اردوادب کی تاریخ میں مظفر وارثی جتنے مستند اور معتبر نعت گو شاعر گردانے جاتے ہیں اس سے کہیں بڑے غزل گوشاعرہیں ، مظفروارثی کے شعروں میں خاص طورپرغزلوں میں کرب ،انا‘سچائی ،دھوپ چھاؤں ،روپ رنگ ،لمحوں کارنگ ،یہ سب کیفیات موجودہیں۔ مظفروارثی اپنی انفرادی زندگی میں ایک بہادراورنڈر ،بے باک انسان ہیں۔ان کی رگوں میں خون صدیق ؓ اوراسلام کاجذبہ انڈرکرنٹ کی طرح دوڑتادکھائی دیتاہے۔۔ انفرادی ہویااجتماعی زندگی انہوں نے ہرطرح خیرکاپرچارکیاہے اوردیانتدارانہ رائے میں وطن اوراہل وطن کوبہت کچھ دیاہے۔زیر نظر کتاب" حصار" مظفر وارثی کا شعری مجموعہ ہے جس میں ان کی تخلیق کو پڑھ کر ، ان کی شاعرانہ عظمت کا اندازہ ہوتا ہے۔
نام محمد مظفر الدین صدیقی اور تخلص مظفر ہے، آپ 20 دسمبر 1933ء کو شرف الدین چشتی کے گھر میرٹھ میں پیدا ہوئے، مظفر وارثی اردو شاعری کے اہم ستون تسلیم کئے جاتےہیں، آپ کا شمار وارثی سلسلہ کے اہم شعرا میں ہوتا ہے اور آپ عصر حاضر کے ان غزل گو شعرا میں شامل ہیں جنہوں نے زلف و رخسار کے عارضی اور فانی حسن سے آزادی اختیار کی اور دنیائے تغزل سے الگ عرفانیت سے سرشار حضرت محمد پاک کی مدح سرائی کو اپنے کلام کا شعار بنایا۔ ان کی بہتر نعت گوئی کے لئے 1980ء میں پاکستان ٹیلی ویژن نے ان کو ایوارڈ سے نوازا، یہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے تھے اور لاہور میں بود و باش اختیار کی تھی، غالب اکیڈمی، دہلی کی جانب سے بہترین شاعر کا ’’افتخار غالبؔ‘‘ ایوارڈ بھی ان کے نام ہے، متعدد فلموں کے گانے بھی لکھے مگر جب سے نعت کہنا شروع کیا تو فلمی گانوں کو خیر آباد کہہ دیا، ان کی تصانیف یہ ہیں۔ برف کی ناؤ (مجموعۂ غزل)، باب حرم (نعت)، لہجہ(غزل)، نورازل(نعت)، الحمد(حمدوثنا)، حصار(نظم)، لہوکی ہریالی(گیت)، ستاروں کی آبجو(قطعات)، کھلے دریچے، بند ہوا(غزل)، کعبۂ عشق(نعت)، لاشریک، صاحب التاج، گئے دنوں کا سراغ، گہرے پانی۔ آپ کو حکومت پاکستان نے Pride of Performance کے اعزاز سے بھی نوازہ تھا، آپ کا انتقال ایک طویل علالت کے بعد 28 فروری 2011ء کو 77 سال کی عمر میں بمقام لاہور ہوا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets