ہم بچوں کی مجلس میلاد
پیغمبر پر نبوت ختم ہوگئی، ختم ہونے والی چیز نبوت ہے نہ کہ کارِ نبوت، یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی پیغمبر نہیں آئے گا، جہاں تک پیغمبر کے دعوتی مشن کی بات ہے تو وہ تاقیامت قائم رہے گا اور اس دعوتی مشن سے عوام کو بیزار کرنے کے لیے صوفیوں نے ایک طریقہ اپنایا جسے مجلسِ میلاد کہا جاتا ہے۔
بر صغیر ہند و پاک کے مسلم معاشرے میں ابتدائی دور سے ہی مختلف مواقع پر محفل میلاد کا انعقاد کیا جاتا تھا، میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انعقاد مردانہ محفل میں بھی ہوتا تھا اور خواتین کی محفل میلاد بھی آراستہ ہوتی تھیں جو ہمارے بچپن میں عام تھا، ربيع الاول کے مہینہ میں تو تقریباً ہر گھر میں مولود شریف کا انعقاد ہوتا تھا۔
میں تقریباً دس گیارہ سال کا تھا ریاست بہار کے ضلع گیا کے محلہ نیو کریم گنج میں رہتا تھا، جہاں تقریباً ہر گھر میں مجلس میلاد کا اہتمام ہوتا تھا، اس میں ہمارا گھر بھی تھا کبھی زنانہ میلاد تو کسی سال مردانہ میلاد کا اہتمام ہوتا تھا۔
یہ بات 1986- 1987 کی ہے، مجھے تھوڑا تھوڑا آج بھی یاد ہے، میں اسکول میں چھٹی یا ساتویں جماعت کا طالب علم تھا، میرے پاس مٹی کا ایک چُکّا (جسے گُلّک بھی کہتے ہیں) ہوا کرتا تھا، میں اس میں پیسہ جمع کرتا تھا، میں نے سوچا کہ عورتوں کی اور مردوں کی محفل میلاد تو ہوتی ہے، کیوں نہ ہم بچوں کی محفل میلاد کا اہتمام کریں! ہم دوستوں کو بلائیں، سردی کا موسم تھا میں نے محلہ کے آٹھ دس دوستوں کو دعوت دی پھر مسئلہ یہ پھنسا کہ میلاد کون پڑھائے گا؟ بہت سوچا آخیر میں اس کے لیے سید محمد متین الدین کو کہا کہ میلاد میں تقریر تم کرو گے، متین ہمارے ساتھ ہی مدرسہ اور اسکول میں ہم سبق تھے، متین کو عربی اور اردو کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال کہ اشعار بچپن سے ہی ازبر تھے اور والدین کی تربیت نے اسے مزید پختہ بنا دیا تھا، میں نے چُکّا توڑا تو سات روپے چالیس پیسے نکلے، چھت کی صفائی کی، پرانی کریم گنج سے بُندیا خریدی، عصر کے بعد چند دوست آئے اور متین الدین نے مکمل تقریر کی صلوۃ و سلام کے بعد پُرمغز دعا کی پھر ہم سارے دوستوں نے میٹھی بُندیا بڑے شوق سے کھائی، متین الدین فی الحال ریاست بہار کے ضلع ارول کے ہردے چک کے ایک سرکاری اسکول میں استاد ہیں۔
میں آج بھی ان دنوں کو یاد کر کہ سوچتا ہوں کہ صوفیائے کرام نے کس طرح دعوتی مشن کو آگے بڑھایا اور میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ انسانیت اسپرٹ ہمارے اندر پیدا ہوئی، بڑا نہیں چھوٹا ہی سہی مگر ایک دعوتی کام کی شروعات اس طرح سے خدا نے مجھ سے کروایا۔
ہم سب کو یہ سوچنا ہوگا کہ اس تیز رفتار دور میں ہم اپنے بچوں کو کیا دے رہے ہیں، آج یہ بتانا اور ضروری اس لیے ہے کہ نبی کریم سے محبت اور نئی نسل کو راہِ مستقیم کے لیے تیار کرنا یہ ہم سب کی بڑی ذمہ داری ہے۔
آج محفل میلاد کی جگہ اور وقت دونوں ہی موبائل، سیریل اور اس طرح کی چیزوں نے لے لی ہے مگر وہ اسپرٹ اب نئی نسل کے اندر کیسے آئے گا یہ سوچنا ہوگا!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.