مینارۂ علم و تقویٰ مفتی سید خورشید انور شمسی
دنیا میں آنے والے جانے کے لیے ہی آئے ہیں، نہ کوئی جانے والے کو روک سکا ہے اور نہ کوئی ان کے ہاتھ تھام کر چند لمہوں کے لیے ہی سہی سفر موقوف کرنے پر آمادہ کر سکا اور سب کو اصل ٹھکانہ کی طرف لوٹنا ہے۔۔۔ بس سب کو اپنے باری کا انتظار ہے۔۔۔ کس کا نام کب پکارا جاتا ہے۔۔۔
یوں تو ہر آدمی کی جدائی اس کے متعلقین اور عزیز و اقارب کے لیے سوہان روح ہے مگر بعض انسان ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد علم و فکر کے بہت سے دروازے بند ہو جاتے ہیں ادب و انشا، واعظ و تقریر اور بیت و ارشاد کے ایوانوں میں طویل مدت کے لیے سناٹا چھا جاتا ہے۔۔۔۔ حضرت مفتی سید خورشید انور شمسی کی وفات سے یہی سب کچھ ہوا۔۔۔۔ سب جگہوں پر ان کی کمی اور غیر موجودگی شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے اور جاتا رہے گا۔۔۔۔۔
چار سال گزر گئے مگر لگتا ہے بات آج کی ہے ہوا یوں کہ سال ۲۰۱۹ میں ایک درد ناک سانحہ پیش آیا جو آج بھی نظروں کے سامنے ہے نوجوان عالم دین خانقاہ شمسیہ، ارول بہار کے والی عہد و ادارۂ شریعہ کے چیف قاضی شریعت مفتی خورشید انور شمسی رمضان کی اکیسویں شب اور تلاشِ قدر کی پہلی رات کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔
اسی دن جامع مسجد، ارول میں ایک قرآن ختم تراویح تھی نماز تراویح کے بعد علی حسن نے ایک با ایک زور سے کہا نہیں رہے مفتی صاحب! وہاں جتنے لوگ بیٹھے تھے سب کی زبان سے اہ کی ایک آواز آئی۔۔۔ اور دیکھتے دیکھتے سب کی آنکھیں نم ہوگئیں علی حسن کو شاہ عمران صاحب شاہی محلہ جو اس وقت مفتی صاحب کے ساتھ تھے فون کر بتایا۔۔۔۔۔
ارول ہمارا سسرال ہے جو بہار کی راجدھانی پٹنہ سے تقریباً 80 کیلو میٹر کی دوری پر ہے اس وجہ کر اکثر انا جانا لگا رہتا ہے۔۔۔ اور پتہ نہیں کیوں اس بار مفتی خورشید انور شمسی نے مجھ سے کہا کہ آپ اس بار حضرت مخدوم شمس الدین ارولی رحمۃ اللہ علیہ کے عرس مبارک میں ضرور شریک ہوں ۱۱ رمضان المبارک کو حضرت کا عرس ہوتا ہے۔۔۔۔ مفتی خورشید انور شمسی کی دعوت قبول کرتے ہوئے میں عرس میں شامل ہوا۔۔۔۔۔ عرس کے تیسرے دن مجھے دہلی واپس آنا تھا حضرت مفتی صاحب نے کہا 4-2 دن روک جائیں میں کولکاتہ ڈاکٹر سے دیکھا کر آتا ہوں پھر آپ چلے جائیں گے۔۔۔۔ میں نے بھی سوچا کے ہفتہ دن اور گزار لیا جائے۔۔۔۔۔ مجھے کیا پتہ کے مفتی صاحب مجھے کیوں روک رہے ہیں۔۔۔۔ 19 مئی 2019 کو مفتی صاحب روٹین چیکپ کرا کر ارول واپس آتے ہیں ڈاکٹر نے بھی کہ دیا تھا کے آپ عارضۂ سرطان میں اب مبتلا نہیں ہیں۔۔۔۔۔ ایک کا ایک خبر ملی کہ مفتی صاحب گر گئے ہیں۔۔۔ مقامی ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا پھر ڈاکٹر نے پٹنہ بھیج دیا۔۔۔۔ جہاں سے یہ منہوس خبر ملی کہ مفتی صاحب ہم سب سے جدا ہوگئے۔۔۔۔ اور میں آج بھی سوچتا ہوں کے مفتی صاحب نے مجھے کیوں روکا تھا۔۔۔۔ آج میں لکھ رہا ہوں اور احمد شاذ قادری کا شعر یاد آرہا ہے۔
آؤ کہ دل کی بات کریں تھوڑی دیر ہم
جانے رہ حیات میں پھر کب ملے گا کون
یہ حادثۂ فاجعہ خصوصی طور خانقاہ شمسیہ، ارول اور مرکزی ادارۂ شرعیہ، پٹنہ اور عمومی طور پر عالم اسلام کے لیے خسارۂ عظیم تھی، آپ کی ذات تقوی و طہارت، علم و ادراک، حسن اخلاق، فقہی بصیرت اور عمل پیہم کا آئینہ دار تھی، آپ خانقاہ شمسیہ، ارول کے ولی عہد اور مرکزی ادرۂ شرعیہ کے چیف قاضی تھے بلکہ نئی نسل کی تو جان تھے۔۔۔۔ مفتی خورشید مدرسہ اور خانقاہوں کے درمیان ایک پل کا کام کرتے تھے۔۔۔ مسلکی اختلافات سے ہمیشہ دور رہے۔۔۔۔۔ ایک امن پسند داعی تھے۔۔۔ اعتدال، توازن، توسع اور کشادہ نظری مولانا مرحوم کا امتیازی وصف تھا، وہ ملت کے ہر طبقہ میں مقبول اور ہر دلعزیز تھے، ایسی شخصیت کا داغ مفارقت دے جانا بلاشبہ ایک عظیم سانحہ ہے۔۔۔ بہتر علاج کی ہر ممکن کوشش میں مصروف کار تھے مگر قضائے الٰہی کی چاہت کچھ اور تھی، مشیت چاہ رہی تھی کہ قاضی صاحب الموت جسر یوصل الحبیب الی الحبیب کے مصداق اپنی کم عمری ہی میں بن جائیں، یہ ایک طرح کا اعزاز الہٰی ہے جس کے لیے مومن ہر وقت تیار رہتا ہے اور موت مؤمن کے لیے، عاشق صادق کے لیے زیارت رسول کا ذریعہ ہے جس کی تمنا ہر بندۂ خاص کرتا ہے، ان کا ہم سے رخصت ہوجانا، ہمارے لیے خاندان کے لیے دوست و احباب کے لیے شاگردوں اور مریدین کے لیے باعث یاس و غم تو ہوسکتا ہے مگر اس فانی دنیا کو خیر آباد کرنے والے بندۂ مؤمن کے لیے نہیں ہوسکتا وہ تو اس خوش خبری کو سننے کے لیے بیقرار رہتے ہیں۔۔۔۔۔
مجلس چہلم پیر طریقت قاضئ شریعت ادارۂ شرعیہ حضرت خورشید انور شمسی کے موقع پر حضرت کے فرزند ارجمند سید ارشد انور شمسی کو سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی (سجادہ نشیں : خانقاہ منعمیہ، پٹنہ) و مشائخ کرام و علمائے عظام کے ہاتھوں صاحبِ سجادہ حضرت الحاج سید شاہ انور حسین عرف قیصر بابو نے ولی عہد منتخب فرمایا، اللہ پاک اس خوبصورت کلی کو لائق و فائق اور لمبی عمر عطا فرمائے۔ آمین
زیارتِ ارول و قیامِ ارول کے دوران شام کا وقت انہیں کے ساتھ گزرتا تھا جو آج بھی میں سفر آرول میں مفتی صاحب کی کمی محسوس کرتا ہوں۔۔۔۔ اللہ سے دعا ہے کہ مفتی خورشید رحمتہ اللہ علیہ کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.