بھگوان وشنو کے شہر"گیا" میں۔۔
ہندوستان کا ایک تاریخی شہر کا نام گیا ہے جس کی تواریخ ہزاروں سال پر محیط ہے جس کا تذکرہ رامائن اور مہا بھارت میں ملتا ہے، سیتا اور لکشمن کے ساتھ ساتھ ان کے والد راجہ دشرتھ پِنڈدان کرنے گیا آئے، مہا بھارت دور میں اس شہر کی شناخت گیا پوری کے طور پر کی گئی ہے، اس شہر کو بھگوان وِشنو کا شہر بھی کہا جاتا ہے جنہوں نے امن کا پیغام دیا، بھگوان شری کرشن اور بھگوان شری رام، بھگوان وشنو کے ہی اوتار ہیں۔۔۔
بودھ مذہب کے لیے بھی یہ شہر بہت مقدس ہے، اِسی شہر میں بودھ مذہب کے بانی مہاتما بدھ کو پیپل کےدرخت کے نیچے عرفان حاصل ہوا جو بودھ گیا کے نام سے مشہور ہے، یہاں بودھ مذہب کے ماننے والے پوری دنیا سے عقیدت کے ساتھ آتے ہیں۔۔
تصوف کی بھی یہاں سے اشاعت ہوئی، شہر گیا کے قلب میں حضرت پیر منصور کوتوالی کے سامنے حضرت عثمان شہید کی درگاہ، رام ساگر واقع حضرت عطا حسین فانیؔ کی خانقاہ اور بیتھو شریف میں واقع حضرت مخدوم درویش اشرف کی درگاہ اور خانقاہ مرجع خلائق ہے جہاں سے دعوت کا کام ہوا، آج بھی یہ درگاہ اور خانقاہ تمام مذاہب کے لیے عقیدت کا مرکز ہے۔
اس شہر سے کئی ادبی رسالے نکلے جس میں ماہنامہ ندیم، ماہنامہ آہنگ، ماہنامہ سہیل، ماہنامہ مورچہ جیسے ادبی رسالے شائع ہوئے جن کی اردو ادب میں اپنی الگ شناخت تھی، 1935ء میں شائع ہوئے ندیم کا بہار نمبر آج بھی مقبول ہے۔
اردو ادب کے معروف شاعر اور انشائیہ نگار انجم مانپوری، اسلامک تاریخ نویس سید ریاست علی ندوی، تنقیدی کتاب کاشف الحقائق کے مصنف امداد امام اثرؔ اور جگیشور پرشاد خلشؔ، قیس گیاوی، سریر کابری جیسے شاعر، ترقی پسند ناقد پروفیسر اظفر ظفر، پروفیسر شاہ طیب ابدالی کو گیا سے ہی جانا جاتا ہے، عصرِ حاضر میں عشرت ظہیر، خورشید حیات، پروفیسر محفوظ الحسن، منصور عالم، معصوم عزیز کاظمی، عین تابش، احمد صغیر، ڈاکٹر عبدالحئی، احسان تابش، سید احمد قادری، سید غفران اشرفی، سید اصدر علی جیسے لوگ اردو ادب میں اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں، ملک اصغر ہاشمی، سید شہروز قمر، سراج انوار وغیرہ ہندی صحافت میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں، کمیونیٹی جرنلزم کی شروعات گیا میں پہلی بار گیا آج تک کے نام سے ویملیندو چیطنیہ نے کی تھی، عمران علی اس کمیونیٹی جرنلزم کو ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے گاؤں دیہات کی زندگی کو عوام تک بہار آج کل کے ذریعے پہنچا رہے ہیں، وہیں سید فیض الرحمٰن صوفی اپنے الگ طرح کی 24X7 گیا واٹس اپ میڈیا چلا رہے ہیں شہر کی ہر خبر عوام تک پہنچانے میں کامیاب ہیں۔
اس شہر نے فلمی دنیا کو بھی کئی اداکار دیے، مشہور اداکار ایم ایم فاروقی جو لی لی پوٹ کے نام سے مشہور ہیں، بڑے سکرین پر کام بھی کر رہے ہیں اس کے علاوہ کئی ٹی وی سیریل اور فلموں میں اسکریپٹ لکھا، گیا شہر کے ہی علی خان بھی ہیں جو سرفروش جیسی فلموں میں اپنا کردار نبھایا اور آج بھی بالی ووڈ میں کام کر رہے ہیں۔
گیا ضلع میں اردو شاعروں کی ایک بزم ہے جسے بزم راہی کہتے ہیں، بزم راہی کی شروعات ایم۔ ایس۔ راہی نے کی تھی جو خود بھی ایک شاعر تھے، یہ بزم ہر مہینے طرحی مشاعرہ کا انعقاد کرتی ہے، اب تک 330 ماہنامہ طرحی مشاعرے ہوچکے ہیں، آج یہ بزم راہی جناب غفران اشرفی کی سرپرستی میں چل رہی ہے، تیس سال پرانی یہ بزم نئی نسل کے اندر ادب کا ذوق پیدا کرنے میں ایک حد تک کامیاب ہے۔
اس شہر میں اردو فکشن نگاروں کا ایک مرکز وائٹ ہاؤس کمپاؤنڈ میں رینا ہاؤس ہوا کرتا تھا، یہ گھر معروف ترقی پسند نقاد، افسانہ نگار اور صحافی اہم ادبی جریدے ’آہنگ‘ کے مدیر کلام حیدری کا تھا جہاں ہندی اور اردو کے افسانہ نگار کی نشستیں ہوا کرتی تھیں، کوئی فکشن نگار بہار آئے اور رینا ہاؤس نہیں جائے یہ ممکن نہیں تھا، کلام حیدری کے انتقال کے بعد رینا ہاؤس بند ہو گیا آج وہاں اپارٹمنٹ بن گیا ہے۔
اس شہر میں تین مسلم مینارٹی ہائی اسکول جس میں ہادی ہاشمی ہائی اسکول، قاسمی ہائی اسکول اور اردو گرلز ہائی اسکول کے ساتھ ایک قاسمی مڈل اسکول بھی ہے، دوسری طرف مسلم مینارٹی پی جی کالج ہے جس کا نام مرزا غالب کالج ہے، اس کے علاوہ کئی مدارس ہیں جس میں مدرسہ قاسمیہ اور مدرسہ انوار علوم آزادی سے قبل کے مدارس ہیں۔
اس شہر میں ریاست بہار کا پہلا کتب خانہ ہے جسےگیا پبلک لائبریری بھی کہتے ہیں جو گاندھی میدان کے نزدیک ہے اس کی شروعات 1855ء میں اس وقت کے لیفٹیننٹ جنرل جیمس ہلڈی نے کی تھی، اس کے علاوہ بھی ایک اردو لائبریری کٹھوکر تالاب میں ہوا کرتی تھی جو اب ناپید ہو چکی ہے، اس کے علاوہ آج شہر میں کئ پرائیویٹ لائبریری ہیں جسے محلہ کے نوجوان چلاتے ہیں، جیسے کریم گنج کی یوتھ یونیٹی لائبریری جو محمد شمیم کی زیرِ نگرانی عمدگی سے چل رہی ہے، اردو کے مشہور فکشن نگار ڈاکٹر شاہ حسین الحق نے ایک لائبریری نیو کریم گنج میں مولانا انوارالحق لائبریری کھولی جو آج بھی کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے۔
1994ء میں ایک یوتھ لائبریری گیا کے محلہ نیو کریم گنج میں کھلی، اس کی شروعات محلہ کے نوجوانوں نے کی، اس لائبریری کی شروعات سید محمد متین الدین، اعجاز سلطان، افروز عالم (ببلو)، طارق حسن، معراج نظامی، رشاد خان، شاہ فیصل، نوشاد اصدق، آفتاب بھائی، شکیل احمد انصاری، تنویر احمد (بوبی بھائی)، منّا بھائی، زین العابدین، ضیاؤ الحق، اخترسلطان، فیصل رحمانی، سید راغب وغیرہ نے ایک کرایہ کے مکان سے کی، لائبریری کے بانیان کے علاوہ محلہ کے کئی نوجوانوں کو سرکاری نوکری ملی، چند کا نام تو آج بھی ہمارے ذہن میں ہے، محمد داؤد ریزرو بینک آف انڈیا، زین العابدین ٹیچر، فرید احمد پروفیسر، اقبال حسین ٹیچر، سید سرفراز صاحب بی۔ ڈی۔ او۔ شامل ہیں، وقت گزرتا گیا لائبریری کے بانیان سب اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے جو نئی نسل آئی وہ موبائل میں غرق ہوگئی اور اس طرح ایک کامیاب لائبریری بند ہو گئی۔
نئی نسل کو موبائل سے ہٹا کر سماج کو بہتر بنانے اور کتابوں کو اپنا وقت دیکر پڑھنے کا ماحول بنانا ہوگا، ورنہ یہ نئی پود علم تو رکھے گی مگر پڑھنے سے بےبہرہ ہو جاۓگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.