تذکرہ حضرت میر سید علی منجھن شطاری راجگیری
دلچسپ معلومات
کتاب ’’تاریخِ، صوفیائے بہار‘‘ جلد دوم سے ماخوذ۔
ساداتِ حسنی میں سے ایک مستند بزرگ حضرت میر سید محمد حسنی البغدادی ہجرت کرتے ہوئے خراسان کے بعد ہندوستان وارد ہوئے اور یہیں بس گیے، آپ کا سلسلۂ نسب اس طرح حضرت امام حسین ابن حضرت علی مرتضیٰ سے جا ملتا ہے۔
میر سید عمادالدین حسنی البغدادی بن سید تاج الدین بن سید محمد بن عزیزالدین حسین بن محمد القرشی بن ابو محمد بن علی مرتضیٰ والیٔ عراق بن رضی الدین علی بن حسین بن احمد بن محسن بن حسین بن ہبیرہ بن محمد بن حسین القوتی بن علی بن حسین بنعلی بن حسن بن حسن التح بن اسمٰعیل الدیباج بن ابراہیم القمر بن حسن المثنیٰ بن امام حسن۔ (مخزن الانساب، ص؍ 16،15)
حضرت میر سید علی منجہن شطاری کا سلسلۂ نسب میر سید عمادالدین حسن البغدادی سے اس طرح ملتا ہے۔
میر سید علی منجھن شطاری ابن میر سید محمد المعروف بہ سید جیو دانشمند ابن میر سید جگن دانشمند ابن سید عبداللہ دانشمند ابن سید احمد دانشمند دہلوی ابن سید محمود ابن سید تاج الدین ثانی ابن حضرت میر سید عمادالدین حسنی البغدادی۔ (مخزن الانساب)
حضرت میر سید علی منجھن شطاری کے دادا حضرت میر سید جگن نے دہلی سے ہجرت کر کے جون پور میں اقامت اختیار کرلی تھی، حضرت میر سید جگن کے صاحبزادے حضرت سید محمد المعروف بہ سید جیو دانشمند سطان فیروز شاہ کے داماد تھے اور اس طرح وہ حضرت بدالدین بدر عالم زاہدی کے ہم زلف تھے۔ (مخزن الانساب، ص؍17)
حضرت سید محمد المعروف بہ سید جیو کا شمار یکتائے روزگار مشائخ میں ہے، انہیں بارگاہ نبوت سے بلا واسطہ فیض اویسی حاصل تھا، عالم رویا میں انہیں حضرت نبیٔ کریم سے بواسطہ حضرت علی مرتضیٰ خرقہ بھی عطا ہوا تھا، آپ جون پور سے ہجرت کر کے بہار شریف کے محلہ مریم ٹولہ میں آ بسے تھے، یہ محلہ حضرت بدرالدین بدر عالم زاہدی کے مزار شریف چھوٹی درگاہ بہار شریف سے بالکل قریب تھا۔
حضرت میر سید علی منجھن شطاری آپ ہی کے صاحبزادے تھے جو حضرت شیخ قاضن علا شطاری کا شہرۂ فیاضی سن کر حاضر خدمت ہوئے اور پھر مجاہدے سے گذر کر تلقین مشرب شطار سے مشرف ہوئے، حضرت قاضن نے اپنی صاحبزادی بی بی خدیجہ دولت کو آپ کی زوجیت میں دیا اور خوب نوازا، میر سید علی منجھن کو یہ شرف بھی حاصل ہوا کہ انہوں نے ہی اپنے پیر و مرشد کی تالیف ’’معدن الاسرار‘‘ پر مقدمہ یا پیشِ لفظ تحریر فرمایا، میر سید علی منجھن علم ظاہر اور علم باطن دونوں میں ید طولیٰ رکھتے تھے، عربی و فارسی کے علاوہ ہندوی زبان پر بھی دسترس اور قدرت تھی، منجھن تخلص فرماتے، شطاریہ سلسلے کے نامور عارفوں میں آپ کا شمار ہے اور اس سلسلے کی علمی یادگاروں میں آپ کی تالیفات گراں قدر اور مہتم بالشان ہیں، اب تک آپ کی جن تصانیف کا پتا چلا ہے وہ اس طرح ہیں۔
(1) فواید الشطار (شرح رسالہ حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ)
(2) سلوک شھابی
(3) کشف البطون
(4) مطلوب المحققین
حضرت منجھن شطاری نے بزبان ہندوی عشقیہ مثنوی ’’مدھو مالتی‘‘ بھی تالیف فرمائی جو اہل علم وفن کے نزدیک اپنے زبان و بیان کے اعتبار سے اہم بھی اور ہندی و اردو کی تاریخی و لسانی ارتقا کی ایک اہم کڑی بھی، اس کا زمانۂ تالیف 952ھ؍1545ء ہے اس کے قلمی نسخے بنارس ہندو یونیورسٹی اور رضا لائبریری، رام پور میں محفوظ ہیں، یہ مثنوی ایڈٹ ہو کر رضا لائبریری، رام پور سے شائع ہو چکی ہے لیکن اس مثنوی کے ناظم منجھن حضرت محمد غوث گوالیاری کے مرید ہیں واللہ عالم، میر سید علی منجھن شطاری کا مزار مبارک اپنے والد ماجد کے ساتھ مریم ٹولہ، بہار شریف، ضلع نالندہ میں واقع ہے، راجگیر کا معروف علمی و روحانی خاندان آپ ہی کا اخلاف تھا، آپ کو بی بی خدیجہ دولت بنت حضرت قاضن علی شطاری سے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں۔
حضرت مخدوم شاہ عبدالرحمٰن شطاری : آپ حضرت قاضن علا شطاری (متوفیٰ 901 ہجری) کے منجھلے صاحبزادے ہیں، آپ کو بیعت و خلافت اپنے والد ماجد سے حاصل ہے اور انہیں کے تربیت یافتہ و مجاز ہیں، آپ نے اپنے والد کے مستقر سے دور موجودہ مظفر پور کے علاقہ میں قیام فرمایا اور اس علاقہ میں آپ اولین بزرگوں میں سے ہیں، عام طور پر اولین بزرگوں کی خدمات پردۂ خفا میں ہوتی ہیں کیوں کہ تاریخ نویسی اس کے بعد شروع ہوتی ہے جس طرح خواجہ معین الدین چشتی اور امام محمد تاج فقیہ، شیخ اسرائیل اور شیخ یحییٰ منیری سے متعلق ہماری معلومات نہیں کے برابر ہے، بالکل اسی طرح شیخ عبدالرحمٰن شطاری جو مظفر پور، دربھنگہ، سمستی پور، سیتا مڑھی، مدھوبنی اور بتیا کے علاقہ میں اولین بزرگ ہیں، یقیناً ان کی خدمات گہری بنیادی اور بے حد اہم ہیں لیکن مخفی ہیں۔
حضرت شاہ عبدالرحمٰن کے دو صاحبزادے شاہ میران اور شاہ منور اور ایک صاحبزادی زوجہ دیوان شاہ علی شطاری جندہوی تھے، شاہ عبدالرحمٰن کے پوتے طیفور ابن شاہ منور کو بیعت و خلافت شاہ علاؤالدین شطاری جندہوی سے حاصل تھی اور وہ مظفرر پور میں اپنے دادا کے سجادہ نشیں تھے اور شاہ طیفور کے صاحبزادے شاہ منصور، شاہ علاؤالدین شطاری جندہوی کے داماد اور خلیفہ تھے جن کا مزار جوگیا مٹھ سریا گنج، مظفر پور میں ہے، شاہ عبدالرحمٰن شطاری کا مزار سریا گنج، مظفر پور بہار میں مرجع خلائق ہے، حضرت کا مزار درمیان میں ہے اور آپ کے دائیں، بائیں اور پائیں میں آپ کے عزیزان، اولادو اخفاد کے مزارات ہیں، آپ کے خلفا میں حضرت حافظ جلال منجھن سارنی نامور بزرگ گذرے ہیں جن کے خلفا میں حضرت مخدوم شاہ دولت منیری معروف ترین بزرگ ہوئے۔
- کتاب : تاریخِ صوفیائے بہار (Pg. 73)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.