"عقد ثریا" فارسی گو شعرا کے تذکرے پر مشتمل ہے جس میں مصحفی نے ایران و ہند کے ایک سو باون شعرا کے احوال اور نمونہ کلام کی جمع آوری کی ہے۔ اس میں تین قسم کے شعرا کا تذکرہ کیا ہے ایک وہ ایرانی شعرا جو ہندوستان کبھی نہیں آئے اور دوسرے وہ ایرانی شعرا جو ہندوستان آئے اور تیسرے وہ شعرا جو ہندوستانی تھے۔ ان کے تذکرے عام فہم اور آسان زبان میں ہوتے ہیں اور وہ اپنے تذکروں میں انتقادی پہلو سے گریز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ہاں جابجا انہوں نے اپنی رائے پیش کی ہے جو وقعت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ مصحفی کا یہ تذکرہ کافی معروف ہے اور فارسی تذکرہ نویسی کے آخری دور کی یاد دلاتا ہے۔ ان کے تذکرے عام فہم اور آسان زبان میں ہوتے ہیں اور وہ اپنے تذکروں میں انتقادی پہلو سے گریز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ہاں جابجا انہوں نے اپنی رائے پیش کی ہے جو وقعت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ مصحفی کا یہ تذکرہ کافی معروف ہے اور فارسی تذکرہ نویسی کے آخری دور کی یاد دلاتا ہے۔ "عقد ثریا" کا پیش نظر نسخہ مولوی عبد الحق نے مرتب کیا ہے، مرتب کا مقدمہ کافی معلوماتی ہے جو ان کی گہری تحقیقی نظر کا آئینہ دار ہے، لیکن مولوی عبد الحق نے مصحفی کا انتخاب شعر خارج کر دیا۔ ایک سو باون شعرا میں سے صرف بارہ شاعروں کے شعر ہی شامل کیے ہیں۔
مصحفیؔ اردو میں ٹکسالی شاعری کے جتنے امام گزرے ہیں ۔ میرؔ دردؔ وغیرہ کے سلسلے میں یہ آخری بزرگ تھے جنہوں نے قدیم محاورات برقرار کھے ۔ انشاءؔ اور جرأت وغیرہ کے مقابلے میں قدامت کا علم بند رکھا ۔ کثرت مشق سے کلام پر قدرت کامل حاصل تھی ۔ غرض کہ قدما میں سے ہر ایک کے انداز پر ان کے یہاں کلام موجود ہے یہ ایک طرف تو ان کی قادر الکلامی کی دلیل ہے ۔ دوسری طرف ان کی طبیعت کی کمزروی کہ خود انہوں نے اپنا کوئی رنگ نہیں چھوڑا یہ بہروپ ہی ان کا روپ قرار پاتا۔اگر وہ دوسروں کا روپ بھی پوری کامیابی سے بھرسکتے وہ تو صرف دوسروں کی جھلک دکھاتے ہیں ان میں سما نہیں سکتے یہ صحیح ہے کہ ان کی طبیعت یاس و حرماں کی طرف مائل ہے اور اسی لیے میرؔ کی جھلک ان کے یہاں نظر آتی ہے لیکن یہ محض جھلک ہے میرؔ کی سی گہرائی نہیں۔ اسی طرح ہر ایک کا رنگ دکھانے کی کوشش کی ہے پوری طرح نباہنے کی نہیں ۔محض تھوڑی دور ہر ایک راہ رو کے ساتھ چلتے ہیں طبیعت میں کچھ حسن پرستی بھی تھی ۔ لکھنؤ میں نور کے بقعے نظر آئے تو کلام میں عاشقانہ وار داتوں کے علاوہ محبوب کے حسن کا عکس بھی پیش کرنے لگے یہی خارجیت تھی جو آگے چل کر اپنی انتہا پر پہونچ کر لکھنویت کے نام سے موسوم ہوئی ۔ کثرت مشق پر گوئی اور فروخت کردینے کے باعث ان کا کلام جو کچھ باقی رہ گیا ہے اس میں پھس پھسے اشعار زیادہ ہیں ۔ عجیب اتفاق کہ قدرت نے انشاؔ اور ان کو ہم عصر بنا کر معرکہ آرا کیا ۔ انشاؔ قواعد کی راہ سے کتراتے چلتے تھے ۔ یہ ٹکسالی شاعری کے قواعد کے باہر قدم نکالنا گناہ عظیم سمجھتے تھے ۔ ایک کے یہاں جوش تخلیق نے وہ گرما گرمی دکھائی کہ لہلاتے باغ رونما کردیے لیکن باغ بے سلیقہ ہے محض مصحفیؔ کا باغ اتنا با سلیقہ ہے کہ لطف و اثر مفقود ہوگیا ہے ۔ زیادہ تعداد اشعار کی اسی استادانہ بے اثر داخلیت کی ہے کلام کا نمونہ یہ ہے سنگلاخ زمینیں اختیار کرنا (جیسا کہ اوپر مذکور ہوا) اس زمانے کا محک استادی کا تھا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets