مظفر وارثی کا یہ نعتیہ مجموعہ روحانیت میں ڈوبا ہوا ہے۔ خالق کی حمد، نبیؐ پاک کی نعت ، اصحاب کرام کے فضائل اور بزرگان دین کے مناقب پر پوری کتاب شعری زبان میں لکھی گئی ہے۔ کہیں پر طویل بحر میں تو کہیں پر چھوٹے بحر میں لکھا ہوا ہر شعر دماغ کو جھنجھوڑتا ہے۔ مجموعے کا اختتام حضرت حاجی وارث علی شاہؒ کی منقبت پر ہوا ہے۔ نثری نظم میں " خطبہ حجۃ الوداع " اسلام کی روح کو دل میں اتار دیتا ہے۔ " سراپائے حضور " میں حلیہ مبارک اس طرح بیان ہوتا ہے گویا آقائے مدنی کا دیدار ہورہا ہو۔ اس کتاب کو پڑھنے والا مطالعہ کے دوران دنیا سے بے خبر ہو کر روحانی دنیا میں گم ہو جاتا ہے۔
نام محمد مظفر الدین صدیقی اور تخلص مظفر ہے، آپ 20 دسمبر 1933ء کو شرف الدین چشتی کے گھر میرٹھ میں پیدا ہوئے، مظفر وارثی اردو شاعری کے اہم ستون تسلیم کئے جاتےہیں، آپ کا شمار وارثی سلسلہ کے اہم شعرا میں ہوتا ہے اور آپ عصر حاضر کے ان غزل گو شعرا میں شامل ہیں جنہوں نے زلف و رخسار کے عارضی اور فانی حسن سے آزادی اختیار کی اور دنیائے تغزل سے الگ عرفانیت سے سرشار حضرت محمد پاک کی مدح سرائی کو اپنے کلام کا شعار بنایا۔ ان کی بہتر نعت گوئی کے لئے 1980ء میں پاکستان ٹیلی ویژن نے ان کو ایوارڈ سے نوازا، یہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے تھے اور لاہور میں بود و باش اختیار کی تھی، غالب اکیڈمی، دہلی کی جانب سے بہترین شاعر کا ’’افتخار غالبؔ‘‘ ایوارڈ بھی ان کے نام ہے، متعدد فلموں کے گانے بھی لکھے مگر جب سے نعت کہنا شروع کیا تو فلمی گانوں کو خیر آباد کہہ دیا، ان کی تصانیف یہ ہیں۔ برف کی ناؤ (مجموعۂ غزل)، باب حرم (نعت)، لہجہ(غزل)، نورازل(نعت)، الحمد(حمدوثنا)، حصار(نظم)، لہوکی ہریالی(گیت)، ستاروں کی آبجو(قطعات)، کھلے دریچے، بند ہوا(غزل)، کعبۂ عشق(نعت)، لاشریک، صاحب التاج، گئے دنوں کا سراغ، گہرے پانی۔ آپ کو حکومت پاکستان نے Pride of Performance کے اعزاز سے بھی نوازہ تھا، آپ کا انتقال ایک طویل علالت کے بعد 28 فروری 2011ء کو 77 سال کی عمر میں بمقام لاہور ہوا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets