Sufinama

"نئے دھان کا رنگ" اکیسویں صدی میں صوفیانہ ادب کا بہترین شاہکار

ٹی ایم ضیاؤالحق

"نئے دھان کا رنگ" اکیسویں صدی میں صوفیانہ ادب کا بہترین شاہکار

ٹی ایم ضیاؤالحق

MORE BYٹی ایم ضیاؤالحق

    علی امام فکشن اور تعلیم و تدریس کی دنیا کا معتبر نام ہے۔۔۔۔۔۔ ۲۰۲۳ یعنی اسی سال ان کی ایک ناول آئی ہے جس کا نام نئے دھان کا رنگ ہے، اس ناول سے قبل چار افسانوں کا مجموعہ منظر عام پر آچکے ہیں، ۲۰۱۸ میں علی امام کے افسانے، ۲۰۰۴ ہاں میں یہاں ہُوں، ۱۹۹۵ میں متبھید اور ۱۹۸۵ میں نہیں شامل ہے۔۔۔۔

    میں ابھی بات کر رہا ہوں علی امام کے ناول نئے دھان کے رنگ کی۔۔۔۔ دو سو چار صفحات پر مشتمل اس ناول کا موضوع سماج کے تانے بانے اور صوفیائے اکرام اور سنتوں کے طریقے کا سماج جہاں امن و آتشی ہے۔۔۔ ترقی پسند دور میں جہاں ایک بٹن دبا کر دنیا کی صورت حال سے ہم روبرو ہو رہے ہیں وہیں وہیں ہم اپنے ثقافت سے دور ہوتے جارہے ہیں۔۔۔ جس فصل کی پیداوار کو ہم بڑھانے کے لیے ہم زہریلے کھاد کا استعمال کر رہے ہیں اس سے آپ کی صحت ہی نہیں بلکہ پورا سماج زہریلا ہو گیا ہے۔۔۔

    اس ناول میں محفوظ، گھسیٹا، راجندر بابو، مکھیا جی، بدری بابو، بدرو اور پارینہ کے ارد گرد گھومتی ہے جو ایک صوفی صاحب کی تربیت میں ہے۔۔۔۔

    سماج میں مذہب کے نام پر جو زہر بویا جا رہا ہے اور ایک صوفی اس زہر کو ختم کرنے کی کسی کوشش کرتا ہے اس ناول میں سمجھایا گیا ہے، صوفی صاحب سارے مذہب کی بنیادی تعلیم جو یکساں ہے اس کی تربیت اپنے گاؤں میں کرتے ہیں۔

    پنڈت جی کی بہو رات بارہ بجے بیمار پڑتی ہے پنڈت جی صوفی بابا کے دروازے پر پہنچے اور روہانسی آواز میں بولے بابا اٹھائیے میری بہو پیڑا سے تڑپ رہی ہے اٹھائیے بابا، جلدی کیجیے میری بہو مر جائے گی۔

    صوفی بابا پنڈت جی کے ساتھ گئے ایک گلاس پانی منگوا کر زیادہ تر حصہ پھیک دیا اور تھوڑے سے پانی میں دوا نکال کر پانی میں ڈراپر سے چار بوند ڈالی اور کہا لیجیے اسے جا کر پیلا دیجیے۔۔۔

    پھر اپنی جیب سے لال دھاگا نکال کر اس پر دم کیا اور اس کی ڈوری بنا کر پنڈت جی کو دی کہ اسے بہو کی کمر میں بندھوا دیں۔۔۔۔۔ لوگ سوچ ہی رہے تھے کی جلدی اسپتال لے جانے کا انتظام کیا جائے۔۔۔ اتنے میں ہی خبر آئی کی بچہ باہر آگیا۔۔۔۔ بابا کی دوا ڈوری نے کام کیا۔۔۔۔۔ لکھیا جی نے صوفی بابا سے پوچھ لیا کہ ”کیا پڑھ کر جھاڑتے ہیں، صوفی بابا کی آنکھیں چمک اٹھیں کہا کچھ نہیں بس چند دو ہے؟ ہیں جنھیں پڑھتا ہوں، لکھیا جی چونکتے ہیں ”دو ہے؟“ ہاں بھائی دو ہے، سینہ بہ سینہ چلے آرہے ہیں“ ذرا ایک آدھ بتائے تو“ بتانا تو نہیں چاہیے مگر سنیے مخدوم شرف الدین یحییٰ منیری کا دوہا۔

    کالا ہنسا نرملا جسے سمندر تیر پنکھ پیارے بکھ ہرے نرمل کرے سریر شرف حرف مائل کہیں درد کچھ نہ بسائے گرد چھوئیں دربار کی سو درد دور ہو جائے۔

    دوسرا سنیے۔

    غوثی بابا غوثی مائی

    غوث غوث پکارو بھائی

    غوثی انجی غوثی کنجی

    غوثی سب مشکل کی کنجی

    فلاں (مریض کا نام) کے

    سر پر دشمن کا چھتر

    اس کا دشمن ہو جائے پچھتر

    مکھیا جی اصل میں یقین اور وشواس ہے، سامنے والے آدمی کو اگر آپ پر وشواس ہے تو سب جھاڑ کام کر جاتا ہے مریا دا پرش کی خصلت پیدا کرنا پہلی شرط ہے، مکھیا جی بول اٹھے ”میرے دادا سنکٹ میں رام چرتر مانس کا دوہا پڑھتے تھے؟

    دین دیال پریدو سمبھاری

    پربھو ناتھ مم سنکٹ بھاری

    تبھی اندر سے آواز آئی لكچھمینیا یا پیدا ہوئی ہے، مکھیا جی نے پنڈت جی کو ہنستے ہوئے کہا؟ پنڈت جی لیجیے اب خوشی منائیے ہاں مگر سوچ سمجھ کر نام رکھیے گا“

    پنڈت جی صوفی بابا کی طرف دیکھتے ہوئے بولے ’’کیا نام رکھیں بابا! آپ ہی بتائیے“ بابا نے مسکراتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا پریرنا !

    دیکھیے صوفی بابا نے سماج میں آگے بڑھ کر بدری بابو نے رنگ لال کے ہاتھ سے کدال لیا اور جمعراتی کو دے دیا کہ تم پگڈنڈی کاٹ کر پہلے سینچائی کر لو“

    کچھ سوچ کر جمعراتی نے کہا ”بدری بابو ہم دونوں کا روز کا یہ دھندا ہے، اس لیے جب رنگ لال نے بہاؤ اپنی طرف کر ہی لیا ہے تو اسے سینچائی کرنے دیجیے، میں اس کے بعد پانی کا بہاؤ اپنے کھیت کی جانب کروں گا“

    بدری بابو جمعراتی کی بات سن کر چہک اٹھے اور کہنے لگے ”پیار کی دھوپ چھاؤں میں ہی ہم کھلتے ہیں اور ہمارے اپنے کھلکھلاتے ہیں، دوسروں کے ساتھ ہمارا جوڑ پیار کے پل پر ہی ٹکا ہے، میٹرو سٹی کے لڑکے شادی بیاہ میں گایے جانے والی گیت کے بارے میں شاید ہی جانتے۔

    مولویوں نے صرف مسلک پڑھا اور اپنے مسلک کی اشاعت میں لگ گئے جب کہ صوفیائے کرام صرف اپنے مذہب کی نہیں بلکہ دوسرے مذہب کی بھی کتابیں پڑھیں اور سمجھیں تاکہ گاؤں کا کلچر ایک سا ہو، صوفیائے کرام نے کس طرح اپنی زندگی گزاری اور لوگوں کو اپنے طرف متعارف کرایا آپ نیچے دیے اس اقتباس سے اندازہ لگا سکتے ہیں، شیلندر نے صوفی صاحب سے کہا ”بابا رام چرتر مانس آپ نے پڑھی ہے“

    انہوں نے کہا کہ رام چرتر مانس کا اردو میں کئی انواد ہے، ایک ڈاکٹر ضمیر احسن کا ہے اور فارسی میں اکبر کے دربار کے نورتن ابوالفضل فیضی نے کیا ہے، رام چرتر مانس کی چوپائیاں ہر خاص و عام کے زبان سے موقع بہ موقع سننے کو مل جاتی ہیں، دکھ، مصیبت سے نجات کے لیے بھی یہ دو ہے پڑھے جاتے ہیں، رام لیلا گنگا جمنی تہذیب کی بھی مثال ہے، ہندوستان میں رام لیلا کی ہئیت کے پیش کرنے کے لباس، مکھوٹے، زیب و زینت کے سامان، مکٹ اور عظیم الشان پتلے کی تعمیر صدیوں سے روایتی انداز میں مسلم کا ریگر اور کلا کار کیا کرتے رہے ہیں، گاؤں گھر میں عام طور پر اداکاری میں بھی شامل رہتے ہیں، بڑے بڑے رام لیلا کی کمپنیوں میں مسلمان بھی فنکار کے طور پر شامل رہتے ہیں۔

    رام لیلا کی شکل و شباہت بدلتی جارہی ہے پھر صوفی بابا بول اٹھتے ہیں کہ رامائن کی کہانی سنسار میں مقبول ہے، اس کی مقبولیت کا ایک اہم راز اس میں موجود کرداروں کا اخلاقی اور مذہبی برتاؤ رہا ہے، اس کے سارے کردار مثالی حسن اخلاق اور فرض کی ادائیگی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے، چاہے بھگت ومان کا کردار بھگتی اور خدمت کے لیے ہو یا چھوٹے بھائی پھن کی فرماں برداری ہو، جب راج گدی کی بات آتی تو بھرت کہتے ہیں مجھے راج گدی نہیں چاہیے، اس پر حق بڑے بھیا رام کا ہے، رام کہتے ہیں کہ بھائی ماتا کیئی، ہیں یہ نے آپ کے لیے اسی طرح سیتا راون کے لاکھ راج مانگا ہے، اس پر صرف آپ کا ہی حق ہے، پہلا نے دھمکانے پر بھی پتی ورتا کا دھرم نہیں چھوڑتیں، رام اپنی سوتیلی ماں کے کہنے پر خاموشی سے راج پاٹ چھوڑ کر چودہ برس کے لیے بن باس چلے جاتے ہیں، باپ کی فرماں برداری اور ماں کیکئی کے باپ سے کئے گئے وعدے کو پورا کرتے ہیں، اس بات کا ذکر جگہ جگہ کتابوں میں ملتا ہے۔

    اردو میں چکبست کی ایک مشہور نظم رامائن کا ایک سین جس میں رام اپنی ماں کو شلیا سے وداع ہونے کے لیے ان کے پاس جاتے ہیں، سنیے رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کا نام راہ وفا کی منزل اول ہوئی تمام منظور تھا جو ماں کی زیارت کا انتظام دامن سے اشک پوچھ کے دل سے کیا کلام اظہار بے کسی سے ستم ہوگا اور بھی دیکھا ہمیں اداس تو غم ہو گا اور بھی وہیں بدری بابو پر صوفی صاحب کی صحبت کا کیا اثر پڑتا ہے یہاں دیکھیں۔

    بدری بابو کہہ اٹھے کہ ہمارے بچپن میں محرم کسی شردھا اور پریم سے منایا جاتا تھا، کئی لوگوں کی شمولیت آج بھی ہے مگر پہلی جیسی بات نہیں، محرم کا چاند دیکھتے ہی چاند رات سے ہی ایک طرف شوک اور ماتم کا سماں چھا جاتا ہے، ایک عجیب سماں بن جایا کرتا ہے تو دوسری طرف ظلم کے خلاف جنگ کا جذبہ ابھر آتا تھا... امام باڑہ سج جاتا ڈنکا بجنا شروع ہو جاتا سبیل جاری ہو جاتی، جس دن کر بلا سے مٹی لا کر بیٹھا دیا جاتا تو امام باڑے کا ماحول اور بھی بدل جاتا... مرثیہ شروع ہو جاتا ہمارے گاؤں کے جھڑنی مرثیہ کا دور دور تک چرچہ تھا، خلیفہ پگڑی باندھ لیتے، پیک نکلنا شروع ہو جاتا صوفی بابا آپ کو تو یاد ہو گا ہم پیک بنتے تھے۔

    صوفی بابا نے کہا کہ اچھی طرح یا یاد ہے یہ بھی یاد ہے کہ آپ کے دادا جی کو اب خلیفہ کی پگڑی باندھی جاتی تھی پھر بدری بابو بولے ”میرے پر یوار میں بیٹا پیدا تو ہوتا تھا مگر مر جایا کرتا تھا اس لیے وادی نے امام باڑے میں منت مانگی تھی کہ اگر بیٹا ہوا اور جیوت رہا تو چھ سال ۱۸ سال تک پیک بنے گا، سنجوگ سے میں پیدا ہوا اور چھ سال کی عمر سے ایک بنا شروع کر دیا، میرے گلے میں چاندی کا چاند ستارہ بطور طوق ڈال ریا جاتا، مجھے ہری کفنی پہنا دی جاتی کمر میں گھنگر و والا پتا لگا دیا جاتا، ہری پگڑی اور گلے میں بدھی ہاتھ میں علم پکڑا دیا جاتا... پیک کے سرغنہ کے حوالے کر دیا جاتا روز گروہ کے ساتھ ۱۲ (بارہ) امام باڑے کی حاضری دیتا... یا علی یا حسین کا نعرہ لگاتا... ہر امام باڑے پر شربت ملیدہ اور رحم مالتا.... لوٹ کر جب گھر آتا تو دروازہ کے باہر ہاتھ پیر دھوتا.... اسنان کرتا پھر اندر جا کر تختہ پر بیٹھتا گھر کے لوگ خوب خوب سواگت کرتے... جب گاؤں میں تعزیہ گھومنے نکلتا تو امام بارے سے اٹھ کر ہمارے دروازہ پر اس کا پہلا پڑاؤ ہوتا... ہاں یا علی یا حسین کا نعرہ لگتا اور پھر کھیلوں کی نمائش ہوتی... محبوب دادا اور دادا جی کی شمشیر بازی کی نمائش ہوتی اور خوب خوب نعرے لگتے پھر محبوب دادا کا بنوٹ شروع ہوتا۔۔۔ کوئی ۲۵-۲۴ لوگ ان پر حملہ کرتے پہلے تو وہ اپنے پینترے سے ایسا ماحول بنا دیتے کہ کھیل میں جوش آجاتا محبوب دادا پر بیک وقت سارے ڈنڈے پٹنے جا رہے ہیں اور وہ بھی ڈنڈوں کو آنکھ جھپکتے بات کیے جا رہے ہیں اور سلسلہ ایسا ہوتا کے دشمنان میدان چھوڑ کر بھاگ جاتے، ڈنکا بجتا رہتا یا علی یا حسین کا نعرہ بلند ہوتا رہتا، آج بھی ہے مگر وہ بات نہیں۔

    ہولی کے تیوہار کو لےکر آج کے نوجوان کو کیا پتہ! اگجا دہن کے بعد دھواں کی سمت کا دیکھ کر لوگ باگ پیشن گوئی کرتے ہیں کہ آنے والا سال کیسا رہے گا، اگر دھوئیں کی اُٹھان مشرق کی سمت ہوتی ہے تو سمجھا جاتا ہے راجا اور پرجا وانوں آنے والے سال میں سکھی رہیں گے، اگر دھواں مغرب کی سمت اٹھ کر جاتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کھیت میں گھاس توار کی بہتات رہے گی، دھواں شمال کا رخ اختیار کرتا ہے تو امید کی جاتی ہے کہ دھان کی فصل خوب ہوگی، دھواں جنوب کی جانب رواں دواں ہے تو پتا چلتا ہے کہ بہت زیادہ بارش دھواں اوپر کی جانب اٹھتا ہے تو راجہ کی خوش حالی کی علامت ہے۔

    اس ناول میں اسلام کی چھوٹی چھوٹی باتیں بتائی گئی ہیں جب صوفی صاحب کا انتقال ہوتا ہے میت کو غسل دینا ہے کیسے رکھنا ہے۔۔۔ نماز کی صف بندی قول قرآن خانی کی موجودگی۔۔۔ جس طرح سے علی امام نے لکھا ہے اس ناول کو پڑھ کر کہا جا سکتا ہے کہ صوفیانہ ادب کی بے مثال شاہکار ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے