مجلس انس
دلچسپ معلومات
نغماتِ سماع کے ابتدائی حصہ سے چند اقتباس۔
بہ ہیں کہ رقص کناں میرود بنالۂ چنگ
کسے کہ اذن نمی دادے استماع سماع
پس غذاے عاشقاں آمد سماع
کہ درو باشد خیال اجتماع
حلت سماع :
آتش اندر پختگاں افتاد و سوخت
خام طبعاں ہمچناں افسردہ اند
مسئلہ سماع زمانۂ سلف سے آج تک مختلف فیہ رہا ہے، موافق اور مخالف براہیم اور استدلالات کا اظہار اس کثرت اور شدت کے ساتھ کیا گیا ہے کہ دونوں جناب سے مستقل تصانیف اور تالیف کا ایک دفتر اسی ایک مسئلہ پر تیار ہو چکا ہے لیکن باوجود اس تمام اختلاف کے اصل مسئلہ اپنی جگہ پر اربابِ ذوق کے یہاں متفق علیہ ہی رہا علمائے ظواہر اور زاہدانِ خشک کا کچھ ذکر نہیں جو مصداق اس شعر کے ہیں۔
منع سماع و نغمۂ نے می کند فقیہ
بے چارہ پے نبرد بہ سر نفخت فیہ
وہ غریب معذور ہیں ان سے کہہ دیجیے مصرع :- گر بر تو حرام است حرامت بادا
مصنف سیرالاؤلیا فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت سلطان المشائخ کے قلم مبارک سے لکھا دیکھا ہے کہ مسئلہ سماع تین حال سے خالی نہیں منکر سماع یا تو سنن و آثار سے جاہل ہے یا اپنے اعمال پر مغرور اور معجب ہے یا ایسا شخص ہے کہ طبیعت اس کی منقبض اور بستہ ہے امام غزالی فرماتے ہیں کہ جس شخص کو راگ سے حرکت نہ ہو وہ ناقص اور اعتدال سے ہٹا ہوا ہے اور روحانیات سے دور بہائم سے طبیعت میں کثیف تر ہے اس لئے کہ موزوں مضمون سے سب کو اثر ہوتا ہے، شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ
اشتر بشعر عرب در حالت ست طرب
گر ذوق نیست تر ابتر از طبعِ جانوری
سلف سے آج تک کسی مذہب میں کوئی ایک بھی ایسا مسئلہ نہیں جس میں اختلاف نہ رہا ہو یہ امر قابل غور ہے کہ خود اہل سنت والجماعت میں باہم مسائل میں کس قدر اختلاف ہے سب سے زیادہ یہ کہ نماز جو اسلام کا رکن عظیم ہے اس کی صورت ہیئت اور قرأت میں اس قدر اختلاف ہے کہ جس کی حد نہیں اسی طرح بے شمار مسائل ہیں جو باہم حنفیوں، مالکیوں، شافعیوں اور حنبلیوں کے مختلف فیہ ہیں نیز امام اعظم کے شاگردوں میں اکثر مسائل میں اختلاف ہے تاہم ایک فریق دوسرے فریق کی تحقیقات کو غلط نہیں کہتا اور سب برحق ہیں وجہ یہ کہ نفس معاملہ میں سب متفق ہیں نماز سب کے نزدیک فرض ہے اختلاف صرف فروعی باتوں میں ہے بعینہٖ یہ حال مسئلہ سماع کا ہے نفسِ سماع کی حلت اور جواز میں کسی گروہ کو کلام نہیں جو کچھ اختلاف ہے وہ جزوی اور فروعی امور میں ہے اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ ہر شے اپنے محلِ وقوع اور جائے استعمال اور آداب و شرائط اوقات و حالات کے اعتبار سے ہی جائز اور ناجائز حلال و حرام مفید و مضر قرار دی جاتی ہے، مثلاً نماز کے لیے طہارت لازمی ہے بلا طہارت نماز ناجائز اور حرام قطعی ہے ہر مرد و عورت پر نماز یکساں فرض ہے لیکن عورت کو دورانِ ایام حیض میں ممانعت ہے خلاصہ یہ کہ شرائط آداب و حالات و مقام کا اثر حلت و حرمت اور حسن و قبح پر پڑتا ہے ایک چیز جو خاص صورت و حالت میں ضروری اور فرض ہے دوسری حالت میں مضر اور منع ہے یہ ہی حال سماع کا ہے کہ اہل کے لئے بہ پابندگی آداب و شرائط جائز و مستحب نیز باعث برکات و حسنات ہے لیکن نا اہل کے لیے نا جائز و مضر بلکہ حرام ہے۔
سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ سماع کے چار اقسام ہیں حلال و حرام مباح و مکروہ، سامع کو حق کی طرف زیادہ میل ہے تو اس کے حق میں مباح اگر میلان مجاز کی طرف زیادہ ہے تو مکروہ جس کا میلان کلیۃً حق کی طرف ہو اس کو حلال اور جس کا رجحان بالکل مجاز کی طرف ہو اس کو حرام پس سماع کا مفید اور غیر مفید جائز اور ناجائز ہونا خارجی اثرات اور حالات پر منحصر ہے، عبادات شریعت کا مدار احکام رع پر اور عبادات طریقت کا احکام طریقت پر ہے، عبادت شریعت کے لیے طہارت جسم و پارچہ و توجہ سمت قبلہ ضروری ہے عبادات طریقت کے لیے طہارت قلب اور حضوری لازمی ہے نادان لوگ یہ نہ سمجھیں کہ شریعت و طریقت جدا جدا چیز ہیں بلکہ شریعت عین طریقت اور طریقت عین شریعت ہے صرف فرق یہ ہے کہ شریعت کا مدار ظاہری احکام پر اور طریقت کا باطنی احکام پر ہے اور دونوں کے مختلف آداب اور شرائط سماع کا تعلق عبادات باطنی (روحی) سے ہے لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ضروری احکام متعلق سماع کا نغمات سماع میں اضافہ کردوں کہ سامعین سماع کی برکات سے مستفید اور مضرات سے محفوظ رہیں قبل اس کے کہ سماع کے آداب وغیرہ عرض کروں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت سماع کے متعلق مختصراً عرض کردوں تاکہ شائقین سماع کو معلوم ہو کہ سماع کی اصل کیا ہے کب سے اور کہاں سے اس کا آغاز ہوا ہے۔
حقیقت سماع
ہست محفل براں قرار کہ بود
ہست مطرب بداں ترانہ ہنوز
سماع کا مبدا اور ماخذ در اصل صدائے کن ہے جو کل آوازوں کی اصل اور تمام نغموں کی روح ہے اسی صدائے کن کے نغمۂ روح نواز کی مستی نے ارواح کو سرشادی وجود عطا فرمایا اور یہ کیف زائل نہ ہونے پایا تھا کہ بارد گرانست بربکم کے خطاب نے ارواح کو اقرار ربوبیت اور اعترافِ عبدیت پر مائل کیا اور ان سے جواب بلیٰ کہلوایا، سماع اس نغمۂ اولین کی یاد اور اس معاہدہ ازل کی تجدید ہے اسی کی مستی میں ارواح نے نزول کیا اور اسی مدہوشی اور سرشاری میں مبدا کی طرف رجوع کریں گی نغموں کی مستی سالک کو روحانیت کی طرف اور پھر روحانیت سے تنزیہ کی طرف لے جاتی ہے۔
آداب سماع
بروں زہرد و جہاں آچو در سماع آئی
سماع از آنِ تو است و تو ہم ازانِ سماع
حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ سماع میں تین باتوں کا خیال رکھو۔
اول : زمان، سامع کو اطمینان کلی نصیب ہو تمام افکار اور علائق دنیوی سے یکسو ہو کر خیالات کو ایک مرکز پر جمع کر کے ضروریات اور حوائج سے فارغ ہو کر ہمہ تن ذوق و شوق بن کر سماع میں شریک ہو نماز و وظائف کا وقت نہ ہو دنیوی کوئی ضرورت مانع یکسوئی و سکونِ قلب نہ ہو، میں اس قدر اور اضافہ کرتا ہوں کہ وہ وقت جس میں سجدہ منع ہے نہ ہو یعنی وقت طلوع و غروبِ آفتاب اور زوال کا وقت۔
دوم : مکان، گزر گاہِ عام نہ ہو، شور و شغب سے دور مقامِ محفوظ ہو صاف ستھرا مکان ہو کسی قسم کی بدبو نہ ہو کہ دماغ پریشان ہو۔
سوم : اخوان، منکرین سماع اور زاہداین خشک متکبر اور بے ادب لوگ نہ ہوں مصنوعی اور ریاکار صوفی نہ ہوں ان لوگوں کے برے خیالات کا انعکاس دوسروں پر پڑے گا منکرِ سماع کی موجودگی بارِ خاطر ہوگی یہ ہی صورت متکبر کی ہے کہ اس کا لحاظ وپاس کرنا پڑے گا، مصنوعی وریار صوفی نمودی وجد اور رقص سے حاضرین کو پریشان کرے گا اور ان کے کیف اور لطف میں اس مصنوعی رقص و وجد سے خلل پڑے گا، ان آداب کے علاوہ چند اور آداب ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
(1) باوضو اور خوشبو لگا کر محفل میں بیٹھنا چاہیے۔
(2) ابتدا اور ختم سماع کا آیاتِ قرآنی اور درود شریف سے کرنا چاہیے۔
حضرت ممشاد علو دینوری نے فرمایا کہ میں نے ایک دن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ کیا سماع کو برا جانتے ہیں حضور نے فرمایا کہ میں اس کی کسی چیز کو برا نہیں جانتا مگر ان سے (اہل سماع) سے کہہ دو کہ سماع کا آغاز اور اختتام قرآن کے ساتھ کیا کریں۔
(3) مؤدب بیٹھیں نشست و برخاست کے وقت کوئی پہلو سو ادبی کا نہ پیدا ہو مثلاً پالتھی مار کر بیٹھنا، پاؤں پھیلانا، تکیہ لگانا، بالکل ساکت و صامت دو زانو بیٹھیں کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے اہل محفل کو تکلیف اور ان کی یکسوئی میں فرق آئے۔
(4) برزخِ مرشد پیش نظر رکھیں تاکہ لغزش سے محفوظ رہیں۔
(5) حتیٰ الامکان طبیعت کو ساکن اور مطمئن رکھیں جذبات کو مضطرب اور مشتعل نہ ہونے دیں قلب کو اپنے اختیار اور قابو سے نہ جانے دیں عمداً وجد کی طرف مائل نہ ہو بایں خیال کہ لوگ کہیں گے کہ یہ شخص بڑا فسی القلب ہے کہ اس پر سماع کا کچھ اثر نہیں ہوتا، البتہ بے اختیاری میں مجبوری ہے۔
(6) کھڑے ہونے میں اہل مجلس کا اتباع ضروری ہے حاضرین میں سے کوئی وجود کی وجہ سے یا وجد کے اظہار کی نیت سے کھڑا ہو جائے تو موافقت میں کھڑا ہوجانا چاہیے، ایک مرتبہ کسی مجلس سماع میں حضرت سلطان المشائخ ذرا دیر سے تشریف لے گئے اور حظیرہ میں قیام فرمایا اہل مجلس سماع میں کھڑے ہوگئے تو حضرت سلطان المشائخ بھی کھڑے ہوگئے لوگوں نے عرض کیا کہ حضور آپ میں اور ان میں تو بعد مسافت ہے حضور کو تشریف رکھنا چاہیے فرمایا کہ مجلس کی موافقت ضروری ہے اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب دیر سے مجلس میں پہنچے تو علیٰحدہ جہاں جگہ ملے بیٹھ جائے اور دوسروں کے مزے میں مخل نہ ہو دیکھو یہ ہی ادب اور حکم جماعت میں ہے۔
(7) اشعار عموماً زبانِ مجاز میں ادا کئے جاتے ہیں اور حقیقت کے ترجمان بھی الفاظِ مجاز ہیں لہٰذا مضمون کو معشوق مجاز پر محمول نہ کرنا چاہیے بلکہ ہر لفظ اور نغمہ کو حقیقت سمجھ کر محبوب حقیقی پر منطبق کرنا چاہیے نقل کردہ الفاظ سے معانی کی طرف اور آواز سے روحانیت کی طرف اور الحان سے اعیان کی طرف پر ان سب کا صدور ایک ذات سے سمجھے سالک کو چاہیے کہ وہ الفاظ کی بندشوں سے آزاد ہو کر معانی اور مفہوم کی طرف پرواز کرے الفاظ پیکرِ لباس سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے معانی اور مفہوم مقصود بالذات ہیں۔
حضرت سلطان المشائخ سے روایت ہے کہ قیامت کے روز صوفیوں اور اہل سماع کو فرمان الٰہی پہنچے گا کہ جو بیت تم سنتے تھے اسے ہمارے اوصاف پر حمل کرتے تھے یہ لوگ عرض کریں گے کہ ہاں ہم ایسا کرتے تھے، ارشادباری تعالیٰ ہوگا کہ تمام اوصاف تو حادث ہیں اور ہماری ذات قدیم پر حادث اوصاف کا حمل قدیم پرکیوں کر جائز ہو سکتا ہے وہ لوگ عرض کریں گے کہ خداوندا ہم غایت محبت کی وجہ سے ایسا کرتے تھے ارشاد ہوگا کہ جب تم ہماری محبت کی وجہ سے ایسا کرتے تھے تو ہم نے تمھیں معاف کیا اور تم پر اپنی رحمت کا مینہ برسایا۔
(8) آواز کی دل کشی اور دل فریبی پر نظر نہ رکھیے نہ قوال کے خط و خال پر بلکہ یہ تصور کرے کہ حق حق سے سنتا ہے۔
(9) طبیعت پر انقباض ہو اور قالی میں دل نہ لگے تو استغفار پڑے پھر بھی طبیعت مائل نہ ہو تو مجلس سے اٹھ آنا چاہیے کہ اوروں کے مزہ میں خلل نہ پڑے افسردہ دل افسردہ کند انجمنے را، دیگر حاضرین کو بھی چاہیے کہ نہ جانے پر مصر نہ ہوں۔
(10) اگر کسی کو حال آوے تو اس کی نگرانی اس طرح پر کریں کہ کوئی عضو اس کا خلاف شرع نہ کھل جاوے نہ اس کو کوئی جسمانی تکلیف پہنچے صاحب حال کا ہاتھ پیر پکڑ لینا اور اس کو اپنی گرفت میں نہ کرنا چاہیے اکثر اس سے اندیشہ انقباض کا بلکہ ہلاکت کا ہے صاحبِ وجد کی آزادی میں مخل نہ ہوں اور اس کو جکڑ بند نہ کریں۔
وجد – گریہ - رقص
گہہ گریم و گہہ خندم گہہ دست زنم گہہ پا
از مستی و جوش اندر ہا ہو یم و می رقصم
حضرت سلطان الاؤلیا فرماتے ہیں کہ سماع کی حالت میں جو آثار مرتب ہوتے ہیں ان کی تین قسمیں ہیں ایک انوار دوسرے احوال تیسرے آثار اور یہ تینوں تین عالم سے اترتے ہیں عالم ملک و عالم ملکوت و عالم جبروت سے عالم ملکوت سے ارواح پر انوار نازل ہوتے ہیں بعد ازاں عالم جبروت سے دلوں پر احوال اترتے ہیں پھر عالم ملکوت سے وہ چیزیں نازل ہوتی ہیں جن سے اعضا میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور انہیں آثار کہتے ہیں۔
(1) ایک مرتبہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کسی جہاد سے تشریف لائے اور دولت خانہ میں تشریف لے گئے تو فرمایا کہ کوئی ہے کہ دف بجائے ام المؤمنین حضرت عائشہ نے دف بجانا شروع کیا اور ساتھ ساتھ یہ شعر فرماتی جاتی تھیں۔
اتیناکم اتیناکم فحیونا وحیاکم
اتیناکم اتیناکم یحیونا یحییکم
اور حضرت فرماتے جاتے تھے کہ اے عائشہ یہ ہی کہے جاؤ۔
(2) ایک مرتبہ حضرت جبرئیل یہ آیت شریف لے کر آئے واذا سمعوا ما انزلنا الی الرسول تری اعینھم تفیض من الدمع مما عرفوا من الحق تو اس آیت سے اس قدر فرحت اور سرور حاصل ہوا کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے اور پائے مبارک کے بل کود کر بیٹھ گئے، ردائے مبارک کاندھے سے گر پڑی جو صحابی موجود تھے سب نے اس چادر مبارک کے پارچے کر کے تبرکاً بانٹ لئے اور اپنے پاس رکھے۔
(3) ایک شخص جس کو کعب زہیر کہتے تھے زمانۂ جاہلت میں حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن تھا اور ہجو لکھا کرتا تھا جب مکہ فتح ہوا تو زہیر مکہ میں موجود تھا لوگوں نے اس سے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرے قتل کا حکم دیا ہے کہ زہیر کو جہاں پاؤ قتل کر ڈالو زہیر نے یہ سن کر عورتوں کا لباس پہنا اور اپنا سر اور منہ چادر سے چھپا کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور فوراً کلمۂ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوگیا اور عرض کیا کہ زمانۂ جہالت میں ساتھ شعر حضور کے ہجو میں لکھے تھے اب دو چند شعر حضور کی مدح میں لکھ کر لایا ہوں حضور نے فرمایا پڑھ اس نے شعر پڑھا جس کا مضمون یہ تھا کہ مجھے خبر لگی کہ رسول اللہ نے میرے قتل کا اعلان دیا ہے حالانکہ مجھے امید ہے کہ رسول خدا کے نزدیک عفو اور بخشش زیادہ عزیز ہے حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار اس شعر کی تکرار کرائی اور اپنا ملبوس شریف عنایت فرمایا، سماع میں جو تکرار شعر کرائی جاتی ہے اور درویش اپنا خرقہ قوال کو دیتے ہیں اس کا ماخذ یہ ہی حدیث شریف ہے ان ہرسہ احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وجود کرنا، شعر کی تکرار کرانا شیخ کا ملبوس تبرکاً رکھنا اورحالت کیف میں گویندہ کو کچھ دینا یہ سب مسنون ہے۔
حضرت فریدالحق والدین سے کسی نے دریافت کیا کہ اہل سماع پر جو بے ہوشی طاری ہوتی ہے اس کا کیا سبب ہے حضور نے فرمایا کہ جب خدائے تعالیٰ نے سب کو جمع کر کے فرمایا الست بربکم تو اس دلکش آواز سے سب بے ہوش ہوگئے اور وہ بے ہوشی ان میں مرکوز رہی اب جب مجلس سماع میں حاضر ہوتے ہیں تو وہی بے ہوشی ان میں اثر کرتی ہے سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ جب اللہ پاک نے بنی آدم کو جمع کرکے الست بربکم فرمایا تو اس کے جواب میں سب نے بلیٰ کا لفظ کہا بعض نے زبان سے کہا بعض نے ہاتھ سے بعض نے سر سے اشارہ کیا یہ ہی وجہ ہے کہ سماع کی حالت میں آدمی سے مختلف قسم کی حرکات ظہور میں آتی ہیں مولانا فخرالدین زرادی اپنے رسالہ سماع میں لکھتے ہیں کہ بعض مشائخ سے لوگوں نے دریافت کیا کہ یہ جو لوگ قوال کی صرف آواز اور الحان پر رقص کرتے ہیں اور بالطبع اس آواز پر حرکتِ اطراف ان سے ظہور میں آتی ہے کہ کوئی ہاتھ ہلاتا ہے کوئی پاؤں زمین پر مارتا ہے، اس کی کیا وجہ ہے جواب میں فرمایاکہ اسے عشقِ عقلی کہتے ہیں اور یہ اسی کے کرشمے ہیں کیونکہ عشقِ معشوق کی بات کہنے اور حکایت کرنے کا محتاج نہیں بلکہ اس کا تبسم اور ملاحظہ اور آنکھ اور بھوؤں سے حرکات لطیفہ اور اشارات ظریفہ ہی کفایت کرتے ہیں اور ان حرکات کو نورالحق روحانی کہتے ہیں۔
اشاراتِ تو پنہاں نیست اے یار
دل و جاں می بری جاناں بگفتار
سماع کی دو قسمیں ہیں ایک ہاجم کو سماع شروع ہونے سے پیشتر ہی ہجوم لاتا ہے دوسرا غیر ہاجم جس کا اثر سننے والے پر بعد کو پڑتا ہے وہ ہر لفظ کو حق پر یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یا اپنے شیخ پر یا جو کیفیت دل میں سمائی ہوتی ہے اس پر حمل کرتا ہے اور اس سے اس کی حالت متغیر ہوتی ہے بعض نادان لوگ کہتے ہیں کہ واہ شاہ صاحب کو تو خوب حال آتا ہے کہ ڈھول پر تھاپ پڑی نہیں کہ شاہ صاحب ناچنے کودنے لگے اللہ ان پر رحم کرے کہ صوفیوں کا مذاق اڑاتے ہیں اکثر دیکھا ہے کہ ان مذاق اڑانے والوں کا بڑا حال ہوجاتا ہے، مصرعہ
تو چہ دانی کہ دریں گرد سوارے باشد
لہٰذا ان باتوں سے پرہیز لازم ہے سماع میں بعض مغلوب الحال ہوجاتے ہیں کہ اگر لوہے کی کیل بھی ان کے جسم میں ٹھوک دی جائے تو ان کو خبر نہیں ہوتی بعض حال پر غالب رہتے ہیں کہ پھول پنکھڑی پیر تلے آجائے تو ان کو محسوس ہوتی ہے یہ بڑے مرتبہ کے لوگوں کا کام ہے افسوس بد نصیبوں پر کہ مجلس سماع میں صوفیوں کا امتحان لیتے ہیں اور ان کے پن وغیرہ چبھوتے ہیں جاہل یہ نہیں جانتے کہ صاحب کمال مغلوب الحال نہیں ہوتے بحالتِ حال بھی با ہوش رہتے ہیں، رقص کرنا مستحسن نہیں مگر اس وقت کہ آدمی مغلوب الحال ہوجائے اور سلطان العشق اس قدر غلبہ کرے کہ اگر رقص نہ کرے تو اندیشہ مضرت کا ہے کسی بزرگ نے کیا خوب کہا ہے۔
رقص آں بنود کہ ہر زماں برخیزی
بسے درد چو گرد از میاں برخیزی
رقص آں باشد زدوجہاں برخیزی
دل پارہ کنی وزسرِ جان برخیزی
نہایت ضعیف اور ناتوانوں کو دیکھا ہے کہ وہ مثل نوجوانوں کے رقص کرتے ہیں، دراصل وہ رقص نہیں کرتے بلکہ عشق رقص کرتا ہے، گریہ اعلیٰ درجہ کی نعمت ہے مگر حتیٰ الامکان آواز کو روکے گریہ کے آنسو ہاتھ سے پونچھے اور چہرہ پر ملے کیونکہ یہ آنسو نہیں ہیں بلکہ آبِ رحمت ہے بدن پر ملے کہ آتش دوزخ سے محفوظ رہے گا، بعض صوفیوں نے بلا وجود صرف نغمہ کی آواز پر رقص کیا ہے اس سے ان کی غرض فقرا کی موافقت ہوتی ہے اور ان کا یہ رقص عبادت میں داخل ہوگا جیسا کہ اپنی اولاد کے خوش کرنے کو ان سے ملاعبت اور بازی کرنا من قبیل عبادت ہے مصنف سیرالاؤلیا لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ امیر خسرو رقص میں آئے اور ہاتھ اونچے کئے اسی وقت سلطان المشائخ نے امیر خسرو کو اپنے پاس بلا کر فرمایا کہ چونکہ تم دنیا سے تعلق رکھتے ہو اس لئے تمھیں یہ لائق نہیں کہ ہاتھ اونچے کر کے رقص میں آؤ امیر خسرو نے فوراً ہاتھ نیچے کر لیے اور مٹھیاں باندھ کر رقص کرنے لگے اور پھر ہمیشہ مٹھیا ں باندھ کر امیر خسرو کو رقص کرتے دیکھا۔
رقص اگر ہمی کنی رقص عارفانہ کن
دنیا زیر پائے نہ دست بر آخرت فشاں
برکات سماع
آرندۂ فرحت و سرور است سماع
بخشندۂ روشئ و نور است سماع
برکاتِ سماع اس قدر ہیں کہ جن کا ذکر و شعار عاجز مؤلف کے قدرت سے باہر ہے کہ سب کو یکجا جمع کر دے البتہ چند برکات عرض کرتا ہوں۔
(1) حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ صوفیوں پر تین وقت میں رحمت نازل ہوتی ہے ایک کھانا کھانے کے وقت کہ صوفی بغیر فاقہ کے نہیں کھاتا دوسرے باہم ذکر کے وقت کہ صوفی بجز صدیقوں کے مقاموں کے اور کسی چیز کا ذکر نہیں کرتا، تیسرے راگ سننے کے وقت کہ اس کو وجد کے ساتھ سنتے ہیں اور حق کے سامنے ہوتے ہیں۔
(2) سماع میں جو کیف اور سرور حاصل ہوتا ہے اس کا منبع اور سر چشمہ رحمت حق ہے۔
(3) جس طرح لوہے کو لوہے سے رگڑنے پر ایک شعلہ پیدا ہوتا ہے اسی طرح سماع کے وقت قلب میں روشنی نمودار ہوتی ہے جس کا تعلق عالم ارواح سے ہے۔
(4) سماع میں چونکہ تمام تر عالم ارواح کی طرف ہوتی ہے اور یکسوئی قلب ہوتی ہے لہٰذا بعض وقت سامع دولت مکاشفہ سے سرفراز ہوتا ہے۔
(5) نغمہ بجائے خود باعث سرور و انبساط ہے اس سے انقباض دور ہوجاتا ہے، نغمہ کو روح کے ساتھ خاص تعلق ہے۔
(6) بعض مقامات کا طے ہونا محض سماع پرموقوف ہے جو مقام سلوک میں ریاضت شاقہ سے مشکل طے پاتا ہے وہ سماع کی بدولت آسانی سے طے ہوجاتا ہے۔
(7) جب درویش سماع کی حالت میں ہاتھ مارتا ہے تو ہاتھ کی شہوت جھڑ جاتی ہے پیر مارتا ہے تو پیر کی شہوت جھڑ جاتی ہے اور جب نعرہ مارتا ہے تو اندر کی شہوت نکل جاتی ہے۔
(8) سماع سے جذبات عشق بھڑکتے ہیں محبت کی آگ تیز ہوتی ہے قلب می لینت پیدا ہوتی ہے۔
مضرات سماع
ارباب صلاح را چو جاں نزدیک است
وز اہلِ فساد سخت دور است سماع
میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ شرائط اور ماحول کے اختلاف سے اشیا کے اثرات بدلتے رہتے ہیں سماع میں اگر خلافِ قواعد اور ضوابط شرکت کی جائے تو بجائے فائدہ کے نقصان کا قوی احتمال ہے لہٰذا چند مضرات کا بیان کر دینا ضروری ہے کہ اہل سماع احتیاط سے کام لیں اور نقصان سے محفوظ رہیں۔
(1) حضرت ابو عمر فرماتے ہیں کہ اگر میں نمود و نمایش کرنا یعنی جو حالت اپنے اندر نہ ہو اس کا اظہار کرنا تیس سال کی غیبت سے بد تر ہے۔
(2) جو شخص سماع کی حالت میں رقص و تحریک کرتا اور کپڑا پھاڑتا ہے مقصود اس کا اس فعل سے ریا و نمود اور اظہار درویشی ہے تو وہ ضرور ماخوذ ہوگا کیونکہ اس کا یہ فعل حرام ہے بلا کیف انگلی سے اشارہ بھی کرنا حرام ہے اور وہ انگلی دوزخ کی مستحق ہے۔
(3) کیف اور وجد زائل ہوجانے کے بعد خاموشی اور سکون لازم ہے اگر کوئی شخص بہ تکلف اپنی حالت سابقہ (وجد و حال) ظاہر کرے بدیں خیال کہ لوگ کہیں گے کہ اچھا حال تھا جو اس قدر جلد زائل ہو گیا تویہ بھی معیوب اور ریا میں داخل ہے ایسے ناجائزہ خیال کو دل میں جگہ نہ دینا چاہیے۔
(4) جو شخص عشق مجاز بلکہ یوں کہئے کہ شہوانی خواہشات میں گرفتار ہو اور جذبات نفسانی سے مغلوب ہو اس کے لئے سماع مضر بلکہ حرام ہے اس لئے کہ وہ مضمون اشعار کو اپنے مجازی مطلوب پر حمل کرے گا جس سے اس کے شہوانی جذبات مشتعل ہو کر نجر بہ فسق و فجور ہوں گے جو معصیت ہے۔
یہ ناچیز عرض کرتا ہے کہ کسی امرد یا عورت سے خواہشات نفسانی پوری کرنے کی غرض سے محبت کرنے کو عشق مجازی کہنا عشق کی توہین ہے یہ کسی قسم کا عشق نہیں بلکہ فسادِ گندم غلبہ شیطانی اور ولولہ نفسانی ہے۔
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی
یہ صحیح ہے کہ ولولۂ شہوانی اور عشقِ روحانی میں فرق محسوس کرنا بہت دشوار ہے عشاقِ روحانی نادرالوجود ہیں وہ لوگ قابل افسوس ہیں جو نفسانی خواہشات میں مبتلا ہو کر فسق کو عشق اور ہوس کو محبت سمجھتے ہیں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ حسن و خوبصورتی دیکھنے کے لئے ہے چھونے کے لیے نہیں، اگر کسی شخص کو امرد یا عورت سے عشق ہے اور وہ اللہ جمیل و یحب الجمال کے تحت میں ہے اور مصنوع کے حسن و جمال سے صانع کے حسن و جمال اور قدرت کا اندازہ کرے تو اس کو عشق مجازی کہتے ہین اوریہ ہی المجاز قنطرۃ الحقیقت ہے۔
آداب قوال
مطربِ خویش نوا بگو تازہ بتازہ نو بنو
بادۂ دل کشا بجو تازہ بتازہ نو بنو
جہاں آداب سامعین ہیں وہاں کچھ آداب گویند گان بھی ہیں زمانہ سلف کی تصانیف میں آداب قوال جداگانہ نہیں پائے جاتے ہیں ضمناً کہیں کہیں کچھ تذکرہ قوالوں کا آگیا ہے اس کی وجہ یہ ہی معلوم ہوتی ہے کہ اس زمانہ میں چنداں ان کی ضرورت نہ تھی قوال صاحب علم صاحبِ کیف اور ادا شناس عموماً ہوتے تھے پر ان کی صحبت ایسی پاک اور برگزیدہ ہستیوں کے ساتھ رہتی تھی جن کی ایک ہی نظر آدمی کو آدمی بنا دیتی تھی یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ابتدا میں صوفی قوال کو قوال بناتا ہے اور بعد کو وہی قوال صوفیوں کی ترقی مداراج کا باعث ہوجاتا ہے، کوئی گویندہ صحیح معنوں میں بلا صوفیوں کی صحبت پائے قوال نہیں ہو سکتا چونکہ فی زمانہ قوال عموماً ناخواندہ ہوتے ہیں او رپاک نفوس کی صحبت سے محروم ہیں لہٰذا چند ضروری آداب قوالوں کے عرض کرتا ہوں امید ہے کہ قوال ان سے مستفید ہونے کی کوشش کریں گے۔
(1) قوال کو طامع نہ ہونا چاہیے قوال کو جب بلایا جائے تو بلا تامل چلا جانا چاہیے جو کچھ ملے اسے تبرک خیال کرتے ہوئے خندہ پیشانی سے قبول کرے اس کی کسی ادا سے نفرت اور استکراہ نہ پایا جائے طوائفوں کی طرف پہلے کسی رقم کو ٹھہرانا نہ چاہیے یہ نہایت معیوب اور قوال کی شان کے خلاف ہے، یہ طوائفوں اور ڈوم ڈھاری کا رویہ ہے کہ مجرا کرنے اور گانے کے لئے پہلے ٹھہرا لیتے ہیں اور جب تک سائی نہ ملے گھر سے باہر قدم نہیں نکالتے اگر قوال کو باہر سے بلایا جائے تو زادِ راہ سفر طلب کرنے میں مضائقہ نہیں بلکہ بلانے والے کا فرض ہے کہ پہلے خود کافی زاد راہ بھیج دے۔
(2) قوال کو منشی اشیا کا استعمال نہ کرنا چاہیے عادت اور خصلت کا اچھا صوم و صلواۃ کا پابند ہو قوالی میں باوضو بیٹھے ملبوس صاف اورمعطر ہو کہ وہ روحانی برکات کا ایک ظاہری واسطہ ہے جو قوال نشہ کسی قسم کا استعمال کرتا ہو اس کا گانا سننے سے اجتناب لازم ہے ورنہ بجائے انبساط و انشراح کے انقباض اور انتشار پیدا ہوگا، شیخ زوز بھان بقلی اپنی تصنیف کتاب الانوار فی کشف الاسرار میں تحریر فرماتے ہیں کہ قوال خوبصورت ہو کیونکہ عارفانہ سماع میں واسطے ترویحِ قلوب کے تین چیزوں کے محتاج ہیں، روائح طیبہ، وجہ ملیح، صوت صبیح۔
بعض صوفیہ فرماتے ہیں کہ خوبصورت قوال سے پرہیز بہتر ہے اس میں خطرہ ہے۔
(3) قوال کا مخاطبہ اور توجہ صاحب ذوق اور صاف کیف کی طرف ہونا چاہیے امرا اور متکبرین کی طرف بامید طمع نہ ہو۔
(4) قوال کو احوال شناس اور دقیقہ رس ہونا چاہیے کہ اس کی نظر سامعین پر ہو کہ کس بیت سے کس پر کیا اثر ہوتا ہے اگر کسی شعر پر کسی صاحب کو کیف ہو تو اس شعر کی تکرار لازمی ہے جب تک کہ صاحب کیف ہو تو اس شعر کی تکرار لازمی ہے جب تک کہ صاحب کیف کو سکون نہ ہو، نا واقف قوال سے بسا اوقات انقباض ہوجاتا ہے اور اندیشہ ہلاکت کا رہتا ہے، وہ یہ نہیں جانتا کہ متواجد اس وقت کس حال میں ہے اور کس قسم کے اشعار اس کے مناسب حال ہیں کس طرف جانے میں اس کی سلامتی ہے اور کس طرف ہلاکت فی زمانہ واقف قوال کم ہیں لہٰذا قوالی مع اخوان کے سنے کہ اگر قوال غلطی کرے تو اس کو وہ متنبہ کردیں۔
(5) قوال کے لیے گلے بازی اور اپنے فن کی نمایش مذموم ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بے سرا اور علم موسیقی سے نابلد ہو، کلام کو ترنم اور لے کے ساتھ ادا کرے راگ راگنی اوران کے اوقات کا خیال رکھے۔
(6) ترتیب مضامین کا خیال رکھنا ضروری ہے، اول حمد و نعت سے شروع کرے اور سب سے آخر میں توحید کہے، توحید کے بعد دوسرا رنگ مشکل سے جمتا ہے۔
عام ہدایات
(1) جتنی قوال کے لیے طمع مذموم ہے اس سے زیادہ سامع کے لئے بخل اور طمع مذموم ہے قوال غریب تو ایک حد تک معذور ہے کہ اس کا ذریعہ معاش ہی قوالی ہے اور دنیا دار ہے سامع کو ادعائے محبت حق عز و جل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بزرگان دین ہے اول اور مقدم شرط خدا اور رسول خدا کی محبت کرنے کے لئے دنیا اور دنیوی دولت کو ٹھکرانا ہے۔
ہم خدا خواہی وہم دنیائے دوں
ایں خیالست و محالست و جنوں
غور کرو جب تم کو کوئی تمہارا دوست یا کوئی معزز شخص تحفہ بھیجتا ہے تو تم کو مسرت ہوتی ہے اور لانے والے کو تم اس خوشی کے صلہ میں کچھ نذر فریسندہ اور اپنی حیثیت کے موافق اور نیز باعتبار قدر و منزلت تحفہ کے دیتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو کہ تحفہ لانے والے کا کوئی دخل لانے اور نہ لانے میں نہیں وہ صرف ایک ذریعہ ہے تو اب مقام غور ہے کہ برکاتِ روحانی اور انبساطِ قلبی اور ترقی مدارج جو سماع میں اس بارگاہِ لم یزلی سے عطا ہوتی ہیں، ان کا ظاہرواسطہ تم تک پہننے کا قوال ہی ہے اور ظاہر ہے کہ ان تحائف کی قدر و منزلت جو فانی اور ہیچ ہیں ان کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں، پس خیال کرو کہ تمہارا اقوال کو نذرانہ دینا کیا معنی رکھتا ہے صاف ظاہر ہے کہ تم کو ان برکات کی نہ قدر ہے نہ اللہ عز وجل کی تمہارے قلب میں کوئی عظمت و وقعت ہے یعنی اتنی بھی نہیں جتنی تم کو ایک اپنے دوست یا دنیوی حاکم کی ہے باوجودِ استطاعت قوال کو نہ دینا، بین ثبوت اس بات کا ہے کہ تمہارا خدا اورخدا کے رسول کی محبت کا دعویٰ محض زبانی اور غلط ہے اور تم سماع کے اہل نہیں، سماع تمہارے نزدیک لہو و لعب سے زیادہ وقیع نہیں صرف تفریحاً سنتے ہو ایک بار حضرت سلطان المشائخ کے یہاں مجلس سماع منعقد ہوئی، سلطان المشائخ نے جو کچھ موجود تھا سب دے دیا جب کچھ نہ رہا تو ادھر ادھر نظر کی تو کھونٹی پر دستر خوان دیکھا اسی میں نان باندھ کر دے دیا یہ ہے اللہ اور اللہ کےر سول کی محبت نہ یہ کہ تم روپیہ تک دینے میں بخل کرتے ہو اور دعوے محبت کا کرتے ہو جو محض باطل ہے سچ پوچھو تو تم ہی لوگوں نے قوالوں کو خراب کیا ہے کہ ان کو رقم معین کرانا پڑتی ہے۔
(2) قوال کو جب نذر دو تو اپنے شیخ کو پیش کرو اگر مجلس میں شیخ نہ ہوں تو اپنے سلسلہ کے کسی بزرگ کو یا صاحب مجلس یا کسی صاحب کے ذریعہ سے جن کی طرف تمہارا قلب رجوع ہو قوال کو خود پیش کرنےمیں بھی مضائق نہیں مگر یہ نہایت معیوب طریقہ ہے کہ روپیہ قوال کی طرف پھینک دو یہ علامت تکبر کی ہے اور تم اللہ جل شانہ کے واسطہ کی توہین کرتے ہو قوال بلاشبہ بارگاہِ ایزدی کا ایک ظاہری واسطہ ہے، قوال کو خود ایسا روپیہ لینے سے اپنے بے وقعتی نہ کرنا چاہیے کیا تم نے کبھی کسی نائی یا ملازم کو ”حصہ“ لانے پر اس طرح پیسہ پھینک کر دیا ہے ؟ تصوف سراسر ادب ہی ادب ہے تمہارے کسی قول و فعل سے دامن ادب نہ چھوٹنا چاہیے۔
(3) غذا کم کھاؤ حقہ، سگریٹ مجلس میں نہ استعمال کرو کل آداب عبادت ملحوظ رکھو سماع بھی ایک عبادت ہے۔
(الف) حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ اگر مجھے یہ علم بھی ہو جائے کہ نماز نفل سماع سے بہتر ہے تو بھی میں نوافل میں مشغول نہ ہوں اور سماع سنوں۔
حضرت جنید نے اسی لئے فرمایا کہ نغمہ کو روح کے ساتھ یوم الست سے ایک خاص تعلق ہے دوسرے سماع میں جو یکسوئی حاصل ہوتی ہے وہ عام طور پر نو انفل میں میسر نہیں اور کل دارد مدار یکسوئی اور سکون قلب پر ہے۔
(ب ) امام شمس الائمہ گرگانی نے حضرت شیخ المشائخ خواجہ مودود چشتی سے کہا کہ میں آپ سے ایک بات دریافت کرتا ہوں اور اس دریافت کرنے سے میرا مدعانہ بحث کرنے کا ہے اور نہ فقہی مسئلہ دریافت کرنے کا ہے میں صرف آپ کا اصول اور آپ کی رائے معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ بہتر ہے کہ سماع بہتر ہے یا نماز۔
شیخ المشائخ نے فرمایا کیا بر اصطلاح سلوک دریافت کرتے ہو امام صاحب نے کہا کہ ہاں شیخ المشائخ نے فرمایا کہ تم علمائے دین سے ہو مجھ سے بہتر جانتے ہو کہ اگر کوئی شخص دوگانہ نماز بہ تمام شرائط اور ارکان مقررہ با خلاص تمام ادا کرے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کے قبول ہونے میں احتمال ہے، ان شاء اقبل و ان شاء رد، شیخ الائمہ نے کہا کہ ہاں شیخ المشائخ نے فرمایا کہ اس کے قبول ہونے میں خطرہ ہے اور السماع جذبۃ من جذبات الحق در عین قبول است تم دانشمند اور مجتہد ہو خود انصاف کر لو، فقیر کے نزدیک یہ صیح اور درست ہے اس سبب سے کہ نماز تمام مکاسب میں سے ہے اور سماع اور وجد تمام مواہب اگرچہ بعضے مواہب نتیجۂ مکا سب ہیں اور بعض محض عطا لیکن سرود بین عنایت و قبول حق سبحانہ ہے کہ اس میں کوئی شائبہ ردکا نہیں۔
(4) مبتدی کو سماع میں غلو نہ کرنا چاہیے تا وقتیکہ وہ اپنے نفس کو ریاضتوں سے مہذب نہ کرے جب سماع کی پوری خواہش پاوے تو شریک سماع ہو۔
(5) جو شخص سماع میں پہلے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اسے صاحب سماع کہتے ہیں اور جو کچھ سماع میں سہو ہوتا ہے اس سے اُس کی باز پرس ہوتی ہے لہذا اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ حتی المقدور خود صاحب سماع نہ بنے حسن بیدی عجیب قوال تھا اس کے گانے کا یہ اثر تھا کہ بمجرد شروع کرنے کے عشاق کے دلوں میں آگ بھڑ ک اٹھتی تھی اور سنگ دل سے سنگ دل لوگ بے اختیارا نہ حرکات کرنے لگتے تھے، سلطان المشائخ پر بہت اثر ہوتا لیکن آپ نہایت ضبط سے کام لیتے اورکبھی صاحب سماع نہ بنتے اللہ اللہ یہ احتیاط فی زمانہ بخشا قال ساکن برنا وا ضلع میرٹھ اپنے وقت کا حسن بیدی ہے تمام صفات حسن بیدی کی بخشا میں موجود ہیں بخشا نے ساز پر ہاتھ رکھا اور عشاق کے دلوں میں آگ بھڑ کی سخت سے سخت دل آدمی بخشا کی قوالی میں بے اختیار ہو جاتا ہے بخشا اور حسن بیدی میں اگر فرق ہے تو نسبتاً وہی فرق جو اس زمانے کے صوفیوں میں اور اس زمانہ کے صوفیوں میں ہے، آخر میں اس پریشاں نگاری پر معذرت خواہ ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ان اوراق سے اہلِ ذوق اور قوال یکساں استفادہ حاصل کریں گے۔
صدائے ذکر ریائی نمی دہد ذوقے
خوشا نوائے نے و نعرہائے مستانہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.