Sufinama

حضرت شاہ محمد آفاق مجددی دہلوی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

حضرت شاہ محمد آفاق مجددی دہلوی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    دلی کے بائیس خواجہ- باب 22

    حضرت شاہ محمد آفاق شہرۂ آفاق، قطبِ زماں، فخرِ زماں و زمیں، غوّاص دریائے دین، محرم اسرار اور مخزنِ انوار ہیں۔

    ولادتِ باسعادت : حضرت جانانِ جاناں مظہر شہید کی دعا سے پیدا ہوئے تھے، آپ کی ولادتِ باسعادت 1160ھ میں واقع ہوئی۔

    نامِ نامی : آپ کا نامِ نامی محمد آفاق ہے۔

    بیعت و خلافت : آپ حضرت خواجہ ضیاؤاللہ نقشبندی کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے اور مریدی سے مشرف ہونے کے کچھ عرصے بعد آپ خرقۂ خلافت سے سرفراز اور ممتاز ہوئے، ریاضات و مجاہدات کے بعد درجۂ کمال کو پہنچے۔

    شجرۂ بیعت : محمد آفاق مرید حضرت خواجہ ضیاؤاللہ وہ مرید خواجہ محمد زبیر وہ مرید خواجہ حُجّۃ اللہ محمد نقشبندی ثانی وہ مرید خواجہ محمد معصوم وہ مرید حضرت مجدد تا سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم۔

    سیروسیاحت : آپ افغانستان تشریف لے گئے، وہاں لوگوں نے آپ سے بہت فیض پایا، بہت لوگ آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے، شاہِ افغانستانِ زماں خاں آپ کا مرید و معتقد اور منقاد تھا۔

    آپ کی بزرگی : آپ کی برگزیدگی اور بزرگی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ حضرت شاہ غلام علی اپنے بعض مریدوں کو آپ کی خدمت میں بھیجا کرتے تھے، یہ مرید آپ کی خدمتِ بابرکت میں بعد تعلیم و تکمیل حاضر ہوتے تھے لیکن ان کی تکمیل اسی وقت پوری سمجھی جاتی تھی کہ جب آپ ان کو مکمل پاتے۔

    وفات شریف : آپ محرم 1251ھ کو جوارِ رحمت میں پیوست ہوئے، مزار فیضِ آثار دہلی میں حاجت روائے خلق ہے اور مشہور ہے۔

    آپ کے خلفا : حضرت مولانا فضل الرحمٰن گنج مرادآبادی اور حضرت مولانا نصیرالدین آپ کے ممتاز خلفا ہیں۔

    سیرتِ پاک : آپ صاحبِ جذب تھے، ہمہ وقت مستغرق رہتے تھے، نسبتِ عشق آپ پر غالب تھی، آپ جامع شریعت و طریقت تھے، اسرارِ حقیقت سے واقف تھے، آپ مرشدِ کامل تھے، فقر، توکل، قناعت، زہد و ورع، عبادات، ریاضات، مجاہدات اور تقوے میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے، آپ شیخِ وقت تھے۔

    تعلیمات : سلسلۂ مجددیہ جس کے آپ ایک ممتاز بزرگ ہیں، ذکرِ نفی و اثبات اور ذکر اسم ذات پر کافی زور دیتا ہے، حضرت مجدد نے کشف سے یہ بات دریافت کی کہ انسان دس لطائف سے مزین و مکرت ہے، پانچ لطائف عالم امر کے ہیں اور پانچ لطائف عالمِ خلق کے ہیں، قلب، روح، سِری، خفی اور اخفی عالمِ امر کے لطائف ہیں اور نفس و عناصرِ اربعہ عالمِ خلق کے لطائف ہیں۔

    عالمِ امر کا ہر ایک لطیفہ ایک پیغمبر کے زیرِ قدم واقع ہے، لطیفۂ قلب حضرت آدم علیہ السلام کے زیرِ قدم واقع ہے، لطیفۂ سِرّ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زیرِ قدم واقع ہے، لطیفۂ خفی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زیرِ قدم واقع ہے اور لطیفۂ اخفیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرِ قدم واقع ہے۔

    اس کے بعد تین طریقے مقرر کئے، پہلا طریقہ ذکر، دوسرا طریقہ مراقبا اور تیسرا طریقہ توجۂ مرشد، یہ اصل اصول ہے۔

    ذکر دو قسم کا ہے، ذکر اسمِ ذات اور ذکر نفی و اثبات۔

    پہلا مراقبہ مراقبۂ احدیت ہے، دوسرا مراقبہ فنائے ذات اس کو مراقبۂ معیت بھی کہتے ہیں پھر دائرۂ ولایتِ صغریٰ کا مراقبہ ہے پھر دائرۂ کبریٰ کا مراقبہ ہے بعد ازاں دائرۂ ولایتِ علیا کا مراقبہ ہے پھر دائرۂ کمالاتِ رسالت کا پھر دائرۂ کمالاتِ اوالوالعزم پھر دائرۂ حقیقت صلوٰۃ پھر دائرۂ معبودیت صرف پھر دائرۂ حقیقتِ ابراہیمی پھر دائرۂ حقیقتِ موسیٰ پھر دائرۂ حقیقتِ محمدی پھر دائرۂ حقیقتِ احمدی پھر دائرۂ حبِّ صرف پھر دائرۂ لا تعین۔

    توجہ مرشد سے یہ مراد ہے کہ مرشد اپنے دل کو طالب کے دل کے مقابل کرے اور اس کی ہمت صرف کرے کہ ذکر کے انوار جو اس کے دل میں ہیں وہ طالب کے دل میں جلوہ گر ہوں، آپ نے تصورِ شیخ پر بہت زور دیا ہے، آپ ذکرِ شش جہت کرتے تھے یعنی لطیفۂ عالم اس کے بعد نفی اثبات بحبس دم با عدد طاق یعنی ایک دم میں اکیس بار پہنچاتے تھے، آپ کی توجہ کے چار طریقے تھے۔ نظری، لسانی، قلبی اور روحی۔

    اقوال : آپ کے بعض اقوال حسبِ ذیل ہیں۔

    ہم سب عزیزواقربا، دوست و آشناؤں کو چاہتے ہیں کہ کچھ ہوئیں لیکن کوئی نہیں ہوتا جس کو خدا چاہتا ہے ہوجاتا ہے۔

    ایک توجہ میں سب مقامات طے ہوسکے ہیں لیکن مرید میں استعداد ہونی چاہئے۔

    غوث ہو یا قطب جو خلافِ شرع کرے کچھ بھی نہیں۔

    اورادووظائف : آپ حسبِ ذیل درود شریف پڑھا کرتے تھے۔

    الّٰلھم صلی علی سیدنا محمدٍ وَّ علیٰ اٰلِ سَیَّدِنا محمدٍ وبارِک وَسَلِّم۔

    آپ روزانہ دس ہزار بار درود شریف پڑھتے تھے، اس کے علاوہ آپ کلمۂ طیبہ روزانہ پچاس ہزار مرتبہ پڑھتے تھے، نماز ظہر کے بعد حزب البحر پڑھنا آپ کا معمول تھا۔

    کشف و کرامات : حافظ اشرف صاحب شاعر نہ تھے، ایک روز آپ نے اپنی ٹوپی ان کے سر پر رکھ دی، اسی روز سے وہ ایک اچھے شاعر ہوگئے۔

    حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب دہلی سے اپنی والدہ کو پانچ روپے بھیجنا چاہتے تھے، آپ نے ان سے روپئے لے لئے اور فرمایا کہ بھیج دئے جائیں گے، بعد ازاں آپ نے حضرت مولانا سے فرمایا کہ ان کے روپئے ان کی والدہ کے پاس پہنچ گئے، کچھ دنوں کے بعد جب حضرت مولانا صاحب والدہ سے ملنے گئے تو آپ کو معلوم ہوا کہ اسی رات کو آپ نے دروازے پر پکار کر وہ روپئے آپ کی والدہ کو دئے اور ان کے بیٹے کی خیریت سے ان کو مطلع فرمایا۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے