حضرت صوفی منیری
نام و نسب : حضرت ابو محمد جلیل الدین عرف شاه فرزند علی صوفی رحمۃ الله علیہ منیر شریف ضلع پٹنہ کے ایک باکمال شاعر تھے 9 / شوال 1253ھ آپ کی ولادت ہوئی اور 6/ ذی قعدہ 1318ھ کو آپ نے اسلام پور میں انتقال کیا، آپ کے والد کا نام شاہ محمد علی ہے، حضرت سید علیم الدین دانشمند نیشا پوری آپ کے جد اعلیٰ ہیں اور نانہالی رشتۂ نسب بواسطہ مخدوم شاہ خلیل الدین (برادر) مخدوم شاہ شرف الدین احمد بن یحییٰ منیری قدس سرہ حضرت امام تاج فقیہ فاتح منیر شریف سے ملتا ہے، بزرگوں کا وطن بہار شریف محلہ دیبی سرائے تھا (یہ محلہ ولیہ باکمال حضرت بی بی ابدال بنت مخدوم بدر عالم زاہدی رحمۃ اللہ علیہما کے نام نامی کے سبب سے مشہور نام ہے اور حضرت بدر عالم زاہدی کی درگاہ بہار شریف میں ”چھوٹی درگاہ“ کے نام سے معروف ہے، آپ کو چوں کہ بی بی ابدال صاحبہ سے نسبی تعلق ہے، اسی وجہ سے یہ خاندان ابدالی کہا جا تا ہے پھر کچھ دنوں کے بعد یہ خاندان موضع شرف آباد پارتھو (جو موضع پن پن کے قریب ہے) آبسا اور آخر میں وہاں سے بھی ہجرت کی اور حضرت صوفی اپنے برادر اکبر و پیر و مرشد شاہ اولاد علی فردوسی زاہدی کے ساتھ اپنی نانہال منیر شریف میں آکر آباد ہوگئے اور موصوف کی شادی اسلام پور ضلع پٹنہ میں حضرت شاہ ولایت علی قدس سرہ کی صاحبزادی سے ہوئی۔
تعلیم اور اخلاق : حضرت نے ابتدائی درسی کتابیں کمسنی میں پڑھی تھیں اور پھر بذریعہ مطالعہ و کتب بینی فارسی کی اچھی، خاصی استعداد حاصل کر لی، عربی بھی بقدر ضرورت مولوی حسام الدین حیدر صاحب اور مولوی فیض اللہ صاحب پشاوری سے یہیں اسلام پور میں پڑھی، کتب بینی کے نہایت شائق تھے، بزرگوں خصوصاً حضرت مخدوم اور ان کے سلسلہ کی تصانیف کے مطالعہ اور کتابت کا مشغلہ تمام عمر رہا، خط بھی پختہ اور خوبصورت تھا، ظرافت اور خوش دلی کو بھی آپ کے مزاج میں بے حد دخل تھا فن تصوف میں نہایت اچھی دستگاہ تھی، بلکہ اپنے معاصرین میں سر بلند تھے لیکن شہرت سے ہمیشہ گریزاں تھے، اسی لیے مجالس و مجامع سے دور دور رہتے، حضرت مخدوم کی محبت عشق کی حد تک پہنچ گئی تھی، ذکر و اشغال کا بھی شغل ہمیشہ جاری رہا۔
تلمذ : ادب کا فطری ذوق تھا، اردو فارسی کے نغزگو اور بلند پایہ شاعر تھے، نظم و نثر فارسی و اردو دونوں میں مہارت حاصل تھی، فارسی اور اردو نثر و نظم میں متعدد کتابیں یادگار ہیں، حضرت غالب مرحوم سے تلمذ تھا، اصلاح کلام کے لیے حضرت غالب پر نظر انتخاب دلی کے تعلق سے پڑی کہ دلی موصوف کے فیوض باطنہ کا اصل سر چشمہ تھی، اس لیے کمالِ ظاہری کے اکتساب کا انتساب بھی یہیں سے قائم ہے، چنانچہ اصلاح کے لیے کلام ارسال کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
”چوں فیض باطن دریں خاندان از ہمان بقعۂ، متبرکہ دہلی اعنی از حضرت خواجہ خواجگان عرش آستان حضرت خواجہ نجیب الدین فردوسی قدس سرہ مبذول شدہ نخواستم بحلم آنکہ در گیر محکم گیر“ بآستانہ دیگر جہہ سایم، ہر چہ از ظاہر و باطن بمن رسد از ہمان جوار و دریار باشد“
تصانیف : فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں آپ کی تصانیف موجود ہیں، بعض طبع ہو چکی ہیں اور بعض ہنوز زاویۂ گمنامی میں پڑی ہیں، ان کی فہرست درج ذیل ہیں۔
کتب مطبوعہ۔
(1) راحت روح (اردو) علامہ سید سلیمان ندوی تحریر فرماتے ہیں ”راحت روح سہل و روان مقفیٰ و مسجع و رنگین اردو عبارت میں بطور افسانہ، تصوف پر ایک بہترین تصنیف ان سے (حضرت شاہ فرزند علی صوفی سے) یاد گار ہے۔ (معارف ماہ نومبر 1920ء)
(2) عروۃ الوثقیٰ (اردو) عقائد اسلام کے بیان میں ایک اچھی منظوم کتاب ہے۔
(3) وسیلہ شرف (اردو ) حضرت مخدوم کے حالات میں ہے۔
(4) ذریعۂ دولت (اردو) بزرگان سلسلہ کے تذکرہ میں ہے، یہ دونوں مقبول کتابیں ہیں۔
(5) اصول تکسیر (فارسی) اصول تعویذات میں۔
(6) سرود مستان (فارسی) ایک افسانہ ہے۔
کتب غیر مطبوعہ۔
(7) مصطلحات المتصوفین (فارسی) ضخیم ہے، موضوع نام سے ظاہر ہے۔
(8) خمخانہ (فارسی)
(9) خط راست (اردو ) یہ رسالہ ایک ارادت مند کے بعض شکوک کے جواب میں لکھا گیا جو تشیع کی طرف مائل تھا۔
(10) نتیجۂ بالخیر (اردو) حضرت سعدی اور بعض دیگر شعرا کے نتیجہ خیز مطالبات کی طرح اردو منظوم حکایات کا مجموعہ ہے۔
(11) کشش عشق
(12) روشِ عشق
(13) لواءالحمدیہ تینوں اردو کی مثنویاں ہیں، آخر الذکر حلیۂ نبوی میں ہے۔
(14) فارسی اور اردو کا غیر مکمل دیوان۔
نمونۂ نثر اردو۔
ذیل میں راحت روح کی دو چار سطریں بطور نمونہ آغازِ کتاب سے لکھی جاتی ہیں۔
”مضمون کا وجود، ضمیرِ منیر میں اعتباری ہے، عبارت قوتِ طبعِ متکلم کی نموداری ہے، جب قلم نوح پر چلتا ہے، مدعا نقش کے پیرایہ میں نکلتا ہے، خوبی خط خوش نویس کی صفت ہے، ہستی آئینہ معرفت ہے“
”قلم تابع انامل ہے، انامل مطیعِ دل، دل زیر فرمانِ جان ہے اور جان محکومِ امرِ فرماں روائی کن فکان، کیسا فرماں روا کہ تکوین، اس کی ایک بات ہے کن فرمایا اور ہوگئی اس کے آگے کون سی کائنات ہے لمن الملک کا دعویٰ اسی کو زیبا ہے کہ سلطنت اس کی شرکت اور احتیاج سے مبرا ہے“
درمیان کتاب کی دو چار سطریں یہ ہیں۔
”فضا ایسی دلکش کہ تمام عمر آدمی اٹکا رہے، گھر آنے کو جی نہ چاہے، اس راہ سے بھٹکا رہے، سرتا سر لالۂ نافرمان پھولے، جن کے رنگ پر عاشق، گلِ عارض، معشوق کی بہار بھولے، لالۂ نافرمان نہ تھے بلکہ نافرمانی کے لالے تھے، گلچین وہاں کے داغ اٹھانے والے تھے، یہ لوگ تو باغ ہستی کے رنگ و بو کی طرف مائل تھے، نیزنگ تقدیر کے نئے رنگ سے غافل تھے، دفعۃً ہوائے نفسانی کی آندھی اس زور سے اٹھی کہ قوم عاد کا جھونکا اس کے آگے دم سرد تھا اور گنبد آسمان دماغ کو کدورتِ دل کے غبار نے ایسا اندھا دھند کر دیا کہ شیشۂ ساعت گرد تھا، ظلمت کی گھٹا بڑھ کر چار طرف چھا گئی، زمانے کے چہرے پر تیرگی آگئی، بیتابی کی برق استقلال کا لطف کھونے لگی، بارش ہوس میں وسوسوں کی بوچھار ہونے لگی“ (ص59)
شاعری : حضرت صوفیؔ کی شاعری کے متعلق ان کے نمونہ کلام سے اہلِ ذوق خود فیصلہ کرلیں گے، البتہ حضرت غالب مرحوم نے اپنے گرامی نامہ میں ان کے کلام پر جو رائے دی ہے، وہ یہاں درج کی جاتی ہے، لکھتے ہیں۔
”حکم بجا لایا، دو ایک جگہ املا کی صورت بدلی گئی، کہیں مصرع کی جگہ مصرع لکھا گیا، بے غائلۂ، تکلف و تعلق آپ کا کلام معجز نظام ہے، لفظ عمدہ ترکیب اچھی، معنی بلند“(معارف، نومبر 1920ء)
حضرت صوفی فارسی اور اردو دونوں میں شاعری کرتے تھے، فارسی کی ایک غزل نمونہ کے لیے درج ذیل ہے۔
خوش سفر و مقامِ مادر رہِ آرزوئے تو
رفتنِ ما بسوے تو ماندنِ ما بکوئے تو
رخ بحرم کجا نہیم، تن بہ سفر چرا دہیم
قبلۂ ماست روئے تو کعبۂ ما است کوئے تو
خرقہ بگیر و مے بدہ، گرچہ گران تراست مے
پیر مغان ! ہمی برم بر سرِ خود سبوئے تو
دست بعشق دادہ ام رابطہ است رہبرم
سلسلۂ ارادتم کا کلِ مشکبوئے تو
ہر طرفے کہ بگزری عطر فشان شود ہوا
نکہت مشکبوئے تو، رہبر ما بسوئے تو
او بدروں و تو دروں می طلبی زرراہ گفت
توبہ ز گفتگو ئے تو آہ زجستجو ئے تو
نفس خروج کردہ است لب بکشائے صوفیا
می کندش دلیر و سخت نعرۂ ہائے و ہوئے تو
اردو شاعری کے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی فرماتے، دیوان میں زیادہ مجموعہ غزلوں کا ہے، فہرست تصنیفات سے معلوم ہو چکا ہے، چند مثنویاں بھی ہیں، اسی طرح اس زمانہ میں تاریخ گوئی کا مذاق بزرگوں میں عام تھا۔
حضرت صوفی نے بھی تاریخیں بہت کہی ہیں اور اکثر میں استادانہ کمال دکھایا ہے، چنانچہ اپنے ماموں شاہ اعظم علی عرف شاہ بیکن منیری علیہ الرحمۃ کی وفات کی تاریخ لکھی ہے، صرف 5 شعر کا قطعہ ہے اور کمال یہ ہے کہ 730 طریقوں سے مطلوبہ تاریخ نکلتی ہے، اس کی ندرت وجدت مقتضی تھی کہ اسے بھی نظر فروزِ ناظرین کیا جائے لیکن بخوفِ طوالت اس کو ترک کیا جاتا ہے، چند غزلوں کا عام نمونہ یہ ہے۔
کوچۂ یار اپنا مسکن ہے
ہم جو بلبل ہیں تو یہ گلشن ہے
ہے گریبان کا حلقہ دست جنون
نہ گریبان ہے نہ دامن ہے
خلش خارِ غم سے صورت گل
چاک چاک اپنے دل کا دامن ہے
حال سوز و گداز کا میرے
تجھ پہ اے رشکِ شمع روشن ہے
جوشِ گلہائے داغِ ہجران سے
ساحتِ سینہ، رشک گلشن ہے
یوسفستان ہوا ہے خانۂ دل
اس میں تو جب سے جلوہ افگن ہے
ہے یہ روضہ منیرؔ کا فردوس
صوفیؔ اب ہم کو فکرِ مروں ہے
حاصل ہے میرے رشک کا حرمان کہیں جسے
سایہ ہے میرا وہ شب ہجرامن کہیں جسے
ہے عکس وہ مرا جسے کہتے ہیں لوگ قیس
میرا ہے جلوہ گاہ بیابان کہیں جسے
غش آپ کو نہ آئے تو لاؤں حضور میں
وہ آئینہ کہ دیدۂ حیران کہیں جسے
مجھ کو کہ مدتوں پہ قفس سے رہا ہوا
صبح وطن ہے شام غریباں کہیں جسے
خوش ہوں جنون سے میں کہ وہ کرتے ہیں التفات
ہے صبح عید چاکِ گریباں کہیں جسے
سعیِ طلب میں سرمہ کروں چشم شوق کا
وہ اک کفِ غفار بیاباں کہیں جسے
اے رشکِ مہر جلوہ ترا ہے نگاہ سوز
پردہ ترا ہے عارضِ تاباں کہیں جسے
وہ غم سرشت ہوں کہ ہے عشرت کدہ مرا
اس سے پرے کہ روضۂ رضوان کہیں جسے
صوفیؔ بتائے منزلِ جانان کی راہ کون
اب چپ ہے وہ جرس دلِ نالاں کہیں جسے
اسی طرح مثنوی کے عام اندازہ کے لیے مثنوی ”لواءالحمد“ سے جستہ جستہ حمد کے اشعار درج ذیل ہیں۔
کنہِ ذات اس کی بشر کیا سمجھے
نکتہ رس لاکھ ہو پر کیا سمجھے
عجز کے جیب میں جب ڈال کے سر
ما عرفناک کہیں پیغمبر
راہ اس کوچے کی ناپیدا ہے
پیکِ ادراک کا چلتا کیا ہے
اس ہوا میں جو اڑے خود کھو جائے
مرغ فکر اڑتے ہی عنقا ہوجائے
کیا کرے اس کی کوئی حمد و ثنا
غیر سبحانک لا علم لنا
نعت لکھتے ہیں۔
فخرِ عالم گہرِ تاج رسل
خواجۂ کون و مکان مرجعِ کل
قرہ باصرۂ عین حضور
اولین موجۂ دریائے ظہور
نورِ حق، جلوۂ رب، شانِ الہٰ
ہے تو بندہ مگر اللہ! اللہ!
معراج کے بیان میں فرماتے ہیں۔
شب معراج فلک سے گذرا
سرحد ملک ملک سے گذرا
جلوۂ شاہد دلجو دیکھا
بے حجابِ رخ و گیسو دیکھا
کئے بے واسطہ خالق سے کلام
کیسا جبریل؟ کہاں کا پیغام
درمیان پردۂ آواز نہ تھا
نغمے دل کش تھے مگر ساز نہ تھا
طے ہوئی راہ بیک دم اس کی
آمد و رفت تھی تو ام اس کی
تلامذہ : شاعری میں آپ کے چند تلامذہ ممتاز ہیں اور قابل ذکر ہیں، ان میں سے ایک حکیم شاہ احتشام الدین حیدر مشرقی منیری مرحوم آپ کے برادر خالہ زاد شاہ خلیل الدین احمد جوش کے فرزند تھے، 1282ھ میں پیدا ہوئے، فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے پر گو اور کہنہ مشق شاعر تھے، بانکی پور پٹنہ کے مشہور ظریف اخبار ”الپنج“ میں مضامین لکھے تھے، پہلے صافی تخلص کرتے تھے پھر مشرقی تخلص کرنے لگے، 10/ شوال 1343ھ کو انتقال ہوا۔
نمونہ کلام یہ ہے۔
ہر سانس ترے اے دل حسرت سے بھری کیوں ہے
خشکی ہے لبوں پر کیوں آنکھوں میں تری کیوں ہے
کس آئینۂ طلعت نے صورت تجھے دکھلائی
ہے کس لیے یہ حیرت، یہ بے خبری کیوں ہے
پہلو میں نہیں بیٹھا گر تیرِ نظر کوئی
انکھوں سے تپکتا پھر خونِ جگر کیوں ہے
یہ مان لیا میں نے ہاں تجھ کو نہیں سودا
ہے نالۂ شب کیا آہِ سحری کیوں ہے
جب دست جنون میرا غمخوار سلامت ہے
پھر میرے گریبان میں یہ نجیہ گری کیوں ہے
اے مشرقیؔ رسو اکی تو نے اگر توبہ
دامن پہ ترے اچھا پھر مے کی تری کیوں ہے
ان کے علاوہ جناب شاہ اکرام الدین احمد صاحب عرفان رئیس اسلام پور ضلع پٹنہ بھی موصوف کے تلامذہ میں ہیں جن کی عربی کی تعلیم تقریباً تکمیل کو پہنچ گئی ہے اور فارسی میں خاصی مہارت ہے اور فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شاعری کرتے ہیں، نمونہ کلام یہ ہے۔
ذرا جذب دل نخچیر دیکھو
نہیں کھینچتا تمھارا تیر دیکھو
یہاں تدبیر میں مصروف ہیں ہم
وہاں ہے خندہ زن تقدیر دیکھو
کیے جاتا ہے عرفان جرم پر جرم
تم اس کی لذتِ تعزیر دیکھو
اسی طرح مولانا حکیم شاہ محمد عمر مرحوم عامر اسلام پوری خلف اوسط حضرت صوفی بھی اپنے والد بزرگوار سے اپنے کلام پر اصلاح کر لیتے تھے، سال ولادت 1291ھ اور سال وفات 1338 ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.