعرا پر ہمیشہ جادو کرتی رہی ہے، کبھی یہ آنکھیں دل کی کیفیت بدل دیتی ہیں تو کبھی بد مست و دیوانہ بنا دیتی ہیں، شاہ محسنؔ داناپوری کی نازک خیالی کا یہ انداز بھی ملاحظہ کیجیے۔
ادا سے چشمِ نشیلی دکھائی جاتی ہے
شرابِ حسن نظر سے پلائی جاتی ہے
چشمِ میگوں کا تمہاری آج عالم دیکھ کر
مست و بیخود ہوگئے بے کیف و کم ہم دیکھ کر
اے چشمِ ناز! مجھ سا زمانے میں اور بھی
تیری نگاہِ ناز کا بسمل نہیں رہا
قدح نوشوں کو ساغر کی پڑی ہے
ہماری آنکھ ساقی سے لڑی ہے
ساغر چشمِ یار میں بادہ جو ہے بھرا ہوا
ساقی مرے لیے یہی جام یہی شراب ہے
بادہ ہے کہ شیشے میں ہری ناچ رہی ہے
یا کیفِ نظر ہے مئے گلنار کی حالت
زلف و گیسو کا ذکر اس طرح کرتے ہیں۔
چاند بدلی سے نکل آیا ہوا یہ روشن
زلف رخسار سے جو آپ نے سرکائی ہے
بلا ہے گیسوئے خمدار نسبت دوں تو کس سے دوں
غضب ہے قامت دلدار نسبت دوں تو کس سے دوں
سودائے زلفِ یار میں آشفتہ حال ہوں
کچھ تو مدد مری دلِ دیوانہ چاہیے
بل کرتی ہیں زلفیں تری اندھیر کریں گی
اللہ بچائے مجھے اس رام بلا سے
تیری زلفوں کے تصور نے کیا ہے اندھیر
بس یہی ہے میری شوریدہ سری کا باعث
شاہ محسنؔ داناپوری فرماتے ہیں کہ
عاشق ہے وہی جو نہ پھرے اپنی وفا سے
معشوق وہی ہے جو نہ باز آئے جفا سے
معشوق کی بے رحمی اور ستم ظریفی شاعر کے نزدیک ہمیشہ مسئلہ بنی رہی، کبھی بے رحمی کو کلیجہ سے لگانے لگتا ہے تو کبھی شکوہ کرنے لگتا ہے، شاہ محسنؔ داناپوری بھی اسی کیفیت سے گذرتے رہے ہیں اور اپنے معشوقِ بلا خیز کی بے التفاتی بے رحمی اور ناکامئی وصل پر شکوہ کرنے لگتے ہیں، حسرت ویاس اور التجا کی فضا قائم کرتے ہوئے حضرتِ محسن فرماتے ہیں۔
تڑپنا لوٹنا فریاد کرنا
اسی کا مشغلہ آٹھوں پہر ہے
حال بھی اس کا نہ پوچھا کبھی تم نے ہے ہے
اپنے بیمار سے غفلت یہ مسیحا کب تک
خبر لیتے نہیں بیمار الفت کی مسیحا ہو
تمہیں معلوم ہے وہ اٹھ نہیں سکتا ہے بستر سے
وہ نہ آیا آتے آتے دم لبوں تک آگیا
اف! رہی جاتی ہیں دل میں حسرتیں دیدار کی
ظلم ہوتا ہے جفاؤں پہ جفا ہوتی ہے
یوں ادا رسم محبت کی ادا ہوتی ہے
جفا کو چھوڑ کر اے جانِ جاں رحم و کرم سیکھو!
ستم ایجاد عالم میں برنگِ آسماں کیوں ہو
چنانچہ اس گلہ و شکوہ اور ناکامئی محبت کے باوجود شاعر اپنی وفاداری پر آنچ نہیں آنے دیتا اور فوراً کہہ اٹھتا ہے۔
جفا معشوق کرتے ہیں وفا عشاق کرتے ہیں
زباں پر اپنے محسنؔ شکوۂ جورِ بتاں کیوں ہو
لطافتِ زبان و بیان:-شاہمحسنؔ داناپوری کی زبان حسن ولطافت اور سادگی و روانی کی آئینہ دار نظر آتی ہے، زبان و بیان کی کشش نے ان کی شاعری کے حسن کو نکھار دیا ہے، شاعری کے اہتمام میں زبان کی سادگی ایک منفرد مقام کی حامل ہو ا کرتی ہے، داغؔ کی ساری شاعری اس اہتمام سے رچی بسی ہوئی ہے، شاہ محسنؔ داناپوری کا وہی زمانہ تھا جب زبان و بیان کی روانی سادگی بے تکلفی اور حسن وشباب پر زیادہ زور صرف کیا جاتا تھا اسی رجحان کا کامیاب استعمال حضرت محسن نے بھی کیا اور شوخی ولطافت سے ہر جگہ اپنی شاعری کو سنوارا سجایا، مندرجہ ذیل اشعار اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اے طبع رسا تجھ میں دریا کی روانی ہے
پیری میں خدا رکھے اندازِ جوانی ہے
جمنا کی روانی میں گنگا کی روانی ہے
بہتے ہوئے پانی میں بہتا ہوا پانی ہے
شباب ہے یہ جوانی کے دن خدا رکھے
نگاہِ ناز میں شوخی بھی آئی جاتی ہے
بادہ ہے کہ شیشے میں پری ناچ رہی ہے
یا کیفِ نظر ہے مئے گلنار کی حالت
بل کرتی ہیں زلفیں تری اندھیر کریں گی
اللہ بچائے مجھے اس دامِ بلا سے
وہ اپنے بام پر یوں جلوہ گر ہیں
کہ چلمن چاند تاروں کی پڑی ہے
اللہ اللہ عشق کی نیرنگیاں تو دیکھیے
مل گئی تصویر میری آپ کی تصویر سے
اس انداز کے اشعارکلیاتِ محسن میں بکھرے پڑے ہیں۔
محاوروں کا استعمال :-شاہ محسنؔ داناپوری کی شاعری میں ہر جگہ محاوروں کا استعمال ہے، وہ بڑے فن کے ساتھ اس کا استعمال کرتے ہیں، بہت سارے اشعار میں اس طرح محاورے کی زبان استعمال ہوئی ہے کہ محاوروں ہی کی بنیاد پر اشعار کی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان اشعار میں آمد ہی آمد ہے، آوردسے کوئی تعلق نہیں، زبان کی تعمیر و ارتقا چونکہ محاوروں ہی سے ہوتی رہی ہے ، اس لیے اس کے فروغ کے لیے شاہ محسنؔ داناپوری نے بھی اچھی کوششیں کی ہیں اورپوری شاعری میں محاوراتی زبان کو آباد رکھا ہے، آپ محاورہ آرائی کا خوبصورت ڈھنگ رکھتے ہیں۔
لو قافلہ چلتا ہے اٹھ بیٹھو کمر باندھو
آ پہنچی اجل سر پر سامانِ سفر باندھو
میں رفتہ رفتہ آپ میں آتا چلا گیا
یاد ان کی مجھ کو ہوش میں لاتی چلی گئی
رخِ روشن سے نقاب اپنے اٹھاتے چلیے
بجلیاں دیکھنے والوں پہ گراتے رہیے
ابروئے خمدار پر ٹھہرا ہے اپنا فیصلہ
تھی شہادت کے لیے حاجت اسی تلوار کی
فلک آنکھیں چراتا ہے وہ بت آنکھیں دکھاتا ہے
وہ سنتا ہے، نہیں سنتا یہ ظالم داستاں میری
قیامت میں دوچار ہونا پڑے گا
کسی کو خوشی سے کسی کو الم سے
دلِ غم دیدہ کے ہوجاتے ہیں ٹکڑے ٹکڑے
چار جس دم نگۂ ہوش ربا ہوتی ہے
تم آئے باغ باغ دلِ زار ہوگیا
وہ انتشار اب ہے نہ وہ اضطراب ہے
آنکھیں بچھائے قیس تو بیخود پڑا رہا
لیلیٰ مئے وصال پلاتی چلی گئی
بلند خیالی :-شاعری اگر صرف تفریحِ طبع تک محدود ہوکر رہ جائے اور زبان و بیان کے خوبصورت استعمال سے محروم رہ جائے تو اسے شاعری نہیں تُک بندی ہی کہنا چاہیے، اس دائرے سے حضرتِ محسن کی شاعری ہمیشہ دور رہی اور اوصاف و محاسن کی تلاش میں برابر مصروف رہی، شاہ محسنؔ کی شاعری جہاں اکثر و بیشتر تقاضوں کو پورا کرتی ہے، وہی خیالات کی بلند پروازی کا بھی اظہار کرتی رہی ہے، اگرچہ وہ اپنی بلند خیالی کے سفر کو زیادہ دور تک نہیں جاری رکھ پائے تاہم بعض افکار کی بلندی تک پہنچنے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں اور اپنے بہت سارے ہمعصر شعرا کے مقابلہ میں بڑی جامعیت کے ساتھ بلند افکار کے نمونے پیش کرتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ندرتِ خیال کا اظہار شاعر کے شعری رجحان اور فکری میلان ہی کے مطابق وجود میں آتا ہے، شاہ محسنؔ داناپوری کا رجحان و میلان چونکہ لطافت و نزاکت، ناز و انداز، غمزدہ و شوخی اور حسن و ادا کی طرف زیادہ تھا اس لیے یہ تو نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ندرتِ خیال یا فکری بلندی کی منزلیں طے کرنے میں ناکام رہے البتہ سست رفتار ضرور رہے اور اس طرف جب بھی توجہ دی ہے کمال کر دکھایا ہے۔
فکری بلندی کے تعلق سے یہ بات علی الاعلان کہی جاسکتی ہے کہ اس سلسلے میںشاہ محسنؔ داناپوری کی کیا تخصیص، ایسے نہ جانے کتنے نامور شعرا گذرے ہیں جن کے ہاں شعری اوصاف کثرت سے پائے جاتے ہیں مگر بلند خیالی کی قلت ہے، ایسا ہی کچھ معاملہ حضرت محسنؔ کے ساتھ بھی ہے ان کے ہاں قابلِ قدر خیالات کی کوئی کمی نہیں،کلیات میں بھرے پڑے ہیں لیکن جہاں تک بلندخیالی کا تعلق ہے اپنی کمی کے باوجود ایک نرالی شان رکھتی ہے اور ان کی کوششوں کے خصوصی معیار کو بھی واضح کرتی ہے، بطور نمونہ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
اس طرح محسنؔ تلاشِ یار نے کھویا مجھے
اک تماشا اپنی صورت کا نظر آیا مجھے
دیگر
زمیں کے نیچے ہی نیچے خد اکی قدرت سے
سوئے مدینہ یہ لاشہ مرا ادا نہ ہوا
دیگر
دیکھ لو رنجور کو اپنے نگاہِ ناز سے
دھوم ہو، بیمار کو بیمار نے اچھا کیا
دیگر
قتل کرکے مجھے حسرت سے وہ روکر بولے
ہائے کس وقت ترا عہدِ وفا یاد آیا
دیگر
پروانے جل کے خاک ہوئے شمع بجھ گئی
آخر کو خونِ حسرت و ارمان ہوگیا
دیگر
نتیجہ عشق کا مٹ کر دکھا دیا میں نے
نہ میں ہوں باقی نہ میرا مزار باقی ہے
دیگر
ہجر کی رات ہو بسر کیسے بتا تو چارہ گر
آ اے تصورِ سحر، بانگِ شبِ دراز بن
دیگر
وہ دکھا کر مجھے آئینۂ رخ کہتے ہیں
تھا سکندر بھی آئینہ دارِ عارض
دیگر
چلا تھا ڈوبنے کو بحرِبے پایانِ الفت میں
اسی شرمندگی میں غرقِ دریائے ندامت ہوں
دیگر
دل کو ہدف بنایا تھا زخمی جگر ہوا
سیـدھا نشانہ کرتی ہے ترچھی نظر غلط
دیگر
محسنؔ حریمِ دل میں اسے دیکھ دیکھ کر
اپنا طواف آپ کیے جا رہا ہوں میں
دیگر
عشق کی پہلی ہی منزل میں ہے دل کا حال غیر
ہائے اس ناشاد سے امید تھی کیا کیا مجھے
دیگر
عین مستی میں تو ہاتھوں سے گلابی نہ چھٹی
بے پئے آج چھلکتے ہوئے ساغر چھوٹے
دیگر
سر ان کو نذر کرکے سبکدوش ہوگئے
اے دل ادائے سجدۂ شکرانہ چاہیے
دیگر
رہے گاحشر تک احسان قاتل میری گردن پر
بجھائی پیاس میری خوب اس نے آبِ خنجر سے
دیگر
کرتا ہوں ذکر مصحفِ رخسار رات دن
کہتے ہیں لوگ اس لیے قرآن خواں مجھے
دیگر
نگاہِ ناز مرے دل کا فیصلہ کر دے
نیازِ عشق کا اب جلد خاتما ہو جائے
دیگر
میں نہیں چاہتا جمعیت خاطر ہرگز
یہ خوشی ہے کہ ترے عشق میں برباد ر ہوں
دیگر
بے خودی یہ پیام لائی ہے
کہ ہے انجام کا یہی آغاز
دیگر
قاتل نے دمِ قتل نقاب اپنی الٹ کر
دکھلا دیا معراج کا منظر تہہ خنجر
مذکورہ بالااشعار کسی نہ کسی اغیار سے بلند خیالی اور وسعتِ افکار کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے مفاہیم میں ایک نئی تازگی رکھتے ہیں۔
بہرکیف! شاہ محسنؔ داناپوری بحیثیت غزل نگار ایک مسلم الثبوت استاد تھے ، ان کے بہتیرے شعری اوصاف و محاسن اپنے دور کی قیمتی یادگار اور قابلِ قدر ہیں۔
رباعی :-صوبۂ بہار کے شعرا میں راسخؔ عظیم آبادی، شاہ اکبرؔ داناپوری اور شادؔعظیم آبادی کو فن رباعی میں خاص اہمیت حاصل ہے، راسخؔ نے تو کم مگر اکبرؔ و شادؔ کے دواوین میں ۱۰۰؍ سے زائد رباعیاں موجود ہیں اور اس فن میں بھی یہ حضرات نمایاں حیثیت کے حامل ہے، شاہ محسنؔ داناپوری کو بھی فن رباعی سے خاصی دلچسپی ہے اور بڑے ہی استادہ فن کے ساتھ رباعی کہتے ہیں، ان کے کلیات میں ۴۱؍ رباعیاں موجود ہیں یہ تعداد اتنی قلیل بھی نہیں جن کی اہمیت سے انکار کیا جا سکے، اس تعداد کی روشنی میں ان کے ذوقِ رباعی نگاری کا بخوبی اندازہ لگتا ہے، ان کی رباعیوں میں بھی کثرت سے صوفیانہ رنگ موجود ہے جیسا کہ غزلوں میں موجود ہے ، تصوف ان کی شاعری کی خاص علامت ہے اور اس کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں۔
گر غور سے آئینۂ کثرت دیکھوں
بے پردہ ظہور شانِ وحدت دیکھوں
باقی نہ رہے خودی تو بے خود ہوکر
کونین میں بس ایک ہی صورت دیکھوں
دیگر
اکبر کا غلام بندۂ محسنؔ ہوں
میں آئینہ دار واجب و ممکن ہوں
گنجینۂ اسرار ہے سینہ میرا
ہاں عشق کی سرکار کا خازن ہوں
دیگر
کثرت سے ظہور شانِ وحدت دیکھو
ہاں غور سے تم آئینۂ قدرت دیکھو
ذرے میں ہے آفتابِ روشن پنہاں
اے دیکھنے والو! مری صورت دیکھو
دیگر
اے مالک بے نیاز شیئاً لِلہ
اے شاہ گدا فواز شیئاً لِلہ
خالی ہے یہ جھولی مری بھردے بھردے
دستِ کرم دراز شیئاً لِلہ
دیگر
دل میں ترے جلوؤں کی فراوانی ہے
آنکھوں میں ترا جمالِ نورانی ہے
اے مالک بے نیاز تیرے در پر
محسنؔ کی چمکتی ہوئی پیشانی ہے
دیگر
جو عشقِ محمد میں فنا ہوتا ہے
حاصل اسے سو لطفِ بقا ہوتا ہے
ابراروں کی منزل ہے یہ محسنؔ ہشیار
بندہ یوں ہی محبوبِ خدا ہوتا ہے
صنف رباعی کا ذکر آتا ہے تو عمر خیام کا نام پہلے زبان پر آجاتا ہے، اردو ادب عمر خیامؔ کی رباعی سے ہمیشہ متاثر رہا ،یہ حقیقت قابلِ قدر ہے کہ شاہ محسنؔ داناپوری نے رباعیاتِ خیام کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کا اثر قبول کیا ، خیام کے انداز کی روشنی میںشاہ محسنؔ کی چند رباعیاں ملاحظہ کیجیے۔
ہاں دیر نہ کر خلعتِ زیبا پہنا
اک رنگ ہو وہ جامۂ یکتا پہنا
جو تیرے بدن پر ٹھیک اترے پوشاک
مجنوں کو وہی لباسِ لیلیٰ پہنا
دیگر
کسی ناداں نے دیوانہ بنایا
کسی عاقل نے فرزانہ بنایا
مگر محسنؔ اچھوتی مئے پلا کر
مجھے ساقی نے مستانہ بنایا
دیگر
مقدر میرا شاہانہ بنایا
دلِ ویراں کو کاشانہ بنایا
میں اپنے ساقئی کوثر کے صدقے
کہہ مجھ کو پیرِ میخانہ بنایا
دیگر
مرے کم سن مبارک فال ساقی
میری پیکر میری تمثال ساقی
اچھوتی مئے کی میں بھی تاک میں ہوں
خدا کا نام لے کر ڈھال ساقی
دیگر
ساقی درِ میخانہ کو وا رہنے دے
رحمت کا یہ دروازہ کھلا رہنے دے
دل لایا ہوں اپنا رہنِ مئے کرنے کو
ہے میری گرہ میں اور کیا رہنے دے
ان مندرجہ بالارباعیات کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرتِ محسن کی رباعیوں میں کس غضب کی آمد ہے اور کس قدر تسلسل، روانی اور سادگی پائی جاتی ہے، وہ اس فن سے گہری واقفیت رکھتے جس سے ان کی پختگی اورمشاقی کا بھی پتہ چلتا ہے، ان رباعیوں میں نشۂ معرفت اور عشقِ حقیقی کا کتنا پرکشش انداز ہے۔
شاہ محسنؔ داناپوری کی رباعیوں میں مزاجی رنگ بھی موجود ہے ملاحظہ ہو۔
خوش بادہ کشوں کو آج کرنا ہوگا
دم ساقئی گلفام کا بھرنا ہوگا
ہاں دخترِ زر خوب نکھر کر آجا
شیشے میں پری بن کے اترنا ہوگا
دیگر
جب قصۂ ہجر طول ہو جاتا ہے
ہنستا ہوا دل ملول ہو جاتا ہے
آتی ہے شبِ وصل تو محسنؔ وہی دل
غنچہ کی طرح سے پھول ہو جاتا ہے
مخمس :-شاہ محسنؔ داناپوری نے مخمس بھی لکھے ہیں وہ اس فن سے بھی بخوبی واقف تھے، شاہ اکبرؔ داناپوری اور علامہ اقبالؔ کی غزلوں پر تین مخمس لکھے۔
مخمس میں ہم آہنگی اور ربط سب سے ضروری شرط ہے اور یہی اس صنف کی باریکی ہے، محسنؔ نے ہم آہنگی اور ربط کو بڑے فنکارانہ انداز میں برقرار رکھا ہے، مثلاً علامہ اقبالؔ کے شعر پر یہ خمسہ ملاحظہ کیجیے۔
بہار حسن ساقی دیکھ پیمانے کی آنکھوں سے
لہو بے ساختہ بہتا ہے دیوانے کی آنکھوں سے
کہ جیسے مئے ٹپک پڑتی ہے مستانے کی آنکھوں سے
ٹپک اے شمع آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے
سراپا درد ہوں، حسرت بھری داستاں میری
شاہ اکبرؔداناپوری کے شعر پر خمسہ ملاحظہ ہو۔
نگاہِ ناز تمہاری پسند ہے ہم کو
نظر فریب یہ برچھی پسند ہے ہم کو
یہ آبدار کٹاری پسند ہے ہم کو
تری نگاہ کی تیزی پسند ہے ہم کو
بس اب ہمارا گلا ہوگا یہ چھری ہوگی
مخمس کا انداز ملاحظہ کیجیےمحسوس نہیں ہوتا کہ آخری کے دو مصرعے کسی دوسرے شاعر کے ہیں کس خوبی کے ساتھ پہلے کے تینوں مصرعوں میں ضم ہوگئے، شاہ اکبرؔداناپوری کے شعر پر ایک خمسہ اور ملاحظہ کیجیے۔
سحر سازوں کی تو ہمراز ہے ظالم تری آنکھ
عاشقوں کے لیے غماز ہے ظالم تری آنکھ
مرغِ دل کہتا ہے شہباز ہے ظالم تری آنکھ
کس غضب کی قدر انداز ہے ظالم تری آنکھ
جو نشانے پہ چڑھا صاف اڑا دیتی ہے
قطعۂ تاریخ :-شاہ محسنؔ داناپوری کو قطعاتِ تاریخ لکھنے سے بھی دلچسپی رہی، صرف قطعات ان کے دیوان میں موجود نہیں، حضرت شاہ محمد اکبرؔابوالعُلائی داناپوری کے مرید و خلیفہ حضرت سیّدنثارؔعلی اکبرآبادی کی وفات پر گیارہ اشعار پر مشتمل قطعۂ تاریخ لکھا جس کا آخری شعر یہ ہے۔
مقامِ قبر میں پہنچے تو ناگہاں محسنؔ
لکھا یہ سال قلم نے ’’بخوابِ نار خلیل‘‘
۱۳۳۹ھ
ہفتہ وار’’ آگرہ اخبار ‘‘ کے مدیر اعلیٰ خواجہ صدیق حسین ابوالعُلائی سے حضرت محسن کے بڑے گہرے مراسم تھے، یہ حضرت اکبر کے صحبت یافتہ تھے، ان کی وفات پر انہوں نے فارسی میں قطعۂ تاریخ لکھا، آخری شعریہ ہے۔
رقم ذو از سر ’’ا‘‘ لہام محسنؔ
’’فنا فی الذاتِ او‘‘ تاریخِ رحلت
۱۳۶۱ھ
آپ کی وفات پر حضرت محسن نے ’’الموت کاسٌ کل الناس شاربہ ‘‘ کے عنوان سے ایک نظم بھی لکھی جس میں خواجہ صدیق حسین ابوالعُلائی کے اوصاف و محاسن اور دعائے مغفرت کا ذکر ہے۔
حضرت شاہ اکبرؔداناپوری کے دوسرے دیوان ’’ جذباتِ اکبر ‘‘ کی طباعت پر جہاں بہت سے شعرا نے قطعاتِ تاریخ لکھے وہی حضرتِ محسن نے بھی دو قطعاتِ تاریخِ طبع لکھے، پہلے قطعہ کا آخری شعر ہے ۔
طوطئی طبع چہک کر بولا
لکھ دو یہ ’’گلشنِِ فیاضِ ازل‘‘
۱۳۲۹ھ
دوسرے قطعہ کا آخری شعر ہے۔
لکھ دو اے محسنؔ یہی تاریخِ طبع
’’بوستانِ معرفت اچھا چھپا‘‘
۱۳۳۰ھ
حضرت شاہ حامدؔ حسین عظیم آبادی (سجادہ نشیں: درگاہ حضرت شاہ ارزاں، پٹنہ) سےبھی حضرت محسن کے گہرے تعلقات و مراسم تھے اور اکثر درگاہ کے مشاعروں میں تشریف لے جایا کرتے ،حامدؔ عظیم آبادی کے دیوان کی طباعت پر حضرت محسن نے جو قطعۂ تاریخ لکھا ہے اس کے آخری دو مصرعے یہ ہیں۔
لکھو محسنؔ یہ مصرعِ تاریخ
’’واہ کیا مخزنِ تصوف ہے‘‘
۱۳۳۱ھ
سہرا :-شاہ محسنؔ داناپوری سہرا نگاری کا بہت خوشگوار اور لطیف انداز جانتے تھے، انتخابِ الفاظ اور خیالات کی خوبصورت بندش میں ہر جگہ کشش نظر آتی ہے، سربلند جنگ مولانا محمد حمیداللہ کے صاحبزادے محمد اللہ کی شادی میں جو سہرا لکھا ہے اس کے چند شعر ملاحظہ کیجیے۔
ہر ایک بزم میں مشتاقِ دید بیٹھا ہے
ہے تاک میں نگاہِ انتظار سہرے کی
الٰہی پھولے پھلے باغِ دہر میں نوشاہ
ہوا بندھی رہے پروردگار سہرے کی
تمام بزم میں گونجی صدائے صلِّ علیٰ
مہک جو پھیل گئی بے شمار سہرے کی
اسی طرح بیرسٹر حافظ شیخ محمد داؤد، سیّد شاہ محمد منظورقمری المنعمی اور سیّد محمد وارث وغیرہ کی شادیوں کے مواقع پر بھی سہرے لکھے اور ہر سہرے میں ان کی استادانہ حیثیت کی جھلک ملتی ہے۔
رقعات :-شاعری کی زبان میں رقعہ نگاری کا رواج بہت قدیمی ہے ، اصنافِ شاعری میں اس صنف کو بھی اہمیت حاصل ہے، شاہ محسنؔ داناپوری کے کلیات میں تین رقعات شامل ہے اور تینوں میں رقعات کسی خاص آدمی کے نام ہیں، عام مخاطب کے طور پر ہیں، دو رقعات میں عشق و محبت اور مستئی چشتیت وابوالعلائیت کا اظہار ہے اور داناپور کے سالانہ عرس میں اپنے متعلقین ومتوسلین اور مریدین کو شرکت کرنے کی دعوت دی ہے ، خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ میں ہر سال چودھویں اور پندرھویں رجب کو بڑے اہتمام کے ساتھ حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کا سالانہ عرس ہوا کرتا ہے، شاہ محسنؔ داناپوری اہلِ سلسلہ کو خصوصی طور سے دعوت دیا کرتے تھے یہ دونوں خط دعوت نامہ کے طور پر ہے۔
تیسرا رقعہ آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا شاہ محمد ظفر سجاد ابوالعُلائی کی شادی کی دعوتِ ولیمہ سے متعلق ہے، ولیمہ میں عامِ دعوت کا ذکر ہے، رقعات کی زبان میں بڑی بے تکلفی اور مہارت جھلکتی ہے، تسلسل و روانی سے فن ظاہر ہوتا ہے۔
فارسی کلام :-کلیات کے آخر میں حضرتِ محسن کے چار فارسی کلام بھی موجود ہیں، کرم خوردگی کے سبب چوتھی غزل کی چند اشعار ضائع ہوگئے پڑھے نہیں جاتے اس لیے چوتھی غزل کو ادھورا ہی سمجھنا چاہیے۔
شاہ محسنؔ داناپوری بحیثیت نظم نگار :- شاہ محسنؔ داناپوری کے کلیات میں کئی انداز کی نظمیں شامل ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اس صنف سے بھی گہری دلچسپی تھی اور بڑی روانی و سلاست کے ساتھ نظمیں لکھ لیا کرتے تھے۔
۲۵؍ جنوری ۱۹۳۴ء کے زلزلہ میں مظفرپور، مونگیر، دربھنگہ، پٹنہ اور داناپور وغیرہ کی بھیانک تباہی پر سارا ہندوستان دہل کر رہ گیا تھا، اس قیامت خیز زلزلہ سے جہاں ہر طبقہ اور ہر قوم کے افراد متاثر ہوئے تھے وہیں ادبا و شعرا بھی بے حد متاثر ہوئے، شعرا کے جذبات و احساسات میں زبردست انقلاب پیدا ہوا اور تباہی زلزلہ سے متعلق ہر طرف تاثراتی کلام شائع ہونے لگے، سال دو سال کے اندر کافی نظمیں شائع ہوئیں، چند نظموں کی سرخیاں ملاحظہ ہوں۔
’’زلزلہ‘‘ کشتہؔ گیاوی ماہنامہ ندیم (گیا) مارچ۱۹۳۴ء
’’ وارداتِ زلزلہ‘‘ شفقؔ عمادپوری ماہنامہ ندیم (گیا) اپریل۱۹۳۴ء
’’ ستم دیدگاں مونگیر پر دو آنسو‘‘ عبدالغنی شمسیؔ ماہنامہ ندیم (گیا) اپریل۱۹۳۴ء
’’ پیغامِ جنوں‘‘ اخترؔ اورینوی ماہنامہ ندیم(گیا) اپریل۱۹۳۴ء
’’ مصیبت‘‘ سیّد متینؔ احمد ماہنامہ ندیم (گیا) جون۱۹۳۴ء
’’ بیانِ ہستی‘‘ شاہ مقصود ؔعالم ماہنامہ ندیم (گیا) ستمبر۱۹۳۴ء
’’ شامِ غربت‘‘ شفقؔ عمادی ماہنامہ ندیم (گیا) اکتوبر۱۹۳۴ء
’’ شانِ استغنٰی‘‘ اجتبٰیؔ حسین رضوی ماہنامہ ندیم (گیا) اپریل۱۹۳۵ء
’’ پیغامِ عمل‘‘ انجمؔ مانپوری ماہنامہ ندیم (گیا) اپریل۱۹۳۵ء
’’ قطعاتِ وفا‘‘ وفاؔ مونگیری ماہنامہ ندیم (گیا) مئی۱۹۳۵ء
اسی طرح اور بھی بہت ساری نظمیں لکھی گئی ہیں جن میں مختلف انداز بیاں سے زلزلہ کی تباہی کا ذکر کیا گیا ہے۔
آثارِ قیامت :- ’’ آثارِ قیامت ‘‘ کے عنوان سے ایک طویل نظم شاہ محسنؔ داناپوری نے بھی لکھی جس میں ۴۳؍ اشعار شامل ہیں، یہ صنفِ شہر آشوب کا بخوبی پتہ دیتی ،اس نظم میں کئی شہروں کی قیامت خیز تباہیوں کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے، گویا سارے مناظر نگاہوں کے سامنے گردش کرنے لگتے ہیں، اس حادثۂ عظیم کے پیشِ نظر شاعر نے اس حقیقت کی طرف خصوصیت کے ساتھ اشارہ کیا ہے کہ دنیا ایک سرائے فانی ہے اور ہر چیزفنا ہو جانے کے لیے ہے،اس زلزلہ سے پہلے کون جان سکتا تھا کہ چند گھڑیوں میں اتنی بڑی تباہی آن پڑے گی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں افراد موت کے گھاٹ اتر جائیں گے، بڑی بڑی عمارتیں، محلات، مسجدیں، مدرسے اور مندریں سب زمین بوس ہوئے اور جنہیں اپنی دولت، شہرت اور غیرت پر ناز تھا غرور تھا ان لوگوں کو بھی زلزلے نے برباد کیا، شاہ محسنؔ داناپوری نے اس زلزلہ کو انسانوں کی غفلت و گمراہی کا نتیجہ بھی بتایااور عبرت کی نشانی بھی، لہٰذا مسلمانوں کو خدا کی یاد اور اپنے اعمالِ حسنہ سے کبھی غافل نہیں رہنا چاہیے انسانوں کے اعمالِ بد ہی ان کی تباہی کا نتیجہ ہوتے ہیں، فرماتے ہیں۔
مقصود زلزلہ سے تنبیہ تھی تمہاری
یا نیتی کا خاکہ منظور تھا دکھانا
شاہ محسنؔ داناپوری اس زلزلہ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اسے آثارِ قیامت سے تعبیر کیا اور اسی کو اپنی نظم کا عنوان بنایا، نظم کی پوری فضا متاثر کی ہے اور اندازِ بیان میں فن پوشیدہ ہے، راقم کے خیال سےشاہ محسنؔ داناپوری کی اس نظم کو بہترین نظم کہا جاسکتا ہے۔
فغانِ درویش :-مسدس کے رنگ میں ’’ فغانِ درویش‘‘ بھی حضرت محسن کا ایک شاندار شعری مرقع ہے اور ان کے نظمیہ فن کو مزید واضح کرتا ہے اس نظم کا طرزِبیان ناصحانہ اور بیانیہ ہے جس میں بہت ہی قیمتی اور پاکیزہ مقصد پوشیدہ ہے، تاریخ کی روشنی میں حضرت محسن نے یہ واضح کرنا چاہا ہے کہ آج مسلمان اپنی اسلامی تاریخ اور عظمتِ دیرینہ سے غافل ہوتا جا رہا ہے اور جسے اپنے اسلاف سے کوئی دلچسپی نہ رہ گئی نہ وہ جذبۂ ایمانی برقرار ہے نہ ہی حرارتِ اسلامی، ہمت واستقلال، شان وعظمت اور زہد و تقویٰ سب چیزوں کومسلمانوں نے بھلا دیا، شاہ محسنؔ داناپوری نے مسلمانوں کو للکارا ہے کہ اپنی تاریخ کو دوہراؤ اور عظمتِ رفتہ سے ایک بار پھر وابستہ ہوجاؤ، ایک زمانہ تھاکہ جاں نثارانِ مصطفیٰ مئےوحدت کے نشہ میں اس قدر سرشار و متوالے تھے کہ دنیا کی بڑی سی بڑی حکومت بھی ان کی شجاعت سےتھر تھرایا کرتی تھی، حضرت عمرفاروق، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت خالد بن ولید، حضرت عمرو بن عاص اور حضرت حنظلہ وغیرہم جیسے باوقار و باحوصلہ جاں نثاروں نے نہ جانے کتنی حکومتوں پر قبضہ کیا اور اسلام کا پرچم بلند کیا، حضرت محسن فرماتے ہیں۔
یہ ان کے کارنامے ہیں حقیقت میں جو انساں تھے
فدائے ملک وملت تھے بڑے پکے مسلماں تھے
علم بردار تھے اسلام کے پابندِقراںتھے
محمد مصطفیٰ کے شیر تھے یا شیرِ یزداں تھے
نظر ڈالو پھر ان کے کارناموں پر نظر ڈالو
مسلمانوں پھر ان کے کارناموں پر نظر ڈالو
جب مسلمانوں میں محبت تھی شجاعت تھی اور ان کے دلوں میں حرارت ایمانی جلوہ گر تھی تو ساری دنیا ان کے آگے سرنگوں رہا کرتی تھی اور جب دل پر موت کا خوف ہونے لگا ہمت و استقلال سینے سے رخصت ہونے لگا اور دنیا کی حرص وہوس بڑھنے لگی تو مسلمانوں کی بربادی کے اسباب بھی مہیا ہونے لگے، آج ساری دنیا میں مسلمانوں کا جو کردار نظر آ رہا ہے وہ تاریخِ اسلام کے بالکل برعکس ہے، سروں پر ہر وقت تباہی کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں مگر کردار و عمل کا کچھ بھی محاسبہ نہیں کیا جاتا ہے، خود اعتمادی اور حوصلۂ ایمانی بتدریج ماند پڑتی جارہی ہے۔
حضرت محسن نے اس نظم کے ذریعہ مسلمانوں کو اپنی عظمتِ رفتہ کی یاد تازہ کرانا چاہی ہے، مسلمانوں کی سب سے عظیم دولت یہ ہے کہ اس کے پاس حقائق کی ناپیدا کنار روشنی ہے اور وہ ان حقائق کی روشنی سے روگردانی کر رہا ہے، حضرت محسن کے نزدیک یہ بڑے صدمہ و افسوس کی بات ہے وہ بارگاہِ خداوندی میں مناجات کرنے لگتے ہیں۔
الٰہی ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں ہم ترے آگے
کریں گے آج اپنی قوم کا ماتم ترے آگے
دکھانے آئے ہیں یہ زخم بے مرہم ترے آگے
کہ دوہرانا ہے اپنا قصۂ پُرغم ترے آگے
الٰہی بن کے جو بگڑے ہیں ان کی دستگیری کر
پھر ان ناچیز ذروں کو عطا روشن ضمیری کر
اس نظم میں خلفائے راشدین کی بہادری اور ان کے فضائل پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اس کے علاوہ اسلام کے متعدد واقعات و حالات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
اندازِبیان اگرچہ بہت معیاری نہیں ہے اور نہ ہی اس میں شوکتِ الفاظ کی کثرت ہے تاہم روانی و سادگی کی کشش کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جس واقعہ کا بھی ذکر کیا ہے بڑے واضح انداز میں کیا ہے اس نظم کو پڑھنے کے بعد تاریخ دیرینہ کی بہت ساری یادیں نگاہوں کے سامنے گردش کرنے لگتی ہے۔
ماہِ مبارک کا خیر مقدم :-یہ نظم ماہ رمضان کی فضیلت و برکت سے متعلق ہے، اسلام کے مہینوں میں اس سے زیادہ خیر و برکت والاکوئی مہینہ نہیں، رمضان کی آمد پر ساری فضا ایمانی نظر آنے لگتی ہے جیسے معلوم ہو ہر طرف نور و نکہت کے جلوے پھیل رہے ہوں اور رحمت و برکت کی برسات ہو رہی ہو۔
حضرت محسن اپنی اس نظم میں ایک جگہ فرماتے ہیں۔
خیر و برکت کے بادل برسنے لگے
رحمتِ حق کے چشمے ابلنے لگے
روزہ داروں کے چہرے چمکنے لگے
خضر تر دامنوں سے یہ کہنے لگے
بابِ رحمت کھلا بابِ رحمت کھلا
مرحبا مرحبا، مرحبا مرحبا
رمضان المبارک کی طاق راتیں جو شبِ قدر کہلاتی ہیں ان راتوں میں عبادت کرنا اور بارگاہِ خداوندی میں سربسجود ہوکر اشکِ ندامت بہانا بڑے نصیب کی بات ہے، ماہِ رمضان میں چونکہ وہ مقدس راتیں بھی ملتی ہیں، لہٰذا حضرت محسن فرماتے ہیں۔
ہے شبِ قدر کی آمد آمد کی دھوم
آسمانوں پہ ہے قدسیوں کا ہجوم
اپنی آنکھیں بچھائے ہوئے ہیں نجوم
نوریوں کی زبانوں پہ ہے بالعموم
عرش سے فرش تک جگمگانے لگا
مرحبا مرحبا، مرحبا مرحبا
نظم کی پوری فضا متاثر کی ہے اندازِ بیان میں سادگی و دلکشی ہے۔
صوفیانہ شاعری :-صوفیائے کرام کی عظیم انسانی خدمات اور ان کے ذہنی و فکری عوامل پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے اثرات اور کارناموں کا سلسلہ کتنا دراز ہے اور ان کی فاتحانہ عظمتوں کی دنیا کس قدر وسیع ہے ،حقیقی تقاضوں کا وہ کون سا حصہ ہے جو ان کی جلوہ گری سے فیضیاب نہیں ہوا، عرفان و آگہی اور حق و صداقت کا ہر جگہ اظہار کیا اور جلا بخشنے کے لیے عملی کردار کا دلیرانہ ثبوت پیش کیا، صوفیائے کرام نے اپنے تذکیۂ نفس اور اپنی تعلیمات کے ذریعہ نہ صرف عوام اور خواص کو اپنا گرویدہ بنایا نہ صرف لوگوں کے ظاہر و باطن کو معرفت کی شراب پلائی بلکہ قلم اٹھایا تو اس میں بھی اک انقلاب پیدا کرکے دکھا دیا، ہندوستان کے صوفی شعرا نے اردو زبان و ادب اور شعر و شاعری پر بے پناہ احسانات کیے، یہ حقیقت ہے کہ اردو زبان و ادب کی ساخت و پرداخت اور نشوونما صوفیائے کرام ہی کہ مرہونِ منت ہے جس کے کے لیے انہوں نے راہ بھی نکالی اور راہ بھی بنائی، صوفیائے کرام کی کوشش سے پہلے اردو کو کوئی جانتا بھی نہ تھا چونکہ اردو شاعری کا ابتدائی اور بنیادی مزاج صوفیا ہی کا وضع کردہ ہے اس لیےاس کا خمیر بھی تصوف ہی سے تیار ہوا اور یہی وجہ ہے کہ اس میں متصوفانہ و عارفانہ عناصر زیادہ غالب ہیں،اردو شعر و ادب کا سب سے عظیم سرمایہ آج بھی تصوف اور جمالیاتی تصورات و محسوسات کے طور پر محفوظ ہے۔
صوفیانہ شاعری کے ضمن میں ایک بات یہ بھی آتی ہے کہ چونکہ صوفیانہ یا تقلیدی شاعری کا مزاج ہمیشہ عام رہا ہے اور سب کی پیکر تراشی بھی تقریباً ایک دوسرے سے ملتی رہی ہے اس لیے بنیادی طور پر ان میں صوفی شعرا تو کم نظر آتے ہیں مگر ان شعرا کی تعداد زیادہ ہے جو تقاضوں اور ماحول و تربیت کے زیرِ اثر صوفیانہ شاعری کی طرف مائل ہوئے اور بغیر تخیئلی و فکری تضاد کے عارفانہ شاعری کا حق ادا کیا، صوفی شعرا کی وہ جماعت بڑی مختصر مگر قابل قدر ہے جنہوں نے رشد و ہدایت پر براجمان اور سجادۂ اسلاف پر رونق افروز رہتے ہوئے صوفیانہ شاعری کے دریا بہائے اور رموزی طرز افکار سے اردو زبان کی پرورش کی، اردو کے ایسے صوفی شعرا نے اپنی تخیئلی بلندی اور عرفان و آگہی کی روشنی میں جمالیاتی شاعری کو بھرپور فروغ دیا اور اس قابل بنا دیا کہ اردو زبان تصوف کی ہمیشہ مرہون منت رہے گی، چنانچہ انہیں شعرا کی صف میں شاہ محسنؔ داناپوری کا بھی نام آتا ہے، شاہ محسنؔ داناپوری نے مذہبی ماحول میں آنکھیں کھولیں، بزرگوں کی صحبت پائی اسلاف کے سجادہ پر جلوہ افروز ہوئے اور درویشانہ و قلندرانہ زندگی گذارنے کی سعادت حاصل کی، ایسے ماحول میں عارفانہ و صوفیانہ شاعری سے دلچسپی رکھنا عین فطری تقاضہ تھا۔
ڈاکٹر محمد طیب ابدالی ’’اردو میں صوفیانہ شاعری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
’’اردو میں صوفیانہ شاعری بالخصوص صوفیانہ غزلوں کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو دو مکتبۂ فکر کے شعرا نظر آتے ہیں اگرچہ ان کے افکار و تخیل میں کوئی فرق یا تضاد نہیں لیکن عملی طور پر مختلف نظر آتے ہیں، ایک تو وہ بھی جو عملی طور پر مسندِ سجادگی پر فائز ہوکر رشد و ہدایت کا درس دیتے تھے اور کوائف داخلی، سوز و روانی اور عشقِ حقیقی کو اشعار کے قالب میں ڈھالتے، ان کے محسوسات اور تجربات میں ان کا عملی پہلو رہتا، ان کے دل پر جو کیفتیں گذرتیں ان سے بے قابو ہوکر حالتِ اضطراب میں اس کا اظہار کرتے،سجادگانِ طریقت کی شاعری میں اسی حقیقت کی ترجمانی ہے، اردو کے صوفی شعرا جو مسندِ سجادگی اور ارشادِ طریقت پر فائز رہے ان میں حضرت شاہ کمالؔ دیوروی، مظہرؔ جانِ جاناں، غلام نقشبند سجادؔ، رکن الدین عشقؔ، خواجہ میر دردؔ، آیت اللہ جوہریؔ، نورالحق طپاںؔ، نیازؔ بریلوی، ترابؔ علی قلندر، فردؔ پھلواری، وجدؔ بہاری، فانیؔ گیاوی، شوقؔبہاری، آسیؔ غازیپوری، صوفیؔ منیری، شاہ اکبرؔداناپوری، عاصیؔ قادری، رضاؔ فاضل بریلوی، مرشدؔ قادری، کاملؔ اسلامپوری، محسنؔداناپوری اور فانیؔ گورکھپوری اپنے صوفیانہ اشعار اور عارفانہ کلام کے آئینہ میں گراں قدر اور ممتاز نظر آتے ہیں‘‘ (ص؍۶۸)
شاہ محسنؔ داناپوری کے کلیات میں حمد و نعت کا کوئی باب نہیں لیکن عشقِ حقیقی، رنگِ معرفت اور جمالیاتی احساسات و جذبات سے ان کا کلیات جگمگاتا ہوا دکھائی دیتا ہے وہ ایک شیخِ طریقت اور خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ، داناپور کے سجادہ نشیں تھے، انہیں اپنے ایمانی دل پہ ناز تھا جو ہر وقت یادِ خدا اور یادِ رسول سے معمور رہتا ہے، فرماتے ہیںکہ
جس دل کی فرشتوں کو تمنا تھی ہوس تھی
وہ درد بھرا دل مجھے بخشا ہے خدا نے
اور یہی وہ درد بھرا دل ہے جو خدا کی یاد اور اس کی کبریائی کا وظیفہ پڑھا کرتا ہے۔
تیری ہی یاد سے آباد رہا خانۂ دل
بیٹھتے اٹھتے ہمیشہ تو مجھے یاد آیا
مذہبِ عشق میں جینا ہے انہیں لوگوں کا
جن کو ہر وقت ترا دھیان تری یاد رہے
بشارت ہے اسی کے واسطے قرآن میں محسنؔ
جو پچھلی رات میں اُٹھ کر خدا کو یاد کرتا ہے
بزرگوں درویشوں اور شب زندہ دار ولیوں کا یہ طرۂ امتیاز رہا ہے کہ رات کی خاموش تاریک تنہائیوں میں جبکہ زمانہ سوتا رہتا ہے، یہ خدا کے نیک بندے ساری ساری رات عبادت و ریاضت اور تذکیۂ نفس میں مشغول رہتے ہیں اور یادِ خدا میں آنسو بہایا کرتے ہیں،جذبۂ ایمانی کا نتیجہ ہی تو ہے کہ ایک صوفئی باصفا کا دل شرابِ معرفت سے سرشار اور عشقِ رسالتِ مآب میں دیوانہ ہو جاتا ہے، وہ تمناؤں اور حسرتوں کی آنچ میں جلنے لگتا ہے اس کی آرزو ہوتی ہے کہ سرمست شرابِ الااللہ ہو جائے اور نورِ معرفت میں ڈوب کر فنا ہو جائے۔
شاہ محسنؔ داناپوری کا جذبہ ملاحظہ کیجیے۔
مولیٰ تری رحمت کے قرباں بندوں پہ یہ لطف بے پایاں
دیتا ہے سروں پہ سایہ فگن دامان سحابِ الااللہ
جو بادۂ الفت پیتے ہیں وہ پی کے ہی مئے جیتے ہیں
محسن ؔ بھی الٰہی ہو جائے سرمستِ شرابِ الااللہ
دل میں ہو تیری جگہ آنکھوں میں ہو تیرا مقام
کھینچ لے اپنی طرف اے نورِ یزدانی مجھے
اور کوئی بھی غریق نورِ الٰہی اس وقت تک نہیں ہو سکتا ہے جب تک کہ گرفتار گیسوئے محبوبِ کردگار نہ ہو جائے، صوفیائے کرام کی ساری زندگی حیاتِ رسول کی آئینہ دار اور ان کی پیروی کی عملی تصویر ہو اکرتی ہے، وہی صاحبِ حق و صفا اور بندۂ خداشناس ہے جو حبیبِ خدا کے در کا غلام اور گرفتارِ عشق و محبت ہے، شاعر جب عقیدت و محبت کے اس جذبے کی طرف بڑھتا ہے جو زبان کچھ عرض کرنے سے گھبرانے لگتی ہے، کہاں مالکِ دو جہاں کی موجِ تمنا اور کہاں بندۂ عاجز کی یہ نادار زباں پھر اظہارِ عاجزی کے طور پر شاعر دفعتاً کہہ اٹھتا ہے۔
کروں محسنؔ ثنائے شاہِ لولاک
زباں میں میری طاقت کہاں ہے
مگر وقورِ شوق اور جذبۂ محبت کا بھی اپنا تقاضہ ہوا کرتا ہے، یادوں کے بھڑکتے ہوئے شعلے دل سے باہر آجانے کو تڑپ جاتے ہیں اور جذبات و احساسات کی سطح پر خراجِ عقیدت کے چشمے اُبلنے لگتے ہیں، یہ چشمہ کبھی دریا بن جاتا ہے تو کبھی سمندر کے روپ میں دکھائی دینے لگتا ہے،ذکرِ محبوب کی بات آتی ہے تو اشہدان لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ کو کتنی عقیدت کے ساتھ شعر کے قالب میں ڈھالیتے ہیں۔
ہم ورد کرکے اشہد ان لاالہ کا
لیتے ہیں نام سیّدِ عالم پناہ کا
آمدِ رسول پر شاہ محسنؔ داناپوری اپنے جذبات کا اظہار یوں کرتے ہیں۔
حضور لائے تشریف اے زہے قسمت!
زمیں پہ عرشِ معلیٰ غریب خانہ ہوا
آمدِ رسول پر فرشِ خاکی کی ایسی قسمت جاگی کہ عرشِ معلیٰ غریب خانہ سا محسوس ہونے لگا شاعر کی عقیدت کا حوصلہ دیکھیے کہ کسی کے صدقے میں کسی کی نسبت سے وہ خود اپنے نورانی دل کو کس انداز سے عرشِ اعظم سے تعبیر کرتا ہے۔
اگر اس مہرِ عالمتاب کی جلوہ گری ہوگی
تو اس دل پر فلک کو عرشِ اعظم کا گماں ہوگا
یہ حقیقت ہے کہ دیوانۂ حبیب کے سینے میں عقیدتوں کا طوفان ہوتا ہے وہ تصورات و خیالات کی دنیا میں ہر وقت کھویا رہتا ہے، ایک صوفی عشقِ مصطفیٰ کی گہرائی میں جتنا ڈوب سکتا ہے عام انسانوں کے بس کی بات نہیں، وہ رسولِ کریم کی حیاتِ طیبہ کو ہر وقت اپنی نگاہوں اور اپنے تصور کے سامنے رکھنا چاہتا ہے، اسوۂ حسنہ کے عملی کردار سے سرشار رہنا چاہتا ہے اور ہر لمحہ التجا کرتا ہے۔
ہم ہیں شرابِ عشق جناب سے مست
یارب کبھی اتار نہ ہو اس خمار کا
عشقِ رسالت ہی زندگی ہے اور یہی حاصلِ ایمان بھی، یہی وہ دولت ہے جس کی تجلیوں سے دل کی تاریکی دور ہوتی ہے، حق شناسی و حق پرستی کے انداز ملتے ہیں اور معرفت و آگہی کا وہ مقام بھی مل جاتا ہے جس کی تلاش میں صوفیا برسوں تذکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کیا کرتے ہیں، شاعر مختلف پیرائے میں جلوۂ حسنِ مصطفیٰ کی عظمت کا یوں اظہار کرتا ہے۔
مہرِ عرب دیکھ کر بولا بصد ادب قمر
غیرتِ ماہتاب ہو روکش آفتاب ہو
ہے شمع عشق روئے نبی دل میں جلوہ گر
روشن اسی سے اپنا سیہ خانہ چاہیے
دیکھا ہے جس نے چشمِ بصیرت سے آپ کو
وہ حق شناس صاحبِ عرفان ہوگیا
یا رسول اللہ بے شک آپ ہیں نورِ خدا
جس نے دیکھا آپ کو بس حق کا نظارا کیا
بخدا جس نے جمال شہِ بطحا دیکھا
اس نے گھر بیٹھے ہوئے طور کا جلوا دیکھا
قدرت کا آئینہ ہے رخِ پاکِ مصطفیٰ
جس کی نظر پڑی وہی حیران رہ گیا
یہی جمالِ مصطفیٰ کی وہ برکت ہے جس کی بنیاد پر شاعر کو اپنی لگن توجہ اور تڑپ پر فخر ہونے لگتا ہے اور احساسات کی تہوں سے ایک ایسا جذبہ بھی ابھر پڑتا ہے جو نہ صرف آنسوؤں کا حوصلہ ظاہر کرتا ہے بلکہ عقیدتوں کی مختلف تصویر بھی پیش کرتا ہے، یہ حقیقت ہے کہ عشقِ حقیقی کا والہانہ پن جب سینے میں جاگ جاتا ہے تو احساس معصیت اور لگاؤ کی شدت زیادہ ہو جاتی ہے اور عاشقِ رسول آنسوؤں کی جھڑی کو آبشار میں تبدیل کر دینا چاہتا ہے، شاہ محسنؔ داناپوری کہتے ہیں۔
دوزخ کو آنسوؤں کی جھڑی سے بجھائیں گے
رکھتے ہیں وہ لگاؤ شہِ بحر و بر سے ہم
مدینہ منورہ کی عظمت :-مدینہ منورہ ساری دنیا کی مرجعِ عقیدت و برکت اور ساری دنیا کے لیے روحانی مرکز ہے، گنبدِ خضریٰ کی چھاؤں میں رسول اللہ ﷺ آرام فرما ہیں، جہاں ۷۰؍ہزار فرشتے روزانہ حاضر ہوکر نذرانۂ درود و سلام پیش کرتے ہیں، شاہ محسنؔ داناپوری فرماتے ہیں۔
ہر عاشقِِ نبی کو ہر غوث ہر ولی کو
طیبہ کی لو لگی ہے طیبہ آرزو ہے
ہے طیبۂ اقدس کا دل میں شوق
محسنؔ نہیں ہے خواہش قصرِ جناں مجھے
خواہش قصرِ جناں کی کیا حقیقت ہے جب تک کہ دل میں طیبہ کی عقیدت نہ ہو، اس عقدہ پر سبھی کا اتفاق ہے کہ جنت سے زیادہ محترم و معظم طیبۂ اقدس ہے کیونکہ نہ ہمارے آقا تشریف لاتے اور نہ جنت مسلمانوں کے حصہ میں آتی، عشقِ رسالتِ مآب کے بغیر جنت کا تصور فضول ہے۔
بھول کر دیکھے نہ محسنؔ باغِ جنت کی طرف
دیکھ لے رضوان اگر گلزارِ طیبہ کی طرف
مدینہ باغِ جنت، چاہِ زمزم، چشمۂ کوثر
ہیں سب کچھ تو ہے پھر خواہش باغِ جناں کیوں ہو
مسلمانانِ عالم کی طرح شاہ محسنؔ داناپوری بھی دیدارِ مدینہ کے لیے تڑپ اٹھے اور کہنے لگے۔
جاتا ہے مدینہ کو اب قافلہ مکہ سے
کیا بیٹھے ہو اے محسنؔ سامانِ سفر باندھو
اللہ کے حبیب کے در کا فقیر ہوں
میرا سوائے طیبہ کہیں اور گھر نہیں
زیارتِ حرمین شریفین کی باریابی بندۂ مؤمن کے مقدر کو نگینہ بنا دیتی ہے وہ سارے مناظر کو اپنی آنکھوں اور اپنے سینے میں سمیٹ لینا چاہتا ہے وہ دیارِ مصطفیٰ میں خواہ جتنی مدت تک رہے مگر ساری مدت ایک لمحہ سے زیادہ نہیں محسوس ہوتی اور بار بار حاضری دینے کا اشتیاق بڑھتا جاتا ہے، یہ تمنا ہر مؤمن کے دل میں رہتی ہے کہ یا الٰہی ہم کہیں رہیں موت مدینہ میں آئے اور تیری رحمت کی پناہ میں جگہ نصیب ہو، حضرت محسن کو اپنے آقا کی قربت و رحمت پر کتنا اعتماد ہے فرماتے ہیں۔
زمیں کے نیچے ہی نیچے خدا کی قدرت ہے
سوئے مدینہ یہ لاشہ مرا روانہ ہوا
بخشش و مغفرت :-اللہ کے نیک بندے اگر احساسِ معصیت پر پشیماں ہوتے ہیں تو دوسری طرف بخشش و کرم کی امید بھی رکھتے ہیں، لاکھ خطاکارگناہ گارسہی مگر د امانِ مصطفیٰ پر ناز ہے کہ سُرخرو ہوکر رہے گا، رسالتِ مآب کی محبت اور ان کی نظرِ عنایت کے پیشِ نظر خوفِ قیامت باقی نہیں رہ جاتا۔
حضرت محسن بارگاہ رسالت مآب میں عرض کرتے ہیں۔
ہم کو خورشیدِ قیامت کا ہے کیا ڈر واعظ!
شافعِ روز جزا کے تہہِ داماں ہوں گے
یَا حَبِیْبِ اِلَہٖ خُذْ بِیَدِیْ
مرتے دم یہ زبان سے نکلا
لیتے ہی اسمِ پاکِ رسالت پناہ کا
خواب و خیال ہوگیا کھٹکا گناہ کا
سبزِ گنبد میں ہے مہرِ رسالت جلوہ گر
حشر کے دن و شفیع عاصیاں ہونے کو ہے
یوں ہی حشر میں بخشوانا محمد
کہ لپٹے ہوئے ہیں تمہارے قدم سے
سوا نیزے پہ سورج آکے جب محشر میں چمکے گا
ردا اپنی اڑھا دیںگے شفیعِ عاصیاں مجھ کو
تونے کرم سے بخش دیا بات رہ گئی
پردہ کھلا نہ حشر میں مجھ روسیاہ کا
معراج شریف :- حضرت رسول اللہ کی معراج کا ذکر مختلف انداز و پیرائے میںشاہ محسنؔ دناپوری اس طرح کرتے ہیں۔
آمد ہے کسی رشک گلستانِ آدم کی
آراستہ ہے اس لیے فردوسِ بریں آج
محبوبِ خدا جاتے ہیں ملنے کو خدا سے
ناز اپنے مقدر پہ کرے عرشِ بریں آج
ہر چند بشر ہے خاک بسر لیکن ہے فلک سے افضل تر
جبرئیل جہاں تک جا نہ سکے رف رف پہ وہاں انسان گیا
معجزۂ شق القمر :-
معجزہ کہتے ہیں اس کو یہ نبی کی شان ہے
ماہِ تاباں اک اشارے میں دوپارا ہوگیا
جب چاند ہوا تھا دو ٹکڑے انگلی کے اشارے پر تیرے
سورج بھی اسی دن سے تجھ کواے مہر عرب پہچان گیا
اہلِ بیت :- اہلِ بیت سے محبت مسلمانوں پر فرض ہے جو اہلِ بیت کا دوست وہ رسول اللہ کا دوست اور جو رسول اللہ کا دوست وہ اللہ کا دوست۔
شاہ محسنؔ داناپوری کو اہلِ بیت سے بے پناہ عقیدت و محبت ہے، انہیں آلِ عبا کی قربت دانست پر ناز ہے اور اپنی اس سعادت مندی و فیروز بختی کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
ہمارے ہاتھ میں آلِ عبا کا دامن ہے
یہی وسیلہ ذریعۂ نجات کا ہو جائے
محسنؔ وہ قلبِ ہمسر عرشِ عظیم ہے
ہو عشقِ اہلِ بیت کی جس دل میں بود وباش
پایا ہے ازل سے یہ شرف آلِ عبا نے
ناداروں کو ملتے ہیں اسی در سے خزانے
اہلِ بیت مصطفیٰ کیوں کر نہ ہوں شاہوں کے شاہ
کھانا مسکینوں کو دیا اور خود فاقہ کیا
اب ہے امید ہمیں اپنی سیاہ کاریوں سے
حشر میں آلِ عبا کے تہہِ داماں ہوںگے
قدم آلِ عبا کے جب لیا کرتا ہوں میں محسنؔ
مرے سر پر ردائے احمدِ مختار ہوتی ہے
شاہ محسنؔ داناپوری صوفی تھے اور صوفیوں کو حضرت علی مرتضیٰ سے خصوصی اور گہری عقیدت ہوا کرتی ہے اور آپ کے فضائل اور اوصاف کا وظیفہ ہر وقت پڑھا کرتے ہیں، آپ نے حضرت علی کی شان میں ایک منقبت بھی کہی ہے جو زینتِ کلیاتِ محسن ہے، اس کا مطلع یہ ہے۔
شوق ہے آنکھوں کو دیکھیں حسن روئے بو تراب
جذبۂ دل کھینچ لے چل سوئے کوئے بو تراب
اس کے علاوہ مختلف جذبات و احساسات میں ڈوبے ہوئے اشعار ان کے کلیات میں جابجا موجود ہیں، جن میں عقیدت و محبت کا والہانہ پن بھی ہے اور عشقِ اہلِ بیت کی وہ چنگاری بھی جو شاعر کے سینے سے باہر نکل آنا چاہتی ہے۔
یا علی! بہرِ خدا مجھ پر بھی ہو چشمِ کرم
میں ہوں بندہ آپ کو اللہ نے مولیٰ کیا
آ میرے دل میں جلوہ گر پھر نہ بو تراب ہو
پھر مری چشمِ منظر محوِ رخِ جناب ہو
کفشِ رسولِ پاک تاج ہو سر پہ حشر میں
ہاتھوں میں خاکسار کے دامنِ بو تراب ہو
ڈر ہے عذابِ قبر کا محسنؔ اسے نہیں
جو مردِ حق غلام شہِ بوتراب ہو
ہماری خاک ہے وہ خاک محسنؔ
علی کا نور جس میں جلوہ گر ہے
جو عاشقِ جمالِ شہ بوتراب ہے
مقبولِ بارگاہِ رسالت مآب ہے
آ کے دل کی کلی کھلا ہی گئی
مرتضیٰ و مصطفیٰ کی یاد
آئینۂ علی کو دیکھو حسنِ محمد کو دیکھو
کر کے نثار جان و تن عاشقِ سرفراز بن
شاہ محسنؔ داناپوری صاحبِ کیف و وجد صوفی تھے، محفلِ سماع میں ان پر کیف بھی طاری ہوتا تھا ان کی یہ غزل جب قوال پڑھتے تو وہ کیف میں آجاتے تھے، ڈاکٹر کلیم احمد عاجزؔ ایک خط میں لکھتے ہیں کہ
’’خانقاہ داناپور میں جب حضرت شاہ صاحب کی غزل ’’اے دل پُر سرورِ من ناز نہ بن نیاز بن‘‘ قوال شروع کرتا تھا تو حضرت شاہ محسنؔ صاحب کھڑے ہوکر ساکت ہو جاتے تھے اور رخساروں پر آنسوؤں کی لڑی بکھرنے لگتی تھی، اب ان فضاؤں کو آنکھیں ترستی ہیں، دل منتظر اور مضطرب رہتا ہے مگر اب وہ کہاں‘‘
رسول اللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
’’حسن و حسین دنیا سے میرے دو پھول ہیں‘‘
اس حدیث شریف کو سامنے رکھتے ہوئے حضرتِ محسن کتنی عقیدت کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔
دل میں کھلے ہیں عشقِ حسین و حسن کے پھول
محفوظ ہیں خزاں سے ہمارے چمن کے پھول
حسین ابنِ علی جب دستگیری آکے کرتے ہیں
مری تلوار تیغِ حیدرِ کرار ہوتی ہے
شاہ محسنؔ داناپوری کے مشاہدات و تجزیات اور ذہنی وسعتوں کے پیشِ نظر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کی بلیغ تصوفانہ علائم و مزاح سے کتنی گہری وابستگی رکھتی ہے اور ان پر صحبتِ صوفیا کا کتنا مخصوص اثر غالب ہے، ان کی شاعری میں معرفت تجلئی الٰہی کا دریا موجزن ہے جو تصوف کے اسرار و رموز اس کے بنیادی اصول و شہور اور اصطلاحات و کوائف کے نمونے پیش کرتی ہے ان کی شاعری میں تعلیماتِ فنا و بقا کی روشنی بھی ہے اور تصورِ شیخ کی عظمت کی جلوہ گری بھی۔
اور یہ جمالِ الٰہی ہے جو شاہ محسنؔ داناپوری کو بھی ہر طرف اور ہر چیز میں نظر آتا ہے اور وہ حسنِ خداوندی کے جلوؤں سے شاد کام دکھائی دیتے ہیں معرفتِ عشق و محبت کے سلسلے میں ایک صوفیٔ باصفا کا جو مسلک ہوتا ہے اسی مسلک کی تابانیوں کے حضرتِ محسن بھی دیوانے نظر آتے ہیں اور ان کی شاعری اسی عشق کی ترجمانی کرتی ہے بقول شیخ سعدیؔ
سعدیؔ حجاب نیست تو آئینۂ صاف دار
محبت کا سارا مدار آئینہ ہی پر ہے ایک صوفی کے نزدیک آئینہ دل کی صفائی سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں، تذکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب ہی اس کی دولت ہے یہی وجہ ہے کہ شاہ محسنؔ داناپوری نے اپنے دیوان کا آغاز آئینہ سے کیا ہے۔
آئینہ سامنے رکھ کر یہ تماشا دیکھا
اپنی صورت میں ترے حسن کا جلوا دیکھا
وسعتِ دید حسنِ خداوندی کا اظہار اس طور پر بھی ہے جو فنا فی العشق کا تصور پیش کرتا ہے اور بتدریج حجابات اٹھتے ہوئے دکھائی دینے لگتے ہیں۔
اٹھ گیا پردہ دوئی کا غیر کا مذکور کیا
مجھ کو ہرشے میں نظر آتا ہے جلوہ یار کا
ہے حقیقت میں بشر قطرۂ ناچیز مگر
موجِ زن ہم نے اسی قطرے میں دریا دیکھا
ہر اک نظر میں ہے نور تیرا ہر ایک دل میں ہے جلوہ گر تو
نگاہِ حق میں جو ہو ہماری تو پھر جدھر آنکھ اٹھے خدا ہے
پتا پتا اس کی قدرت کا پتہ دینے لگی
چشمِ حق میں سے جو سیرِ گلشن ایجاد ہو
جمالِ یار ہر سو جلوہ گر ہے
جدھر دیکھا وہی پیشِ نظر ہے
کبھی آنکھوں میں وہ نورِ نظر ہے
کبھی دیکھا تو دل میں جلوہ گر ہے
جس طرف آنکھیں اٹھیں پایا اسی کو جلوہ گر
ذرے ذرے میں تجلیٔ جمالِ یار ہے
کس دل میں کس نگاہ میں تو جلوہ گر نہیں
تو کس طرف نہیں ترا جلوہ کدھر نہیں
جلوۂ یار نظر میں ہے مگر حیرت ہے
سوجھتا کچھ نہیں کیا آیا نظر کیا دیکھا
یہ مندرجہ بالااشعار ’’ وحدت الوجود اور وحدت الشہود ‘‘ دونوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
شاہ محسنؔ داناپوری کے عارفانہ اشعار میں جلوۂ حسنِ الٰہی رچا بسا نظر آتا ہے ، آئینۂ دل جیسے جیسے صاف ہوتا جاتا ہے حجابات اٹھتے جاتے ہیں اور اسرار و رموز کی تہی کھلتی جاتی ہے، عشق و محبت کا مشاہدۂ حقیقی کن کن منزلوں سے گذرتا جاتا ہے،شاہ محسنؔ داناپوری کی زبان سے ملاحظہ کریں۔
پہنچا دیا کہاں سے کہاں عشق نے مجھے
دیکھا خدا کو میں نے بتوں کے جمال میں
ہم جسے دیکھنا چاہیں نظر آئے دل میں
آئینہ صاف ہے محسنؔ مرے دل کا کیسا
اور آخر کار یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ صفائی آئینہ کی حقیقت وہی جان سکتا ہے جس کے عشق کو سوا جمالِ الٰہی کے اور کچھ نظر نہ آتا ہو اور ہر طرف حسن ہی حسن، جلوے ہی جلوے باقی رہ جاتے ہوں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت محسنؔ فرماتے ہیں۔
کیا بتائیں تمہیں اے جان ہے کیا کیا دل میں
نظر آتا ہے دو عالم کا تماشا دل میں
کوئی سمجھے تو کیا سمجھے کوئی جانے تو کیا جانے
کسی کا عکس ہوں آئینہ دار بزمِ حیرت ہوں
عالمِ حیرت کے جلوے اب تک ان آنکھوں میں ہے
آئینہ حیرت میں ہے یوں مجھ کوحیراں دیکھ کر
چنانچہ’’من عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘‘کی بنیادپر شاہ محسنؔ داناپوری کا عشق جمالِ الٰہی اور حسنِ خداوندی سے معمور ومنور ہے، ان کے عارفانہ کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر کا عشقِ حقیقی درجۂ فنائیت سے قریب تک ہے اور اس بات کا تصور ان کی شاعری میں بار بار آیا ہے۔
وہی عارف ہے وہی مردِ خدا ہے محسنؔ
جس نے قطرے میں ہے دریا کا تماشا دیکھا
شاہ محسنؔ داناپوری کی عارفانہ شاعری یہ بھی وضاحت کرتی ہے کہ جب کسی صوفی کا آئینۂ دل صاف ہو جاتا ہے تو نگاہِ عشق کےسامنے جمالِ خداوندی کے سوا اور کچھ باقی نہیں رہ جاتا اور یہی صوفی کی معراج ہے۔
تصورِ شیخ اور شیخ کی جلوہ آرائیاں :-شاہ محسنؔ داناپوری تصورِ شیخ کی لذت اور اس کے مقام سے بھی بخوبی واقف ہیں، صوفیائے کرام کے نزدیک صحبت اور تصور شیخ ہی بنیاد ہے بغیر شیخِ کامل کا سالک کی ظاہری و باطنی اصلاح ممکن نہیں،یہی وجہ ہے کہ شیخ کے رخصت ہونے کے بعد بھی چوں کہ شیخ کے اعمال واشغال اور صحبتِ کاملہ کی روحانی وابستگی مرید کے دل میں اور آنکھوں میں جگہ بنا چکی ہوتی ہے بلکہ سارے نقوش ثبت ہو چکے ہوتے ہیں اس لیے مرید کے نزدیک تصورِ شیخ بھی رہبری کے فرائض انجام دیتا رہتا ہے، صوفیا فرماتے ہیں کہ صحبت شیخ اور تصور شیخ سے محبت کا تحفظ ہوتا ہے قلب کو جِلا حاصل ہوتی ہے اور مرید خطا و بلا سے محفوظ رہتا ہے، بقول حافظؔ شیرازی
یار باما ست چہ حاجت کہ زیادہ طلبم
دولتِ صحبت آں مونسِ جاں مارا بس
شاہ محسنؔ داناپوری کی ساری زندگی صحبتِ اؤلیا اور خدمت بزرگاں ہی میں تمام ہوئی ان کے شیخ و استاد خود ان کے والد ماجدحضرت شاہ محمد اکبرؔ ابوالعُلائی داناپوری تھے، آپ ہی کی صحبتِ کاملہ اور ادبِ شیخ کے درس کا نتیجہ تھا کہ آپ کے وسیلہ سے، شاہ محسنؔ داناپوری بھی اپنے سلسلۂ طریقت کے بانی حضرت سیّدنا امیر ابوالعُلاکے تصورِ خاص سے مستفیض و مستنیر ہوتے رہے اورسیّدنا کی یادوں کو دل میں بسا کر عشق کے مراحل حل کرتے رہے،حضرت محسن نے اپنے شیخ کے آستانے پر برسوں حاضری دینے کی سعادت حاصل کی اور آپ کے تصور سے احوالِ باطنی کو تابندہ و منور کیا، فرماتے ہیں کہ
سالکانِ راہِ الفت سے سنا ہے بارہا
جو طریقِ عشق میں کھویا کیا پایا کیا
وہ دل کیا جو کسی کی یاد سے آباد نہ ہو مانوس نہ ہو، صوفیوں کا دل یادوں سے معمور رہتا ہے، یاد ہی طریقِ عشق کی جان ہے، حضرت محسن اپنے دل کی کیفیت یوں بیان کرتے ہیں۔
گر تو نہیں خیال ہی دل میں رہے ترا
تنہا ہوں کوئی تو مرا ہم خانہ چاہیے
مکانِ دل میں اک قندیل روشن ہے محبت کی
اسی کی روشنی دکھلا رہی ہے لامکاں مجھ کو
تیری ہی یاد سے آباد رہا خانۂ دل
بیٹھتے اٹھتے ہمیشہ تو مجھے یاد آیا
رخِ پُر نور تصور میں ہے محسنؔ ان کا
اسی صورت سے مرے دل کی جِلا ہوتی ہے
اھل اللہ کا دیکھنا اور ان کا تصور کرنا کارِ خیر ہے ، حضرت محسن اپنے جذبات کا اظہار یوںکرتے ہیں۔
اللہ یاد آتا ہے اس رخ کو دیکھ کر
یہ آئینہ ہے صفتِ پروردگار کا
میری آنکھوں کی تمنا ہے یہی
شکل بس دیکھا کرے اس یار کی
جلوۂ عارضِ پُرنور دکھائے چلیے
اپنے عشاق کو دیوانہ بنائے چلیے
اپنے سلسلۂ طریقت کی ترتیب پیش کرتے ہوئے حضرتِ محسن ایک غزل میں یادوں کا اس طرح ذکر کرتے ہیں۔
آپ کے دل کی کلی کھلا ہی گئی
مرتضیٰ اور مصطفیٰ کی یاد
شاہِ فرہاد و شہِ محمد دوست
یاد ان کی ہے بوالعُلا کی یاد
حضرتِ عشق و شاہِ بوالبرکات
یاد ان کی ہے بس خدا کی یاد
قطبِ ارشاد حضرتِ قاسم
دل میں ہے ایسے باخدا کی یاد
راستے پر لگا گئی مجھ کو
شاہِ سجاد حق نما کی یاد
دل کی آنکھوں کو کر گئی روشن
شیخِ اکبر خدا نما کی یاد
جب بھنور میں پڑا سفینۂ دل
آئی اس وقت ناخدا کی یاد
گھر مرے دل میں کرچکی محسنؔ
سیدِ پاکِ ابوالعلا کی یاد
شاہ محسنؔ داناپوری کا مذہب ہی حسن و جمال کی پرستش ہے، ان کے محبوب کو ان کا شیخ سمجھ لیجیے یا جمالِ خداوندی کا مظہر ،مدح و تعریف میں ہر جگہ عقیدت کے موتی لٹاتے ہوئے نظر آتے ہیں حسنِ محبوب کی ضیاپاشیاں حضرتِ محسن کے لیے تحفۂ بے خودی ہے جس کے تصور سے نہ صرف وہ اپنی محبت کا تحفظ کرتے ہیں بلکہ سنتِ الٰہیہ پر اپنا ایمان قربان کرتے ہیں، مختلف انداز کے جذبات و احساسات ملاحظہ کیجیے اور تصورِ لطیف کی جلوہ گری دیکھیے۔
دیکھا نہیں جہاں میں کوئی آپ سا حسیں
واللہ آپ فرد ہیں حسن و جمال میں
اللہ رے صفا ترے عارض کی اے حسیں!
فرطِ حیا سے آئینہ بھی آب آب ہے
روئے رخشاں ان کا روشن تر ہے شمعِ طور سے
زلفِ مشکیں ملتی جلتی ہے شبِ دیجور سے
مجھے یاد آگئی کسی دلربا کی
خیالِ حور بھی دل کو گراں ہے
رخسارِ یار رشکِ مہ و آفتاب ہے
گل ہے اگر بدن تو پسینہ گلاب ہے
صوفیائے کرام اپنی نگاہِ کرم سے سالک و طالب کو مست و سرشار اور مسرور کر دیا کرتے ہیں اور ہمیشہ سے اجڑے ہوئے دل کو پل بھر میں عرفان و آگہی اور حسن و جمال کا گنجینہ بنا دیتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ اہلِ دل اپنے شیخ کو ساقی اور پیرِ مغاں سے بھی تعبیر کرتے ہیں، یہ وہ ساقی ہے جو اپنے مریدوں اور بادہ خواروں کو شرابِ معرفت سے متلذزو شاد کام کرتا ہے اور اس کے ہاتھ کا بڑھایا ہوا جام نہ صرف جام معرفت بن جاتا ہے بلکہ ساقی کا نام لے کر اور اس کا خیال کرکے بھی پینے سے کیفیت بدل جاتی ہے،صوفیوں کے نزدیک خیالِ ساقی خود بھی مسرور کر دینے کے لیے کافی ہے، اس سلسلے میں حضرت محسن کے مخموری خیالات اس طرح ظاہر ہوتے ہیں، امتزاجی کیفیات کا رنگ ملاحظہ کیجیے۔
پیرِ مغاں کا نام لیے جا رہا ہوں میں
ساقی پلا رہا ہے پیے جا رہا ہوں میں
پیرِمغاں کا نام لیے جا رہا ہوں میں
گویا پیے وصال پیے جا رہا ہوں میں
دل میں خیالِ ساقئی میخانہ چاہیے
لبریز اس شراب سے پیمانہ چاہیے
چڑھا ہوا رنگِ بے خودی ہے خودی کا نقشہ مٹا ہوا ہے
شرابِ الفت کا جام پیرِ مغاںنے جب سے پلا دیا ہے
اے دل پُر سرورِ من ناز نہ بن نیاز بن
ساقئی مستِ ناز کی آنکھوں میں سرفراز بن
محسنؔ پہ یہ احساں کر ساقی، دے بھرکے وہی ساغر ساقی
کھو جائے وہ کچھ پاکر ساقی، ایسا اسے متوالا کردے
مجھ کو تلاش بادۂ گلرنگ کی نہیں
ساقی شرابِ عشق کا پیمانہ چاہیے
اس طرح کے اشعار ان کے کلیات میں کثرت سے پائے جاتے ہیں وہ چند اشعار بھی ملاحظہ کیجیے جن میں حضرت محسن نے اپنے ساقیٔ معرفت اور شیخِ اکبر کا ذکر کیا ہے، مندرجہ ذیل اشعار سے اس حقیقت کی وضاحت ہوتی ہے کہ حضرت محسن اپنے پیرِمغاںاور اپنے شیخِ اعظم کی بارگاہ سے کس قدر مستفیض ہوئے اور ان کی روحانیت کا نشہ شاعر کے ذہن پر کتنی شدت سے غالب ہے فرماتے ہیں کہ
محسنؔ ہے مجھ کو فخرِ غلامیٔ بوالعُلا
اس در کا جو غلام ہے آفتاب ہے
میرے دل میں مری نظر میں ہے
شیخِ اکبر ابوالعُلا کا رخ
یہ مئے پرستوں کا میکدہ ہے یہ خانقاہِ بوالعُلا ہے
کوئی قدح نوش جھومتا ہے تو کوئی بے خود پڑا ہوا ہے
تذکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کے لیے صوفیائے کرام کے اقوال و اصطلاحات، صوفیت کا مخصوص حصہ سمجھے جاتے ہیں، اپنے اپنے طور سے صوفیوں نے بے شمار اصطلاحیں وضع کیں اور انہیں کو تعلیماتِ تصوف کا ذریعہ بنایا، مثلاً سفر در وطن، خلوت در انجمن، ہوش در دم اور نظر برقدم وغیرہم حضراتِ نقشبندیہ کی یہ مشہور اصطلاحیں ان کی تعلیمات کے اصول میں شامل ہیں، حضرت محسن نے اصطلاحوں میں سے دو کا استعمال شعر کی زبان میں اس طرح کیا ہےکہ
جلوت کے مزے ہوں خلوت کے، خلوت کے مزے ہوں جلوت کے
کھل جائے جو بابِ الااللہ اُٹھ جائے حجابِ الااللہ
خلوت در انجمن کا مقولہ دوست ہے
یوں دل شگفتہ رہتے ہیں سیر و سفر سے ہم
گھر کر گیا ہے دل میں سفر در وطن کا لطف
کرتے ہیں بازگشت فضائے سفر سے ہم
شاہ محسنؔ داناپوری کے عارفانہ کلام کا جائزہ لینے پر محسوس ہوتا ہے کہ ان کا عارفانہ و صوفیانہ رنگ مجازی رنگ پر بھاری ہے اور اس کا دائرہ اوصاف و محاسن بھی کافی پھیلا ہوا نظر آتا ہے، وسیع النظری اور بلند خیالی بھی شامل ہے مثلاً حمد باری تعالیٰ مظاہرِ خداوندی، حسن و جمال، عشقِ رسالت، محبتِ شیخ، تصورِ شیخ، صحبتِ اؤلیااور صوفیانہ اصطلاحات جیسے بے شمار موضوعات کی محاسبہ آرائی میں حضرت محسن نے کمال کر دکھایا ہے، عارفانہ کلام کی روشنی میں حضرت محسن کی علمی ومعلوماتی استعداد اور تعلیماتِ تصوف کا بھی پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے کتنے باریک باریک مسائل و واقعات کو شعر میں ڈھالاہے اور ایک نئی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور یہی ان کے کلام کی سب سے اہم خصوصیت ہے انہوں نے صرف ’’ اللہ بڑا ہے اور رسول رحمتِ عالمین ـ‘‘ کی رٹ نہیں لگائی بلکہ اس کی کبریائی اور رسول کی عظمت کے اظہار کا دریا بہا دیا ہے اور قرآن پاک کی روشنی میں حمد و مدح کے ہزاروں چراغ جلائے ہیں، زبان کی سادگی و سنجیدگی اور لطافت و نفاست ہرجگہ محفوظ ہے، انہوں نے نہ صرف محاوروں بلکہ اصطلاحات کا بھی خوبصورت اظہار کیا ہے۔
الغرض ان کی عارفانہ شاعری مزاجی رنگ پر فوقیت رکھتی ہے اور اسی بنیاد پر شاہ محسنؔ داناپوری کو ان کے متعدد ہمعصر شعرا سے ممتاز وجدا کرتی ہے۔
قومی شاعری :-میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ شاہ محسنؔ دناپوری کی شاعری میں تصوف کا رنگ زیادہ ہے اور اسی رنگ کی روشنی میں ان کی ناصحانہ اور قومی شاعری بھی سامنے آتی ہے، انہوں نے اپنی قوم کو ہر ایک رخ سے پند و نصیحت کرنے کی کوشش کی ہے، یہ تمنا ان کے سینے میں انگڑائی لیتی رہی ہے کہ سرفرازی و سر بلندی کی دولت مسلمانوں کو پھر واپس مل جائے اور عظمتِ دیرینہ ان کی قسمت بن جائے مگر صرف تمنا کرنے سے ہوتا کیا ہے، مسلمان اپنی ذمہ داریوں کے احساس سے دور ہوتا جا رہا ہے دنیا کی ساری قومیں آگے بڑھتی جارہی ہے اور یہ پیچھے ہوتی جا رہی ہے، قومیں اپنے کردار و اطوار، اتحاد و یکجہتی اور تعلیم و استحکام کی بنیاد پر سُرخرو ہوتی ہیںخود اعتمادی اور ہمتِ مردانہ کی روشنی میں ترقی کرتی ہیں، افسوس کہ یہ ساری عظمتیں جو کبھی قوم مسلم کے سر کا تاج بنی ہوتی تھیں آج ان کے ہاتھوں سے چھن گئی اور تباہی و بربادی ان کی زندگی کا ناسور بن کر رہ گئی، سروں پر تباہی کے بادل ہر وقت منڈلاتے رہتے ہیں مگر ہوش و بیداری کی لذتوں سے کوئی دلچسپی نہیں اور اپنی بربادی کا ساماں آئے روز پیدا کرتے رہتے ہیں، بجائے اس کے روحانیت کا غلبہ ہو دنیاداری اور دھن دولت سے محبت بڑھتی جا رہی ہے، شاہ محسنؔ داناپوری حالات و کردار کی عکاسی اس طرح کرتے ہیں۔
ہے اجل سر پر کھڑی لیکن کچھ بھی نہیں
اس قدر دنیا کی الفت بے خبر کس کے لیے
مسلمانو! تمہیں کچھ اپنی حالت کی خبر بھی ہے
تمہارا حشر سونچو تو کہ کیا ہوگا کہاں ہوگا
مسلمانو! تمہیں کچھ اپنی حالت کی خبر بھی ہے
تمہاری شام غفلت کی بتاؤ تو سحر بھی ہے
بے کسی ایسی کہ پرساں نہیں کوئی اپنا
پھر بھی یہ بے خبری کہ خبر دار نہیں
ہے یہ اسلام ہمارا یہ مسلمانی ہے
ہم میں ہمت نہیں جرات نہیں ایثار نہیں
تمہیں حیرت نہ ہو لیکن مجھے تو سخت حیرت ہے
لٹے جاتے ہو صاحب پھر بھی طاری خوابِ غفلت ہے
جب دنیاداری اور ذخیرۂ اندازی سے زیادہ محبت ہو جاتی ہے تو ہمتِ مردانہ سینے سے رخصت ہو جاتی ہے اور انسان موت سے ڈرنے لگتا ہے آج کا مسلمان کچھ اسی حادثہ سے دوچار ہے اور عظمتِ اسلامی کو بھول کر دنیاداری کا مظاہرہ کرنے لگا ہے، دھن دولت کوئی بڑی چیز نہیں مگر جب یہ چیز غلط راہ اختیار کر لیتی ہے تو انسان کا کردار و مستقبل دونوں کو برباد کرکے رکھ دیتی ہے، بڑی بڑی حویلیاں بنا لینا کمال نہیں بلکہ دولت کی موجودگی میں عاقبت و آخرت کی فکر کرتے رہنا کمالِ انسانیت ہے، اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرتِ محسن فرماتے ہیںکہ
عاقبت کے واسطے بھی گو بنا منعم کوئی
خانۂ نافی کی کیا مصروف ہے تعمیر میں
قصرِ دنیا میں بناتا ہے اگر اے منعم!
عاقبت میں بھی بنا گھر اسی تعمیر کے ساتھ
حب الوطنی پر اہلِ وطن کا قومی فریضہ ہے اور یہ سماجی تقاضہ ہمارے لیے ایک امانت ہے ہر اہلِ وطن پر فریضہ عائد ہوتا ہے کہ اپنے ملک کی محافظت کرے اس سے پیار کرے اور اپنے اسلاف کی ہڈی کی رکھوالی کرنے کے لیے اگر جان دینے کی باری آجائے تو جان بھی نچھاور کرے، ملک کی خوشحالی، عزت و آبرو، اخلاق و محبت، کردار و اطوار اور اتحاد و یکجہتی کے تحفظ کے فرائض ہمیں پر عائد ہوتے ہیں اور اسی بنیاد پر ہمارے ملک کا مستقبل تابناک ہو سکتا ہے۔
اردو ادب کے بہت سے شعرا کی طرح شاہ محسنؔ داناپوری کے سینے میں بھی جذبۂ حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، انہیں ملک و ملت سے پیار تھا اور وہ اہلِ وطن سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنی سنجیدگی رفتار اور طرزِ انداز پر نظر رکھو اور ہر کام سہولت سے انجام دو اسی بنیاد پرملک زیادہ سے زیادہ ترقی کرے گااور ہندوستان جنت نشاں کہلائے گا، فرماتے ہیں کہ
تمہیں جو کام کرنا ہے کرو لیکن سہولت سے
اسی عنواں سے ہندوستاں جنت نشاں ہوگا
دولہن پھر اپنے گلشن کو بنالو
ہوا کا رخ بدل دو نونہالو
شاہ محسنؔ داناپوری کا شعری مقام :-کسی بھی شاعر و ادیب کی حیثیت کا تعین کرنے کے لیے اس کی خدمات کی کمی و بیشی کا پہلے جائزہ لینا پڑتا ہے، خدمات ہی کی روشنی میں سچی پرکھ کا مزاج بنتا ہے اور اسی اعتبار سے رطب و یابس کا اندازہ بھی ہوتا ہے، اوصاف و محاسن کے باوجود کمی کو تلاش کرلینا کوئی حیرت انگیز بات نہیں اسی کو تنقیدی محاسبہ کہا جاتا ہے مثلاً نظیرؔ اکبرآبادی کے یہاں کوئی گہرائی نہیں مگر ان کی قومی اور اخلاقی شاعری سے انکار نہیں کیا جاسکتا، داغؔ دہلوی کے یہاں کوئی فکری بلندی نہیں مگر زبان و محاورہ اور طبیعت کی شوخی ادب میں محفوظ ہے، یہی حال نوحؔ ناروی کا بھی ہے بہادر شاہ ظفرؔ نے مرزاغالبؔ کی بھی شاگردی اختیار کی اور غالبؔ کے انداز کا ایک شعر بھی نہیں کہا لیکن بہادرشاہ ظفرؔ کا سوز و گداز ادب کا سرمایہ ہے ، مقصد یہ ہے کہ رطب و یابس یا عیوب و محاسن کا اسی وقت اطلاق ہو سکتا ہے جب پہلے خدمات کا اعتراف کر لیا جائے، اعتراف کی بھی ایک منزل ہے، ایک حد ہے خدماتی بساط ہی کی رو سے اعتراف کا تعین بھی ہوتا ہے، شادؔ عظیم آبادی اگرچہ حضرتِ محسن کے ہمعصر شاعر ہیں مگر شعری عظمت میں حضرت محسن سے کہیں آگے ہیں، البتہ دوسرے ہمعصر شعرا مثلاً فضل حق آزادؔ، عبدالمجید پریشاںؔ، صوفیؔ منیری، مشرقیؔ منیری، شوقؔ نیموی، عرفاںؔ اسلامپوری، مبارکؔ عظیم آبادی،عطاؔ بہاری، احقرؔ بہاری، رنجورؔ عظیم آبادی، حامدؔ عظیم آبادی، نیرؔ اسلامپوری، پروفیسرحسنؔ عظیم آبادی اور نوحؔ ناروی وغیرہم سے حضرت محسنؔ کسی طرح بھی پیچھے نہیں، اب جبکہ آپ کا سارا کلام ترتیب پاکر سامنے آچکا ہے، اصحابِ نقد و نظر مطالعہ و موازنہ کرنے کے بعد خود فیصلہ کر سکتے ہیں اور اردو شاعری میں ان کے شعری مقام و مرتبہ کا آسانی سے تعین کر سکتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ صوفیانہ و عارفانہ کلام کی بنیاد پر آپ کے شعری مقام کو زیادہ تقویت پہنچتی ہے، اپنے منصب و وقار کا لحاظ رکھتے ہوئے آپ نے عارفانہ کلام سے زیادہ دلچسپی لی اور یہی دلچسپی خصوصی کے ساتھ توجہ کا مرکز بنتی ہے۔
ہے حقیقت میں بشر قطرۂ ناچیز مگر
مؤجزن ہم نے اسی قطرہ میں دریا دیکھا
جلوۂ یار نظر میں ہے مگر حیرت ہے
سوجھتا کچھ نہیں کیا آیا نظر کیا دیکھا
سودائے زلفِ یار میں آشفتہ حال ہوں
کچھ تو مدد مری دلِ دیوانہ چاہیے
ابھی تو آنکھوں میں جلوہ گر تھا ابھی ہے مہمانِ خلوتِ دل
عجب تماشا ہے حسنِ قدرت ہزاروں جلوے دکھا رہا ہے
شاہ محسنؔ داناپوری ایک مسلم الثبوت اور قادر الکلام شاعر تھے، شعرا آپ کے کلام کو بڑی توجہ سے سنتے اور داد دیتے تھے، آپ نے اکثر اصنافِ سخن پر طبع آمائی کی ہے اور بہترین نقوش چھوڑے ہیں، غزل سے زیادہ دلچسپی تھی۔
آپ کی زبان بڑی عالمانہ و سنجیدہ اور با محاورہ ہے، جہاں تک توارد خیال کا تعلق ہے یہ بھی انہیں کا ذاتی ہے، سرقہ کی عیب سے حضرت محسن کا سارا کلیات پاک ہے، ایک صاحبِ فن اور استادِ سخن سے اس کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی ہے۔
شاہ محسنؔ داناپوری نے جس ماحول اور تقاضائے ماحول کے زیرِ اثر تقلیدی شاعری کے جوہر بکھیرے ہیں، اسی اغیار سے آپ کا نمایاں مقام بھی متعین ہوتا ہے اور یہ مقام ان کے فن کو محفوظ رکھنے اور ان کی شعری عظمت کو برقرار رکھنے کے لیے بہت کافی ہے۔
شاہ محسنؔ داناپوری کا شعری ماحول اور شعرا سے تعلقات :-حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے بنائے ہوئے ادبی ماحول کو شاہ محسنؔ داناپوری نے ہمیشہ سنبھال کر رکھا اس پر انحطاط کی کوئی آنچ نہ آنے دی، خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ، داناپور میں آپ کے وقت میں بھی ایک سے ایک مشاعرے ہوئے اور استادانِ فن نے شرکت کی شاہ محسنؔ داناپوری چوں کہ عالمانہ عظمت اور اخلاقی کردار رکھنے کے ساتھ ساتھ سجادۂ اسلاف کی رونق اور ادبی قدروں کے علمبردار بھی تھے اس لیے باعتبار عقیدت بھی بہت سے نامور شعرا آپ کی قدر کرتے تھے اور خانقاہ کے مشاعروں میں کثرت سے شریک ہوتے تھے، ایک تاریخی اور طرحی مشاعرے میں نوحؔ ناروی بھی شرکت کر چکے ہیں، نوحؔ اپنے دیوان میں اپنے تعلقات و مراسم اور شرکتِ مشاعرہ کا ذکر اس طرح کرتے ہیں۔
’’اس طرح رسم محبت کی ادا ہوتی ہے‘‘ یہی مشاعرہ کا مصرع طرح تھا۔
’’۱۷؍ نومبر۱۹۲۳ ء کو جب میں بانکی پور سے اپنے وطن آنے کو تھا ،شام کو داناپور سے شاہ محسنؔ صاحب خلف شاہ محمد اکبرؔ صاحب کے صاحبزادےاپنے والد کے مرسلہ میرے پاس پہنچے اور کہا
’’کل میرا سالانہ مشاعرہ ہے والد صاحب نے شرکت کی استدعا کی ہے ‘‘ چونکہ مراسم قدیمانہ تھے اس لیے شرکت کا وعدہ کرنا پڑا ،اس دن غزل کہی اور مشاعرے میں جاکر پڑھی، پٹنہ سے اکرام صاحب اخترؔ، ڈاکٹر مبارکؔ صاحب، کیفؔ نصیرؔ صاحبان، بانکی پوردرگاہ سے جناب وقدؔ، انجمؔ، شمیمؔ، ارشادؔ، مضطرؔ، حسرتؔ، عزیز ؔ،بیاپور سے برقؔ،عیش ؔصاحبان کے علاوہ مقامی شعرا بھی تھے‘‘ ( اعجازِ نوح، ص؍ ۲۷۳)
۱۷؍ نومبر غلط شائع ہوگیا ،یہ طرحی مشاعرہ ۱۹؍ نومبر ۱۹۲۳ ء کو منعقد ہوا تھا اور ایک روز قبل یعنی ۱۸؍نومبر کو دعوت دی گئی تھی جس کی تصدیق نوحؔ ناروی کے دوسرے مضمون سے خود ہو جاتی ہے۔
مذکورہ بالامشاعرے کا تفصیلی ذکر ’’ میرا سفر ‘‘ کے زیرِ عنوان اپنے ایک مضمون میں نوحؔ نے اس طرح کیا ہےکہ
’’جب میں دکان آنے کو تیار ہوا تو شاہ محسنؔ صاحب سجادہ نشیں خانقاہ داناپور کے صاحبزادے اپنے باپ کا مرسلہ میرے پاس لے کرپہنچے اور اصرار کیا کہ کل ۱۹؍ نومبر۱۹۲۳ ء کو میرے یہاں سالانہ طرحی مشاعرہ ہے آپ اس میں چل کر ضرور شریک ہوں ،میں تو نہ مانتا تھا لیکن مجبور کرنے پر مجبور ہوگیا ایک دن میں غزل کہی اور سب کے ساتھ جاکر مشاعرے میں شریک ہوا ،احباب نے صدارت کی عزت مجھے دی اور ایک ہارگوٹا اور پھولوں کا مجھے پہنایا گیا، مقامی شعرا کے علاوہ ایک اچھی خاصی جماعت بانکی پور کی پہنچ گئی تھی جس میں نصیرؔ صاحب، کیفؔ صاحب، اکرام اخترؔ صاحب وغیرہ تھے، مشاعرہ دس بجے شب سے شروع ہوکر پانچ بجے صبح کو ختم ہوا، بارہ تیرہ سو آدمی ہوں گے اس مشاعرے میں مقامی شعرا میں آرزوؔ صاحب اور محسنؔ صاحب کی غزلیں خوب تھیں، باہر کے لوگوں میں سے کیفؔ صاحب، مبارکؔ صاحب، اکرام اخترؔ صاحب برادر زادہ نصیرؔ صاحب، مضطرؔ، حسرتؔ، انجمؔ، ارشادؔ، عاشقؔ، شمیمؔ، حضرت وجدؔ بانکی پوری، برقؔ صاحب بیاپوری، عیشؔ صاحب لودی پوری کا کلام بہت خوب رہا، آخر میں طرحی غزل کے علاوہ پانچ چھ غزلیں مجھ سے بھی پڑھوائی گئیں، حاضرین سن کر بہت خوش ہوئے اور بے حد داد دی ‘‘ (ماہنامہ ندیم، فروری ۱۹۳۳ء)
اس رو داد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کس قدر عظیم اور تاریخی مشاعرہ ہوا تھا جس میں نوحؔ ناروی کے ساتھ ساتھ عظیم آباد اور اضلاعِ عظیم آباد کے اکثر وبیشتر اساتذۂ شعر وسخن اور نامور شعرا نے شرکت فرمائی تھی اس کے علاوہ ایسے اور بھی کئی عظیم مشاعروں کی روایتیں ملتی ہیں۔
شاہ محسنؔ داناپوری بیرونی مشاعروں میں :-مطالعۂ کلیاتِ محسن کی بعض غزلوں کے حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نہ صرف مشاعرے منعقد کرتے بلکہ مقامی و بیرونی مشاعروں میں بھی شرکت کرنے کا ذوق رکھتے اور پورے آب وتاب کے ساتھ تشریف لے جاتے تھے خصوصاً درگاہ حضرت شاہ ارزاں( پٹنہ) کے مشاعروں میں معتدد بار تشریف لے گئے ہیں۔
۱۲-۱۳؍ اپریل۱۹۱۹ءکو درگاہ حضرت شاہ ارزاں کے عظیم الشان دوروزہ طرحی مشاعرے میںشاہ محسنؔ داناپوری نے بھی شرکت فرمائی تھی ’’ ماہنامہ تاج ‘‘(گیا) کا مشتر کہ شمارہ جولائی اگست ستمبر ۱۹۲۰ء کی مخصوص و باتصویر رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اس تاریخی مشاعرہ میں ایک سو پندرہ استادانِ فن و شعرائے ذی وقار نے شرکت فرمائی تھی جس کی صدارت درگاہ حضرت شاہ ارزاں کے زیبِ سجادہ حضرت شاہ حامدؔ حسین عظیم آبادی نے کی تھی، یہ مشاعرہ دو ردیف و قافیہ اور دو بحروں کے تحت منعقد ہوا۔
اول :- یاد آیا فرہاد آیا
دوم :- دیدار کی اغیار کی
رپورٹ تاج(گیا) میں نہ مصرع طرح کی نشاندہی کی گئی ہے اور نہ ہی اس کا کسی طرح تعین ہو پاتا ہے دونوں مصرعوں کی بحریں یہ ہیں۔
اول
یاد اپنا مجھے پھر خانۂ برباد آیا
ایک ناشاد گیا دوسرا ناشاد آیا
دوم
اک جھلک بھی تو نہ دیکھی جلوۂ رخسار کی
ہم نے برسوں جبہ سائی کی درِ دیوار کی
۲۱؍ رجب ۱۳۳۸ھ مطابق ۲؍ اپریل ۱۹۲۰ء کو بھی درگاہ شاہ ارزاںکے ایک دوسرے عظیم الشان مشاعرے میں شرکت کی اور شاندار غزل سنائی، جس کا مطلع ہے۔
عشق کو باعثِ تسکین دل و جاں سمجھا
یہ نئی بات ہے میں درد کو درماں سمجھا
نوحؔ ناروی کی اطلاع کے مطابق اس مشاعرے میں بدرؔآروی، فصاحتؔ لکھنوی، عشرتؔ سنڈیلوی، توبہؔ سیّد سرانوی، صفدرؔ مرزاپوری اور جنابؔ عظیم آبادی وغیرہم نے شرکت کی تھی۔ (اعجازِ نوح، ص؍ ۱۶)
اس کے علاوہ درگاہ حضرت شاہ ارزاں اور اس کے علاوہ جس جس مشاعرے میں شاہ محسنؔ داناپوری نے شرکت کی ہے اس کی تفصیل مندرجہ ہے ۔
مشاعرہ درگاہ حضرت شاہ ارزاں ،سلطان گنج،پٹنہ
۲۱؍ رجب ۱۳۳۸ھ
چشمِ مئے گوں کا تمہاری آج عالم دیکھ کر
مست وبے خود ہوگئے بے کیف کم ہم دیکھ کر
(شاہ محسنؔ داناپوری)
مشاعرہ درگاہ حضرت شاہ ارزاں ، سلطان گنج، پٹنہ
۹؍ دسمبر ۱۹۲۹ ء
مصرعۂ طرح - ’’میں بت پرستوں سے مسلمان ہوگیا‘‘
(داغؔ دہلوی)
شاہ محسنؔ داناپوری کی غزل کا مطلع یہ ہے۔
منہ پھیر کر بتوں سے مسلمان ہوگیا
یہ آدمی بگڑ کے پھر انسان ہو گیا
اسی طرح گیا،آرہ، اسلام پور، بہار شریف،کشن گنج، آگرہ اور الہ آباد وغیرہ کے مشاعروں میں بھی شرکت فرماتے رہے ہیں، مثلاً
مشاعرہ، گیا
۱۳۲۵ھ
مصرعۂ طرح - ’’تجھ سے اے مؤمن خدا سمجھے یہ تونے کیا کیا‘‘
وصل کی شب یوں رخِ روشن کا نظارہ کیا
سامنے بیٹھے رہے وہ اور میں دیکھا کیا
(شاہ محسنؔ داناپوری)
مشاعرہ محلہ ملکی، آرہ
۱۹؍ جمادی الاول ۱۳۳۴ھ
مصرعۂ طرح - ’’ملاکر خاک میں مٹی مری برباد کرتا ہے‘‘
مری تربت پہ آکر غیر کو وہ یاد کرتا ہے
ملاکر خاک میں مٹی مری برباد کرتا ہے
(شاہ محسنؔ داناپوری)
مشاعرہ، آگرہ
۲۹؍ صفرالمظفر ۱۳۳۶ھ
آئینہ سامنے رکھ کر یہ تماشا دیکھا
اپنی صورت میں ترے حسن کا جلوا دیکھا
(شاہ محسنؔ داناپوری)
مشاعرہ ،آگرہ
شنبہ ۱۸؍ ربیع الاول
تمہاری یاد مرے دل کا مدعا ہو جائے
تمہارا ذکر مرے درد کی دوا ہو جائے
(شاہ محسنؔ داناپوری)
مشاعرہ آستانہ حضرت سیّدنا امیر ابوالعُلا، آگرہ
۸؍ صفرالمظفر
فقیرِ بے نوا کا ساز و ساماں دیکھتے جاؤ
کہ شانِ فقر فخری ہے نمایاں دیکھتے جاؤ
(شاہ محسنؔ داناپوری)
آستانۂ حضرت سیّدنا امیر ابوالعُلا شاہ محسنؔ داناپوری کا مرکزِ عقیدت تھا، آپ زندگی بھر اس آستانہ کے حاضر باش رہے، آپ نے یہ منقبت نما غزل ۸؍ صفرالمظفر عرس کے مبارک موقع پر مشاعرے میں سنائی تھی۔
مشاعرہ خانقاہ اسلام پور، نالندہ
۱۵؍ محرم الحرام ۱۳۳۹ھ
مصرعۂ طرح - ’’جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا‘‘
معمور مئے سے میکدۂ دل نہیں رہا
محفل میں جب وہ ساقیٔ محفل نہیں رہا
(شاہ محسنؔ داناپوری)
اسی مشاعرے میں اپنی ایک فارسی غزل بھی سنائی جس کا مطلع ہے۔
اے کہ شرمندۂ قمر از طلعتِ زیبائے تو
چشمِ نرگس حیرتی از نرگسِ شیلائے تو
مشاعرہ ’’بزمِ ادب‘‘ بین ہاؤس، بہار شریف، نالندہ
۷؍ شوال المکرم ۱۳۵۹ھ
مصرعۂ طرح - ’’تیر گویا کمان سے نکلا‘‘
مٹ مٹا کر جہان سے نکلا
تیر گویا کمان سے نکلا
(شاہ محسنؔ داناپوری)
شاہ محسنؔ داناپوری کشن گنج اور آگرہ کے مشاعرہ میں بھی شرکت کرتے رہے ہیں چونکہ ان مقامات میں آپ کے عقیدت مندوں اور مریدوں کی خاصی تعداد رہی ہے اور آمد و رفت بھی کثرت سے تھی اس لیے آپ کی صدارت و اعزاز میں بھی مشاعرے ہوتے رہتے تھے مثلاً ۱۳۵۹ھ موافق۱۹۴۰ء میں کشن گنج میں ایک مشاعرہ ہوا جس کا مصرعۂ طرح تھا۔
’’حضرتِ محسن یہاں آئے ہیں داناپور سے‘‘
روئے رخشاں ان کا روشن تر ہے شمعِ طور سے
زلفِ مشکیں ملتی جلتی ہے شبِ دیجور سے
(شاہ محسنؔ داناپوری)
یہ مشاعرہ حضرتِ محسن کی صدارت و اعزاز میں ہوا تھا، روایت کے مطابق کافی شعرا نے شرکت کی تھی۔
حصولیٔ علم اور خاندانی روابط و مراسم کے تحت حضرت شاہ محسنؔ داناپوری الہ آباد میں بہت دنوں تک رہے، یہاں آپ کے آبا ؤ اجداد کے رشد وہدایت اور بیعت وخلافت کا قدیم سلسلہ ہے، اس سلسلہ کو شاہ محسنؔ داناپوری نے جاری رکھا، الہ آباد میں آپ کے کافی معتقدین و مریدین تھے جب الہ آباد تشریف لاتے تو کبھی کبھی مشاعرےمیں بھی شرکت کرتے، الہ آباد یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے پہلے صدر پروفیسر ضامن علی سے آپ سے کافی اچھےتعلقات تھے اور زیادہ تر انہیں کے ہمراہ مشاعروں میں جایا کرتے تھے، پروفیسر ضامن علی کے ہاں ہونے والے مشاعروں میں بھی متعدد بار شریک ہوئے ہیں مگر کلیاتِ محسن سے الہ آباد کے کسی مشاعرے میں پڑھے جانے والے کلام کا کچھ پتہ نہیں چلتا ۔
خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور راقم کا نانیہال ہے اور اپنی نانیہال کی عظمت سے بخوبی واقف ہے، میں نے جب تحقیقی مقالہ(P.H.D)مرتب کرنے کا ارادہ کیا تو داناپور کی طرف سب سے پہلے خیال گیا اور میرےنگراں پروفیسر سیّد شاہ محمد طیب ابدالی (سجادہ نشیں؍ خانقاہ اسلام پور)نے حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے صاحبزادے اور خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ کے معروف سجادہ نشیں حضرت شاہ محسنؔ داناپوری کی جانب توجہ مبذول کرائی اور انہیں کی نگرانی میں Synopsis کی منظوری بھی مل گئی، خالِ محترم حضرت سیّد شاہ خالد امام ابوالعُلائی کو جب میں نے اپنے اس ارادے کی اطلاع دی تو انہوں نے بے پناہ مسرتوں کا اظہار کیا اور بتایا کہ اب سے تقریباً چودہ پندرہ برس پہلے کلیات میرے ابی و مرشدی حضرت شاہ ظفر سجاد ابوالعُلائی سے مانگ کر عطاؔ کاکوی لے گئے ہیں پھر میں عطاؔ کاکوی کے پاس گیا، میرے موضوعِ مقالہ کی خبر سن کروہ بھی بہت خوش ہوئے اور کہا کہ میں خود بھی حضرت محسنؔ کی شاعری پر کام کرنا چاہتا تھا، یہ خوشی کی بات ہے کہ تم ان پر تحقیقی کام کرنے جارہے ہو، اسی وقت کلیاتِ محسن میرے حوالہ کردیا۔
تحقیق و جستجو کے سلسلے میں میرے خالِ محترم حضرت شاہ خالد امام ابوالعُلائی نے راقم کی بھرپور مدد فرمائی اور خانقاہ کے کتب خانہ کے بعض قلمی نسخے اور ملفوظات و روزنامچے حوالہ کیے، متعدد حالات و کوائف کی اطلاعات مجھے ابی و مرشدی حضرت حکیم سیّدشاہ عزیز احمد ابوالعلائی (سجادہ نشیں؍ خانقاہ حلیمیہ ابوالعلائیہ، الہ آباد) سے حاصل ہوئیں، میں ان دونوں کا احسان مند ہوں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.