Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

کتاب: تعارف

اشرف التواریخ شاہ اکبر دانا پوری کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ جو تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصہ میں اسرار نبوت کو بیان کیا گیا ہے، جس میں انبیائے سابقین کا نہایت عالمانہ اور محققانہ ذکر ہے۔ دوسرا حصہ عہد رسالت و سایہ خلافت پر کے موضوع پر ہے، اس حصہ کی شروعات واقعہ فیل سے ہو کر فتح مکہ پر ختم ہوتی ہے، درمیان میں آٹھ ہجری تک تمام واقعات کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ حصہ سوم میں خلفائے راشدین کا تذکرہ ہے، اس حصہ میں بقیہ واقعات سال ہشتم ہجری سے شروع کرکے نبی صلعم کے وصال تک۔ اور پھر عہد رسالت کے بعد سایہ خلافت شروع ہوتا ہے، جس میں خلیفہ اول اور خلیفہ دوم کے تفصیلی حالات اور ان کی جملہ فتوحات کا ذکر ہے۔ اس حصہ کا اختتام سیدنا عمر کی وفات پر ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک قابل بھروسہ اسلامی تاریخ ہے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

حضرت شاہ اکبر داناپوری 27 شعبان 1260ھ موافق 11 ستمبر 1843ء بدھ کے روز نئی بستی آگرہ میں پیدا ہوئے، اکبرآباد میں پیدائش کی وجہ سے آپ کا نام محمد اکبر رکھا گیا، آپ کی معاشرتی زندگی ہمیشہ سادہ رہی، لباس میں بھی سادگی تھی، ہمیشہ خالطہ دار پائجامہ، نیچا کرتا، شانہ پر بڑا رومال اور پلہ کی ٹوپی اور کبھی انگرکھا زیب تن فرمایا کرتے تھے، آپ بہت خلیق تھے، مزاج میں انکسار تھا۔

 

آپ کا سلسلہ نسب منیرشریف کے مشہور صوفی مخدوم عبدالعزیزابن امام محمد تاج فقیہ کے واسطے سے جا ملتا ہے، خانوادہ تاج فقیہ کے ساتھ ساتھ مشہور ولیہ حضرت مخدومہ بی بی کمال (کاکو) کی سیدھی اولاد ہیں، اس طرح آپ کو حضرت شہاب الدین پیر جگجوت کی ذریت میں بھی ہونے کا شرف حاصل تھا، آپ کے اجداد میں سلسلہ سہروردیہ، قادریہ و چشتیہ کے نامور بزرگ شیخ سلیمان لنگر زمین، مخدوم احمد چشتی، مخدوم اخوند شیخ چشتی، شاہ عنایت اللہ چشتی، شاہ طیب اللہ چشتی نقاب پوش وغیرہ شامل ہیں، آپ کو موڑہ تالاب کے مشہور صوفی مخدوم لطیف الدین بندگی کی ذریت میں ہونے کا بھی شرف حاصل تھا، اسی طرح وہ اپنے نانہال کی طرف سے خاندان سہروردیہ کی ذریت میں تھے۔

 

تعلیم و تربیت اپنے چچا مولانا شاہ محمد قاسم ابوالعلائی داناپوری کے زیر تربیت ہوئی، انہیں سے شرف بیعت حاصل ہوا اور اجازت و خلافت بھی حاصل ہوئی، یہ بزرگ اپنے زمانے کے اولیائے کبار میں شامل تھے، بڑے بڑے اولیا و اصفیا آپ کے درس میں بیٹھا کرتے تھے، اپنے چچا اور والد مخدوم سجاد پاک کے علاوہ حضرت شاہ ولایت حسین دلاوری منعمی، حضرت شاہ کاظم حسین چشتی، حضرت شاہ عطاحسین فانی، حضرت شاہ علی حسین ابوالعلائی سے بھی اجازت و خلافت حاصل تھی۔

 

شاہ اکبر داناپوری کو شروع سے ہی طبیعت میں شعر و سخن کا شوق موجود تھا، اہل علم کی صحبت نے مزید جلا بخشی، خواجہ حیدر علی آتش کے یادگار وحید الہ آبادی سے بے حد متاثر ہوئے اور انہیں کی شاگردی اختیار کرلی، واضح ہوکہ اکبر الہ آبادی بھی وحید کے ہی شاگرد ہوۓ ہیں، تصوف کا عمدہ مذاق تھا، آپ خوب مقبول ہوئے اور آپ کی شاعری اہل دل کے لئے خوب گرمئ دل کا سامان بنی، ایک دیوان تجلیات عشق کے نام سے آپ کی زندگی میں چھپ کر مقبول خاص و عام ہوگیا جب کہ دوسرا دیوان آپ کے وصال کے بعد جذبات اکبر کی سرخی کے ساتھ طبع ہوا، تجلیات عشق اور جذبات اکبر کو اہل دل نے خوب پسند کیا۔

شاہ اکبر داناپوری اپنے والد مخدوم سجاد پاک کے وصال کے بعد 1298ھ میں خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، شاہ ٹولی، داناپور، بھارت کے سجادہ نشین ہوئے اور تاعمر رشد و ہدایت کا فریضہ انجام دیتے رہے، اب موجودہ سجادہ نشین آپ کے پرپوتے حاجی سید شاہ سیف اللہ ابوالعلائی ہیں۔

 

آپ کے مریدین کا حلقہ زیادہ تر آگرہ، اجمیر، حیدرآباد، دہلی، لاہور اور کراچی تک پھیلا ہوا ہے جہاں ان کے مریدین و معتقدین کثرت سے پائے جاتے تھے، حضرت اکبر ان جگہوں کا سالانہ دورہ بھی کرتے تھے، آپ خواجہ غریب نواز کے عرس میں اجمیر شریف اور سیدنا امیر ابوالعلا کے عرس میں آگرہ ہمیشہ حاضر ہوکر عرس شان و شوکت سے منعقد کرتے رہے، اس کے علاوہ سید حسن زنجانی مشہدی لاہوری، بابا فرید گنج شکر، خواجہ نظام الدین اولیا، بوعلی شاہ قلندر اور حضرت ابو محمد صالح باقر علی شاہ مدھیہ پردیش سے بھی بڑی انسیت و محبت تھی، ملک کے مختلف گوشوں میں ان کے مریدان پھیلے ہوئے تھے، سینکڑوں لوگ آپ کے دست حق پرست پربیعت کرکے گناہوں کی وادی ترک کر چکے تھے، آپ نے مختلف شہروں میں خانقاہ کی بنیاد رکھی جس کے ذریعہ رشد و ہدایت کا فریضہ انجام دیا جاتا رہا، شاہ اکبر داناپوری اپنی سجادگی کے دو برس بعد 1884ء میں سفر حج پر گئے، حضرت اکبر کا یہ سفر بڑا تاریخی اور یادگار رہا، ملک عرب میں ان کے والد کے بیشتر معتقد موجود تھے اس لئے حضرت اکبر کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہوئی، سلطنت عثمانیہ کے وزیر اور مدینہ شریف میں بڑے بڑے علما و رؤسا کے ساتھ حضرت اکبر کی تاریخی ملاقات رہی، اس دوران دو مرتبہ آپ کو خانہ کعبہ کے اندررونی حصے میں جانے کی سعادت نصیب ہوئی، آپ نے اس سفر حج میں عرب کے حالات کا بھر پور جائزہ لیا اور واپس آنے کے بعد تاریخ عرب کے نام سے ایک مستقل کتاب لکھی جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد ہے۔

 

حضرت اکبر کا نکاح ان کے پیرومرشد اور چچا شاہ قاسم داناپوری کی خواہش کے موافق شاہ ولایت حسین دلاوری کی صاحبزادی بی بی نعیمہ سے ہوا جن کے بطن سے چار صاحبزادی اور ایک صاحبزادے شاہ محسن داناپوری ہوئے، آپ کی چار صاحبزادی میں سے دو کم سنی میں فوت کرگئیں، پہلی صاحبزادی کا نکاح شاہ عطاحسین فانی کے پوتے شاہ نظام الدین احمد سے ہوا اور دوسری صاحبزادی کا نکاح شاہ محمد غزالی ابوالعلائی کاکوی کے صاحبزادے شاہ نظامی اکبری کاکوی سے ہوا، دونوں صاحبزادی صاحب اولاد ہوئیں اور ان کی اولاد کراچی میں آباد ہیں۔

 

شاہ اکبر داناپوری کے حلقہ شاگردی میں بڑے بڑے شعرا شامل تھے، وہ اپنے عہد کے بڑے صوفی شاعر کہے جاتے تھے، اسی شہرت کی وجہ سے حاجی وارث علی شاہ کے مرید اور مشہور شاعر بیدم وارثی آگرہ آے اور شاہ اکبر داناپوری کی شاگردی اختیار کی، جب کچھ ماہ گزرے تو بیدم وارثی کو حضرت اکبر نے اپنے شاگرد نثار اکبرآبادی کے سپرد کر دیا، آپ کے مشہور تلامذہ میں آپ کے صاحبزادے شاہ محسن داناپوری کے علاوہ نثاراکبرآبادی، نظیرداناپوری، واعظ داناپوری، رفیق داناپوری، نیر داناپوری، نور عظیم آبادی، اختر و انور داناپوری، حمد کاکوی، مبارک عظیم آبادی، عرفان داناپوری، مظاہر گیاوی، فضا اجمیری، شوق اجمیری، سیف فرخ آبادی، نصرداناپوری، یوسف داناپوری، بدرعظیم آبادی، لطف داناپوری، رحمت داناپوری، قمر داناپوری، کوثر داناپوری، یحیی داناپوری، عارف داناپوری، جوہر بریلوی، نازش عظیم آبادی، شیدا بہاری، علم گیاوی، قیس گیاوی، مست گیاوی، صہبا گیاوی، رونق گیاوی، بیتاب کراپی، ہندو گیاوی، ماہ داناپوری وغیرہ ہیں۔

 

آپ کثیر التصانیف بزرگ تھی، آپ کی اکثر تصانیف آپ کی زندگی ہی میں شائع ہوکر مقبول و محبوب ہو چکی تھی، مشہور تصانیف مندرجہ ذیل ہے۔

سرمۂ بینائی (مطبوعہ 1877ء لکھنو)، شور قیامت (مطبوعہ آگرہ)، تحفہ مقبول (پٹنہ)، چراغ کعبہ (مطبوعہ1883ء پٹنہ)، خدا کی قدرت (مطبوعہ1887ء پٹنہ)، نذرمحبوب (مطبوعہ1888ء آگرہ)، مولود فاطمی (مطبوعہ1889ء آگرہ)، ادراک (مطبوعہ1891ء آگرہ)، سیردہلی (مطبوعہ1893ء آگرہ)، ارادہ (1893ء آگرہ)، دل (مطبوعہ1894ء آگرہ)، تجلیات عشق (مطبوعہ1898ء آگرہ)، تاریخ عرب (مطبوعہ 1900ء آگرہ)، احکام نماز (مطبوعہ1902ء آگرہ)، رسالہ غریب نواز (مطبوعہ1902ء آگرہ)، اشرف التواریخ (مطبوعہ1904ء آگرہ)، التماس متعلقہ (مطبوعہ1904ء آگرہ)، اشرف التواریخ دوم (مطبوعہ1907ء آگرہ)، اشرف التواریخ سوم (مطبوعہ1910ء آگرہ)، جذبات اکبر (مطبوعہ1915ء آگرہ)، نادعلی (مطبوعہ1938ء الہ آبادی)، آپ کے ملفوظات ارشاد فیض بنیاد معروف بہ دل کے نام سے نثار اکبرآبادی نے جمع کیا تھا جو آپ کی زندگی ہی میں 1313ھ آگرہ سے شائع ہوئی، طالبین و سالکین کے لئے یہ رسالہ مطمئن بخش ہے، اس کے علاوہ مکتوبات کا مجموعہ بھی تیار ہوا جسے نسیم ہلسوی کے پوتے عبدالوکیل اکبری ہلسوی نے جمع کیا ہے۔

 

آپ کا وصال 67 برس کی عمر میں 14 رجب المرجب 1327ھ 1909ء بروز پیر عصر و مغرب کے درمیان خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، شاہ ٹولی، داناپور میں ہوا اور اسی شب 9 بجے آستانہ مخدوم سجاد پاک میں تدفین ہوئی، آپ کا مزار مقدس بندگان خدا کے لئے منبع فیوض و برکات ہے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے