عرش گیاوی کے والد ماجد کا نام منشی میر بندہ علی جن کا شمار امرائے صوبہ بہار میں تھا۔ وکالت کی سند حاصل کرلی تو پٹنہ کی سکونت ترک کرکے گیا چلے گئے اور وہیں مستقل طور پر سکونت اختیار کرلی آپ اعلیٰ وکیل ہونے کے علاوہ رئیس اعظم بھی تھے۔ عرشؔ گیاوی ان کی اولاد میں سب سے چھوٹے تھے آبائ وطن موضع شکرانواں ضلع پٹنہ تھا جس سے اب کوئی تعلق نہیں رہ گیا تھا اور عرش گیاوی کی جائے پیدائش شہر گیا کی تھی مگر پھر بھی ان کو اپنے جد امجد کے وطن کی یاد ہمیشہ آتی رہتی تھی۔ اسی سلسلے میں عرش کہتے ہیں۔ ہے وطن اپنا مضافات عظیم آباد میں، ہو گیاؔ میں گرچہ اب لیکن گیاؔ سے کیا غرض، گیا میں سید ضمیر الدین احمد عرشؔ گیاوی 1880ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد آپ کو اپنی تمام اولاد میں زیادہ محبت و الفت کی نظر سے دیکھتے تھے اور شفقت کی بنا پر مولوی صاحب کے لقب سے یاد فرماتے تھے۔ والد کی تمنا تھی کہ اس چھوٹے فرزند کی تعلیم و تربیت نہایت اعلیٰ پیمانہ پر کی جائے، اس لئے مولوی عبدالکریم تھال پوشی گیاوی جو ایک زبردست عالم تھے مستقل طور پر آپ کی تعلیم و تربیت کے لئے ملازم رکھے گئے جن سے آپ نے فارسی و عربی کی بعض درسی کتابیں پڑھیں۔ نیز محمد اسحاق بدو سرائے گیاوی سے خط نسخ و نستعلیق کی اصلاح لی اور انگریزی تعلیم کے لئے گیا کے گورنمنٹ اسکول میں داخل کئے گئے مگر حوصلہ مند والد کا آپ کی صغر سنی ہی میں انتقال ہوگیا چنانچہ اس بے وقت حادثہ نے آپ کو فارغ التحصیل ہونے کا موقع ہی نہ دیا۔ والد کے مرتے ہی خاندانی نفاق نے جائداد کا خاتمہ کردیا۔ تیرہ چودہ سال کی عمر میں اپنے پھوپھی زاد بھائی مولوی توحید کے پاس بنارس پہنچے اور تعلیم مکمل کی اور سات سال تک بنارس میں محکمہ رجسٹری میں ملازمت کرتے رہے۔ آپ کی موزونیت طبع جو ابتدا سے اپنی جھلک دکھلایا کرتی تھی یہاں آکر رنگ لائی اور ایک صاحب کی وساطت سے مولانا محمد عبدالاحد شمشاد لکھنوی (شاگرد آسی غازی پوری) کے پاس دو غزلیں برائے اصلاح بھیجیں تھیں۔ شمشاد لکھنوی کے فیضان علم نے کچھ ہی دنوں میں عرش کو کامل الفن بنادیا مگر جب آپ کا تبادلہ تحصیل کھنڈ ضلع مرزا پور میں ہوا تو یہاں پر آپ میر مہدی مجروح (شاگرد غالب) سے رجوع سخن کرنے لگے مگر مجروح صاحب نابینا ہوچکے تھے، لہذا آخر مجبور ہوکر منشی امیر اللہ تسلیم لکھنوی (تلمیذ نسیم دہلوی) کی طرف رخ کیا اور علاوہ شمشاد لکھنوی کے تسلیم لکھنوی کے پاس بھی اصلاح کے لئے غزلیں بھیجنے لگے۔ جب آپ کی شادی فراش خانہ دہلی میں ہوگئی تو آپ کی آمد و رفت ہونے لگی اور یکسو ہوکر تسلیم لکھنوی کے زمرۂ تلامذہ میں داخل ہوگئے۔ دہلی کے اساتذہ شعرا کی وجہ سے آپ کی انداز شاعری میں کافی جلا ہوتی رہی یہاں تک کہ آپ کی مشق سخن جاری رہی کہ آپ کا شمار صوبہ بہار کے مشہور اور کہنہ مشق شعرا میں ہونے لگا اور آپ کی بدولت گیا کے لوگوں میں شعر و سخن کا خاصا مذاق پیدا ہوگیا۔ ہندوستان کے مختلف مقامات میں بھی آپ کے شاگردوں کی کافی تعداد موجود ہے جس میں اکثر شعر و شاعری میں امتیازی حیثیت رکھتے تھے۔ آپ کے کلام میں بلندی تخیل، تشبیہات جدید، استعارات لطیف، چست بندش، حشو و زوائد کا نام نہیں اور درد و اثر جو شعر کی جان ہیں کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں۔ ایک دفعہ میجر جنرل ریاست رام پور کے دولت کدہ پر ایک زبردست مشاعرہ منعقد ہوا جس میں نامور شعراء علماء فضلا معزز اراکین ریاست اور مدیرانِ اخبار و رسائل سبھی موجود تھے، تسلیم لکھنوی کے شاگردان میں عرشؔ گیاوی کو دستار جانشینی کے لئے منتخب کیاگیا۔ جب دستار جانشینی آپ کےسامنے لائی گئی تو آپ نے نہایت ہی مؤدب و مہذب طریقے پر یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ’’ان باتوں سے نفس میں رعونت اور بھائیوں میں اختلاف پیدا ہوتاہے۔ میں جانشینی کا قائل نہیں ہوں حصول کمال چاہیے جس کا فیصلہ وقت اور ملک خود کرلے گا ‘‘ آپ کی طبیعت نہایت غیور، دیر آشنا اور فقیر منش واقع ہوئی تھی۔ جھوٹی خوشامد اور جاہ پرستی سے آپ کو خلقی نفرت تھی۔ آپ حنفی المسلک تھے اور طبعیت درویشانہ اور فقیرانہ تھی جامہ ملا جو فقیر کا اے عرش ؔفخر کر، سادے لباس سے ترا بڑھ کر لباس ہے، آپ وضع داری میں اجمیر شریف اور پیران کلیر کے مزارات میں تنہا راتیں گزارا کرتے تھے، آپ کو حضرت شاہ اکبر داناپوری سے نیاز اور والہانہ عقیدت تھی حضرت اکبر کی رحلت پر قطع تاریخ بھی فرمایا تھا، چنانچہ آپ کی ریلوے کی ملازمت سے وابستگی کا یہی راز تھا کہ ہر سال پروانۂ راہ داری آپ کو ملا کرتا تھا اور اس ذریعہ سے آپ اولیائے عظام و صوفیائے کرام کے مزارات پر برابر حاضری دیتے رہے۔ آپ نے چھ شادیاں کیں جن سے اولاد بھی ہوئی۔ پہلے پہل سلسلہ قادریہ سے تعلق و وابستگی رکھی لیکن بعد کو شوق سماع نے خاندان وارثیہ کا توسل حاصل کرنے کا خیال پیدا کردیا اور تب آپ نے حضرت حفیظ شاہ رحمانی وارثی کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ سلسلہ وارثیہ کی اس نسبت نے مجالس سماع کا ذوق بے حد بڑھا دیا۔ مستقل طورپر قوال نوکر رکھے گئے اور فرصت کے اوقات کے علاوہ بیشر۔ شب باشیاں اسی جوش وسرود میں بسر ہونے لگیں مگر کچھ دنوں کے بعد حضرت حفیظ شاہ رحمانی وارثی کی روحانی تعلیم نے آپ پر وہ اثر ڈالا کہ آپ ریلوے کی ملازمت سے علیحدہ ہوکر اپنی زندگی کا بقیہ حصہ زیادہ تر یاد الٰہی، ورد و وظائف اور مشائخ کی صحبتوں میں گزارا کرتے یہاں تک کہ کثرت ریاضت کے باعث دورۂ قلب و ضعف دماغ کی شکایت پیدا ہوگئی مگر اس پر بھی مشاغل میں فرق نہ آیا۔ دوسری آرزو یہ تھی کہ شمشاد لکھنوی کے مکمل سوانح حیات کتابی صورت میں قلم بند کر کے تشنگان علم و ادب کو شمشاد کے علم و فضل اور شاعرانہ کمالات سے روشناس کرایا جائے اور جس کے لئے آپ بہت کچھ مسالہ فراہم کرچکے تھے لیکن ابھی جام عمر بھرا نہ تھا کف دست ساقی چھلک پڑا، رہی دل کی دل ہی میں حسر تیں کہ نشاں قضا نے مٹا دیا، چنانچہ 13 جولائی 1936ء بروز دو شنبہ نوبجے دن کو دفعتاً حرکت قلب بند ہوجانے کے باعث آپ عالم بقا کو سدھارے۔ آپ نے متعدد کتابیں تصنیف کرکے زبان اور قوم کی جو خدمت کی ہے وہ یقیناً ہندوستان کی ادبی تاریخ میں آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔آپ کی تصنیفات میں فکرعرش، کلیات عرش، کیسہ جواہر، ثمر نافرمانی، حیات تسلیم،(سوانح عمری منشی امیر اللہ تسلیمؔ لکھنوی )، حیات جاودانی (یہ تذکرہ حیات تسلیمؔ میں بہت کچھ ترمیم و اضافہ کے ساتھ حیات جاودانی کے نام سے دوبارہ مرتب کیا جس کو آپ کے استاد بھائی حسرت موہانی نے اپنے اہتمام سے علی گڑھ سے شائع کیا تھا)، بارگاہ سلطانی (دہلی اور آگرہ کے آثار قدیمہ )، رسالہ عروض و قوافی، عرش اللغات، حیات مومن وغیرہ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets