مشہور صوفی اور باکمال شاعر حضرت شاہ نیاز بریلوی ؒ اپنے عہدکے ایک نابغہ روزگار ہستی گذرے ہیں۔موصوف نے فارسی اور اردو زبان میں شاعری کی ہے۔اس لیے فارسی اور اردو تذکروں میں ان کا ذکر موجود ہے۔ دیوان نیاز کے کئی نسخے منظر عام پر آچکے ہیں۔ پیش نظر ان کا مختصر اردو دیوان ہے جس میں تصوف و عرفان کے مسائل کو اشعار کا موضؤع بنایا گیا ہے۔
حضرت شاہ نیاز احمد بریلوی سلسلہ چشتیہ نظامیہ کے معروف صوفی اور ہندوستان کے مشہور صوفی شاعر گزرے ہیں۔
آپ ہندوستان کے صوبہ پنجاب کے سرہند میں 1173ھ میں پیدا ہوئے، اپنے والد حکیم شاہ رحمت اللہ کے سایۂ عاطفت سے محروم ہوگئے، والدہ نے پرورش اور تعلیم و تربیت کے فرائض انجام دئے، مقامی علما و فضلا کی نگرانی میں فراغت حاصل کی، آپ کا نام پہلے راز احمد رکھا گیا بعد میں اسے نیاز احمد کردیا گیا مگر لوگ آپ کو ’’نیاز بے نیاز‘‘ کے نام سے جانتے ہیں، بے نیاز کا مطلب صاف ہے کہ مخلوق سے بے نیاز تھے۔
آپ والد بزرگوار کی طرف سے شاہان بخارا کے خاندان سے علوی تھے اور والدہ ماجدہ کی جانب سے حسینی، تعلیم کی غرض سے دہلی گئے اور وہاں پر خواجہ فخرالدین چشتی سے ظاہری اور باطنی علم حاصل کیا، سترہ سال کی عمر میں ہی تفسیر، حدیث، اصول اور معقولات و منقولات کا علوم حاصل کیا اور خواجہ فخرالدین چشتی نے انہیں کسب باطن کے لئے بیعت کر لیا، جلد ہی اپنے مرشد کے خلیفہ ہوئے اور رشد و ہدایت حاصل کرنے لگے۔
شاہ نیاز بریلوی خواجہ فخرالدین چشتی کے خلیفہ میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے، اپنے پیر و مرشد کی صلاح پر ہی انہوں نے بریلی میں سکونت اختیار کی، ہندوستان میں تو معروف تھے ہی بیرون ممالک مانند افغانستان، سمرقند، شیراز، بدخشاں اور عرب ممالک میں بھی ان کے عقیدت مند مرید اور خلیفہ بڑی تعداد میں موجود تھے، نیاز بریلوی نے سلسلہ قادریہ کے مشہور بزرگ حضرت سید عبداللہ بغدادی سے بھی روحانی فیض حاصل کیا اور ان کے داماد بھی ہوئے، شاہ نیاز بے نیاز صاحب دیوان شاعر تھے، ان کی شاعری کا محور عشق الٰہی تھا، نیاز بریلوی کا کلام آج بھی خانقاہوں کی محافل میں پابندی سے پڑھا جاتا ہے۔
6 جمادی الثانی 1250ھ کو بریلی میں ان کا وصال ہوا اور وہیں مدفون ہوئے، آپ کی خانقاہ نیازیہ ہندوستان کی معروف خانقاہوں میں سے ایک ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets